متفرق اعتراضات ۔ مولوی غلام دستگیر قصوری اور مولوی اسمٰعیل علی گڑھی نے لکھا کہ جھوٹا سچے کی زندگی میں مرے گا
اعتراض 28:۔
‘‘مولوی غلام دستگیر قصوری نے اپنی کتاب میں اور مولوی اسماعیل علی گڑھ والے نے میری نسبت قطعی حکم لگایا کہ وہ کاذب ہے، تو ہم سے پہلے مرے گا۔ اور ضرور ہم سے پہلے مرے گا۔ کیونکہ کاذب ہے۔ مگر جب ان تالیفات کو دنیا میں شائع کر چکے تو پھر بہت جلد آپ ہی مر گئے اور اس طرح ان کی موت نے فیصلہ کر دیا کہ کاذب کون تھا۔ ’’
(اربعین نمبر3صفحہ9خزائن جلد17صفحہ394)
دونوں مولویوں پر افتراء اور جھوٹ مرزا جی نے بولا ہے۔پیروکاران مرزا جی سے سوال ہے کہ ان علماء کی کتابوں سے حوالہ نکال کر دیں ورنہ ((لعنة اللہ علی الکاذبین))
جواب:۔
معترض کے اس اعتراض پر تعجب ہے کہ جب ایک صدی سے زائد عرصہ قبل حضرت مرزا صاحب نے یہ کتاب اربعین شائع کی اور تحریری مباہلہ میں اہلحدیث کے ایک بہت بڑے عالم مولوی علامہ غلام دستگیری کی ہلاکت کا ذکر کیا تو اس وقت علماء اہل حدیث نے(جو مرزا صاحب کی مخالفت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ رکھتے تھے)نے یہ سوال نہیں اٹھایا نہ مولوی ثناء اللہ امرتسری نے،نہ مولوی محمد حسین بٹالوی نے،نہ کسی اور عالم نے،نہ ہلاک ہونیوالے مولوی کےکسی وارث نے۔
آج آپ نے 116سال بعد یہ سوال کیے تو آخر کیوں؟ اس لیے کہ اب اس نشان کو مشتبہ کیا جائے کیونکہ ایک صدی زائدزمانہ گزرگیا،تقسیم ملک ہوگئی۔اب 116 سال قبل لدھیانہ بھارت میں شائع ہونے والے رسالہ فتح رحمانی کا حوالہ حضرت مرزا صاحب کے اتباع کہاں سے پیش کریں گے؟اس لیے بڑی سادگی اور پُرکاری سے کہتے ہیں۔اتباع مرزا سے سوال ہے کہ ان علماء کی کتابوں سے حوالہ نکال کر دکھائیں۔کیونکہ مولوی غلام دستگیر صاحب اہل حدیث کے بڑے عالم تھے۔اب اہل حدیث تو اپنے خلاف یہ کتاب شائع کرنے سے رہے۔
مگر انہیں کیا معلوم کہ جس طرح خدا تعالیٰ اپنے ماموروں کی تائید کے لیے کس طرح فرشتوں کے ذریعہ تحریک کرواتا ہے۔اللہ بھلا کرے عالمی مجلس ختم نبوت والوں کا جنہوں نے یہ رسالہ فتح رحمانی 116سال بعد دوبارہ شائع کر کے مرزا صاحب کی صداقت پر مہرتصدیق ثبت کر دی اور یوں
لو آپ اپنے دام میں صیّاد آگیا
بے شک جماعت احمدیہ کی مخالفت میں ختم نبوت کے پلیٹ فارم پر اہلحدیث دیوبندی بریلوی حضرات کے ساتھ تمام اختلاف بھلا کراکٹھے ہوجاتے ہیں مگران کا سچا نقشہ قرآن نے کھینچا ہے: تحسبھم جمیعا و قلوبھم شتّیٰ۔۔۔چنانچہ ایک فریق اہلحدیث حوالہ کامطالبہ کرتا ہے دوسرا دیوبندی گروہ خودوہ کتاب شائع کرکے جواب دیتا ہے۔ملاحظہ ہوفتح رحمانی کے ایک صدی بعد عالمی مجلس ختم نبوت کی طرف سےشائع ہونے والے ایڈیشن کا حوالہ جو من و عن حقیقة الوحی کے مطابق ہے۔مولوی غلام دستگیر لکھتا ہے:
