Search
Close this search box.

حضرت مسیح موعود مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام پر لعنت بازی کرنے کے الزام کا جواب

فہرست مضامین

Ahmady.org default featured image

لعنت بازی

راشد علی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ’’ ازالہ اوہام ‘‘ سے ، سیاق وسباق سے الگ کر کے یہ فقرہ درج کیا ہے۔

’’ لعنت بازی صدیقوں کا کام نہیں ۔۔۔۔۔۔ مومن لعان نہیں ہوتا۔ ‘‘ (ازالہ اوہام ۔ روحانی خزائن جلد۳ صفحہ ۴۵۶)

اس کے بعد اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ’’انجام آتھم ‘‘ کے ضمیمہ سے یہ عبارت درج کی ہے کہ

’’ عبدالحق غزنوی بار بار لکھتا ہے کہ آتھم والی پیشنگوئی میں پادریوں کی فتح ہوئی ، ہم اس کے جواب میں بجز اس کے کیا لکھیں ؟کہ اے بدذات ، یہودی صفت ، پادریوں کا اس میں منہ کالا ہوا اور اس کے ساتھ ہی تیرا بھی ۔۔۔۔۔۔ اے خبیث ،کب تک تو جیئے گا ۔۔۔۔۔۔ خاص کر اس رئیس الدجّالین عبدالحق غزنوی اور اس کا تمام گروہ علیہم نعال لعن اللّٰہ الف الف مرّۃ ان پر خدا کی لعنت کے دس لاکھ جوتے برسیں ۔ اے پلید دجال ! تعصب نے تجھ کو اندھا کر دیا۔ ‘‘(ضمیمہ انجام آتھم ۔ روحانی خزائن جلد ۱۱صفحہ ۳۲۹ ، ۳۳۰)

اس کے بعد راشد علی لکھتا ہے کہ

’’مرزا صاحب نے اپنی کتاب نورالحق میں اپنے بعض عیسائی مخالفوں پر ہزار لعنتیں بھیجیں ہیں۔ یہ کوئی عجیب بات نہیں ۔ مرزا صاحب ہمیشہ سے ہی لعنتوں کی مشین گن چلانے کے عادی تھے لیکن اس جگہ تو انہوں نے حد ہی کر دی تھی۔ کتاب کے چار سے زیادہ صفحات پر گنتی کر کے ایک ہزار لعنتوں سے سیاہ کر دئیے۔ لعنت ۱ ، لعنت ۲ ، لعنت ۳ ، ۔۔۔ لعنت ۹۹۹ ، لعنت ۱۰۰۰ ۔ ‘‘ i ’’لعنت بازی صدّیقوں کا کام نہیں‘‘

معزّز قارئین! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

کَيْفَ يَهْدِىْ اللّٰهُ قَوْمًا کَفَرُوْا بَعْدَ اِيْمَانِهِمْ وَشَهِدُوْۤا اَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ وَّجَآءَهُمُ الْبَيِّنٰتُ‌ؕ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِىْ الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ‏ ۔ اُولٰٓٮِٕکَ جَزَآؤُهُمْ اَنَّ عَلَيْهِمْ لَعْنَةَ اللّٰهِ وَالْمَلٰٓٮِٕکَةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَۙ‏ (آل عمران :۸۷ ، ۸۸)

ترجمہ :۔ اللہ تعالیٰ اس قوم کو کیونکر ہدایت دے گا کہ جس نے اپنے ایمان کے بعد کفر کیا اور انہوں نے گواہی دی تھی کہ یقیناًرسول سچّاہے اور ان کے پاس روشن دلائل بھی آئے۔ اور اللہ تعالیٰ ظلم کرنے والوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کا بدلہ یہ ہے کہ ان پر یقیناًاللہ تعالیٰ کی اور اس کے فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جن لوگوں کو مخاطب کر کے یہ فرمایا تھا کہ ’’ جزئی اختلافات کی وجہ سے لعنت بازی صدیقوں کا کام نہیں ۔ مومن لعان نہیں ہوتا۔ ‘‘ ان کی کیفیّت او رصورتِ حال کا پورا نقشہ مذکورہ بالا آیات میں کھینچا گیا ہے۔ ان لوگوں نے ان روشن اور واضح نشانات کو اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھا جو رسول اللہ ﷺ نے اپنے مہدی او رمسیح کے لئے پیشگوئیوں کی صورت میں بیان فرمائے تھے۔ وہ نشانات رسول اللہ ﷺ کے حق میں ہونے کی شہادت تھے اور مسیح موعود علیہ السلام کے منجانب اللہ ہونے کی دلیل تھے۔ ان نشانات کو ان لوگوں نے نہ صرف ردّ کیا تھا بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تکفیر ، تکذیب اور آپ پر سبّ وشتم اور لعنت بازی کی باقاعدہ مہم شروع کر دی تھی ۔ ایسے لوگ جو خدا تعالیٰ کے ماموروں پر لعنت بازی کا بازار گرم کرتے ہیں وہ خود خدا تعالیٰ کی لعنت کے ساتھ ملائکہ اور سب لوگوں کی طرف سے لعنت کے مورد بنتے ہیں۔ اس طرح یہ لعنت لاکھوں اور کروڑوں کی تعداد میں ان پر برستی ہے۔ پس اگر یہ ’’ لعنت کی مشین گن ‘‘ ہے تو پھر یہ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ چلائی ہے اور ایک ہی بار میں اپنے علاوہ اپنے ان گنت فرشتوں اور بے شمار انسانوں کی لعنت ان پر پھینک دی ہے۔ ایسی ہی لعنت کا ذکر قرآن کریم میں حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبان سے بھی ملتا ہے ۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صرف ان لوگوں کو مخاطب کیا جنہوں نے آپ ؑ پر لعنت بازی اپنا فرض منصبی سمجھ رکھا تھا۔ آپ نے انہیں سمجھایا کہ لعنت بازی سے باز آئیں کیونکہ مسلمانوں کے ساتھ جزئی اختلافات کی وجہ سے لعنت بازی صدیقوں کا کام نہیں اور یہ کہ مومن لعان نہیں ہوتا۔ ان لوگوں میں مولوی عبدالحق غزنوی بھی تھے۔ ان کا ایک اشتہار ’’ ضرب النّعال علٰی وجہ الدّجال ‘‘ مطبوعہ۳ شعبان ۱۳۱۴ھ ،اپنے نام سے ہی اپناسارا مضمون واضح کر رہا ہے لیکن اس اشتہار کے اندر انہوں نے بار بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر لعنت بھیجی۔ آپ کو لعنتی کہا اور یہ بھی لکھا کہ ’’ لعنت کا طوق اس کے گلے کا ہار ہے۔ ‘‘ اور ’’ لعنت کا جُوت اس کے سر پر پڑا۔ ‘‘ اور ’’ اللہ کی لعنت ہو وغیرہ وغیرہ ‘‘ اسی طرح مولوی محمد حسین بٹالوی نے تو حد ہی کر دی۔ انہوں نے اپنے رسالہ ’ اشاعۃ ا لسنّۃ میں سنّت کی اشاعت چھوڑ کر دشنام طرازی اور لعنت بازی کا طومار کھول دیا ۔ ان کے رسالہ کے صرف ایک ہی پرچہ یعنی ’’ اشاعۃ السنہ‘‘ نمبریکم لغایت ششم جلد شانز دہم ۱۸۹۳ء کو ہی دیکھیں کہ گالیوں کی گردان کے علاوہ انہوں نے کس طرح لعنت بازی کی ہے اور بار بار ملعون ، لعنت کا مستحق اور مورد ہزار لعنت خدا وفرشتگان ومسلمانان وغیرہ وغیرہ تحریر کیا ہے۔یہی حال شیخ الکل مولوی نذیر حسین دہلوی ، مولوی عبدالجبار غزنوی اور ان کے ہم مشرب لوگوں کا تھا۔

انہوں نے جو لعنتیں خدا تعالیٰ کے مامور مسیح ومہدی پر پھینکی تھیں ، مسیح موعود علیہ السلام نے وہی ان کی طرف لوٹادی تھیں۔ اورانہیں کا نمونہ راشد علی نے ’’ ضمیمہ انجام آتھم ‘‘ سے نکال کر پیش کیا ہے۔ اس اقتباس میں مولوی عبدالحق غزنوی پر جن لعنتوں کا ذکر ہے وہ لعنتیں انہیں کی تھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں کو واپس کر دیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ’’ ازالہ اوہام ‘‘ جس سے راشد علی نے مذکورہ بالا فقرہ اٹھایا ہے۔ وہاں صاف نظر آرہا ہے کہ آپ ؑ کی پوری کوشش تھی کہ کسی پر لعنت نہ ڈالی جائے۔ اگلی سطور میں آپ ؑ نے اس کا واضح الفاظ میں ذکر فرمایا ہے۔ لیکن مخالفین ایسے تھے کہ جو لعنت بازی میں ظلم کی حدود پھلانگ چکے تھے۔ آپ نے انہیں ایک ایسا طریق پیش کیا جو ہر معقول انسان کے نزدیک تو قابلِ قبول تھا مگر چند لعان مولوی ایسے تھے جنہوں نے اسے بھی قبول نہ کیا ۔اس پر آپ ؑ نے انہیں فرمایا ۔

’’ تمہیں معلوم ہو کہ مسلمانوں کے ساتھ جزئی اختلافات کی وجہ سے لعنت بازی صدیقوں کا کام نہیں۔ مومن لعان نہیں ہوتا۔ لیکن ایک طریق بہت آسان ہے اور وہ درحقیقت قائم مقام مباہلہ ہی ہے جس سے کاذِب اور صادِق اور مقبول اور مردود کی تفریق ہو سکتی ہے اور وہ یہ ہے جو ذیل میں موٹی قلم سے لکھتا ہوں۔

اے حضرات مولوی صاحبان ! آپ لوگوں کا یہ خیال کہ ہم مومن ہیں اور یہ شخص کافر اور ہم صادق ہیں اور یہ شخص کاذب اور ہم متبعِ اسلام ہیں اور یہ شخص ملحد اور ہم مقبولِ الہی ہیں اور یہ شخص مردود اور ہم جنّتی ہیں اور یہ شخص جہنّمی۔ اگرچہ غور کرنیوالوں کی نظر میں قرآنِ کریم کی رو سے بخوبی فیصلہ پا چکا ہے اور اس رسالہ کے پڑھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ حق پر کون ہے اور باطل پر کون۔ لیکن ایک اور بھی طریقِ فیصلہ ہے جس کی رو سے صادقوں اور کاذبوں اور مقبولوں اور مردودوں میں فرق ہو سکتا ہے ۔عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ اگر مقبول اور مردود اپنی اپنی جگہ پر خدا تعالیٰ سے کوئی آسمانی مدد چاہیں تو وہ مقبول کی ضرور مدد کرتا ہے اور کسی ایسے امر سے جو انسان کی طاقت سے بالاتر ہے اس مقبول کی قبولیت ظاہر کر دیتا ہے۔ سو چونکہ آپ لوگ اہل حق ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ا ور آپ کی جماعت میں وہ لوگ بھی ہیں جو ملہم ہونے کے مدّعی ہیں جیسے مولوی محی الدین وعبدالرحمن صاحب لکھو والے اور میاں عبدالحق صاحب غزنوی جو اس عاجز کو کافر اور جہنّمی ٹھہراتے ہیں ۔لہذا آپ پر واجب ہے کہ اس آسمانی ذریعہ سے بھی دیکھ لیں کہ آسمان پر مقبول کس کا نام ہے اور مردود کس کا نام۔ میں اس بات کو منظور کرتا ہوں کہ آپ دس ہفتہ تک اس بات کے فیصلہ کے لئے احکم الحاکمین کی طرف توجّہ کریں تا اگر آپ سچّے ہیں تو آپ کی سچائی کا کوئی نشان یا کوئی اعلیٰ درجہ کی پیشگوئی جو راستبازوں کو ملتی ہے آپ کو دی جائے۔ ایسا ہی دوسری طرف میں بھی توجّہ کروں گا اور مجھے خداوند کریم وقدیر کی طرف سے یقین دلایا گیا ہے کہ اگر آپ نے اس طور سے میرا مقابلہ کیا تو میری فتح ہو گی۔ میں اس مقابلہ میں کسی پر لعنت کرنا نہیں چاہتا اور نہ کروں گا اور آپ کا اختیار ہے جو چاہیں کریں ۔ لیکن اگر آپ لوگ اعراض کر گئے تو گریز پر حمل کیا جائے گا۔ میری اس تحریر کے مخاطب مولوی محی الدین عبدالرحمن صاحب لکھو والے اور میاں عبدالحق صاحب غزنوی اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی اور مولوی عبدالجبار صاحب غزنوی اور مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی ہیں اور باقی انہیں کے زیر اثر آجائیں گے۔ ‘‘(ازالہ اوہام ۔ روحانی خزائن جلد۳ صفحہ ۴۵۸ تا ۴۶۰)

راشد علی نے صرف اس پوری عبارت کو ہی پس پردہ نہیں رکھا بلکہ جو فقرہ اس میں سے اُچک کر ہدفِ اعتراض بنایا ہے وہ بھی پورا پیش نہیں کیا۔ یہی اس کی بدیانتی ہے جو ہر جگہ رنگ لاتی ہے اور اس کے گلے میں اس کے اپنے ہی جھوٹ کی وجہ سے لعنت کا طوق ڈالتی ہے اور خود اسے امانت میں خیانت کرنے والا ثابت کرتی ہے ۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس جگہ صاف اور واضح الفاط میں لکھا ہے کہ ’’ مسلمانوں کے ساتھ جزئی اختلافات کی وجہ سے لعنت بازی صدّیقوں کا کام نہیں۔ ‘‘ راشد علی نے اس کا پہلا حصہ چھپا کر اگلے فقرہ کو قاعدہ کلّیہ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ گویا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمایا ہے کہ سچے لوگ ہرگز لعنت نہیں بھیجتے ۔ جبکہ آپ ؑ کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ سچے لوگ محض جزئی اختلاف کی بناء پر لعنت نہیں بھیجتے۔

دوسری بدیانتی اس نے اگلی متعلقہ عبارت چھپا کر کی ہے کیونکہ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا واضح موقف جو آپ ؑ کی سچائی کو ظاہر کرتا تھا درج تھا۔ آپ ؑ نے فرمایا کہ

’’ اگر آپ نے اس طور سے میرا مقابلہ کیا تو میری فتح ہو گی میں اس مقابلہ میں کسی پر لعنت کرنا نہیں چاہتا اور نہ کروں گا اور آپ کا اختیار ہے جو چاہیں کریں۔ ‘‘

اس دعوت کے بعد وہی ہوا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ

’’ میری فتح ہو گی ‘‘

ان مذکورہ بالا مولویوں نے اس مقابلہ سے گریز کر کے عملًا اپنی شکست اور سچائی کی فتح کو ثابت کیا۔ وہ سب دنیا سے ناکام ونامراد اور خائب وخاسر رخصت ہوئے۔ تاریخ نے ان کا نام ونشان تک مٹا دیا۔ ان کا آج اگر کہیں نام ملتا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی کی مہربانیوں کی وجہ سے ملتا ہے جو آپ نے اپنی کتابوں میں ان کا ذکر محفوظ کر دیا۔ جنہیں سامنے لا کر راشد علی پھر ان کا ملعون ومردود ہونا ثابت کر رہا ہے۔

ادھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے اس قدر نصرت اور فتوحات عطا کیں کہ دنیا کے کناروں تک آپ کا اور آپ کی جماعت کا نام عزت وتکریم کے ساتھ لیا جاتا ہے۔اور ہر سال کروڑوں لوگ آپ کی اتّباع میں آکر حقیقی اسلام سے ہمکنار ہو رہے ہیں۔

جو متّقی ہے اس کا خدا خود نصیر ہے

انجام فاسقوں کا عذابِ سعیر ہے

کیوں ایک مفتری کا وہ ایسا ہے آشنا

یا بے خبر ہے عیب سے دھوکے میں آگیا

آخر کوئی تو بات ہے جس سے ہوا وہ یار

بدکار سے تو کوئی بھی کرتا نہیں ہے پیار

تم بد بنا کے پھر بھی گرفتار ہو گئے

یہ بھی تو ہیں نشاں جو نمودار ہو گئے

(درثمین ۔ صفحہ ۱۲۳مطبوعہ ۱۹۹۶ء)

ii’’ہزار لعنت‘‘

جہاں تک کتاب ’’نور الحق ‘‘ میں ہزار لعنت کا تعلق ہے جس کا ذکر راشد علی نے بڑے غیظ وغضب کے اظہار کے ساتھ کیا ہے تو یہ اس کو علم ہے کہ جن پر یہ ہزار لعنت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ڈالی تھی، ان لوگوں کا جرم کیا تھا اور اسے یہ بھی معلوم ہے کہ وہ یقیناًملعون تھے ۔ اس کے باوجود کہ وہ جانتا ہے کہ ان لوگوں نے نہ صرف قرآنِ کریم کی تکذیب کی تھی بلکہ وہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کو گالیاں بھی دینے والے تھے۔ اس وجہ سے وہ لاکھوں لعنتوں کے مستحق تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے محض نمونہ کے طور پر ہزار لعنت ہی کے ذکر پر ان کا معاملہ قارئین پر چھوڑ دیا تا کہ وہ ان کی حرکتوں کی تفصیل پڑھ کر خود باقی لعنتیں بھیجیں۔ مکذّبینِ قرآن وشاتمینِ رسول ؐ پر راشد علی چاہتا ہے تو بے شک د عائیں بھیجے۔ مگر ایسے لوگوں پر اس کا تلملانا بہرحال معنٰی خیز ہے۔

راشد علی کے اس اعتراض کا باقی تفصیلی جواب آئندہ صفحات میں ’’گستاخانِ رسولؐ پر لعنت اور راشد علی کی غیرت ‘‘ کے باب میں پیش کیا گیا ہے۔


Discover more from احمدیت حقیقی اسلام

Subscribe to get the latest posts to your email.

Leave a Reply