Search
Close this search box.

متفرق اعتراضات ۔ آنحضرت ﷺ کو دیکھو کہ جب آپ پر فرشتہ جبرائیل ظاہر ہوا تو آپ نے فی الفور یقین نہ کیا کہ یہ خدا کی طرف سے ہے

فہرست مضامین

Ahmady.org default featured image

متفرق اعتراضات ۔ آنحضرت ﷺ کو دیکھو کہ جب آپ پر فرشتہ جبرائیل ظاہر ہوا تو آپ نے فی الفور یقین نہ کیا کہ یہ خدا کی طرف سے ہے

اعتراض:۔
مضمون نگار نے اپنے اس مضمون کے صفحہ نمبر 162پر عنوان باندھا ہے ”جھوٹ نمبر2“اور نیچے حضرت بانیٴ جماعت احمدیہ علیہ السلام کی کتاب تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ 160کا اقتباس درج کیا ہے ۔وہ اقتباس یہ ہے”آنحضرت ﷺ کو دیکھو کہ جب آپ پر فرشتہ جبرائیل ظاہر ہوا تو آپ نے فی الفور یقین نہ کیا کہ یہ خدا کی طرف سے ہے بلکہ حضرت خدیجہ کے پاس ڈرتے ڈرتے آئے اور فرمایا کہ خَشِیْتُ عَلیٰ نَفْسِیْ یعنی مجھے اپنے نفس کی نسبت بڑا اندیشہ ہے کہ کوئی شیطانی مکر نہ ہو“یہ اقتباس در ج کر کے وہ آگے اعتراض یہ کرتے ہیں ”قادیانیو! تمہارے نبی نے آپ پر جھوٹ بولا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ کوئی شیطانی مکر نہ ہو ۔یہ الفاظ حدیث میں نہیں ہیں۔آپ پر کھلم کھلا بہتان ہے‘افتراء ہے،جھوٹ ہے“

جواب:۔
قارئین کرام!حضرت بانیٴ جماعت احمدیہ علیہ السلام اس پیش کردہ اقتباس کے سیاق وسباق میں یہ مضمون بیان فرما رہے ہیں کہ انبیاء اور اولیاء کی احتیاط کا عالم یہ ہوتا ہے کہ جب ان پر پہلی مرتبہ خدا کی وحی آتی ہے تو فی الفور اس پر یقین نہیں کرتے۔ایک عام آدمی جو خدا تعالیٰ کی محبت اور قرب کے مقامات سے محروم ہو۔اسے اگر کوئی ایک آدھ سچی خواب آجائے یاوہ کوئی آواز سن لے تووہ پوری دنیا میں ڈھنڈورہ پیٹتا پھرتا ہے کہ میں ولی اللہ بن گیا۔ میں ملہم من اللہ بن گیا ۔حضور یہ مضمون اس اقتباس میں بیان فرما رہے ہیں ۔ حضرت بانیٴ جماعت احمدیہ علیہ السلام نے جو فرمایا کہ آپ نے فی الفور یقین نہ کیا کہ یہ خدا کی طرف سے وحی ہے۔اگر یہ ثابت ہوجائے کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ نے غار حرا میں پہلی مرتبہ وحی کے آنے پر فی الفور یقین کرلیا تھا کہ یہ الفاظ وحی الٰہی ہیں اور مجھے ملنے والا ،مجھے یہ فقرات سنانے والا وہ فرشتہ جبرائیل ہے تو معترض کا اعتراض درست ہوتا اور حضرت بانیٴ جماعت احمدیہؑ کا بیان غلط ثابت ہوتا لیکن اگر یہ ثابت ہوجائے کہ حضرت رسول پاک ﷺ نے غار حرا میں پہلی مرتبہ وحی الٰہی کے نزول پر فی الفور یقین نہیں کیا کہ یہ خدا کی وحی ہے ،یہ بات کرنے والا فرشتہ جبرائیل ہے تو حضرت بانیٴ جماعت احمدیہ کا بیان درست ہے اور معترض کا اعتراض باطل ہے۔

بخاری شریف میں حضرت عائشہؓ کی روایت سے تین مقامات پر یہ مضمون بیان ہوا ہے۔

1۔بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ میں۔

2۔بخاری کتاب التعبیرباب اول ما بد یٴ بہ رسول اللہ من الوحی الروٴیا الصالحةمیں ،

3۔بخاری کتاب التفسیر باب تفسیر اقراء باسم ربک الذی خلق میں

تینوں مقامات پر جو حدیث بیان ہوئی اس کا خلاصہ یہ ہے:۔

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ حضرت رسول پاک ﷺ غار حرا میں تشریف رکھتے تھے ۔فرشتہ آیا اور اس نے حکم دیا کہ پڑھو۔آپ نے فرمایا میں تو پڑھنا نہیں جانتا ۔اس نے آپ کو زور سے بھینچا۔آپ کو یوں محسوس ہوا کہ اس کے زور سے بھینچنے کے نتیجہ میں شاید میری جان ہی نکل جائے۔پھر اس نے چھوڑا اور کہا کہ پڑھو۔آپ نے پھرفرمایا کہ میں تو پڑھنا نہیں جانتا ۔اس نے پھر زور سے آپ کوبھینچا ۔آپ کو بہت تکلیف ہوئی ۔پھر اس نے چھوڑا اور پھر کہا کہ پڑھو۔آپ نے پھروہی جواب دیا کہ میں تو پڑھنا نہیں جانتا ۔اس نے پھر آپ کو زور سے بھینچا ۔آپ کو بہت تکلیف ہوئی ۔پھر اس نے چھوڑا اور سورة العلق کی پہلی پانچ آیات پڑھیں۔ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ۔خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ۔ اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ ۔الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ۔عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ یہ پانچ آیات ہیں یہ اس نے پڑھیں ۔حضرت رسول پاک ﷺ نے اس کے پیچھے انہی پانچ آیات کو دہرایا اور نظارہ ختم ہوگیا۔آپ کو بڑی سخت گھبراہٹ تھی۔یہ زندگی میں وحی کے نزول کا پہلا موقع تھا اور فرشتے جبرائیل کی آمد کا بھی پہلا موقع تھا۔آپ بہت گھبرائے ۔اسی گھبراہٹ میں گھر آئے۔حضرت خدیجہؓ سے فرمایا مجھے بہت گھبراہٹ ہے مجھے کمبل اوڑھا دو ۔آپ کو کمبل اوڑھایا گیا۔ جب آپ کا خوف دور ہوا تو رسول پاک ﷺ نے فرمایا یَاخَدِیْجَةُ مَالِیَ۔ اے خدیجہ پتا نہیں مجھے کیا ہوا ہے ۔وَقَدْ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ اور مجھے اپنی جان کے بارے میں بہت ڈر لگ رہا ہے اور سارا واقعہ بیان کیا ۔ اگر حضرت رسول پاک ﷺ پر اس سے پہلے بھی وحی الٰہی کا نزول ہوتا رہتا اور اس سے پہلے بھی آپ فرشتہ جبرائیل سے ملاقات کرتے رہتے تو آپ یہ نہ فرماتے مَالِیَ۔ مجھے کیا ہوا ۔بلکہ آپ فرماتے کہ اے خدیجہ خدا کا فرشتہ جبرائیل آیا اوراس نے مجھ پر وحی الٰہی نازل کی ہے اور یہ پانچ آیات مجھ پر نازل ہوئی ہیں۔آپ کا یہ فرمانا کہ مَالِیَ مجھے کیا ہوا ۔یہ بتاتا ہے کہ آپ کو یہ پتا نہیں تھا ۔ آپ نے فی الفور اس بات پہ یقین نہیں کیا کہ آنے والا فرشتہ جبرائیل تھااور یہ پانچ جملے خدا کی وحی ہے۔آپ کو یہ اندیشہ تھا کہ پتا نہیں کیا ہوا۔وہ آنے والا کون تھا؟ کیا یہ کوئی شیطانی وسوسہ تھا یا کوئی جنون کا عارضہ تھا ۔یہ سارا واقعہ سن کر حضرت خدیجہؓ نے فرمایا کلَّا ۔ہرگز نہیں ۔ جو آپ کاخیال ہے وہ درست نہیں۔لفظ کلَّا عربی زبان میں کسی بات یا کسی خیال کی تردید کے لئے آتا ہے۔وہ کیا خیال تھا۔حضرت خدیجہ نے کہا کہ آپ کے اندر تو پانچ ایسی خوبیاں پائی جاتی ہیں جو آج دنیا میں کسی انسان میں موجودنہیں ہیں۔ ایسی پاکیزہ خوبیوں والے انسان کو خدا تعالیٰ کیا جنون کا عارضہ لاحق کرے گا ۔کیا اسے شیطانی حملے کا مورد بنائے گا؟ ہرگز نہیں۔آپ تسلی رکھیں ۔اللہ تعالیٰ آپ کوکبھی بھی ایسی خوبیوں کے ساتھ ۔اس قسم کے خطرات سے دوچار کر کے دنیا میں آپ کو رسوا نہیں کرے گا ۔ آپ پھر حضرت ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں۔وہ عیسائی تھے بائیبل کے اورانبیائے بنی اسرائیل کی کتابوں کے بہت بڑے ماہر تھے۔آپ حضرت رسول پاک ﷺ کو ان کے پاس لے کرگئیں اور کہنے لگیں کہ اپنے بھتیجے کی بات سنیں۔انہوں نے کہا بھئی کیا ہوا۔آپ نے کیا نظارہ دیکھا ؟تو حضرت رسول پاک ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ چچا جبرائیل آیا تھا اس نے مجھ پر وحی الٰہی نازل کی ہے۔آپ نے واقعہ سنایا۔

ورقہ بن نوفل چونکہ بائیبل کی کتابوں کا ماہر تھا ،انبیائے بنی اسرائیل کی کتابوں کے مضامین کا ماہر تھا وہ جانتا تھا کہ آنے والے عظیم الشان نبی کے ظہورکی علامات پوری ہو چکی ہیں۔جب اس نے یہ واقعہ سنا تو اس نے بتایا کہ گھبرانے کی بات نہیں۔ یہ تو فرشتہ جبرائیل تھا جو حضرت موسیٰ پر آیا تھا۔وہی آپ پراترا ہے۔اس سارے واقعہ کو غور سے پڑھئیے گا ۔ایک مرتبہ بھی رسول پاک ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ فرشتہ تھا یہ جبرائیل تھا جو مجھے ملا اوریہ اس نے جو بعض فقرے مجھے سنائے یہ وحی الٰہی ہے ۔کیونکہ فرشتے نے نہیں کہا کہ میں فرشتہ ہوں ۔اس نے یہ نہیں کہا کہ میں جبرائیل ہوں یہ بھی نہیں کہا کہ میں تجھ کو خدا کی وحی کے فقرات سنارہا ہوں۔اوران فقرات میں بھی نہیں ہے کہ خدا نے فرمایا ہوکہ میں تجھ پر وحی کر رہا ہوں۔میں تجھ کو اپنی وحی کی بات سنا رہا ہوں۔نہ ان آیات میں نبی کا رسول کا لفظ پایا جاتا ہے ۔نہ ان آیات میں آپ کو نبی یا رسول کے لفظ سے پکارا گیا ۔تو کیسے سمجھتے کہ مجھے خدا نے نبی بنایا ۔

ہاں اگر اس سے پہلے فرشتہ جبرائیل آپ پر نازل ہوتا رہتا تو آپ اپنے مشاہدات کی بناء پر کہتے کہ یہ فرشتہ تھا،یہ جبرائیل تھا۔اگر اس سے پہلے بھی آپ پر خدا کی وحی کا نزول ہوتا رہتا تو آپ کہتے اپنے تجربات کی بناء پر کہ یہ خدا کی وحی نازل ہوئی۔مگر چونکہ یہ پہلا تجربہ تھا آپ کو پتا نہیں تھا ۔اس لئے جو حضور نے فرمایا کہ آپ نے فی الفور یقین نہ کیا کہ خدا کی طرف سے ہے ۔یہ بیان بالکل سو فیصد درست ہے اور معترض کا اعتراض حقائق کو چھپانے کے برابر ہے۔


Discover more from احمدیت حقیقی اسلام

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply