متفرق اعتراضات ۔ بخاری ومسلم میں درج ہے کہ آنحضرت ﷺ کی بیویوں میں سے پہلے وہ فوت ہوگی جس کے ہاتھ لمبے ہوں گے۔
اعتراض نمبر 1 ویڈیو میں 13 منٹ 45 سیکنڈ پر شروع ہوتا ہے۔ اس سے پہلے سچے اور نبی کی پچان کے کچھ طریقے بتائے گئے ہیں۔
اعتراض:۔
حضرت بانیٴ جماعت احمدیہ کی کتاب’ازالہ اوہام‘حصہ دوم جلد نمبر3صفحہ496کی ایک عبارت درج کرتے ہیں ۔لکھتے ہیں۔کہ”بخاری ومسلم میں درج ہے کہ آنحضرت ﷺ کی بیویوں میں سے پہلے وہ فوت ہوگی جس کے ہاتھ لمبے ہوں گے۔انہوں نے زینب ؓ کی وفات کے وقت یقین کر لیا کہ پیشین گوئی پوری ہوگئی۔حالانکہ یہ بات اجماعی طور پر تسلیم ہو چکی تھی کہ سودہؓ کے لمبے ہاتھ ہیں وہی پہلے فوت ہوں گی ۔۔۔کیونکہ آنحضرت ﷺ نے ہاتھوں کو ناپتے دیکھ کر بھی منع نہیں فرمایا تھا ،جس سے اجماعی طور پر سودہؓ کی وفات تمام بیویوں سے پہلے یقین کی گئی لیکن آخر کار ظاہری معنی صحیح نہ نکلے۔جس سے ثابت ہوا کہ اس پیشین گوئی کی اصل حقیقت آنحضرت ﷺ کو بھی معلوم نہیں تھی“
یہ اقتباس درج کر کے اس پر اعتراض یہ کرتے ہیں کہ مرزا جی نے حدیث پر جھوٹ بولا ہے کہ لمبے ہاتھوں کی پیشین گوئی سن کر بیویوں نے آپ کے روبرو ہاتھ ناپنا شروع کئے اور آپ یہ دیکھ کر خاموش رہے۔آگے کہتے ہیں غیرت مند قادیانیوں سے سوال ہے کہ حدیث میں سے یہ الفاظ دکھا دیں۔
جواب:۔
حدیث کا تذکرہ کرنے سے پہلے میں قارئین کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ حدیث بیان کیوں ہوئی اور مسئلہ ہے کیا جس کا وہاں پر حضور تذکرہ فرما رہے ہیں ۔تاکہ مضمون سمجھنے میں قارئین کو سہولت رہے۔ مخالفین کہتے تھے کہ علماء نے مسیح موعودؑ کی آمد اور اس کی علامات جو پیشگوئیوں کی صورت میں بیان کی گئی ہیں ان کی فلاں تشریح کی ۔ اس لئے اس سے الٹ تشریح قابل قبول نہیں۔ حضرت بانیٴ جماعت احمدیہ علیہ السلام اپنی کتاب ’ازالہ اوہام‘میں اس مضمون کو متعدد مقامات پر بیان فرماتے ہیں۔چنانچہ آپ فرماتے ہیں۔
ایک ہوتے ہیں شرعی احکام ان کی کیفیت اور ہوتی ہے۔دوسری ہوتی ہیں مستقبل کے بارہ میں غیب کی پیشگوئیاں ۔ان کی حقیقت شرعی احکام کی کیفیت سے بالکل جدا ہوتی ہے۔ جو مستقبل کے بارہ میں خدا تعالیٰ خبریں دیتا ہے جو غیبی امور پر مشتمل ہوا کرتی ہیں۔اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کو غیب کی خبر دیتا ہے ۔لیکن وہ خبر کیسے پوری ہوگی ۔ظاہری طور پر پوری ہوگی یا کسی تاویلی یا مجازی رنگ میں پوری ہوگی۔اس کی بسا اوقات اپنے انبیاء کو بھی خدا تعالیٰ خبر نہیں دیتا ۔چنانچہ دیکھیں۔ان خبروں کی حقیقت کب پتہ چلتی ہے جب وہ خبریں پوری ہوجاتی ہیں۔چنانچہ قرآن پاک سورةالنمل کی آیت94میں اس مضمون کو بیان فرماتا ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔سَیُرِیْکُمْ اٰیٰتِہ۔اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے نشانات دکھائے گا۔مستقبل کی بات کی۔سَیُرِیْکُمْ اٰیٰتِہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے نشانات دکھائے گا۔فَتَعْرِفُوْنَھَا۔ نشانات کے دکھائے جانے کے بعد تم ان نشانات کو پہچان لو گے ۔یہ نہیں فرمایا کہ نشانات دکھانے سے پہلے تم نشانات کو پہچان لوگے۔یہ جملہ قابل غور ہے اس مسئلے کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے کہ غیبی امور، مستقبل کی پیشگوئیاں ان کی حقیقت کب سمجھ آتی ہے ۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان غیبی پیشگوئیوں کے پورا ہو چکنے کے بعد سمجھ آتی ہے۔ ان غیبی پیشگوئیوں کے پورا ہونے سے پہلے پہلے انبیاء، اولیاء،مومنین جو ان پیشگوئیوں کی تشریحات کرتے ہیں ۔بعض اوقات وہ ان کی بیان کردہ ،ان کی سمجھی ہوئی تشریحات کے مطابق پوری ہوتی ہیں اور بعض اوقات ان کی تشریحات کے مطابق وہ پوری نہیں ہوتیں کسی اور رنگ میں پوری ہوتی ہیں۔
چنانچہ اس مضمون کو سمجھانے کے لئے آپ نے بعض مثالیں بیان فرمائیں۔ مثلاً آپ نے ایک مثال یہ بیان کی کہ بخاری شریف میں لکھا ہے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے ایک ریشمی کپڑے پر آپ کو حضرت عائشہ ؓ کی تصویر دکھائی اور فرمایا یہ آپ کی بیوی ہوگی۔ حضرت رسول پاک ﷺ نے جبرائیل کی زبان سے یہ خبرسن کر فرمایا ۔اِنْ یَکُ ھٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ یُمْضِہ۔ (بخاری کتاب التعبیر باب ثیاب الحریر فی المنام باب کشف المرأة فی المنام)اگر اس خبر کی یہی تعبیر ہے کہ یہ لڑکی درحقیقت میری بیوی ہوگی تو خدا اسی حقیقت کے مطابق اس خبر کو پورا کر دے گاورنہ جو اس کی کیفیت ،جو اس کی حقیقت خدا تعالیٰ کے علم میں ہے اس کے مطابق یہ پیشگوئی پوری ہوگی۔اسی طرح احادیث میں لکھا ہے حضرت رسول پاک ﷺ فرماتے ہیں۔”گناہگار انسان جو ہوتے ہیں ۔گناہگار انسانوں کی قبروں میں بچھو ہوں گے،سانپ ہوں گے اور آگ ہوگی۔“(تفسیر کبیر ازامام رازی جلد20 زیر آیت النمل89)یہ خبرآپ نے ہر گناہ گار کی قبر کے بارہ میں بیان کی۔ اب دیکھیں یہ پیشگوئی کیسے پوری ہوئی۔ظاہری رنگ میں پوری نہیں ہوئی۔زلزلے آتے ہیں قبریں پھٹ جاتی ہیں۔سیلاب آتے ہیں قبریں برباد ہوجاتی ہیں۔لاشیں ننگی ہوجاتی ہیں ۔کفن چور آتے ہیں۔قبریں اکھیڑتے ہیں ۔کفن اتار کر لے جاتے ہیں ۔ لاشیں ننگی پڑی ہوتی ہیں ۔کبھی کسی قبر میں نہ کسی کو بچھو دکھائی دیئے ظاہری طور پر ۔نہ وہاں پر سانپ دکھائی دئیے نہ وہاں پر آگ کے شعلے دکھائی دئیے ۔تو یہ پیشگوئی ہر گناہگار کی قبر کے بارہ میں کیسے پوری ہوئی۔ظاہری طور پر نہیں اپنی باطنی کیفیت کے ساتھ پوری ہوئی۔ایک مثال حضرت رسول پاک ﷺ نے یہ دی ۔اللہ تعالیٰ نے حضرت رسول پاک ﷺ کو یہ خبر دی کہ آپ خانہ کعبہ کا طواف کریں گے۔( تفسیر البغوی زیر آیت سورة الفتح:27 جزء 7 صفحہ322) یہ خدا تعالیٰ نے آپ کو غیب کی خبر دی ۔آپ نے اس کی تشریح یہ سمجھی کہ ہم اسی سال خانہ کعبہ کا طواف کریں گے۔آپ1400صحابہ کو ساتھ لے کر طواف کعبہ کے لئے مدینہ منورہ سے چل پڑے۔حدیبیہ کے مقام پر پڑاوٴ ہوا۔ قریش مکہ کو خبر ہوئی ۔انہوں نے رکاوٹ ڈالی کہ آپ کو اس سال ہم طواف کعبہ نہیں کرنے دیں گے ۔آخر بحث وتمحیص کے بعد ایک صلح نامہ تیار ہواجو صلح حدیبیہ کے نام سے تاریخ اسلام میں محفوظ ہے ۔اس کے مطابق آپ کو واپس جانا پڑا اور اگلے سال خانہ کعبہ کے طواف کے لئے آئے۔تو جو آپ نے اندازہ لگایا تھا کہ اسی سال ہم خانہ کعبہ کا طواف کریں گے۔وہ اندازہ درست نہیں نکلا ۔آپ کو خدا تعالیٰ نے خبر دی کہ آپ جس مقام پہ ہجرت فرمائیں گے وہ کھجوروں والا ہوگا ۔ بخاری شریف میں لکھا ہے آپ فرماتے ہیں۔میرا خیال اس طرف گیا کہ یا تو وہ یمامہ کا علاقہ ہے یا حجر کا علاقہ ہے۔ مگر جو اندازے آپ نے لگائے وہ دونوں درست نہ نکلے ۔واقعات نے بتایا کہ وہ مدینۃ النبی یثرب کا علاقہ ہے۔(بخاری کتاب التعبیر باب روٴیا النبی) ان میں سے ایک مثال آپ نے یہ بیان فرمائی کہ بخاری شریف میں لکھا ہے جب آپ مرض الموت میں بیمار تھے۔ازواج مطہرات کو محسوس ہوا کہ اب آپ ہم سے جدا ہونے والے ہیں تو وہ جمع ہوئیں اور آپ سے عرض کیا یارسول اللہ ہم میں سے کون ایسی خوش نصیب بیوی ہے جو سب سے پہلے وفات پا کر جنت میں آ پ سے ملاقات کرے گی۔
آپ کو جو خدا نے خبر دی آپ نے فرمایا تم میں سے جس کے ہاتھ سب سے لمبے ہیں وہ سب سے پہلے فوت ہوگی۔ازواج مطہرات نے سمجھا کہ لمبے ہاتھوں سے مراد ظاہری طور پر لمبے ہاتھوں کی لمبائی ہے ۔چنانچہ بخاری شریف میں لکھا ہے ۔فَاَخَذُوْا قَصَبَةً یَّذْرَعُوْنَھَا۔یہ جملہ قابل غور ہے ۔اس میں اس مضمون نگار کے اعتراض کا جواب آگیا ۔یہ مذکر کی ضمیریں ہیں ۔اگر رسول پاک ﷺ اس محفل میں موجود نہ ہوتے ۔وہ بعد میں کہیں اپنے ہاتھوں کو ناپتیں تو یہ مونث کے صیغے ہونے تھے مگرفَاَخَذُوْا قَصَبَةً یَّذْرَعُوْنَھَا۔(بخاری کتاب الزکوٰة باب فضل صدقةالشجیح الصحیح) سارے کے سارے مذکر کے صیغے ہیں ۔مذکر کے صیغے استعمال ہوکر حضرت عائشہ نے ہمیں سمجھا دیا کہ حضرت رسول پاک ﷺ جو مذکر تھے آپ کی موجودگی میں ازواج مطہرات نے ہاتھ ناپے تو حضرت سودہ کے ہاتھ سب سے لمبے تھے۔تو ازواج مطہرات نے یقین کر لیا کہ یہ پیشگوئی ظاہری طور پر پوری ہوگئی ہے۔حضرت رسول پاک ﷺ جن کے سامنے یہ کام ہوا۔ آپ ﷺ نے ان کی اس سمجھی ہوئی تشریح کا انکار نہیں کیا ۔اسے حدیث کی اصطلاح میں حدیث تقریری کہتے ہیں ۔یعنی صحابہ آپ کے سامنے کوئی کام کریںآ پ دیکھیں اور آپ اس کا انکار نہ کریں اس سے منع نہ فرمائیں ۔اگر کوئی یہ کہے کہ صاحب یہ آپ کی وفات کے بعدآپ کی ازواج مطہرات نے ہاتھ ناپے تھے تو یہ بات ان کے سوال کی روح کے خلاف ہے۔ ان کے دل میں تو یہ شوق ہے کہ جب رسول پاک ﷺ ہم سے جدا ہو رہے ہیں تو ہم میں سے کون ایسی خوش نصیب بیوی ہے جو سب سے پہلے فوت ہوکر آپ سے جنت میں جا ملے گی اور اگر ان کو پتہ لگے اور اس جواب کو سن کر وہ اس کی حقیقت کا پتہ نہ چلائیں اور بعد میں چند دنوں بعدیاچند ہفتوں بعدہاتھ ماپیں تو یہ بات عقل کے خلاف ہے ۔ جس شوق سے جس محبت سے انہوں نے سوال کیا اس شوق اور محبت کی نفی کرنے والی بات ہے اور مذکر کے صیغوں نے بھی وضاحت کر دی ۔پھرلفظ ہے فَاَخَذُوْا یہ نہیں فرمایا ثُمَّ اَخَذُوْا۔فَاَخَذُوْا اور ثُمَّ اَخَذُوْا میں فرق ہے ۔فَاَخَذُوْا کا مطلب ہوتاہے فوراً کوئی کام ہونا ثُمَّ اَخَذُوْاکا مطلب ہے بعد میں کبھی کوئی کام ہونا ۔چند دنوں کے بعد ،گھنٹوں کے بعدیا چند ہفتوں کے بعد یا چند مہینوں کے بعد ۔
چنانچہ اس حدیث کی تشریح میں حضرت امام بدرالدین عینی رحمة اللہ علیہ جو عمدة القاری شرح بخاری کے موٴلف ہیں لکھتے ہیں ۔ نِسْوَةٌ النَّبِیُّ حَمَلْنَ طُوْلَ الْیَدِ عَلَی الْحَقِیْقَةِ۔رسول پاک ﷺ کی بیویوں نے لمبے ہاتھوں سے مراد حقیقتاً جسمانی طور پر ہاتھوں کا لمباہونا سمجھ لیا ۔فَلَمْ یُنْکِرْ عَلَیْھِنَّ (عمدة القاری شرح صحیح بخاری کتاب الزکوٰة باب فضل الصدقة الشجیح الصحیح) اور رسول پاک ﷺ نے ازواج مطہرات کے اس خیال کا انکار نہیں فرمایا۔یہ جملہ قابل غور ہے ۔وہی بات جو آج سے صدیوں پہلے حضرت امام بدرالدین عینی نے اس حدیث کے الفاظ سے سمجھی اور اپنی شرح عمدة القاری شرح بخاری میں درج کی اسی کو حضرت بانیٴ جماعت احمدیہ اپنی کتاب ازالہ اوہام میں بیان فرما رہے ہیں۔ اگر یہ بات درست نہ تھی تو وہ درج کیوں کرتے۔ تو یہ لفظ فَاَخَذُوْا مذکر کے صیغے اور مذکر کر کے صیغوں پر فا کا لفظ بتاتا ہے کہ یہ کام فوراً ہوا اور مرد کی شمولیت سے ہوا۔ تو ازواج مطہرات کی محفل میں مرداس وقت کون تھا ۔وہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کا وجود تھا۔
Share this:
- Click to share on Facebook (Opens in new window)
- Click to share on Twitter (Opens in new window)
- Click to share on Reddit (Opens in new window)
- Click to share on Tumblr (Opens in new window)
- Click to share on Pinterest (Opens in new window)
- Click to share on Telegram (Opens in new window)
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window)
- Click to email a link to a friend (Opens in new window)
- Click to print (Opens in new window)
Discover more from احمدیت حقیقی اسلام
Subscribe to get the latest posts sent to your email.