پیشگوئی اسمہ احمد کی تشریح پیامی مضمون نگار کی غلط بیانی ۔ غلام رسول راجیکیؓ

پیشگوئی حالات کی تشریح ایک پیامی مضمون نگار کی غلط بیانیغلط بیانی اختبار تینا مسلح تحریر ۱۵ اور ۱۹ جنوری ۱۹۳۳ ایو میں مولوی عمر الدین صاحب شملوی کا ایک مضمون شایع ہو ا ہے جس میں انہوں نے یہ ظاہر کیا ہے ۔ کہ میں نے دائی میں درس قرآن دیتے ہوئے اسمہ احمد کی پیشگوئی کے متعلق جو کچھ بیان کیا۔ وہ مخالف اور تعارض کے لحاظ سے گویا سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کے دلائل متعلقہ اسمہ احمد کی تردید تھی۔ میں نے مولوی صاحب کا مضمون پڑھ کر یہ معلوم کیا ہے۔ کہ انہوں نے اپنے اس مضمون میں خطرناک غلط بیانی کی ہے ۔ جو تقوئے اور شرافت انسانی کے سخت خلاف ہے۔ میں ان غلط بیانیوں کے جواب کی چنداں ضرورت نہ سمجھتا تھا۔ لیکن محض ایس لئے کہ مولوی صاحب نے افترا پردازی سے میرے بیان اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالے النصرہ العزیز کے بیان میں تخالف ظاہر کرنا چاہا ہے۔ اس طرح بعض او قانون کو غلط فہمی میں مقتل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لئے تردید کچھ لکھنا مناسب سمجھا ؟ افسوسناک تحریف سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کی عبارات کو جہاں نقل کیا ہے ۔ آگے پیچھے سے کاٹ چھانٹ کر یادمان طور پر کیا ہے۔ چنانچہ حضرت اقدس کی عبارت محولہ زیں پڑھ کر اصل سے مقابلہ کیجئے۔ عبارت پیش کردہ کے الفاظ ترتیب پیش کردہ کے مطابق نہیں پائے جائیں گے۔ مولوی صاحب نه پیغام مسلح ” بحریہ ۱۵ ر جنوری میں حضرت لیفہ کیا الثانی ایدہ اللہ تعائے ابصرہ العزیز کی طرف کام کو منسوب کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- میرا یہ عقیدہ ہے ۔ کہ یہ آئت حضرت مسیح موعود پیر اسلامی کے متعلق ہے۔ اور احمد آپ ہی ہیں۔ میں ایمان رکھتا ہوں کہ احمد کا جو لفظ قرآن کریم میں آیا ہے۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق ہی ہے۔ میں اس بات کے ثبوت میں اپنے پاس خدا کے فضل سے دلائل رکھتا ہوں۔ اور تمام دنیا کے عالموں اور فاضلوں کے سامنے بیان کرنے کو تیار ہوں” دانوار خلافت مرا ) اس عبارت کے بعض حضرات حذف کئے گئے ہیں لیکن حذف الفاظ کے متعلق نہ کوئی نشان دیا ہے۔ یہ ہی کیسی اور علامت کا اظہار کیا ہے کہ یہ عبارت اصل عبارت میں اسی ترتیب کے ساتھ پائی جاتی ہے ۔ یا اقتباس کے طور پر نقل کی ہے۔ اسی طرح حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دو وسیلیس نقل کی ہیں جن کے الفاظ حسب ذیل لکھ کر پیش کئے ہیں ۔ دلیل اول تو یہ ہے کہ الفاظ قرآنی ومن اظلمت افترى على الله الکذب منکرین احمد رسول کے متعلق ہو ہی نہیں سکتے۔ کیونکہ یہ الفاظ مدعی رسالت یا ماموریت کے لئے ہی بولے جاتے ہیں۔ اور جو لوگ ان الفاظ کو منکروں کے لئے بھی تسلیم کر لیتے ہیں۔ وہ قلت فہم کیوجہ سے ایسا کرتے ہیں۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ افتوی علی اللہ کے ساتھ فرمایا۔ ہے۔ وهو يدعى الى الاسلام جس سے پایا جاتا ہے کہ احمد رسول ایسے زمانہ میں ہوگا جب کہ دنیا میں اسلام موجود ہو گا۔ اور اہل اسلام احمد رسول کو کہیں گے کہ تو تو اپنے دھونے میں مفتری علی اللہ ہے۔ پہلے اپنا مسلمان ہونا تو تا ب کرے اس کے بعد مولوی صاحب کھتے ہیں ۔ جناب میاں صاحب کے نزدیک وهو يدعى الى الاسلام ایسی نشانی ہے۔ کہ یہ اسمه احمد کی خبر کو مسیح موعود کے الئے مخصوص کردیتی ہے” اس کے بعد مولوی صاحب نے علی قلم سے یہ عنوان ہے دیا ہے کہ ” مولانا غلام رسول صاحب فاضل را نیکی کا جواب” گویا مجھے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالے انتضر العزیز کی دلائل پیش کردہ کی تردید میں اس عنوان سے مجیب قرار دیا ہے۔ اب اس انترا پردازی اور غلط بیانی کے جواب میں بجز لعنة اللہ علی الکاذبین اور کیا کہا جائے۔ مولوی صاب Digitize اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔ کہ تعلقات خلیفہ وقت کو توڑ دینے سے آپ کو کیسے کیسے خلاف تقومی امور کے ارتکاب کے لئے جرات پیدا ہوگئی۔ اور طرفہ یہ کہ جہاں مجھے مجیب قرارد یکی بعد میں جن غلط باتوں کا میرے بیان درس کو ماخذ قرار دیا ہے اور جو محض افترا اور اتہام ہیں۔ خود ہی اس کے خلاف میری نسبت مجھے غالی قرار دیتے ہوئے لکھ دیا ہے۔ کہ نہ مولوی غلام رسول صاحب فاضل را جسکی جو حضرت میاں صاحب کے متعلق یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ حضرت میاں صاحب کے فلان عقیدہ رکھنا لعنت ہے۔ اور یہ بھی کہ اگر مولوی صاحب کو علم ہو جائے ۔ کہ انہوں نے کوئی بات میاں صاحب کے عقائد کے خلاف کہی ہے ۔ تو وہ اپنی بات کو ہی غلط قرار دیں گے اور ان کا ایمان یہی ہو گا۔ کہ خلیفہ صاحب نے جو کہا ہے ۔ خواہ بجہ میں آئے یا نہ آئے ۔ وہی درست ہے ، مگر یہ سچ ہے کہ حق کبھی چھپ نہیں سکتا۔ اس لئے باوجود اس قدر غالی عقیدہ کے بھی جناب مولانا صاحب نے دہلی میں درس قرآنید دیتے ہوئے میاں صاحب کی دونوں مذکورہ بالا دلیلوں کے پونچھے اڑادیئے۔ اورکسی باہر کے عالم یا فاضل سے بحث کئے بغیر ہی معاملہ طے ہو گیا ” مرشد کامل کے مقابلہ کی سی انسان کی عقل کی حقیقت مولوی صاحب کی عیارت مرقومہ بالا میں عبارت کے حصہ ادی میں جہاں میری طرف فالیا نہ عقیدہ کو منسوب کیا ہے۔ وہ میرے نزدیک غالیانہ عقیدہ نہیں بلکہ آنت اطیعوا الله واطيعو الرسول و اولی الامر منکم اور حدیث عليكم لبنت وسنته الخلفاء الراشیدین المحمدیین کے مطابق صحیح اور درست عقیدہ ہے۔ اور اسی طرح کا عقیدہ ہے جو حضرت ابوبکر حضرت عمر حضرت عثمان حضرت علی رضی اللہ عنہم وار علیم کے م کے عقائد کو درست تسلیم کرنے کا عقیدہ ایک مومن ” اور مسلم کے لئے ضروری ہے۔ چنانچہ مولوی صاحب سے دہلی میں میں نے اس عقیدہ کا کئی بار ذکر بھی کیا۔ اور ایک وفعہ انہوں نے مجھے کہا۔ کہ اگر میاں صاحب کی کوئی بات عقل کے خلاف بھی ہو۔ تب بھی آپ اسے قبول کر لیں گے میں نے جواب میں کہا کہ ان کی کوئی بات خلاف عقل نہیں ہوتی ۔ اور نہ ہو سکتی ہے اس لئے کہ خدا تعالے جن کو خلافت اور لوگوں کی عقلوں کی اصلاح کے لئے چلتا ہے۔ ان کو وہ عقل کے مخالف باتیں پیش کرنے والے نہیں بناتا۔ ہاں یہ دوسری بات ہے کہ وہ اسرار قدیس سے بھرے ہوئے حقائق بیان کریں ، جن کو عام لوگ اپنی ناقص عقل کیوجہ سے خلاف عقل کہیں، تو یہ اور بات ہے۔ لیکن ان باتوں کو بھی خلاف عقل نہیں کہا جاسکتا۔ بلکہ جن کی سمجھ میں نہ آئے ۔ ان کی عقل سے بالا تر کہ سکتے ہیں مولوی صاب ah کہنے لگے۔ پھر تو آپ نے اپنی عقل کو بھی بہیت کے ساتھ ہی بیچ دیا۔ اس پر میں نے یہی کہا ۔ کہ ایسی عقل جسکی وجہ سے مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ صاحب اور وہ لوگ جو مرکز سے اور جماعت سے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منجیانہ عقائد سے دور پھینکے گئے۔ اور آج آپ کو بھی اسی وجہ سے ٹھوکر لگی۔ ایسی نابکار متصل کے متعلق آپ بھینا کہتے ہیں۔ ہمیں تو بغیر کسی قیمت پر بیچنے کے اسے یوں ہی پھینکنے کے لئے طیار ہوں۔ قرآن کریم کے بیان فرمودہ آداب ارادت قرآن کریم میں حضرت مو سئے اور حضرت خضر کا واقعہ بیان کیا گیا ہے جس میں آداب ارادت وحصول استفاضہ کے متعلق جو سبق آموزی فرمائی گئی ہے۔ عبرت کے لحاظ سے ایک کے ہر روت تازیانہ ہے بیعت سے پہلے سچی طلب کے ساتھ بغرض تلی ہوئی سوالات کرنا منع نہیں لیکن ایک شخص کو علی وجہ البصیرت کامل سمجھنے کے بعد جب بیعت کرلی جائے۔ تو پھر اعتراضات کرنا اور اپنے کامل میشیدا اور ہادی اور راہ تم کو اعتراضات کا نشان بنانا۔ اس کی طرف عیوب اور نقائص منسوب کرنا اور اس کے کسی فعل کو قابل اعتراض ٹھہرانا اقوئے اور آداب ارادت کے سخت خلاف ہے۔ اور جب حضرت موسی کلیم اللہ مجیب انسان کی هل اتبعك على ان تعلمن ما علمت کو سدا کے قول کے بعد حضرت خضر کو اپنا علم اور مر تسلیم کر چکا اور پھر بار بار اعتراض کرنے لگا۔ تو آخر الامر حضرت خضر جیسے معلم اسرار قدس سے هذا افتراق بینی و بینیت کے عتاب آلود قول کے ساتھ جدا کر دیا گیا۔ حافظ شیرازی اسی اسراری نکتہ پر حکمت کو اپنے کام منظوم میں اس طرح فرماتے ہیں :- ہلے سجادہ رنگین گن گرت پیر مغاں گوید که سالک بنجر نبود ز راه و رسم منبر لها خلات دیانت بیان اسی سلسلہ میں عبادت کے آخری حصہ میں میرے بیان کے متعلق یہ کہنا کہ میاں صاحب کی دو تذکرہ دلیلوں کے پر نچھے اڑا دیے۔ اس قول سے بھی یہ معلوم ہوگیا۔ کہ مولوی عمر دین نے خلیفہ وقت کی مخالفت اور قطع تعلق سے علم صحیح اور عقل سلیم کے خلافت کیس درجہ معکوس ترقی کی ہے ۔ کہ سخن فہمی سے کو سوت دور ہورہے ہیں۔ یا قریب کی راہ سے دیانت اور امانت کے ضامن ایسی چال چل رہے ہیں۔ جس کا بجز مغالطہ دہی کے اور کچھ مطلب سمجھ میں نہیں آتا ہے ا مغالطہ دہی کی حقیقت میں ان کے پیش کردہ الفاظ کو جن کا انہوں نے میرے بیان کو ماخذ قرار دیا ہے۔ نقل کرتا ہوا ان کے مغالطہ کی حقیقت آشکارا کرتا ہوں۔ مولوی صاحب میرے درس کے متعلق جو اسمه احمد کی آیت کی تشریح میں بیان کیا گیا۔ لکھتے ہیں۔ ومن اظلم ممن افتونی علی اللہ مولانا نے فرمایا کہ یہ الفاظ ان لوگوں کے حق میں ہیں جو احمد رسول کے منکر ہیں اور کہتے تھے کہ ھذا من مبین اور یہ کہنا کہ یہ الفاظ احمد رسول کے حق میں ہیں، بالکل غلط ہیں۔ کیونکہ اس کے بعد اللہ تعالے فرماتا ہے۔ وھو یدعی الی الاسلام اور ا اسلام کی طرف بلایا ہے۔ اب ہر رسول داعی الی الاسلام ہے کہ مدعوالی الاسلام پس یہ الفاظ احمد رسول کے منکروں کے متعلق ہیں۔ اور یہ کہنا کہ وھو ید علی الی الاسلام سے مراد احمد رسول ہی ہے، بالکل باطل ہے۔ کیونکہ اگر اس يد على الی الاسلام کو احمد رسول کے متعلق مانا جائے ۔ تو اس سے پہلے جملہ کا مصداق بھی رہی احمد رسول ہو گا۔ اور وہ جملہ یہ ہے. ممن افترى على الله كذبا لهذا احمد رسول کو مفتری علی اللہ ماننا پڑا۔ جو مر بھی غلط ہے۔ بس آئت کریمیہ کے ان الفاظ کا مصداق در حقیقت منکر این احمد رسول ہیں که خو احمد سول ھو یدعی الی الاسلام پر سول داعی الی الاسلام ہوتا ہے۔ اور احمد رسول بھی داعی الی الاسلام ہے۔ پس احمد رسول یدعی الی الاسلام نہیں ہوسکتا۔ اور اگر کوئی اس کے خلاف کہتا ہے۔ تو وہ غلطی کرتا ہے۔ کیونکہ اس کے خلاف کہنے کے تو یہ سنتے ہیں کہ ہم یہ قبول کرلیں۔ کہ احمد سول ہی مفتری علی اللہ ہے ” اس کے بعد تصدیق کی سرخی کے نیچے مولوی صاب لکھتے ہیں۔ میں نے یہ دونوں دلیلیں جنکو قلمبند کرنے سے پہلے بعض احمدی احباب کو جو اہل علم ہیں سنائیں تا کہ اگر غلطی ہو۔ تو کھل جائے مگر الحمد للہ کہ انہوں نے میری تصدیق کی ۔ اور میت تلقین ہے کہ خود مولوی صاحب بھی اس بیان کو پڑھ کر تکذیب نہ کر سکیں گے۔ اور دوسرے احمدی بھی یقیناً تصدیق کریں گے” میرا جواب رہے پہلے ان فقرات میں الفاظ جو میری طرف منسوب کئے گئے ہیں کریں نے کہا کہ یہ الفاظ یعنی من اظلم ممن افترى على الله ان لوگوں کے حق میں ہیں جو احمد رسول کے منکر ہیں۔ اور کہتے تھے کہ ھذا محر مابین یہ کہتا ہوں که مولوی عمر الدین صاحب کا یہ جہالت سے لبریز فتره مجید پر انتہام اور افتراء ہے جس کے مقابلہ میں میں لعنة الله علی الکا زبدین پہلا جواب عرض کرتا ہوں۔ اس کے بعد یہ خود تراشیده فقرا جس کے متعلق میرا ہمہ میں بھی آج تک نہیں ۔ آسکا۔ کہ من افترى والافترہ سحر مبین کہنے والوں کے حق میں ہے۔ اس کے متعلق رسا کہ جامعہ احمدیہ جونہ وہیں شایع ہوا۔ اس میں میرا مضمون بشارت احمد کے عنوان کے نیچے کسی قدر لبط کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔ جو صفحہ ہم سے لے گروہ صفحہ تک ہے۔ وہاں سے ملاحظہ کر لیں۔ کہ میں نے اس جگہ فقرہ من اظلم ممن افترى اور وهو يدعى الى الاسلام کے متعلق کیا لکھا ہے۔ بطور نمونہ ہی کچھ اس مضمون سے اس جگہ نقل کر دیتا ہوں ۔ ا معلوم ہو جائے ، کرمولوی عمر دین صاحب نے مغالطہ وہی کے لئے کیسی چال چلی ہے رسالہ جامعہ احمدیہ میں میری وہ عبارت جو میرے آج اس کے مسلمہ عقیدہ اور علمی تحقیق کا آئینہ ہے ۔ حسب ذیل ہے : بلينه عا ومن اظلم ممن افترى على الله الله وهو يدعى الى الاسلام والله لا يهدى القدم القات اس آیت میں بتایا ہے کہ احمد رسول حب اگر دھوئے کرے گا کہ میں احمد رسول ہوں۔ تو اس کے دعوئے کے متعلق دو ہی احتمال ہو سکتے ہیں۔ یا یہ کہ وہ مدعی اپنے دعوئی احمد رسول میں سچا ہو بایه که در سانہ ہو بلکہ مفتری اور کا ذب ہو۔ پس اگروہ مفتری اور کا ذ ہے ۔ تو انترا اور کذب چونکہ اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے اس لئے وہ مفتری اور کذاب ہو کر داعی الی الاسلام نہیں ہوتا بلکہ یہ بھی الی الاسلام ہونے سے اسلام کا دعوہوسکتا ہے۔ اور ساتھ ہی مفتری اور کذاب ہونے سے اظلم اور بہت بڑا نظام ٹھہرتا ہے۔ اور پھر ظالم اور سنتری ہوتے سے حسب وعید قد خاب من افترى اور انه لا يفلح الظالمون. کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔ اور اگر مفتری اور کذاب نہیں۔ بلکہ دھوئے میں سچا اور خدا کی طرف سے واقعی احمد رسول کی بشارت کا مصداق ہے ۔ تو اس صورت میں نہ وہ اظلم ہے ن ظلم نربي يدعى إلى الاسلام بلکه واعى الى الاسلام ہے۔ اور حسب وعدہ كتب الله لا غلبن انا ورسلی ار انا لتنصر رسلنا والذين امنوا في الحيوة الدنيا دہ خدا کا منصور اور موید اور مقلع اور کامیاب ہونے والا ہے۔ اور جو قوم اس کی مخالفت میں کھڑی ہو کر اس کی تکذیب کرنے والی ہے۔ اور اس کے بنیات کو ساحر مباین تبانے والی ہے۔ ایسے لوگوں کے تعلق والله لا بعد عانقوم الظالمین فرمایا۔ کہ وہ استمد لرسول کے بالمقابل اس کی تکذیب اور مخالفت میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ اس لئے کہ احمد رسول کی مخالفت کیوجہ سے خدا ان کا مخالف اور ان کو غائب وفا سر کرنے والا ہو گا ” اس عبارت سے ظاہر ہے۔ کہ آیا من اظلم ممن فاتوئی کے معیار صدق و کذب کو مدعی کی نسبت بیان کیا گیا ہے۔ یا منکروں کے متعلق جن کی نسبت فرمایا کہ وہ احمد رسول کے بنیات کی نسبت مع مباین کہنے والے ہوں گے اس عبارت کے بعد مبینہ عدا میں دھو ید علی الی الام نت کی تعلیق یہ عبارت لکھی ہے ۔ مدعی الی الاسلام کا نقتر جبار من اظلمہ کے ساتھ ذکر کرنا۔ احمد رسول کے ظہور کے وقت دنیا میں اسلام کے موجود ہونے پر دلالت کرتا ہے لیکن آنضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےوقت استلام کہیں بھی نہ تھا بلکہ اسلام کا ظہور خود آپ کی ذات والا صفات کے ذریعہ ظہور میں آیا۔ اس قرینہ اور بلیدہ سے بھی احمد رسول آنحضرت صلی اشد علیہ و آلہ وسلم نہیں ہو سکتے۔ بلکہ حضرت مرزا صاحب ہی ہیں کے مصداق ثابت ہوتے ہیں” کوئی تضاد نہیں اب دیکھئے جسطرح مولوی عمرالدین صاحب نے میرے بیاں کو اپنے الفاظ میں افترا پردازی کی راہ سے توڑ مروڑ کر کچھ کا کچھ نا کر پیش کر دیا۔ اسی طرح حضرت خلیفہ اسیع الثانی ایده الله تعالے بصرہ العزیز کے دلائل کو اپنے مفید مطالب طریق پر خوات منشائے قائل پیش کیا۔ وہ الفاظ جو مولوی عمر الدین صاحب نے دو دلیلوں کی صورت میں پیش کئے حضرت اقدس کے اپنے الفاظ نہیں۔ بلکہ مولوی صاحب نے ان دلائل کو اپنے علم اور سمجھ کے مطابق لکھ کر پیش کیا۔ جو حضرت اقدس کے منشار کیئے صریح خلاف ہے۔ اب میں حضرت اقدس کی عبارت بلفظها انوار الا کے ظلم سے جو آئت من اظلم ممن افترى على الله کو میری لیل احمد کی تعین کے عنوان کے ماتحت تحریر فرماتے ہیں۔ ہیں۔ پیش کرتا ہوں ۔ اس آیت میں یہ بیان کرنے کے بعد کے بعد کہ جب وہ رسول آئے گا۔ تولوگ اسے جادو گر یا جھوٹا یا مال یا فریبی کہینگے۔ اللہ تعالئے فرماتا ہے۔ کہ ومن اظلم ممن افترى على الله الكذب هو يدعى إلى الاسلام والله كا بيدى الله المين پھر اس کے بعد آیت کی تشریح فرماتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جو شخص خدا تعالے پر افتراء کرے۔ تو وہ رہے زیادہ سزا کا ستحق ہے۔ پھر اگر یہ جھوٹا ہے، جیسا کہ تم بیان کرتے ہو تو ا سے ہلاک ہونا چاہیئے کہ کامیاب اللہ تعالی تو ظالموں کو بھی ہدایت نہیں کرتا۔ تو جوشخص خدا تعالے پر اخترا کر کے ظالموں سے بھی ظالم ترین چکا ہے ۔ اس کو وہ کب ہدایت دے سکتا ہے۔ ہیں اس شخص کا ترقی پانا اسبات کی علامت ہے کہ یہ شخص خداتعات کی طرف سے ہے۔ اور جھوٹا نہیں جیسا کہ تم بیان کرتے ہو” اب میری تشریح اور حضرت اقدس کی تشریح جو آیت من اظلم جمن افترى على الله کے متعلق ہے۔ دونوں کو ایک رہے کے مقابل رکھ کر غور کرو، کیا اس سے ظاہر ہوتا ہے، کہ میری تشریح حضرت اقدس کے خلاف ہے۔ یا اس کا جواب ہے : ایسا ہی حضرت اقدس ید علی الی الاسلام کے متعلق فرماتے ہیں ۔ دین اسلام کی طرف کوئی ایسا ہی شخص بلایا جاگتا ہے جو ایسے وقت میں آئے۔ کہ اس وقت دنیا میں کوئی مذہب اسلام نامی ہو۔ اور اس بات میں کیا شا ہے۔ کہ ایسا شخص رسول کریم کے بعد ہی آسکتا ہے۔ کیونکہ آپ ہی اسلام نام مذہب دنیا کی طرف لائے تھے۔ غرض یہ علی الی الاسلام کی شرا ظاہر کر رہی ہے کہ شخص رسول کریم صل اللہ علیہ والہ دام کے بعد آئے گا۔ اور اس وقت کے مسلمان اسے کہیں گے کہ میاں تو کا فرکیوں بنتا ہے۔ اپنا دھوئے چھوڑ اور اسلام سے نہ نہ موڑ اس کے جواب میں اللہ تعالے فرماتا ہے۔ کہ اگر واقعہ میں یہ چھوٹا ہے۔ اور تم سچے ہو۔ یہ کافر ہے۔ اور تم سلم اور تم اس کو اسلام کی طرف بلاتے ہو۔ اور یہ کفر کیطرف جاتا ہے۔ اور خدا پر جھوٹ باندھتا ہے ۔ تو اس سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے اس کو تو لاک ہونا چاہیئے۔ کیونکہ خدا توظالموں کو بھی ہدایت نہیں کرتا۔ اور یہ اظلم ہے۔ پس چونکہ یہ ہلاک نہیں ہوتا ۔ بلکہ ہر میدان میں ہدایت پاتا ہے۔ اس لئے یہ جھوٹا کیونکر ہوسکتا ہے۔ اور کیونکر کن ہے۔ کہ تم اسلام پر ہو کر پھر ذلیل ہوتے ہو غرض اس آیت میں دشمنان احمد رسول پر ایک زبردست محبت قائم کی گئی ہے ۔ اب حضرت اقدس کی اس عبارت کو پڑھ کر کون ایسا شخص ہے جو کچھ بھی عقل اور م سے کام لینے والا ہو۔ اور میری بات کو اس عبادت کی تردید میں یا اس کے خلاف قرار دے حضرت اقدس نقره من اظلم ممن افترى على الله اور نقره یدعلی الی الاسلام کو احمد رسول کی صداقت پر کھنے کے لئے بطور معیار اور محبت قویہ کے پیش فرما رہے ہیں۔ اور انہیں معنوں میں میں نے اپنی تشریح پیش کی ہے، جیسا کہ عبارت مذکورہ بالا میں لفظ نقل کردی گئی دہلی میں اسمہ احمد کی تفسیر کرتے ہوئے ایک بات میں نے یہ بھی بیان کی تھی کہ من اظلم ممن افترى على الله الكذب وهو يد على الى الاسلام والله لا يهدى القدم الظالمین کی آیت جو احمد رسول کی صداقت پر کھنے کے لئے خدا کی طرف سے پیش کردہ معیار ہے۔ اس میں بتایا ہے کہ منکرین اور مکذبین کا احمد رسول کے دعوے کی نسبت یہ کہنا کہ هذا اسمی مباین لینے یہ دھند کا اور قریب ہے۔ اس کی تردید میں بطور معیار کے آت من اظلم ممن افتری علی اللہ کو پیش کیا ہے جسکا یہ مطلب ہے۔ کہ اگر منکرین اور مکنز مین کے قول کے مطابق ہیں دھوئے احمد رسول مفتری اور کاز ہے تو چونکہ افترا کرنا اور سلم کرنا اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے۔ اس لئے یہ افترا اور ظلم راہل اسلام کا فعل نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ ایسا فعل احمد رسول کی طرف مبعوث کیا جائے پس مفتری اور ظالم شخص مسلمانوں میں سے نہیں بلکہ ظالم لوگوں سے ہوگا۔ اور والی نہیں بلکہ مدد ) الی الاسلام ہو گا۔ تو اس کے لئے وحید ہے والله لا پھدی ؟ القوم الظالمین کہ وہ کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ اور سچا احمدول = جو نہ مفتری ہے۔ نہ ظالم نہ مدعو نہ ظالم نہ ملا والى الاسلام بلکہ داعی الاسلام ؟ ہے۔ وہ بوجہ اپنی صداقت کے ظالموں کے دعید سے محفوظ کر انا لنفر رسلنا کے وعدہ کے مطابق خدا تعالے کا موید او منصور ہو گا۔ جیسا کہ اس معیار کے رو سے سیدنا حضرت مسیح مور علیہ السلام جو کہ احمد رسول کی پیشگوئی کے مصداق ہیں۔ خداتعالی : کے فضل سے مفتریوں اور ظالموں کے وعید سے محفوظ رہنے سے اور خدا کے سچے رسولوں کی طرح مدید اور منصور ہونے سے کیچھے احمد رسول ثابت ہوئے ۔ میرا اس آپ کے لحاظ سے بیان کرتا ھی – حضرت خلیفہ ربیع الثانی ایدہ اللہ کے بیان کے منافی نہ تھا۔ اس لئے ” کہ دونوں بیان بطور معیار کے صداقت اور تصدیق کے ایک ہی : نکتہ پر جمع ہیں۔ اب اس بیان کے درد سے بھی یہ نہیں سمجھا جاتا ۔ کہ احمد رسول کے منکرین ہی من اظلم ممن افتویٰ علی الله ) اور یدعی الی الاسلام کے معیار کے مصداق ہیں، بلکہ اس سویا میں مدعی صادق اور مری کا ذب کو لحوظ رکھا گیا ہے۔ نہ کہ مولی صارت : کے منکرین اور ملزمین کو ا 4 موسوی عمرالدین صاحب کا جماعت احمدیہ سے خراج مولوی عمرالدین صاحب نے میرے اس منقولہ فقرہ کے جواب میں؟ کہ مولوی صاحب بلحاظ واقعیت یا علم آپ ہمارے سمجھانے کے محتاج نہیں ہیں۔ ہم آپ کے لئے دعا ہی کرتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے بال میں آپ کے کیسی گناہ کی کا ر ہے کہ آپ اپنے ظالم رشتہ داروں سے – علیحدہ نہ ہو سکے۔ ورنہ چاہیے تھا۔ آپ قربانی کرتے لکھا ہے میرا جواب ہاں ہے کہ اگر میں نے رشتہ دار کو ظالم جانتا تو مزید الگ؟ ہو جاتا۔ مگر میرے خیال ہیں توان لوگوں نے نہایت نیک نیتی سے – اپنے دلکو صاف کرنے کیلئے ہم کو عذاب اسامہ کا مطالبہ کیا تھا جسے خود میاں صاحب نے یہ لکھ کر پیچھا چھڑا لیا۔ کہ مسالہ جائزی نہیں ” اگر ایسے امور میں مباہلہ جائز ہوتا۔ تومیں مزدور جاہلہ کر لیا گھر رکھتے ہیں ۔ رہا قربانی کا مطالبہ سو قربانی اس کا نام نہیں۔ کہ نائن اپنے ۔ رشتہ داروں سے تقطع تعلق کر لیا جائے بلکہ قربانی یہ ہے کہ ہی ہے ۔ تمام جماعت اوراس انسان کی جسے میں مصلح الموعود را تا تھا جی۔ کے مقابل پر پرواہ نہ کی بلکہ تمام کے مقابل حق کہتا رہا ماروی عمر الدین صاحب کی منقولہ عبارت سے ظاہر ہے کہ وہ بزعم خود ہے۔ تیں کس شان کا حق اور راست پسند انسان سمجھتے ہی لیکن سوال یہ ہے۔ ان کا جب حضرت مسیح موعود علی السلام اور آپ کی دیتی تھی ۔ ہونے پر ایمان تھا تو حضرت کی موعود علیہ اسلام کی وہ دی جس میں گیا۔ اولاد موعود کویقینی طور پر شتی قرار دیا گیا ۔ اور سیدنا حضرت خلیفتر آی – الثانی کے حق میں حمود اور تفضل عمر کی شان کا اظہار کیا گیا۔ پھر اس کے




Share this:
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on Reddit (Opens in new window) Reddit
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on Telegram (Opens in new window) Telegram
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to email a link to a friend (Opens in new window) Email
- Click to print (Opens in new window) Print
Discover more from احمدیت حقیقی اسلام
Subscribe to get the latest posts sent to your email.