بہاء اللہ ایرانی نے مسیح موعودؑ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا
میرزا حسین علی صاحب بہاء ایرانی نے کتاب ایقان کےصفحہ 22 میں لکھا ہے
چوں نار محبت عیسوی حجبات حد و دیہود را سوخت و حکم آں حضرت فی الجملہ جریان بر حسب ظاہر یافت ۔ روزے آں جمال غیبی بہ بعضے از اصحاب روحانی ذکر فراق فرمودند و نار اشتیاق افروختند و فرمودند کہ من میروم و بعدی آیم و در مقام دیگر فرمودند من میروم و می آید دیگر تا بگوید آنچہ من نگفتہ ام و تمام نمایدآنچہ را گفتہ ام۔
کہ جب حضرت عیسی کی محبت کی آگ نے یہودیوں کی خودساختہ حد بندیوں کے پردوں کو جلا کر بھسم کردیا اور حضرت عیسیٰ کا مذہب فی الجملہ ظاہری طور پر بھی کچھ کچھ جاری ہو گیا تو ایک روز حضرت عیسی نے اپنے اصحاب روحانی میں سے بعض کے آگے اپنی جدائی کا ذکر کیا ۔ اور اشتیاق کی آگ بھڑکا کر فرمایا میں جاتا ہوں اور پھر آؤں گا اور ایک دوسرے موقعہ پر حضرت عیسی نے فرمایا۔ میں جاتا ہوں اور دوسرا آئے گا۔ تا کہ وہ آکر وہ باتیں بتائے جو میں نے نہیں بتائیں اور ان باتوں کو پورا کرے جو میں نے کہی ہیں۔
بہااللہ کہتے ہیں کہ
وایں دو عبارت فی الحقیقت یکے است ۔ ایقان
کہ حضرت عیسی کی یہ دونوں عبارتیں حقیقت میں ایک ہی ہیں ۔ یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کا یہ فرمانا کہ میں جانتا ہوں اور پھر آؤنگا اور یہ فرمانا کہ میں جاتا ہوں اور دوسرا آئے گا ۔ ان دونوں باتوں کا ایک ہی مطلب اور مدعا ہے
جس کے متعلق مرزا حسین علی بہاء کتاب ایقان کے اسی صفحہ ۲۲ میں لکھتے ہیں۔
اگر بدیده بصیرت معنوی مشاهده شود فی الحقیقت در عہدخاتم کتاب عیسی و امراو ثابت شد و مقام اسم کہ خود حضرت فرمودمنم عیسی و آثار و اخبار د کتاب عیسی راہم تصدیق فرمود کہ من عند اللہ بود ۔
کہ اگر اندرونی بینائی کی آنکھ سے دیکھا جائے تو فی الحقیقت حضرت خاتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں حضرت عیسی کی کتاب اور ان کا دین ثابت ہوا ہے۔ اول بلحاظ نام کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا کہ میں عیسی ہوں ۔ دوم حضرت عیسی کی کتاب اور نشانات اور خبروں کی تصدیق فرمائی کہ خدا کی طرف سے ہیں۔
میرزا حسین علی صاحب بہاء کا اس سے یہ مقصود ہے کہ حضرت عیسی نے ایک موقع پر تو اپنے اصحاب کو یہ فرمایا تھا کہ میں جاتا ہوں اور پھر آؤنگا اور دوسرے موقع پر یہ فرمایا تھا کہ میں جاتا ہوں اور دوسرا آئیگا۔ یہ دونوں پیش گوئیاں آنحضرت محمد مصطفی صلے اللہ علیہ وسلم کے وجود مبارک میں پوری ہو چکی ہیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عیسی سے علیحدہ دوسرا وجود بھی ہیں اور آنحضرت صلعم نے حضرت عیسی کی کتاب اور انکی باتوں کی تصدیق کے ساتھ اپنا نام عیسی بھی بتایا ہے میں آپکے وجود میں حضرت عیسی کی آمد ثانی کی پیشگوئی بھی پوری ہوگئی اور دوسرے تسلی وہند ہ کی جو پیش گوئی تھی وہ بھی پوری ہو گئی ۔
