چولہ بابا نانکؒ ۔ یہی پاک چولا ہے سکھوں کا تاج ۔ کلام مسیح موعودؑ
چولہ بابا نانک رحمۃ اللہ علیہ
| یہی کابلی مل کے گھر میں ہے آج | یہی پاک چولا ہے سکھوں کا تاج |
| جو دور اِس سے اُس سے خدا دور ہے | یہی ہے کہ نوروں سے معمور ہے |
| جو انگد سے اس وقت مشہور ہے | یہی جنم ساکھی میں مذکور ہے |
| کہ جن سے ملے جاودانی حیات | اسی پر وہ آیات ہیں بیّنات |
| خدا سے جو تھا درد کا چارہ ساز | یہ نانک کو خلعت ملا سرفراز |
| اسی سے وہ حق کی طرف آگیا | اسی سے وہ سب راز حق پاگیا |
| ہر اک بد گہر سے چھوڑایا اسے | اسی نے بلا سے بچایا اسے |
| یہ اس مرد کے تن کا تعویذ ہے | ذرا سوچو سکھو! یہ کیا چیز ہے |
| نصیحت کی باتیں حقیقت کی جاں | یہ اس بھگت کا رہ گیا اک نشاں |
| کہ انساں کے ہاتھوں سے ہیں دست مال | گرنتھوں میں ہے شک کا اک احتمال |
| خدا جانے کیا کیا بناتے رہے | جو پیچھے سے لکھتے لکھاتےرہے |
| کہ انساں نہ ہووے خطا سے جدا | گماں ہے کہ نقلوں میں ہو کچھ خطا |
| وہی ہے جو تھا اس میں کچھ شک نہیں | مگر یہ تو محفوظ ہے بالیقیں |
| تذلل سے جب پیش آتی بلا | اسے سرپہ رکھتے تھے اہل صفا |
| وہ ہر شخص کو یہ کہا کرتے تھے | جو نانک کی مدح و ثنا کرتے تھے |
| وہ چولہ کو دیکھے کہ ہےرہنما | کہ دیکھا نہ ہو جس نے وہ پارسا |
| وہ دیکھے اسی چولہ کو اک نظر | جسے اس کے مَتْ کی نہ ہووے خبر |
| تو ہو جاتا تھا فضل قادر خدا | اسے چوم کر کرتے رو رو دعا |
| کہ نانک بچا جس سے وقت خطر | اسی کا تو تھا معجزانہ اثر |
| اسی کے اثر سے نہ اسباب سے | بچا آگ سے اور بچا آب سے |
| کہ لکھتا ہے اس ساری تقریر کو | ذرہ دیکھو انگد کی تحریر کو |
| کلام خدا اس پہ ہے جابجا | یہ چولا ہے قدرت کا جلوہ نما |
| وہ دیکھے اسے چھوڑ کر کام و کاج | جو شائق ہے نانک کے درشن کا آج |
| یہ ہے نو بہ نواک کرامت عجیب | برس گذرے ہیں چار سو کے قریب |
| بھلا اس میں حکمت تھی کیا درنہاں | یہ نانک سے کیوں رہ گیا اک نشاں |
| بتادے وہ پچھلوں کو نانک کی راہ | یہی تھی کہ اسلام کا ہو گواہ |
| ہوا اس کی دردوں کا اک چارہ گر | خدا سے یہ تھا فضل اس مرد پر |
| یہ تھی اک کلید اس کے اسرار کی | یہ مخفی امانت ہے کرتار کی |
| کہ اس چولہ کو دیکھ کر روتے ہیں | محبت میں صادق وہی ہوتے ہیں |
| سنو قصّۂِ قدرتِ ذوالجلال | سنو مجھ سے اے لوگو! نانک کا حال |
| خردمند خوش خو مبارک صفات | وہ تھا آریہ قوم سے نیک ذات |
| کہ دل میں پڑا اس کے دیں کا خیال | ابھی عمر سے تھوڑے گزرے تھے سال |
| کہ کس راہ سے سچ کو پاوے تمام | اسی جستجو میں وہ رہتا مدام |
