Search
Close this search box.

متفرق اعتراضات ۔ قرآن کو حدیث کی پیشگوئیاں ۔ مسیح موعود اسلامی علماء کے ہاتھ سے دکھ ۔ کافر قرار ۔ قتل کے فتوے ۔ سخت توہین ۔ اسلام سے خارج

فہرست مضامین

Ahmady.org default featured image
متفرق اعتراضات ۔ قرآن کو حدیث کی پیشگوئیاں ۔ مسیح موعود اسلامی علماء کے ہاتھ سے دکھ ۔ کافر قرار ۔ قتل کے فتوے ۔ سخت توہین ۔ اسلام سے خارج

معترضین کہتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحبؑ نے قرآن و حدیث کی طرف منسوب کر کے جو پیشگوئیاں بتائی ہیں وہ جھوٹ ہیں اور قرآن و حدیث میں ایسی پیشگوئیاں نہیں ہیں۔

اعتراض:۔
معترضین کہتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحبؑ نے قرآن و حدیث کی طرف منسوب کر کے جو پیشگوئیاں بتائی ہیں وہ جھوٹ ہیں اور قرآن و حدیث میں ایسی پیشگوئیاں نہیں ہیں۔

‘‘لیکن ضروری تھا کہ قرآن شریف اور احادیث کی پیش گوئیاں پوری ہوتیں جس میں لکھا تھا کہ مسیح موعود جب ظاہر ہوگا تو:

1۔اسلامی علماء کے ہاتھ سے دکھ اٹھائے گا۔

2۔وہ اس کو کافر قرار دیں گے۔

3۔اور اس کے قتل کے فتوے دئیے جائیں گے۔

4۔اور اس کی سخت توہین ہوگی۔

5۔اور اس کو دین اسلام سے خارج اور دین کا تباہ کرنے والا خیال کیا جائے گا۔سو ان دنوں میں وہ پیشگوئی انہی مولویوں نے اپنے ہاتھوں سے پوری کی۔’’

(اربعین نمبر3ص17 ،خزائن جلد 17 ص404)

مسیح موعود کے متعلق یہ پیش گوئیاں نہ تو قرآن عزیز میں مذکور ہیں اور نہ ہی احادیث میں ان کا کہیں ذکر ہے۔مرزا جی نے یہاں جی بھر کر جھوٹ بولا ہے اور اپنے کاذب ہونے کا ثبوت فراہم کیا ہے۔

جواب:۔
اصل عبارت

‘‘لیکن ضرور تھا کہ قرآن شریف اور احادیث کی وہ پیشگوئیاں پوری ہوتیں جن میں لکھا تھا کہ مسیح موعود جب ظاہر ہوگا تو اسلامی علماء کے ہاتھ سے دکھ اٹھائے گا۔ وہ اس کو کافر قرار دیں گے اور اس کے قتل کے لئے فتوے دیئے جائیں گے اور اس کی سخت توہین کی جائے گی اور اس کو دائرہ اسلام سے خارج اور دین کا تباہ کرنے والا خیال کیا جائے گا۔ سو ان دنوں میں وہ پیشگوئی انہی مولویوں نے اپنے ہاتھوں سے پوری کی۔’’

(اربعین نمبر3ص17 ،روحانی خزائن جلد 17 ص404)

جواب

معترض نےجس طرح اعتراضوں کے نمبر بڑھانے کے لیے جس طرح سہو کتابت وغیرہ کے اعتراض الگ الگ اٹھائے ہیں۔اب سوالوں کےنمبر بڑھانے کے لیے 5 نمبر دئیے ہیں۔اور اس ایک تین سطری عبارت میں چھ6جگہ تحریف لفظی کا ارتکاب کیا ہے۔کیا اسی کا نام دیانت ہے؟ اور اگر یہ سہو کاتب ہے تو کس منہ سے مرزا صاحب کی کتابوں سےسہو نکال نکال کر اعتراض کرتے ہیں۔

مخالفت سنت الہٰی :

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا (الاحزاب:62)۔قرآن کو سوچ سمجھ کر پڑھنے والے اولی الالباب کے لیے اس کے بیان کردہ واقعات میں پیشگوئیاں اور عبرت کے سامان موجود ہیں۔چنانچہ فرمایا :

لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبَابِ

(یوسف:111)

قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ ہر نبی سے دشمنی کی گئی۔

1۔انبیاء کا اکابر قوم سے دکھ اٹھانا:

(i) وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ أَكَابِرَ مُجْرِمِيهَا لِيَمْكُرُوا فِيهَا وَمَا يَمْكُرُونَ إِلَّا بِأَنْفُسِهِمْ وَمَا يَشْعُرُونَ (الانعام:123)

(ii) وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ(الانعام :113)

(iii)كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَالْأَحْزَابُ مِنْ بَعْدِهِمْ وَهَمَّتْ كُلُّ أُمَّةٍ بِرَسُولِهِمْ لِيَأْخُذُوهُ وَجَادَلُوا بِالْبَاطِلِ(المومن:6)

2۔ حضرت موسیٰ کے لیے فتویٔ تکفیر:

وَفَعَلْتَ فَعْلَتَكَ الَّتِي فَعَلْتَ وَأَنْتَ مِنَ الْكَافِرِينَ(الشعراء: 20)

3۔ قتل:

كُلَّمَا جَاءَهُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَى أَنْفُسُهُمْ فَرِيقًا كَذَّبُوا وَفَرِيقًا يَقْتُلُونَ (المائدة:70) وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ الْحَقِّ(البقرة:62)

4۔ استہزاء:

يَا حَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ(یٰس:31)جیسے ذلیل هُمْ أَرَاذِلُنَا بَادِيَ الرَّأْيِ (ہود 28)اور اقلیت کے اعتراض إِنَّ هَؤُلَاءِ لَشِرْذِمَةٌ قَلِيلُونَ (الشعراء 56-55)

5۔ دین کا تباہ کرنے والا سمجھنا: قَالُوا أَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ مَا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ (الاعراف:71)

پس حضرت مرزا صاحب کے ساتھ وہی سلوک ہوا جو پہلے انبیاء کے ساتھ ہوتا رہا:

مَا يُقَالُ لَكَ إِلَّا مَا قَدْ قِيلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِكَ(حم السجدة :44)

ازروئے قرآن:

حضرت مرزا صاحب نے اس اعتراض کا جواب اپنی کتب میں قرآن کی رو سے خود دیا ہے۔آپؑ فرماتے ہیں:

‘‘اگر دنیا مجھے نہیں پہچانتی تو کچھ تعجب نہیں کیونکہ ہر ایک چیز جو بہت دور اور بہت بلند ہے اس کا پہچاننا مشکل ہے۔ میں کبھی امید نہیں کرتا کہ دنیا مجھ سے محبت کرے کیونکہ دنیا نے کبھی کسی راستباز سے محبت نہیں کی۔ مجھے اس سے خوشی ہے کہ مجھے گالیاں دی گئیں دجّال کہا گیا کافر ٹھہرایا گیا کیونکہ سورۃ فاتحہ میں ایک مخفی پیشگوئی موجود ہے اور وہ یہ کہ جس طرح یہودی لوگ حضرت عیسیٰ کو کافرؔ اور دجّال کہہ کر مغضوب علیہم بن گئے بعض مسلمان بھی ایسے ہی بنیں گے۔ اِسی لئے نیک لوگوں کو یہ دُعا سکھلائی گئی کہ وہ منعم علیہم میں سے حصہ لیں اور مغضوب علیہم نہ بنیں۔’’

(نزول المسیح روحانی خزائن جلد 18 ص414)

اسی طرح سورة فاتحہ سے استنباط کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

‘‘قرآن نے بہت سی امثال بیان کرکے ہمارے ذہن نشین کردیا ہے کہ وضع عالم دوری ہے اور نیکوں اور بدوں کی جماعتیں ہمیشہ بروزی طور پر دُنیا میں آتی رہتی ہیں وہ یہودی جو حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت میں موجود تھے۔ خدا نے دُعاغیر المغضوب علیھم سکھلاکراشارہ فرمادیاکہ وہ بروزی طورپراس اُمّت میں بھی آنےوالے ہیں تابروزی طورپروہ بھی اس مسیح موعود کو ایذا دیں جو اِس اُمّت میں بروزی طورپرآنےوالا ہے۔’’

(تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 ص484)