یہی مضمون میر زا حسین علی صاحب بہار نے کتاب ایقان کے، دوسرے صفحات میں بھی بیان کیا ہے جیسا کہ ایقان کے صفحہ 24میں لکھتے ہیں۔
اصحاب و تلامیذ آنحضرت استدعا نمودند کہ علامت رجعت و ظہور چیست و چہ وقت ایں ظاہر خواہد شد۔ و در چند مقام ایں سوال را ازاں طلعت بے مثال نمودند و آنحضرت در ہر مقام علامتے ذکر فرمودند ۔ چنانچہ در اناجیل اربعہ مسطور است و ایں مظلوم یک فقره آنرا ذکر مینمایم. ایقان
کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے شاگردوں اور حواریوں نے عیسیٰ سے دریافت کیا کہ آپ کے دوبارہ ظہور اور آمدثانی کی کیا علامت ہے اور یہ کب ہو گا۔ یہ سوال کئی موقعوں پر حضرت عیسی سے کیا گیا اور حضرت عیسی نے ہر موقعہ پر کوئی نہ کوئی علامت بیان فرمائی ۔ جیسا کہ چاروں انجیلوں میں لکھا ہے اور یہ مظلوم بہااللہ ایک فقرہ ان انا جیل کا اس جگہ ذکر کرتا ہے ۔
چنانچہ میرزا حسین علی بہاء کتاب ایقان کے صفحہ 28 میں اس انجیلی فقرہ کا اس طرح ذکر کرتے ہیں۔ کہ
اینست نغمات عیسی بن مریم کہ در رضوان انجیل بالحان جلیل در علائم ظہور بعد فرموده در سفر اول کہ منسوب بہ متی است. در وقتیکہ سوال نمود اندازعلامات ظہور بعد جواب فرمود
وللوقت من بعد ضيق تلك الايام تظلم الشمس والقمر لا يعطى ضوئہ والكواكب تستاقط من السماء وقواة الارض ترتج حینذ بظهر علاما ت ابن الانسان في السماء ويتوج كل قبائل الارض ويرون ابن الانسان اتیا على اسحاب السماء مع قواة ومجد كبير ويرسل ملائكتہ مع صوت السافور العظيم ( ايقان)
وہ گیت جو حضرت عیسی ابن مریم نے شاندار سُر سے کتاب انجیل متی باب 24 میں اپنے آیندہ ظہور کی علامتو ں کے بارہ میں گائے ہیں یہ ہیں کہ حضرت عیسی سے آپ کے شاگردوں نے جب یہ پوچھا کہ آپ کے دوبارہ ظہور یعنی آمد ثانی کی کیا علامتیں ہیں ۔ تو آپ نے جواب میں فرما یا کہ ان دنوں کی مصیبت کے بعد ترت سورج اندھیرا ہو جائے گا اور چاند اپنی روشنی نہ دے گا اور ستارے آسمان سے گر جائیں گے اور آسمان کی قوتیںہل جائیں گی تب ابن آدم کا نشان آسمان پر ظاہر ہو گا اور اسی وقت زمین کے سارے گھرانے چھاتی پیٹیں گے اور ابن آدم کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کی بدلیوں پر آتے دیکھیں گے اور وہ نرسنگے کے بڑے شور کے ساتھ اپنے فرشتوں کو بھیجے گا
آمد ثانی کی ان علامات کا ذکر کرنے کے بعد میرزا حسین علی صاحب بہاء لکھتے ہیں :-
علمائے انجیل چوں عارف بمعانی ایں بیانات و مقصود بہ مووعہ ور ایں کلمات نشدند و بظا ہر آں متمسک شدند ۔ لہذا از شریعہ فیض محمدیہ واز سحاب فضل احمدیہ ممنوع گشتند ۔ و جہال آں طائفہ ہم تمسک بہ علمائے خود جستہ اززیارت جمال سلطان جلال محروم ماندند۔ زیراکہ درظہور شمس احمدیہ چنین علامات کہ مذکورشد بظہور نیامد ایں است کہ قرنہا گذشت۔۔۔ وہنوز آں گروه در انتظار کہ کے ایں علامات ظاہر شود ۔ و آں ہیکل معہد بوجود آید ۔ ایقان صفحہ 28
کہ چونکہ حضرت عیسی کے ان بیانات کے معانی اور آپکے ان کلمات کے پوشیدہ مطالب سے عیسائی علماء آگاہ نہ ہوئے اور ان کے ظاہری معنوں پر جمےرہے ۔ اس لئے وہ محمدی در یا فیض اور احمدی ابر رحمت سے محروم ہو گئے اور اس گروہ کے جاہل لوگ بھی اپنے علماء کی پیروی کر کے اس پادشاہ جلال کی خوبصورتی کے دیکھنے سے محروم رہ گئے کیونکہ ان کے خیال کے مطابق احمدی سورج کے طلوع ہونے کے وقت یہ علامتیں ظاہر نہیں ہوئیں یہی وجہ ہے کہ بہت سے زمانے گزر گئے۔ اگر عیسائیوں کا یہ گروہ ابھی تک اس انتظار میں ہے کہ کب یہ علامتیں ظاہر ہوں اور وہ موعود عیسی دنیا میں ظاہر ہو ۔
اس حوالہ میں میرزا حسین علی صاحب بہاء نے بو ضاحت بتایا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنی آمد ثانی کے جو علامات و نشانات اناجیل اربعہ میں بیان کیے تھے وہ علامات اپنے صحیح اور اصل معنوں کے لحاظ سے پورے ہو چکے ہیں اور حضرت عیسی کی دوبارہ آمد کی پیش گوئی بھی آنحضرت صلی اور علیہ وسلم کے وجود مبارک میں پوری ہوچکی ہے اور عیسائیوں کی غلطی ہے کہ ان علامات کے ظاہری معنوں پر اڑے ہوئے ہیں اور ابھی تک اس انتظار میں ہیں کہ کب یہ علامتیں ظاہر ہوں اور حضرت عیسی دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں ۔
یہی مضمون بہاء اللہ نے اس لوح میں بیان کیا ہے جو کتا ب مبین صفحہ 117 میں سلطان ناصرالدین شاہ ایران کے نام لکھی تھی چنانچہ لکھا ہے ۔
در یک مقام از انجیل میفرماید اني ذاهب و آت۔ و در انجیل یوحنا ہم بشارت داد بر ورح تسلی دہنده کہ بعد از من می آید و در انجیل لوقا بعضے علامات مذکور است و لکن چوں بعضے از علمائے آں ملت ہر بیا نے را تفسیر ے بہوائے خود نمودند ۔ لہذا از مقصود محتجب ماندن۔ لوح بنام ناصر الدین شاه
کہ ایک موقع پر انجیل میں حضرت مسیح نے یہ فرمایا تھا کہ میں جاتا ہوں اور پھر آؤں گا۔ اور دوسرے موقع پر انجیل یوحنا میں یہ بشارت دی تھی ۔ کہ میرے بعد دوسرا تسلی دینے والا روح الحق آئے گا۔ اور اس کے متعلق انجیل لوقا میں بھی کچھ علامات بیان ہوئی ہیں مگر چونکہ عیسائی علما ءنے انجیل کے ہر بیان کی اپنی خواہش کے مطابق تفسیر کی ہے اس لیے عیسائی لوگ ان پیش گوئیوں کے اصل مقصود کی شناخت سے جو آنحضرت صلی للہ علیہ وسلم کا وجود مبارک تھا محروم رہ گئے ۔
Share this:
- Click to share on Facebook (Opens in new window)
- Click to share on Twitter (Opens in new window)
- Click to share on Reddit (Opens in new window)
- Click to share on Tumblr (Opens in new window)
- Click to share on Pinterest (Opens in new window)
- Click to share on Telegram (Opens in new window)
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window)
- Click to email a link to a friend (Opens in new window)
- Click to print (Opens in new window)
Discover more from احمدیت حقیقی اسلام
Subscribe to get the latest posts sent to your email.