Search
Close this search box.

حضرت عیسٰی مسیح ابن مریم علیہ السلام کی توہین کے الزام ک جوب

فہرست مضامین

Ahmady.org default featured image

توہینِ عیسیٰ علیہ السلام کا الزام

راشد علی اور اس کے پیر سید عبدالحفیظ نے ’’ قادیانی اخلاق ‘‘ کے عنوان کے تحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان کے مقام سے گرانے کا الزام لگایا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ آپ نے عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ میں یہ لکھا ہے کہ

’’ مسیح کا چال چلن کیا تھا ۔ ایک کھاؤ پیو یا شرابی ، نہ زاہد نہ عابد، نہ حق کا پرستار ، متکبّر ، خود بین ، خدائی کا دعویٰ کرنے والا۔ ‘‘ (مکتوبات احمدیہ جلد ۳)

’’ ہاں آپ کو (عیسیٰ علیہ السلام ) کو گالیاں دینے اور بدزبانی کرنے کی اکثر عادت تھی ۔ ادنیٰ ادنیٰ باتوں میں اکثر غصہ آجاتا۔ اپنے نفس کو جذبات سے روک نہیں سکتے تھے۔ ‘‘(انجام آتھم ۔روحانی خزائن جلد ۱۱صفحہ ۲۸۹حاشیہ )

دوسری فرار کی راہ :۔

’’ عیسائیوں نے بہت سے معجزات آپ کے لکھے ہیں مگر حق یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہیں ہوا۔ ‘‘ (انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱۱صفحہ ۲۹۰حاشیہ )

’’ یہ معجزہ (پرندے بنا کر اڑانا جیسا کہ قرآن پاک میں لکھا ہے ) صرف ایک کھیل کی قسم میں سے تھا۔ ‘‘ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳صفحہ ۲۶۰)

’’ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات عمل الترب یعنی مسمریزم کا نتیجہ تھے۔ مگر یاد رکھنا چاہئے کہ یہ عمل ایسا قدر کے لائق نہیں جیسا کہ عوام الناس اس کو خیال کرتے ہیں اگر یہ عاجز اس عمل کو مکروہ اور قابل نفرت نہ سمجھتا توخدائے تعالیٰ کے فضل وتوفیق سے امید قوی رکھتا تھا کہ ان عجوبہ نمائیوں میں حضرت مسیح ابن مریم سے کم نہ رہتا۔ ‘‘(ازالہ اوہام ۔روحانی خزائن جلد ۳صفحہ ۲۵۷ ، ۲۵۸)

’’ آپ کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے ۔ تین دادیاں اور نانیاں آپکی زناکار اور کسبی عورتیں تھیں جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا۔ ۔۔۔آپ کا کنجریوں سے میلان اور صحبت بھی شاید اسی وجہ سے ہو کہ جدی مناسبت درمیان ہے۔ ‘‘(انجام آتھم ۔روحانی خزائن جلد۱۱صفحہ ۲۹۰)

یہ تحریریں راشد علی اور اس کے پیر نے اپنے الزام کے ثبوت کے طور پر پیش کی ہیں۔ آئندہ سطور میں یہ ثابت کیا جائے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان مذکورہ بالا تحریروں میں حضرت مسیح عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کی ہرگز کوئی توہین نہیں کی اور نہ ان کو ان کے مقام سے گرایا ہے ۔راشد علی، اس کا پیر اور اسی قماش کی شرّ من تحت ادیم السماء مخلوق ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا گہری عیّار نظر سے مطالعہ کرتے ہیں۔ ان کی نظر سے وہ تحریریں بھی گذرتی ہیں جن سے قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ ۔

۱۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایسی تحریریں اپنے محبوب آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ناموس کی حفاظت کی خاطر غیرت میں ڈوب کر لکھی ہیں۔ آپ ؑ نے یہ تحریریں چالیس سال کے صبر کے بعد ایسی بے بسی کی حالت میں مجبور ہو کر لکھی ہیں کہ آپ کے لئے پھر خاموش رہنا ناممکن تھا۔ اس کی تفصیل آپ ؑ نے انہیں تحریروں کے اردگرد بیان فرمائی ہے جہاں سے یہ محبت رسول ﷺ کے جھوٹے دعویدار درمیان سے عبارتیں اچک کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراض کے تیر چلاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی درج ذیل تحریریں اس تفصیل کے بیان کے لئے پیش ہیں۔ آپ فرماتے ہیں۔

’’ بالآخر ہم لکھتے ہیں کہ ہمیں پادریوں کے یسوع اور اس کے چال چلن سے کچھ غرض نہ تھی۔ انہوں نے ناحق ہمارے نبی ﷺ کو گالیاں دے کر ہمیں آمادہ کیا کہ ان کے یسوع کا کچھ تھوڑا سا حال ان پر ظاہر کریں۔ چنانچہ اسی پلید نالائق فتح مسیح نے اپنے خط میں جو میرے نام بھیجا ہے۔ آنحضرت ﷺ کو زانی لکھا ہے اور اس کے علاوہ اور بہت گالیاں دی ہیں۔ پس اسی طرح اس مردار اور خبیث فرقہ نے جو مردہ پرست ہے ہمیں اس بات کے لئے مجبور کر دیا ہے کہ ہم بھی ان کے یسوع کے کسی قدر حالات لکھیں۔ اور مسلمانوں کو واضح رہے کہ خدا تعالیٰ نے یسوع کی قرآن شریف میں کچھ خبر نہیں دی کہ وہ کون تھا۔ اور پادری اس بات کے قائل ہیں کہ یسوع وہ شخص تھا ۔ جس نے خدائی کا دعویٰ کیا اور حضرت موسیٰ کا نام ڈاکو اور بٹمار رکھا۔ اور آنے والے مقدس نبی کے وجود سے انکار کیا اور کہا کہ میرے بعد سب جھوٹے نبی آئیں گے۔ پس ہم ایسے ناپاک خیال اور متکبر اور راستبازوں کے دشمن کو ایک بھلا مانس آدمی بھی قرار نہیں دے سکتے۔ چہ جائیکہ اس کو نبی قرار دیں نادان پادریوں کو چاہئے کہ بد زبانی اور گالیوں کا طریق چھوڑ دیں۔ ورنہ نامعلوم خدا کی غیرت کیا کیا ان کو دکھلائے گی۔‘‘(ضمیمہ انجام آتھم ۔روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۲۹۲ ، ۲۹۳حاشیہ)