‘‘اللھم یاذالجلال والاکرام یا مالک الملک جیساکہ تُونےایک عالم ربانی حضرت محمدطاہرمؤلف مجمع بحارالانوارکی دعااورسعی سےاس مہدی کاذب اورجعلی مسیح کابیڑاغارت کیاتھاویساہی دعاوالتجاءاس فقیرقصوری کان اللہ لہ سے (جو سچے دل سے تیرے دین متین کی تائید میں حتی الوسع ساعی ہے)مرزا قادیانی اور اس کے حواریوں کو توبہ نصوح کی توفیق رفیق فرما اور اگر یہ مقدر نہیں تو ان کو مورد اس آیت فرقانی کا بنا فقطع دابر القوم الذین ظلمواوالحمدللہ رب العلمین انک علی کل شئی قدیر وبالاجابۃ جدیر۔آمین’’
(احتساب قادیانیت(فتح رحمانی بہ دفع کید کادیانی)جلد 10صفحہ567مطبوعہ ستمبر2003ء ناشر عالمی مجلس ختم نبوت حضور باغ روڈ ملتان)
یہ تھی وہ دعائے مباہلہ جو مولوی غلام دستگیر نے لکھی اور حضرت مرزا صاحب اس پر یہ بجا تبصرہ فرمایا کہ
‘‘مولوی غلام دستگیر نے میرے صدق یا کذب کا فیصلہ آیت قطع دابر القوم الذین ظلموا پر چھوڑا تھا جس کے اس محل پر یہ معنی ہیں کہ جو ظالم ہو گا اس کی جڑ کاٹ دی جائے گی۔ اور یہ امر کسی اہل علم پر مخفی نہیں کہ آیت ممدوحہ بالا کا مفہوم عام ہے جس کا اس شخص پر اثر ہوتا ہے جو ظاہر ہے۔ پس ضرور تھا کہ ظالم اس کے اثر سے ہلاک کیا جاتا۔ لہٰذا چونکہ غلام دستگیر خدا تعالیٰ کی نظر میں ظالم تھا اس لیے اس زدر بھی اس کو مہلت نہ ملی جو اپنی اس کتاب کی اشاعت کو دیکھ لیتا اس سے پہلے ہی مر گیا۔ اور سب کو معلوم ہے کہ وہ اس دعا سے چند روز بعد ہی فوت ہو گیا۔۔۔۔
اس وقت قریبا گیارہ سال غلام دستگیر کے مرنے پر گزر گئے ہیں جو ظالم تھا خدا نے اس کو ہلاک کیا اور اس کا گھر ویران کر دیا۔ اب انصافاً کہو کہ کس کی جڑھ کاٹی گئی اور کس پر یہ دعا پڑی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یَتَرَبَّصُ بِکُمُ الدَّوَائِرَ عَلَیْھِمْ دَآئِرَۃُ السُّوْء۔ یعنی اے نبی تیرے پر یہ بد نہاد دشمن طرح طرح کی گردشیں چاہتے ہیں۔ انہیں پر گردشیں پڑیں گی۔ پس اس آیت کریمہ کی رو سے یہ سنت اللہ ہے کہ جو شخص صادق پر کوئی بددعا کرتا ہے وہی بد دعا اس پر پڑتی ہے۔ یہ سنت اللہ نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ سے ظاہر ہے۔ پس اب بتلاؤ کہ غلام دستگیر اس بددعا کے بعد مر گیا یا نہیں۔ لہٰذا بتلاؤ کہ اس میں کیا بھید ہے کہ محمد طاہر کی بددعا سے تو ایک جھوٹا مسیح مر گیا اور میرے پر بددعا کرنے والا خود مر گیا۔ خدا نے میری عمر تو بڑھا دی کہ گیارہ سال سے میں اب تک زندہ ہوں اور غلام دستگیر کو ایک مہینہ کی بھی مہلت نہ دی۔’’
(حقیقۃ الوحی- روحانی خزائن جلد 22صفحہ343تا345)
مولوی غلام دستگیر کےرسالہ فتح رحمانی بہ دفع کید کادیانی کی پہلی اشاعت کے بارہ میں مولوی مقتدیٰ حسن اور قاضی صفی الرحمن مبارکپوری نے لکھا ہے ”مولانا غلام دستگیرقصوری قادیانی فتنے کا مقابلہ کرنے والوں کی صف اول میں تھے۔آپ کاشمار پنجاب کے ممتاز علمائے اہل حدیث میں ہوتا تھا۔”
(تذکرۃ المناظرین،حصہ اول،ص:مطبوعہ دارالنوادر،اردوبازار لاہور-قادیانیت اپنے آئینے میں:مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ،لاہور)
رسالہ فتح رحمانی بہ دفع کید کادیانی کی اشاعت کے بارہ میں مولوی مقتدیٰ حسن اور قاضی صفی الرحمن مبارکپوری لکھتے ہیں:
‘‘یہ رسالہ1315ھ میں مولانامشتاق احمدحنفی چشتی کےرسالہ التقریرالفصیح فی تحقیق نزول المسیح کےہمراہ لودیانہ سےشائع ہوا۔یہ رسالہ مولانا قصوری نے قادیانیت کی طرف سے شائع ہونے والے ایک اشتہار جواب میں تھاجس میں لکھا ہے:
‘‘اب شوال ھ میں جو فقیرایک دینی کام کے انجام کولودھیانہ میں وراد ہوا تو سنا گیا کہ حضرات علماء لودیانہ کی طرف سے کسی مصلحت کے واسطے اس کا جواب نہیں دیا گیا اس پر غیرت دینی نے جوش دلایا کہ ان جعلسازوں اور افتراپردازوں کا بقدرضرورت ضرور ہی جواب شائع کرنا ۔۔۔لازم ہے۔’’
(فتح رحمانی بہ دفع کید کادیانی: مطبوعہ مطبع احمدی،لودیانہ بحوالہ تذکرۃ المناظرین،حصہ اول،ص:مطبوعہ دارالنوادر،اردوبازار لاہور-قادیانیت اپنے آئینے میں:مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ،لاہور)
اس کے بعد مخالف نے وہ الفاظ مع حوالہ تحریر کیے جو بعینہ ٖوہی الفاظ ہیں جوحضرت اقدس علیہ السلام نے اپنی کتاب ”حقیقۃ الوحی” میں نقل فرمائے ہیں۔
مولوی اسماعیل علی گڑھی
یہی حال دوسرےمولوی اسماعیل علی گڑھی کے حضرت مرزا صاحب سے تحریری مباہلہ کے بعد موت و ہلاکت کا ہے۔جیسا کہ حضرت مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ
‘‘مولوی اسماعیل علیگڑھی نےحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف بد دعا کی اور ایک رسالہ میں اس کو درج کیا لیکن وہ رسالہ ابھی طبع ہی ہو رہا تھا کہ ملک الموت نے اسماعیل کو قبضہ میں کر لیا۔ اور وہ اس لعنت کا شکار ہو گیا جو اس نے خدا کے فرستادہ پر کی تھی۔ اس کے مرنے نے اس کے تمام حامیوں پر موت وارد کر دی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے طباعت رسالہ کے دوران میں ہی اس بددعا کو اڑا دیا۔ بعض کے حاشیہ پر وہ طبع ہو گئی اور باقی سے مٹا دی گئی۔ اس ناگہانی موت کے بعد ان کاغذات کو تلف کر دیا گیا جن پر وہ طبع ہوئی تھی۔’’
(حقیقۃالوحی حاشیہ صفحہ330)
یہ ہیں اس زمانہ کے علماؤھم جو نشان کے پورا ہوجانے کے بعد ایک طرف اسے مٹانے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر سو سال بعد یہ خیال کر کے کہ مرزا صاحب کے اتباع اسے بھول چکے ہوں گے اس کا حوالہ دریافت کرتے ہیں حالانکہ جب حضرت مرزا صاحب نے اسے شائع فرمایا تو کسی نے حوالہ نہیں مانگا،نہ اعتراض کیا۔
حضرت مولوی عبد اللہ صاحب سنوریؓ نےمسجدمبارک قادیان میں اسکی شہادت دی تھی کہ میں نےوہ مطبوعہ کاغذات دیکھےتھے۔انکاسائزفتح اسلام کےسائزکےبرابرتھا۔اس میں اسماعیل علی گڑھی کی بددعا درج تھی جس کے بعد وہ جلد ہی مر گیا۔
حضور علیہ السلام حقیقۃ الوحی میں نشانات کا ذکر کرتے ہوئے نشان نمبر144میں فرماتےہیں:
‘‘مولوی اسماعیل باشندہ خاص علی گڑھ وہ شخص تھا جو سب سے پہلا عداوت پر کمر بستہ ہوا۔ اور جیسا کہ میں نے اپنے رسالہ فتح اسلام میں لکھا ہے۔ اس نے لوگوں میں میرے نسبت یہ شہرت دی کہ یہ شخص رمل اور نجوم سے پیشگوئیاں بتلاتا ہے اور اس کے پاس آلات نجوم کے موجود ہیں۔ میں نے اس کی نسبت لعنۃ اللہ علی الکاذبین کہا اور خدا تعالیٰ کا عذاب اس کے لیے چاہا جیسا کہ رسالہ فتح اسلام کے لکھنے کے وقت اس کی زندگی میں ہی میں نے یہ شائع کیا تھا اور یہ لکھا تھا تَعَالَوْ نَدْعُ اَبْنَاءَ نَا وَاَبْنَاءَ کُمْ وَنِسَاءَ نَا وَنِسَآءَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَھِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَۃَ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْن۔ چنانچہ قریباً ایک برس اس مباہلہ پر گزرا ہو گا کہ وہ یک دفعہ کسی ناگہانی بیماری میں مبتلا ہو کر فوت ہو گیا؛ اور اس نے اپنی کتاب میں جو میرے مقابل پر اور میرے رد میں شائع کی تھی یہ لکھا تھا کہ جَاءَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِل پس خدا نے لوگوں پر ظاہر کر دیا کہ حق کون سا ہے جو قائم رہا ، اور باطل کون ساتھا جو بھاگ گیا۔ قریباً سولہ برس ہو گئے، وہ اس مباہلہ کے بعد فوت ہوا ۔’’
(حقیقۃ الوحی، نشان نمبر 144- روحانی خزائن خزائن جلد 22صفحہ342،343)
اب ملاحظہ فرمائیے۔ مولوی اسماعیل علی گڑھی کی زندگی میں رسالہ فتح اسلام میں مباہلہ کے ساتھ اس کانام شائع ہوا۔اس نے انکار کی بجائے کتاب شائع کر کے ہلاک ہوگیا۔حقیقۃالوحی میں یہ نشان درج ہے،آج تک کسی نے اس کی کتاب کا حوالہ نہ مانگا۔ اور اس کی موت کے بعد سہمے رہے۔
آج حوالے کے مطالبہ کی بجائے خدا ترس کو نتیجہ پر غور کرنا چاہیے کہ خدا کے ماموروں کی مخالفت کا کیا انجام ہوتا ہے۔
Share this:
- Click to share on Facebook (Opens in new window)
- Click to share on Twitter (Opens in new window)
- Click to share on Reddit (Opens in new window)
- Click to share on Tumblr (Opens in new window)
- Click to share on Pinterest (Opens in new window)
- Click to share on Telegram (Opens in new window)
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window)
- Click to email a link to a friend (Opens in new window)
- Click to print (Opens in new window)
Discover more from احمدیت حقیقی اسلام
Subscribe to get the latest posts sent to your email.