متفرق اعتراضات ۔ تمام انبیاء کی کتب اور قرآن سے معلوم ہوا کہ آدم ؑ سے دنیاکے آخر تک عمر سات ہزار 7000 سال ہے
اعتراض 26:۔
‘‘تمام نبیوں کی کتابوں سے اور ایسا ہی قرآن شریف سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے آدم سے لیکر آخیر دنیا کی عمر سات ہزار سال رکھی ہے۔’’
(لیکچر سیالکوٹ ص6، خزائن جلد 20صفحہ 207)
جھوٹ ،بالکل جھوٹ۔قرآن شریف، کتب سماوی اور انبیاء علیھم السلام پر صریح جھوٹ ہے کہ دنیا کی عمر سات ہزار سال ہوگی،بلکہ تمام انبیاء اس بات پر متفق ہیں کہ قیامت کا صحیح علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں کہ قیامت کب آئے گی اور دنیا کی عمر کتنی ہے۔
‘‘ھَاتُوْا بُرْھَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْن’’
کسی نبی، قرآن مجید یا آسمانی کتاب سے حوالہ پیش کریں۔’’
جواب:۔
معترض نے یہاں بھی دیانتداری سے کام نہیں لیااور حضرت مرزا صاحب کی عبارت کا ادھورا حصہ پیش کر کے اعتراض کر دیا ہے۔اگلی عبارت جس میں اس سوال کا جواب موجود ہے،وہ پیش نہیں کی۔آپ فرماتے ہیں:
‘‘ یہ صحیح نہیں ہے جو بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قیامت کا کسی کو علم نہیں۔پھر آدم سے اخیر تک سات ہزار سال کیونکر مقرر کر دیئے جائیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کبھی خدا تعالیٰ کی کتابوں میں صحیح طور پر فکر نہیں کیا۔ مَیں نے آج یہ حساب مقرر نہیں کیا یہ تو قدیم سے محققین اہل کتاب میں مسلّم چلا آیا ہے۔ یہاں تک کہ یہودی فاضل بھی اس کے قائل رہے ہیں اور قرآن شریف سے بھی صاف طور پر یہی نکلتا ہے کہ آدم سے اخیر تک عمر بنی آدم کی سات ہزار سال ہے اور ایسا ہی پہلی تمام کتابیں بھی باتفاق یہی کہتی ہیں اور آیت وَإِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ (الحج:48)سےبھی یہی نکلتاہےاورتمام نبی واضح طورپربھی خبردیتےآئےہیں۔
(لیکچر سیالکوٹ ص6،روحانی خزائن جلد 20صفحہ 207)
اب اول تو خود حضرت مرزا صاحب نے قرآن شریف کی ایک آیت سے اشارہ دے دیا کہ خدا کے نزدیک ایک دن ہزار سال کے برابر ہوتا ہے اور معترض جو کسی نبی کا حوالہ مانگتا ہے تو سب سے پہلے سید الانبیاء حضرت محمد مصطفےٰﷺکایہی حوالہ کافی ہے۔جو آپ نے فرمایا کہ دنیا آخرت کے ایّام میں سے کل سات دن ہے یعنی سات ہزار سال۔
چنانچہ دیلمی نے حضرت انسؓ سےیہ روایت کرتے ہوئے اسی آیت کو پیش کیا ہے جو حضرت مرزا صاحب نے پیش کی اور کہا کہ{وَإِنَّ يَوْماً عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ} [الحج: 47]کا یہی مطلب ہے۔
یہی روایت ‘‘کشف الخفاء’’ میں علامہ عجلونی نے ‘‘مقاصد الحسنة’’ میں علامہ سخاوی نے
‘‘تاریخ جرجان’’ میں علامہ جرجانی نے ‘‘حاوی للفتاویٰ’’ میں علامہ سیوطی نے بیان کی ہے۔
اسی طرح ایک اور حدیث عمر دنیا کے بارہ میں حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ عمر الدنیا سبعة آلاف سنة کہ عمر دنیا سات ہزار برس ہے۔اس روایت کو علامہ سیوطی (المتوفى: 911ھ)نے اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعةجزء2ص369میں
اور ابن عراق الكناني (المتوفى: 963ھ)نے تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعةجزء2ص379میں
اور حضرت ملا علی قاری ؒ (المتوفى: 1014ھ)نے الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة المعروف بالموضوعات الكبرى جزء1ص199
میں بیان کیا ہے۔
حضرت مرزا صاحب کے حوالہ میں یہ بھی ذکرتھاکہ یہودی فاضل بھی سات ہزار سال عمر دنیا کے قائل رہے ہیں۔چنانچہ حضرت ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ مدینہ تشریف لائے تو یہودی یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ دنیا کی عمر سات ہزار برس ہے اور ہمیں ہزار برس کے مقابل صرف ایک دن یعنی کل سات دن عذاب ہوگا۔جیسا کہ ان کا یہ قول قرآن میں بیان ہوا وقالو لن تمسنا النار الاایاما معدودة۔اس سے یہی مرادہے۔
اسی طرح حضرت علیؓ کا قول ہے کہ تورات میں ہے کہ
‘‘الدنیا جمعہ من جمع الآخرة و ھی سبعة آلاف سنة’’
کہ دنیا آخرت کےجمعوں میں سے ایک جمعہ ہے اور وہ سات ہزار سال ہے۔
(فیض القدیر جز ء3صفحہ547)
حضرت علیؓ اورحضرت ابن عباسؓ جیسے معتبرصحابہ کے ان حوالہ جات کے بعد امید ہے اہلحدیث معترض کی تسلّی ہوگئی ہوگی اور حضرت مرزا صاحب پر اعتراض کی طرح ان صحابہ سےتو کم از کم حوالہ کا مطالبہ نہ کریں گے۔
لیکن بعید نہیں کہ اب معترض ان احادیث پر جن میں دنیا کی عمر سات ہزار سال ہے،اعتراض کر کےضعیف قرار دے تویاد رکھنا چاہیے اس کے مقابل پر ایک ملہم من اللہ حضرت مرزا صاحب کی اس حدیث کی تصدیق کی بہرحال معتبر سمجھی جائے گی کیونکہ محدثین کے نزدیک یہ امر مسلّم ہے کہ تصحیح حدیث کشف اور الہام کے ذریعہ زیادہ معتبرہے۔
خصوصاً جب کہ دیگر کئی مفسرین و محدثین حضرت مرزا صاحب کی تائید میں یہ حوالے لے کر گویا صف بستہ کھڑے ہیں۔
1۔چنانچہ تفسیرروح المعانی میں علامہ محمود آلوسی میں لکھا ہے کہ ہم مفسرین میں سے ایک کثیر تعداد کے مطابق دنیا کی عمر سات ہزار سال ہے اور اس بارہ میں کثیر روایات ہیں۔
اسی طرح تفسیر روح البیان میںعلامہ اسماعیل حقی نےبھی یہی لکھا ہے۔ احادیث کی کتب میں بھی ایسی روایات کثرت سے درج ہیں کنز العمال اور ابن عساکر میں بھی ایسی روایات موجود ہیں ۔
2۔مولوی انور شاہ کشمیری نے بخاری کی شرح فیض الباری میں اس روایت کو کمزور ماننے کے باوجود عمر دنیا سے ایک ہزار سال باقی رہ جانے کا ذکر کیا ہے۔
3۔ مشہور محدث علامہ عبد الرؤوف المناوي القاهري(المتوفى: 1031ھ)نے اپنی کتاب فیض القدیرمیںلکھا ہے کہ چاروں مذاہب یعنی مسلمان ، عیسائی ، صابی اور یہود کے علماء اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا کی عمر سات ہزار سال ہے۔
(فیض القدیر جز ء3صفحہ547)
جہاں تک معترض کی اس بات کا تعلق ہےکہ ‘‘قیامت کا صحیح علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں کہ قیامت کب آئے گی اور دنیا کی عمر کتنی ہے۔’’