فرمایا :۔

’’ ہمارے پاس پادریوں کی کتابوں کا ایک ذخیرہ ہے جنہوں نے اپنی عبارت کو صدہا گالیوں سے بھر دیا ہے جس مولوی کی خواہش ہو وہ آکر دیکھ لے۔ ‘‘(تبلیغ رسالت جلد چہارم صفحہ ۶۵ ، ۶۶)

ایسی کتابیں اب بھی دنیا کی لائبریریوں میں محفوظ ہیں اگر راشد علی اور اس کا پیر بھی انہیں دیکھنا چاہتے ہیں تو دیکھ لیں۔ ان کی راہنمائی کے لئے چند کتابوں کے نام درج ذیل ہیں۔

ہدایۃ المسلمین از پادری عمادالدین اوراس کے علاوہ(۱)دافع البہتان مصنفہ پادری رانکلین ۔ (۲) رسالہ مسیح الدجال مصنفہ ماسٹر رام چندر عیسائی۔ (۳) سیرت المسیح والمحمد مصنفہ پادری ٹھاکر داس ۔ (۴) اندرونہ بائیبل مصنفہ ڈپٹی عبداللہ آتھم۔ (۵) کتاب محمد کی تواریخ کا اجمال ۔ مصنفہ پادری ولیم ۔ (۶) ریویو براہین احمدیہ مصنفہ پادری ٹھاکر داس ۔ (۷)سوانح عمری محمد صاحب ۔ مصنفہ اورنگ واشنگٹن ۔ (۸)اخبار نور افشاں ۔ امریکن مشن پریس لودھیانہ ۔ (۹)تفتیش الاسلام مصنفہ پادری راجرس ۔ (۱۰)نبی معصوم ۔ مطبوعہ امریکن پریس لودھیانہ ۔ وغیرہ وغیرہ

الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کارروائی اپنے محبوب آقا ﷺ کی غیرت میں تلملا کر مجبوراً کی ۔ اس زمانہ میں عیسائیوں نے امام المطہّرین ، افضل المعصومین سیّد الاوّلین والآخرین ، حبیبِ خدا حضرت احمد مجتبیٰ محمّد مصطفی ﷺ کی ذاتِ مقدّس پر نہایت دریدہ دہانی سے زبان طعن دراز کرکے گندے سے گندے حملے کئے ، ناپاک سے ناپاک الزام دیا ، کوئی برائی نہیں جو آپ ؐ کی طرف منسوب نہیں کی اور کوئی گندی گالی نہیں جو آپ ؐ کو نہ دی ہو۔ ان کے اس گندے حربے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کاری ضرب لگائی اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ

’’ اگر پادری اب بھی اپنی پالیسی بدل دیں اور عہد کر لیں کہ آئندہ ہمارے نبی ﷺ کو گالیاں نہیں نکالیں گے تو ہم بھی عہد کریں گے کہ آئندہ نرم الفاظ کے ساتھ ان سے گفتگو ہو گی۔ ورنہ جو کچھ کہیں گے اس کا جواب سنیں گے۔ ‘‘(ضمیمہ انجام آتھم ۔ روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۲۹۲ حاشیہ در حاشیہ )

۲۔ جیسا کہ اوپر اجمالاً ذکر گذر چکا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس ذات کو عیسائیوں کے حملے روکنے کے لئے ڈھال بنایا وہ اناجیل کا یسوع اور اناجیل کا مسیح تھا ۔ جس پر عیسائیوں کے مسلمات کے مطابق اور انہیں کی اناجیل کے مطابق ایسے اعتراض اٹھتے ہیں جو براہِ راست رسولِ خدا حضرت محمّد مصطفی ﷺ پر ان کے حملوں کا جواب ہیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس یسوع کو زیر بحث لائے جو عیسائیوں کا یسوع اور اناجیل کا مسیح ہے جس کا قرآن کریم میں بیان شدہ حقیقی عیسیٰ مسیح ابن مریم سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں۔ اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وضاحتیں ملاحظہ فرمائیں۔ آپ نے فرمایا۔

حضرت مرزا صاحب نے ایک اشتہار مورخہ ۲۰دسمبر ۱۸۹۵ء کو شائع کیا جس میں یہ وضاحت فرمائی :۔

i۔ ’’ ہم نے اپنی کلام میں ہر جگہ عیسائیوں کا فرضی یسوع مراد لیا ہے اور خدا تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ عیسیٰ ابن مریم جو نبی تھا جس کا ذکر قرآن میں ہے وہ ہمارے درشت مخاطبات میں ہرگز مراد نہیں اور یہ طریق ہم نے برابر چالیس برس تک پادری صاحبوں کی گالیاں سن کر اختیار کیا ہے ۔ بعض نادان مولوی جن کو اندھے اور نابینا کہنا چاہئے۔ عیسائیوں کو معذور رکھتے ہیں کہ وہ بے چارے کچھ بھی منہ سے نہیں بولتے اور آنحضرت ﷺ کی کچھ بے ادبی نہیں کرتے۔ لیکن یاد رہے کہ درحقیقت پادری صاحبان تحقیر اور توہین اور گالیاں دینے میں اول نمبر پر ہیں۔ ہمارے پاس ایسے پادریوں کی کتابوں کا ایک ذخیرہ ہے جنہوں نے اپنی عبارات کو صدہا گالیوں سے بھر دیا ہے جس مولوی کی خواہش ہو وہ آکر دیکھ لیوے اور یاد رہے کہ آئندہ جو پادری صاحب گالی دینے کے طریق کو چھوڑ کر ادب سے کلام کریں گے ہم بھی ان کے ساتھ ادب سے پیش آویں گے اب تو وہ اپنے یسوع پر آپ حملہ کر رہے ہیں۔ کہ کسی طرح سبّ وشتم سے باز ہی نہیں آتے ہم سنتے سنتے تھک گئے۔ ‘‘ (نور القرآن ۔ روحانی خزائن جلد ۹صفحہ ۳۷۴ ، ۳۷۵)

فرمایا :۔

ii۔ ’’ ہمیں پادریوں کے یسوع اور اس کے چال چلن سے کچھ غرض نہ تھی ۔ انہوں نے ناحق ہمارے نبی ﷺ کو گالیاں دے کر ہمیں آمادہ کیا کہ ان کے یسوع کا کچھ تھوڑا سا حال ان پر ظاہر کریں ۔۔۔۔۔۔ اور مسلمانوں کو واضح رہے کہ خدا تعالیٰ نے یسوع کی قرآن شریف میں کچھ خبر نہیں دی کہ وہ کون تھا ۔ اور پادری اس بات کے قائل ہیں کہ یسوع وہ شخص تھا جس نے خدائی کا دعویٰ کیا۔ الخ ‘‘( ضمیمہ انجام آتھم ۔ روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۲۹۲ ، ۲۹۳ حاشیہ )

iii۔ ’’ اسی طرح اشتہار’’ قابل توجہ ناظرین‘‘ میں فرماتے ہیں :۔

’’ اس بات کو ناظرین یاد رکھیں کہ عیسائی مذہب کے ذکر میں ہمیں اس طرز سے کلام کرنا ضروری تھا۔ جیسا کہ وہ ہمارے مقابل پر کرتے ہیں۔ عیسائی لوگ درحقیقت ہمارے اس عیسیٰ علیہ السلام کو نہیں مانتے جو اپنے تئیں صرف بندہ اور نبی کہتے تھے اور پہلے نبیوں کو راستباز جانتے تھے اور آنے والے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ پر سچے دل سے ایمان رکھتے تھے۔ اور آنحضرت ﷺ کے بارے میں پیشگوئی کی تھی ۔ بلکہ ایک شخص یسوع نام کو مانتے ہیں جس کا قرآن میں ذکر نہیں اور کہتے ہیں کہ اس شخص نے خدائی کا دعویٰ کیا ۔ اور پہلے نبیوں کو بٹمار وغیرہ ناموں سے یاد کرتا تھا ۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ شخص ہمارے نبی ﷺ کا سخت مکذب تھا ۔ اور اس نے یہ بھی پیشگوئی کی تھی کہ میرے بعد سب جھوٹے ہی آئیں گے ۔ سو آپ لوگ خوب جانتے ہیں کہ قرآن شریف نے ایسے شخص پر ایمان لانے کے لئے ہمیں تعلیم نہیں دی بلکہ ایسے لوگوں کے حق میں صاف فرما دیا ہے کہ اگر کوئی انسان ہو کر خدائی کا دعویٰ کرے تو ہم اس کو جہنم میں ڈالیں گے۔ اسی سبب سے ہم نے عیسائیوں کے یسوع کے ذکر کرنے کے وقت اس ادب کا لحاظ نہیں رکھا جو سچے آدمی کی نسبت رکھنا چاہئے۔ ۔۔۔۔۔۔ پڑھنے والوں کو چاہئے کہ ہمارے بعض سخت الفاظ کا مصداق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نہ سمجھ لیں۔ بلکہ وہ کلمات اس یسوع کی نسبت لکھے گئے ہیں جس کا قرآن وحدیث میں نام ونشان نہیں۔ ‘‘(مجموعہ اشتہارات ۔ جلد۲صفحہ ۲۹۵ ، ۲۹۶ )

iv۔ اور پادری فتح مسیح کو جس نے آنحضرت ﷺ کے متعلق حد درجہ ناپاک اتہام لگائے تھے مخاطب کر کے فرماتے ہیں :۔

’’ ہم کسی عدالت کی طرف رجوع نہیں کرتے اور نہ کریں گے۔ مگر آئندہ کے لئے سمجھاتے ہیں کہ ایسی ناپاک باتوں سے باز آجاؤ اور خدا سے ڈرو جس کی طرف پھرنا ہے۔ اور حضرت مسیحؑ کو بھی گالیاں مت دو ۔ یقیناًجو کچھ تم جناب مقدس نبوی ؐ کی نسبت برا کہو گے وہی تمہارے فرضی مسیح کو کہا جائے گا ۔ مگر ہم اس سچے مسیح کو مقدس اور بزرگ اور پاک جانتے اور مانتے ہیں جس نے نہ خدائی کا دعویٰ کیا نہ بیٹا ہونے کا اور جناب محمد مصطفی احمد مجتبیٰ ﷺ کے آنے کی خبر دی اور ان پر ایمان لایا۔ ‘‘(نور القرآن نمبر ۲۔روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۳۹۵ )

فرمایا :۔

v۔ ’’ حضرت مسیحؑ کے حق میں کوئی بے ادبی کا کلمہ میرے منہ سے نہیں نکلا یہ سب مخالفوں کا افتراء ہے۔ ہاں چونکہ درحقیقت کوئی ایسا یسوع مسیح نہیں گذرا جس نے خدائی کا دعویٰ کیا ہو اور آنے والے نبی خاتم الانبیاء کو جھوٹا قرار دیا ہو اور حضرت موسیٰ کو ڈاکو کہا ہو ۔ اس لئے میں نے فرض محال کے طور پر اس کی نسبت ضرور بیان کیا ہے کہ ایسا مسیح جس کے یہ کلمات ہوں راستباز نہیں ٹھہر سکتا۔ لیکن ہمارا مسیح ابن مریم جو اپنے تئیں بندہ اور رسول کہلاتا ہے اور خاتم الانبیاء کا مصدِّق ہے اس پر ہم ایمان لاتے ہیں۔ ‘‘ (تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۳۰۵ حاشیہ )

ان تحریروں سے حسب ذیل امور بڑی وضاحت کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔

۱۔ پادریوں کی طرف سے آنحضرت ﷺ پر مسلسل چالیس سال تک ناپاک حملے کئے گئے، گالیاں دی گئیں حتیٰ کہ زنا کی تہمت لگائی گئی اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الزامی رنگ میں کارروائی کی ۔

۲۔ آپ ؑ نے جو کچھ لکھا وہ پادریوں کے یسوع کی بابت لکھا۔

۳۔ آپ ؑ نے جو کچھ لکھا اس یسوع یا مسیح کے متعلق لکھا جس کی قرآن کریم نے کوئی خبر نہیں دی کہ وہ کون تھا۔

۴۔ آپ ؑ نے جو کچھ لکھا وہ اس یسوع یا مسیح کے لئے تھا جس کی بابت پادری کہتے ہیں کہ وہ خدائی کا دعویٰ کرتا تھا ،حضرت موسیٰ ؑ کا نام نعوذ باللہ بٹ مار رکھتا تھا اور یہ کہہ کر کہ میرے بعد سب جھوٹے نبی آئیں گے حضرت نبی اکرم ﷺ کی بھی تکذیب کرتا تھا۔ آپ ؑ نے پادریوں کے مسلّمات کے لحاظ سے ان کی خیالی و وہمی تصویر کے متعلق لکھا جس کا آپ ؑ کے نزدیک خارج میں کوئی وجود نہیں تھا۔

ان مذکورہ بالا امور میں سے جو بات بھی لے لی جائے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر توہین عیسیٰ علیہ السلام کے الزام کو ردّ کرتی ہے۔

تعجب تو اس بات پر ہے کہ باوجود اس کے کہ یہ سب تحریریں راشد علی اور اس کے پیر نے ضرور کھنگالی ہیں اور باوجود اس کے کہ مسلمان کہلاتے ہیں ، بڑے ہی بے غیرت ہو کر عیسائیوں کی زبان سے ہمارے آقا ومولیٰ رسول اللہ ﷺ کی ہر توہین اور تذلیل کو برداشت کرتے ہیں ۔ آپ ؐ پر زنا کی تہمت کو بھی گوارا کر لیتے ہیں اور آپ کے لئے ہر گالی برداشت کر لیتے ہیں مگر پادریوں کے فرضی یسوع کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کر سکتے اور اس کے لئے تو ایسی غیرت ظاہر کرتے ہیں کہ پادری بھی شرما جائیں۔

ان کی ہمدردیاں اور ان کی غیرتیں جب عیسائیوں کے لئے بھڑکتی ہیں تو عیسائی ہی کیوں نہیں ہو جاتے۔ انہیں پادری عبداللہ آتھم سے محبت ہے ، ڈاکٹر ڈوئی کا بدلہ لینے کے لئے ان کی کچلیاں نکل نکل پڑتی ہیں اور رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دینے والوں اور قرآن کریم کی توہین کرنے والوں پر بھیجی ہوئی ہزار لعنت ان کو چبھتی ہے تو پھر محمّد رسول اللہ ﷺ سے وابستگی کا دعویٰ کیسا ؟ اسلام کا خول کیوں چڑھایا ہوا ہے ؟؟

’’ہمارا مسیح ابنِ مریم‘‘

حضرت عیسیٰ علیہ السلام جن کا ذکر قرآن کریم میں ہے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ’’ ہمارا مسیح ابن مریم ‘‘ لکھا ہے اور’’ اپنا بھائی ‘‘کہا ہے اور خود کو ’’ان کا مثیل‘‘ قرار دیا ہے ۔ اس مسیح علیہ السلام کی آپ ؑ نے تکریم وتعظیم فرمائی ہے ۔ آپ ؑ نے اس سچے مسیح عیسیٰ ابن مریم کی توہین کے الزام کو بار بار رد فرمایا ہے ۔ آپ نے فرمایا

۱۔ ’’ ہم لوگ جس حالت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا سچا نبی اور نیک اور راستباز مانتے ہیں تو پھر کیونکر ہمارے قلم سے ان کی شان میں سخت الفاظ نکل سکتے ہیں۔ ‘‘ (کتاب البریہ۔ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۱۱۹)

۲۔ ’’ ہم اس بات کے لئے بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا سچا اور پاک اور راستباز نبی مانیں اور ان کی نبوت پر ایمان لاویں۔ سو ہماری کسی کتاب میں کوئی ایسا لفظ بھی نہیں ہے جو ان کی شان بزرگ کے برخلاف ہو۔ اور اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ دھوکہ کھانے والا اور جھوٹا ہے۔ ‘‘(ایام الصلح ٹائیٹل پیج۔ روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۲۲۸)

۳۔ ’’ مسیح خدا کے نہایت پیارے اور نیک بندوں میں سے ہے اور ان میں سے ہے جو خدا کے برگزیدہ لوگ ہیں اور ان میں سے ہے جن کو خدا اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنے نور کے سایہ کے نیچے رکھتا ہے لیکن جیسا کہ گمان کیا گیا ہے خدا نہیں ہے ۔ ہاں خدا سے واصل ہے اور ان کاملوں میں سے ہے جو تھوڑے ہیں ۔ ‘‘ (تحفہ قیصریہ ، روحانی خزائن جلد۱۲صفحہ۲۷۲)

۴۔ ’’ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا تعالیٰ کے ایک بزرگ نبی ہیں اور بلاشبہ عیسیٰ مسیح خدا کا پیارا ،خدا کا برگزیدہ اور دنیا کا نور اور ہدایت کا آفتاب اور جناب الہی کا مقرّب اور اس کے تخت کے نزدیک مقام رکھتا ہے اور کروڑہا انسان جو اس سے سچّی محبت رکھتے ہیں اور اس کی وصیتوں پر چلتے ہیں اور اس کی ہدایات کے کاربند ہیں وہ جہنم سے نجات پائیں گے۔ ‘‘(ضمیمہ رسالہ گورنمنٹ انگریزی اور جہاد ۔روحانی خزائن جلد نمبر ۱۷صفحہ ۲۶)

۵۔ ’’ میں اس کو اپنا ایک بھائی سمجھتا ہوں اور میں نے اسے بارہا دیکھا ہے ایک بار میں نے اور مسیح نے ایک ہی پیالہ میں گائے کا گوشت کھایا تھا۔ اس لئے میں اور وہ ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے ہیں۔ ‘‘(ملفوظات جلد ۳صفحہ ۳۳۰ )

۶۔ ’’ میں نے بارہا عیسیٰ علیہ السلام کوخواب میں دیکھا اور بارہا کشفی حالت میں ملاقات ہوئی۔ اور ایک ہی خوان میں میرے ساتھ اس نے کھایا اور ایک دفعہ میں نے اس کو دیکھا او راس فتنہ کے بارے میں پوچھا جس میں اس کی قوم مبتلا ہو گئی ہے۔ پس اس پر دہشت غالب ہو گئی اور خدا تعالیٰ کی عظمت کا اس نے ذکر کیا اور اس کی تسبیح اور تقدیس میں لگ گیا اور زمین کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ میں تو صرف خاکی ہوں اور ان تہمتوں سے بری ہوں جو مجھ پر لگائی جاتی ہیں۔ پس میں نے اس کو ایک متواضع اور کسر نفسی کرنے والا آدمی پایا۔‘‘(نور الحق حصہ اول ۔روحانی خزائن جلد۸صفحہ ۵۶ ،۵۷)

۷۔ ’’ انّا نکرم المسیح ونعلم انّہ کان تقیّاً ومن الانبیاء الکرام ‘‘ (البلاغ فریاد درد ۔ روحانی خزائن جلد ۱۳صفحہ ۴۵۱ حاشیہ )

ترجمہ ۔ ہم یقیناًمسیح علیہ السلام کی تکریم وتعظیم کرتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ وہ پاکباز تقویٰ شعار تھا اور انبیاء کرام علیہم السلام میں سے تھا۔

مذکورہ بالا ان وضاحتوں کے ہوتے ہوئے کوئی منصف مزاج یہ نہیں کہہ سکتا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے نعوذ باللہ قرآن کریم میں مذکور حضرت مسیح عیسیٰ بن مریم کی توہین کی ہے اور ان کو ان کے مقام سے گرایا ہے۔

متکلمین کا ہمیشہ سے یہ طریق چلا آیا ہے کہ وہ فریق مخالف کے مسلمات کی بنا پر بطور الزامی جواب کلام کرتے ہیں حالانکہ ان کا اپنا وہ عقیدہ نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر چند علماء اہل سنت والجماعت کے اقوال ذیل میں درج کئے جاتے ہیں جو اہل سنت کے مقتداء مانے جاتے ہیں ۔ ان کی تحریروں میں عموماً ان سب عبارتوں کا جواب مل جاتا ہے جو راشد علی اور اس کے پیر نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراض کے لئے پیش کی ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں۔

(۱) کتاب ’’ ازالۃ الاوہام ‘‘ جوعلمائے اہلِ سنّت کے مقتدا مولوی رحمت اللہ مہاجر مکّی کی تصنیف ہے اور سنّیوں میں ایک مستند مقام کی حامل ہے ۔ اس میں وہ لکھتے ہیں :۔

(i) ’’ اکثر معجزاتِ عیسویہ را معجزات ندانند زیرا کہ مثل آنہا ساحراں ہم میسازند ویہود آنجناب راچوں نبی نمے دانندو ہمچو معجزات ساحر میگویند ۔ ‘‘( صفحہ ۱۲۹)

کہ اکثر معجزات عیسویہ کو معجزات قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ایسے کام تو جادوگر بھی کر لیتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہود آپ کو نبی تسلیم نہیں کرتے اور ان کے معجزات کو ساحروں کے معجزے قرار دیتے ہیں۔

(ii) ’’ جناب مسیح اقرار میفر مایند کہ یحیٰ نہ نان میخورایندند نہ شراب مے آشامیدند وآنجناب شراب ہم مے نو شید ندویحیٰ در بیابان مے ماندند وہمراہ جناب مسیح بسیار زنان ہمراہ مے گشتندند ومال خودرا مے خورانیدند وزناں فاحشہ پاۂا آنجناب را بوسیدندو آنجناب مرتا ومریم رادوست مید اشتند وخود شراب برائے نوشید ند دیگر کساں عطا مے فرمودند۔ ‘‘( صفحہ ۳۷۰)

کہ جناب مسیحؑ خود اقرار فرماتے ہیں کہ یحیٰؑ بیابان میں قیام پذیر تھے۔ نہ عورتوں سے میل رکھتے تھے اور نہ شراب پیتے تھے لیکن مسیحؑ خود شراب پیتے تھے ۔ اور آپ کے ہمراہ کئی عورتیں چلتی پھرتی تھیں اور آپ ان کی کمائی سے کھاتے تھے اور بدکار عورتیں آپ کے پاؤں کو بوسے دیتی تھیں اور مرتا اور مریم آپ کی دوست تھیں۔ آپ خود بھی شراب پیتے اور دوسروں کو بھی دیتے تھے۔

(iii) ’’ ونیز وقتیکہ یہود افرزند سعادت مند شاں از زوجہ پسر خود زنا کرد وحاملہ گشت وفارض راکہ از آباء واجداد وسلیمان وعیسیٰ علیہما السلام بود ۔ ‘‘ (صفحہ ۴۰۵)

کہ یہودا نے اپنے بیٹے کی بیوی سے زنا کیا۔ جس سے وہ حاملہ ہو گئی اور فارض پیدا ہوا جو کہ حضرت سلیمانؑ اور حضرت عیسی ؑ کے آباء واجداد میں سے ہے۔

(۲) یہ کتاب ایسی باتوں سے بھری ہوئی ہے اور عیسائیوں کو الزامی جواب دینے کی غرض سے مرتب کی گئی ۔ اس کتاب کے حاشیہ پر اہلسنت والجماعت کے جیّد عالم مولوی آل حسن صاحب نے کتاب استفسار لکھی ۔ جس میں وہ رقمطراز ہیں :۔

(i) ’’ اور ذرے گریبان میں سر ڈال کر دیکھو کہ معاذ اللہ حضرت عیسیٰ کے نسب نامہ مادری میں دو جگہ تم آپ ہی زنا ثابت کرتے ہو۔ ‘‘(یعنی تاماراوراوریا) (صفحہ۷۳)

(ii) ’’ دوسرے یہ کہ حضرت عیسیٰ اپنے مخالفوں کو کتّا کہتے تھے۔ اگر ہم بھی ان کے مخالفوں کو کتّا کہیں تو دینی تہذیب اخلاق سے بعید نہیں بلکہ عین تقلیدِعیسوی ہے۔ ‘‘ (صفحہ ۹۸)

(iii) ’’ عیسیٰ بن مریم کہ آخر در ماندہ ہو کر دنیا سے انہوں نے وفات پائی۔ ‘(صفحہ ۲۳۲)

(iv) ’’ اور سب عقلاء جانتے ہیں کہ بہت سے اقسام سحر کے مشابہ ہیں۔ معجزات سے خصوصاً معجزات موسویہ اور عیسویہ سے۔ ‘‘( صفحہ ۳۳۶)

(v) ’’ یسوع نے کہا ۔ میرے لئے کہیں سر رکھنے کی جگہ نہیں۔ دیکھو یہ شاعرانہ مبالغہ ہے اور صریح دنیا کی تنگی سے شکایت کرنا کہ اقبح ترین ہے۔ ‘‘ (صفحہ ۳۴)

(vi) ’’ ان (پادری صاحبان ) کا اصل دین وایمان آکر یہ ٹھیرا ہے کہ خدا مریم کے رحم میں جنین بن کر خون حیض کا کئی مہینے تک کھاتا رہا اور علقہ سے مضغہ بنا ، مضغہ سے گوشت اور اس میں ہڈیاں بنیں اور اس کے مخرج معلوم سے نکلا اور ہگتا موتتا رہا ۔ یہاں تک کہ جوان ہو کر اپنے بندے یحیٰ کا مرید ہوا۔ اور آخر کار ملعون ہو کر تین دن دوزخ میں رہا۔ ‘‘ (صفحہ ۳۵۰ ، ۳۵۱)

(vii) ’’ انجیل اول کے باب یاز دہم کے درس نوز دہم میں لکھا ہے کہ بڑے کھاؤ اور بڑے شرابی تھے۔ ‘‘ (صفحہ ۳۵۳)

(viii) ’’ جس طرح اشعیاہ اور عیسیٰ علیہما السلام کی بعضی بلکہ اکثر پیشگوئیاں ہیں جو صرف بطور معمے اور خواب کے ہیں جس پر چاہو منطبق کر لو یا باعتبار ظاہری معنوں کے محض جھوٹ ہیں۔ یا مانند کلام یوحنا کے محض مجذوبوں کی سی بڑیں۔ ویسی پیشگوئیاں البتہ قرآن میں نہیں ہیں۔ ‘‘ (صفحہ ۳۶۶)

(ix) ’’ پس معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ کا سب بیان معاذ اللہ جھوٹ ہے اور کرامتیں اگر بالفرض ہوئی بھی ہوں تو ایسی ہی ہوں گی ۔ جیسی مسیح دجال کی ہونے والی ۔ ‘‘(صفحہ۳۶۹)

(x) ’’ تیسری انجیل کے آٹھویں باب کے دوسرے اور تیسرے درس سے ظاہر ہے کہ بہتیری رنڈیاں اپنے مال سے حضرت عیسیٰ کی خدمت کرتی تھیں پس اگر کوئی یہودی ازراہ خباثت اور بدباطنی کے کہے کہ حضرت عیسیٰ خوشرو نوجوان تھے۔ رنڈیاں ان کے ساتھ صرف حرامکاری کے لئے رہتی تھیں اس لئے حضرت عیسیٰ نے بیاہ نہ کیا اور ظاہر یہ کرتے تھے کہ مجھے عورت سے رغبت نہیں کیا جواب ہو گا ؟ اور پہلی انجیل کے باب یاز دہم کے درس نوز دہم میں حضرت عیسیٰ نے مخالفوں کا خیال اپنے حق میں قبول کر کے کہا کہ میں تو بڑا کھاؤ اور شرابی ہوں۔ پس دونوں باتوں کے ملانے سے اور شراب کی بدمستیوں کے لحاظ سے جو کوئی کچھ بدگمانی نہ کرے سو تھوڑا ہے اور دشمن کی نظر میں کیسی تن آسانی اور بے ریاضتی حضرت عیسیٰ کی بوجھی جاتی ہے۔ ‘‘ (صفحہ ۳۹۰ ، ۳۹۱)

(۳) اور بریلوی مسلک کے بانی عظیم البرکۃ امام اہلسنت مجدّد ماتہ حاضرہ مؤیّد ملّتِ طاہرہ اعلی حضرت مولنا مولوی شاہ احمد رضا خاں صاحب قبلہ قادری اپنی کتاب ’’ العطایا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ ‘‘ جلد اول میں تحریر فرماتے ہیں :۔

’’ ہاں ہاں عیسائیوں کا خدا مخلوق کے مارے سے دم گنوا کر باپ کے پاس گیا اس نے اکلوتے کی یہ عزت کی کہ اس کی مظلومی و بے گناہی کی یہ داد دی کہ اسے دوزخ میں جھونک دیا اوروں کے بدلے اسے تین دن جہنم میں بھونا ۔ ایسے کو جو روٹی اور گوشت کھاتا ہے اور سفر سے آکر اپنے پاؤں دھلوا کر درخت کے نیچے آرام کرتا ہے ۔ درخت اونچا اور وہ نیچا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے کو جس کا بیٹا اسے جلال بخشتا ہے آریوں کے ایشور کی تو ماں اس کی جان کی حفاظت کرتی تھی ۔ عیسائیوں کے خدا کا بیٹا اسے عزت بخشتا ہے کیوں نہ ہو سپوت ایسے ہی ہوتے ہیں۔ پھر اسے بے خطا جہنم میں جھونکنا کیسی محسن کشی ناانصافی ہے۔ ایسے کو جو یقیناًدغا باز ہے پچتاتا بھی ہے ۔ تھک جاتا بھی ہے ایسے کو جس کی دو جورئیں ہیں ۔ دونوں پکی زناکار ،حدّ بھر کی فاحشہ ۔ ایسے کو جس کے لئے زنا کی کمائی فاحشہ کی خرچی کہاں مقدس پاک کمائی ہے۔ ‘‘ (العطایا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ ۔ جلد ۱کتاب الطہارت باب التیمم صفحہ۷۴۰ ، ۷۴۱ ناشر شیخ غلام علی اینڈ سنز تاجران کتب کشمیری بازار لاہور)

(۴) امرتسر سے اہلحدیث مسلک کے نامور عالم مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری صاحب کا اخبار ’’ اہلحدیث ‘‘ اپنی ۳۱ مارچ ۱۹۳۹ء بروز جمعہ کی اشاعت میں یہ لکھتا ہے :۔

(i) ’’ صاف معلوم ہوتا ہے کہ مسیح خود اپنے اقرار کے مطابق کوئی نیک انسان نہ تھے ۔ شاید کوئی کہے کہ کسر نفسی سے مسیح نے ایسا کہا تو اس کا جواب یہ ہے کہ عیسائیوں کے اعتقاد کے مطابق مسیح کی انسانیت سب انسانوں کی انسانیت سے برتر ہے اور اس میں گناہ اور خطا کاری کا کوئی شائبہ نہیں تو پھر جب وہاں کسی طرح کا نقص اور گناہ نہیں تو پھر مسیح کا اپنے آپ کو نیک کا مصداق نہ قرار دینا کیسے صحیح ہو سکتا ہے ۔ کیونکہ کسر نفسی سے وہی قول صحیح ہو سکتا ہے جس کی صحت کسی طرح سے ہو سکے۔ مثلا اور لوگ کیسے ہی نیک ہوں مگر چونکہ ان کی انسانیت میں نقص ہے تو بنا بریں وہ اپنے کو ناقص کہہ سکتا ہے مگر حضرت مسیح کی انسانیت ہر برائی سے منزہ ہے اس لئے وہاں نکوئی کی نفی کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتی۔ پس جب کسر نفسی کا عذر باطل ہوا تو نکوئی کی نفی کرنے سے مسیح کا اور انسانوں کی طرح غیر معصوم ہونا بداہتہ ثابت ہوا۔ اسی طرح انجیل کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسیح نے اجنبی عورتوں سے اپنے سر پر عطر ڈلوایا ۔(دیکھو متی ۶/۲۲ مرقس ۳/۱۴ یوحنا ۶/۱۲)

یوحنا میں تو یہ بھی لکھا ہے کہ آدھ سیر خالص عطر استعمال اس عورت سے آپ نے کرایا ۔ اس نے کچھ سر پر ڈالا (مرقس) کچھ پاؤں پر ملا۔ (یوحنّا)

لوقا میں تو یہ بھی لکھا ہے کہ

ایک عورت نے جو اس شہر کی بدچلن اور فاحشہ عورت تھی مسیح کا پاؤں دھویا پھر اپنے بالوں سے پونچھا پھر انہیں چوما اور ان پر عطر ملا۔ (لوقا ۳۷/۷) ۔ یہ واقعہ صرف لوقا میں ہے ۔

ظاہر ہے کہ اجنبی عورت بلکہ فاحشہ اور بدچلن عورت سے سرکو اور پاؤں کو ملوانا اور وہ بھی اس کے بالوں سے ملا جانا کس قدر احتیاط کے خلاف کام ہے اس قسم کے کام شریعتِ الٰہیہ کے صریح خلاف ہیں۔ امثال میں کیا خوب لکھا ہے کہ

’’ بے گانہ عورت تنگ گڑھا ہے اور فاحشہ گہری خندق ہے وہ راہزن کی طرح گھات میں لگی ہے اور بنی آدم میں بدکاروں کا شمار بڑھاتی ہے۔ ‘‘ (امثال باب ۲۳۔ فقرہ۲۸)‘‘

(ii) ’’اسی طرح انجیل کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ معجزہ سے شراب سازی کا کام لے کر اپنا جلال ظاہر کرتے تھے۔ (دیکھو انجیل یوحنا ۹/۲) (یہ واقعہ صرف یوحنّامیں ہے )

دیکھو شراب جیسے امّ الخبائث چیز کا بنانا اور شادی کی دعوت کے لئے اس شراب کو پیش کرنا اور خود شرابی اہل مجلس کی دعوت میں معہ والدہ کے شریک ہونا اسی یوحنا میں موجود ہے ۔ حالانکہ شراب عہد عتیق کی کتابوں میں قطعی حرام قرار پا چکی تھی۔ حضرت یسعیاہ شراب پینے والوں کی بابت فرماتے ہیں :۔

ان پر افسوس جو مے پینے میں زور آور اور شراب پلانے میں پہلوان ہیں۔ (دیکھو یسعیاہ باب۵فقرہ ۲۲)

حضرت ہوشیع فرماتے ہیں :۔

’’ بدکاری اور مے اور نئی مے سے بصیرت جاتی رہتی ہے۔ ‘‘(ہوشیع ۱۱/۴)

’’دانی ایل نبی بھی شراب کو نجس اور ناپاک کرنے والی بتاتے ہیں‘‘ ۔(دانی ایل باب اول فقرہ ۸)

باوجود اس کے کہ اکثر عہد عتیق کی کتابوں میں اس کی ممانعت اور مذمت مذکورتھی۔ لیکن مسیح نے شرائع انبیاء سابقہ کی کچھ پرواہ نہ کی اور بقول یوحنا شراب بنائی اور شرابی مجلس میں معہ والدہ کے شریک ہوئے۔ حالانکہ خود ہی فرماتے ہیں۔

’’ یہ نہ سمجھو کہ میں تورات یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔ ‘‘ (متی۱۷/۵)

ان حالات میں مسیح کی شراب سازی خلاف شریعت فعل ہے۔‘‘

(iii) ’’ انجیل کے مطالعہ سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسیح نے کذب کو روا رکھا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح کا قول سردار کی لڑکی کی بابت اس طرح منقول ہے :۔

’’ تم کیوں غل مچاتے اور روتے ہو لڑکی مر نہیں گئی بلکہ سوتی ہے۔ ‘‘ (متی۱۸/۹ ، مرقس ۲۹/۵ ، لوقا ۵۴/۸)

اس کے بعد مسیح نے کہا اے لڑکی اٹھ۔ وہ لڑکی اٹھ کر چلنے پھرنے لگی۔ اس موقع پرعیسائی کہتے ہیں کہ وہ لڑکی مر گئی تھی۔ حضرت مسیح کے معجزہ سے زندہ ہوئی ۔ چنانچہ لوقا سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے ۔ لوقا کے الفاظ یہ ہیں :۔’’ اس کی روح پھر آئی اور وہ اسی دم اٹھی ‘‘(اس بیان میں لوقا منفرد ہے )۔

روح پھر آنا دلالت کرتا ہے کہ اس کی روح نکل چکی تھی دوبارہ زندہ ہوئی۔ لہذا ضرور تسلیم کرنا پڑے گا کہ مسیح نے اس جگہ ناراست بات کہی اور خلاف واقعہ شہادت دی۔ حالانکہ مسیح نے خلاف واقعہ بات کرنے سے خود ہی شاگردوں کو منع کیا ہے۔ (مرقس ۱۹/۱۰) خون نہ کر ، زنا نہ کر ، چوری نہ کر ، جھوٹی گواہی نہ دے ۔ امثال ۵/۱۹ میں ہے کہ جھوٹا گواہ بے سزا نہ چھوٹے گا اور جھوٹ بولنے والا رہائی نہ پائے گا۔ ‘‘

اسی طرح یوحنا میں ہے :۔

’’ لوگوں نے مسیح سے کہا کہ تم عید میں جاؤ میں ابھی اس عید میں نہیں جاتا۔ لیکن جب اس کے بھائی عید میں چلے گئے اس وقت وہ بھی گیا۔ ‘‘ (یوحنا ۸/۷)

دیکھو حضرت مسیح نے عید میں جانے سے انکار کیا اور پھر چھپ کے گئے۔ اور متی کے حوالہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح نے جھوٹ بولنے اور کتمان حق کرنے کی اجازت بھی دی ہے۔ چنانچہ متی میں ہے :۔

’’ تب اس وقت اس نے حکم دیا کہ کسی کو نہ بتانا کہ یہ یسوع مسیح ہے۔ ‘‘(متی ۲۰/۱۶)

یہ مضمون لوقا اور مرقس میں بھی ہے۔

ظاہر ہے کہ جب امر حق کے پوشیدہ کرنے کا حکم فرمایا تو صراحتہ ثابت ہوا کہ اگر کہیں بتانے ہی کی ضرورت پڑے تو خلاف حق ناراست بات کہہ دو ۔ ان واقعات سے مسیح کی تعلیم متعلقہ صدق وکذب ظاہر وباہر ہے۔ (صفحہ ۸ ، ۹)‘‘

( یاد رہے کہ اس اخبار’’ اہلحدیث‘‘ کی اشاعت کے اغراض ومقاصد میں یہ لکھا ہے کہ ’’ دین اسلام اور سنّتِ نبوی علیہ السلام کی اشاعت کرنا )

راشد علی اور اس کا پیر کہتا ہے کہ یہ توہین عیسیٰ علیہ السلام ہے ، ان کو ان کے مقام سے گرانا ہے مگر ان کے بڑے کہتے ہیں کہ یہ دین اسلام اور سنّتِ نبوی علیہ السلام کی اشاعت ہے۔ بہر حال یہ تو ان کے اپنے گھر کے جھگڑے ہیں۔ انہیں یہ خود حل کریں۔ لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ

۱۔ مذکورہ بالا علماء اہل سنّت کی تحریروں میں وہ تفریق بھی نظر نہیں آتی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم میں مذکور اپنے مسیح عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام اور پادریوں کے یسوع اور مسیح کے درمیان کی ہے۔ اس لحاظ سے ان علماء کی تحریروں کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی براہِ رست نشانہ بنتے ہیں۔

۲۔ ان علماء کی تحریریں ان تحریروں سے کہیں زیادہ سخت اور برہنہ ہیں جن کو پیش کر کے راشد علی اور کے پیر نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر طعن زنی کی ہے۔

اب اس باب کے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دو ٹوک فیصلہ ملاحظہ فرمائیں آپ فرماتے ہیں۔

’’ موسیٰ کے سلسلہ میں ابن مریم مسیح موعود تھا اور محمدی سلسلہ میں میں مسیح موعود ہوں ۔ سو میں اس کی عزت کرتا ہوں جس کا ہم نام ہوں ۔ اور مفسد اور مفتری ہے وہ شخص جو مجھے کہتا ہے کہ میں مسیح ابن مریم کی عزت نہیں کرتا۔ ‘‘ (کشتی نوح ۔خزائن جلد ۱۹صفحہ ۱۷ ، ۱۸)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ تحریر ہمیں اس منطقی نتیجہ پر بھی پہنچاتی ہے کہ آپ چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہم نام ہو کر آئے ہیں ا ور آپ کا دعویٰ ’’ مثیل مسیح ‘‘ ہونے کا ہے تو آپ ؑ ان کی توہین نہیں کر سکتے اگر آپ ؑ نعوذ باللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو برا کہیں گے تو اپنے آپ کو نعوذ باللہ ایک برے کا مثیل قرار دیں گے۔ پس مثیلِ مسیح ہونے کا دعویدار مسیح علیہ السلام کو برا کہہ ہی نہیں سکتا اور جو شخص آپ ؑ پر ایسا الزام لگاتا ہے جیسا کہ راشد علی اور اس کے پیر نے لگایا ہے تو وہ لازماً مفسد اور مفتری ہے۔

اس کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ راشد علی اور اس کا پیر ایک طرف تو کہتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب کو انگریز نے کھڑا کیا اور ساتھ یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ آپ نے (نعوذ باللہ) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کی ہے ان کے ان دونوں دعووں میں واضح تضاد ہے ۔

اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو انگریزوں نے کھڑا کیا تھا تو آپ انگریزوں کے پیشوا بلکہ خدا کو برا کہہ ہی نہیں سکتے تھے ورنہ لازم تھا کہ انگریز آپ کی سرپرستی چھوڑ دیتا۔ پس دونوں میں سے ایک الزام تو ان جھوٹے پیرو مرید کو واپس لینا ضروری ہے اور جو اعتراض باقی بچے گا وہ ویسے جھوٹ ہے افتراء ہے ،جس کا ثبوت ہم گزشتہ سطور میں پیش کر چکے ہیں۔


Discover more from احمدیت حقیقی اسلام

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply