متفرق اعتراضات ۔ خود آنحضرت ﷺبھی اس کی تصدیق کر رہے ہیں کہ درحقیقت ابن صیاد ہی دجال معہود ہے
اعتراض:۔
اس عنوان کے نیچے ازالہ اوہام صفحہ 242طبع اوّل کا ایک اقتباس درج کیا ہے ۔مگر اقتباس درج کر تے ہوئے ان سے بعض الفاظ آگے پیچھے ہوگئے ہیں جس سے مفہوم واضح نہیں ہوتا ۔ہم ان پر جھوٹ اور بددیانتی کا الزام نہیں لگاتے ۔ہم یہ کہتے ہیں کہ سہوًا اقتباس درج کرتے ہوئے الفاظ آگے پیچھے ہوگئے۔اس لئے اصل کتاب سے مکمل اقتباس درج کیا جاتا ہے ۔پھر ان کا اعتراض قارئین کے سامنے رکھا جائے گا۔
اقتباس یہ ہے حضورؑ فرماتے ہیں :۔
”احادیث صحیحہ مسلم وبخاری باتفاق ظاہر کر رہی ہیں کہ دراصل ابن صیاد ہی دجال معہود تھا اور حضرت عمرفاروق جیسے بزرگ صحابی روبرو آنحضرت ﷺ کے خدا تعالیٰ کی قسم کھا رہے ہیں کہ درحقیقت دجال معہود ابن صیاد ہی ہے اور خود آنحضرت ﷺبھی اس کی تصدیق کر رہے ہیں کہ درحقیقت ابن صیاد ہی دجال معہود ہے۔“
(ازالہ اوہام۔رخ جلد3صفحہ222)
اس اقتباس کو درج کر کے معترض یہ لکھتا ہے ”واہ رے مرزا جی کی راستبازی کہ نبی ﷺپر جھوٹ باندھا کہ آپ ﷺنے تصدیق کی کہ ابن صیاد دجال ہے۔کیا آپ حدیث میں سے آپ ﷺکی تصدیق دکھا سکتے ہیں؟“
جواب:۔
قارئین!پہلے اس مضمون کی حقیقت کو سمجھیں ۔یہ مضمون بیان کیا ہورہا ہے ۔پھر ان کے اعتراض کا جواب درج کیا جائے گا۔
حضرت رسول پاکﷺ نے دجال کے ظہور کی علامات بتائیں کہ ایک آنکھ سے کانا ہوگا ۔اس کے ماتھے پر کافر لکھا ہوگا ۔اسے ہر مومن پڑھ لے گا خواہ وہ مومن پڑھا ہواہو خواہ ان پڑھ۔ وہ ایک گدھے پر سوار ہوگا جوبہت تیز رفتار سے چلے گا ۔مشرق ومغرب میں پھیل جائے گا جس طرح تیز ہوا کے نتیجے میں بادل اڑتا ہے اسی طرح وہ تیز رفتاری سے فضا میں اڑے گا ۔وہ جہاں سے گذرے گا زمین کے خزانے اس کے پیچھے پیچھے چلیں گے ۔وہ جہاں چاہے گا بارش برسا دے گا۔وہ خدائی کا دعویٰ کرے گا ۔وہ نبوت کا دعویٰ کرے گا ۔جو اس کی خدائی کا دعویٰ قبول نہیں کرے گا اس کو ہلاک کر دے گا ۔وہ زندہ انسان کو قتل کر دے گا ،قتل کرنے کے بعد اس کو زندہ کر دے گا ۔یہ ساری باتیں بیان کی گئیں۔
(صحیح بخاری کتاب الفتن باب ذکر الدجال، مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال، کنز العمال کتاب القیامہ باب الدجال ،مشکوٰة المصابیح کتاب الادب باب العلامات وذکر الدجال)
حضرت رسول پاک ﷺنے جو اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر دجال کی علامات بیان فرمائیں اس کے باوجود آپ نے مدینہ کے یہودی خاندان میں پیدا ہونے والے بچے ابن صیاد کے بارے میں یہ خیال ظاہر کیا کہ یہ دجال معہود ہے۔اس کے پاس آپ گئے چند صحابہ بھی آپ کے ساتھ تھے ۔اس کی علامات کا مشاہدہ کیا ۔ان باتوں میں سے کوئی علامت بھی اس کے اندر موجود نہیں تھی ۔اس کے باوجود آپ نے بھی اس پہ دجال معہود ہونے کا شبہ کیا۔صحابہ نے بھی اس پہ دجال معہود ہونے کا شبہ کیا ۔اس سے کیا ثابت ہوتا ہے کہ حضرت رسول پاک ﷺنے اپنے اس شبے سے ہمیں یہ سمجھایا کہ ضروری نہیں کہ دجال کی بیان کردہ علامات جو خدا نے مجھ پر آشکار فرمائیں یہ ظاہری طور پر پوری ہوں گی بلکہ تاویلی طور پر پوری ہو سکتی ہیں۔اسی لئے اس پر شک کا اظہار کیا گیا ورنہ اس پر تو دجال کی علامات ظاہراًپوری ہوتی ہی نہیں تھیں۔
اب دیکھئے معترض کہتا ہے کہ حضرت بانیٴ جماعت احمدیہؑ نے حضرت رسول پاک ﷺپر جھوٹ باندھا کہ آپ نے تصدیق کی کہ یہ دجال معہود ہے ۔ایک حدیث قارئین کے سامنے رکھی جاتی ہے :
بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ باب من رأی ترک النکیر من النبیﷺ اور مسلم کتاب الفتن واشراط الساعۃ باب ذکر ابن صیاد میں یہ حدیث ہے۔محمد بن المنکدر بیان کرتے ہیں۔
رَأَیْتُ جَابِرَبْنَ عَبْدِ اللّٰہِ یَحْلِفُ بِاللّٰہِ اَنَّ ابْنَ الصَّائِدِ الدَّجَّالُ ۔کہ میں نے صحابی رسول حضرت جابر بن عبد اللہ کو دیکھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہہ رہے تھے کہ ابن صیاد دجال ہے ۔میں بہت حیران ہوا کہ قسم تو بڑی یقینی بات میں کھائی جاتی ہے اور اتنے یقین کے ساتھ یہ صحابی رسول قسم کھا رہا ہے کہ ابن صیاد دجال ہے۔
فَقُلْتُ میں نے حضرت جابر سے عرض کی اَتَحْلِفُ بِاللّٰہِ ۔کیا آپ ابن صیاد کے دجال ہونے پر اتنے پر یقین ہیں کہ آپ اللہ کے نام کی قسم کھا رہے ہیں۔قَالَ حضرت جابر بن عبد اللہ نے بیان کیا اِنِّیْ سَمِعْتُ عُمَرَ ۔میں اکیلا ہی قسم نہیں کھا رہا میں نے حضرت عمر کو قسم کھاتے سنا تھا۔یَحْلِفُ عَلٰی ذَالِکَ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کہ آپ رسول خدا حضرت محمد مصطفی ﷺ کے سامنے اس بات پر اللہ کے نام کی قسم کھا رہے تھے کہ یارسول اللہ یہ ابن صیاد دجال ہے ۔محض شک کا اظہار نہیں کر رہے ۔ انسان معمولی بات پر قسم نہیں کھایا کرتا ۔پھر ایسا صحابی جس کو خدا نے آپ کی وفات کے بعد دوسرا خلیفہ مقرر فرمایا ۔جس کے بارے میں فرمایا کہ حق عمر کی زبان پر جاری ہوتا ہے۔اس کی زبان سے اللہ کے نام کی قسم سن کر کہ ابن صیاد دجال ہے آپ نے حضرت عمر کو منع نہیں فرمایا ۔چنانچہ صحابی حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں ۔فَلَمْ یُنْکِرْہُ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم ۔حضرت نبی پاک ﷺنے حضرت عمر کی زبان سے اللہ کے نام کی قسم کھا کر یہ بیان کہ اللہ کی قسم ابن صیاد دجال ہے ۔آپ کی قسم کا اور آپ کے خیال کا انکار نہیں کیا۔
قارئین! تصدیق کس کو کہتے ہیں علم حدیث کی اصطلاح میں ایک حدیث تقریری بیان کی جاتی ہے کہ حضرت رسول پاک ﷺ کے سامنے کوئی بات کی جائے ،کوئی کام کیا جائے اور آپ اس بات سے ،اس کام سے منع نہ فرمائیں تو گویا آپ نے اس بات کے صحیح ہونے کی اس کام کے صحیح ہونے کی تصدیق فرما دی ۔اس کانام علم حدیث کی اصطلاح میں حدیث تقریری ہوتا ہے تو حضرت رسول پاک ﷺ کے سامنے حضرت عمر کا اللہ کے نام کی قسم کھا کر بیان کرنا کہ ابن صیاد دجال ہے اورآپ کا انکار نہ کرناحدیث تقریری ہے۔ آپ کے عمل سے اس بات کی تصدیق ہے۔
صرف اتنی ہی بات نہیں ۔سنن ابوداوٴد کتاب ظہور امام مہدی باب ذکر ابن صیاداور بیہقی میں لکھا ہے کہ حضرت نافع جو ابن عمر کے غلام تھے وہ کہتے ہیں ۔کَانَ ابْنُ عُمَرَ یَقُوْلُ ۔ حضرت عمر کے بیٹے عبد اللہ بن عمر کہا کرتے تھے وَاللّٰہِ اللہ کی قسم مَاأَشُکَُّّ مجھے اس امر میں ذرہ برابر شک نہیں اَنَّ الْمَسِیْحَ الدَّجَّالَ ابْنُ صَیَّادٍ کہ مسیح دجال ابن صیاد ہے۔
قارئین! حضرت عبد اللہ بن عمریہ ایک معاملے پر اللہ کی قسم کھا کے اس بات کااظہار کریں تو کس دلیل کی بنیاد پر۔ اگر وہ سمجھتے کہ حضرت رسول پاک ﷺنے اس امر کی تصدیق نہیں فرمائی تو کیا وہ بے بنیاد خیال کی بناء پراللہ کی قسم کھا رہے ہیں۔
مشکوٰة شریف کتاب الفتن باب قصۃابن صیادمیں شرح السنۃکے حوالے سے صحابی کا قول لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں
لَمْ یَزَلْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ مُشْفِقًا۔ حضرت رسول پاک ﷺہمیشہ اس بات سے ڈرتے رہے اِنَّہ ھُوَالدَّجَّالُ ۔ کہ ابن صیاد دجال ہے۔اگر رسول پاک ﷺنے اپنے قول سے اپنے فعل سے ابن صیاد کے دجال ہونے کا اظہار نہیں فرمایا تو صحابی کس بنیاد پر کہہ رہا ہے ۔ یقینا انہوں نے آپ کی زبان سے سنا آپ کے عمل سے اس امر کا مشاہدہ کیا ۔صحیح مسلم کتاب الفتن واشراط الساعہ باب ذکر الدجال میں حضرت ابو سعید خدری کی روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں اور ابن صیاد مدینہ سے مکہ کے سفر پر روانہ ہوئے ۔ابن صیاد نے دوران سفر میرے پاس اس بات کا گلہ کیا ۔ وہ کہنے لگا لوگ میرے بارے میں کہتے ہیں کہ میں دجال ہوں ۔لوگوں کی یہ باتیں سن کر مجھے بڑی تکلیف ہوتی ہے۔
قارئین!یہ صحابہ کے دور میں کون لوگ کہتے تھے کہ ابن صیاد دجال ہے ۔جن کی باتیں سن کر ابن صیاد کو تکلیف ہوتی تھی۔وہ دور تو صحابہ کا تھا اور صحابہ کس بنیاد پر کہتے تھے اگر انہوں نے اپنے محبوب رسول مقبول ﷺکی زبان سے اس بات کو سنا نہیں تھا ۔ چنانچہ ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں ۔ابن صیاد کہنے لگا کہ دیکھو کیا تم نے نہیں سنا کہ رسول پاک فرماتے تھے دجال بے اولاد ہوگا اور میں صاحب اولاد ہوں۔اے ابو سعید! تم نے نہیں سنا کہ آپ نے فرمایا تھا کہ دجال کافر ہوگا اور میں تو مسلمان ہو چکا ہوں ۔کیا آپ نے نہیں سنا کہ رسول پاک ﷺنے فرمایا تھا کہ دجال مکہ اور مدینہ میں داخل نہیں ہو سکے گا باقی ساری دنیا پر اس کا غلبہ ہوگا ۔ ساری دنیا پہ چھا جائے گا اور میں مدینہ سے آرہا ہوں اور مکہ کوجارہا ہوں۔حضرت ابو سعید خدری دوران سفر اس کی کسی بات کا انکار نہیں کرتے گویا اس کے بیان کو درست تسلیم کرتے ہیں کہ صحابہ اس کو دجال کہا کرتے ہیں ۔یہ واقعہ بیان کر کے ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں فَلَبَّسَنِیْ اس نے یہ گلہ شکوہ کر کے اور یہ باتیں بیان کر کے مجھے شبے میں ڈال دیا ۔بھئی اگر ابو سعید خدری ابن صیاد کو دجال سمجھتے ہی نہیں تھے تو شبہ کیسے پڑ گیا۔
1
Share this:
- Click to share on Facebook (Opens in new window)
- Click to share on Twitter (Opens in new window)
- Click to share on Reddit (Opens in new window)
- Click to share on Tumblr (Opens in new window)
- Click to share on Pinterest (Opens in new window)
- Click to share on Telegram (Opens in new window)
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window)
- Click to email a link to a friend (Opens in new window)
- Click to print (Opens in new window)
Discover more from احمدیت حقیقی اسلام
Subscribe to get the latest posts sent to your email.