آیت استخلاف میں مسلمانوں میں ایسے خلفاء پیدا ہونے کا وعدہ اور پیشگوئی ہے جیسے پہلی قوموں میں پیدا ہوئے تھے۔ایسے موعود خلیفہ کی آمد پر اس کی بھی اسی طرح تکفیر ہونی تھی جیسے پہلے نبیوں،رسولوں اور خلیفوں کی ہوئی۔حضرت مرزا صاحب اسی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

‘‘و من کفر بعد ذالک فاولٰئک ھم الفاسقون۔(النور:57)۔۔۔ پس اس آیت سے سمجھا جاتا ہے کہ مسیح موعود کی بھی تکفیر ہوگی کیونکہ وہ خلافت کے اس آخری نقطہ پر ہے جو خلافت کے پہلے نقطہ سے ملا ہوا ہے۔’’

(تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد 17 ص190-191)

از روئے احادیث:

عن عبد الله بن عمرو قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم ليأتين على أمتي ما أتى على بني إسرائيل حذو النعل بالنعل حتى إن كان منهم من أتى أمه علانية لكان في أمتي من يصنع ذلك وإن بني إسرائيل تفرقت على ثنتين وسبعين ملة وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين ملة كلهم في النار إلا ملة واحدة قالوا ومن هي يا رسول الله قال ما أنا عليه وأصحابی

(سنن ترمذی کتاب الایمان باب افتراق الامة)

ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت بھی یہود و نصاریٰ کے مشابہ ہو جائے گی۔۔۔۔۔۔۔یہود 72 فرقوں میں بٹ گئے تھے اور میری امت 73 فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی۔

جس طرح یہود کی طرف اصلاح کے لیے مسیح کو بھیجا گیا ویسے ہی امت محمدیہ جو گمراہ ہو گر مثل یہود ہو جائے گی اس کی اصلاح کے لیے مثل یہود کو بھیجا جائے گا۔یہود نے مسیحؑ کا انکار کیا،اس کو دکھ دئیے،قتل کے منصوبے بنائے اور کفر و ارتداد کے فتوے لگائے۔اسی طرح اس دور کے مثل یہودمسلمان جن کے بارہ میں علامہ اقبال نے کہا:

وضع میں تم نصاریٰ ہو تمدن میں ہنود یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود

نبی کریمﷺ نے آنیوالے مسیح کو مہدی کا لقب عطا کرتے ہوئے فرمایا:

‘‘عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يُوشِكُ مَنْ عَاشَ مِنْكُمْ أَنْ يَلْقَى عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ إِمَامًا مَهْدِيًّا وَحَكَمًا عَدْلًا۔۔۔’’

(مسند احمد جزء15 ص187)

‘‘لَا الْمَهْدِيُّ إِلَّا عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ’’ (سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب شدة الزمان)

تکفیرمہدی اور بزرگان امت:

1۔ حضرت امام محی الدین ابن عربی ؒفرماتےہیں:

‘‘و اذا خرج ھذاالامام المھدی فلیس لہ عدو مبین الاالفقہاء خاصۃ فانہ لا یبقی لھم ریاسۃ ولا تمیز عن العامۃ’’

(فتوحات مکیہ جلد 3صفحہ374)

یعنی جب امام مہدی ظاہر ہوں گے تو اسکے سب سے زیادہ شدید دشمن اس زمانہ کے علماء اور فقہاء ہوں گے ۔کیونکہ اگر وہ مہدی کو مان لیں تو انہیں عوام کی سرداری اور امتیاز باقی نہ رہے گا۔

2۔ حضرت مجدد الف ثانی ؒفرماتےہیں:

‘‘یعنی علماء ظواہر امام مہدی علیہ السلام کے اجتہادات کا انکار کریں گے اور ان کو قرآن مجید اور سنت نبوی کے خلاف قراردیں گےکیونکہ وہ بباعث کمال دقیق ہونےاور انکے ماخذ کے مخفی ہونے کے علماء کی سمجھ سے بالا ہوں گے۔’’

(مکتوبات امام ربانی جلد 2صفحہ: 107۔مکتوب نمبر:55)

3۔نواب صدیق حسن خان صاحب فرماتے ہیں:

‘‘چوں مہدی علیہ السلام مقاتلہ بر احیائے سنت و اماتت بدعت فرمائد علماء وقت کہ خوگر تقلید فقہاء و اقتدائے مشائخ و آباء خود باشند گویند ایں مرد خانہ بر انداز دین و ملت ما است و بمخالفت بر خیزند و حسب عادت خود حکم بتکفیر و تضلیل دہ کنند’’

(حجج الکرامہ :363)

جب امام مہدی علیہ السلام سنت کو زندہ کرنے کے لئے اور بدعت کو مٹانے کے لئے جدوجہدکریں گے تو علماء وقت جو فقہاء اور مشائخ اور آباء کی تقلید کے عادی ہوں گے کہیں گے کہ یہ شخص ہمارے دین و مذہب کو برباد کرنے والا ہے۔اور مخالف میں اٹھ کھڑے ہوں گے۔اور اپنی عادت کے مطابق اسے گمراہ اور کافر ٹھہرائیں گے۔

4۔ابوالخیر نواب نور الحسن خان صاحب تحریر کرتے ہیں:

‘‘انکے دشمن علماء اہل اجتہاد ہوں گے ۔اسلئے کہ انکو دیکھیں گے کہ خلاف مذہب آئمہ حکم کرتے ہیں ….ان کا دشمن کھلم کھلا کوئی نہ ہو گامگر یہی فقہ والے بالخصوص’’

(اقتراب الساعۃ:224)

نیز لکھتے ہیں:

‘‘یہی حال امام مہدی کا ہو گا کہ اگر وہ آگئے سارے مقلد بھائی انکے دشمن جانی بن جاوینگے اورانکے قتل کی فکر میں ہوں گے کہیں گے یہ شخص تو ہمارے دین کو بگاڑتا ہے’’

(اقتراب الساعۃ :95۔224)

‘‘انکے دشمن علماء اہل اجتہاد ہوں گے ۔اسلئے کہ انکو دیکھیں گے کہ خلاف مذہب آئمہ حکم کرتے ہیں ….ان کا دشمن کھلم کھلا کوئی نہ ہو گامگر یہی فقہ والے بالخصوص’’

(نجم الثاقب مصنفہ از۔۔۔۔۔ ص95)

5۔علامہ سید محمد عباس زیدی الواسطی لکھتے ہیں:

‘‘پہلے تو فقہاء عالم ہی بربنائے عدم معرفت اس جناب کے قتل کا فتوی دیں گے ’’

(آثار قیامت و ظہور حجت حصہ 2صفحہ 59)

6۔ایک مرتبہ ایک شخص حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام(حضرت علیؓ) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی۔یا امیر المؤمنینؑ! مجھے آپؑ اپنے مہدیؑ کے متعلق کچھ بتائیے؟

‘‘فقال: اذا درج الدَّارِجُون، وَ قَلَّ المُومِنُون، وَذَھَبَ المُجلبُون فَھُنَاکَ: یا امیر المؤمنین علیک السّلام مِمَّنِ الرَّجُل؟فَقَالَ:۔۔۔ مَجْفُوِّاَھْلِہَا اذا اتت ۔۔۔لا یجبن اذ ا المنایا ھلعت۔۔۔جب وہ (امام مہدیؑ)ظاہر ہو ں گے تو خود انکی قوم ان پر آمادہ جفا ہو گی۔۔۔۔موت آنے کے لئے بے چین ہو گی مگر وہ اسکی پرواہ نہ کریں گے۔’’

(بحار الانوار مترجم ترتیب و تدوین اے-ایچ-رضوی جلد:11صفحہ213-212)

7۔حضر ت امام باقر کا قول ہے کہ جب امام مہدی قرآن کریم کی حقیقی تعلیم کو پیش کریں گے ‘‘تو اکثر لوگ اسکے ماننے سے انکار کریں گے’’

(کافی بحوالہ بحار الانوار مترجم جلد 11صفحہ 122)

ناظرین! اب قرآن و حدیث اور بزرگان امت کے یہ سب حوالہ جات ملاحظہ فرمانے کے بعد آپ ہی انصاف فرمائیے کہ معترض کا جھوٹ کا اعتراض کیسے ھباءاً منثوراً ہوگیا۔ اور کھل گیا کہ کس نے جی بھر کے جھوٹ بولا ہے اور اپنے کاذب ہونے کا ثبوت فراہم کیا ہے۔بلکہ معترض کے باقی جھوٹوں کی حقیقت بھی آشکار ہوئی۔ اور حضرت مرزا صاحب کی صداقت ثابت ہوئی۔


Discover more from احمدیت حقیقی اسلام

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply