احمدیہ تعلیمی پاکٹ بک
ملک عبد الرحمٰن خادم صاحب
تفسیر ابن عباس من گھڑت
صفحہ 183۔184 میں دیے گئے حوالے کا سکین
Post Views: 350
Share this:
- Click to share on Facebook (Opens in new window)
- Click to share on Twitter (Opens in new window)
- Click to share on Reddit (Opens in new window)
- Click to share on Tumblr (Opens in new window)
- Click to share on Pinterest (Opens in new window)
- Click to share on Telegram (Opens in new window)
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window)
- Click to email a link to a friend (Opens in new window)
- Click to print (Opens in new window)
Discover more from احمدیت حقیقی اسلام
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
One Response
توفی کا حقیقی معنی موت نہیں۔ قرآن مجید میں ہے : ’’اﷲ یتوفی الانفس حین موتھا والتی لم تمت فی منامھا فیمسک التی قضیٰ علیہا الموت ویرسل الاخریٰ الیٰ اجل مسمی (الزمر: ۴۲)‘‘
ترجمہ: ’’اﷲتعالیٰ نفسوں کو لے لیتا ہے ان کی موت کے وقت اور ان نفسوں کو جو نہیں مرے ان کو نیند میں لے لیتا ہے۔ پس وہ نفس جس کو موت وارد ہوتی ہے روک لیتا ہے اور دوسرے کو مقرر مدت تک چھوڑ دیتا ہے۔‘‘
۱…
یہاں پہلے جملہ میں توفی نفس کو حین موتھا کے ساتھ مقید کیا ہے۔ معلوم ہوا توفی عین موت نہیں۔
۲…
اور پھر توفی کو موت اور نیند کی طرف منقسم کیا ہے۔ لہٰذا نصاً معلوم ہوا کہ توفی موت کے مغائر ہے۔
۳…
نیز یہ کہ توفی، موت اور نیند دونوں کو شامل ہے۔ نیند میں آدمی زندہ ہوتا ہے۔ اس کی طرف توفی کی نسبت کی گئی۔ توفی بھی ہے اور آدمی زندہ ہے۔ مرا نہیں۔ کیا یہ نص نہیں اس بات کی کہ توفی کا حقیقی معنی موت نہیں؟
خلاصہ بحث
توفی کا حقیقی معنی پورا پورا لینے کے ہیں۔ ہاں البتہ کبھی مجازاً موت کے معنی میں بھی توفی کا استعمال ہوا ہے۔ جیسے : ’’توفنا مع الابرار، توفنا مسلمین‘‘ وغیرہ۔ ضروری تنبیہ… اگرکہیں کوئی لفظ کسی مجازی معنی میں استعمال ہو تو ہمیشہ کے لئے اس کے حقیقی معنی ترک نہیں کردیئے جائیں گے۔ اگر کوئی ایسے سمجھتا ہے تو وہ قادیانی احمق ہی ہوسکتے ہیں۔ ورنہ اصول صرف یہ ہے کہ مجازی معنی وہاں مراد لئے جائیں گے جہاں حقیقی معنی متعذر ہوں۔ یا عیسیٰ انی متوفیک میں حقیقی معنی پورا پورا لینے کے لئے جائیں گے اور توفنا مع الابرار میں مجازی معنی (موت) کے کئے جائیں گے۔
حضرت ابن عباس ؓ اور حیات عیسیٰ علیہ السلام
الف… حضرت ابن عباسؓ پوری امت کی طرح حیات مسیح علیہ السلام کے قائل ہیں۔ آپ نے آنحضرتa سے متعدد روایات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع و نزول وحیات کی روایت کی ہیں۔ ’’التصریح بما تواتر فی نزول المسیح طبع ملتان‘‘ کے ص ۱۸۱، ۲۲۳، ۲۲۴، ۲۴۵، ۲۷۳، ۲۷۹، ۲۸۴، ۲۸۹، ۲۹۱، ۲۹۲ پر دس روایات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع و نزول کی حضرت ابن عباس ؓ کے حوالہ سے حضرت انور شاہ کشمیریؒ نے جمع فرمائی ہیں۔ من شاء فلیراجع!
ب… متوفیک کے معنی ممیتک عبداﷲ بن عباسؓ سے نقل کرنے والا راوی علی بن ابی طلحہ ہے۔ (تفسیر ابن جریر ج۳ ص ۲۹۰)
علماء اسماء الرجال نے اس کے متعلق ضعیف الحدیث، منکر، لیس بمحمود المذہب کے جملے فرمائے ہیں اور یہ کہ اس نے حضرت عبداﷲ ابن عباسؓ کی زیارت بھی نہیں کی۔ درمیان میں مجاہدؒ کا واسطہ ہے۔ (میزان الاعتدال ج ۵ ص ۱۶۳، تہذیب التہذیب ج ۴ ص ۲۱۳)
رہا یہ کہ پھر صحیح بخاری شریف میں یہ روایت کیسے آگئی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ: امام بخاریؒ کا یہ التزام صرف احادیث مسندۃ کے بارے میں ہے۔ نہ کہ تعلیقات و آثار صحابہ کے ساتھ۔ چنانچہ فتح مغیث ص ۲۰ میں ہے: ’’قول البخاری ماادخلت فی کتابی الا ماصح علی، مقصود بہ ھو الاحادیث الصحیحۃ المسندۃ دون التعالیق والاثار الموقوفۃ علی الصحابۃ فمن بعدھم والاحادیث المترجمۃ بھا ونحوذٰلک‘‘
ترجمہ: ’’یعنی امام بخاری کے اس فرمان کا مطلب کہ میں نے اپنی کتاب میں صرف وہی ذکر کیا ہے جو صحیح سند سے ثابت ہے۔ اس سے مراد صرف احادیث صحیحہ مسندہ ہیں۔ باقی تعلیقات اور آثار موقوفہ وغیرہ اس میں شامل نہیں۔ اس طرح وہ احادیث جو ترجمۃ الباب میں ذکر کی گئی ہیں وہ بھی مراد نہیں ہیں۔‘‘
ج… حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے دوسری صحیح روایت میں اگرچہ توفی کے معنی موت منقول ہیں۔ مگر اسی روایت میں کلمات آیت کے اندر تقدیم و تاخیر بھی صراحتاً مذکور ہے۔ جس سے قادیانی گروہ کی خود بخود تردید ہوجاتی ہے۔
’’اخرج ابن عساکر واسحاق بن بشر عن ابن عباسؓ قال قولہ تعالیٰ یٰعیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیّٰ یعنی رافعک ثم متوفیک فی آخرالزمان‘‘ (درمنثور ج۲ ص۳۶)
ترجمہ: ’’یعنی ابن عساکر اور اسحاق بن بشر نے (بروایت صحیح) ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ میں آپ کو اٹھانے والا ہوں اپنی طرف پھر آخر زمانہ میں (بعد نزول) آپ کو موت دینے والا ہوں۔‘‘ در منثور امام سیوطی کی تفسیر ہے *امام جلال الدین سیوطیؒ* جن کو قادیانی اور لاہوری دونوں مجدد صدی نہم ماننے کے علاوہ اس مرتبہ کا آدمی سمجھتے ہیں کہ: ’’وہ آنحضرتﷺ سے بالمشافہ مسائل متنازع فیہ پوچھ لیا کرتے تھے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۱۵۱، خزائن ج۳ ص۱۷۷) چھٹی لائن
https://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?p=3&l=Urdu#page/177/mode/1up ا
اس سے معلوم ہوا اس متنازعہ متوفیک کا پورا مطلب متوفیک فی آخر الزمان بھی یقینا حضور ﷺ سے آمنے سامنے پوچھ کر ہی پوری روایت لی ہو گی جو بخاری میں مختصراً صرف ممیتک منقول ہے تفسیر ابن کثیر میں عبداﷲ ابن عباسؓ سے صحیح روایت منقول ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بغیر قتل کے زندہ آسمان پر اٹھالئے گئے۔
’’ورفع عیسیٰ من روزنۃ فی البیت الی السماء ھذا اسناد صحیح الی ابن عباس‘‘ (تفسیر ابن کثیر ج ۱ ص ۵۷۴ زیر آیت بل رفعہ اﷲ)
ترجمہ: ’’عیسیٰ علیہ السلام گھر کے روزن (روشن دان) سے (زندہ) آسمان کی طرف اٹھالئے گئے۔ یہ اسناد ابن عباسؓ تک بالکل صحیح ہے۔‘‘