Search
Close this search box.

متفق اعتراضات ۔ عیسیٰ اور موسیٰ علیہ السلام مکتبوں میں بیٹھے اور عیسیٰ علیہ السلام نے یہودی استاد سے تمام تورات پڑھی

فہرست مضامین

Ahmady.org default featured image
متفق اعتراضات ۔ عیسیٰ اور موسیٰ علیہ السلام مکتبوں میں بیٹھے اور عیسیٰ علیہ السلام نے یہودی استاد سے تمام تورات پڑھی

اعتراض24 :۔
‘‘ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اور نبیوں کی طرح ظاہری علم کسی استاد سے نہیں پڑھا تھا۔ مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام مکتبوں میں بیٹھے تھے اور حضرت عیسیٰ نے ایک یہودی استاد سے تمام تورات پڑھی تھی۔’’

(ایام الصلح- خزائن جلد14صفحہ394)

اس عبارت میں مرزا جی نے اللہ تعالیٰ کے دو برگزیدہ نبیوں پر جھوٹ بولا ہے۔اول تو مرزا جی کو خود اعتراف ہے کہ انبیاء علیہھم السلام کا کوئی انسان استادیا اتالیق نہیں ہوتا۔وہ تمام علوم اللہ تعالیٰ ہی سے حاصل کرتے ہیں۔دیکھو براہین احمدیہ۔لکھا ہے:

‘‘اورتمام نفوس قدسیہ انبیاءکو بغیر کسی استاد اور اتالیق کے آپ ہی تعلیم اور تادیب فرما کر اپنے فیوض قدیم کا نشان ظاہر فرمایا۔’’

(براہین احمدیہ، خزائن جلد اول صفحہ16)

مرزا جی خود ہی جھوٹ بولتے ہیں اور خود ہی اس کی تردید بھی کرتے ہیں۔سچ ہے دروغ گو را حافظہ نباشد۔جن مکتبوں میں بیٹھ کر اور جن اساتذہ سے حضرت موسیٰ و عیسٰی علیہم السلام نے پڑھا ہے۔ ذرا اس کا حوالہ تو پیش کرو۔مگر ہوتو پیش کریں۔کتنا کھلا جھوٹ ہے”

جواب:۔
اس اعتراض کے دو حصے ہیں۔پہلا یہ کہ حضرت موسیٰ اور عیسیٰ جن مکتبوں میں پڑھے ان کا حوالہ پیش کرو۔ورنہ معترض کے نزدیک حضرت موسیٰ و عیسیٰ بھی نبی کریمﷺکی طرح‘‘اُمّی’’تھے۔

حالانکہ الرسول النبی الامّی کا خطاب اور مقام تو قرآن ہے کہ ‘‘لا تخطّہ بیمینک’’ کے مطابق آپﷺ لکھنا نہیں جانتے تھے۔ ‘‘اُمّی’’صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاامتیاز اور شان ہے۔اورمَا كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ(الشوریٰ:53)کےمطابق آپ کو کتاب اور اسے پڑھنے کا علم نہ تھا۔چنانچہ جب جبریلؑ نے آپ کو ‘‘اِقرأ’’کہا تو فرمایا ‘‘ما انا بقاریٔ’’میں پڑھا ہوا نہیں۔مگر آپﷺ کی عظمت و شان اور کمال یہ ہے جن کو تمام دنیا کا معلّم کتاب و حکمت بنایا گیا۔کیا خوب فرمایا:

امی و در علم وحکمت بے نظیر

زیں چہ باشد حجتی روشن ترے

رسول اللہﷺ کی یہ امتیازی شان حضرت مرزا صاحب نے دیگر انبیاء کے مقابل پر بیان فرمائی ہے۔

اعتراض کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ مرزا صاحب کو خود اعتراف ہے کہ تمام نفوس قدسیہ انبیاءکو بغیر کسی استاد اور اتالیق کے آپ ہی تعلیم اور تادیب فرما کر اپنے فیوض قدیم کا نشان ظاہر فرمایا۔(براہین احمدیہ، خزائن جلد اول صفحہ١٦) خود ہی جھوٹ بولتے ہیں اورخودہی اس کی تردیدبھی کردیتےہیں کہ حضرت موسیٰ اور عیسیٰ نے اساتذہ سے پڑھا ہے۔

معترض اپنی کم فہمی کا الزام ناحق حضرت مرزا صاحب کو دیتے ہیں۔امر واقعہ یہ ہے کہ جیسا کہ حضرت مرزا صاحب نےتحریر فرمایا‘‘روحانی علوم و فیوض میں نبی کا کوئی دنیاوی استاد نہیں ہوا کرتا،جس کا مطلب یہ نہیں کہ دنیوی علوم بھی وہ اہل دنیا سے نہیں سیکھتے۔یہ بات تاریخی حقائق کے خلاف ہے۔

حضرت ادریس کے بارہ میں رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ وہ پہلا نبی تھا جس نے قلم سے لکھنا سیکھا۔(صحیح ابن حبان، کتاب البر والاحسان، باب ما جاء فی الطاعات وثوابھا جزء دوم صفحہ76)اسی طرح حضرت اسماعیلؑ کے بارہ میں لکھاہےکہ وہ عراق سے ہجرت کر کے حضرت ہاجرہ کے ساتھ مکہ آئے تو ان کی زبان عبرانی تھی۔ وَشَبَّ الغُلاَمُ وَتَعَلَّمَ العَرَبِيَّةَ مِنْهُمْ، (بخاری کتاب الانبیاء)انہوں نے جرہم قبیلہ سے عربی زبان لکھنا پڑھنا سیکھی۔رسول اللہﷺ میں اور دیگر انبیاء میں یہ فرق ہے کہ آپؐ پر کامل امّیت غالب تھی۔آپ نے ظاہری و باطنی اور دنیوی و روحانی کوئی علم کسی انسان سے نہیں سیکھا۔جبکہ دیگر انبیاء نے لکھنا پڑھنا اور دنیوی علوم اپنے زمانہ کے اہل علم لوگوں سے سیکھے جو کوئی قابل اعتراض بات نہیں کیونکہ صرف روحانی علوم میں نبی کا کوئی استاد نہیں ہوتا مگر نامعلوم کیوں معترض کو اپنے نبی پاک رسول اللہﷺ کی یہ شان منظور نہیں اور آپ کی یہ شان چھین کر انبیاء بنی اسرائیل حضرت موسیٰ اور عیسیٰ کو بھی دینا چاہتا ہے۔اہلحدیث اور امت محمدیہ کا فرد ہونے کا مدعی ہو کر اپنی امّت کے نبی کی فضیلت بلا ثبوت غیروں کو دینے پر انّا للہ ہی پڑھا جا سکتا ہے۔حالانکہ خود قرآن مجید سے ثابت ہے کہ حضرت موسیٰؑ پڑھے لکھے تھے۔

معترض نے نہایت بے باکی سے حضرت موسیٰ کے مکتب یا استاد کا حوالہ طلب کیا تھا۔لیجئے حوالہ پیش ہے:

‘‘موسیٰ نے مصریوں کے تمام علوم کی تعلیم پائی اور وہ کلام اور کام میں قوت والا تھا۔’’

(اعمال باب 7 آیت22)

بلکہ‘‘آپؑ کو مذہبی رہنما کے طور پر تعلیم دی گئی اور آپ کو کافی حد تک مصری،کلدانی،اسیری اور یونانی لٹریچر سکھایا گیا تھا۔’’

(The Old Testament History by William Smith p.138)

کاش!معترض نے قرآن غور سےپڑھا ہوتا تو انہیں علم ہوتا کہ موسیٰ نے اللہ کے ایک نیک بندے کے آگے زانوئے تلمّذتہہ کیا تھا۔جسے مفسرین خضر کے نام سے یاد کرتے ہیں۔گویا وہ مکتب خضر کے تعلیم یافتہ تھے۔قرآن میں صاف لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ نے خضر کے پاس جاکر یہ درخواست کی هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا(کہف:67) مجھے اس شرط پر اپنے ہمراہ شریک سفر ہونے کی اجازت دیں کہ جو علم و رشد آپ کو سکھایا گیا ہے۔وہ علم آپ مجھے بھی سکھائیں۔اس استاد کامل نے پہلے تو تردّد کیا کہ اے موسیٰ! آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے پھرکوئی سوال نہ کرنے کی شرط کے ساتھ حضرت موسیٰ کو اپنی شاگردی میں لیا۔

پھر حضرت موسیٰ کو جو شریعت دی گئی وہ الواح میں تحریر شدہ تھی۔فرمایا: وَكَتَبْنَا لَهُ فِي الْأَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْعِظَةً وَتَفْصِيلًا لِكُلِّ شَيْءٍ(الاعراف:146) یعنی ہم نے موسیٰ کے لیے الواح میں ہر قسم کی نصیحت لکھی۔اگر وہ پڑھے نہ تھے تو الواح مرقومہ کی صورت میں شریعت کے مکلّف کیسے ہوگئے؟وہ تو الواح اپنے ساتھ رکھتے تھے۔فرمایا: أَخَذَ الْأَلْوَاحَ وَفِي نُسْخَتِهَا هُدًى وَرَحْمَةٌ (الاعراف:155) کہ موسیٰ نے الواح اٹھائیںٍ جن میں ہدایت و موعظت تحریر تھی۔

الواح کا مطالعہ اور ابلاغ حضرت موسیٰ کے پڑھنے لکھنے کے بغیر ممکن نہیں۔

یہی حال حضرت عیسیٰ کا ہے۔انجیل شاہد ہے کہ وہ لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔

یہودی و عیسائی محققین کے نزدیک پہلی صدی قبل مسیح تک بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے مدرسوں کا نظام موجود تھا جس میں بچوں کو درساً بائبل پڑھائی جاتی تھی۔‘‘پہلی صدی عیسوی تک صرف یروشلم میں 480 کے قریب ایسے ادارے قائم ہوچکے تھے۔۔۔۔۔اور پہلی صدی عیسوی میں اکثر یہودی بچوں کو انہیں مکتبوں میں رسمی تعلیم دی جاتی تھی۔’’

(The Galilean Jewishness of Jesus by Bernard J. Lee page:122)

یہود ان اداروں کو ‘‘بیت المدراس’’ کہا کرتے تھے۔(بخاری کتاب الجزیة باب اخراج الیہود من جزیرة العرب)

ایک مشہور امریکی محقق Mark L. Straussکی عبارت کا مفہوماً ترجمہ یہ ہے:‘‘اکثر یہودی بچوں کی طرح یسوع کو بھی مقامی سناگوگ(معبد) میں جہاں صحائف اور عبرانی زبان کی تعلیم دی جاتی ہے تعلیم دی گئی ہوگی۔ہمیں اس کے ناصرة میں خطاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پڑھ سکتا تھا۔’’

(Jesus’ Literacy by Chris Keith page:12)

‘‘وہ ناصرةمیں آیا جہاں اس نے پرورش پائی تھی اور اپنے دستور کے موافق سبت کے دن عبادت خانہ میں گیا اور پڑھنے کو کھڑا ہوا۔اور یسعیاہ نبی کی کتاب اس کو دی گئی اور کتاب کھول کر اس نے وہ مقام نکالا جہاں یہ لکھا تھا کہ خداوند کا روح مجھ پر ہے۔۔۔پھر وہ کتاب بندکرکے اور خادم کو واپس دے کر بیٹھ گیا۔

(لوقاباب 4آیات16تا20)

ایک اور کتاب میں ہے:

“Like other boys in his village, from the age of six to ten Jesus became literate in Hebrew through study of the Torah in the Nazareth synagogue and he memorized vast quantities of scripture.”

(The New Testament in Antiquity by Gray M.Burge,Page :128-129)

یعنی اپنے گاؤں کے دیگر بچوں کی طرح 6 سے 10 سال کی عمر تک یسوع ناصرہ کے سینا گوگ میں تورات پڑھ کر عبرانی سیکھ گیا تھا اور اس نے صحائف کا کافی حصہ یاد کر لیا تھا۔’’

1۔حدیث نبویؐمیں ہے:وھو أول من خط بالقلم

(صحیح ابن حبان، کتاب البر والاحسان، باب ما جاء فی الطاعات وثوابھا جزء دوم صفحہ76)

ترجمہ:ادریس ہےاوروہ پہلاشخص ہےجس نےقلم سےلکھناشروع کیا۔

2۔سیرۃابن ہشاممیں ہے:”یہی ادریس پیغمبرہیں اوران ہی کوپہلےنبوت ملی اورانہی نےقلم سےلکھناایجادکیا۔”

(سیرۃابن ہشام مترجم اردو جلد اول صفحہ١مطبوعہ رفاہ عام سٹیم پریس لاہورومطبوعہ مطبع جامعہ عثمانیہ حیدرآباددکن1367ھ)

3۔ حضرت امام رازی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:

”انّہ علیہ السلامُ لم یکن من أھل القرأۃ والکتابۃ فلو نُزِّل علیہ ذالک جملۃ واحدۃ کان لا یضبطہ، ولجاز علیہ الغلط والسھو وانما نزلت التوراۃ جملۃ لأنھا مکتوبۃ یقرء ھا موسیٰ”

(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ472مطبوعہ مطبع اول۔نیاایڈیشن جلد 24صفحہ78مصرزیرآیت بالاالفرقان :23)

یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پڑھے لکھے ہوئے نہیں تھے۔۔۔لیکن تورات جوبیک وقت نازل ہوگئی تھی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ لکھی لکھائی تھی اور حضرت موسیٰ پڑھنا جانتے تھے۔

4۔ تفسیربیضاویزیرآیت الفرقان :23لکھاہے: کذلک أنزلناہ مفرقا لنقوی بتفریقہ فؤادک علی حفظہ وفہمہ لأن حالہ یخالف حال موسی وداود وعیسی حیث کان علیہ الصلاۃ و السلام أمیا وکانوا یکتبون۔

(بیضاوی جزء اول صفحہ216زیر آیت الفرقان 23)

یعنی ہم نے ایسے ہی قرآن مجید کو بیک وقت نازل کرنے کی بجائے تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا ہے۔۔۔۔یہ اس لیے ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حال موسیٰ، داؤد اور عیسیٰ علیہ السلام سے مختلف تھا بدیں وجہ کہ آپ ”امی” تھے مگر موسیٰ، داؤد اور عیسیٰ علیہم السلام لکھے پڑھے ہوئے تھے۔

5۔ تفسیرحسینیمیں ہے:

”حضرت موسیٰ اورحضرت داؤدعلیہماالسلام پرکتاب جوایک باراتری تووہ لکھتے پڑھتے تھے اور ہمارے حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم وآلہٖ اجمعین امی تھے۔”

(تفسیر حسینی مترجم اردو جلد دوم صفحہ140زیرآیت ورتلناہ ترتیلا)

6۔پڑھالکھاہونامنصب نبوت کےخلاف نہیں ہے۔حضرت موسیٰ اورحضرت عیسیٰ کے حالات دیکھنے سے معلوم ہوتا ہےکہ وہ پڑھےلکھے تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو سرنبوت کی تفصیل و شرح اور علوم باطنی کے سب سے بڑے راز دان تھے، اللہ تعالیٰ نے اپنی تعلیم کے سوا کسی غیر کی تعلیم کا منت کش بنانا گوارا نہ فرمایا۔ چنانچہ گذشتہ آسمانی کتب میں بھی امی کے لقب کے ساتھ آپ کی بشارتیں دی گئیں۔

(تاریخ القرآن مصنفہ حافظ محمد اسلم صاحب جے۔ راج پوری مکتبہ جامعہ نئی دہلی صفحہ 13-14باختلاف الفاظ مطبوعہ مطبع فیض عام علیگڑھ1326ھ زیرعنوان تمہید)

پس النبی الامّی صرف رسول اللہ کی شان اقدس ہے۔بقای انبیاء دنیوی علوم اہل دنیا اور اہل علم سے سیکھتے رہے۔ہاں علم لدنی و روحانی میں کسی نبی کا کوئی استاد نہیں ہوتا۔علم الہٰی،اخبار غیبیہ اور وہ روحانی معارف وحقائق جو انبیاء کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کیے جاتے ہیں اور وہ ہر وقت جبریلی تجلی کے نیچے ہوتے ہیں اور تمام انبیاء بروزی طور پر ما ینطق عن الھویٰ ان ھو الا وحی یوحی کے مصداق ہوتے ہیں۔جیسا کہ ہمارے آقا و مولیٰ محمد مصطفیٰ ﷺاس کے اکمل و اتم مصداق تھے۔اور حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں:

’’ ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اور نبیوں کی طرح ظاہری علم کسی اُستادسے نہیں پڑھا تھا ۔۔۔ غرض اسی لحاظ سے کہ ہمارے نبی صلی اﷲعلیہ وسلم نے کسی اُستاد سے نہیں پڑھا خدا آپ ہی اُستاد ہوا اور پہلے پہل خدا نے ہی آپ کو اِقْرَءْ کہا۔ یعنی پڑھ ۔ اور کسی نے نہیں کہا اِس لئے آپ نے خاص خداکے زیر تربیت تمام دینی ہدایت پائی۔‘‘

(ایام الصلح- روحانی خزائن جلد14صفحہ394)

اب یہ حقیقت ظاہر ہوجانے کے بعد ملاحظہ فرمائیے کہ جھوٹ کا مرتکب کون ہوا؟ اگر معترج کا موقف مانا جائے تو حضرت موسیٰ،حضرت ادریس،حضرت اسماعیل کی نبوتوں پر بھی اعتراض پڑتا ہے جن کو قرآن سچا نبی قرار دے رہا ہے۔پس مرزا صاحب پر بدظنی کر کے معترض نے دیگر کئی انبیاء پر بھی جھوٹ کی جسارت کی۔اللہ تعالٰی فرماتا ہے:

وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَا أَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُودُكُمْ وَلَكِنْ ظَنَنْتُمْ أَنَّ اللَّهَ لَا يَعْلَمُ كَثِيرًا مِمَّا تَعْمَلُونَ . وَذَلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِي ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ أَرْدَاكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ مِنَ .

(فصلت:24-25-)


Discover more from احمدیت حقیقی اسلام

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply