متفرق اعتراضات ۔ انجیل سے ثابت ہے کہ عیسیٰؑ مالدار آدمی تھے اور ہزار روپیہ ان کے پاس رہتا اور خزانچی یہوداہ اسکریوطی تھا
اعتراض29 :۔
‘‘انجیل سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ ایک مالدار آدمی تھے۔ کم سے کم ہزار روپیہ ان کے پاس رہتا تھا۔ جس کا خزانچی یہوداہ اسکریوطی تھا۔’’
(385ایام الصلح صفحہ۔روحانی خزائن جلد14صفحہ)
جھوٹ بالکل جھوٹ۔انجیل میں یہ نہیں لکھا۔حوالہ پیش کریں۔
جواب:۔
یہاں بھی معترض نے اصل عبارت پیش نہیں کی کہ آخرحضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کوحضرت عیسیٰ کو مالدار قرار دینے میں کیا دلچسپی ہے اور معترض اور ان کے ساتھی علماء اہل حدیث کیوں مرزا صاحب کو جھوٹا قرار دے کرحضرت عیسیٰ کو فقیر اور مفلس ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے اپنی اس کتاب ‘‘ایام الصلح’’ میں وفات مسیح کا مضمون متعدد آیات قرآنی سے ثابت کیا ہےکہ حضرت عیسیٰ فوت ہوگئے۔چھٹی دلیل یہ آیت بیان کی ہے کہ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا(مریم :32)کہ حضرت عیسیٰ نے کہا خدا نے مجھے تاکیدی حکم دیا ہے کہ جب تک میں زندہ ہوں نماز اور زکوة ادا کروں۔یہاں حضرت مرزا صاحب نے وفات عیسیٰ کے لیے جو شاندار استدلال فرمایا ہے وہ ایسا لاجواب ہے کہ معترض اور اس کے ساتھی علماء جب اس کا کوئی ردّ پیش نہ کر سکے تو اس دلیل سے توجہ ہٹانے کے لیے یہ سوال کر دیا کہ حضرت عیسیٰ کو مالداریعنی زکوة دینے کے قابل ثابت کر کے دکھاؤ۔
حالانکہ اگر حضرت عیسیٰ زندہ ہیں تو ان کے آسمان پر صاحب مال ہونے اور زکوة دینے کا ثبوت بھی اصولاً اسی کےذمّہ ہے جو انہیں آسمان پر زندہ مانتا ہے۔اورفریضۂ زکوة جو قرآن کے مطابق حضرت عیسیٰ کی زندگی سے لازم وملزوم ہے وہ آسمان پر ادا کرنے سے قاصر ہیں توپھر سیدھی طرح حضرت عیسیٰ پر ناچار انّاللہ پڑھ دینا چاہیے۔یہ ہے خلاصہ حضرت مرزا صاحب کے خوبصورت استدلال کا۔آپ وفات مسیح کی چھٹی قرآنی دلیل پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
‘‘اور پھر آیت وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا(مریم :32)سے موت ثابت ہوئی کیونکہ کچھ شک نہیں کہ جیسا کہ کھانے پینے سے اب حضرت عیسیٰ علیہ السلام بروئے نصِ قرآنی معطّل ہیں(یعنی کانا یأکلان الطعام کے مطابق جب تک وہ زندہ تھے تو کھانا کھاتے تھے،اب نہیں کھاتے تو ظاہر ہے وفات پاگئے۔)فرمایا: ایسا ہی دوسرے افعالِ جسمانی زکوٰۃ اور صلوٰۃ سے بھی معطّل ہیں۔’’
(ایام الصلح صفحہ140،159روحانی خزائن جلد14)
لہذا وفات پاگئے۔ کیونکہ وہ خود اقراری ہیں کہ زندگی تک زکوة کی ادائیگی کا حکم ہے۔جب خدا کومعلوم تھا کہ آخر آسمان پر اٹھالینا ہےتو حکم زکوة کو تمام زندگی سے مشروط کیوں کیا۔اور اگر کہو کہ زکوة ان پر واجب نہیں توان کا مفلس ہونا ثابت کریں۔
حضرت مرزا صاحب کیا خوب فرماتے ہیں کہ جیسے کھانے پینے سے حضرت عیسیٰ ازروئے نصّ قرآنی معطل ہیں اسی طرح وہ افعال جسمانی زکوة اور صلوة سے معطّل ہیں۔اور دلیل التزامی کے مطابق اس کا نتیجہ سوائے موت کے اور کچھ نہیں۔
جہاں تک حضرت مسیح کےمالدار ہونے کا تعلق ہے۔آئیےدیکھیں حضرت عیسیٰ کے ہم عصر حواری کیا گواہی دیتے ہیں:
نئے عہد نامے میں ہے:
‘‘تم ہمارے خداوند یسوع مسیح کے فضل کو جانتے ہوکہ وہ اگرچہ دولت مند تھا مگر تمہاری خاطر غریب بن گیا تاکہ تم اس کی غریبی کے سبب سے دولت مند ہوجاؤ۔’’
(کرنتھیوں کے نام پولس رسول کا دوسرا خط باب 8 آیت9)
گویا حضرت عیسیٰ زمین پر جب تک زندہ رہے۔دولت مند ہوکرزکوة دیتے رہے۔اب اگرآسمان پرزکوة نہیں دیتے تو وفات پاگئے۔یہ حضرت مرزا صاحب کا مقصد تھا جو معترض کو منظور نہیں۔
معترض نے انجیل سے حضرت عیسیٰ کے مالدار ثابت ہونے کو جھوٹ کہا تھا۔اب حضرت عیسیٰ کے خزانچی یہودا ہ کے پاس ان کے خزانے کی تھیلی موجود ہونا اور اس سے محتاجوں کو زکوة دینے کا ثبوت باقی رہ گیا تو لیجئے انجیل کا حوالہ:
‘‘یسوع نےاس(یہوداہ)سےکہاکہ جوکچھ تو کرتا ہے جلد کر لےمگر جو کھانا کھانے بیٹھے تھے ان میں سے کسی کو معلوم نہ ہوا کہ اس نے یہ اس سے کس لیے کہاچونکہ یہوداہ کے پاس تھیلی رہتی تھی اس لیے بعض نے سمجھا کہ یسوع اس سے یہ کہتا ہے کہ جو کچھ ہمیں عید کے لیے درکار ہے خرید لے یا یہ کہ محتاجوں کو کچھ دے۔ پس وہ نوالہ لے کر فی الفور باہر چلا گیا ۔’’
(یوحناباب 13آیت27تا30)
اگر اس ایک حوالہ سے معترض سے تسلّی نہیں ہوتی تو دوسرا حوالہ بھی حاضر ہے:
”پھرمریم نےجٹاماسی(سدابہارخوشبودار بوٹی:سنبل الطیب)کاآدھ سیرخالص اوربیش قیمت عطرلےکریسوع کےپاؤں پرڈالا اور اپنےبالوں سےاسکےپاؤں پونچھےاورگھرعطرکی خوشبوسےمہک گیا۔مگراسکےشاگروںمیں سے ایک شخص یہوداہ اسکریوطی جو اسے پکڑوانے کو تھا، کہنے لگا:یہ عطر تین سو دینار میں بیچ کر غریبوں کو کیوں نہ دیا گیا؟ اس نے یہ اس لیے نہ کہا کہ اس کو غریبوں کی فکر تھی بلکہ اس لیے کہ چور تھااو رچونکہ اس کے پاس ان کی تھیلی رہتی تھی،اس میں جو کچھ پڑتا وہ نکال لیتا تھا۔ پس یسوع نے کہا کہ اسے یہ عطر میرے دفن کے دن کے لیے رکھنے دے کیونکہ غریب غربا تو ہمیشہ تمہارے پاس ہیں لیکن میں ہمیشہ تمہارے پاس نہ رہوں گا۔”
(یوحنا باب12 :3تا8)
اب دیکھیے۔انجیل سے نہ صرف حضرت عیسیٰ کا مالدار ہونا ثابت ہوا بلکہ مالدار ہوکر زکوة ادا نہ کرنے سے وفات بھی ثابت ہوگئی کیونکہ انہیں زندگی کے آخری دم تک زکوة کا حکم تھا۔
Share this:
- Click to share on Facebook (Opens in new window)
- Click to share on Twitter (Opens in new window)
- Click to share on Reddit (Opens in new window)
- Click to share on Tumblr (Opens in new window)
- Click to share on Pinterest (Opens in new window)
- Click to share on Telegram (Opens in new window)
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window)
- Click to email a link to a friend (Opens in new window)
- Click to print (Opens in new window)
Discover more from احمدیت حقیقی اسلام
Subscribe to get the latest posts sent to your email.