متفرق اعتراضات ۔ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین میں سے اکثر صحابہ مسیح علیہ السلام کے فوت ہونے کے قائل تھے۔
میں نے کوئی ایسے اجنبی معنے نہیں کئے جو مخالف ان معنوں کے ہوں جن پر صحابہ کرام اور تابعین اور تبع تابعین کا اجماع ہو۔ اکثر صحابہ مسیح کا فوت ہوجانا مانتے رہے۔
اعتراض:۔
جھوٹ نمبر6کے عنوان کے تحت معترض نے ازالہ اوہام کا ایک اقتباس درج کیا ہے۔
ازالہ اوہام کا صفحہ نمبر301طبع اوّل کا ہے وہ اقتباس یہ ہے کہ۔
میں نے کوئی ایسے اجنبی معنے نہیں کئے جو مخالف ان معنوں کے ہوں جن پر صحابہ کرام اور تابعین اور تبع تابعین کا اجماع ہو۔ اکثر صحابہ مسیح کا فوت ہوجانا مانتے رہے۔
(ازالہ اوہام۔ جلد 3صفحہ254)
یہ اقتباس درج کر کے انہوں نے اعتراض کیا ۔کہتے ہیں مرزا قادیانی کا یہ کہنا کہ وفات مسیح پر اجماع امت ہے غلط ہے ۔
جواب:۔
قارئین!اس اقتباس میں تو یہ فقرہ کہا ہی نہیں گیا کہ پوری امت کا وفات مسیح پر اجماع ہے تو اعتراض کیسا ۔ معترض یہ فقرہ کہہ کر اپنے قارئین کو دھوکہ دے رہا ہے ۔حضرت صاحب توصرف یہ فرماتے ہیں کہ میں نے جو کہا کہ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ اور فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کی آیات میں مسیح کی توفی کا معنی موت ہے ۔تو توفی کا معنی موت کرنا ۔نہ میں نے اجماع صحابہ کے خلاف بات کی نہ تابعین کے اجماع کے خلاف بات کی نہ تبع تابعین کے خلاف بات کی ۔تو اعتراض کس بات پر ہے۔
چنانچہ دیکھیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح بخاری لکھی ۔اس کے مختلف حصوں کانام انہوں نے کتاب لکھا ۔ کتاب الصوم،کتاب الزکوٰة،کتاب الحج ،کتاب الفتن،کتاب التفسیر،کتاب المناقب۔جس حدیث کو وہ کتاب الزکوٰة میں درج کرتے ہیں ۔اس حدیث کا کتاب الزکوٰة میں درج کرنا اس بات کا پیغام ہوتا ہے کہ اس حدیث میں زکوٰة کا مسئلہ بیان ہوا ہے ۔جس حدیث کو وہ کتاب الحج میں درج کرتے ہیں اس حدیث کا کتاب الحج میں درج کرنا اس بات کا پیغام ہوتا ہے کہ اس حدیث میں کوئی حج کا مسئلہ بیان ہوا ہے ۔جس حدیث کو وہ کتاب التفسیر میں درج کرتے ہیں وہ اس بات کا پیغام ہوتا ہے کہ اس حدیث میں کسی آیت کی تفسیر بیان ہوئی ہے۔اس تمہیدی بات کو ذہن نشین رکھیں ۔
قارئین کرام ! ایک حدیث ملاحظہ فرمائیں جوامام بخاری نے کتاب التفسیر باب تفسیر سورہ مائدہ میں لکھی ۔ حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ قیامت کا دن ہوگا ۔میں حوض کوثر پہ کھڑا ہوں گا ۔میں دیکھوں گا کہ میرے صحابہ میں سے چند افراد کو چند فرشتے گھسیٹ کر دوزخ کی طرف لے جا رہے ہیں ۔میں انہیں کہوں گا کہ یہ تو میرے صحابہ تھے۔ یہ تو جنت کے حقدار ہیں تم انہیں دوزخ کی طرف لے جا رہے ہو۔تو میری یہ بات سن کر فرشتے مجھے جواب دیں گے ۔اِنکَّ لَاتَدْرِیْ اے نبی تو نہیں جانتا مَااَحْدَثُوْابَعْدَکَ انہوں نے تیرے بعد کیا کیا غلط کام کئے تھے اِنَّھُمْ لَمْ یَزَالُوْا مُرْتَدِّیْنَ عَلٰی اَعْقَابِھِمْ مُنْذُ فَارَقْتَھُمْ جب تو ان سے فوت ہوکر جدا ہوا تھا یہ مرتد ہو گئے تھے ۔یہ تیری تعلیمات سے انحراف کر چکے تھے تو ان کو صحابی ہونے کی بناء پر نہیں بلکہ تیری وفات کے بعد تیرے دین سے انحراف کرنے کی بناء پر ہم دوزخ کی طرف لے جارہے ہیں۔حضرت رسول پاک ﷺ فرماتے ہیں جب فرشتے مجھے یہ بتائیں گے فَاَقُوْلُ کَمَاقَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ تو جس طرح خدا کے نیک بندے عیسیٰ ابن مریم نے کہا تھا اسی طرح میں بھی عرض کروں گا کُنْتُ عَلَیْہِمْ شَھِیْداً مَّادُمْتُ فَیْھِمْ اے اللہ جب تک میں ان کے اندر موجود رہا میں ان کے راہ راست پر گامزن ہونے کا گواہ ہوں فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ جب تو نے مجھے وفات دے دی کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ تو میری وفات کے بعدصرف تونے ان کے حالات دیکھے میں نے ان کے حالات نہیں دیکھے ۔ یہ حدیث درج ہوئی کتاب التفسیر میں سورة مائدہ کی تفسیر میں ۔گویا اس حدیث پاک میں اس آیت کریمہ کی تفسیر رسول بیان ہوئی ہے۔
اس جواب پر غور فرمائیں کہ حضرت رسول پاک ﷺکیا مضمون بیان فرما رہے ہیں آیت کریمہ کا ۔آپ فرماتے ہیں کہ جب مجھے یہ پتہ چلے گا کہ میرے صحابہ میں سے چند افراد میری وفات کے بعد گمراہ ہوئے تو میں اس پر حضرت عیسیٰ کا جواب سناوٴں گا گویا میرے صحابہ میں سے بعض افراد کی گمراہی اور عیسیٰ علیہ السلام کی قوم کے بعض افراد کی گمراہی باہم مشابہہ ہے۔ اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ حضرت عیسیٰؑ کی قوم کے افراد حضرت عیسیٰ ؑکی زندگی میں گمراہ ہوئے تھے تو پھر اس آیت کا صحابہ کی گمراہی آپ کی وفات کے بعد پیش کرنا آپس میں باہم مطابقت نہیں رکھتاتو آپ نے اس جواب کو اپنے صحابہ میں سے بعض افراد کی گمراہی پہ چسپاں کر کے ہمیں یہ سمجھا دیا کہ جس طرح میرے صحابہ میں سے بعض افراد میری وفات کے بعد انحراف کر گئے تھے اسی طرح حضرت عیسیٰ ؑکی قوم کے بعض افراد ان کی وفات کے بعد گمراہ ہوئے۔
اب ایک اور بات پر غور فرمائیے گا گویا یہ تفسیر رسول ہے کہ جس طرح میری قوم کے بعض افراد میری وفات کے بعد مرتد ہوئے اسی طرح عیسیٰ کی قوم کے افراد ان کی وفات کے بعد گمراہ ہوئے ۔یہ حدیث درج کر کے آگے حضرت امام بخاری صحابی رسول حضرت ابن عباس کا قول درج کرتے ہیں کہ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ مُتَوَفِّیْکَ مُمِیْتُکَ (بخاری کتاب التفسیر باب تفسیر سورة مائدہ آیت118 وتفسیر طبری زیر آیت آل عمران 56)کہ ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ یہ جو خدا نے حضرت عیسیٰؑ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اے عیسیٰؑ میں تیری تَوَفِّیْ کروں گا اس کا مطلب یہ ہے کہ مُمِیْتُکَ میں تجھ پہ موت وارد کروں گا ۔شارحین کہتے ہیں کہ باب سورة مائدہ کی تفسیر کا ہے ۔حدیث رسول تو وہ درج فرمائی جو سورة مائدہ کی آیت کے بارے میں تھی اور صحابی رسول کا قول سورة مائدہ کی آیت کی بجائے سورة آل عمران کی آیت 56کی بابت ذکر کیا ۔کیا وجہ ہے؟تو شارحین کہتے ہیں یہ بتانے کے لئے کہ جس طرح اس حدیث رسول میں حضرت رسول پاک کے بیان سے مسیح کے لئے تَوَفَّیْتَنِیْ کا معنی موت ثابت ہوتا ہے یہی ترجمہ صحابی رسول نے مُتَوَفِّیْکَ کی آیت میں کیا ہے تو اگر مسیح کے لئے مُتَوَفِّیْک کی آیت میں بقول صحابی کے اس کا معنی موت ہے تو سورة مائدہ کی فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کی آیت میں بھی مسیح کے لئے تَوَفِّیْ کا معنی موت ہوگا ۔
صحیح بخاری پڑھ جائیں ۔دنیا کی تمام حدیثوں کی کتابیں پڑھ جائیں ۔دنیا کی تمام تفاسیر کی کتابیں پڑھ جائیں ۔ کسی حدیث کی کتاب میں کسی تفسیر کی کتاب میں مسیح کے لئے توفی کے لفظ کی ابن عباس کے اس قول کے سوا کسی صحابی کا اور کوئی قول درج نہیں ۔اگر کسی صحابی نے مسیح کی تَوَفِّی کا معنی موت کے سوا کوئی اور کیا ہو تا تو کوئی محدث ،کوئی مفسر تو اسے اپنی کتاب میں درج کرتا۔گویا تمام صحابہ نے اس بات پر اتفاق کیا کہ مسیح کی تَوَفِّی کا جومعنی ابن عباس نے کیا ہے ہم اس سے اتفاق کرتے ہیں ۔گویا حدیث رسول نے بھی بتایا کہ مسیح کی توفی کامعنی موت ہے۔اجماع صحابہ نے بتایا کہ مسیح کی تَوَفِّی کا معنیٰ موت ہے ۔یہ مضمون حضور بیان فرمارہے ہیں۔
آگے انہوں نے اعتراض یہ کیا کہ مرزا قادیانی کا یہ کہنا کہ وفات مسیح پر اجماع امت ہے۔ غلط ہے۔حالانکہ یہ حضور نے یہاں پر بیان ہی نہیں فرمایا۔حضور نے تو یہ بیان فرمایا کہ صحابہ،تابعین اور تبع تابعین نے مسیح کی تَوَفِّی کے معنے موت کے سوا نہیں کئے۔ آگے لکھتے ہیں ۔حالانکہ آپ کا فرمان ہے اِنَّ عِیْسیٰ لَمْ یَمُتْ وَاِنَّہ رَاجِعٌ اِلَیْکُمْ قَبْلَ یَوْمِ الْقِیَامَةِ ۔درّ منثور
درّ منثور کے حوالے سے معترض یہ فقرہ درج کرتا ہے کہ حضرت رسول پاک نے فرمایا کہ عیسی فوت نہیں ہوا ۔آپ نے یہود کو مخاطب کر کے فرمایا کہ عیسیٰ فوت نہیں ہوا اور یوم قیامت سے پہلے اے یہودیو !عیسیٰ تمہارے پاس واپس پلٹے گا۔ کہتے ہیں جناب اس کی بناء پر پوری امت حیات مسیح کی قائل ہے آئیے دیکھیں تفسیر درّ منثور میں کیا لکھا ہے ۔اس میں اِذْ قَالَ اللّٰہُ یَاعِیْسیٰ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ کی آیت کے نیچے لکھا ہے اَخْرَجَ ابْنُ جَرِیْرٍ وَابْنُ اَبِیْ حَاتَمٍ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ ۔عَنِ الْحَسَنِ فِیْ قَوْلِہ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ یَعْنِیْ وَفَاةَ الْمَنَامِ رَفَعَہُ اللّٰہُ فِیْ مَنَامِہ قَالَ الْحَسَنُ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ لِلْیَہُوْدِ اِنَّ عِیْسیٰ لَمْ یَمُتْ وَاِنَّہ رَاجِعٌ اِلَیْکُمْ قَبْلَ یَوْمِ الْقِیَامَةَ۔(تفسیر در منثور زیر آیت آل عمران 56)
کہ حسن بصری کا یہ قول کہ رسول پاک ﷺنے فرمایا یہود کو مخاطب کر کے کہ عیسیٰ فوت نہیں ہوا اور قیامت سے پہلے تمہارے پاس واپس آئے گا ۔کہتے ہیں کہ ابن جریر نے درج کیا ۔درمنثور میں اس کی سند موجود نہیں۔ آئیے دیکھیں تفسیر ابن جریر والا کیا کہتا ہے۔ یہ تفسیر ابن جریر میں ۔یَاعِیْسیٰ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ کی آیت کے نیچے یہی قول درج ہے اور آگے سند لکھی ہے۔کہتے ہیں حَدَّثَنِیْ الْمُثَنّٰی قَالَ حَدَّثَنَااِسْحٰقُ قَالَ حَدَّثَنَاعَبْدُ اللّٰہِ ابْنُ اَبِیْ جَعْفَرَ عَنْ اَبِیْہِ عَنِ الرَّبِیْعِ فِیْ قَوْلِہ اس میں دوسرا راوی ہے حَدَّثَنَااِسْحٰق ۔(تفسیر ابن جریر زیر آیت یَاعِیْسیٰ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْک وَرَفِعُکَ آل عمران:56)اس کو اسماء الرجال کی کتابوں میں لکھا ہے کہ یہ ضعیف ہے۔اگلا راوی ہے حَدَّثَنَاعَبْدُ اللّٰہ ِابْنُ اَبِیْ جَعْفَرَ اس کے متعلق بھی اسماء الرجال کی کتابوں میں لکھا ہے کہ یہ ضعیف ہے عَنْ اَبِیْہِ اس نے اپنے باپ سے روایت کی جو ابو جعفر عیسیٰ بن ماہان ہے ۔اس کے بارے میں بھی لکھا ہے اسماء الرجال کی کتابوں میں کہ یہ بھی ضعیف ہے ۔عَنِ الرَّبِیْعِ ربیع بن انس آخری راوی ہے اس کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ راوی ضعیف ہے سند کے اعتبار سے ۔اس سند میں چار راوی ضعیف ہیں تو کیا چار ضعیف راویوں کی بناء پہ قرآن کریم کی آیت اس کی تفسیر نبوی جو بخاری شریف میں درج ہوئی اور تفسیر صحابہ کے خلاف اس قول کو حدیث رسول تسلیم کر لیا جائے ۔یہ تو تھی سند کی حالت ۔آگے دیکھیں دوسری بات کیا ہے قَالَ الْحَسَنُ حسن بصری کہتے ہیں قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ لِلْیَہُوْدِ کسی صحابی کا نام نہیں کہ میں نے کسی صحابی سے سنا ۔بھئی حسن بصری تو صحابی نہیں حسن بصری تو تابعی ہیں۔کس صحابی سے سنا ۔علم حدیث کی اصطلاح میں جب کوئی تابعی صحابی کانام نہ لے اور براہ راست کہے کہ رسول پاک ﷺنے یوں فرمایا ۔اسے کہتے ہیں کہ یہ مرسل روایت ہے ۔ اسماء الرجال کی کتاب تہذیب التہذیب میں لکھا ہے مَااَرْسَلَ فَلَیْسَ بِحُجَّةٍ ۔حسن بصری جب کسی صحابی کا نام لئے بغیر رسول پاک ﷺکی طرف حدیث منسوب کر کے بیان کرے تو وہ حجت ہی نہیں ہوتی ۔امام احمد بن حنبل کا قول لکھا ہے کہ جو حسن بصری کی مرسل روایات ہیں ان سے زیادہ ضعیف ترین روایت ہوتی کوئی نہیں ۔یہ تو اس روایت کی حقیقت ہے ۔اب آئیے دیکھیں اس پر اور کیا اعتراضات ہیں ۔وہ اس قول کو جو ضعیف ترین ہے درج کر کے ثابت یہ کرنا چاہتے ہیں کہ امت کا اجماع ہے کہ مسیح زندہ ہے ۔ارے بھئی امت کا اجماع کیسے ہوگیا۔ زندہ ہے۔دیکھیں رسول پاک ﷺوفات پاگئے بعض صحابہ کے دل میں خیال آیا کہ رسول پاک ﷺفوت نہیں ہوئے آپ زندہ ہیں۔آپ کی روح عارضی طور پر آسمانوں پر گئی آپ واپس آئیں گے ۔ منافقین کا قلع قمع کریں گے پھر آپ کی وفات ہوگی۔ان میں حضرت عمرؓ بڑے جوش کے ساتھ اس خیال کی ترجمانی کررہے تھے اور تلوار لے کر مسجد نبوی میں گھوم رہے تھے کہ جس نے یہ کہا کہ رسول پاک ﷺفوت ہوگئے ہیں میں اس کی گردن اڑادوں گا ۔آپ کبھی فوت نہیں ہوں گے جب تک آپ منافقین کا قلع قمع نہیں کریں گے ۔آپ کی روح عارضی طور پر آسمانوں پر گئی ہے ۔بعض روایات میں لکھا ہے وہ حضرت موسیٰ کی مثال پیش کرتے تھے ۔جس طرح حضرت موسیٰ کوہ طور پر گئے اور واپس آئے تھے اسی طرح رسول پاک ﷺ عارضی طور پر گئے اور واپس آئیں گے ۔علامہ شہرستانی کی کتاب الملل والنحل جلد اوّل باب المقدمة الرابعةص22میں لکھا ہے۔ وہ حضرت عیسیٰ کی مثال پیش کرتے تھے کہ جس طرح حضرت عیسیٰ چلے گئے اور واپس آئیں گے اسی طرح رسول پاک ﷺگئے ہیں اور واپس آئیں گے پھر آپ کی وفات ہوگی۔جب آپ منافقین کا قلع قمع کریں گے ۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ وہاں پر موجود نہیں تھے وہ باہر سے واپس آرہے تھے ۔بڑا خطرناک فتنہ پیدا ہونے کا امکان تھا۔ایک صحابی تیز تیز بڑھ کر حضرت ابوبکرؓ کو رستے میں ملے۔ انہوں نے عرض کی کہ رسول پاک ﷺفوت ہوگئے ہیں اور فتنہ پیدا ہونے کا امکان ہے اور حضرت عمر بڑے جوش کے ساتھ تلوار سونتے ہوئے گھوم رہے ہیں۔حضرت ابوبکر ؓسیدھے حضرت عائشہ کے کمرے میں گئے جہاں رسول پاک ﷺ کی نعش مبارک پڑی تھی ۔آپ نے چہرے سے پردہ اٹھایا اور دیکھا آپ واقعی وفات پا چکے ہیں۔ آپ کا ماتھا چوما اور عرض کی اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا ۔جس طرح بعض صحابہ جن کے خیال کی ترجمانی حضرت عمر کر رہے ہیں کہ آپ گئے ہیں یہ عارضی ہے واپس آئیں گے ۔منافقین کا قلع قمع کریں گے پھر آپ کی وفات ہوگی مستقل طور پر۔ آپ ؓنے آپ کے چہرے پر چادر دوبارہ اڑا دی ۔مسجد میں گئے اور فرمایا عمر بیٹھ جاوٴ ۔وہ بڑے جوش میں تھے نہیں بیٹھے ۔ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمر کے اس خیال کی تردید میں کہ رسول پاک ﷺ کی روح عارضی طور پرگئی ہے آپ واپس دوبارہ دنیا میں آئیں گے منافقین کا قلع قمع کریں گے ۔پھر آپ کی مستقل وفات ہوگی ۔اس خیال کی تردید میں آپؓ نے آیت پڑھی ۔آیت سے پہلے چند تمہیدی جملے کہے ۔آپؓ نے کہا اے لوگو! تم میں سے جو شخص محمد مصطفی ﷺ کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ وہ تو فوت ہوگئے اور جو خدا کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ خدا زندہ ہے وہ کبھی فوت نہیں ہوگا ۔اب یہ بات حضرت عمرؓ کے خیال کے خلاف تھی ۔نیز ان صحابہ کے خیال کے خلاف تھی جن کے خیالات کی ترجمانی حضرت عمرؓ کر رہے تھے ۔حضرت عمرؓ کے اس خیال کی تردید میں آپ ؓنے قرآن پاک کی آیت پڑھی وَمَامُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ کہ محمد مصطفی ﷺ تو صرف اللہ کے رسول ہیں قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلْ آپ سے پہلے سارے کے سارے انبیاء فوت ہوگئے ان میں سے ایک بھی رسول واپس نہیں آئے گا اَفَاِنْ مَّاتَ اَوْقُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰی اَعْقَابِکُمْ اگر رسول پاک ﷺفوت ہوجائیں یا شھید ہوجائیں تو کیا تم دین سے انحراف کرلو گے ۔اگر حضرت عمرؓ یا کوئی اور صحابی یہ آیت سن کر بھی یہ سمجھتاکہ حضرت عیسیٰ زندہ ہیں وہ دوبارہ آئیں گے تو کہتا کہ جناب کیا بات کر رہے ہیں اگر حضرت عیسیٰ زندہ ہونے کے باوجود دوبارہ دنیا میں آسکتے ہیں تو ہمارا حبیب جس کی شریعت قیامت تک رہے گی ۔جس کی امت قیامت تک رہے گی ۔جس کی ہمیں سب سے بڑھ کر ضرورت ہے وہ کیوں نہیں آسکتا ۔تو تمام صحابہ کا خاموش رہنا یہ بتاتا ہے کہ اگر کسی صحابی کے دل میں پہلے یہ خیال تھا کہ حضرت عیسیٰ زندہ ہیں ۔وہ آئیں گے تو حضرت ابوبکر کی زبان سے یہ آیت قرآنی سن کر اس خیال کو انہوں نے چھوڑ دیا ۔(بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی)
یہ ہے سب سے پہلاصحابہ کا اجماع ۔ امام مالک کا قول تفسیر ابن عطیةجلداوّل اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ کی آیت کے نیچے لکھا ہے کہ امام مالک کہتے تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے۔ابن حزم اپنی کتاب المحلّٰی جز اوّل ص23 ادارة الطباعة المنیریہ مطبع البھضتہ مصرمیں کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ فوت ہوگئے ۔ ابن قیّم کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ فوت ہوگئے۔(مدارج السالکین جز ثانی ص356 داراحیاء بیروت)ابن عربی کہتے ہیں کہ وَجَبَ نُزُوْلِہ فِیْ آخِرِ الزَّمَانِ بِتَعَلُّقِہ ِ َببَدَنٍ آخِرٍ (تفسیر القرآن الکریم ص3 لابن عربی جلد اوّل دارالاندلس بیروت)آخری زمانے میں عیسیٰ کا نزول ہوگا مگر اس جسم کے ساتھ نہیں بلکہ کسی اور جسم کے ساتھ یعنی مثالی رنگ میں آئے گا۔
Share this:
- Click to share on Facebook (Opens in new window)
- Click to share on Twitter (Opens in new window)
- Click to share on Reddit (Opens in new window)
- Click to share on Tumblr (Opens in new window)
- Click to share on Pinterest (Opens in new window)
- Click to share on Telegram (Opens in new window)
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window)
- Click to email a link to a friend (Opens in new window)
- Click to print (Opens in new window)
Discover more from احمدیت حقیقی اسلام
Subscribe to get the latest posts sent to your email.