اس کا جواب دیتے ہوئےحضرت مرزا صاحب نےایک نہایت لطیف نکتہ بیان فرمایا ہے:
‘‘اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ قیامت کی گھڑی معلوم نہیں اس کے یہ معنے نہیں کہ خدا نے قیامت کے بارے میں انسان کو کوئی اجمالی علم بھی نہیں دیا ورنہ قیامت کے علامات بھی بیان کرنا ایک لغو کام ہو جاتا ہے کیونکہ جس چیز کو خدا تعالیٰ اس طرح پر مخفی رکھنا چاہتا ہے اُس کے علامات بیان کرنے کی بھی کیا ضرورت ہے۔ بلکہ ایسی آیات سے مطلب یہ ہے کہ ؔقیامت کی خاص گھڑی تو کسی کو معلوم نہیں مگر خدا نے حمل کے دنوں کی طرح انسانوں کو اس قدر علم دے دیا ہے کہ ساتویں ہزار کے گذرنے تک اِس زمین کے باشندوں پر قیامت آجائے گی۔ اِس کی ایسی ہی مثال ہے کہ ہر ایک انسان کا بچہ جو پیٹ میں ہو نو9ماہ دس10 دن تک ضرور پیدا ہوجاتاہے لیکن تاہم اُسکےپیداہونے کی گھڑی خاص معلوم نہیں ۔ اِسی طرح قیامت بھی سات ہزاربرس تک آجائےگی۔مگراُس کےآنےکی گھڑی خاص معلوم نہیں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ سات ہزار پورا ہونے کے بعد دو2تین3صدیاں بطورکسورکےزیادہ ہوجائیں جوشمارمیں نہیں آسکتیں۔’’
(براہین احمدیہ حصہ پنجم،روحانی خزائن جلد21صفحہ259تا291)
اب آخر میں مختصراً یہ ذکرضروری ہے کہ حضرت مرزا صاحب کواپنی کتاب‘‘ایام الصلح’’میں دنیا کی عمر سات ہزار سال بیان کرنے کی ضرورت کیا پیش آئی اور معترض اس بات پر سیخ پا کیوں ہے؟
دراصل حضرت مرزا صاحب اس حوالہ میں آنحضرتﷺ کی نبوت کے ثبوت بیان فرما رہے ہیں۔ایک ثبوت یہ دیا کہ آپ نے تاریکی کے زمانہ میں مبعوث ہوکر ایک مشرک اور وحشی قوم کو ایسا باخدا انسان بناکردکھایا کہ تمام کی کمالات نبوت آپ پر ختم ہوگئے۔آپ کا دوسرا ثبوت نبوت یہ ہے کہ آپ نے دنیا کے سات ہزار سالہ ادوار میں سے ہدایت کے لیے مقرر پانچویں ہزار سال پر آکر توحید کو دنیا میں قائم کیا تھا پھر چھٹا ہزار سال گمراہی کا ہوا اور پھر ساتویں ہزار سال پر جو ہدایت کا ہزار سال ہے مسیح موعود کی آمد مقدر ہوئی۔
اب معترض مرزا صاحب کی مخالفت میں آنحضرت ﷺ کے ثبوت نبوت کے حق میں دی گئی دلیل کو بھی جھٹلاتاہے جس کی تائید واقعات اور قرآن و حدیث کرتے ہیں۔اس سے بڑھ کر بدقسمتی کیا ہوسکتی ہے۔
سر کو پیٹو آسماں سے اب کوئی آتا نہیں
عمر دنیا کو بھی اب تو آگیا ہفتم ہزار
Share this:
- Click to share on Facebook (Opens in new window)
- Click to share on Twitter (Opens in new window)
- Click to share on Reddit (Opens in new window)
- Click to share on Tumblr (Opens in new window)
- Click to share on Pinterest (Opens in new window)
- Click to share on Telegram (Opens in new window)
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window)
- Click to email a link to a friend (Opens in new window)
- Click to print (Opens in new window)
Discover more from احمدیت حقیقی اسلام
Subscribe to get the latest posts sent to your email.