Search
Close this search box.

غیر احمدیوں کے نماز جنازہ، نماز اور نکاح نہ کرنے پر اعتراض کا جواب

Ahmady.org default featured image

نماز ، نماز جنازہ اور مناکحت وغیرہ میں علیحدگی

راشد علی اور اس کے پیر نے اس سے آگے لکھا ہے کہ

’’مرزا صاحب کا حکم تھا کہ ان کے ماننے والے نہ تو کسی غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھیں ٗ نہ ان سے شادی کریں اور نہ غیر احمدی کی نماز جنازہ میں شریک ہوں۔ یہی وجہ تھی کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی نماز جنازہ میں اس وقت کے وزیر خارجہ ظفر اللہ خان قادیانی شریک نہیں ہوا بلکہ غیر مسلم مندوبین کے ساتھ بیٹھا رہا ۔ جب اخبار والوں نے وجہ پوچھی تو کہا ’’ آپ چاہیں تو مجھے اسلامی ملک کا کافر وزیر سمجھ لیں یا کافر ملک کا مسلمان وزیر۔ ‘‘( بے لگام کتاب)

اس کے جواب میں عرض ہے کہ جماعت احمدیہ اس معاملہ میں ایک مظلوم جماعت ہے جس پر شروع ہی سے علماء حضرات نے فتوے لگا رکھے ہیں۔ چنانچہ ۱۸۹۲ء میں مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی نے بانی سلسلہ احمدیہ کے متعلق فتویٰ دیا کہ ’ ’ نہ اس کو ابتداءً سلام کریں ۔۔۔ اور نہ اس کے پیچھے اقتداء کریں۔ ‘‘(اشاعۃ السنہ ۔جلد ۱۳نمبر ۶صفحہ ۸۵)

مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے فتویٰ دیا کہ

’’ قادیانی کے مرید رہنا اور مسلمانوں کا امام بننا دونوں باہم ضدّین ہیں یہ جمع نہیں ہو سکتیں۔ ‘‘(شرعی فیصلہ ۔صفحہ ۳۱)

مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی نے فتویٰ دیا کہ

’’ اس کو اور اس کے اتباع کو امام بنانا حرام ہے۔ ‘‘(شرعی فیصلہ صفحہ ۳۱)

مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے فتویٰ دیا کہ

’’اس کے خلف نماز جائز نہیں ۔‘‘(فتویٰ شریعت غرّاء ۔صفحہ ۹)

مولوی عبدالسمیع صاحب بدایونی نے فتویٰ دیا کہ

’’ کسی مرزائی کے پیچھے نماز ہرگز جائز نہیں ۔ مرزائیوں کے پیچھے نماز پڑھنا ایسا ہی ہے جیسا ہندوؤں اور یہود ونصاریٰ کے پیچھے۔ مرزائیوں کو نماز پڑھنے یا دیگر مذہبی احکام ادا کرنے کے لئے اہلسنت والجماعت اور اہل اسلام اپنی مسجدوں میں ہرگز نہ آنے دیں۔ ‘‘(صاعقہ ربانی برفتنہ قادیانی ۔صفحہ ۹۔مطبوعہ ۱۸۹۲ء )

مولوی عبدالرحمن صاحب بہاری نے فتویٰ دیا کہ

’’ اس کے اور اس کے متبعین کے پیچھے نماز محض باطل ومردود ہے ۔۔۔ ان کی امامت ایسی ہے جیسے کسی یہودی کی امامت۔ ‘‘(فتویٰ شریعت غرّاء ۔صفحہ ۴)

مفتی محمد عبداللہ صاحب ٹونکی لاہور نے فتویٰ دیا کہ

’’ اس کے اور اس کے مریدوں کے پیچھے اقتداء ہرگز درست نہیں۔ ‘‘ (شرعی فیصلہ صفحہ ۲۵)

مولوی عبدالجبار صاحب عمر پوری نے فتویٰ دیا کہ

’’ مرزا قادیانی اسلام سے خارج ہے ۔۔۔ ہرگز امامت کے لائق نہیں۔ ‘‘ (شرعی فیصلہ صفحہ ۲۰)

مولوی عزیز الرحمن صاہب مفتی دیوبند نے فتویٰ دیا کہ

’’ جس شخص کا عقیدہ قادیانی ہے اس کو امام الصلوٰۃ بنانا حرام ہے۔ ‘‘ (شرعی فیصلہ صفحہ ۳۱)

مشتاق احمد صاحب دہلوی نے فتویٰ دیا کہ

’’مرزا اور اس کے ہم عقیدہ لوگوں کو اچھا جاننے والا جماعت اسلام سے جدا ہے اور اس کو امام بنانا ناجائز ہے۔ ‘‘ (شرعی فیصلہ صفحہ ۲۴)

مولوی احمد رضا خاں صاحب بریلوی نے فتویٰ دیا کہ

’’ اس کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم بعینہ وہی ہے جو مرتدوں کا حکم ہے۔ ‘‘ (حسام الحرمین ۔صفحہ ۹۵)

مولوی محمد کفایت اللہ صاحب شاہجہان پوری نے فتویٰ دیا کہ

’’ ان کے کافر ہونے میں شک وشبہ نہیں اور ان کی بیعت حرام ہے اور امامت ہرگز جائز نہیں۔ ‘‘(فتویٰ شریعت غرّاء ۔صفحہ ۶)

جنازے کے متعلق ان حضرات کے فتوے یہ ہیں

مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی نے فتویٰ دیا کہ

’’ ایسے دجّال کذّاب سے احتراز اختیار کریں ۔۔۔ نہ اس کی نماز جنازہ پڑھیں۔ ‘‘ (اشاعۃ السنہ۔ جلد ۱۳نمبر ۶ صفحہ۱۰۱)

مولوی عبدالصمد صاحب غزنوی نے فتویٰ دیا کہ

’’ اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے۔ ‘‘ (اشاعۃ السنہ۔ جلد ۱۳نمبر۶صفحہ ۱۰۱)

قاضی عبید اللہ بن صبغۃ اللہ صاحب مدارسی نے فتویٰ دیا کہ

’’ جس نے اس کی تابعداری کی وہ بھی کافر مرتد ہے ۔۔۔ اور مرتد بغیر توبہ کے مر گیا تو اس پر نماز جنازہ نہیں پڑھنا۔ ‘‘ (فتویٰ در تکفیر منکر عروج جسمی ونزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام)

مفتی محمد عبداللہ صاحب ٹونکی لاہور نے فتویٰ دیا کہ

’’ جس نے دیدہ دانستہ مرزائی کے جنازہ کی نماز پڑھی ہے اس کو اعلانیہ توبہ کرنی چاہئے اور مناسب ہے کہ وہ اپنا تجدید نکاح کرے۔ ‘‘(فتویٰ شریعت غرّاء ۔صفحہ ۱۲)

پھر اس سے بھی بڑھ کر انہوں نے یہ فتویٰ دیا کہ ان لوگوں کو مسلمانوں کے قبرستانوں میں بھی دفن نہ ہونے دیا جائے ۔ چنانچہ مولوی عبدالصمد صاحب غزنوی نے فتویٰ دیا کہ ان کو مسلمانوں کے قبرستانوں میں دفن نہ کیا جائے تا کہ :۔

’’ اہل قبور اس سے ایذاء نہ پائیں۔ ‘‘(اشاعۃ السنہ۔ جلد۱۳۔نمبر۶صفحہ ۱۰۱)

قاضی عبیداللہ صاحب مدراسی نے فتویٰ دیا کہ ان کو

’’ مقابر اہل اسلام میں دفن نہیں کرنا بلکہ بغیر غسل وکفن کے کتے کی مانند گڑھے میں ڈال دینا۔ ‘‘(فتویٰ در تکفیر منکر عروج جسمی ونزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام)

اسی طرح انہوں نے یہ بھی فتوے دئیے کہ کسی مسلمان کے لئے احمدیوں کو لڑکیاں دینا جائز نہیں چنانچہ شرعی فیصلہ میں لکھا گیا کہ

’’ جو شخص ثابت ہو کہ واقع ہی وہ قادیانی کا مرید ہے اس سے رشتہ مناکحت کا رکھنا ناجائز ہے۔ ‘‘ (شرعی فیصلہ صفحہ ۳۱)

بلکہ اس سے بڑھ کر یہ فتویٰ دیا گیا کہ

’’ جو لوگ اس پر عقیدہ رکھتے ہوں وہ بھی کافر ہیں اور ان کے نکاح باقی نہیں رہے جو چاہے ان کی عورتوں سے نکاح کرے۔ ‘‘ (فتویٰ مولوی عبداللہ ومولوی عبدالعزیز صاحبان لدھیانہ۔ از اشاعۃ السنہ۔ جلد نمبر ۱۳صفحہ۵)

گویا احمدیوں کی عورتوں سے جبراً نکاح کر لینا بھی علماء کے نزدیک عین اسلام تھا ۔ اس طرح یہ فتویٰ دیا کہ

’’ جس نے اس کی تابعداری کی وہ بھی کافر مرتد ہے اور شرعا مرتد کا نکاح فسخ ہو جاتا ہے اور اس کی عورت حرام ہو تی ہے ۔ اور اپنی عورت کے ساتھ جو وطی کرے گا سو وہ زنا ہے اور ایسی حالت میں جو اولاد ان کے پیدا ہوتے ہیں وہ ولد زنا ہوں گے۔‘‘ (فتویٰ در تکفیر منکر عروج جسمی ونزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام مطبوعہ ۱۳۱۱ھ)

تحریک احمدیت کے مخالف علماء نے صرف فتاویٰ ہی نہیں دئیے بلکہ ان پر سختی سے عمل کرانے کی ہمیشہ کوشش کی جیسا کہ پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کے مرید مولوی عبدالاحد صاحب خانپوری کی کتاب ’’ مخادعت مسیلمہ قادیانی ‘‘ (مطبوعہ۱۹۰۱ء ) کی مندرجہ ذیل اشتعال انگیز تحریر سے ظاہر ہے کہ

’’ طائفہ مرزائیہ بہت ذلیل وخوار ہوئے ۔ جمعہ اور جماعت سے نکالے گئے اور جس مسجد میں جمع ہو کر نمازیں پڑھتے تھے اس میں بے عزتی کے ساتھ بدر کئے گئے اور جہاں نماز جمعہ پڑھتے تھے وہاں سے حکماً روکے گئے ۔۔۔ نیز بہت قسم کی ذلتیں اٹھائیں۔ معاملہ اور برتاؤ مسلمانوں سے بند ہو گیا ۔ عورتیں منکوحہ اور مخطوبہ بوجہ مرزائیت کے چھینی گئیں ۔مردے ان کے بے تجہیز وتکفین اور بے جنازہ گڑھوں میں دبائے گئے۔ ‘‘ (صفحہ ۲)

اب معزّز قارئین غور فرما سکتے ہیں کہ اگر سالہا سال تک تکالیف ومصائب کا نشانہ بننے کے بعد جماعت احمدیہ کے افراد کو ابتلاء اور فتنہ کے احتمال سے کوئی قدم اٹھانا پڑا تو یہ ان کی قابل رحم اور درد ناک حالت پر تو دلالت کرتا ہے ’’ ان کے خلاف اس جھوٹ کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا کہ ’’ مرزا صاحب کا حکم تھا کہ ان کے ماننے والے نہ تو کسی غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھیں نہ ان سے شادی کریں اور نہ غیر احمدی کی نماز جنازہ میں شریک ہوں۔ ‘‘

سالہا سال کی اس اذیت ناک صورتحال کے پیش نظر فتنہ اور ابتلاء سے بچنے کے لئے اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے متبعین کو دوسروں کے پیچھے نماز پڑھنے اور ان سے شادی بیاہ کرنے سے روکا تو آپ سے بہت زیادہ شدّت اور شدید زبان کے استعمال کے ساتھ دوسروں نے احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنے سے روکا ،ان کے جنازوں میں شرکت کو حرام قرار دیا ، ان سے مناکحت اور شادی بیاہ کو نہ صرف حرام بلکہ ’’ زنا خالص ‘‘ قرار دیا اور ایسی شادی کی صورت میں پیدا ہونے والی اولاد کو بالکل عریاں زبان میں حرامی کا درجہ دیا ۔ ایسے فتوے دینے والے کوئی معمولی مولوی نہیں بلکہ مختلف مکاتیب فکر کے مقتدر مقتدا وپیشوا اور چوٹی کے مانے ہوئے علماء تھے۔

اس کے باوجود الزام ہم لوگوں پر ہے کہ ہم دوسروں کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے وغیرہ وغیرہ۔ اس تناظر میں اب

(۱) آپ ہی انصاف کیجئے کہ کیا ہم ان دیوبندیوں کے پیچھے نماز پڑھیں جن کے متعلق احمدیوں کا نہیں بلکہ غیر احمدی اکابر علماء کا یہ فتویٰ ہے کہ :۔

’’ وہابیہ دیوبندیہ اپنی عبارتوں میں تمام اولیاء انبیاء حتّٰی کہ حضرت سیّد الاوّلین والآخرین ﷺ کی اور خاص ذاتِ باری تعالیٰ شانہٗ کی اہانت وہتک کرنے کی وجہ سے قطعاً مرتد وکافر ہیں اور ان کا ارتداد کفر میں سخت سخت سخت اشد درجہ تک پہنچ چکا ہے ایسا کہ جو ان مرتدوں اور اکفروں کے ارتداد وکفر میں ذرا بھی شک کرے وہ بھی انہیں جیسا مرتد اور کافر ہے۔ اور جو اس شک کرنے والے کے کفر میں شک کرے وہ بھی مرتد وکافر ہے ۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ ان سے بالکل ہی محترز ، مجتنب رہیں۔ ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا تو ذکر ہی کیا اپنے پیچھے بھی ان کو نماز نہ پڑھنے دیں اور نہ اپنی مسجدوں میں گھسنے دیں۔ نہ ان کا ذبیحہ کھائیں اور نہ ان کی شادی غمی میں شریک ہوں ۔ نہ اپنے ہاں ان کو آنے دیں ۔ یہ بیمار ہوں تو عیادت کو نہ جائیں۔ مریں تو گاڑنے تو پنے میں شرکت نہ کریں۔ مسلمانوں کے قبرستان میں جگہ نہ دیں۔ غرض ان سے بالکل احتیاط واجتناب رکھیں ۔۔۔

پس وہابیہ دیوبند یہ سخت سخت اشدّ مرتد وکافر ہیں ایسے کہ جو ان کو کافر نہ کہے خود کافر ہو جائے گا۔ اس کی عورت اس کے عقد سے باہر ہو جائے گی اور جو اولاد ہو گی وہ حرامی ہو گی اور از روئے شریعت ترکہ نہ پائے گی۔ ‘‘ (انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ ناقل)

اس اشتہار میں بہت سے علماء کے نام لکھے ہیں مثلا سید جماعت علی شاہ ، حامد رضا خاں صاحب قادری نوری رضوی بریلوی ، محمد کرم دین بھیں ، محمد جمیل احمد بدایونی ، عمر النعیمی مفتی شرع اور ابو محمد دیدار علی مفتی اکبر آباد وغیرہ ۔۔۔

’’ یہ فتوے دینے والے صرف ہندوستان ہی کے علماء نہیں ہیں بلکہ جب وہابیہ دیوبندیہ کی عبارتیں ترجمہ کر کے بھیجی گئیں تو افغانستان وخیوا وبخارا وایران ومصر و روم وشام اور مکہ معظمہ و مدینہ منورہ وغیرہ تمام دیار عرب وکوفہ وبغداد شریف غرض تمام جہان کے علماء اہل سنت نے بالاتفاق یہی فتویٰ دیا ہے۔ ‘‘

(خاکسار محمد ابراہیم بھاگلپوری باہتمام شیخ شوکت حسین مینجر کے حسن برقی پریس اشتیاق منزل نمبر ۶۳ہیوٹ روڈ لکھنو میں چھپا۔ سن اشاعت درج نہیں قیام پاکستان سے قبل کا فتویٰ ہے)

فتویٰ مولوی عبدالکریم ناجی داغستانی حرم شریف مکّہ :۔

’’ ھم الکفرۃ الفجرۃ قتلھم واجب علی من لہ حد و نصل وافر بل ھو افضل من قتل الف کافر، فھم الملعونون فی سلک الخبثاء منخرطون فلعنۃ اللّٰہ علیھم وعلی اعوانھم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ علی من خذلھم فی اطوارھم ‘‘

ترجمہ :۔ وہ ( یعنی وہابی دیوبندی)بدکار کافر ہیں ۔ سلطان اسلام پر کہ سزا دینے کا اختیار اور سنان وپیکان رکھتا ہے ان کا قتل واجب ہے بلکہ وہ ہزار کافروں کے قتل سے بہتر ہے کہ وہی ملعون ہیں اور خبیثوں کی لڑی میں بندھے ہوئے ہیں تو ان پر اور ان کے مددگاروں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت اور جو انہیں ان کی بداطواریوں پر مخذول کرے اس پر اللہ کی رحمت اور برکت اسے سمجھ لو ۔

(فاضل کامل نیکو خصائل صاحب فیض یزدانی مولوی عبدالکریم ناجی داغستانی حرم شریف مکہ حسام الحرمین علی منحر الکفر والمین صفحہ ۱۷۶ تا ۱۷۹ مصنفہ مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی مطبوعہ اہل سنت والجماعت بریلی ۲۶ ۔ ۱۳۲۴ھ ۸۔۱۹۰۶ء)

(۲) پھر کیا ہم ان اہل حدیث کے پیچھے نماز پڑھیں جن کے متعلق بریلوی ائمہ ہمیں غیر مبہم الفاظ میں خبردار کرتے ہیں کہ :۔

’’ وہابیہ وغیرہ مقلّدین زمانہ باتفاق علمائے حرمین شریفین کا فرمرتد ہیں ۔ ایسے کہ جو ان کے اقوال ملعونہ پر اطلاع پا کر انہیں کافر نہ جانے یا شک ہی کرے خود کافر ہے ان کے پیچھے نماز ہوتی ہی نہیں ۔ ان کے ہاتھ کا ذبیحہ حرام ۔ ان کی بیویاں نکاح سے نکل گئیں۔ ان کا نکاح کسی مسلمان کا فریا مرتد سے نہیں ہو سکتا۔ ان کے ساتھ میل جول ،کھانا پینا ، اٹھنا ، بیٹھنا ، سلام کلام سب حرام ۔ ان کے مفصّل احکام کتاب مستطاب حسام الحرمین شریف میں موجود ہیں ۔ واللہ تعالیٰ اعلم

مہر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مہر

دارالافتاء مدرسہ اہل سنت والجماعت آل رسول احمد رضا خاں

بریلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بریلی

مہر

شفیع احمد خاں رضوی سنی حنفی قادری

(فتاویٰ ثنائیہ جلد نمبر ۲صفحہ ۴۰۹ مرتبہ الحاج مولانا محمد داؤد دراز خطیب جامعہ اہلحدیث شائع کردہ مکتبہ اشاعت دینیات موہن پورہ بمبئی)

(۳) پھر کیا ہم ان بریلویوں کے پیچھے نماز پڑھ کر کافر بن جائیں جن کے متعلق دیوبندی علماء ہمیں یہ شرعی حکم سناتے ہیں کہ :۔

’’ جو شخص اللہ جل شانہ کے سوا علم غیب کسی دوسرے کو ثابت کرے اور اللہ تعالیٰ کے برابر کسی دوسرے کا علم جانے وہ بیشک کافر ہے ۔ اس کی امامت اور اس سے میل جول محبت وموّدت سب حرام ہیں۔ ‘‘ (فتاویٰ رشیدیہ کامل مبوب از مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی صفحہ ۶۲ناشر محمد سعید اینڈ سنز تاجران کتب قرآن محل بالمقابل مولوی مسافر خانہ کراچی ۸۴۔۱۸۸۳ء)

یاجن کے بارہ میں مشہور دیوبندی عالم جناب مولوی سید حسین احمد صاحب مدنی سابق صدر مدرس دارالعلوم دیوبند ہمیں یہ خبر دے رہے ہیں کہ :۔

’’ یہ سب تکفیریں اور لعنتیں بریلوی اور اس کے اتباع کی طرف لوٹ کر قبر میں ان کے واسطے عذاب اور بوقت خاتمہ ان کے موجب خروج ایمان وازالہ تصدیق وایقان ہوں گی کہ ملائکہ حضور علیہ السلام سے کہیں گے انک لاتدری ما احد ثوا بعدک اور رسول مقبول علیہ السلام دجال بریلوی اور ان کے اتباع کو سحقاً سحقاً فرما کر حوضِ مَورود وشفاعتِ محمود سے کتّوں سے بدتر کر کے دھتکار دیں گے اور امّتِ مرحومہ کے اجر وثواب ومنازل ونعیم سے محروم کئے جائیں گے۔ ‘‘ (رجوم المذنبین علی رؤوس الشیاطین ۔المشہور بہ الشہاب الثاقب علی المسترق الکاذب۔ صفحہ ۱۱۱ مولفہ مولوی سید حسین احمد صاحب مدنی ناشر کتب خانہ اعزازیہ دیوبند ضلع سہارنپور )

(۴) پھر کیا ہم ان پرویزیوں اور چکڑالویوں کے پیچھے نماز پڑھیں جن کے متعلق متفقہ طور پر بریلوی اور دیوبندی اور مودودی علماء یہ فتویٰ صادر فرماتے ہیں کہ :۔

’’ چکڑالویت حضور سرور کائنات علیہ التسلیمات کے منصب ومقام اور آپؐ کی تشریعی حیثیت کی منکر اور آپؐ کی احادیث مبارکہ کی جانی دشمن ہے۔ رسول کریم کے ان کھلے ہوئے باغیوں نے رسولؐ کے خلاف ایک مضبوط محاذ قائم کر دیا ہے ۔ جانتے ہو ! باغی کی سزا کیا ہے ؟ صرف گولی ۔‘‘ (ہفتہ وار ’’ رضوان ‘‘ لاہور (چکڑالویت نمبر ) اہل سنت والجماعت کا مذہبی ترجمان ۲۱ ۔ ۲۸فروری ۱۹۵۳ء صفحہ۳پرنٹر سید محمود احمد رضوی کو آپریٹو کیپیٹل پرنٹنگ پریس لاہور دفتر رضوان اندرون دہلی دروازہ لاہور)

پھر ولی حسن صاحب ٹونکی ان پر صادر ہونے والے شرعی احکامات ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :۔

’’ غلام احمد پرویز شریعت محمدیہ کی رو سے کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج۔ نہ اس شخص کے عقد نکاح میں کوئی مسلمان عورت رہ سکتی ہے اور نہ کسی مسلمان عورت کا نکاح اس سے ہو سکتا ہے ۔ نہ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی نہ مسلمانوں کے قبرستان میں اس کا دفن کرنا جائز ہو گا ۔ اور یہ حکم صرف پرویز ہی کا نہیں بلکہ ہر کافر کا ہے ۔ اور ہر وہ شخص جو اس کے متبعین میں ان عقائد کفریہ کے ہمنوا ہو اس کا بھی یہی حکم ہے اور جب یہ مرتد ٹھہرا تو پھر اس کے ساتھ کسی قسم کے بھی اسلامی تعلقات رکھنا شرعاً جائز نہیں ہیں۔ ‘‘ (ولی حسن ٹونکی غفر اللہ مفتی ومدرس عربیہ اسلامیہ نیو ٹاؤن کراچی محمد یوسف بنوری شیخ الحدیث مدرسہ عربیہ اسلامیہ ٹاؤن کراچی )

پرویزیوں کے متعلق جماعت اسلامی کے آرگن تسنیم کا فتویٰ یہ ہے کہ :۔

’’اگر یہ مشورہ دینے والوں کا مطلب یہ ہے کہ شریعت صرف اتنی ہی ہے جتنی قرآن میں ہے باقی اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ شریعت نہیں ہے تو یہ صریح کفر ہے اور بالکل اسی طرح کا کفر ہے جس طرح کا کفر قادیانیوں کا ہے بلکہ کچھ اس سے بھی سخت اور شدید ہے۔ ‘‘ (مضمون مولانا امین احسن اصلاحی ۔ روزنامہ تسنیم لاہور۱۵ اگست ۱۹۵۲ ء صفحہ۱۲)

(۵) پھر کیا ہم ان شیعوں کے پیچھے نماز پڑھیں جن کے متعلق علماء عامۃ المسلمین ان لرزہ خیز الفاظ میں تنبیہہ کرتے ہیں :۔

’’ بالجملہ ان رافضیوں تبرّائیوں کے باب میں حکم یقینی قطعی اجماعی یہ ہے کہ وہ علیٰ العموم کفّار مرتدّین ہیں ان کے ہاتھ کا ذبیحہ مردار ہے ۔ ان کے ساتھ مناکحت نہ صرف حرام بلکہ خالص زنا ہے ۔ معاذ اللہ مردرافضی اور عورت مسلمان ہو تو یہ سخت قہر الٰہی ہے ۔ اگر مرد سنّی اور عورت ان خبیثوں کی ہو جب بھی نکاح ہرگز نہ ہو گا محض زنا ہو گا ۔ اولاد ولدالزنا ہو گی ۔ باپ کا ترکہ نہ پائے گی اگرچہ اولاد بھی سنّی ہی ہو کہ شرعاً ولدالزنا کا باپ کوئی نہیں ۔ عورت نہ ترکہ کی مستحق ہو گی نہ مہر کی کہ زانیہ کے لئے مہر نہیں۔ رافضی اپنے کسی قریبی حتّٰی کہ باپ بیٹے ماں بیٹی کا بھی ترکہ نہیں پا سکتا۔ سنّی تو سنّی کسی مسلمان بلکہ کسی کافر کے بھی ۔ یہاں تک کہ خود اپنے ہم مذہب رافضی کے ترکہ میں اس کا اصلاً کچھ حق نہیں۔ ان کے مرد عورت ، عالم ، جاہل ، کسی سے میل جول ، سلام کلام سخت کبیرہ اشد حرام جو ان کے ملعون عقیدوں پر آگاہ ہو کر بھی انہیں مسلمان جانے یا ان کے کافر ہونے میں شک کرے با جماع تمام آئمّہ دین خود کافر بے دین ہے اور اس کے لئے بھی یہی سب احکام ہیں جو ان کے لئے مذکور ہوئے ۔ مسلمان پر فرض ہے کہ اس فتویٰ کو بگوش ہوش سنیں اور اس پر عمل کر کے سچےّ پکّے سنّی بنیں۔ ‘‘ (فتویٰ مولانا شاہ مصطفی رضا خاں ۔بحوالہ رسالہ ردالرفضہ ۔صفحہ ۲۳۔شائع کردہ نوری کتب خانہ بازار داتا صاحب لاہور پاکستان۔ مطبوعہ گلزار عالم پریس بیرون بھاٹی گیٹ لاہور ۱۳۲۰ھ)

’’ آج کل کے روافض تو عموماً ضروریات دین کے منکر اور قطعاً مرتد ہیں ان کے مرد یا عورت کا کسی سے نکاح ہو سکتا ہی نہیں ۔ا یسے ہی وہابی، قادیانی، دیوبندی، نیچری ، چکڑالوی ، جملہ مرتدین ہیں کہ ان کے مرد یا عورت کا تمام جہان میں جس سے نکاح ہو گا ، مسلم ہو یا کافر اصلی یا مرتد ، انسان ہو یا حیوان محض باطل اور زنا خالص ہو گا اور اولاد ولدالزّنا ۔ ‘‘(الملفوظ حصہ دوم صفحہ ۹۷ ، ۹۸ مرتبہ مفتی اعظم ہند)

(۶) پھر کیا جماعت اسلامی کے پیچھے نماز پڑھنے سے ہم اپنا اسلام بچا سکیں گے کہ جن کے متعلق کیا بریلوی اور کیا دیوبندی علماء یہ قطعی فتویٰ صادر فرماتے ہیں کہ

’’مودودی صاحب کی تصنیفات کے اقتباسات دیکھنے سے معلوم ہوا کہ ان کے خیالات اسلام کے مقتدایان اور انبیائے کرام کی شان میں گستاخی کرنے سے مملو ہیں ۔ ان کے ضالّ مضلّ ہونے میں کوئی شک نہیں ۔ میری جمیع مسلمانان سے استدعا ہے کہ ان کے عقائد وخیالات سے مجتنب رہیں اور ان کو اسلام کا خادم نہ سمجھیں اور مغالطے میں نہ رہیں۔

حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اصلی دجّال سے پہلے تیس دجّال اور پیدا ہوں گے جو اس دجّال اصلی کا راستہ صاف کریں گے۔ میری سمجھ میں ان تیس دجّالوں میں ایک مودودی ہیں۔ ‘‘ فقط والسلام

(محمد صادق عفی عنہ مہتمم مدرسہ مظہر العلوم محلہ کھڈہ کراچی ۲۸ ذوالحجہ ۱۳۷۱ھ ۱۹ستمبر ۱۹۵۲ء حق پرست علماء کی مودودیت سے ناراضگی کے اسباب صفحہ ۹۷مرتبہ مولوی احمد علی انجمن خدام الدین لاہور)

پھر ان کے پیچھے نماز کی حرمت کا واضح اعلان کرتے ہوئے جمعیت العلماء اسلام کے صدر مولانا مفتی محمود فرماتے ہیں :۔

’’میں آج یہاں پریس کلب حیدر آباد میں فتویٰ دیتا ہوں کہ مودودی گمراہ کافر اور خارج از اسلام ہے ۔ اس کے اور اس کی جماعت سے تعلق رکھنے والے کسی مولوی کے پیچھے نماز پڑھنا ناجائز اور حرام ہے اس کی جماعت سے تعلق رکھنا صریح کفر اور ضلالت ہے۔ وہ امریکہ اور سرمایہ داروں کا ایجنٹ ہے ۔ ‘‘ (ہفت روزہ زندگی ۱۰۔ نومبر ۱۹۶۹ء منجانب جمعیۃ گارڈ ۔ لائل پور)

(۷) کیا ہم احراری علماء کے پیچھے نماز پڑھیں جن کے متعلق واقفِ اسرار جناب مولوی ظفر علی خاں صاحب یہ اعلان عام فرما رہے ہیں کہ درحقیقت یہ لوگ اسلام سے بیزار ہی نہیں بلکہ یقیناًاسلام کے غدار ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیے:۔

اللہ کے قانون کی پہچان سے بے زار

اسلام اور ایمان اور احسان سے بے زار

ناموس پیمبر کے نگہبان سے بے زار

کافر سے موالات مسلمان سے بے زار

اس پر ہے یہ دعویٰ کہ ہیں اسلام کے احرار

احرار کہاں کے یہ ،ہیں اسلام کے غدار

پنجاب کے احرار اسلام کے غدار

بیگانہ یہ بدبخت ہیں تہذیب عرب سے

ڈرتے نہیں اللہ تعالیٰ کے غضب سے

مل جائے حکومت کی وزارت کسی ڈھب سے

سرکار مدینہ سے نہیں ان کو سروکار

پنجاب کے احرار اسلام کے غدار

(زمیندار۔ ۲۱ ؍اکتوبر ۱۹۴۵ء صفحہ ۶)

پھر مولانا مودودی صاحب مولوی ظفر علی خان صاحب کی ایک گونا تائید کرتے ہوئے فرماتے ہیں :۔

’’اس کارروائی سے دو باتیں میرے سامنے بالکل عیاں ہو گئیں ایک یہ کہ احرار کے سامنے اصل سوال تحفّظ ختمِ نبوّت کا نہیں ہے بلکہ نام اور سہرے کا ہے۔ اور یہ لوگ مسلمانوں کے جان ومال کو اپنی اغراض کے لئے جوئے کے داؤں پر لگا دینا چاہتے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ رات کو بالاتفاق ایک قرار داد طے کرنے کے بعد چند آدمیوں نے الگ بیٹھ کر ساز باز کیا ہے اور ایک دوسرا ریزولیوشن بطور خود لکھ لائے ہیں

…..میں نے محسوس کیا کہ جو کام اس نیت اور ان طریقوں سے کیا جائے اس میں کبھی خیر نہیں ہو سکتی اور اپنی اغراض کے لئے خدا اور رسول کے نام سے کھیلنے والے جو مسلمانوں کے سروں کو شطرنج کے مہروں کی طرح استعمال کریں اللہ کی تائید سے کبھی سرفراز نہیں ہو سکتے۔ ‘‘(روزنامہ تسنیم لاہور۲جولائی ۱۹۵۵ء صفحہ ۳کالم ۴ ، ۵)

کیا ان دل دہلا دینے والے فتاویٰ کی موجودگی میں احمدیوں پر کوئی دور کی بھی گنجائش اس اعتراض کی باقی رہ جاتی ہے کہ وہ مذکورہ بالا فرقوں کے ائمہ کے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھتے ؟

آج کل کے علماء کا فیصلہ تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اگر مسلمانی باقی رکھنی ہے تو نماز چھوڑ دو ورنہ جس کے پیچھے نماز پڑھو گے پکے کافر اور جہنمی قرار دئیے جاؤ گے۔ ایک بچنے کی راہ یہ رہ گئی تھی کہ کسی کے پیچھے بھی نماز نہ پڑھی جائے ۔ تو احمدیوں پر یہ راہ بھی بند کر دی گئی اور یہ فتویٰ بھی دے دیا گیا کہ جو کسی دوسرے فرقہ کے پیچھے نماز نہ پڑھے وہ بھی کافر اورغیر مسلم اقلیت پڑھے تب کافر نہ پڑھے تب کافر ۔ آخر کوئی جائے تو کہاں جائے ؟

یہ ماحول ہے جس میں راشد علی اور اس کے پیر کو یہ سوجھی ہے کہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے قائد اعظم کی نماز جنازہ نہیں پڑھی ۔ نہ ان کی کوئی دلیل ہے نہ تک ۔ کسی پہلو سے کوئی بھی یکسانیت نہیں ، ہر طرف تضاد اور بیہودہ سرائی ہے اس کے سوا ان کے عناد اور بغض میں کوئی حقیقت نہیں ۔ اور سوائے شرّ پھیلانے کے ان کی کوئی نیّت نہیں۔


Discover more from احمدیت حقیقی اسلام

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply