Search
Close this search box.

چولہ بابا نانکؒ ۔ یہی پاک چولا ہے سکھوں کا تاج ۔ کلام مسیح موعودؑ

فہرست مضامین

Ahmady.org default featured image

چولہ بابا نانکؒ ۔ یہی پاک چولا ہے سکھوں کا تاج ۔ کلام مسیح موعودؑ

چولہ بابا نانک رحمۃ اللہ علیہ

یہی کابلی مل کے گھر میں ہے آجیہی پاک چولا ہے سکھوں کا تاج
جو دور اِس سے اُس سے خدا دور ہےیہی ہے کہ نوروں سے معمور ہے
جو انگد سے اس وقت مشہور ہےیہی جنم ساکھی میں مذکور ہے
کہ جن سے ملے جاودانی حیاتاسی پر وہ آیات ہیں   بیّنات
خدا سے جو تھا درد کا چارہ سازیہ نانک کو خلعت ملا سرفراز
اسی سے وہ حق کی طرف آگیااسی سے وہ سب راز حق پاگیا
ہر اک بد گہر سے چھوڑایا اسےاسی نے بلا سے بچایا اسے
یہ اس مرد کے تن کا تعویذ ہےذرا سوچو سکھو! یہ کیا چیز ہے
نصیحت کی باتیں حقیقت کی جاںیہ اس بھگت کا رہ گیا اک نشاں
کہ انساں کے ہاتھوں سے ہیں دست مالگرنتھوں میں ہے شک کا اک احتمال
خدا جانے کیا کیا بناتے رہےجو پیچھے سے لکھتے لکھاتےرہے
کہ انساں نہ ہووے خطا سے جداگماں ہے کہ نقلوں میں ہو کچھ خطا
وہی ہے جو تھا اس میں کچھ شک نہیںمگر یہ تو محفوظ ہے بالیقیں
تذلل سے جب پیش آتی بلااسے سرپہ رکھتے تھے اہل صفا
وہ ہر شخص کو یہ کہا کرتے تھےجو نانک کی مدح و ثنا کرتے تھے
وہ چولہ کو دیکھے کہ ہےرہنماکہ دیکھا نہ ہو جس نے وہ پارسا
وہ دیکھے اسی چولہ کو اک نظرجسے اس کے مَتْ کی نہ ہووے خبر
تو ہو جاتا تھا فضل قادر خدااسے چوم کر کرتے رو رو دعا
کہ نانک بچا جس سے وقت خطراسی کا تو تھا معجزانہ اثر
اسی کے اثر سے نہ اسباب سےبچا آگ سے اور بچا آب سے
کہ لکھتا ہے اس ساری تقریر کوذرہ دیکھو انگد کی تحریر کو
کلام خدا اس پہ ہے جابجایہ چولا ہے قدرت کا جلوہ نما
وہ دیکھے اسے چھوڑ کر کام و کاججو شائق ہے نانک کے درشن کا آج
یہ ہے نو بہ نواک کرامت عجیببرس گذرے ہیں چار سو کے قریب
بھلا اس میں حکمت تھی کیا درنہاںیہ نانک سے کیوں رہ گیا اک نشاں
بتادے وہ پچھلوں کو نانک کی راہیہی تھی کہ اسلام کا ہو گواہ
ہوا اس کی دردوں کا اک چارہ گرخدا سے یہ تھا فضل اس مرد پر
یہ تھی اک کلید اس کے اسرار کییہ مخفی امانت ہے کرتار کی
کہ اس چولہ کو دیکھ کر روتے ہیںمحبت میں صادق وہی ہوتے ہیں
سنو قصّۂِ قدرتِ ذوالجلالسنو مجھ سے اے لوگو! نانک کا حال
خردمند خوش خو مبارک صفاتوہ تھا آریہ قوم سے نیک ذات
کہ دل میں پڑا اس کے دیں کا خیالابھی عمر سے تھوڑے گزرے تھے سال
کہ کس راہ سے سچ کو پاوے تماماسی جستجو میں وہ رہتا مدام
کہ دیکھا بہت اس کی باتوں میں گنداُسے وید کی راہ نہ آئی پسند
لگا ہونے دل اس کا اوپر تلےجو دیکھا کہ یہ ہیں سڑے اورگلے
ضلالت کی تعلیم ناپاک کامکہا کیسے ہو یہ خدا کا کلام
مگر دل میں رکھتا وہ رنج و المہوا پھر تو یہ دیکھ کر سخت غم
زباں بند تھی دل میں سو سو ہراسوہ رہتا تھا اس غم سے ہر دم اداس
نہ تھا کوئی ہمراز نے ہمکلامیہی فکر کھاتا اسے صبح و شام
وہ کہتا کہ” اے میرے پیارے پسر!کبھی باپ کی جبکہ پڑتی نظر
وہ غم کیا ہے جس سے تو پامال ہےمیں حیراں ہوں تیرا یہ کیا حال ہے
کہو کس سبب تیرا دل تنگ ہےنہ وہ تیری صورت نہ وہ رنگ ہے
کہ کیوں غم میں رہتا ہے اےمیرے لالمجھے سچ بتا کھول کر اپنا حال
مگر دل میں اک خواہش سیر ہےوہ رو دیتا کہہ کر کہ سب خیر ہے
نہ دیکھے بیاباں نہ دیکھا پہاڑپھر آخر کو نکلا وہ دیوانہ وار
طلب میں سفر کرلیا اختیاراوتار اپنے موہنڈوں سے دنیا کا بار
تنعم کی راہیں نہ آئیں پسندخدا کے لئے ہوگیا دردمند
خدا کی عنایات کی کر کے آسطلب میں چلا بیخود و بیحواس
غرض کیاہے جس سے کیا یہ سفر؟جو پوچھا کسی نے چلے ہو کدھر
نثار رہ پاک کرتار ہوںکہا رو کے حق کا طلب گار ہوں
کہ اے میرے کرتار مشکل کشاسفر میں وہ رو رو کے کرتا دعا
مگر بندۂِ درگہِ پاک ہوںمیں عاجز ہوں کچھ بھی نہیں خاک ہوں
نشاں دے مجھےمردِ آگاہ کامیں قرباں ہوں دل سے تیری راہ کا
جو تیرا ہو وہ اپنا ٹھہراؤنگانشاں تیرا پا کر وہیں جاؤنگا
کہ جس میں ہو اے میرے تیری رضاکرم کر کے وہ راہ اپنی بتا
کہ پائیگا تو مجھ کو اسلام میںبتایا گیا اس کو الہام میں
وہ اسلام کے راہ میں فرد ہےمگر مرد عارف فلاں مرد ہے
کہ چشتی طریقہ میں تھا دستگیرملا تب خدا سے اسے ایک پیر
سنا شیخ سے ذکر راہِ صوابوہ بیعت سے اس کے ہوا فیضیاب
ملے پیر کے فیض سے بخت سعدپھر آیا وطن کی طرف اس کے بعد
زبان چپ تھی اور سینہ میں نور تھاکوئی دن تو پردہ میں مستور تھا
شریروں سے چھپ چھپ کے پڑھتا نمازنہاں دل میں تھا درد و سوز و نیاز
تعشق سے جاتے رہے اس کے ہوشپھر آخر کو مارا صداقت نے جوش
محبت نے بڑھ بڑھ کے دکھلائےرنگہوا پھر تو حق کے چھپانے سے تنگ
کہ پوشیدہ رکھی سچائی کی راہ کہا یہ تو مجھ سے ہوا اک گناہ
کہ غیروں کے خوفوں سے دل چور تھایہ صدق و وفا سے بہت دور تھا
کہاروکے اے میرے پروردگارتصور سے اس بات کے ہو کے زار
ترا نام غفّار و ستّار ہےترے نام کا مجھ کو اقرار ہے
ترے بن ہر اک راہ سالوس ہےبلا ریب تو حیّ و قدّ وس ہے
تو سُبّوح وَإِنّی من الظالمینمجھے بخش اے خالق العالمین
نہیں تیری راہوں میں خوف ہلاکمیں تیرا ہوں اے میرے کرتار پاک
محبت تیری خود مری جان ہےتیرے در پہ جاں میری قربان ہے
وہ دے مجھ کو دکھلا کے اسرار کووہ طاقت کہ ملتی ہے ابرار کو
کہ حاصل ہو جس رہ سے تیری رضاخطاوار ہوں مجھ کو وہ رہ بتا
کہ پکڑا خدا کی عنایت نے ہاتھاسی عجز میں تھا تذلل کے ساتھ
خدا کا کلام اس پہ تھا بے گماںہوا غیب سے ایک چولہ عیاں
کہ سچاوہی دین ہے اور رہنماشہادت تھی اسلام کی جابجا
کہ اللہ ہے اک اور محمدنبی صلی اللہ علیہ وسلمیہ لکھا تھا اس میں بخطَِِّّ جلی
اتر جائیگی اس سے وہ ساری گردہوا حکم پہن اس کو اے نیک مرد
یہ کفارہ اس کا ہے اے باوفاجو پوشیدہ رکھنے کی تھی اک خطا
دکھایا گیا ہو بہ حکم خدایہ ممکن ہے کشفی ہو یہ ماجرا
بحکم خدا پھر لکھایا گیاپھر اُس طرز پر یہ بنایا گیا
کہ خود غیب سے ہو یہ سب کاروبارمگر یہ بھی ممکن ہے اے پختہ کار
کہ عقلیں وہاں ہیچ و بیکار ہیںکہ پردے میں قادر کے اسرار ہیں
مگر قدرتش بحربے حدّ و عدّتویک قطرہ داری زعقل و خرد
مجنبان سر خود چو مستہزیاناگر بشنوی قصّۂِصادقان
مقامات مردان کجا دیدۂتو خود را خردمند فہمیدۂ
نہ رکھتا تھا مخلوق سے کچھ ہراسغرض اس نے پہنا وہ فرخ لباس
دکھاتا تھا لوگوں کو قدرت کے ہاتھوہ پھرتا تھا کوچوں میں چولہ کیساتھ
تو ملتی خبر اس کو اس نور سےکوئی دیکھتا جب اسے دور سے
اسے چولہ خود بھید سمجھاتا تھاجسے دور سے وہ نظر آتا تھا
اسی میں وہ ساری خوشی پاتا تھاوہ ہرلحظہ چولے کو دکھلاتا تھا
خطا دور ہو پختہ پیوند ہوغرض یہ تھی تا یار خورسند ہو
وہ ایسے ہی ڈر ڈر کے جاں کھوتے ہیںجوؔ عشاق اس ذات کے ہوتے ہیں
اسی غم میں دیوانہ بن جاتے ہیںوہ اس یار کو صدق دکھلاتے ہیں
وہ ہر لحظہ سو سو طرح مرتے ہیںوہ جاں اس کی رہ میں فدا کرتے ہیں
مگر اس کی ہو جائے حاصل رضاوہ کھوتے ہیں سب کچھ بصدق و صفا
نہ سمجھے کوئی اس کو جز عاشقانیہ دیوانگی عشق کا ہے نشان
یہ نانک نے چولا بنایا شعارغرض جوش الفت سے مجذوب وار
کہ اس بن نہیں دل کو تاب و تواںمگر اس سے راضی ہو وہ دلستان
وہ لعنت سے لوگوں کی کب ڈرتے ہیںخدا کے جو ہیں وہ یہی کرتے ہیں
نہیں کوئی ان کا بجز یار کےوہ ہو جاتے ہیں سارے دلدار کے
کہ سب کچھ وہ کھو کر اسے پاتے ہیںوہ جاں دینے سے بھی نہ گھبراتے ہیں
وہ اس جاں کے ہمراز بن جاتے ہیںوہ دلبر کی آواز بن جاتے ہیں
نہ الہام ہے اور نہ پیوند ہےوہ ناداں جو کہتا ہے دربند ہے
 اگر وید ہے یا کوئی اور ہےنہیں عقل اس کو نہ کچھ غورہے
خدا سے خدا کی خبر لاتے ہیںیہ سچ ہے کہ جو پاک ہو جاتے ہیں
تو ہو جائے یہ راہ زیر و زبراگر اس طرف سے نہ آوے خبر
وہ مر جائیں دیکھیں اگر بند راہطلبگار ہو جائیں اس کے تباہ
کہ عاشق سے رکھتا ہو یہ بغض و کیںمگر کوئی معشوق ایسا نہیں
کہ وہ راحم و عالم الغیب ہےخدا پر تو پھر یہ گماں عیب ہے
یقیں کر کے جانے کہ ہے مختفیاگر وہ نہ بولے تو کیوں کر کوئی
کوئی اس کے رہ میں نہیں نامرادوہ کرتا ہے خود اپنے بھگتوں کو یاد
اسی سے تو بے خیر و بیکارہےمگر وید کو اس سے انکار ہے
بلا کر دکھاوے نہ جو یار کوکرے کوئی کیا ایسے طومار کو
کہ بولے نہیں جیسے اک گنگ و کروہ ویدوں کا ایشر ہے یا اک حجر
ذرہ سوچو اے یارو بہر خداتو پھر ایسے ویدوں سے حاصل ہی کیا
کہ ممکن نہیں خاص اور عام سےوہ انکار کرتے ہیں الہام سے
اسی سے تو کھلتی تھیں آنکھیں ذرایہی سالکوں کا تو تھا مدعا
کہ بے سود جاں کو فدا کر گئےاگر یہ نہیں پھر تو وہ مرگئے
کہ بعد ان کے ملہم نہ ہوگا کبھییہ ویدوں کا دعویٰ سنا ہے ابھی
تلاش اس کی عارف کو بے سود ہےوہ کہتے ہیں یہ کوچہ مسدود ہے
کہ رکھتا ہے وہ اپنے احباب سےوہ غافل ہیں رحماں کے اس داب سے
اگر صدق کا کچھ بھی رکھتےاثراگر ان کو اس رہ سے ہوتی خبر
یہ کیا کہہ دیا وید نے ہائے شرمتو انکار کو جانتے جائے شرم
اسی سے تو ملتا ہے گنج لقانہ جانا کہ الہام ہے کیمیا
اسی سے تو آنکھیں  کھلیں اور گوشاسی سے تو عارف ہوئے بادہ نوش
یہی ایک چشمہ ہے اسرار کایہی ہے کہ نائب ہے دیدار کا
اسی سے تو ان کی ہوئی جگ میں دھوماسی سے ملے ان کو نازک علوم
وہ باتوں سےذات اپنی سمجھاتا ہےخدا پر خدا سے یقیں آتا ہے
تو باتوں سے لذت اٹھاتا ہے دلکوئی یار سے جب لگاتا ہے دل
مگر تو ہے منکر تجھے اس سے کیاکہ دلدار کی بات ہے اک غذا
تو واقف نہیں اس سے اے بے ہنرنہیں تجھ کو اس رہ کی کچھ بھی خبر
قسم اس کی۔ اس کی نہیں ہے نظیروہ ہے مہربان و کریم و قدیر
نہ نقصاں اٹھاویں نہ ہوویں ذلیلجو ہوں دل سے قربان ربّ جلیل
کہ دل سے تھا قربان عالی جناباسی سے تو نانک ہوا کامیاب
کہ پائے گا تو مجھ کو اسلام میںبتایا گیا اس کو الہام میں
نہ کر وید کا پاس اےپُرغروریقین ہے کہ نانک تھا ملہم ضرور
کہ ویدوں میں اس کا نہیں کچھ نشاندیا اس کو کرتار نے وہ گیان
چلامکہ کو ہندسے منہ کو موڑاکیلا وہ بھاگا ہنودوں کو چھوڑ
مسلماں بنا پاک دل بے خلافگیا خانہ کعبہ کا کرنے طواف
ملی دونوں عالم میں عزت کی جالیا اس کو فضل خدا نے اٹھا
تجھے بھی یہ رتبہ کرے وہ عطااگر تو بھی چھوڑے یہ ملک ہوا
جو بیوی سے اور بچوں سے ہو جداتو رکھتا نہیں ایک دم بھی روا
نہ جی کو تھا چین اور نہ دل کو قرارمگر وہ تو پھرتا تھا دیوانہ وار
کہ ہے اس کی آنکھوں میں کچھ جلوہ گرہر اک کہتا تھا دیکھ کر اک نظر
لئے پھرتی تھی اس کو دل کی تپشمحبت کی تھی سینہ میں اک خلش
رہا گھومتا قلق اور کرب میںکبھی شرق میں اور کبھی غرب میں
مجانیں بھی یہ کام کر لیتے ہیںپرندے بھی آرام کرلیتے ہیں
ادا کر دیا عشق کا کاروبارمگر وہ تو اک دم نہ کرتا قرار
وہ نسخہ بتا جس سے جاگےتو راتکسی نے یہ پوچھی تھی عاشق سے بات
کہاں نیند جب غم کرے چہرہ زردکہا نیند کی ہے دوا سوز و درد
وہ خود دل نہیں جو کہ بریاں نہیںوہ آنکھیں نہیں جو کہ گریاں نہیں
تجھےکیا خبر عشق ہوتا ہے کیاتو انکار سے وقت کھوتا ہے کیا
مگر کون پوچھے بجز عشق بازمجھے پوچھو اور میرے دل سے یہ راز
خدا کے لئے ہے وہی بختیارجو برباد ہونا کرے اختیار
جو مرتے ہیں وہ ز ندہ ہو جاتے ہیںجواس کیلئے کھوتے ہیں پاتے ہیں
نہیں اس کی ما نندکوئی بھی چیزوہی وحدہ لا شریک اور عزیز
توپھر بھی نہ ہو شکر اس کا ادااگر جاں کروں اس کی راہ میں فدا
کہ ہے یہ پیارا مجھے جیسے جاںمیں چولے کا کرتا ہوں پھر کچھ بیاں
انگد نے لکھا ہے اس میں عیاںذرا جنم ساکھی کو پڑھ اےجواں کہ
خدا ہی نے لکھا بہ فضل و کرمکہ قدرت کے ہاتھوں کے تھے وہ رقم
محمد نبی اس کا پاک اور یکوہ کیا ہے یہی ہے کہ اللہ ہے ایک
بجز اس کے غم سے رہائی نہیںبغیر اس کےدل کی صفائی نہیں
کھلا فرق دجال و صدیق کایہ معیار ہے دیں کے تحقیق کا
یہ سب کشمکش اس گھڑی صاف ہےذرہ سوچو یارو گر انصاف ہے
رہے زور کر کر کے بے مدعایہ نانک سے کرنے لگے جب جدا
یہ خلعت ہے ہاتھوں سے کرتار کےکہا دور ہو جاؤ تم ہار کے
خدا کا کلام اس پہ ہے جلوہ گربشر سے نہیں تا اتارے بشر
بتا مجھ کو رہ اپنی خود کر کے پیاردعا کی تھی اس نے کہ اے کردگار
یہ قدرت کے ہاتھوں کا تھا سربسریہ چولہ تھا اس کی دعا کا اثر
نصیحت تھی مقصدادا کر گیایہی چھوڑ کر وہ ولی مرگیا
کہ زندوں میں وہ زندہ دل جا ملااسے مردہ کہنا خطا ہے خطا
ذرا دیکھ کر اس کو آنسو بہاوہ تن گم ہوا یہ نشاں رہ گیا
پیاروں کا چولا ہوا کیوں براکہاں ہے محبت کہاں ہے وفا
کہ دلبر کا خط دیکھ کر ناگہاںوفادار عاشق کا ہے یہ نشاں
یہی دیں ہے دلدادگاں کا سدالگاتا ہے آنکھوں سے ہوکر فدا
اسے ایسی باتوں سے رغبت نہیںمگرجس کے دل میں محبت نہیں
ذرا کھینچو تصویرچولے کی صافاٹھو جلد تر لاؤ فوٹوگراف
فنا سب کا انجام ہے جز خداکہ دنیا کو ہرگز نہیں ہے بقا
مگر اس کی تصویر رہ جائے پاسسو لو عکس جلدی کہ اب ہے ہراس
یہی رہنما اور یہی پیر ہےیہ چولا کہ قدرت کی تحریر ہے
کہ ہے وہ کلام خدا بے گزافیہ انگد نے خود لکھدیا صاف صاف
اسی حیّ و قیّوم و غفّار نےوہ لکھا ہے خود پاک کرتار نے
وہی ہے خدا کا کلام صفاخدا نے جو لکھا وہ کب ہو خطا
اٹھو یارو اب مت کرو راہ گمیہی راہ ہے جس کو بھولے ہو تم
ارے جلد آنکھوں سے اپنے لگایہ نور خدا ہے خدا سے ملا
جو کہتاہوں میں اس پہ رکھنا نظرارے لوگو تم کو نہیں کچھ خبر
کریں حق کی تکذیب سب بے درنگزمانہ تعصب سے رکھتا ہے رنگ
کہ ہو متقی مرد اور نیک ذاتوہی دین کے راہوں کی سنتا ہے بات
پیارا ہے ان کو غرور اور فسادمگر دوسرے سارے ہیں پرعناد
نہیں بات میں ان کے کچھ بھی فروغبناتے ہیں باتیں سراسر دروغ
وہ کیا کسر باقی ہے جس سے تو دوربھلا بعد چولے کے اےُ پرغرور
خدا سے تجھے کیوں نہیں ہے خطر؟تو ڈرتاہے لوگوں سے اے بے ہنر
سنو وہ زباں سے کرے کیا بیانیہ تحریر چولہ کی ہے اک زبان
جو ہو منکر اس کا بد انجام ہےکہ دین خدا دین اسلام ہے
کہ جس کا عدو مثل مردار ہےمحمد وہ نبیوں کا سردار ہے
ذرا دیکھ ظالم کہ کرتا ہے کیاتجھے چولے سے کچھ تو آوے حیا
وہ کہنا کہ جس میں نہیں پکش پاتکہو جو رضا ہو مگر سن لو بات
وہ انساں نہیں جو نہیں حق گذارکہ حق جو سے کرتار کرتا ہے پیار
تو بھائیو بتاؤ کہ کیا ہے جواب؟کہو جبکہ پوچھے گا مولیٰ حساب
ذرہ غور سے اس کو سنیو تماممیں کہتا ہوں اک بات اے نیک نام
تمرّد ،وفا سے بہت دور ہےکہ بیشک یہ چولہ ُ پر از نورہے
کہ دو اُس کا اُتّر ذرا بول کردکھائیں گے چولہ تمہیں کھول کر
گرو سے کہ تھا خلق پر مہربانیہی پاک چولہ رہا اک نشاں
یہی فخر سکھوں کا ہے سربسراسی پر دوشالے چڑھے اورزر
عمل بد کئے ہوگئے سرنگوںیہی ملک و دولت کا تھا اک ستوں
ذرا سوچو باتوں کو ہو کر امیںخدا کے لئے چھوڑو اب بغض و کیں
جو نانک سے رکھتے تھے تم برملاوہ صدق و محبت وہ مہر و وفا
اگر صدق ہے جلد دوڑو ادھردکھاؤ ذرا آج اس کا اثر
وہ رستہ چلو جو بتایا تمہیںگرو نے تو کر کے دکھایا تمہیں
جو کرتے ہیں اس کے لئے جاں فداکہاں ہیں جو نانک کے ہیں خاک پا
جو ہے واک اس کا وہی کرتے ہیںکہاں ہیں جو اس کے لئے مرتے ہیں
جھکاتے ہیں سر اپنے کو کر کے پیارکہاں ہیں جو ہوتے ہیں اس پر نثار
گرو سے ملے جیسے شیر و نباتکہاں ہیں جو رکھتے ہیں صدق و ثبات
تعشق سے قرباں ہوئے جاتے ہیںکہاں ہیں کہ جب اس سے کچھ پاتے ہیں
جو مرنے کو بھی دل سے تیار ہیںکہاں ہیں جو الفت سے سرشارہیں
محبت سے نانک کی معمور ہیںکہاں ہیں جو وہ بخل سے دور ہیں
گرو کے تعشق میں مدہوش ہیںکہاں ہیں جو اس رہ میں ُ پرجوش ہیں
کہ آیا ہے نزدیک اب امتحاںکہاں ہیں وہ نانک کے عاشق کہاں
وہ چیلہ نہیں جو نہ دے سرجھکاگرو جس کے اس رہ پہ ہوویں فدا
تو پھر ہاتھ مل مل کر رونا ہے کلاگر ہاتھ سے وقت جاوے نکل
بنو مرد مردوں کے کردار سےنہ مردی ہے تیر اور تلوار سے
کہ باطل ہے ہر چیز حق کے سواسنو آتی ہے ہر طرف سے صدا
خبر کیا کہ پیغام آوے ابھیکوئی دن کے مہمان ہیں ہم سبھی
دکھایا کہ اس رہ پہ ہوں میں نثارگرو نے یہ چولا بنایا شعار
جو رکھتے نہیں اس سے کچھ اعتقادوہ کیونکر ہو ان ناسعیدوں سے شاد
تو راضی کرو گے اسے ہو کے پاکاگر مان لو گےگرو کا یہ واک
عبث ننگ و ناموس کو روتے ہیںوہ احمق ہیں جو حق کی راہ کھوتے ہیں
وصیت میں کیا کہہ گیا برملاوہ سوچیں کہ کیا لکھ گیا پیشوا
محمد کی رہ پر یقیں رکھتے ہیںکہ اسلام ہم اپنا دیں رکھتے ہیں
تمہارا گرو تم کو سمجھا گیااٹھو سونے والو کہ وقت آگیا
گرو کے سراپوں کاپھل پاؤ گےنہ سمجھے تو آخر کو پچھتاؤ گے
ست بچن صفحہ41مطبوعہ 1895ء

Discover more from احمدیت حقیقی اسلام

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply