رہا دین باقی نہ اسلام باقی ۔ بس اک رہہ گیا دین کا نام باقی
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ
خطا کار سے درگزر کرنے والا
بد انیش کے دل میں گھر کرنے والا
مفاسد کلا زیر و زبر کرنے والا
قبائل کو شیر و شکر کرنے والا
اٹھ کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسکئہ کیمیا ساتھ لایا
مسِ خام کو جس نے کندن بنایا
کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا
عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دی بس اک آن مین اس کی کایا
رہا ڈرنہ بیڑے کو موجِ بلا کا
ادھر سے ادھر پھر گیا رخ ہوا کا
پڑی کان میں دھات تھی اک نکمی
نہ کچھ قدر تھی اور نہ قیمت تھی جس کی
طبیعت میں جو اس کے جو ہر تھے اصلی
ہوئے سب تھے مٹی میں مل کر وہ مٹی
پہ تھا ثبت علمِ قضا و قدر میں
کہ بن جائے گی وہ طلا اک نظر میں
وہ فخرِ عرب زیبِ محراب و منبر
تمام اہلِ مکہ کو ہمراہ لے کر
گیا ایک دن حسبِ فرمانِ داور
سوئے دشت اور چڑھ کے کوہِ صفا پر
یہ فرمایا سب سے کہ ” اے آلِ غالب
سمجھتے ہو تم مجھ کو صادق کہ کاذب؟”
کہا سب نے ” قول آج تک کوئی تیرا
کبھی ہم نے جھوٹا سنا اور نہ دیکھا”
کہا” گر سمجھتے ہو تم مجھ کو ایسا
تو باور کروگے اگر میں کہوں گا؟
کہ فوجِ گراں پشتِ کوہِ صفا پر
پڑی ہے کہ لوٹے تمہیں گھات پاکر”
کہا” تیری ہر بات کا یاں یقیں ہے
کہ بچپن سے صادق ہے تو اور امیں ہے”
کہا” گر مری بات یہ دل نشیں ہے
تو سن لو خلاف اس میں اصلا نہیں ہے
کہ سب قافلہ یاں سے ہے جانے والا
ڈرو اس سے جو وقت ہے آنے والا
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلادی
نئی اک لگن دل میں سب کے لگادی
اک آواز میں سوتی بستی جگا دی
پڑا ہر طرف غل یہ پیغام حق سے
کہ گونج اٹھے دشت و جبل نامِ حق سے
3سبق پھر شریعت کا ان کو پڑھایا
حقیقت کا گر ان کو ایک اک بتایا
زمانہ کے بگڑے ہوؤں کو بنایا
بہت دن کے سوتے ہوؤں کو جگایا
کھلے تھے نہ جو راز اب تک جہاں پر
وہ دکھلا دیئے ایک پردہ اٹھا کر
کسی کو ازل کا نہ تھا یاد پیماں
بھلائے تھے بندوں نے مالک کے فرماں
زمانہ میں تھا دورِ صہبائے بطلاں
مئے حق سے محرم نہ تھی بزمِ دوراں
اچھوتا تھا توحید کا جام اب تک
خم معرفت کا تھا منہ خام اب تک
نہ واقف تھے انساں قضا اور جزا سے
نہ آگاہ تھے مبداء و منتہا سے
لگائی تھی ایک اک نے لوماسوا سے
پڑے تھے بہت دور بندے خدا سے
یہ سنتے ہی تھرا گیا گلہ سارا
یہ راعی نے للکار کر جب پکارا
کہ ہے ذاتِ واحد عبادت کے لایق
زبان اور دل کی شہادت کے لایق
اسی کے ہیں فرماں اطاعت کے لایق
اسی کی ہے سرکار خدمت کے لایق
لگاؤ تو لو اس سے اپنی لگاؤ
جھکاؤ تو سر اس کے آگے جھکاؤ
اسی پر ہمیشہ بھروسا کرو تم
اسی کے سدا عشق کا دم بھرو تم
اسی کے غضب سے ڈرو گر ڈرو تم
اسی کی طلب میں مرد گر مرد تم
مبرا ہے شرکت سے اس کی خدائی
نہیں اس کے آگے کسی کو بڑائی
خرد اور ادراک رنجور ہیں واں
مہ و مہر ادنیٰ سے مزدور ہیں واں
جہاندار مغلوب و مقہور ہیں واں
نبی اور صدیق مجبور ہیں واں
نہ پرسش ہے رہبان و احبار کی واں
نہ پروا ہے ابرار و احرار کی واں
تم اوروں کی مانند دھوکا نہ کھانا
کسی کو خدا کا نہ بیٹا بنانا
مری حد سے رتبہ نہ میرا بڑھانا
بڑھا کر بہت تم نہ مجھ کو گھٹانا
سب انساں ہیں واں جس طرح سر فگندہ
اسی طرح ہوں میں بھی اک اس کا بندہ
بنانا نہ تربت کو میری صنم تم
نہ کرنا مری قبر پر سر کو خم تم
نہیں بندہ ہونے میں کچھ مجھے سے کم تم
کہ بے چارگی میں برابر ہیں ہم تم
مجھے دی ہے حق نے بس اتنی بزرگی
کہ بندہ بھی ہوں اس کا اور ایلچی بھی
اسی طرح دل ان کا ایک اک سے توڑا
ہر اک قبلئہ کج سے منہ ان کا موڑا
کہیں ماسویٰ کا علاقہ نہ چھوڑا
خداوند سے رشتہ بندوں کا جوڑا
کبھی کے جو پھرتے تھے مالک سے بھا گے
دئیے سر جھکا ان کے مالک کے آگے
پتا اصل مقصود کا پاگیا جب
نشاں گنجِ دولت کا ہاتھ آگیا جب
محبت سے دل ان کا گرما گیا جب
سماں ان پہ تو حید کا چھا گیا جب
سکھائے معیشت کے آداب ان کو
پڑھائے تمدن کے سب باب ان کو
جتائی انھیں وقت کی قدر و قیمت
دلائی انہیں کام کی حرص و رغبت
کہا چھوڑ دیں گے سب آخر رفاقت
ہو فرزندو زن اس مں یا مال و دولت
نہ چھوڑے گا پر ساتھ ہر گز تمہارا
بھلائی میں جو وقت تم نے گزارا
غنیمت ہے صحت علالت سے پہلے
فراغت مشاغل کی کثرت سے پہلے
جوانی، بڑھاپے کی زحمت سے پہلے
اقامت، مسافر کی رحلت سے پہلے
فقیری سے پہلے غنیمت ہے دولت
جو کرنا ہے کر لو کہ تھوڑی ہے مہلت
یہ کہہ کر کیا علم پر ان کو شیدا
کہ ہیں دور رحمت سے سب اہلِ دنیا
مگر دھیان ہے جن کو ہر دم خدا کا
ہے تعلیم کا یا سدا جن میں جرچا
انہی کے لیے یان ہے نعمت خدا کی
انہی پر ہے واں جاکے رحمت خدا کی”
سکھائی انہیں نوعِ انساں پہ شفقت
کہا ” ہے یہ اسلامیوں کی علامت
کہ ہمسایہ سے رکھتے ہیں وہ محبت
شب و روز پہنچاتے ہیں اس کو راحت
وہ برحق سے اپنے لیے چاہتے ہیں
وہی ہر بشر کے لیے چاہتے ہیں
مرض تیرے نزدیک مہلک ہیں کیا کیا
کہا ” دکھ جہاں میں نہیں کوئی ایسا
کہ جس کی دوا حق نے کی ہو نہ پیدا
مگر وہ مرض جس کو آسان سمجھیں
کہے جو طبیب اس کو ہذیان سمجھیں
سبب یا علامت گر ان کو سجھائیں
تو تشخیص میں سو نکا لیں خطائیں
دوا اور پر ہیز سے جی چرائیں
یو نہی رفتہ رفتہ مرض کو بڑھائیں
طبیبوں سے ہر گز نہ مانوس وہں وہ
یہاں تک کہ جینے سے مایوس ہوں وہ”
یہی حال دنیا میں اس قوم کا ہے
بھنور میں جہاز آکے جس کا گھرا ہے
کنارہ ہے دور اور طوفان بپا ہے
گماں ہے یہ ہر دم کہ اب ڈوبتا ہے
نہیں لیتے کروٹ مگر اہلِ کشتی
پڑے سوتے ہیں بے خبر اہلِ کشتی
گھٹا سر پہ ادبار کی چھار رہی ہے
فلاکت سماں اپنا دکھلا رہی ہے
نحوست پس وپیش منڈلارہی ہے
چپ و راست سے یہ صدا آرہی ہے
کہ کل کون تھے آج کیا ہوگئے تم
ابھی جاگتے تھے ابھی سو گئے تم
پر اس قومِ غافل کی غفلت وہی ہے
تنزل پہ اپنے قناعت وہی ہے
ملے خاک میں رعونت وہی ہے
ہوئی صبح اور خوابِ راحت وہی ہے
نہ افسوس انہیں اپنی ذلت پہ ہے کچھ
نہ رشک اور قوموں کی عزت پہ ہے کچھ
بہائم کی اور ان کی حالت ہے یکساں
کہ جس حال میں ہیں اسی میں ہیں شاداں
نہ ذلت سے نفرت نہ عزت کا ارماں
نہ دوزخ سے ترساں نہ جنت کے خواں
لیا عقل و دیں سے نہ کچھ کام انھوں نے
کیا دینِ برحق کو بدنام انھوں نے
وہ دیں جس نے اعدا کو اخواں بنایا
وحوش اور بہائم کو انساں بنایا
درندوں کو غمخوارِ دوراں بنایا
گڈریوں کو عالم کا سلطان بنایا
وہ خط جو تھا ایک ڈھوروں کا گلہ
گراں کردیا اس کا عالم سے پلہ
عرب جس کا چرچا ہے یہ کچھ وہ کیا تھا
جہاں سے الگ اک جزیرہ نما تھا
زمانہ سے پیوند جس کا جدا تھا
نہ کشورستاں تھا، نہ کشور کشا تھا
تمدن کا اس پر پڑا تھا نہ سایا
ترقی کا تھا واں قدم تک نہ آیا
نہ آب و ہوا ایسی تھی روح پرور
کہ قابل ہی پیدا ہوں خود جس سے جوہر
نہ کچھ ایسے سامان تھے واں میسر
کنول جس سے کھل جائی دل کے سراسر
نہ سبزہ تھا صحرا میں پیدا نہ پانی
فقط آبِ باراں پہ تھی زندگانی
زمیں سنگلاخ اور ہوا آتش افشاں
لوؤں کی لپٹ بادِ صرصر کے طوفاں
پہاڑ اور ٹیلے سراب اور بیاباں
کھجوروں کے جھنڈ اور خارِ مغلیاں
نہ کھیتوں میں غلہ نہ جنگل میں کھیتی
عرب اور کل کائنات اس کی یہ تھی
نہ واں مصر کی روشنی جلوہ گر تھی
نہ یونان کے علم و فن کی خبر تھی
وہی اپنی فطرت پہ طبع بشر تھی
خدا کی زمیں بن جتی سر بسر تھی
پہاڑ اور صحرا میں ڈیرا تھا سب کا
تلے آسماں کے بسیرا تھا سب کا
کہیں آگ پجتی تھی واں بے محابا
کہیں تھا کواکب پرستی کا چرچا
بہت سے تھے تثلیث پر دل سے شیدا
بتوں کا عمل سو بسو جا بچا تھا
کرشموں کا راہب کے تھا صید کوئی
طلسموں میں کاہن کے تھا قید کوئی
وہ دنیا میں گھر سب سے پہلا خدا کا
خلیل ایک معمار تھا جس بنا کا
ازل میں مشیت نے تھا جس کو تا کا
کہ اس گھر سے ابلے گا چشمہ بدی کا
وہ تیرتھ تھا اک بت پرستوں کا گویہ
جہاں نامِ حق کا نہ تھا کوئی جویا
قبیلے قبیلے کا بت اک جدا تھا
کسی کا ببل تھا کسی کا صفا تھا
یہ عزا پہ وہ نائلہ پر فدا تھا
اسی طرح گھر گھر نیا اک خدا تھا
نہاں ابرِ ظلمت میں تھا مہرِ انور
اندھیرا تھا فاران کی چوٹیوں پر
چلن ان کے جتنے تھے سب وحشیانہ
ہر اک لوٹ اور مار میں تھا یگانہ
فسادوں میں کٹتا تھا ان کا زمانہ
نہ تھا کوئی قانوان کا تازیانہ
وہ تھے قتل و غارت میں چالاک ایسے
درندے ہوں جنگل میں بے باک جیسے
نہ ٹلتے تھے ہر گز جواڑ بیٹھتے تھے
سلجھتے نہ تھے جب جھگڑ بیٹھتے تھے
جو وہ شخص آپس میں لڑ بیٹھتے تھے
تو صدہا قبیلے بگڑ بیٹھتے تھے
2
بلند ایک ہوتا تھا گرواں شرار
تو اس سے بھڑک اٹھتا تھا ملک سارا
بہ بکر اور تغلب کی باہم لڑ ائی
صدی جس میں آدھی انھوں نے گنوائی
قبیلوں کی گردی تھی جس نے صفائی
تھی اک آگ ہر سو عرب میں لگائی
نہ جھگڑا کوئی ملک و دولت کا تھا وہ
کرشمہ اک ان کی جہالت کا تھا وہ
کہیں تھا مویشی چرانے پہ جھگڑا
کہیں پہلے گھوڑا بڑھانے پہ جھگڑا
لبِ جو کہیں آنے جانے پہپ جھگڑا
کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا
یونہی روز ہوتی تھی تکرار ان میں
یونہی چلتی رہتی تھی تلوار ان میں
جو ہوتی تھی پیدا کسی گھر میں دختر
تو خوفِ شماتت سے بے رحم مادر
پھرے دیکھتی جب تھی شوہر کے تیور
کہیں زندہ گاڑ آتی تھی اس کو جاکر
وہ گود ایسی نفرت سے کرتی تھی خالی
جنے سانپ جیسے کوئی جننے والی
جوا ان کی دن رات کی دل لگی تھی
شراب ان کی گھٹی میں گویا پڑی تھی
تعیش تھا غفلت تھی، دیوانگی تھی
غرض ہر طرح ان کی حالت بری تھی
بہت اس طرح ان کو گزری تھیں صدیاں
کہ چھائی ہوئی نیکیوں پر تھی بدیاں
یکایک ہوئی غیرتِ حق کو حرکت
بڑھا جانبِ بوقبیں ابرِ رحمت
ادا خاکِ بطحا نے کی وہ ودیعت
چلے آتے تھے جس کی دیتے شہادت
ہوئی پہلوئے آمنہ سے ہویدا
دعائے خلیل اور نویدِ مسیحا
ہوئے محو عالم سے آثارِ ظلمت
کہ طالع ہوا ماہِ برجِ سعادت
نہ چٹکی مگر چاندنی ایک مدت
کہ تھا ابر میں ماہتابِ رسالت
یہ چالیسیویں سال لطفِ خدا سے
کیا چاند نے کھیت غارِ حرا سے
گلوں پہ چھری چل رہی تھی جفا کی
عقوبت کی حد تھی نہ پرسش خطا کی
پڑی لٹ رہی تھی ودیعت خدا کی
زمیں پر تھا ابرِ ستم کا دڑیڑا
تباہی میں تھا نوع انساں کا بیڑا
وہ قومیں جو ہیں آج غمخوار انساں
درندوں کی اور ان کی طینت تھی یکساں
جہاں عدل کے آج جاری ہیں فرماں
بہت دور پہنچا تھا واںِ ظلم و طغیاں
بنے آج جو گلہ باں ہیں ہمارے
وہ تھے بھیڑئیے آدمی خوار سارے
ہنر کا جہاں گرم بازار ہے اب
جہاں عقل و دانش کا بہورا ہے اب
جہاں ابرِ رحمت گہربار ہے اب
جہاں ہن برستا لگاتار ہے اب
تمدن کا پیدا نہ تھا واں نشاں تک
سمندر کی آئی نہ تھی موج واں تک
نہ رستہ ترقی کا کوئی کھلا تھا
نہ زینہ بلندی پہ کوئی لگا تھا
وہ صحرا انھیں قطع کرنا پڑا تھا
جہاں نقشِ پا تھا نہ شورِ درا تھا
جونہی کان میں حق کی آواز آئی
لگا کرنے خود ان کا دل رہنمائی
گھٹا اک پہاڑوں سے بطحا کے اٹھی
پڑی چارسو یک بیک دھوم جس کی
کڑک اور دمک دور دور اس کی پہنچی
جو ٹیکس پہ گرجی تو گنگا پہ برسی
رہے اس سے محروم آبی نہ خاکی
ہری ہوگئی ساری کھیتی خدا کی
کیا امیوں نے جہاں میں اجالا
ہوا جس سے اسلام کا بول بالا
بتوں کو عرب اور عجم سے نکالا
ہر اک ڈوبتی ناؤ کو جا سنبھالا
زمانہ میں پھیلائی توحید مطلق
لگی آنے گھر گھر سے آواز حق حق
ہوا غلغلہ نیکیوں کا بدوں میں
پڑی کھلبلی کفر کی سرحدوں میں
ہوئی آتش افسردہ آتشکدوں میں
لگی خاک سی اڑنے سب معبدوں میں
ہوا کعبہ آباد سب گھر اجڑ کر
جمے ایک جا سارے دنگل بچھڑ کر
لیے علم و فن ان سے نصرانیوں نے
کیا کسبِ اخلاق روحانیوں نے
ادب ان سے سیکھا صفاہانیوں نے
کہا بڑھ کے لبیک یزدانیوں نے
ہر اک دل سے رشتہ جہالت کا توڑا
کوئی گھر نہ دنیا میں تاریک چھوڑا
ارسطو کے مردہ فنوں کو جلایا
فلاطون کو زندہ پھر کر دکھایا
ہر اک شہر و قریہ کو یاناں بنایا
مزا علم و حکمت کا سب کو چکھایا
کیا برطرف پردہ چشمِ جہاں سے
جگایا زمانے کو خوابِ گراں سے
ہر اک میکدے سے بھرا جاکے ساغر
ہر اک گھاٹ سے آئے سیراب ہوکر
گرے مثلِ پروانہ ہر روشنی پر
گرہ میں لیا باندھ حکم پیمبر
کہ” حکمت کو اک گم شدہ مال سمجھو
جہاں پاؤ اپنا اسے مال سمجھو”
ہر اک علم کے فن کے جویا ہوئے وہ
ہر اک کام میں سب سے بالا ہوئے وہ
فلاحت میں بے مثل و یکتا ہوئے وہ
سیاحت میں مشہورِ دنیا ہوئے
ہر اک ملک میں ان کی پھیلی عمارت
ہر اک قوم نے ان سے سیکھی تجارت
کیا جاکے آباد ہر ملک ویراں
مہیا کیے سب کی راحت کے ساماں
خطرناک تھے جو پہاڑ اور بیاباں
انہیں کردیا رشکِ صحنِ گلستاں
بہار اب جو دنیا میں آئی ہوئی ہے
یہ سب پودا انہی کی لگائی ہوئی ہے
یہ ہموار سڑکیں یہ راہیں مصفا
دو طرفہ برابر درختوں کا سایا
نشاں جابجا میل و فرسخ کے برپا
سرِ رہ کوئیں اور سرائیں مہیا
انہی کے ہیں سب نے یہ چربے اتارے
اسی قافلہ کے نشاں ہیں یہ سارے
سدا ان کو مرغوب سیرو سفر تھا
ہر اک بر اعظم میں ان کا گزر تھا
تمام ان کا چھانا ہوا بحرو بر تھا
جو لنکا میں ڈیرا تو بربر میں گھر تھا
وہ گنتے تھے یکساں وطن اور سفر کو
گھر اپنا سمجھتے تھے ہر دشت و در کو
سب اسلامیوں کے مددگار بندے
خدا اور بنی کے وفادار بندے
یتیموں کے رانڈوں کے غمخوار بندے
رہِ کفر و باطر سے بیزار سارے
نشہ میں مئے حق کے سرشار سارے
جہالت کی رشمیں مٹا دینے والے
کہانیت کی بنیاد ڈھا دینے والے
سر احکام دیں پر جھکا دینے والے
خدا کے لیے گھر لٹا دینے والے
ہر آفت میں سینہ سپر کرنے والے
فقط ایک اللہ سے ڈرنے والے
اگر اختلاف ان میں باہم دگر تھا
تو بالکل مدار اس کا اخلاص پر تھا
جھگڑتے تھے لیکن نہ جھگڑوں میں شرتھا
خلاف آشتی سے خوش آیندہ تر تھا
یہ تھی موج پہلی اس آزادگی کی
ہرا جس سے ہونے کو تھا باغ گیتی
نہ کھانوں میں تھی واں تکلف کی کلفت
نہ پوشش سے مقصود تھی زیب و زینت
امیر اور لشکر کی تھی ایک صورت
فقیر اور غنی سب کی تھی ایک حالت
لگایا تھا مالی نے اک باغ ایسا
نہ تھا جس میں چھوٹا بڑا کوئی پودا
خلیفہ تھے امت کے ایسے نگہباں
ہو گلہ کا جیسے نگہبان چوپاں
سمجھتے تھے ذی و مسلم کو یکساں
نہ تھا عبد و حر میں تقاوت نمایا
کنیز اور بانو تھی آپس میں ایسی
زمانہ میں ماں جائی بہنیں ہوں جیسی
5رہِ حق میں تھی دوڑ اور بھاگ ان کی
فقط حق پہ تھی جس سے تھی لاگ ان کی
بھڑکتی نہ تھی خود بخود آگ ان کی
شریعت کے قبضہ میں تھی باگ ان کی
جہاں کر دیا نرم نرما گئے وہ
جہاں کردیا گم، گرما گئے وہ
کفایت جہاں چاہیے واں کفایت
سخاوت جہاں چاہیے، واں سخاوت
جچی اور تلی دشمنی اور محبت
نہ بے وجہ الفت نہ بہ بے وجہ نفرت
جھکا حق سے جو، جھک گئے اس سے وہ بھی
رکا حق سے جو، رک گئے اس سے وہ بھی
ترقی کا جس دم خیال ان کو آیا
اک اندھیر تھا ربعِ مسکوں میں چھایا
ہر اک قوم پر تھا تنزل کا سایہ
بلندی سے تھا جس نے سب کو گرایا
وہ نیشن جو ہیں آج گردوں کے تارے
دھند لکے میں پستی کے پنہاں تھے سارے
نہ وہ دور دورہ تھا عبرانیوں کا
نہ یہ بخت و اقبال نصرانیوں کا
پراگندہ دفتر تھا یونانیوں کا
پریشاں تھا شیرازہ ساسانیوں کا
جہاز اہلِ روما کا تھا ڈگمگاتا
چراغ اہلِ ایراں کا تھا ٹمٹماتا
ادھر ہند میں ہر طرف تھا اندھیرا
کہ تھا گیان گن کا لدایاں سے ڈیرا
ادھر تھا عجم کو جہالت نے گھیرا
کہ دل سب نے کیش و کنش سے تھا پھیرا
نہ بھگوان و دھیان تھا گیانیوں میں
نہ یزداں پرستی تھی یزدانیوں میں
یہ تھا علم پر واں توجہ کا عالم
کہ ہو جیسے مجروح جو یائے مرہم
کسی طرح پیاس ان کی ہوتی نہ
تھی
کم
بجھاتا تھا آگ ان کی باراں نہ شبنم
حریمِ خلافت میں اونٹوں پہ لد کر
چلے آتے
تھے مصر و
یوناں کے دفتر
وہ تارے جو تھے شرق میں لمعہ افگن
پہ تھا ان کی کرنوں سے تا غرب
روشن
نوشتوں سے
ہیں جن کے اب تک مزین
کتب خانئہ پیرس و روم و لندن
پڑا غلغلہ جن کا تھا
کشوروں میں
وہ سوتے
ہیں بغداد کے مقبروں میں
وہ سنجار کا اور کوفہ کا میداں
فراہم
ہوئے جس میں مساحِ دوراں
کرہ کی
مساحت کے پھیلائے ساماں
ہوئی جزو سے قدر کل کی
نمایاں
زمانہ وہاں آج تک نوح گر ہے
کہ عباسیوں
کی سبھا وہ کدھر ہے
سمر قند سے اندلس تک
سراسر
انھی کی رصدگاہیں تھیں جلوہ گستر
سوادِ مراغہ
میں اور قاسیوں پر
زمیں سے صدا
آرہی ہے برابر
کہ جن کی رصد کے یہ باقی نشاں ہیں
وہ اسلامیوں کے
منجم کہاں ہیں
مورخ
جو ہیں آج تحقیق والے
تفحص کے ہیں جن کے آئیں نرالے
جنہوں نے ہیں عالم کے
دفتر
کھنگالے
زمیں کے طبق سر بسر چھان ڈالے
عرب ہی نے دل ان کے جاکر ابھارے
عرب ہی سے وہ
بھرنے
سیکھے ترارے
اندھیرا تواریخ پر چھا رہا تھا
ستارہ روایت کا گہنا رہا تھا
درایت
کے سورج پہ ابر
آرہا تھا
شہادت کا میدان دھندلا رہا تھا
سرِ رہ چراغ اک عرب نے
جلایا
اہر اک قافلہ کا نشاں جس
سے پایا
گروہ ایک جو یا تھا علمِ نبی کا
لگایا پتا جس
نے ہر مفتری کا
نہ چھوڑا کوئی رخنہ کذبِ
خفی کا
کیا قافیہ تنگ ہر مدعی کا
کیے جرح و
تعدیل کے وضع قانوں
نہ چلنے دیا کوئی باطل کا
افسوس
اسی دھن میں آساں کیا ہر سفر
کو
اسی شوق میں طے کیا بحرو بر کو
سنا خازنِ علم دیں جس بشر
کو
لیا اس سے جاکر خبر اور
اثر کو
پھر آپ اس کو پرکھا کسوٹی پہ رکھ کر
دیا اور کو کود مزا اس
کا چکھ کر
6
کیا فاش راوی میں جو عیب پایا
مناقب کو چھانا مثالب کو تایا
مشائخ میں جو قبح نکلا
جتایا
ائمہ
میں جو داغ دیکھا، بتایا
طلسم ورع ہر مقدس کا توڑا
نہ ملا کو چھوڑا نہ صوفی
کو چھوڑا
رجال اور
اسانید کے جو ہیں دفتر
گواہ ان کی آزادگی کے ہیں یکسر
نہ تھا ان کا
احساں یہ اک اہلِ دیں پر
وہ
تھے اس میں ہر قوم و ملت کے رہبر
لبرٹی میں جوآج جائق ہیں سب
سے
بتائیں کہ لبرل بنے ہیں وہ کب
سے
فصاحت کے دفتر تھے سب گاؤ خوردہ
بلاغت کے رستے تھے
سب ناسپردہ
ادھر روم کی شمع انشا تھی
مردہ
ادھر آتشِ پارسی تھی فسردہ
یکاک جو برق آکے
چمکی عرب کی
کھلی کی کھلی رہ گئی آنکھ سب کی
عرب کی جو دیکھی وہ آتش زبانی
سنی بر محل
ان کی شیوا بیانی
وہ اشعار کی دل میں ریشہ
دوانی
وہ خطبوں کی مانند دریا روانی
وہ جادو
کے جملے وہ فقرے فسوس کے
تو سمجھے کہ گویا ہم اب
تک تھے گونگے
سلیقہ کسی کو نہ تھا مدح و
ذم کا
بنہ ڈھب یاد تھا شرحِ شادی و غم کا
نہ انداز
تلقین و عظ و حکم کا
خزانہ تھا
مدفوں زباں اور قلم کا
نواسنجیاں ان سے سیکھیں یہ سب نے
زباں
کھول دی سب کی نطقِ عرب
نے
زمانہ میں پھیلی طب ان کی بدولت
وہئی بہرہ ور جس سے ہر قوم و ملت
نہ
صرف ایک مشرق
میں تھی ان کی شہرت
مسلم تھی مغرب تک ان کی حذاقت
سلر نو میں جو ایک نامی مطب
تھا
وہ
مغرب میں عطارِ مشکِ عرب تھا
ابو بکر رازی علی ابنِ عیسیٰ
حکیم گرامی حسین ابن
سینا
حنین ابن اسحٰق قسمیں دانا
ضیا ابنِ بیطار راس الاطبا
انھیں کے ہیں مشرق میں سب
نام
لیوا
انہیں سے ہوا پار مغرب کا کھیوا
غرض فن ہیں جو مائیہ دین و دولت
طبیعی ،
الہی، ریاضی و
حکمت
طب اور کیمیا، ہندہ اور ہئیبت
سیاست، تجارت، عمارت، فلاحت
لگاؤگے
کھوج ان کا جاکر جہاں
تم
نشاں ان کے قدموں کے پاؤ گے واں تم
ہوا گو کہ پامال بستاں عرب
کا
مگر اک جہاں ہے غزالخواں
عرب کا
ہراکر گیا سب کو باروں عرب کا
سپیدو سیہ پر ہے
احساس عرب کا
وہ قومیں جو ہیں آج سرتاج
سب کی
کنونڈی رہیں گی ہمیشہ عرب کی
کہ نقشِ قدم ہیں نمودار اب تک
ملایا میں ہیں ان
کے آربار اب تک
انہیں رو رہا ہے میلیبار اب تک
ہمالہ کو ہیں واقعات ان کے ازبر
نشاں ان کے باقی ہیں
جبرالٹر پر
نہیں اس طبق پر کوئی بر اعظم
نہ ہوں جس میں ان کی عمارت محکم
عرب، ہند، مصر، اندلس و
شام، ویلم
بناؤں سے ہیں ان کی معمور عالم
سرِ کوہِ آدم سے تا کوہِ بیضا
جہاں جاؤ گے کھوج پاؤ گے ان
کا
وہ سنگیں محل اور وہ ان کی صفائی
جمی جن کے کھنڈروں پہ ہے آج کائی
وہ مرقد کی گنبد تھے جن کے
طلائی
وہ معبد جہاں جلوہ گر تھی خدائی
زمانہ نے گو ان کی برکت اٹھالی
نہیں کوئی ویرانہ پر ان سے
خالی
ہوا اندلس ان سے گلزار یکسر
جہاں ان کے آثار باقی ہیں اکثر
جو چاہے کوئی دیکھ لے آج
جاکر
یہ ہے بیت حمرا کی گویا زباں پر
کہ تھے آلِ عدنان سے میرے بانی
عرب کی ہوں میں اس زمیں پر
نشانی
ہویدا ہے غرناطہ ہے شوکت ان کی
عیاں ہے بلنسیہ سے قدرت ان کی
بطلیوس کو یا دہے عظمت ان کی
ٹپکتی ہے قادس میں سر حسرت ان کی
نصیب ان کا اشبیلیہ میں ہے سوتا
شب و روز ہے قرطبہ ان کو
روتا
کوئی قرطبہ کے کھنڈر جاکے دیکھے
مساجد کے محراب و در جاکے دیکھے
حجازی امیروں کے گھر جاکے
دیکھے
خلافت کو زیر و زبر جاکے دیکھے
جلالا ان کا کھنڈروں میں ہے یوں چمکتا
کہ ہو خاک میں جیسے
کندن دمکتا
وہ بلدہ کہ فخرِ بلادِ جہاں تھا
ترو خشک پر جس کا سکہ روں تھا
گڑا جس میں عباسیوں کا
نشاں تھا
عراقِ عرب جس سے رشکِ جناں تھا
اڑا لے گئی بادِ پندار جس کو
بہا لے گئی سیلِ تاتار جس
کو
سنے گوشِ عبرت سے گرجا کے انساں
تو واں ذرہ ذرہ یہ کرتا ہے اعلاں
کہ تھا جن دنوں مہرِ اسلام
تاباں
ہوا یاں کی تھی زندگی بخش دواں
پڑی خاک ایتھنز میں جاں یہیں سے
ہوا زندہ پھر نام یوناں یہیں
سے
وہ لقمان و سقراط کے درمکنوں
وہ اسرارِ بقراط و درسِ فلاطوں
ارسطو کی تعلیم سولن کے
قانوں
پڑے تھے کسی قبر کہنہ میں مدفوں
یہیں آکے مہرِ سکوت ان کی ٹوٹی
اسی باغِ رعنا سے بو ان کی
پھوٹی
کہ تعلیم جاری ہو خیرالوریٰ کی
پڑے دھوم عالم میں
دینِ ہدیٰ کی
تو عالم کی تم کو حکومت عطا کی
کہ پھیلاؤ دنیا میں حکمِ شریعت
کرو ختم بندوں پہ مالک
کی حجت
ادا کرچکی جب حق اپنا حکومت
رہی اب نہ اسلام کو اس کی حاجت
مگر حیف اے فخرِ آدم کی
امت
ہوئی آدمیت بھی ساتھ اس کے رخصت
حکومت تھی گویا کہ اک جھول تم پر
کہ اڑتے ہی اس کے نکل آئے
جوہر
زمانہ میں ہیں ایسی قومیں بہت سی
نہیں جس میں تخصیص فرماندہی کی
پر آفت کہیں ایسی آئی نہ
ہوگی
کہ گھر گھر پہ یاں چھا گئی آکے پستی
چکور اور شہباز سب اوج پر ہیں
مگر ایک ہم ہیں کہ بے بال
و پر ہیں
وہ ملت کہ گردوں پہ جس کا قدم تھا
ہر اک کھونٹ میں جس کا برپا علم تھا
ہو فرقہ جو آفاق
میں محترم تھا
وہ امت لقب جس کا خیر الامم تھا
نشاں اس کا باقی ہے صرف اس قدریاں
کہ گنتے ہیں اپنے
کو ہم بھی مسلماں
وگر ہماری رگوں میں لہو میں
ہمارے ارادو میں اور جستجو میں
دلوں میں زبانوں میں
اور گفتگو میں
طبعیت میں فطرت میں عادت میں خومیں
نہیں کوئی ذرہ نجابت کا باقی
اگر ہو کسی میں تو
ہے اتفاقی
ہماری ہر اک بات میں سفلہ پن ہے
کمینوں سے بدتر ہمارا چلن ہے
لگا نام آبا کو ہم سے گہن
ہے
ہمارا قدم ننگِ اہلِ وچن ہے
بزرگوں کی توقیر کھوئی ہے ہم نے
عرب کی شرافت ڈبوائی ہے ہم نے
نہ قوموں میں عزت، نہ جلسوں میں وقعت
نہ اپنوں سے الفت، نہ غیروں سے ملت
مزاجوں میں سستی، دماغوں
میں نخوت
خیالوں میں پستی، کمالوں سے نفرت
عداوت نہاں، دوستی آشکارا
غرض کہ تواضع، غرض کی
مدارا
نہ اہلِ حکومت کے ہمراز ہیں ہم
نہ درباریوں میں سرافراز ہیں ہم
نہ علموں میں شایانِ اعزاز
ہیں ہم
نہ صنعت میں حرفت میں ممتاز ہیں ہم
نے رکھتے ہیں کچھ منزلت نوکری میں
نہ حصۃ ہمارا ہے
سوداگری میں
تنزل نے کی ہے بری گت ہماری
بہت دور پہنچی ہے نکبت ہماری
گئی گزری دنیا سے عزت
ہماری
نہیں کچھ ابھرنے کی صورت ہماری
پڑے ہیں اک امید کے ہم سہارے
توقع پہ جنت کی جیتے ہیں
سارے
سیاحت کی گوں ہیں نہ مردِ سفر ہیں
خدا کی خدائی سے ہم بے خبر ہیں
یہ دیواریں گھر کی و پیشِ
نظر ہیں
یہی اپنے نزدیک حدِ بشر ہیں
ہیں تالاب میں مچھلیاں کچھ فراہم
وہی ان کی دنیا وہی ان کا
عالم
بہشت اور ارم اسلسبیل اور کوثر
پہاڑ اور جنگل جزیرے سمندر
اسی طرح کے اور بھی نام
اکثر
کتابوں میں پڑھتے رہے ہیں برابر
یہ جب تک نہ دیکھں کہیں کس یقیں پر
کہ یہ آسماں پر ہیں یا ہیں
زمیں پر
وہ بے مول پونجی کہ ہے اصل دولت
وہ شائستہ لوگوں کا گنجِ سعادت
وہ آسودہ قوموں کا راس
البضاعت
وہ دولت کہ ہے وقت جس سے عبارت
نہیں اس کی وقعت نظر میں ہماری
یو نہیں مفت جاتی ہے برباد
ساری
اگر ہم سے مانگے کوئی ایک پیسا
تو ہوگا کم وبیش بار اس کا دنیا
مگر ہاں وہ سرمائیہ دین و
دنیا
کہ ایک ایک لمحہ ہے انمول جس کا
نہیں کرتے خست اڑانے میں اس کے
بہت ہم سخی ہیں لٹانے میں اس
کے
اگر سانس دن رات کے سب گنیں ہم
تو نکلیں گے انفاز ایسے بہت کم
کہ ہو جن میں کل کیلئے کچھ
فراہم
یونہیں گزرے جاتے ہیں دن رات پیہم
نہیںکوئی گویا خبردار ہم میں
کہ یہ سانس آخر ہیں اب کوئی
دم میں
گڈریے کا وہ حکم بردار کتا
کہ بھیڑوں کی ہر دم ہے رکھوال کرتا
جو ریوڑ میں ہوتا ہے پتے کا
کھڑکا
تو وہ شیر کی طرح پھرتا ہے بھپرا
گر انصاف کیجئے تو ہم سے بہتر
کہ غافل نہیں فرض سے اپنے دم
بھر
وہ قومیں جو سب راہیں طے کرچی ہیں
ذخیرے ہر اک جنس کے بھر چکی ہیں
ہر اک بوجھ بار اپنے سر دھر
چکی ہیں
ہوئیں تب ہیں زندہ کہ جب مرچکی ہیں
اسی طرح راہِ طلب میں ہیں پویا
بہت دور ابھی ان کو
جانا ہے گویا
کسی وقت جی بھر کے سوتے نہیں وہ
کبھی سیر محنت سے ہوتے نہیں وہ
بضاعت کو اپنی ڈبوتے
نہیں وہ
کوئی لمحہ بے کار کھوتے نہیں وہ
نہ چلنے سے تھکتے نہ اکتاتے ہیں وہ
بہت بڑھ گئے اور بڑھے
جاتے ہیں وہ
8
مگر ہم کہ اب تک جہاں تھے وہیں ہیں
جمادات کی طرح بارِ زمیں ہیں
جہاں میں ہیں
ایسے کہ گویا نہیں ہیں
زمانہ سے کچھ ایسے فارغ نشیں ہیں
کہ گویا ضرویری تھا جو کام کرنا
وہ سب کر
چکے ایک باقی ہے مرنا
یہاں اور ہیں جتنی قومیں گرامی
خود اقبال ہے آج ان کا سلامی
تجارت میں ممتاز
دولت میں نامی
زمانہ کے ساتھی ترقی کے حامی
نہ فارغ ہیں اولاد کی تربیت سے
نہ بے فکر ہیں قوم کی
تقویت سے
دکان ان کی ہے اوعر بازار ان کا
بنج ان کا ہے اور بہوار ان کا
زمانہ میں پھیلا ہے بیوپار
ان کا
ہے پیر و جواں برسرِ کار ان کا
مدار اہلکاری کا ہے اب انہیں پر
انہیں کے ہیں آفس انہیں کے
ہیں دفتر
معزز ہیں ہر ایک دربار میں وہ
گرامی ہیں ہر ایک سرکار میں وہ
نہ رسوا ہیں عادات و اطوار
میں وہ
نہ بدنام گفتار و کردار میں وہ
نہ پیشہ سے حرفہ سے انکار ان کو
نہ محنت مشقت سے کچھ عار ان
کو
جو گرتے ہیں گر کر سنبھل جاتے ہیں وہ
پڑے زد تو بچ کر نکل جاتے ہیں وہ
ہر اک سانچے میں جاکے ڈھل
جاتے ہیں وہ
جہاں رنگ بدلا بدل جاتے ہیں وہ
ہر اک وقت کا مقتضیٰ جانتے ہیں
زمانہ کے تیور وہ
پہچانتے ہیں
مگر ہے ہماری نظر اتنی اونچی
کہ یکساں ہے واں سب بلدی و پستی
نہیں اب تک اصلا خبر ہم
کو یہ بھی
کہ ہے کون مردار کتیا ترقی
جدھر کھول کر آنکھ ہم دیکھتے ہیں
زمانہ کو اپنے سے کم دیکھتے
ہیں
زمانہ کا دن رات ہے یہ اشارا
کہ ہے آشتی مین مری یاں گزارا
نہیں پیروی جن کو میری
گوارا
مجھے ان سے کرنا پڑے گا کنارا
سدا ایک ہی رخ نہیں ناؤ چلتی
چلو تم ادھر کو، ہوا ہو جدھر
کی
چمن میں وا آچکی ہے خزاں کی
پھری ہے نظر دیر سے باغباں کی
صدا اور ہے بلبلِ نغمہ خواں
کی
کوئی دم میں رحلت ہے اب گلستاں کی
تباہی کے خواب آرہے ہیں نظر سب
مصیبت کی ہے آنے والی سحر
اب
فلاکت جسے کہئے ام الجرائم
نہیں رہتے ایماں پہ دل جس سے قائم
بناتی ہے انسان کو جو
بہائم
مصلّی ہیں دل جمع جس سے نہ صائم
وہ یوں اہلِ اسلام پر چھا رہی ہے
کہ مسلم کی گویا نشانی یہی
ہے
کہیں مگر کے گر سکھاتی ہے ہم کو
کہیں جھوٹ کی لو لگاتی ہے ہم کو
خیانت کی چالیس سجھاتی ہے ہم
کو
خوشامد کی گھاتیں بناتی ہے ہم کو
فسوں جب یہ پاتی نہیں کار گر وہ
تو کرتی ہے آخر کو دریوزہ گر
وہ
یہاں جتنی قومیں ہمارے سوا ہیں
ہزار ان میں خوش ہیں تو دو بینوا ہیں
یہاں لاکھ میں دو اگر
اغنیا ہیں
تو سو نیم بسمل ہیں باقی گدا ہیں
ذرا کام غیرت کو فرمائیں گر ہم
تو سمجھیں کہ ہیں
متبذل کس قدر ہم
بگاڑے ہیں گردش نے جو خاندانی
نہیں جانتے بس کہ روٹی کمانی
دلوں میں ہے یہ یک قلم
سب بے ٹھانی
کہ کیجئے بسر مانگ کر زندگانی
جہاں قدر دانوں کا ہیں کھوج پاتے
پہنچتے ہیں واں مانگتے
اور کھاتے
کہیں باپ دادا کا ہیں نام لیتے
کہیں روشناسی سے ہیں کام لیتے
کہیں جھوٹے وعدوں پہ ہیں
دام لیتے
یونہی ہیں وہ دے دے کے دم دام لیتے
بزرگوں کے نازاں ہیں جس نام پر وہ
اسے بیچتے پھرتے ہیں
در بدر وہ
یہ ہیں ڈھنگ ان تازہ آفت زدوں کے
بہت کم زمانہ ہوا جن بگڑے
ابھی ایک عالم ہے آگاہ جن
سے
کہ ہیں کس کے بیٹے وہ اور کس کے پوتے
جنہیں دیس پردیس سب جانتے ہیں
حسب اور نسب جن کا پہچانتے
ہیں
مگر منٹ چکا جن کا نام و نشاں ہے
پرانی ہوئی جن کی اب داستاں ہے
فسانوں میں قصوں میں جن کا
بیاں
بہت نسل پر تنگ ان کی جہاں ہے
نہیں ان کی قدر اور پرسش کہیں اب
انہیں بھیک تک کوئی دیتا نہیں
اب
بہت آگ چلموں کی سلگانے والے
بہت گھانس کی گھٹڑیاں لانے والے
بہت دربدر مانگ کر کھانے
والے
بہت فاقے کرکر کے مرجانے والے
جو پوچھو کہ کس کان کے ہیں وہ جوہر
تو نکلیں گے نسلِ ملوک ان
میں اکثر
انہی کے بزرگ ایک دن حکمراں تھے
انہی کے پرستار پیر و جواں تھے
یہی مامنِ عاجز و ناتواں
تھے
یہی مرجعِ ویلم و اصفہاں تھے
یہی کرتے تھے ملک کی گلہ بانی
انہیں کے گھروں میں تھی صاحب قرآنی
رہے جب تک ارکان اسلام برپا
چلن اہلِ دیں کا رہا سیدھا سادا
رہا میل سے شہد صافی مصفآ
رہی
کھوٹ
سے سیمِ خالص مبرا
نہ تھا کوئی اسلام کا مردِ میداں
علم ایک تھا شش جہت میں
درافشاں
پہ گدلا
ہوا جب کہ چشمہ صفا کا
گیا چھوٹ سر رشتہ دینِ ہدیٰ کا
رہا سر پہ باقی
نہ سایہ ہما کا
تو پورا
ہوا عہد جو تھا خدا کا
کہ ہم نے بگاڑا نہیں کوئی اب تک
وہ بگڑا
نہیں دنیا میں جب تک
برے ان پہ
وقت آکے پڑنے لگے اب
وہ دنیا میں بس کر اجڑنے لگے
اب
بھرے ان کے میلے بچھڑنے لگے اب
بنے تھے
وہ جیسے بگڑنے لگے اب
ہری کھیتیاں جل گئیں
لہلہا کر
گھٹا کھل گئی سارے عالم پہ چھاکر
نہ ثروت
رہی ان کی قائم نہ عزت
گئے چھوڑ
ساتھ ان کا اقبال و دولت
ہوئے علم و فن ان سے ایک ایک
رخصت
مٹیں خوبیاں ساری نوبت بہ
نوبت
رہا دین باقی نہ اسلام باقی
اک اسلام کا رہ گیا نام
باقی
ملے کوئی ٹیلہ اگر ایسا
اونچا
کہ آتی ہوواں سے نظر ساری دنیا
چڑھے اس پہ پھر اک خرومند
دانا
کہ قدرت کے دنگل
کا دیکھے تماشا
تو قوموں میں فرق اس قدر پائے گا وہ
کہ عالم کو زیر و زبر
پائے گا وہ
وہ دیکھے گا ہر سو ہزاروں چمن واں
بہت تازہ تر صورتِ باغِ رضواں
بہت ان سے کمتر پہ سر سبز
و
خنداں
بہت خشک اور بے طراوت مگر ہاں
نہیں لائے گو برگ و باران کے پودے
نظر آتے ہیں
ہونہار ان
کے پودے
پھر اک باغ دیکھے گا اجڑ سراسر
جہاں خاک اڑتی ہے ہر سو برابر
نہیں
تازگی کا کہیں نام
جس پر
ہری ٹہنیاں جھڑگئیں جس کی جل کر
نہیں پھول پھل جس میں آنے کے
قابل
ہوئے دکھ جس کے جلانے
کے قابل
جہاں زہر کا کام کرتا ہے باراں
جہاں آکے دیتا ہے
رُو اَبر نیساں
تردو سے جو اور ہوتا
ہے ویراں
نہیں راس جس کو خزاں اور بہاراں
یہ آواز
پیہم وہاں آرہی ہے
کہ اسلام کا باغ ویراں
یہی ہے
وہ دینِ حجازی کا بیباک بیڑا
نشاں
جس کا اقصاء عالم میں پہنچا
مزاحم ہوا کوئی خطرہ نہ
جس کا
نہ عماں میں ٹھٹکا نہ قلزم میں
جھجکا
کئے پے سپر جس نے ساتوں سمندر
وہ ڈوبا دہانے میں
گنگا کے آکر
اگر کان دھر کر
سنیں اہلِ عبرت
تو سیلون سے تابہ کشمیر و تبت
زمیں روکھ بن پھول
پھل ریت پر بت
یہ
فریاد سب کر رہے ہیں بہ حسرت
کہ کل فخر تھا جن سے اہلِ جہاں کو
لگا ان سے عیب
آج ہندوستاں
کو
حکومت نے تم سے کیا گر کنارا
تو اس میں نہ تھا کچھ تمہارا اجارا
زمانہ کی گردش
سے
ہے کس کو چارا
کبھی یاں سکندر کبھی یاں ہے دارا
نہیں بادشاہی کچھ آخر خدائی
جو ہے آج
اپنی
تو کل ہے پرائی
وہ سر سبز ہیں آج روئے زمیں پر
تفوق ہے ان کو کہین
و مہیں پر
مدار آدمت کا ہے اب انہیں پر
شریعت کے جو ہم نے پیمان توڑے
وہ لے جاکے سب اہلِ مغرب نے
جوڑے
سمجھتے ہیں گمراہ جن کو مسلمان
نہیں جن کو عقبیٰ میں امیدِ غفراں
نہ حصہ میں فردوس جن کے نہ
رضواں
نہ تقدیر میں حور جن کے نہ غلماں
پس از مرگ دوزخ ٹھکانا ہے جن کا
حمیم آب و زقوم کھانا ہے
جن کا
وہ ملک اور ملت پہ اپنی فدا ہیں
سب آپس میں ایک اک کے حاجت روا ہیں
اولوالعلم ہیں ان میں یا
اغنیا ہیں
طلب گار بہبود خلقِ خدا ہیں
یہ تمغا تھا گویا کہ حصۃ انہیں کا
کہ حب الوطن ہے نشان
مومنیں کا
امیروں کی دولت غریبوں کی ہمت
ادیبوں کی انشا حکیموں کی حکمت
فصیحوں کے خطبے شجاعوں کی
جرئات
سپاہی کے ہتیار شاہوں کی طاقت
دلوں کی امیدیں امنگوں کی خوشیاں
سب اہلِ وطن اور وطن پر ہیں
قرباں
عروج ان کا جو تم عیاں دیکھتے ہو
جہاں میں انہیں کامراں دیکھتے ہو
مطیع ان کا سارا جہاں
دیکھتے ہو
انہیں بر تر از آسماں دیکھتے ہو
یہ ثمرے ہیں ان کی جوانمردیوں کے
نتیجے ہیں آپس کی
ہمدردیوں کے
غنی ہم میں ہیں جو کہ اربابِ ہمت
مسلم ہے عالم میں جن کی سخاوت
اگر ہے مشائخ سے ان کو
عقیدت
تو ہے پیرزادوں پہ وقف ان کی دولت
نکمے ہیں دن رات واں عیش کرتے
پہ نوکر ہیں جتنے وہ بھوکے
ہیں مرتے
عمل واعظوں کے اگر قول پر ہے
تو بخشش کی امید بے صرفِ زر ہے
نماز اور روزہ کی عادت اگر
ہے
تو روزِ حساب ان کو پھر کس کا ڈر ہے
اگر شہر میں کوئی مسجد بنا دی
تو فردوس میں نیو اپنی
جمادی
عمارت کی بنیاد ایسی اٹھانی
نہ نکلے کہیں ملک میں جس کا ثانی
تماشوں میں ثروت بڑوں کی
اڑانی
نمائش میں دولت خدا کی لٹانی
چھٹی بیاہ مین کرنے لاکھوں کے ساماں
یہ ہیں ان کی خوشیاں یہ ہیں
انکے ارماں
مگر دینِ بر حق کا بوسیدہ ایواں
تزلزل مین مدت سے ہیں جس کے ارکاں
زمانہ میں ہے جو کوئی
دن کا مہماں
نہ پائیں گے ڈھونڈا جسے پھر مسلماں
عزیزوں نے اس سے توجہ اٹھا لی
عمارت کا ہے اس کی
اللہ والی
پڑی ہیں سب اجڑی ہوئی خانقاہیں
وہ درویش و سلطاں کی امید گاہیں
کھیلیں تھیں جہاں علمِ
باطن کی راہیں
فرشتوں کی پڑتی تھیں جن پر نگاہیں
کہاں ہیں وہ جذبِ الٰہی کے پھندے
کہاں ہیں وہ
اللہ کے پاک بندے
وہ علمِ شریعت کے ماہر کدھر ہیں
وہ اخبار دیں کے مبصر کدھر ہیں
اصولی کدھر ہیں،
مناظر کدھر ہیں
محدث کہاں ہیں، مفسر کدھر ہیں
10
وہ مجلس جو کل سر بسر تھی چراغاں
چراغ اب کہیں
ٹمٹاتا نہیں واں
مدارس وہ تعلیم دیں کے کہاں ہیں
مراحل وہ علم و یقیں کے کہاں ہیں
وہ ارکاں شرعِ
متیں کے کہاں ہیں
وہ وارث رسول امیں کے کہاں ہیں
رہا کوئی امت کا ملجا نہ ماویٰ
نہ قاضی نہ مفتی نہ
صوفی نہ مُلّا
کہاں ہیں وہ دینی کتابوں کے دفتر
کہاں ہیں وہ علمِ الٰہی کے منظر
چلی ایسی اس بزم
میں بادِ صرصر
بجھیں مشعلیں نورِ حق کی سراسر
رہا کوئی ساماں نہ مجلس میں باقی
صراحی نہ طنبور،
مطرب نہ ساقی
بہت لوگ بن کے ہوا خواہِ امت
سفیہوں سے منوا کے اپنی فضیلت
سدا گاؤں درگاؤں نوبت بہ
نوبت
پڑے پھرتے ہیں کرتے تحصیلِ دولت
یہ ٹھہرے ہیں اسلام کے رہنما اب
لقب ان کا ہے وارثِ انبیا
اب
بہت لوگ پیروں کی اولاد بن کر
نہیں ذات والا میں کچھ جن کے جوہر
بڑا فخر ہے جن کو لے دے کے اس
پر
کہ تھے ان کے اسلاف مقیولِ داور
کرشمے ہیں جاجا کے جھوٹے دکھاتے
مریدوں کو ہیں لوٹتے اور
کھاتے
یہ ہیں جادہ پیمائے راہِ طریقت
مقام ان کا ہے ماورائے شریعت
انہیں پر ہے ختم آج کشف و
کرامت
انہیں کے ہے قبضہ میں بندوں کی قسمت
یہی ہیں مراد اور یہی ہیں مرید اب
یہی ہیں جنید اور یہی
بایزید اب
بڑھے جس سے نفرت وہ تقریر کرنی
جگر جس سے شق ہوں وہ تحریر کرنی
گنہگار بندوں کی تحقیر
کرنی
مسلمان بھائی کی تکفیر کرنی
یہ ہے عالموں کا ہمارے طریقہ
یہ ہے ہادیوں کا ہمارے سلیقہ
کوئی
مئسلہ پوچھنے ان سے جائے
تو گردن پہ بارِ گراں لے کے آئے
اگر بد نصیبی سے شک اس میں لائے
تو قطعی
خطاب اہلِ دوزخ کا پائے
اگر اعتراض اس کی نکلا زباں سے
تو آنا سلامت ہے دشوار واں سے
کبھی وہ گلے
کی رگیں ہیں پھلاتے
کبھی جھاگ پر جھاگ ہیں منہ پہ لاتے
کبھی خوک اور سگ ہیں اس کو بتاتے
کبھی
مارنے کو عصا ہیں اٹھاتے
ستوں چشمِ بددور ہیں آپ دیں کے
نمونہ ہیں خلقِ رسولامیں گے
جو چاہے کہ خوش
ان سے مل کر ہو انساں
تو ہے شرط وہ قوم کا ہو مسلماں
نشاں سجدہ کا ہو جبیں پر نمایاں
تشرع میں اس
کے نہ ہو کوئی نقصاں
لبیں بڑھ رہی ہوں نہ ڈاڑھی چڑھی ہو
ازار اپنی حد سے نہ آگے بڑھی ہو
عقائد میں
حضرت کا ہم داستاں ہو
ہر اک اصل مین فرع میں ہم زباں ہو
حریفوں سے ان کے بہت بد گماں ہو
مریدوں کا
ان کے بڑا مدح خواح ہو
نہیں ہے گر ایسا تو مردود دیں ہے
بزرگوں سے ملنے کے قابل نہیں ہے
کہ شاہوں کی اولاد در درگدا ہے
جسے سنئے افلاس میں
مبتلا ہے
جسے دیکھئے مفلس و بینوا ہے
نہیں کوئی ان میں کمانے کے قابل
اگر ہیں تو ہیں مانگ کھانے
کے قابل
نہیں مانگنے کا طریق ایک ہی یاں
گدائی کی ہیں صورتیں نت نئی یاں
نہیں حصر کنگلوں پہ گدیہ
گری یاں
کوئی دے تو منگتوں کی ہے کہا کمی
بہت ہاتھ پھیلائے زیرِ ردا ہیں
چھپے اجلے کپڑوں میں اکثر
گدا ہیں
بہت آپ کو کہہ کے مسجد کے بانی
بہت بن کے خود سیدِ خاندانی
بہت سیکھ کر نوحہ و سوز
خوانی
بہت مدح میں کرکے رنگیں بیانی
بہت آستانوں کے خدّام بن کر
پڑے مانگتے کھاتے پھرتے ہیں در
در
مشقت کو محنت کو جو عار سمجھیں
ہنر اور پیشہ کو جو خوار سمجھیں
تجارت کو کھیتی کو دشوار
سمجھیں
فرنگی کے پیسے کو مردار سمجھیں
تن آسانیاں چاہیں اور آبرو بھی
قوم آج ڈوبے گی گر کل نہ
ڈوبی
کریں نوکری بھی تو بے عزتی کی
جو روٹی کمائیں تو بے حرمتی کی
کہیں پائیں خدمت تو بے عزتی
کی
قسم کھائیے ان کی خوش قسمتی کی
امیروں کے بنتے ہیں جب یہ مصاحب
تو جاتے ہیں ہو کر حمت سے
تائب
کہیں ان کی صحبت میں گانا بجانا
کہیں مسخرہ بن کے ہنسنا ہنسانا
کہیں پھبتیاں کہہ کے انعام
پانا
کہیں چھیڑ کر گالیاں سب سے کھانا
یہ کام اور بھی کرتے ہیں پر نہ ایسے
مسلمان بھائی سے بن آئیں
جیسے
امیروں کا عالم نہ پوچھو کہ کیا ہے
خمیران کا اور ان کی طینت جدا ہے
سزاوار ہے ان کو جو نا
سزا ہے
روا ہے انہیں سب کہ جو ناروا ہے
شریعت ہوئی ہے نکو نام ان سے
بہت فخر کرتا ہے اسلام ان
سے
ہر اک بول پر ان کے مجلس فدا ہے
ہر اک بات پر واں درست اور بجا ہے
نہ گفتار میں ان کی کوئی خطا
ہے
نہ کردار ان کا کوئی ناسزا ہے
وہ جو کچھ کہ ہیں ، کہہ سکے کون ان کو
بنایا ندیموں نے فرعون ان
کو
وہ دولت کہ ہے مائیہ دین و دنیا
وہ دولت کہ ہے تو شئہ راہِ عقبیٰ
سلیماں نے کی جس کی حق سے
تمنا
بڑھا جس سے آفاق میں نام کسریٰ
کیا جس نے حاتم کو مشہور دوراں
کیا جس نے یوسف کو مسبحودِ
اخواں
ملا ہے یہ فخر اس کو ان کی بدولت
کہ سمجھی گئی ہے وہ اصلِ شقاوت
کہیں ہے وہ سرمائیہ جہل و
غفلت
9
کہیں نشئہ بادئہ کبر و نخوت
جہاں کے لئے جو کہ آبِ بقا ہے
وہ اقوم کے حق میں سمی دوا ہے
ادھر مال و دولت نے یاں منہ دکھایا
ادھر ساتھ ساتھ اس کے ادبار آیا
پڑا آکے جس گھر پہ ثروت کا
سایا
عمل واں سے برکت نے اپنا اٹھایا
نہیں راس یاں چار پیسے کسی کو
مبارک نہیں جیسے پر چیونٹی
کو
سمجھتے ہیں سب عیب جن عادتوں کو
بہائم سے نسبت ہے جن سیرتوں کو
چھپاتے ہیں اوباش جن خصلتوں
کو
نہیں کرتے اجلاف جن حرکتوں کو
وہ یاں اہلِ دولت کو ہیں شیرِ مادر
نہ خوفِ خدا ہے نہ شرمِ پیمبر
طبعیت اگر لہو و بازی پہ آئی
تو دولت بہت سی اسی میں لٹائی
جو کی حضرتِ عشق نے رہنمائی
تو کردی
بھرے گھر کی دم میں صفائی
پھر آخر لگے مانگنے اور کھانے
یونہیں مٹ گئے یاں ہزاروں گھرانے
نہ آغاز
پر اپنے غور ان کو اصلا
نہ انجام کا اپنے کچھ ان کو کھٹکا
نہ فکر ان کو اولاد کی تربیت کا
نہ کچھ
ذلتِ قوم کی ان کو پروا
نہ حق کوئی دنیا پہ ان کا نہ دیںپر
خدا کو وہ کیا منہ دکھائیں گے جاکر
کسی
قوم کا جب الٹتا ہے دفتر
تو ہوتے ہیں مسخ ان میں پہلے تو نگر
کمال ان میں رہتے ہیں باقی نہ جوہر
نہ
عقل ان کی ہادی نہ دین انکا رہبر
نہ دنیا میں ذات نہ عزت کی پروا
نہ عقبیٰ میں دوزخ نہ جنت کی
پروا
نہ مظلوم کی آہ و زاری سے ڈرنا
نہ مفلوک کے حال پر رحم کرنا
ہوا و ہوس میں خودی سے
گزرنا
تعیش میں جینا نمائش پہ مرنا
سدا خوابِ غفلت میں بیہوش رہنا
دمِ نزع تک خود فراموش
رہنا
پریشاں اگر قحط سے اک جہاں ہے
تو بے فکر ہیں کیونکہ گھر میں سماں ہے
اگر باغِ امت میں فصلِ
خزاں ہے
تو خوش ہیں کہ اپنا چمن گل فشاں ہے
بنی نوعِ انساں کا حق ان پہ کیا ہے
وہ اک نوع، نوعِ
بشر سے جدا ہے
کہاں بندگانِ ذلیل اور کہاں وہ
بسر کرتے ہیں بے غمِ قوت و ناں وہ
پہنتے نہیں جز سمور
و کتاں وہ
مکاں رکھتے ہیں رشکِ خلدِ جناں وہ
نہیں چلتے وہ بے سواری قدم بھر
نہیں رہتے بے نغمہ و
ساز دم بھر
کمر بستہ ہیں لوگ خدمت میں ان کی
گل و لالہ رہتے ہیں صحبت میں ان کی
نفاست بھری ہے
طبعیت میں ان کی
نزاکت سو داخل ہے عادت میں ان کی
دواؤں میں مشک ان کی اٹھتا ہے ڈھیروں
وہ پوشاک
میں عطر ملتے ہیں سیروں
یہ ہوسکتے ہیں ان کے ہم جنس کیونکر
نہیں چین جن کو زمانے سے دم بھر
سواری
کو گھوڑا نہ خدمت کو نوکر
نہ رہنے کو گھر اور نہ سونے کو بستر
پہننے کو کپڑا نہ کھانے کو روٹی
جو
تدبیر الٹی تو تقدیر کھوٹی
یہ پہلا سبق تھا کتاب ہُداٰ کا
کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا
وہی دوست
ہے خالقِ دوسرا کا
خلائق سے ہی جس کو رشتہ ولا کا
یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا
میں انساں کے انساں
تو پڑتی ہیں اس پر نگاہیں غضب کی
کھٹکتا ہے کانٹا سا نظروں میں سب کی
بگڑتا
ہے جب قوم میں کوئی بن کر
ابھی بخت و اقبال تھے جس کے یاور
ابھی گردیں جھکتی تھیں جس کے در پر
مگر
کردیا اب زمانے نے بے پر
تو ظاہر میں کڑھتے ہیں پر خوش ہیں جی میں
کہ ہمدرد ہات آیا اک مفلسی
میں
اگر اک جوانمرد ہمدر انساں
کرتے قوم پر دل سے جان اپنی قرباں
تو خود قوم اس پر لگائے یہ
بہتاں
کہ ہے اس کی کوئی غرض اس میں پنہاں
وگر نہ پڑی کیا کسی کو کسی کی
یہ چالیں سراسر ہیں خود
مطلبی کی
نکالے گر ان کی بھلائی کی صورت
تو ڈالیں جہاں تک بنے اس میں کھنڈت
سنیں کامیابی میں گر اس
کی شہرت
تو دل سے تراشیں کوئی تازہ تہمت
منہ اپنا ہو گو دین و دنیا میں کالا
نہ ہو ایک بھائی کا پر
بول بالا
اگر پاتے ہیں دو دلوں میں صفائی
تو ہیں ڈالتے اس میں طرح جدائی
ٹھنی دو گروہوں میں جس دم
لڑائی
تو گویا تمنا ہماری بر آئی
بس سے نہیں مشغلہ خوب کوئی
تماشا نہیں ایسا مرغوب کوئی
تغلب
میں بد نیتی میں دغا میں
نمو اور بناوٹ فریب اور ریا میں
سعایت میں بہتان میں افترا میں
کسی بزم
بیگانہ و آشنا میں
نہ پاؤ گے رسوا و بدنام ہم سے
بڑھے پھر نہ کیوں شانِ اسلام ہم سے
خوشامد میں ہم
کو وہ قدرت ہے حاصل
کہ انساں ہو ہر طرح کرتے ہیں مائل
کہیں احمقوں کو بناتے ہیں عاقل
کہیں ہوشیاروں
کو کرتے ہیں غافل
کسی کو اتارا کسی کو چڑھایا
یو نہیں سیکڑوں کو اسامی بنایا
روایات پر حاشیہ اک
چڑھانا
قسم جھوٹے وعدوں پہ سو بار کھانا
اگر مدح کرنا تو حد سے بڑھانا
مذمت پہ آنا تو طوفاں
اٹھانا
یہ ہے روزمرہ کا یاں ان کے عنواں
فصاحت میں بے مثل ہیں جو مسلماں
اسے جانتے ہیں بڑا اپنا
دشمن
ہلمارے کرے عیب جو ہم پہ روشن
نصحیت سے نفرت ہے، ناصح سے اَن بَن
سمجھتے ہیں ہم رہنماؤں کو
رہزن
یہی عیب ہے، سب کو کھویا ہے جس نے
ہمیں ناؤ بھر کر ڈبویا ہے جس نے
وہ عہدِ ہمایوں جو خیر
القروں تھا
خلافت کا جب تک کہ قائم ستوں تھا
نبوت کا سایہ ابھی رہنموں تھا
سماں خیرو برکت کا ہر
دم فزوں تھا
عدالت کے زیور سے تھے سب مزین
پھلا اور پھولا تما احمد کا گلشن
سعادت بڑی اس زمانہ کی
یہ تھی
کہ جھکتی تھی گردن نصحیت پہ سب کی
نہ کرتے تھے خود قول حق سے خموشی
نہ لگتی تھی حق کی
انہیں بات کڑوی
غلاموں سے ہو جاتے تھے بند آقا
خلیفہ سے لڑتی تھی ایک ایک بڑھیا
نبی نے کہا تھا
انہیں فخرِ امت
جنہیں خلد کی مل چکی تھی بشارت
مسلم تھی عالم میں جن کی عدالت
رہا مفتحر جن سے تختِ
خلافت
وہ پھرتے تھے راتوں کو چھپ چھپ کے دردر
وہ شرمائیں اپنا کہیں عیب سن کر
مگر ہم کہ ہیں دام و
درہم سے بہتر
نہ ظاہر کہیں ہم میں خوبی نہ مضمر
نہ اقران و امثال میں ہم موقر
نہ اجداد و اسلاف کے
ہم میں جوہر
نصحیت سے ایسا برا مانتے ہیں
کہ گویا ہم اپنے کو پہچانتے ہیں
نبوت نہ گر ختم ہوتی عرب
پر
کوئی ہم پہ مبعوث ہوتا پیمبر
تو ہے جیسے مذکورہ قرآں کے اندر
ضلالت یہود اور نصاریٰ کی اکثر
کہ شیدا تھے ان پر یہود و انصاریٰ
گواہ ان کی نرمی کا
قرآن ہے سارا
خود اَلدّینُ یُسر نبی نے پکارا
مگر یاں کیا ایسا دشوار ان کو
کہ مومن سمجھنے لگے بار
ان کو
نہ کی ان کی اخلاق میں رہنمائی
نہ باطن میں کی ان کے پیدا صفائی
پہ احکام ظاہر کے لے یہ
بڑھائی
کہ ہوتی نہیں ان سے دم بھر رہائی
وہ دیں جو کہ چشمہ تھا خلقِ نکو کا
کیا قلتیں اس کو غسل و
وضو کا
سدا اہلِ تحقیق سے دل میں بل ہے
حدیثوں پہ چلنے میں دیں کا خلل ہے
فتاووں پہ بالکل مدارِ
عمل ہے
ہر اک رائے قرآں کا نعم البدل ہے
کتاب اور سنت کا ہے نام باقی
خدا اور نبی سے نہیں کام
باقی
جہاں مختلف ہوں روایات باہم
کبھی ہوں نہ سیدھی روایت سے خوش ہم
جسے عقل رکھے نہ ہر گز مسلم
اسے ہر روایت سے سمجھیں مقدم
سب اس میں گرفتار چھوٹے بڑے ہیں
سمجھ پر ہماری یہ پتھر پڑے
ہیں
کرے غیر گربت کی پوجا تو کافر
جو ٹھرائے بیٹا خدا کا تو کافر
جھکے آگ پر بہر سجدہ تو
کافر
کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر
مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں
پرستش کریں شوق سے جس کی
چاہیں
نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں
اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں
مزاروں پہ دن رات مذریں
چڑھائیں
شہیدوں سے جاجا کے مانگیں دعائیں
نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے
نہ اسلام بگڑے نہ ایمان
جائے
وہ دیں جس سے توحید پھیلی جہاں میں
ہوا جلوہ گر حق زمین و زماں میں
رہا شرک باقی نہ وہم و
گماں میں
وہ بدلا گیا آکے ہندوستاں میں
ہمیشہ سے اسلام تھا جس پہ نازاں
وہ دولت بھی کھو بیٹھے آخر
مسلماں
تعصب کہ ہے دشمنِ نوع انساں
بھرے گھر کیے سیکڑوں جس نے ویراں
ہوئی بزمِ نمرود جس سے
پریشاں
کیا جس نے فرعون کو نذرِ طوفاں
گیا جوش میں بو لہب جس کے کھویا
ابو جہل کا جس نے بیڑا
ڈبوبا
وہ یاں اک عجب بھیس میں جلوہ گر ہے
چھپا جس کے پردے میں اس ضرر ہے
بھرا زہر جس جام میں سر
بسر ہے
وہ آبِ بقا ہم کو آتا نظر ہے
تعصب کو اک جزوِ دیں سمجھے ہیں ہم
جہنم کو خلدِ بریں سمجھے ہیں
ہم
ہمیں واعظوں نے یہ تعلیم دی ہے
کہ جو کام دینی ہے یا دنیوی بری ہے
مخالف کی ریس اس میں کرنی بری
ہے
11
نشاں غیرتِ دینِ حق کا یہی ہے
مخالف کی الٹی ہر اک بات سمجھو
وہ دن کو کہے دن تم تم رات
سمجھو
قدم گر رہِ راست پر اس کا پاؤ
تو تم سیدھے رستے سے کترا کے جاؤ
پڑیں اس میں جو وقتیں وہ
اٹھاؤ
لگیں جس قدر ٹھوکریں اس میں کھاؤ
جو نکلے جہاز اس کا بچ کر بھنور سے
تو تم ڈال دو ناؤ اندر
بھنور کے
اگر مسخ ہو جائے صورت تمہاری
بہائم میں مل جائے سیرت تمہاری
بدل جائے بالکل طبعیت
تمہاری
سراسر بگڑ جائے حالت تمہاری
تو سمجھو کہ ہے حق کی اک شان یہ بھی
ہے اک جلوئہ نورِ ایمان یہ
بھی
نہ اوضاع میں تم سے نسبت کسی کو
نہ اخلاق میں تم پہ سبقت کسی کو
نہ حاصل یہ کھانوں میں لذت
کسی کو
نہ پیدا یہ پوشش میں زینت کسی کو
تمہیں فضل ہر علم میں بر ملا ہے
تمہاری جہالت میں بھی اک
ادا ہے
کوئی چیز سمجھو نہ اپنی بری تم
رہو بات کو اپنی کرتے بڑی تم
حمایت میں ہو جب کہ اسلام کی
تم
تو ہو ہر بدی اور گنہ سے بری تم
بدی سے نہیں مومنوں کو مضرت
تمہارے گنہ اور اوروں کی
طاعت
مخالف کا اپنے اگر نام لیجے
تو ذکر اس کا ذلت سے خواری سے کیجئے
کبھی بھول کر طرح اس میں نہ
دیجے
قیامت کو دیکھو گے اس کے نتیجے
گناہوں سے ہوتے ہو گویا مبّرا
مخالف پہ کرتے ہو جب تم
تبرّا
نہ سنی میں اور جعفری میں ہو الفت
نہ نعمانی و شافعی میں ہو ملت
وہابی سے صوفی کی کم ہو نہ
نفرت
لمقلد کرے نا مقلد پہ لعنت
رہے اہلِ قبلہ مین جنگ ایسی باہم
کہ دینِ خدا پر ہنسے سارا
عالم
کرے کوئی اصلاح کا گر ارادہ
تو شیطان سے اس کو سمجھو زیادہ
جسے ایسے مفسد سے ہے
استفادہ
رہِ حق سے ہے برطرف اس کا جدہ
شریعت کو کرتے ہیں برباد دونوں
ہیں مردود شاگرد و استاد
دونوں
وہ دیں جس نے الفت کی بنیاد ڈالی
کیا طبعِ دوراِ کو نفرت سے خالی
بنایا اجانب کو جس نے
موالی
ہر اک قوم کے دل سی نفرت نکالی
عرب اور حبش ترک و تا جیک و ویلم
ہوئے سارے شیر و شکر مل کے
باہم
تعصب نے اس صاف چشمہ کو آکر
کیا بغض کے خار و خس سے مکدر
بنے خصم جو تھے عزیر اور
برادر
نفاق اہلِ قبلہ میں پھیلا سراسر
نہیں دستیاب ایسے اب دس مسلماں
کہ ہو ایک کو دیکھ کر ایک
شاداں
ہمارا یہ حق تھا کہ سب یار ہوتے
مصیبت میں یاروں کے غمخوار ہوتے
سب ایک اک کے باہم مددگار
ہوتے
عزیزوں کے غم میں دل افگار ہوتے
جب الفت میں یوں ہوتے ثابت قدم ہم
تو کہہ سکتے اپنے کو خیر
الامم ہم
اگر بھولتے ہم نہ قولِ پیمبر
کہ ” ہیں سب مسلمان باہم برادر”
برادر ہے جب تک برادر کا
یاور
معین اس کا ہے خود خداوند داور
تو آتی نہ بیڑے پہ اپنے تباہی
فقیری میں بھی کرتے ہجم
بادشاہی
وہ گھر جس میں دل ہوں ملے سب کے باہم
خوشی نا خوشی میںہوں سب یار و ہمدم
اگر ایک خوش دل تو
گھر سارا خرم
اگر ایک گمگیں تو دل سب کے پر غم
مبارک ہے اس قصر شاہنشی سے
جاہں ایک دل ہو مکدر کسی
سے
اگر ہو مدار اس پہ تحقیق دیں کا
کہ ہے دین والوں کا برتاؤں کیسا
کھرا ان کا بازار ہے یا کہ
کھوٹا
ہے قول و قرات ان جھوٹا کہ سچا
تو ایسے نمونے بہت شاذ ہیں یاں
کہ اسلام پر جن سے قائم ہو
برہاں
مجالس میں غیبت کا زور اس قدر ہے
کہ آلودہ اس خون میں ہر بشر ہے
نہ بھائی کو بھائی سے یاں
درگزر ہے
مہ ملا کو صوفی کو اس سے حذر ہے
اگر نشئہ مے ہو غیبت میں پنہاں
تو ہشیار پائے نہ کوئی
مسلماں
جنہیں چار پیسے کا مقدور ہے یاں
سمجھتے نہیں ہیں وہ انساں کو انساں
موافق نہیں جن سے ایامِ
دوراں
نہیں دیکھ سکتے کسی کو وہ شاداں
نشہ میں تکبر کے ہے چور کوئی
حسد کے مرض میں ہے رنجور
کوئی
اگر مرجعِ خلق ہے ایک بھائی
نہیں ظاہرا جس میں کوئی برائی
بھلا جس کو کہتی ہے ساری
خدائی
ہر اک دل میں عظمت ہے جس کی سمائی
نہ تھا کوئی آاق میںجن کا ثانی
زمانہ نے جن کی
فصاحت تھی مانی
مٹادی عزیزوں نے ان کی نشانی
سب ان کے ہنر اور کمالات کھوکر
رہے شاعری کو بھی آخر
ڈبو کر
ادب میں پڑی جان ان کی زباں سے
جلا دین نے پائی ان کے بیاں سے
سناں کے لیے کام انہوں نے
لساں سے
زبانوں کے کوچے تھے بڑھ کر سناں سے
ہوئے ان کے شعروں سے اخلاق صیقل
پڑی ان کے خطبوں سے
عالم میں ہلچل
خلف ان کے یاں جو کہ جادوبیاں ہیں
فصاحت میں مقبول پیرو جواں ہیں
بلاغت میں مشہور
ہندوستاں ہیں
وہ کچھ ہیں تولے دیکے اس گوں کے یاں ہیں
کہ جب شعر میں عمر ساری گنوائیں
تو بھانڈ ان
کی غزلیں مجالس میں گائیں
طوائف کو از بر ہیں دیوان ان کے
گویوں پے بے حد ہیں احسان ان کے
نکلتے
ہیں تکیوں میں ارمان ان کے
ثنا خواں ہیں ابلیس و شیطان ان کے
کہ عقلوں پہ پردے دیئے ڈال انہوں
نے
ہمیں کر دیا فارغ البال انہوں نے
شریفوں کی اولاد بے تربیت ہے
تباہ ان کی حالت بری ان کی گت
ہے
کسی کو کبوتر اڑنے کی لت ہے
کسی کو بٹیریں لڑانے کی دھت ہے
چرس اور گانجے پہ شیدا ہے
کوئی
مدک اور چنڈو کا رسیا ہے کوئی
سدا گرم انفار سے ان کی صحبت
ہر اک رند اوباش سے ان کی
ملت
پڑھے لکھوں کے سایہ سے ان کو وحشت
مدارس سے تعلیم سے ان کو نفرت
کمینوں کے جرگے میں عمریں
گنوانی
انہیں گالیاں دینی اور آپ کھانی
نہ علمی مدارس میں ہیں ان کو پاتے
نہ شائتہ جلسوں میں ہیں
آتے جاتے
پہ میلوں کی رونق ہیں جاکر بڑھاتے
پڑے پھرتے ہیں دیکھتے اور دکھاتے
کتاب اور معلم سے
پھرتے ہیں بھاگے
مگر ناچ گانے میں ہیں سب سے آگے
اگر کیجئے ان پاک شہدوں کی گنتی
ہوا جن کے پہلو سے
بچ کر ہے چلتی
ملی خاک میں جن سے عزت بڑوں کی
مٹی خاندوانوں کی جن سے بزرگی
تو یہ جس قدر خانہ
برباد ہونگے
وہ سب ان شریفوں کی اولاد ہونگے
ہوئی ان کی بچپن میں یوں پاسبانی
کہ قیدی کی جیسے کٹے
زندگانی
لگی ہونے جب کچھ سمجھ بوجھ سیانی
چڑھی بھوت کی طرح سر پر جوانی
بس اب گھر میں دشوار تھمنا
ہے ان کا
اکھاڑوں میں تکیوں میں رمنا ہے ان کا
یو نہیں جو کتاب اس پیمبر پہ آتی
وہ گمراہیاں سب ہماری جتاتی
ہنر ہم میں جو
ہیں وہ معلوم ہیں سب
علوم اور کمالات معدوم ہیں سب
چلن اور اطوار مذموم ہیں سب
فراغت سے دولت سے
محروم ہیں سب
جہالت نہیں چھوڑتی ساتھ دم بھر
تعصب نہیں بڑھنے دیتا قدم بھر
وہ تقویمِ پارینہ
یونانیوں کی
وہ حکمت کہ ہے ایک دھو کے کی ٹٹی
یقیں جس کو ٹھہرا چکا ہے نکمی
عمل نے جسے کردیا آکے
ردی
اسے وحی سے سمجھے ہیں ہم زیادہ
کوئی بات اس میں نہیں کم زیادہ
زبور اور توریت و انجیل و
قرآں
بالا جماع ہیں قابلِ نسخ و نسیاں
مگر لکھ گئے جو اصول اہلِ یوناں
نہیں نسخ و تبدیل کا ان میں
امکاں
نہیں مٹتے جب تک کہ آثار دنیا
مٹے گا کبھی کوئی شوشہ نہ ان کا
نتائج ہیں جو مغربی علم و فن
کے
وہ ہیں ہند میں جلوہ گر سو برس سے
تعصب نے لیکن یہ ڈالے ہیں پردے
کہ ہم حق کا جلوہ نہیں دیکھ
سکتے
دلوں پر ہیں نقش اہل یوناں کی رائیں
جواب وحی اترے تو ایماں نہ لائیں
اب اس فلسفہ پر جو ہیں
مرنے والے
شفا اور مجسطی کے دم بھرنے والے
ارسطو کی چوکھٹ پہ سر دھرنے والے
فلاطون کی اقتدا کرنے
ولاے
وہ تیلی کے کچھ بیل سے کم نہیں ہیں
پھرے عمر بھر اور جہاں تھے وہیں ہیں
وہ جب کرچکے ختم
تحصیلِ حکمت
بندھی سر پہ دستارِ علم و فضیلت
اگر رکھتے ہیں کچھ طبعیت میں جودت
تو ہے سب ان کی بڑی
یہ لیاقت
کہ گردن کو وہ رات کہہ دیں زباں سے
تو منواکے چھوڑیں اسے اک جہاں سے
سوا اس کے جو آئے اس
کو پڑھاویں
انہیں جو کچھ آتا ہے اس کو بتاویں
وہ سیکھے ہیں جو بولیاں سب سکھاویں
میاں مٹھو اپنا سا
اس کو بناویں
یہ لے دے کے ہے علم کا ن کے حاصل
اسی پر ہے فخر ان کو بین الاماثل
نہ سرکار میں کام
پانے کے قابل
نہ دربار میں لب ہلانے کے قابل
نہ جنگل میں ریوڑ چرانے کے قابل
نہ بازار میں بوجھ
اٹھانے کے قابل
نہ پڑھتے تو سو طرح کھاتے کما کر
وہ کھوئے گئے اور تعلیم پاکر
جو پوچھو کہ حضرت نے
جو کچھ پڑھا ہے
مراد آپ کی اس کے پڑھنے سے کیا ہے
مفاد اس میں دنیا کا یا دین کا ہے
نتیجہ کوئی یا
کہ اس کے سوا ہے
تو مجذوب کی طرح سب کچھ بکیں گے
جواب اس کا لیکن نہ کچھ دے سکیں گے
نہ حجت رسالت
پہ لاسکتے ہیں وہ
نہ اسلام کا حق جتا سکتے ہیں وہ
نہ قرآں کی عظمت دکھاسکتے ہیں وہ
نہ حق کی حقیقت
بتا سکتے ہیں وہ
دلیلیں ہیں سب آج بے کار ان کی
نہیں چلتی توپوں میں تلوار ان کی
پڑے اس مشقت میں
ہیں وہ سراپا
نتیجہ نہین ان کو معلوم جس کا
گئیں بھول آگے کی بھیڑیں جو بیٹا
اسی راہ پر پڑ لیا
سارا گلا
نہیں جانتے یہ کہ جاتے کدھر ہیں
گئے بھول رستہ وہ یا راہ پر ہیں
مثال ان کی کوشش کی ہے
صاف ایسی
کہ کھائی کہیں بندروں نے جو سردی
ادھر اور ادھر دیر تک آگ ڈھونڈی
کہیں روشنی ان کو پائی
نہ اس کی
مگر ایک جگنو چمکتا جو دیکھا
پتنگا اسے آگ کا سب نے سمجھا
لیا جاکے تھام اور سب نے اسی دم
کیا گھانس پھونس اس پہ لاکر فراہم
لگے اس کو سلگانے سب مل کے پیہم
پہ کچھ آگ سلگی نہ سردی ہوئی
کم
یو نہیں رات ساری انہوں نے گنوائی
مگر اپنی محنت کی راحت نہ پائی
گزرتے تھے جو جانور اس طرف
سے
جب اس کشمکش میں انہیں دیکھتے تھے
ملامت بہت سخت تھے ان کو کرتے
کہ شرمائیں وہ زعم باطل سے
اپنے
مگر اپنی کد سے نہ باز آتے تھے وہ
ملامت پہ اور الٹے غراتے تھے وہ
نہ سمجھے وہ جب تک ہوا دن
نہ روشن
اسی طرح جو ہیں حقیقت کے دشمن
نہ جھاڑیں گے گرد تو ہم سے دامن
پہ جب ہوگا نور سحر لمعہ
افگن
بہت جلد ہو جائے گا آشکارا
کہ جگنو کو سمجھے تھے وہ اک شرارا
وہ طب جس پہ غش ہیں ہمارے
اطباء
سمجھتے ہیں جس کو بیاضِ مسیحا
بتانے میں ہے بخل جس کے بہت سا
جسے عیب کی طرح کرتے ہیں
اخفا
فقط چند نسخوں کا ہے وہ سفینہ
چلے آئے ہیں جو کہ سینہ بسینہ
نہ ان کو نباتات سے آگہی ہے
نہ
اصلا خبر معدنیات کی ہے
نہ تشریں کی لے کسی پر کھلی ہے
نہ علمِ طبیعی نہ کیمسٹری ہے
نہ پانی کا علم
اور نہ علمِ ہوا ہے
مریضوں کا ان کے نگہباں خدا ہے
نہ قانون میں ان کے کوئی خطا ہے
نہ مخزن میں
انگشت رکھنے کی جا ہے
سیدی میں لکھا ہے جو کچھ بجا ہے
نفیسی کے ہر قول پر جاں فدا ہے
سلف لکھ گئے
جو قیاس اور گماں سے
صحیفے ہیں اترے ہوئے آسماں سے
وہ شعر اور قصائد کا ناپاک دفتر
عفونت میں سنڈاس
سے جو ہے بدتر
زمیں جس سے ہے زلزلہ میں برابر
ملک جس سے شرماتے ہیں آسماں پر
ہوا علم و دیں جس سے
تاراج سارا
وہ علموں میں علمِ ادب ہے ہمارا
برا شعر کہنے کی گر کچھ سزا ہے
عبث جھوٹ بکنا اگر
ناروا ہے
تو وہ محکمہ جس کا قاضی خدا ہے
مقر جہاں نیک و بد کی سزا ہے
گنہگار واں چھوٹ جائینگے
سارے
جہنم کو بھر دیں گے شاعر ہمارے
زمانہ میں جتنے قلی اور نفر ہیں
کمائی سے اپنی وہ سب بہرہ ور
ہیں
گویے امیروں کے نورِ نظر ہیں
ڈفالی بھی لے آتے کچھ مانگ کر ہیں
مگر اس تپِ دق میں جو مبتلا
ہیں
خدا جانے وہ کس مرض کی دواہیں
جو سقے نہ ہوں جی سے جائیں گزر سب
ہو میلا جہاں گم ہوں دھوبیھ
اگر سب
ہے دم پر اگر شہر چھوڑٰں نفر سب
جو تھڑ جائیں مہتر تو گندے ہوں گھر سب
پہ کرجائیں ہجرت جو
شاعر ہمارے
کہیں مل کے ” خس کم جہاںپاک” سارے
مبادا کہ وہ ننگِ عالم تمہیں ہو
گر اسلام کی کچھ
حمیت ہے تم کو
تو جلدی سے اٹھو اور اپنی خبر لو
وگر نہ یہ قول آئے گا راست تم پر
کہ ہونے سے ان کا
نہ ہونا ہے بہتر
رہو گے یو نہیں فارغ البال کب تک
نہ بدلو گے یہ چال اور ڈھال کب تک
رہے گی نئی پود
پامال کب تک
نہ چھوڑو گے تم بھیڑیا چال کب تک
بس اگلے فسانے فراموش کر دو
تعصب کے شعلے کو خاموش کر
دو
حکومت نے آزادیاں تم کو دی ہیں
ترقی کی راہیں سراسر کھلی ہیں
صدائیں یہ ہر سمت سے آرہی
ہیں
کہ راجا سے پرجا تلک سب سکھی ہیں
تسلط ہے ملکوں میں امن و اماں کا
نہیں بند رستہ کسی کارواں
کا
نہ بد خواہ ہے دین و ایماں کا کوئی
نہ دشمن حدیث اور قرآں کا کوئی
نہ ناقص ہے ملت کے ارکاں کا
کوئی
نہ مانع شریعت کے فرماں کا کوئی
نمازیں پڑھو بے خطر معبدوں میں
اذانیں دھڑلے سے دو مسجدوں
میں
کھلی ہیں سفر اور تجارت کی راہیں
نہیں بند صنعت کی حرفت کی راہیں
جو روشن ہیں تحصیلِ حکمت کی
راہیں
تو ہموار ہیں کسبِ دولت کی راہیں
نہ گھر غنیم اور دشمن کا کھٹکا
نہ باہر ہے قزاق و رہزن کا
کھٹکا
مہینوں کے کٹتے ہیں رستے پلوں میں
گھروں سے سوا چین ہے منزلوں میں
ہر اک گوشہ گلزار ہے
جنگلوں میں
شب و روز ہے ایمنی قافلوں میں
سفر جو کھی تھا نمونہ سقر کا
وسیلہ ہے وہ اب سراسر ظفر
کا
پہنچتی ہیں ملکوں میں دم دم کی خبریں
چلی آتی ہیں شادی و غم کی خبریں
عیاں ہیں ہر اک بر اعظم کی
خبریں
کھلی ہیں زمانہ پہ عالم کی خبریں
نہیں واقعہ کوئی پنہاں کہیں کا
ہے آئینہ احوالِ روئے زمیں
کا
کرو قدر اس امن و آزادگی کی
کہ ہے صاف ہر سمت راہِ ترقی
ہر اک راہ رو کا زمانہ ہے ساتھی
یہ
ہر سو سے آوازِ پیہم ہے آتی
کہ دشمن کا کھٹکانہ رہزن کا ڈر سے
نکل جاؤ رستہ ابھی بے خطر ہے
بہت
قافلے دیر سے جارہے ہیں
بہت بوجھ بار اپنے لدوا رہے ہیں
بہت چل چلاؤ میں گھبرا رہے ہیں
بہت سے نہ
چلنے سے پچتا رہے ہیں
مگر اک تمہیں ہو کہ سوتے ہو غافل
مبادا کہ غفلت میں کھوٹی ہو منزل
نہ بد خواہ
سمجھو بس اب یاروں کو
لٹیرے نہ ٹھراؤ تم رہبروں کو
دو الزام پیچھے نصحیت گروں کو
ٹٹولو ذرا پہلے
اپنے گھروں کو
کہ خالی ہیں یا پر ذخیرے تمہارے
برے ہیں کہ اچھے و تیر تمارے
امیروں کی تم سن چلے
داستاں سب
چلن ہو چکے عالموں کے بیاں سب
شریفوں کی حالت ہے، تم پر عیاں سب
بگڑنے کو تیار بیٹھے ہیں
یاں سب
یہ بوسیدہ گھر اب گرا کا گرا ہے
ستوں مرکزِ ثقل سے ہٹ چکا ہے
یہ جو کچھ ہوا ایک شمّہ ہے اس
کا
کہ جو وقت یاروں پہ ہے آنے والا
زمانہ نے اونچے سے جس کو گرایا
وہ آخر کو مٹی میں مل کر رہے
گا
نہیں گرچہ کچھ قوم میں حال باقی
ابھی اور ہونا ہے پامال باقی
یہاں ہر ترقی کی غایت یہی ہے
سر
انجام ہر قوم و ملت یہی ہے
سدا سے زمانہ کی عادت یہی ہے
طلسمِ جہاں کی حقیقت یہی ہے
بہت یاں ہوئے
خشک چشمے ابل کر
بہت باغ چھانٹے گئے پھول پھل کر
کہاں ہیں وہ اہرامِ مصری کے بانی
کہاں ہیں وہ
گردانِ زابلستانی
گئے پیشدادی کدھر اور کیانی
مٹاکر رہی سب کو دنیائے فانی
لگاؤ کہیں کھوج کلدانیوں
کا
بتاؤ نشاں کوئی ساسانیوں کا
وہی ایک ہے جس کو دایم بقا ہے
جہاں کی وراثت اسی کو سزا ہے
سوا
اس کے انجام سب کا فنا ہے
نہ کوئی رہے گا نہ کوئی رہا ہے
مسافر یہاں ہیں فقیر اور غنی سب
غلام اور
آزاد ہیں رفتنی سب
نشہ میں مئے عشق کے چور ہیں وہ
صفِ فوجِ مژگاں میں محصور ہیں وہ
غمِ چشم و
ابرو میں رنجور ہیں وہ
بہت ہات سے دل کے مجبور ہیں وہ
کریں کیا کہ ہے عشق طینت میں ان کی
حرارت
بھری ہے طبعیت میں ان کی
اگر شش جہت میں کوئی دلربا ہے
تو دل ان کا نادیدہ اس پر فدا ہے
اگر خواب
میں کچھ نظر آگیا ہے
تو یاد اس کی دن رات نامِ خدا ہے
بھری سب کی وحشت سے روداد ہے یاں
جسے دیکھئے
قیس و فرہاد ہے یاں
اگر ماں ہے دکھیان تو ان کی بلا سے
اپاہج ہے باوا تو ان کی بلا سے
جو ہے گھر
میں فاقہ ان کی بلہ سے
جو مرتا ہے کنبا تو ان کی بلا سے
جنہوں نے لگائی ہو لو دلربا سے
غرض پھر
انہیں کیا رہی ماسوا سے
نہ گالی سے دشنام سے جی چرائیں
نہ جوتی سے پیزار سے ہچکچائیں
جو میلوں میں
جائیں تو لچپن دکھائیں
جو محفل میں بیٹھیں تو فتنے اٹھائیں
لرزتے ہیں اوباش ان کی ہنسی سے
گریزاں
ہیں رندان کی ہمسائگی
سپوتوں کو اپنے اگر بیاہ دیجے
تو بہوؤں کا بوجھ اپنی گردن پہ لیجے
جو بیٹی کے
پیوند کی فکر کیجئے
تو بد راہ ہیں بھانجے اور بھتیجے
یہی جھینکنا کو بہ کو گھر بہ گھر ہے
بہو کو
ٹھکانہ نہ بیٹی کو بر ہے
نہ مطلب نگاری کا ان کو سلیقہ
نہ دربار داری کا ان کو سلیقہ
نہ امید واری
کا ان کو سلیقہ
نہ خدمت گزاری کا ان کو سلیقہ
قلی یا نفر ہو تو کچھ کام آئے
مگر ان کو کس مد میں
کوئی کھپائے
نہیں ملتی روٹی جنہیں پیٹ بھر کے
وہ گزرا ان کرتے ہیں سو عیب کرکے
جو ہیں ان میں
دوچار آسودہ گھر کے
وہ دن رات خواہاں ہین مرگِ پدر کے
نمونے یہ اعیان و اشراف کے ہیں
سلف ان کے وہ
تھے خلف ان کے یہ ہیں
وہ اسلام کی پود شاید یہی ہے
کہ جس کی طرف آنکھ سب کی لگی ہے
بہت جس سے آئندہ
چشمِ بہی ہے
بقا منحصر جس پہ اسلام کی ہے
یہی جان ڈالے گی باغِ کہن میں؟
اسی سے بہار آئے گی اس چمن
میں؟
یہی ہیں وہ نسلیں مبارک ہماری؟
کہ بخشیں گی جو دین کو استواری؟
کریں گی یہی قوم کی غم
گساری؟
انہیں پر امیدیں ہیں موقوف ساری؟
یہی شمعِ اسلام روشن کریں گی؟
بڑوں کا یہی نام روشن کریں
گی؟
خلف ان کے الحق اگر یاں یہی ہیں
سلف کے اگر فاتحہ خواں یہی ہیں
اگر یاد گارِ عزیزاں یہی
ہیں
اگر نسلِ اشراف و اعیاں یہی ہیں
تو یاد اس قدر ان کی رہ جائے گی یاں
کہ اک قوم رہتی تھی اس نام
کی یاں
سمجھتے ہیں شائستہ جو آپ کو یاں
ہیں آزادئی رائے پر جو کہ نازاں
چلن پر ہیں جو قوم کے اپنی
خنداں
مسلماں ہیں سب جن کے نزدیک ناداں
جو ڈھونڈو گے یاروں کے ہمدرد ان میں
تو نکلیں گے تھوڑے
جوانمرد ان میں
نہ رنج ان کے افلاس کا ان کو اصلا
نہ فکر ان کی تعلیم اور تربیت کا
نہ کوشش کہ ہمت
نہ دینے کو پیسا
اڑانا مگر مفت ایک اک کا خاکا
کہیں ان کی پوشاک پر طعن کرنا
کہیں ان کی خوراک کو
نام دھرنا
عزیزوں کی جس بات میں عیب پانا
نشانہ اسے پھبتیوں کا بنانا
شماتت سے دل بھائیوں کا
دکھانا
یگانوں کو بیگانہ بن کر چڑانا
نہ کچھ درد کی چوٹ ان کے جگر میں
نہ قطرہ کوئی خون کا چشمِ تر
میں
جہاز ایک گرداب میں پھنس رہا ہے
پڑا جس سے جوکھوں میں چھوٹا بڑا ہے
نکلنے کا رستہ نہ بچنے کی
جا ہے
کوئی ان میں سوتا کوئی جاگتا ہے
جو سوتے ہیں وہ مست خواب گراں ہیں
جو بیدار ہیں ان پہ خندہ
زناں ہیں
کوئی ان سے پوچھے کہ اے ہوش والو
کس امید پر تم کھڑے ہنس رہے ہو
برا وقت بیڑے پہ آنے کو
ہے جو
نہ چھوڑے گا سوتوں کو اور جاگتوں کو
بچو گے نہ تم اور نہ ساتھی تمہارے
اگر ناؤ ڈوبی تو ڈوبیں
گے سارے
غرض عیب کیجئے بیاں اپنا کیا کیا
کہ بگڑا ہوا یاں ہے آوے کا آوا
فقیر اور جاہل ضعیف اور
توانا
تاسف کے قابل ہے احوال سب کا
مریض ایسے مایوس دنیا میں کم ہیں
بگڑ کر کبھی جو نہ سنبھلیں وہ
ہم میں
کسی نے یہ اک مردِ دانا سے پوچھا
کہ ” نعمت ہے دنیا میں سب سے بڑی کیا؟”
کہا” عقل جس سے
ملے دین و دنیا”
کہا ” گر نہ ہو اس سے انساں کو بہرا”
کہا ” پھر اہم سب سے علم و ہنر ہے
کہ جو
باعثِ افتخارِ بشر ہے”
کہا ” گر نہ ہو یہ بھی اس کو میسر”
کہا” مال و دولت ہے، پھر سب سے بڑھ
کر”
کہا” در ہو یہ بھی اگر بند اس پر”
کہا” اس پہ بجلی کا گرنا ہے بہتر”
وہ ننگِ بشر تاکہ ذلت سے
چھوٹے
خلائق سب اس کی نحوست سے چھوٹے”
Share this:
- Click to share on Facebook (Opens in new window)
- Click to share on Twitter (Opens in new window)
- Click to share on Reddit (Opens in new window)
- Click to share on Tumblr (Opens in new window)
- Click to share on Pinterest (Opens in new window)
- Click to share on Telegram (Opens in new window)
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window)
- Click to email a link to a friend (Opens in new window)
- Click to print (Opens in new window)
Discover more from احمدیت حقیقی اسلام
Subscribe to get the latest posts sent to your email.