متفرق اعتراضات ۔ وَقَدْ سَبُّوْنِیْ بِکُلِ سَبٍّ فَمَا رَدَدْتُ عَلَیْھِمْ جَوَابَھُمْ ۔ مسیح موعودؑ نے مخالفوں کی گالیوں کا جواب نہیں دیا
اعتراض 27:۔
‘‘وَقَدْ سَبُّوْنِیْ بِکُلِ سَبٍّ فَمَا رَدَدْتُ عَلَیْھِمْ جَوَابَھُمْ۔’’
ومرا از ہرگونہ بسب و شتم یاد کردند۔ پس جواب آن دشنا مہا ندادم
(مواہب الرحمن، خزائن جلد 19صفحہ236 )
‘‘ان(علماء) نےمجھےہرطرح کی گالیاں دیں مگرمیں نےان کوجواب نہیں دیا۔’’مرزا جی کایہ دعویٰ سراسر جھوٹ ہے۔
مرزا صاحب نے خود تسلیم کیا ہے کہ:
‘‘میں تسلیم کرتا ہوں مخالفوں کے مقابل پر تحریری مباحثات میں کسی قدر میرے الفاظ میں سختی استعمال میں آئی ہے لیکن وہ ابتدائی طور پر سختی نہیں ہے بلکہ وہ تمام تحریریں نہایت سخت حملوں کے جواب میں لکھی گئی ہیں۔’’
(کتاب البریہ، خزائن جلد 13صفحہ11)
اس عبارت میں مرزا جی کا جھوٹ خود ہی پکڑا گیا کہ میں نے کبھی کسی مخالف کو گالی نہیں دی۔حالانکہ کسی کو بخشا نہیں ہے۔
جواب:۔
معترض نےیہاں بھی ادھورا حوالہ پیش کرنے کے علاوہ ترجمہ میں بعض الفاظ چھوڑ کر اپنا اعتراض تراشا ہے۔ترجمہ یہ کیا ہے کہ مجھے ہر طرح کی گالیاں دیں مگر میں نے ان کو جواب نہیں دیا۔حالانکہ عربی اور فارسی عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ صرف یہ درست نہیں۔اصل ترجمہ یہ بنتاہے کہ ان علماء نے مجھے ہر طرح کی گالیاں دیں۔مگر میں نے ان سب کی گالیوں کاترکی بترکی جواب نہیں دیا۔یعنی جیسا کہ بازاری اور سفلہ لوگوں کا طریق ہوتا ہے۔اور حوالہ کے جو الفاظ چھوڑ دئیے ان سے ان علماء کی گالیوں کی شدّت اور پہل ظاہر ہےکہ میرے دعوے کے جواب میں انہوں نے گالی گلوچ اور فحش گوئی اور تکفیر و تکذیب اور ایذاء رسانی کی اور ہر طرح کی ایسی گالیاں دیں جن کا من و عن جواب میں نے نہیں دیا۔
چنانچہ اس کی مزید وضاحت ‘‘کتاب البریہ’’میں ہے کہ
‘‘مخالفوں کے الفاظ ایسے سخت اور دشنام دہی کے رنگ میں تھے جن کے مقابل پر کسی قدر سختی مصلحت تھی۔ اس کا ثبوت اس مقابلہ سے ہوتا ہے جو میں نے اپنی کتابوں اور مخالفوں کی کتابوں کے سخت الفاظ اکٹھے کر کے کتاب مثل مقدمہ مطبوعہ کے ساتھ شامل کئے ہیں جس کا نام میں نے کتاب البریت رکھا ہے۔۔۔۔ہمارے تمام سخت الفاظ جوابی تھے اور نیز ان کے مقابل پر نہایت کم۔’’
(کتاب البریہ صفحہ11-15)
بطور ثبوت صرف علمائے اہلحدیث کی گل فشانیوں کا نمونہ(مطابق کتاب البریہ)
1۔اہلحدیث مولوی میاں نذیر حسین دہلوی المعروف بہ شیخ الکل
(رسالہ اشاعۃ السنہ نمبر5 جلد13)
نے آپؑ کوملحد۔ دجّال۔ بے علم۔ نافہم۔ اہل بدعت وضلالت۔ (آپ نے اسے یہ الفاظ جواباً نہیں کہے۔)
2۔اہلحدیث مولوی شیخ محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السنہ
(اشاعۃ السنہ نمبر یکم لغایت ششم جلد شانز دہم 1893ء)
اہلحدیث مولوی محمد حسین بٹالوی نے آپ کو اسلامؔ کا چھپا دشمن۔ اعور دجّال۔رو سیاہ مثیل مسیلمہ و اسود۔ جہان کے احمقوں سے زیادہ احمق۔ ڈاکو۔ خونریز۔جس کا مرشد شیطان علیہ اللعنۃ بازاری شہدوں چوہڑوں بہائم اور وحشیوں کی سیرت اختیار کرنے والا۔
(آپؑ نےان گالیوں کا جواب ان الفاظ میں نہیں دیا۔)
3۔مولوی عبدالجبار صاحب غزنوی:
”قادیانی تمام لوگوں سے ذلیل تر۔ آگ میں جھوکا جائے گا۔کجر و بلید فاسد ہے۔ اور رائے کھوٹی۔ گمراہ ہے۔ لوگوں کو گمراہ کرنے والا۔ چھپا مرتد۔ اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے۔ اور نہ یہؔ اسلامی قبرستان میں دفن ہو۔ (حضرت مرزا صاحب نے یہ نہ کہا)
4۔مولوی عبد الحق غزنوی:اشتہار ضرب النعال علیٰ وجہ الدجال3/ شعبان 1314ھ
‘‘دجال۔ ملحد۔ بدکار۔ شیطان۔ ذلیل۔ خوار۔ لعن طعن کا جوت اس کے سر پر پڑا۔ مارے شرمندگی کے زہر کھا کر مرجاوے گا۔ اس کی سب باتیں بکواس ہیں۔’’ (مرزا صاحب نے یہ الفاظ استعمال نہیں کیے)
5۔منشی محمد جعفر تھانیسری
(تائید آسمانی 23/ جولائی 1892ء)
‘‘مرزا صاحب دھوکہ باز اور گمراہ کرنیوالا ہے۔’’
6۔اشتہار مولوی محمد و مولوی عبداللہ و مولوی عبدالعزیز لدھیانویاں مطبوعہ 29/ رمضان 1308
7۔ سعد اللہ نومسلم لدھیانوی
(نظم حقانی مسمّی بہ سرائر کادیانی23/ شعبان 1313 ھ)
8۔محمد رضا الشیرازی الغروی شیعی (بُت شکن ۔ مطبوعہ قمر الہند)
الغرض حضرت مرزا صاحب نے قرآنی ارشاد
وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا
(الشُّورَى: 41)
کہ بدی کا بدلہ اسی کے مطابق ہوتا ہے، بدلہ کا کم از کم حق بھی تب استعمال کیا جب مخالفین نے نہایت سخت دل آزاراور توہین آمیز کلمات استعمال کیے۔قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق لَا یُحِبُّ اللّٰہُ الْجَھْرَ مِنَ السُّوْءِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ کے مطابق آپ کے لیے ضروری ہو گیا کہ مزید ظلم کو روکنے کے لیے اپنی مظلومیت کا مداوا کریں۔پس حضرت اقدس ؑ نے کبھی بھی اور کہیں بھی ابتداءً کسی مخالف کے متعلق سخت الفاظ استعمال نہیں فرمائے۔ بلکہ سینکڑوں خطوط اور تحریرات کے جواب میں بعض عبارتوں میں کہیں کہیں شاذ کے طور پر بعض الفاظ سخت دکھائی دیتے ہیں۔اور اس میں بھی قرآن و حدیث کے اسلوب کی پیروی کرتے ہوئے صرف وہ الفاظ استعمال کیے جس کے وہ لوگ مستحق تھے اور وہ بے محل نہیں تھے۔اس لیے وہ گالی نہیں تھی بلکہ امر واقعہ کا برمحل اظہار تھا۔
حضورعلیہ السلام فرماتے ہیں:
”1۔ میرے سخت الفاظ جوابی طور پر ہیں ابتدا سختی کی مخالفوں کی طرف سے ہے۔اور میں مخالفوں کے سخت الفاظ پر بھی صبر کر سکتا تھا لیکن دو مصلحت کے سبب سے میں نے جواب دینا مناسب سمجھا تھا۔
2۔اوّل یہ کہ تا مخالف لوگ اپنے سخت الفاظ کا سختی میں جواب پاکر اپنی روش بدلالیں ۔۔۔
3۔ تا مخالفوں کی نہایت ہتک آمیز اور غصہ دلانے والی تحریروں کا ردّعمل سخت نہ ہو۔ ”
(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13صفحہ11)
معترض نے بڑی بےباکی سے یہ حوالے پیش کرکے کہا تھا کہ حضرت مرزا صاحب کا جھوٹ پکڑا گیا۔مگراب بتائیے! جھوٹ کس کا پکڑا گیا۔اور سچا کون ثابت ہوا۔
Share this:
- Click to share on Facebook (Opens in new window)
- Click to share on Twitter (Opens in new window)
- Click to share on Reddit (Opens in new window)
- Click to share on Tumblr (Opens in new window)
- Click to share on Pinterest (Opens in new window)
- Click to share on Telegram (Opens in new window)
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window)
- Click to email a link to a friend (Opens in new window)
- Click to print (Opens in new window)
Discover more from احمدیت حقیقی اسلام
Subscribe to get the latest posts sent to your email.