Search
Close this search box.

تصدیق المسیح ۔ اسمہ احمد کا مصداق ۔ سورت الصف آیت 6 ۔ سعید الحسن

تصدیق المسیح ۔ اسمہ احمد کا مصداق ۔ سورت الصف آیت 6 ۔ سعید الحسن

 

حضت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے مخالفین کا یہ عوری ہے کہ وہ ان سے بڑھ کر انبیاء کی عزت کرنے والے اور قرآن کریم کی حریت کا لحاظ کہنے والے ہیں۔ وہ اپنے اس دعوئی میں اس قدر غار سے کام لیتے ہیں کہ حضرت اقدس مسیح موجود علیہ السلام کو با وجود اعتراف خدمت اسلام و دفاع عن اعداد الاسلام کے ایک کافر اور سلام کا دشمن قرار دیتے ہیں ہمیں دیکھنا ہے کہ وہ لوگ اپنے دعوے میں صادق ہیں یا نہیں۔ انبیا سے محبت رکھنے کی علامت کیا ہے ان قرآن مجید کے سمجھنے اور اسکے ارشادات پر ایمان لانے کی کیا نشانیاں ہیں۔ لاریب ہر ایسے شخص کا عقیدہ یہ ہوا چاہئے کہ وہ قرآن کریم کونہ صرف ایک غیر مبدل کتاب زاد گه شته کے لحاظ سے مانے بلکہ اسکا یہ بھی عقیدہ ہونا چاہیے کہ انڈ زمانہ میں قرآن کریم ہستی کی تبدیلی، تحریف، ترسیم نانی سے عام میں سے کہ لغوی ہو یا معنوی محفوظ رہے گا نا تھی نزلنا الذكر وا ناله لمحافظون – اس ضمن میں یہ سوال خود بیخود حل ہو جا تا ہے کہ قرآن مجید کی آیات پہ اک زمانہ میں قائم رہ ہیں اور ایسا نہ ہوگا کہ کسی نے میں وہ کچھ سنی دین اور کسی زمانہ میں کھا اور یوں جو کہ ای ایالات کے معنی اگر آج سے تیرہ سو برس پیشتر نماز کا قائم کرنا اور اسکا حکم ہے تو ایس نہیں ہو سکتا کہ کوئی زمانہ ایسے اوسے جی میں آیت مذکورہ کے یعنی ہوں کہ نمازوں کا قایم کہ نا اب ہوچکا اور اب ضرورت نہیں۔ اس طرح تمام وہ آیتیں ہیں جو انبیا کے واقعات اور انکی پیشنگوئیوں سے تعلق رکھتی ہیں کیونکہ زندہ کتاب اور زندہ مذہب کی علامت یہ ۔ ہ ہے کہ آپکی ساری باتیں زندہ ہوں۔ اور زندہ رہیں لیکن اگر ہم غیر احمدی صحراکے عقاید کو ایک طرف رکہی کہ مذکورہ بالا اصول پر نطبق کرنا چاہیے تو معلوم ہوگا کہ نہ صرف انکے عقاید غلط آن ہیں بلکہ ایسے فاسد میں کہ اُن سے اسلام کی شریف میں فرق آتا اور قرآن کریم کی تنگ ہوتی ہے۔ قبل اس کے کہ ہم اپنے اہش ہوئی کو کھول کر بیان کریں ہم خیر احدی اسما کے عقاید دیل کو اپنے امریت کرام سے پیش نظر کہنے کی درخواست کرتے ہیں . (۱) حضرت میلے علیہ السلام ناصری بجده العنصری آسمان پر زندہ ہیں ۔ اور وہ اس دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے۔ (۲) جب وہ آئیں گے تو وہ نبی کی حیثیت سے نہیں بلکہ امت محمدیہ کے ایک فرد ہوں گے * (۳) انکی زندگی کی ابتداء نبوت سے ہوئی اور خطرج کہاں یہ ہو گا کہ کمالات نبوت اُن سے سلب کر لیئے جائیں گے اور انکی حیثیت ایک استی سے زیادہ نہوگی ۔ (م) بنابر عقاید د کور بالای بی نتیجہ نکلتا ہے کہ بھی بنواتی انبیاء کی حیات اور انکی روح دردان ہے وہ بھی اپنے لے لیجی کیونکہ ان دوکے عقاید غیر احمدی اصحاب میں بنوت غیرنی پیتی تھی۔ اب ایک طرف تو یہ عقاید میں اور دوسری طرف قرآن شریف کی آئیں ہیں جنہیں نما ر انہی کی تفصیل کرتے ہوئے نبوت کو اعلی ترین نعمت سے قرار دیا ہے۔ ان آیتوں سے روشن ہے کہ جیتک بندہ اپنے اندر کوئی تبدیلی بھلائی اور برائی کیطرف بکرے اسلت عالی بندہ کی حالت کو نہیں بدلتا اور یہ ایک قانون الہی ہے میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوتا۔ اب سوال ہے کہ حضرت مسیح کا آسمان پر رہنا اور دوبارہ دنیا میں آنا یہ فضل الہی ہے لیکن بغیر سکے کہ کوئی فعل ایسا حضرت مسیح سے سرزد ہو جو نعوذ باللہ من ذلك سلب نبوت کا باعث ہو۔ خدا وند تعالیٰ جو انبیا سے پیار کرنے والا ہے ان سے نبوت کی نعمت چھین کر اپنے ملالہ اند مخاطبہ کی نعمت سے محروم کر دیگا۔ علاوہ برین جیسا ہے ابھی ذکر کیا ہے کہ ان عقاید فاسدہ کے مان لینے سے قرآن کریم اور اسکے معنی میں خلاف منشار الہی نسخ ماننا پڑے گا۔ شالا سورہ صف کی آیت یا بنی اسرائیل انی رسول الله الیکم – – – – – – ومشرا برسول یا تی مودودی اسمه احمد . جو لوگ حضرت لیلئے نا صری کی حیات جسمانی و رفع الی آماتو بجده العنصری کے قابل ہیں۔ اور اسبات کو مانتے ہیں کہ حضر میلئے ناصری دوبارہ دنیاوی زندگی کے ساتھ دنیا میں تشریف لائیں گے وہ لوگ اگر تدبر سے کام لیں تو بہ آسانی کچھ سکتے ہیں کہ قرآن مجید کے آیات کا قیامت اپنی حالت پر نہیں گی ۔ اور نہیں کریم کی تبدیل ترمیم و شیخ کسی زمانہ میں نہ ہوگی اب ایسی ات میں جب حضرت عیسی ابن مریم ناصری دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے اور قرآن مجید کی تلاوت کرینگے تو ا سوقت انکی زبان مبارک سے یہ کھلنا چاہئے کہ د سے بنی اسرائیل کی قوم میں رسول تھا اس کا اثر تمہارے دکیونکہ غیراحمدیوں کے عقیدہ کے مطابق بوقت نزول آثانی ور رسول نہیں بلکہ امتی ہوں گے) تصدیق کرتا تھا تو ریت کی جو تمہارے ہاتھ میں تھی کیونکہ اس وقت وہ قرآن مجید کے پیرو ہونگے اور قرآن مجید اُن کے ہاتھ میں ہوگا) اور بشارت دی تھی میں نے ایک رسول کی جو ہمارے قبل آچکے اور انکا نام احمد تھا بعدی کے بجائے قبیلی کہنا او سوقت صحیح ہوگا اب کیا کوئی ایماندار مسلمان اس قسم کی قید کہہ سکتا ہے کہ کسی زمانہ میں آیات قرآنی میں اس قدر وہ بدل ہو جائے گی۔ ونعوذ باد مین ہذہ الہفوات) – قوم بنی اسرائی پر حجت پوری ہو نہیں سکتی جب تک وہ پہلے دنت مسیح کے مسئلہ پر ازروئے قرآن کریم ایمان نہ لا ن نہ لاوین خوب یا دیکھو کہ جب تک وفات مسیح کا مسئلہ سمجھ میں نہ آئے تب تک احمد السیدام کی حقیقی شناخت نہیں ہو سکتی اور احمد علیہ السلام کی شان ہیں د ہو کہ لگے گا۔ بلہ محمد رسول السلیم پر بھی ایمان کا مل نہیں ہو سکتا قبل سکے کہ غیر احمدی اصحاب حضرت احمد علیہ اسلام کے بارہ میں گفتگو کرین کا اس سے کون شخص مراد ہیں ۔ وفات مسیح ناصری کے مسئلہ کو مجھ لیں۔ اور اسبات پر ایمان لے آمین کہ حضرت عیسی ” ناصری کا مانند ور نہیوں کے رفع ہوا۔ اور آنے والے مسیح موعود ہر گز شیخ ناصری نہیں ہیں بلکہ کوئی دوسرا شخص مراد ہے ۔ احمدی اور غیر احمدی میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ غیر احمدیوں کے بر خلاف احمدی بنی اسرائیل کی قوم پرستاران سج ناصری) پر وفات مسیح کے مسئلہ کو ثابت کر کے احمد عا حمد الا السلام کے آمد کی خبرونکو سناتے اور اس پیشگوئی سے اوپر حجت قائم کرتے ہیں۔ جناب سیح ناصری کو زندہ مانک پرستان بیچ پر اس آیت شریفہ سے حجت قائم ہو ہی نہیں سکتی ۔ حضرت مسیح ناصری کی آمد ثانی پر بھی پی سٹار کافی روشنی ڈالتا ہے کیونکہ اگر پھر ہی دوبارہ ہو نی میں تشریف لاویں تو آیت شریفہ کے ترتیب پر اعتراض اور اوسمیں رد و بدل ما تنا پڑیگا جو کسی صورت میں ممکن نہیں * چونکہ حضرت مسیح ناصری کی قوم بنی اسرال میں یہ غلط نہی پہلے والی تھی کہ حضرت عیسی رسول نہیں بلکہ اللہ و ابن اللہ ہیں۔ شرعیت توریت شریف موجب لحنت اور کفارہ مدار نجات ہے مسیج پھر خود ہی دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے۔ اس لیے ” خداوند عالم نے مسیح کی زبان مبارک سے یہ کہلوایا۔ تا کہ نجاترون کی قوم پر قیامت حجت پوری ہوتی رہے اور قرآن مجید میں اسکو اسلئے درج کیا تاکہ قیامت تک بات تبدیل ترمیم تنسیخ کے محفو رہے اور حضرت میسی ناصری کی زبان مبارک سے یہ فیصلہ ہوگیا میں اللہ یا بو اللہ نہیں۔ خدا کا رسول ہوں قوم بنی اسرائیل کی طرف یہ عقیدہ کہ شریعت موجب لعنت اور کفارہ مدار نجات ہے غلط ہے۔ بلکہ میں تو ریت شریف (شریعت) کا مصدق ہوں ۔ اور میں دوبارہ پھر دنیا میں نہیں آؤں گا بلکہ ہمارے بعد حضرت احمد علیہ اسلام رسول اللہ تشریف لائیں گے : + ل کے امیر ای ای لالالالا کے نام پر جب کرسی کی اس سے کون شخص مراد ہیں انکو چاہیے کہ وفات مسیح ناصری کے مسئلہ کو سمجید جب بنات مسیح علیہ السلام کا مسلہ مجھ میں آجائے تو بعد اقرار کرنے اور اس بات پر صدق دل سے ایمان لانے کے کہ حضرت میلی لی اسلام ناصری کا انمند اور بنوں کے رفع ہوگیا اور پڑے دوبارہ اس دنیا میں تشریف نہیں لائیں گے احمد علی اسلام کے بارہ میں تحقیقات کریں ۔ اور ا پر بحث اوٹھائیں ۔ ورنہ لو محبت بازی کا کوئی نفع نہیں۔ مومن کی شان ہے کہ لغو باتوں سے پر تیز کرے ۔ قائلین حیات مسیح ناصری کا اس مسئلہ پر زبان کھولنا گویا اپنی جہالت پر فخر کرنا اور اپنی نادانی کا ثبوت دیتا ہے۔ خیراحمدی اصحاب کو پہلے یہ ماننا چاہیے کہ حضرت میالی ناصری قیامت تک رسول رہیں گے کیسی زمانہ میں ہستی نہیں ہوں گے وہ توبت شریف کی تصدیق کرنے والے ہیں کسی زمانہ میں وہ قرآن مجید کے پیٹ نہیں ہوں گے ۔ اور قرآن مجید ہاتھ میں لے کر اس کی تبلیغ و اشاعت نہیں کرینگے وہ خود پھر دوبارہ دنیا میں تشریف نہیں لائیں گے بلکہ مانند اور نبیوں کے ان کی وفات ہوگئی۔ اور ان کے بعد احمد صلعم رسول اللہ کے آنے کی خبر ہے کل باتیں تی کے ساتھ ہوتی ہیں۔ اور ہوتی رہیں گی ہے ایک افسوس یہ یہی ہے کہ ترتیب قرآنی کو غلط اور خصو صاحبات مسیح ناصری کو ثابت کرنے کے لیے بعض لوگ حرف ہو کو آڑ بناتے ہیں۔ اور ترتیب میں الٹ پھیر کا شور مچاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو مخاطب کرنا فضول ہے کیونک ان لوگوں نے ارادہ کر لیا ہے کہ احمد علی اسلام کی سی عداوت میں قرآن مجید کی اعلی تعلیات کو نبی وارشادات کو نہی الٹ لیٹ کر دین و آیت شریفہ مندرجہ مصر میں بعض لوگ بعدی کے لفظ سے بحث ہے ۔ میں گرم سے کرانا ہی تو نہیں کرے کہ قران حمید کتاب من بعد – موسی ہے کتاب من بعد میں کیوں نہیں آیا کیا اس نیتی نکلا کہ ضرت موسی کے بعد حضرت عیسی نہیں ہیں ؟ اسی طرح آیت شریفہ ن قبلہ کتا ہے منی اما درجہ پر ہی خو کہ رات آنکھ کھ کر – ت مینی السلام کا کر رہی ہے ۔ قرآن مجید و اصفر – بعد نازل ہوا کیا انہیں شریف ہدایت نامہ نہیں اور میں ہے ۔ بات صرف اس قدر ہے کہ ب شریعت سیول مالی به نایل شریف شریعت کی کتاب ہو توریت شریف شریعت کی کتا اور حضرت موسی علی اسلام هنا شرحت رسول میں قرآن مجید بھی شریعت کی کتاب ہے اسلئے اس مناسبت کے لحاظ سے شریعت کی کتاب اور صاحب شریعیت رسول کے بعد ہوئی اس ۔ نفوذ باللہ حضرت سیسے ناصری کے وجود و رات کی نفی نہیں نکل سکتی ہے ۔ اسیطرح چونکہ حضرت مئے ناصری صاحب شریعت رسول میں بلکتی شریف جو شریعت کی کتاب ہے اسی کی تبلیغ واشاعت کرنیوالے ہیں ان نساء کے کھانا اسے اپنے میل کے بارے میں کہا کہ شرعیت کی کتاب کی اشاعت کرنے والے ایک رسول ہمارے بعد آئیں گے ون کا نام احمد ہوگا – ہاں یضروری بات ہو کہ ای شروین میں جوست و نورتا اس سے انکار نہیں خود قرآن مجید اسکا حق ہے مگر اگر شریعت کی کتابکتا ہے اسے سوم قرآن مجید کتاب من بعد موسی ہے اور توریت شریف کی نسبت و من قبیلہ کتاب سی الانا رحمت ہے قرآن مجید کتاب من بعد عیسی نہیں ہے اور اب عیسی امانا رحمت نہیں ہوئی میری حضرت محمد مصطفے صلم میں صفت احدیتی اور به حافظ صفت آپ بہت بڑے اتر رہتے اور حضرت احمد قادیانی کو جو کچھ ہواہے وہ آپ سے ملا پردہ خود فرماتے ہیں۔ آنچہ مارا وحی و ایجائے بود با آن ازخود از همان جا بود حضرت بلیئے ناصری نے من بعدی اسما احمد فرمایا ۔ جی طرح جلیل شریف کے بار میں ہم نہیں آسکتے کہ ہمیں حمت و نور بیتی سی طرح سے ہم ہرگز با پایان نہیں رکھتے ہیں حضرت میر ی نے مسلم ہے میں صفت احمدہ تھی۔ بلکہ ہمارا ایمان ہے کہ حمد مصطفے مسلم میں صنعت – ی او را تا ادای او کو کہا ہے وہ حضرت مسلم کے دیا ۔ سے ملا اور یہ نہیں کی شریعت کی پیروی کا نتیجہ ہے، مگر آیت شریفہ ہیں ۔