Search
Close this search box.

احمدیہ تعلیمی پاکٹ بک – ملک عبد الرحمٰن خادم صاحب ۔ توفی معنی قبض روح یعنی موت ۔ لغت عرب ۔ صفحہ 184 میں دیے گئے حوالے کا سکین

فہرست مضامین

Ahmady.org default featured image

احمدیہ تعلیمی پاکٹ بک

ملک عبد الرحمٰن خادم صاحب

توفی معنی قبض روح یعنی موت ۔ لغت عرب

صفحہ 184 میں دیے گئے حوالے کا سکین

احمدیہ تعلیمی پاکٹ بک – ملک عبد الرحمٰن خادم صاحب ۔ توفی معنی قبض روح یعنی موت ۔ لغت عرب ۔ صفحہ 183 میں دیے گئے حوالے کا سکین

[insert_php] for($i=1; $i<=9; $i++){ echo '‘;
}
[/insert_php] [insert_php] for($i=10; $i<=11; $i++){ echo '‘;
}
[/insert_php]

Discover more from احمدیت حقیقی اسلام

Subscribe to get the latest posts to your email.

One Response

  1. کلیات ابو البقاء میں عوام کے استعمال کے ساتھ بلغاء کا استعمال الاستیفاء پورا پورا لے لینا بھی لکھا ہے اسی طرح لسان العرب وغیرہ میں بھی یہی معانی لکھے ہیں پورا پورا لے لینا اور ساتھ ہی موجود ہیں،
    منافقین اور مسلمانوں کو وہ بھی دیکھ لینے چاہیئیں
    ۔پہلا وعدہ لفظ ’’توفی‘‘ سے فرمایا گیا ہے۔ اس کے حروف اصلیہ ’’وفا‘‘ ہیں۔ جس کے معنی ہیں پورا کرنا۔ چنانچہ استعمال عرب ہے وفی بعھدہ اپنا وعدہ پورا کیا۔
    (لسان العرب)
    باب تفعل میں جانے کے بعد اس کے معنی ہیں: اخذ الشئی وافیاً (بیضاوی) یعنی کسی چیز کو پورا پورا لینا۔ توفی کا یہ مفہوم جنس کے درجہ میں ہے۔ جس کے تحت یہ تمام انواع آتی ہیں۔ موت، نیند اور رفع جسمانی۔ چنانچہ امام رازیؒ فرماتے ہیں: ’’قولہ (انی متوفیک) یدل علی حصول التوفی وھو جنس تحتہ انواع بعضھا بالموت وبعضھا بالاصعاد الی السماء فلما قال بعدہ (و رافعک الیّٰ) کان ھذا تعیینا للنوع و لم یکن تکراراً‘‘ (تفسیر کبیر زیر آیت یعیسیٰ انی متوفیک ص۷۲ جز۸)
    ترجمہ: ’’باری تعالیٰ کا ارشاد انی متوفیک صرف حصول توفی پر دلالت کرتا ہے اور وہ ایک جنس ہے۔ جس کے تحت کئی انواع ہیں۔ کوئی بالموت اور کوئی بالرفع الی السمائ۔ پس جب باری تعالیٰ نے اس کے بعد ورافعک الیّٰ فرمایا تو اس نوع کو متعین کرنا ہوا۔ (رفع الی السمائ) نہ کہ تکرار۔‘‘
    یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ کسی لفظ جنس کو بول کر اس کی خاص نوع مراد لینے کے لئے قرینہ حالیہ و مقالیہ کا پایا جانا ضروری ہے۔ تو یہاں توفی بمعنی رفع جسمانی الی السماء لینے کے لئے ایک قرینہ یہ ہے کہ اس کے فوراً بعد ورافعک الیّٰ فرمایا گیا۔ رفع کے معنی ہیں اوپر اٹھا لینا۔ کیونکہ رفع، وضع وخفض کی ضد ہے۔ جس کے معنی نیچے رکھنا اور پست کرنا اور دوسرا قرینہ ومطھرک من الذین کفرواہے۔ کیونکہ تطہیر کا مطلب یہی ہے کہ کفار (یہود) کے ناپاک ہاتھوں سے آپ کو صاف بچالوں گا۔ چنانچہ ابی جرؒیج سے محدث ابن جریرؒ نے نقل فرمایا ہے: ’’عن ابی جریج قولہ (انی متوفیک ورافعک الیّٰ ومطھرک من الذین کفروا) قال فرفعہ ایاہ الیہ توفیہ ایاہ وتطھیرہ من الذین کفروا‘‘ (تفسیر ابن جریر ج ۳ ص ۲۹۰)
    ’’باری تعالیٰ کا ارشاد گرامی متوفیک! کی تفسیر یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی طرف اٹھالینا ہی آپ کی توفی ہے اور یہی کفار سے ان کی تطہیر ہے۔‘‘
    اور تیسرا قرینہ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت مرفوعہ ہے۔ جس کو امام بیہقیؒ نے نقل فرمایا ہے اور جس میں نزول من السماء کی تصریح ہے: ’’کیف انتم اذا نزل ابن مریم من السماء فیکم‘‘ (کتاب الاسماء والصفات ص :۲۰۳)
    اس لئے کہ نزول سے پہلے رفع کا ثبوت ضروری ہے۔ اسی طرح جب یہ لفظ موت کے معنی دے گا۔ تو قرینہ کی احتیاج ہوگی مثلاً:
    ’’قل یتوفٰکم ملک الموت الذی وکل بکم (الم سجدہ:۱۱) ‘‘
    ترجمہ: ’’اے پیغمبر! ان سے کہہ دو کہ تم کو قبض کرے گا۔ملک الموت جو تم پر مقرر کیا گیا ہے۔ (یعنی تم کو مارے گا)‘‘
    اس میں ملک الموت قرینہ ہے۔ دیگر متعدد آیات میں بھی بربنائے قرائن توفی بمعنی موت آیا ہے۔ کیونکہ موت میں بھی توفی یعنی پوری پوری گرفت ہوتی ہے۔ ایسے ہی جہاں نیند کے معنی دے گا۔ تو بھی قرینہ کی ضرورت ہوگی۔
    مثلاً: ’’وھوالذی یتوفٰکم باللیل (انعام:۶۰)‘‘ ترجمہ: ’’خدا ایسی ذات ہے کہ تم کو رات کے وقت پورا لے لیتا ہے۔ یعنی سلادیتا ہے۔‘‘
    یہاں لیل اس بات کا قرینہ ہے کہ توفی سے مراد نوم ہے۔ کیونکہ وہ بھی توفی (پوری پوری گرفت) کی ایک نوع ہے۔ یہ تمام تفصیلات بلغاء کے استعمال کے مطابق ہیں۔ البتہ عام لوگ توفی کو اماتت اور قبض روح کے معنی میں استعمال کرتے ہیں۔ چنانچہ کلیات ابوالبقاء میں ہے: ’’التوفی الاماتۃ وقبض الروح وعلیہ استعمال العامۃ او الاستیفاء واخذ الحق وعلیہ استعمال البلغاء‘‘ (کلیات ابوالبقاء:۱۲۹)
    یعنی عام لوگ تو توفی کو اماتت اور قبض روح کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور بلغاء پورا پورا وصول کرنے اور حق لے لینے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں۔
    بہرحال زیر بحث آیت کریمہ میں بربنائے قرائن توفی کے معنی قبض اور پورا پورا۔ یعنی جسم مع الروح کو اپنی تحویل میں لے لینے کے ہیں، اماتت کے نہیں ہیں۔ البتہ قبض روح بصورت نیند کے معنی ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ قبض روح کی دو صورتیں ہیں۔ ایک مع الامساک اور دوسری مع الارسال۔ تو اس آیت میں توفی بقرینہ رافعک الیّٰ بمعنی نیند ہوسکتی ہے اور یہ ہمارے مدعا کے خلاف نہیں ہوگا۔ کیونکہ نیند اور رفع جسمی میں جمع ممکن ہے۔ چنانچہ مفسرین کی ایک جماعت نے اس کو اختیار کیا ہے: ’’(الثانی) المراد بالتوفی النوم ومنہ قولہ تعالیّٰ ﷲ یتوفی الانفس حین موتھا والتی لم تمت فی منامھا) فجعل النوم وفاۃ وکان عیسیٰ قد نام فرفعہ ﷲ وھو نائم لئلا یلحقہ خوف‘‘ (خازن ج۱ ص۲۵۵)

Leave a Reply