| کہ دیکھا بہت اس کی باتوں میں گند | اُسے وید کی راہ نہ آئی پسند |
| لگا ہونے دل اس کا اوپر تلے | جو دیکھا کہ یہ ہیں سڑے اورگلے |
| ضلالت کی تعلیم ناپاک کام | کہا کیسے ہو یہ خدا کا کلام |
| مگر دل میں رکھتا وہ رنج و الم | ہوا پھر تو یہ دیکھ کر سخت غم |
| زباں بند تھی دل میں سو سو ہراس | وہ رہتا تھا اس غم سے ہر دم اداس |
| نہ تھا کوئی ہمراز نے ہمکلام | یہی فکر کھاتا اسے صبح و شام |
| وہ کہتا کہ” اے میرے پیارے پسر! | کبھی باپ کی جبکہ پڑتی نظر |
| وہ غم کیا ہے جس سے تو پامال ہے | میں حیراں ہوں تیرا یہ کیا حال ہے |
| کہو کس سبب تیرا دل تنگ ہے | نہ وہ تیری صورت نہ وہ رنگ ہے |
| کہ کیوں غم میں رہتا ہے اےمیرے لال | مجھے سچ بتا کھول کر اپنا حال |
| مگر دل میں اک خواہش سیر ہے | وہ رو دیتا کہہ کر کہ سب خیر ہے |
| نہ دیکھے بیاباں نہ دیکھا پہاڑ | پھر آخر کو نکلا وہ دیوانہ وار |
| طلب میں سفر کرلیا اختیار | اوتار اپنے موہنڈوں سے دنیا کا بار |
| تنعم کی راہیں نہ آئیں پسند | خدا کے لئے ہوگیا دردمند |
| خدا کی عنایات کی کر کے آس | طلب میں چلا بیخود و بیحواس |
| غرض کیاہے جس سے کیا یہ سفر؟ | جو پوچھا کسی نے چلے ہو کدھر |
| نثار رہ پاک کرتار ہوں | کہا رو کے حق کا طلب گار ہوں |
| کہ اے میرے کرتار مشکل کشا | سفر میں وہ رو رو کے کرتا دعا |
| مگر بندۂِ درگہِ پاک ہوں | میں عاجز ہوں کچھ بھی نہیں خاک ہوں |
| نشاں دے مجھےمردِ آگاہ کا | میں قرباں ہوں دل سے تیری راہ کا |
| جو تیرا ہو وہ اپنا ٹھہراؤنگا | نشاں تیرا پا کر وہیں جاؤنگا |
| کہ جس میں ہو اے میرے تیری رضا | کرم کر کے وہ راہ اپنی بتا |
| کہ پائیگا تو مجھ کو اسلام میں | بتایا گیا اس کو الہام میں |
| وہ اسلام کے راہ میں فرد ہے | مگر مرد عارف فلاں مرد ہے |
| کہ چشتی طریقہ میں تھا دستگیر | ملا تب خدا سے اسے ایک پیر |
| سنا شیخ سے ذکر راہِ صواب | وہ بیعت سے اس کے ہوا فیضیاب |
| ملے پیر کے فیض سے بخت سعد | پھر آیا وطن کی طرف اس کے بعد |
| زبان چپ تھی اور سینہ میں نور تھا | کوئی دن تو پردہ میں مستور تھا |
| شریروں سے چھپ چھپ کے پڑھتا نماز | نہاں دل میں تھا درد و سوز و نیاز |
| تعشق سے جاتے رہے اس کے ہوش | پھر آخر کو مارا صداقت نے جوش |
| محبت نے بڑھ بڑھ کے دکھلائےرنگ | ہوا پھر تو حق کے چھپانے سے تنگ |
| کہ پوشیدہ رکھی سچائی کی راہ | کہا یہ تو مجھ سے ہوا اک گناہ |
| کہ غیروں کے خوفوں سے دل چور تھا | یہ صدق و وفا سے بہت دور تھا |
| کہاروکے اے میرے پروردگار | تصور سے اس بات کے ہو کے زار |
| ترا نام غفّار و ستّار ہے | ترے نام کا مجھ کو اقرار ہے |
| ترے بن ہر اک راہ سالوس ہے | بلا ریب تو حیّ و قدّ وس ہے |
| تو سُبّوح وَإِنّی من الظالمین | مجھے بخش اے خالق العالمین |
| نہیں تیری راہوں میں خوف ہلاک | میں تیرا ہوں اے میرے کرتار پاک |
| محبت تیری خود مری جان ہے | تیرے در پہ جاں میری قربان ہے |
| وہ دے مجھ کو دکھلا کے اسرار کو | وہ طاقت کہ ملتی ہے ابرار کو |
| کہ حاصل ہو جس رہ سے تیری رضا | خطاوار ہوں مجھ کو وہ رہ بتا |
| کہ پکڑا خدا کی عنایت نے ہاتھ | اسی عجز میں تھا تذلل کے ساتھ |
| خدا کا کلام اس پہ تھا بے گماں | ہوا غیب سے ایک چولہ عیاں |
| کہ سچاوہی دین ہے اور رہنما | شہادت تھی اسلام کی جابجا |
| کہ اللہ ہے اک اور محمدنبی صلی اللہ علیہ وسلم | یہ لکھا تھا اس میں بخطَِِّّ جلی |
| اتر جائیگی اس سے وہ ساری گرد | ہوا حکم پہن اس کو اے نیک مرد |
| یہ کفارہ اس کا ہے اے باوفا | جو پوشیدہ رکھنے کی تھی اک خطا |
| دکھایا گیا ہو بہ حکم خدا | یہ ممکن ہے کشفی ہو یہ ماجرا |
| بحکم خدا پھر لکھایا گیا | پھر اُس طرز پر یہ بنایا گیا |
| کہ خود غیب سے ہو یہ سب کاروبار | مگر یہ بھی ممکن ہے اے پختہ کار |
| کہ عقلیں وہاں ہیچ و بیکار ہیں | کہ پردے میں قادر کے اسرار ہیں |
| مگر قدرتش بحربے حدّ و عدّ | تویک قطرہ داری زعقل و خرد |
| مجنبان سر خود چو مستہزیان | اگر بشنوی قصّۂِصادقان |
| مقامات مردان کجا دیدۂ | تو خود را خردمند فہمیدۂ |
| نہ رکھتا تھا مخلوق سے کچھ ہراس | غرض اس نے پہنا وہ فرخ لباس |
| دکھاتا تھا لوگوں کو قدرت کے ہاتھ | وہ پھرتا تھا کوچوں میں چولہ کیساتھ |
| تو ملتی خبر اس کو اس نور سے | کوئی دیکھتا جب اسے دور سے |
| اسے چولہ خود بھید سمجھاتا تھا | جسے دور سے وہ نظر آتا تھا |
| اسی میں وہ ساری خوشی پاتا تھا | وہ ہرلحظہ چولے کو دکھلاتا تھا |
| خطا دور ہو پختہ پیوند ہو | غرض یہ تھی تا یار خورسند ہو |
| وہ ایسے ہی ڈر ڈر کے جاں کھوتے ہیں | جوؔ عشاق اس ذات کے ہوتے ہیں |
| اسی غم میں دیوانہ بن جاتے ہیں | وہ اس یار کو صدق دکھلاتے ہیں |
| وہ ہر لحظہ سو سو طرح مرتے ہیں | وہ جاں اس کی رہ میں فدا کرتے ہیں |
| مگر اس کی ہو جائے حاصل رضا | وہ کھوتے ہیں سب کچھ بصدق و صفا |
| نہ سمجھے کوئی اس کو جز عاشقان | یہ دیوانگی عشق کا ہے نشان |
| یہ نانک نے چولا بنایا شعار | غرض جوش الفت سے مجذوب وار |
| کہ اس بن نہیں دل کو تاب و تواں | مگر اس سے راضی ہو وہ دلستان |
| وہ لعنت سے لوگوں کی کب ڈرتے ہیں | خدا کے جو ہیں وہ یہی کرتے ہیں |
| نہیں کوئی ان کا بجز یار کے | وہ ہو جاتے ہیں سارے دلدار کے |
| کہ سب کچھ وہ کھو کر اسے پاتے ہیں | وہ جاں دینے سے بھی نہ گھبراتے ہیں |
| وہ اس جاں کے ہمراز بن جاتے ہیں | وہ دلبر کی آواز بن جاتے ہیں |
| نہ الہام ہے اور نہ پیوند ہے | وہ ناداں جو کہتا ہے دربند ہے |
| اگر وید ہے یا کوئی اور ہے | نہیں عقل اس کو نہ کچھ غورہے |
| خدا سے خدا کی خبر لاتے ہیں | یہ سچ ہے کہ جو پاک ہو جاتے ہیں |
| تو ہو جائے یہ راہ زیر و زبر | اگر اس طرف سے نہ آوے خبر |
| وہ مر جائیں دیکھیں اگر بند راہ | طلبگار ہو جائیں اس کے تباہ |
| کہ عاشق سے رکھتا ہو یہ بغض و کیں | مگر کوئی معشوق ایسا نہیں |
| کہ وہ راحم و عالم الغیب ہے | خدا پر تو پھر یہ گماں عیب ہے |
| یقیں کر کے جانے کہ ہے مختفی | اگر وہ نہ بولے تو کیوں کر کوئی |
| کوئی اس کے رہ میں نہیں نامراد | وہ کرتا ہے خود اپنے بھگتوں کو یاد |
| اسی سے تو بے خیر و بیکارہے | مگر وید کو اس سے انکار ہے |
| بلا کر دکھاوے نہ جو یار کو | کرے کوئی کیا ایسے طومار کو |
| کہ بولے نہیں جیسے اک گنگ و کر | وہ ویدوں کا ایشر ہے یا اک حجر |
| ذرہ سوچو اے یارو بہر خدا | تو پھر ایسے ویدوں سے حاصل ہی کیا |
| کہ ممکن نہیں خاص اور عام سے | وہ انکار کرتے ہیں الہام سے |
| اسی سے تو کھلتی تھیں آنکھیں ذرا | یہی سالکوں کا تو تھا مدعا |
| کہ بے سود جاں کو فدا کر گئے | اگر یہ نہیں پھر تو وہ مرگئے |
| کہ بعد ان کے ملہم نہ ہوگا کبھی | یہ ویدوں کا دعویٰ سنا ہے ابھی |
| تلاش اس کی عارف کو بے سود ہے | وہ کہتے ہیں یہ کوچہ مسدود ہے |
| کہ رکھتا ہے وہ اپنے احباب سے | وہ غافل ہیں رحماں کے اس داب سے |
| اگر صدق کا کچھ بھی رکھتےاثر | اگر ان کو اس رہ سے ہوتی خبر |
| یہ کیا کہہ دیا وید نے ہائے شرم | تو انکار کو جانتے جائے شرم |
| اسی سے تو ملتا ہے گنج لقا | نہ جانا کہ الہام ہے کیمیا |
| اسی سے تو آنکھیں کھلیں اور گوش | اسی سے تو عارف ہوئے بادہ نوش |
| یہی ایک چشمہ ہے اسرار کا | یہی ہے کہ نائب ہے دیدار کا |
| اسی سے تو ان کی ہوئی جگ میں دھوم | اسی سے ملے ان کو نازک علوم |
| وہ باتوں سےذات اپنی سمجھاتا ہے | خدا پر خدا سے یقیں آتا ہے |
| تو باتوں سے لذت اٹھاتا ہے دل | کوئی یار سے جب لگاتا ہے دل |
| مگر تو ہے منکر تجھے اس سے کیا | کہ دلدار کی بات ہے اک غذا |
| تو واقف نہیں اس سے اے بے ہنر | نہیں تجھ کو اس رہ کی کچھ بھی خبر |
| قسم اس کی۔ اس کی نہیں ہے نظیر | وہ ہے مہربان و کریم و قدیر |
| نہ نقصاں اٹھاویں نہ ہوویں ذلیل | جو ہوں دل سے قربان ربّ جلیل |
| کہ دل سے تھا قربان عالی جناب | اسی سے تو نانک ہوا کامیاب |
| کہ پائے گا تو مجھ کو اسلام میں | بتایا گیا اس کو الہام میں |
| نہ کر وید کا پاس اےپُرغرور | یقین ہے کہ نانک تھا ملہم ضرور |
| کہ ویدوں میں اس کا نہیں کچھ نشان | دیا اس کو کرتار نے وہ گیان |
| چلامکہ کو ہندسے منہ کو موڑ | اکیلا وہ بھاگا ہنودوں کو چھوڑ |
| مسلماں بنا پاک دل بے خلاف | گیا خانہ کعبہ کا کرنے طواف |
| ملی دونوں عالم میں عزت کی جا | لیا اس کو فضل خدا نے اٹھا |
| تجھے بھی یہ رتبہ کرے وہ عطا | اگر تو بھی چھوڑے یہ ملک ہوا |
| جو بیوی سے اور بچوں سے ہو جدا | تو رکھتا نہیں ایک دم بھی روا |
| نہ جی کو تھا چین اور نہ دل کو قرار | مگر وہ تو پھرتا تھا دیوانہ وار |
| کہ ہے اس کی آنکھوں میں کچھ جلوہ گر | ہر اک کہتا تھا دیکھ کر اک نظر |
| لئے پھرتی تھی اس کو دل کی تپش | محبت کی تھی سینہ میں اک خلش |
| رہا گھومتا قلق اور کرب میں | کبھی شرق میں اور کبھی غرب میں |
| مجانیں بھی یہ کام کر لیتے ہیں | پرندے بھی آرام کرلیتے ہیں |
| ادا کر دیا عشق کا کاروبار | مگر وہ تو اک دم نہ کرتا قرار |
| وہ نسخہ بتا جس سے جاگےتو رات | کسی نے یہ پوچھی تھی عاشق سے بات |
| کہاں نیند جب غم کرے چہرہ زرد | کہا نیند کی ہے دوا سوز و درد |
| وہ خود دل نہیں جو کہ بریاں نہیں | وہ آنکھیں نہیں جو کہ گریاں نہیں |
| تجھےکیا خبر عشق ہوتا ہے کیا | تو انکار سے وقت کھوتا ہے کیا |
| مگر کون پوچھے بجز عشق باز | مجھے پوچھو اور میرے دل سے یہ راز |
| خدا کے لئے ہے وہی بختیار | جو برباد ہونا کرے اختیار |
| جو مرتے ہیں وہ ز ندہ ہو جاتے ہیں | جواس کیلئے کھوتے ہیں پاتے ہیں |
| نہیں اس کی ما نندکوئی بھی چیز | وہی وحدہ لا شریک اور عزیز |
| توپھر بھی نہ ہو شکر اس کا ادا | اگر جاں کروں اس کی راہ میں فدا |
| کہ ہے یہ پیارا مجھے جیسے جاں | میں چولے کا کرتا ہوں پھر کچھ بیاں |
| انگد نے لکھا ہے اس میں عیاں | ذرا جنم ساکھی کو پڑھ اےجواں کہ |
| خدا ہی نے لکھا بہ فضل و کرم | کہ قدرت کے ہاتھوں کے تھے وہ رقم |
| محمد نبی اس کا پاک اور یک | وہ کیا ہے یہی ہے کہ اللہ ہے ایک |
| بجز اس کے غم سے رہائی نہیں | بغیر اس کےدل کی صفائی نہیں |
| کھلا فرق دجال و صدیق کا | یہ معیار ہے دیں کے تحقیق کا |
| یہ سب کشمکش اس گھڑی صاف ہے | ذرہ سوچو یارو گر انصاف ہے |
| رہے زور کر کر کے بے مدعا | یہ نانک سے کرنے لگے جب جدا |
| یہ خلعت ہے ہاتھوں سے کرتار کے | کہا دور ہو جاؤ تم ہار کے |
| خدا کا کلام اس پہ ہے جلوہ گر | بشر سے نہیں تا اتارے بشر |
| بتا مجھ کو رہ اپنی خود کر کے پیار | دعا کی تھی اس نے کہ اے کردگار |
| یہ قدرت کے ہاتھوں کا تھا سربسر | یہ چولہ تھا اس کی دعا کا اثر |
| نصیحت تھی مقصدادا کر گیا | یہی چھوڑ کر وہ ولی مرگیا |
| کہ زندوں میں وہ زندہ دل جا ملا | اسے مردہ کہنا خطا ہے خطا |
| ذرا دیکھ کر اس کو آنسو بہا | وہ تن گم ہوا یہ نشاں رہ گیا |
| پیاروں کا چولا ہوا کیوں برا | کہاں ہے محبت کہاں ہے وفا |
| کہ دلبر کا خط دیکھ کر ناگہاں | وفادار عاشق کا ہے یہ نشاں |
| یہی دیں ہے دلدادگاں کا سدا | لگاتا ہے آنکھوں سے ہوکر فدا |
| اسے ایسی باتوں سے رغبت نہیں | مگرجس کے دل میں محبت نہیں |
| ذرا کھینچو تصویرچولے کی صاف | اٹھو جلد تر لاؤ فوٹوگراف |
| فنا سب کا انجام ہے جز خدا | کہ دنیا کو ہرگز نہیں ہے بقا |
| مگر اس کی تصویر رہ جائے پاس | سو لو عکس جلدی کہ اب ہے ہراس |
| یہی رہنما اور یہی پیر ہے | یہ چولا کہ قدرت کی تحریر ہے |
| کہ ہے وہ کلام خدا بے گزاف | یہ انگد نے خود لکھدیا صاف صاف |
| اسی حیّ و قیّوم و غفّار نے | وہ لکھا ہے خود پاک کرتار نے |
| وہی ہے خدا کا کلام صفا | خدا نے جو لکھا وہ کب ہو خطا |
| اٹھو یارو اب مت کرو راہ گم | یہی راہ ہے جس کو بھولے ہو تم |
| ارے جلد آنکھوں سے اپنے لگا | یہ نور خدا ہے خدا سے ملا |
| جو کہتاہوں میں اس پہ رکھنا نظر | ارے لوگو تم کو نہیں کچھ خبر |
| کریں حق کی تکذیب سب بے درنگ | زمانہ تعصب سے رکھتا ہے رنگ |
| کہ ہو متقی مرد اور نیک ذات | وہی دین کے راہوں کی سنتا ہے بات |
| پیارا ہے ان کو غرور اور فساد | مگر دوسرے سارے ہیں پرعناد |
| نہیں بات میں ان کے کچھ بھی فروغ | بناتے ہیں باتیں سراسر دروغ |
| وہ کیا کسر باقی ہے جس سے تو دور | بھلا بعد چولے کے اےُ پرغرور |
| خدا سے تجھے کیوں نہیں ہے خطر؟ | تو ڈرتاہے لوگوں سے اے بے ہنر |
| سنو وہ زباں سے کرے کیا بیان | یہ تحریر چولہ کی ہے اک زبان |
| جو ہو منکر اس کا بد انجام ہے | کہ دین خدا دین اسلام ہے |
| کہ جس کا عدو مثل مردار ہے | محمد وہ نبیوں کا سردار ہے |
| ذرا دیکھ ظالم کہ کرتا ہے کیا | تجھے چولے سے کچھ تو آوے حیا |
| وہ کہنا کہ جس میں نہیں پکش پات | کہو جو رضا ہو مگر سن لو بات |
| وہ انساں نہیں جو نہیں حق گذار | کہ حق جو سے کرتار کرتا ہے پیار |
| تو بھائیو بتاؤ کہ کیا ہے جواب؟ | کہو جبکہ پوچھے گا مولیٰ حساب |
| ذرہ غور سے اس کو سنیو تمام | میں کہتا ہوں اک بات اے نیک نام |
| تمرّد ،وفا سے بہت دور ہے | کہ بیشک یہ چولہ ُ پر از نورہے |
| کہ دو اُس کا اُتّر ذرا بول کر | دکھائیں گے چولہ تمہیں کھول کر |
| گرو سے کہ تھا خلق پر مہربان | یہی پاک چولہ رہا اک نشاں |
| یہی فخر سکھوں کا ہے سربسر | اسی پر دوشالے چڑھے اورزر |
| عمل بد کئے ہوگئے سرنگوں | یہی ملک و دولت کا تھا اک ستوں |
| ذرا سوچو باتوں کو ہو کر امیں | خدا کے لئے چھوڑو اب بغض و کیں |
| جو نانک سے رکھتے تھے تم برملا | وہ صدق و محبت وہ مہر و وفا |
| اگر صدق ہے جلد دوڑو ادھر | دکھاؤ ذرا آج اس کا اثر |
| وہ رستہ چلو جو بتایا تمہیں | گرو نے تو کر کے دکھایا تمہیں |
| جو کرتے ہیں اس کے لئے جاں فدا | کہاں ہیں جو نانک کے ہیں خاک پا |
| جو ہے واک اس کا وہی کرتے ہیں | کہاں ہیں جو اس کے لئے مرتے ہیں |
| جھکاتے ہیں سر اپنے کو کر کے پیار | کہاں ہیں جو ہوتے ہیں اس پر نثار |
| گرو سے ملے جیسے شیر و نبات | کہاں ہیں جو رکھتے ہیں صدق و ثبات |
| تعشق سے قرباں ہوئے جاتے ہیں | کہاں ہیں کہ جب اس سے کچھ پاتے ہیں |
| جو مرنے کو بھی دل سے تیار ہیں | کہاں ہیں جو الفت سے سرشارہیں |
| محبت سے نانک کی معمور ہیں | کہاں ہیں جو وہ بخل سے دور ہیں |
| گرو کے تعشق میں مدہوش ہیں | کہاں ہیں جو اس رہ میں ُ پرجوش ہیں |
| کہ آیا ہے نزدیک اب امتحاں | کہاں ہیں وہ نانک کے عاشق کہاں |
| وہ چیلہ نہیں جو نہ دے سرجھکا | گرو جس کے اس رہ پہ ہوویں فدا |
| تو پھر ہاتھ مل مل کر رونا ہے کل | اگر ہاتھ سے وقت جاوے نکل |
| بنو مرد مردوں کے کردار سے | نہ مردی ہے تیر اور تلوار سے |
| کہ باطل ہے ہر چیز حق کے سوا | سنو آتی ہے ہر طرف سے صدا |
| خبر کیا کہ پیغام آوے ابھی | کوئی دن کے مہمان ہیں ہم سبھی |
| دکھایا کہ اس رہ پہ ہوں میں نثار | گرو نے یہ چولا بنایا شعار |
| جو رکھتے نہیں اس سے کچھ اعتقاد | وہ کیونکر ہو ان ناسعیدوں سے شاد |
| تو راضی کرو گے اسے ہو کے پاک | اگر مان لو گےگرو کا یہ واک |
| عبث ننگ و ناموس کو روتے ہیں | وہ احمق ہیں جو حق کی راہ کھوتے ہیں |
| وصیت میں کیا کہہ گیا برملا | وہ سوچیں کہ کیا لکھ گیا پیشوا |
| محمد کی رہ پر یقیں رکھتے ہیں | کہ اسلام ہم اپنا دیں رکھتے ہیں |
| تمہارا گرو تم کو سمجھا گیا | اٹھو سونے والو کہ وقت آگیا |
| گرو کے سراپوں کاپھل پاؤ گے | نہ سمجھے تو آخر کو پچھتاؤ گے |
Post Views: 860
Share this:
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on Reddit (Opens in new window) Reddit
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on Telegram (Opens in new window) Telegram
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to email a link to a friend (Opens in new window) Email
- Click to print (Opens in new window) Print
Discover more from احمدیت حقیقی اسلام
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
