اسلام پر تنقید اور اسے لعنتی ، شیطانی اور قابلِ نفرت قرار دینا
راشد علی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایک گھناؤنا الزام یہ بھی لگایا ہے کہ نعوذ باللہ آپ نے اسلام کو صرف گہری تنقید کا نشانہ ہی نہیں بنایا بلکہ اسلام کو لعنتی ،شیطانی اور قابلِ نفرت بھی قرار دیا ہے۔ اپنے الزام کو ثابت کرنے کے لئے اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض تحریریں پیش کی ہیں ۔ چونکہ ان میں کوئی بات قابلِ اعتراض نہیں اس لئے بعض جگہ خود قوسیں ڈال کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مضمون کو اپنے خود ساختہ معنے پہنانے کی کوشش کی ہے اور بعض جگہ ادھوری عبارت تحریر کر کے غلط مطلب نکالنے کی تلبیس کی ہے۔وہ اصل عبارتیں ہم آگے جا کر پیش کریں گے۔
بہر حال یہ ایک لعنتی، شیطانی اور قابلِ نفرت جھوٹا الزام ہے جو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر لگایا ہے ۔ اس کا جامع اور دو ٹوک جواب تو ہماری طرف سے یہی ہے کہ لعنۃ اللہ علی الکاذبین ۔ لیکن ایسا نہ ہو کہ دھوکہ شیطاں کسی کو دے دے ۔ ہم اس کے اس اعتراض کا منہ توڑ جواب تفصیل کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاں ایسی تنقید کی ہے وہ اسلام اور دینِ محمّدی پر نہیں بلکہ مسلمانوں کے ان غلط تصوّرات اور بگڑے ہوئے عقائد پر کی ہے جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔آپ نے یہ تنقید اسلام کی عظمت اور اس کی شان کو ظاہر کرنے کے لئے کی ہے۔
جہاں تک امّتِ محمّدیہ کی اکثریت کے بگڑ جانے اور اس کے باہم اختلافات کا شکار ہو جانے کا تعلق ہے تو اس کے متعلق پیشگوئیاں خود احادیث نبویّہ میں موجود ہیں۔ اسلامی شریعت تو بہر حال قیامت تک محفوظ رہے گی۔ وہ نہ زائل ہو سکتی ہے نہ اس پر زوال آسکتا ہے۔ لیکن اس شریعت کے ماننے والوں کے گمراہی سے محفوظ ہونے اور فرقہ بندی سے بچے رہنے کی خبر کہیں موجود نہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اگر مسلمانوں کو ان کے گمراہ کن اور بگڑے ہوئے عقائد سے آگاہ کریں تو راشد علی اور اس کے پیر کے نزدیک یہ چیز اسلام کو لعنتی ،شیطانی اور قابلِ نفرت بنا دیتی ہے۔ حالانکہ ان باتوں کی طرف تو ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ بڑے واضح اور غیر مبہم الفاظ میں آگاہ فرما چکے ہیں۔ چنانچہ سورہ جمعہ کی آیت ’وَآخَرِینَ مِنہُم لَمَّا یَلحَقُوا بِہِم‘ کی تشریح میں آپؐ نے فرمایا۔
۱۔ ’’ لو کان الایمان معلّقاً بالثّریا لنالہ رجل او رجال من ھولاء ‘‘(بخاری کتاب التفسیر ۔تفسیر سورۃ جمعہ)
ترجمہ :۔ اگر ایمان زمین سے پرواز کر کے ثریّا ستارے تک بھی جا پہنچا تو اس قوم میں سے ایک شخص یا بعض اشخاص اسے وہاں سے بھی حاصل کر لیں گے۔
۲۔ ’’یاتی علی الناس زمان لا یبقٰی من الاسلام الَّا اسمہٗ ولا یبقٰی من القرآن الَّا رسمہٗ مساجد ھم عامرۃٌ وھی خرابٌ من الھدٰی علماء ھم شرّ من تحت ادیم السماء من عندھم تخرج الفتنۃ وفیھم تعود ‘‘(مشکٰوۃ ۔کتاب العلم ۔صفحہ ۳۱۶ مکتبہ امدادیہ ۔ملتان طبع اول)
ترجمہ :۔ لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا جب اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا اور قرآن کے صرف الفاظ باقی رہ جائیں گے۔ ان کی مسجدیں ظاہر میں تو آباد ہوں گی لیکن ہدایت کے لحاظ سے بالکل ویران ہوں گی۔ اس زمانہ کے لوگوں کے علماء آسمان کے نیچے بد ترین مخلوق ہوں گے۔ انہی سے فتنے نکلیں گے اور انہی میں واپس جائیں گے۔
۳۔ ’’لتتبعنّ سنن من قبلکم شبراً شبراً و ذراعاً ذراعاً حتّی لو دخلوا جحر ضبٍّ تبعتموھم قلنا یا رسول اللّٰہ الیھود والنصارٰی قال فمن ‘‘(بخاری۔ کتاب الاعتصام ۔باب قول النبی لتتبعن سنن من کان قبلکم)
ترجمہ :۔ اے مسلمانو! تم پہلی قوموں کے حالات کی پیروی کرو گے جس طرح ایک بالشت دوسری بالشت کے مشابہ ہوتی ہے اور ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کے مشابہ ہوتا ہے اس طرح تم پہلی قوموں کے نقشِ قدم پر چلو گے۔ صحابہؓ نے عرض کی یا رسول اللہ! کیا ہم یہود ونصاریٰ کے نقشِ قدم پر چلیں گے؟ آپ نے فرمایا اور کس کے ؟
۴۔ ’’ انّ بنی اسرائیل تفرّقت علی ثنتین وسبعین ملۃً وستفترق امتی علی ثلاثٍ وسبعین ملۃً کلّھم فی النّار الَّا ملّۃً واحدۃً ‘‘(ترمذی ۔ابواب الایمان ۔باب افتراق ھٰذہ الامّۃ)
ترجمہ :۔ بنی اسرائیل کے بہترّ فرقے ہو گئے تھے اور میری امّت کے تہترّ فرقے ہو جائیں گے ان تہترّ میں سے سوائے ایک فرقہ کے باقی سب فرقے آگ میں ہوں گے۔
۵۔ ’’ خیر النّاس قرنی ثمّ الّذین یلونھم ثمّ الّذین یلونھم ثمّ یفشو الکذب ‘‘(ترمذی۔ ابواب الشہادات ۔باب ماجاء فی شہادۃ الزور)
ترجمہ :۔ بہترین لوگ میری صدی کے ہیں پھر دوسری اور پھر تیسری صدی کے اس کے بعد جھوٹ پھیل جائے گا۔
ان احادیث میں ’’ جھوٹ کا پھیل جانا ،مسلمانون کا یہودیوں کے مشابہ ہو جانا ،قرآن کے صرف حروف کا باقی رہ جانااور اسلام کا صرف نام باقی رہ جانا ۔ یہی وہ باتیں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی ہیں کہ اسلام سے اگر خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق نکل جائے تو اس کا صرف نام باقی رہ جاتا ہے۔ قرآن کریم سے مسلمانوں کا عمل اٹھ جائے تو اس کے صرف حروف باقی رہ جاتے ہیں۔وغیرہ وغیرہ۔ یہ وہ باتیں ہیں جن میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے خود آخری زمانہ میں امّت میں ظاہر ہونے والے فسادات کا بڑی تفصیل سے نقشہ کھینچا ہے۔
ان باتوں کو ہدفِ ملامت بنانے والا کم بخت خود کیا کہلائے گا؟ جہالت اور حماقت جب مرکّب ہوتی ہے تو ایسے ایسے شیطانوں کو جنم دیتی ہے جو حملہ کرتے وقت یہ بھی نہیں سوچتے کہ اس کا رخ کس طرف ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ بگڑے ہوئے مسلمانوں کے گمراہ کن عقائد کی وجہ سے اسلام کی جس حالت کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا ہے اور پھر اس کا علاج بھی بتایا ہے۔ اسی حالت کا بلکہ اس سے بہت بڑھ کر بُری حالت کا رونا مسلمان اکابرین نے خوب رو یا ہے۔ لیکن اس کا علاج نہیں بتایا۔ چنانچہ آئیں ، جائزہ لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کون کون سے مسلمان، راشد علی کے اس لایعنیاعتراض کے نیچے آتے ہیں جو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر باندھا ہے۔
۱۔ مولانا الطاف حسین حالی مرحوم نے ۱۸۷۹ء میں اپنی مشہور مسدّس میں لکھا۔
’’ رہا دین باقی نہ اسلام باقی ۔ اک اسلام کا رہ گیا نام باقی ‘‘ (مسدّس حالی بند نمبر ۱۰۸)
پھر اسلام کو ایک باغ سے تشبیہہ دے کر فرماتے ہیں۔
پھر اک باغ دیکھے گا اجڑا سراسر
جہاں خاک اڑتی ہے ہر سو برابر
نہیں زندگی کا کہیں نام جس پر
ہری ٹہنیاں جھڑ گئیں جس کی جل کر
نہیں پھول پھل جس میں آنے کے قابل
ہوئے روکھ جس کے جلانے کے قابل
(مسدّس حالی بند نمبر ۱۱۱)
صدا اور ہے بلبلِ نغمہ خواں کی
کوئی دم میں رحلت ہے اب گلستان کی
(مسدّس حالی ۔صفحہ ۵۳ ۔مطبوعہ کشمیر کتاب گھر اردو بازار لاہور)
۲۔ ڈاکٹر علامہ اقبال ، جن کا نام جپتے ہوئے ان کی زبان نہیں تھکتی وہ مسلمانوں کی اس طرح ’’ تذلیل ‘‘ کرتے ہیں کہ
ہاتھ بے زور ہیں الحاد سے دل خوگر ہیں
امتی باعث رسوائی پیغمبر ہیں
بت شکن اٹھ گئے باقی جو رہے بت گر ہیں
تھا براہیم پدر اور پسر آذر ہیں
(بانگِ درا ۔زیرِ عنوان جوابِ شکوہ)
اسی طرح وہ لکھتے ہیں۔
رہ گئی رسمِ اذاں روحِ بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقینِ غزالی نہ رہی
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحبِ اوصاف حجازی نہ رہے
شور ہے ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدّن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
یوں تو سیّد بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو
(بانگِ درا۔ زیرِعنوان جوابِ شکوہ)
۳۔ مشہور اہلحدیث عالم نواب صدیق حسن خان صاحب کے فرزند مولوی نورالحسن خان صاحب لکھتے ہیں۔
’’ یہ بڑے بڑے فقیہہ ، یہ بڑے بڑے مدرّس ، یہ بڑے بڑے درویش ، جو ڈنکا دینداری ، خدا پرستی کا بجا رہے ہیں ردِّ حق تائیدِ باطل تقلیدِمذہب وتقیدِ مشرب میں مخدومِ عوام کا الانعام ہیں۔ سچ پوچھو تو دراصل پیٹ کے بندے،نفس کے مرید، ابلیس کے شاگرد ہیں ۔ چندیں شکل از برائے اکل ان کی دوستی دشمنی ان کے باہم کا ردّ وکد فقط اسی حسدو کینہ کے لئے ہے نہ خدا کے لئے نہ امام کے لئے نہ رسول کے لئے ۔علم میں مجتہد مجدّد ہیں۔ لاکن حق ، باطل ، حلال ، حرام میں کچھ فرق نہیں کرتے ۔ غیبت ، سبّ وشتم، خدیعت وزُور ، کذب وفجور، افتراء کو گویا صالحات باقیات سمجھ کر رات دن بذریعہ بیان وزبان ،خلق میں اشاعت فرماتے ہیں۔ ‘‘ (اقتراب السّاعۃ۔صفحہ ۸۔مطبع سعید المطابع الکائنۃ۔بنارس )
۴۔ جماعتِ اسلامی کے بانی مولانا ابو الاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں :۔
’’ یہ انبوہ عظیم جس کو مسلمان قوم کہا جاتا ہے اس کا حال یہ ہے کہ اس کے۹۹۹فی ہزار افراد نہ اسلام کا علم رکھتے ہیں نہ حق اور باطل کی تمیز سے آشنا ہیں۔ نہ ان کا اخلاقی نقطہ نظر اور ذہنی رویّہ اسلام کے مطابق تبدیل ہوا ہے۔ باپ سے بیٹے اور بیٹے سے پوتے کو بس مسلمان کا نام ملتا چلا آرہا ہے اسلئے یہ مسلمان ہیں۔‘‘(مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش ۔حصہ سوم ۔صفحہ ۱۳۰ مطبوعہ آرمی پریس دہلی)
دیوبندیوں کے بزرگ سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب مسلمانوں کی اکثریت کو باطل پر قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’ ہم نام نہاد اکثریت کی تابع داری نہیں کریں گے۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اکثریت باطل پر ہے۔ ‘‘(روزنامہ رزم لاہور۳ اپریل ۱۹۲۹ء و سوانح حیات سید عطاء اللہ شاہ بخاری صفحہ ۱۱۶ از خان حبیب الرحمن خان کابلی)
دیوبندیوں کے ایک اور بزرگ مولوی اشرف علی صاحب تھانوی اپنے ایک دوست کی بات کو لطیف بات قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’ اگر سوادِ اعظم کے معنی یہ بھی مان لئے جائیں کہ جس طرف زیادہ ہوں تو ہر زمانہ کے سوادِ اعظم مراد نہیں بلکہ خیر القرون کا زمانہ مراد ہے جو غلبہ خیر کا وقت تھا ان لوگوں میں سے جس طرف مجمع کثیر ہو وہ مراد ہے نہ کہ ’’ ثم یفشو الکذب ‘‘ کا زمانہ ۔ یہ جملہ ہی بتا رہا ہے کہ خیر القرون کے بعد شرّ میں کثرت ہو گی‘‘ (ماہنامہ البلاغ ۔کراچی جولائی ۱۹۷۶ء صفحہ ۵۹)
راشد علی اور اس کا پیر چونکہ اپنے اعتراض میں جھوٹے ہیں اس لئے ان کو نہ ان لوگوں پر کبھی طیش آیا نہ ان پر کبھی انہوں نے کوئی اعتراض اٹھایا۔ کیونکہ یہ سب خود اسی بات پر یقین رکھتے ہیں جو آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمائی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے واضح کر کے بیان فرمائی۔ اسی بات پر عبدالحفیظ اینڈکو، کا اپنا عمل شاہدِ ناطق ہے کہ جب یہ اسلام کی تعلیم کو چھوڑ کر اپنے خود ساختہ اَذکار کی مجالس میں ساری ساری رات سردھن دھن کر تھک جاتے ہیں تو خدا تعالیٰ سے دور کے دور ہی رہتے ہیں اور پھر راشد علی تو خود کہتا ہے کہ اس پر شیطان نازل ہوتا ہے۔
الغرض اسی حالت کا نقشہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کھینچا اور بتایا کہ اگر خدا تعالیٰ سے انسان زندہ تعلق قائم نہ کر سکے تو مذہب کا کوئی فائدہ ہی نہیں لیکن اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو انسان کو خدا تعالیٰ سے ملاتا ہے اور اس سے زندہ تعلق قائم کراتا ہے۔ اس کے بالمقابل پیر عبدالحفیظ کا اسلام یہ ہے کہ اس کا لٹریچر قرآن کریم کی اتّباع کے ذکر سے خالی اور نماز کے قیام کی تلقین سے عاری ہے ۔اس کے برعکس اس کاسارا زور راتوں کو جاگ جاگ کر اس کے اپنے بنائے ہوئے اذکار میں سر دھننے پر ہے۔ اس کا رسالہ ’’ الحفیظ‘‘ عورتوں اور نوجوان دوشیزاؤں کے عریاں چہروں کی تصاویر سے مزیّن ہیں اور جیسا کہ ہم بار بار ثابت کر چکے ہیں ، جھوٹ در جھوٹ سے پُر ہیں۔
آنحضرت ﷺ تو یہ دین لے کر نہیں آئے تھے جو آج عبدالحفیظ اور راشد علی پیش کر رہے ہیں۔ اسی لئے آپ ؐ نے وہ پیشگوئیاں کیں جن کا اوپر ذکر آچکا ہے۔ آنحضرت ﷺ کو خدا تعالیٰ نے پہلے سے بتا دیا تھا کہ ’’ضلّوا واَضلّوا‘‘ کے مصداق ایسے لوگ دین کو برباد کر دیں گے اور ایمان کو اس طرح دلوں سے نکال دیں گے کہ وہ ثریّا ستارے پر پہنچ جائے گا اس کو دوبارہ لانے کے لئے ، دین کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے اور اسلام کوغلبہ سے ہمکنار کرنے کے لئے مہدی معہود اور مسیح موعود آئے گا۔ یعنی آخری زمانہ میں دینِ محمّدی کا احیاء اس کی عظمت اور اس کا امتیازی غلبہ بہر حال اور لازماً مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ہی وابستہ ہے۔ سیّد عبدالحفیظ اور راشد علی کی طرح اپنے خود ساختہ، بدعتی اذکار جپ جپ کر اور بالآخر جھوٹ سے اَٹے ہوئے چیتھڑے شائع کر کے اسلام کو غلبہ نصیب نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اسلام اس طرح زندہ ہو سکتا ہے۔
الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو فرمایا وہ سچّ ہے اور وہ اسلام کی عظمت کا ایک نشان ہے جس کی آپ ؑ نے صرف نشاندہی کی ہے۔ چنانچہ جن عبارتوں پر راشد علی نے اعتراض کا تبرَ چلایا ہے،اب وہ ہم مکمل صورت میں پیش کرتے ہیں تا کہ یہ بات کھل کر قارئین پر واضح ہو جائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو فرمایا وہ اسلام کو دوسرے ادیان پر ممتاز اور بلند وبالا ثابت کرتا ہے۔ آپ ؑ فرماتے ہیں۔
’’ بعض یہ کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ سچ ہے کہ صحیح بخاری اور مسلم میں یہ لکھا ہے کہ آنے والا عیسیٰ اسی امّت میں سے ہو گا۔لیکن صحیح مسلم میں صریح لفظوں میں اس کا نام نبی اللہ رکھا ہے۔ پھر کیونکر ہم مان لیں کہ وہ اسی امّت میں سے ہو گا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تمام بدقسمتی دھوکہ سے پیدا ہوئی ہے کہ نبی کے حقیقی معنوں پر غور نہیں کی گئی۔ نبی کے معنے صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبر پانے والا ہو اور شرفِ مکالمہ اور مخاطبہ الٰہیہ سے مشرّف ہو شریعت کا لانا اس کے لئے ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ صاحبِ شریعت رسول کامتّبع نہ ہو ۔پس ایک امّتی کو ایسا نبی قرار دینے سے کوئی محذور لازم نہیں آتا بالخصوص اس حالت میں کہ وہ امّتی اپنے اسی نبی متبوع سے فیض پانے والا ہو بلکہ فساد اس حالت میں لازم آتا ہے کہ اس امّت کو آنحضرت ﷺ کے بعد قیامت تک مکالماتِ الہٰیہ سے بے نصیب قراردیاجائے۔ وہ دین ،دین نہیں ہے اور نہ وہ نبی نبی ہے جس کی متابعت سے انسان خدا تعالیٰ سے اس قدر نزدیک نہیں ہو سکتا کہ مکالماتِ الہٰیہ سے مشرّف ہو سکے۔ وہ دین لعنتی اور قابلِ نفرت ہے جو یہ سکھلاتا ہے کہ صرف چند منقولی باتوں پر انسانی ترقیات کا انحصار ہے اور وحی الہٰی آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی ہے اور خدائے حیّ وقیّوم کی آواز سننے اور اس کے مکالمات سے قطعی نومیدی ہے اور اگر کوئی آواز بھی غیب سے کسی کے کان تک پہنچتی ہے تو وہ ایسی مشتبہ آواز ہے کہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ خدا کی آواز ہے یا شیطان کی۔ سو ایسا دین بہ نسبت اس کے کہ اس کو رحمانی کہیں، شیطانی کہلانے کا زیادہ مستحق ہوتا ہے۔ دین وہ ہے جو تاریکی سے نکالتا اور نور میں داخل کرتا ہے اورا نسان کی خدا شناسی کو صرف قصوں تک محدود نہیں رکھتا بلکہ ایک معرفت کی روشنی اس کو عطا کرتا ہے۔ سو سچیّ دین کا متّبع اگر خود نفسِ امّارہ کے حجاب میں نہ ہو ، خدا تعالیٰ کے کلام کو سن سکتا ہے۔ سو ایک امّتی کو اس طرح کا نبی بنانا سچے دین کی ایک لازمی نشانی ہے۔ (براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۰۵ ،۳۰۶)
جہاں اس مضمون میں کوئی اعتراض کا پہلو نہیں ہے۔ وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس جواب سے اسلام سے یہ اعتراض دور ہوتا ہے کہ اسلام زندہ مذہب نہیں ہے۔ آپ نے ایک ٹھوس ، محکم اور ناقابلِ تردید دلیل کے ساتھ اسلام کی زندگی اس میں قوّتِ احیاء اور ا س کے امتیاز کو ثابت کیا ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ عبدالحفیظ اور راشد علی جیسے ’’یمیل الہالکون الی الدخان ‘‘(ہلاک ہونے والے ہمیشہ دھوئیں کی طرف ہی رخ کرتے ہیں)
دوسری عبارت جس کو راشد علی نے ہدفِ اعتراض بنایا ہے۔ وہ مکمل عبارت یہ ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’ ایسا نبی کیا عزّت اور کیا مرتبت اور کیا تاثیر اور کیا قوّتِ قدسیہ اپنی ذات میں رکھتا ہے جس کی پیروی کے دعویٰ کرنے والے صرف اندھے اور نابینا ہوں۔ اور خدا تعالیٰ اپنے مکالمات ومخاطبات سے ان کی آنکھیں نہ کھولے۔ یہ کس قدر لغو اور باطل عقیدہ ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ بعد آنحضرت ﷺ کے وحی الہی کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا ہے اور آئندہ کو قیامت تک اس کی کوئی بھی امید نہیں۔ صرف قصّوں کی پوجا کرو۔ پس کیا ایسا مذہب کچھ مذہب ہو سکتا ہے جس میں براہِ راست خدا تعالیٰ کا کچھ بھی پتہ نہیں لگتا۔ جو کچھ ہیں قصّے ہیں۔ اور کوئی اگرچہ اس کی راہ میں اپنی جان بھی فدا کرے اس کی رضا جوئی میں فنا ہو جائے اور ہر ایک چیز پر اس کو اختیار کر لے تب بھی وہ اس پر اپنی شناخت کا درروازہ نہیں کھولتا اور مکالمات اور مخاطبات سے اس کو مشرّف نہیں کرتا۔
میں خدا تعالیٰ کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ اس زمانہ میں مجھ سے زیادہ بیزار ایسے مذہب سے اور کوئی نہ ہو گا۔ میں ایسے مذہب کا نام شیطانی مذہب رکھتا ہوں نہ کہ رحمانی اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ایسا مذہب جہنّم کی طرف لے جاتا ہے اور اندھا رکھتا ہے اور اندھا ہی مارتا اور اندھا ہی قبر میں لے جاتا ہے۔ مگر میں ساتھ ہی خدائے کریم ورحیم کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اسلام ایسا مذہب نہیں ہے بلکہ دنیا میں صرف اسلام ہی یہ خوبی اپنے اندر رکھتا ہے کہ وہ بشرط سچّی اور کامل اتباع ہمارے سیّد ومولیٰ آنحضرت ﷺ کے مکالماتِ الہیٰہ سے مشرّف کرتا ہے۔ اسی وجہ سے تو حدیث میں آیا ہے کہ علماء امّتی کا نبیآء بنی اسرائیل یعنی میری امّت کے علماء ربّانی بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہیں۔ اس حدیث میں بھی علماء ربّانی کو ایک طرف امّتی کہا اور دوسری طرف نبیوں سے مشابہت دی ہے۔ ‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم ۔ روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۵۴)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ تحریر کسی طرح بھی اعتراض کا نشانہ نہیں بن سکتی ۔آپ نے بڑے زور کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ اسلام میں یہ خوبی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے ہمکلام کراتا ہے اور اب ہمارے سیّدومولیٰ رسولِ کریم ﷺ کی کامل اور سچّی اتباع سے خدا تعالیٰ انسان سے کلام کرتا ہے۔ مگر راشد علی کاتو کام ہی ہر حال میں سچ کو دبانے کی کوشش کرنا ہے ، خواہ وہ اصل عبارتیں چھپا کر یہودیانہ خصلت کا ہی مرتکب کیوں نہ ہو۔ اسی لئے اس نے آدھی عبارت پیش کی اور اگلی عبارت جو اسلام کی زندگی کا ثبوت مہیا کرتی تھی اس پر ہاتھ رکھ لیا۔
پس راشد علی کا جھوٹ اور دجل واضح ہے۔ قارئین سے اس کا فریب ،اور حضرت مسیحُ موعود علیہ السلام کی تحریروں سے اس کی بدیانتی اظہر من الشمس ہے۔ جہاں تک اسلام کی سچائی اس کی حقانیت اس کی زندگی ، اس کی قوّت احیاء اور عظمت کا تعلق ہے ، اس کا اظہار اور اس کا ثبوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ آپ ؑ اس کا ثبوت دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔
’’ قرآنِ شریف نے باوجود اس کے کہ اس کے عقائد کو دل مانتے ہیں اور ہر ایک پاک کانشنس قبول کرتا ہے پھر بھی ایسے معجزات پیش نہیں کئے کہ کسی آئندہ صدی کے لئے قصّوں اور کہانیوں کے رنگ میں ہو جائیں بلکہ ان عقائد پر بہت سے عقلی دلائل بھی قائم کئے اور قرآن میں وہ انواع واقسام کی خوبیان جمع کیں کہ وہ انسانی طاقتوں سے بڑھ کر معجزہ کی حد تک پہنچ گیا اور ہمیشہ کے لئے بشارت دی کہ اس دین کی کامل طور پر پیروی کرنے والے ہمیشہ آسمانی نشان پاتے رہیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ہم یقینی اور قطعی طور پر ہر ایک طالب حق کو ثبوت دے سکتے ہیں کہ ہمارے سیّد ومولا آنحضرت ﷺ کے زمانہ سے آج تک ہر ایک صدی میں ایسے با خدا لوگ ہوتے رہے ہیں جن کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ غیر قوموں کو آسمانی نشان دکھلا کر ان کو ہدایت دیتا رہا ہے۔ جیسا کہ سیّد عبدالقادر جیلانی اور ابو الحسن خرقانی اور ابو یزیدبسطامی اور جنید بغدادی اور محی الدین ابن العربی اور ذوالنّون مصری اور معین الدین چشتی اجمیری اور قطب الدین بختیار کاکی اور فرید الدین پاک پٹنی اور نظام الدین دہلوی اور شاہ ولی اللہ دہلوی اور شیخ احمد سرہندی رضی اللہ عنہم ورضواعنہٗ اسلام میں گذرے ہیں اور ان لوگوں کا ہزارہا تک عدد پہنچا ہے اور اس قدر ان لوگوں کے خوارق علما ء اور فضلاء کی کتابوں میں منقول ہیں کہ ایک متعصّب کو باوجود سخت تعصّب کے آخر ماننا پڑتا ہے کہ یہ لوگ صاحبِ خوارق وکرامات تھے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ میں نے نہایت صحیح تحقیقات سے دریافت کیا ہے کہ جہاں تک بنی آدم کے سلسلہ کا پتہ لگتا ہے سب پر غور کرنے سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ جس قدر اسلام میں،اسلام کی تائید میں اور آنحضرت ﷺ کی سچائی کی گواہی میں آسمانی نشان بذریعہ اس امّت کے اولیاء کے ظاہر ہوئے اور ہو رہے ہیں ان کی نظیر دوسرے مذاہب میں ہرگز نہیں۔ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس کی ترقی آسمانی نشانوں کے ذریعہ سے ہمیشہ ہوتی رہی ہے اور اس کے بیشمار انوار اور برکات نے خدا تعالیٰ کو قریب کر کے دکھلا دیا ہے۔ یقیناًسمجھو کہ اسلام اپنے آسمانی نشانوں کی وجہ سے کسی زمانہ کے آگے شرمند ہ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زندہ مذہب وہی ہوتا ہے جس پر ہمیشہ کے لئے زندہ خدا کا ہاتھ ہو سو وہ اسلام ہے ‘‘ (کتاب البریہ۔ روحانی خزائن جلد۱۳صفحہ ۹۱ ، ۹۲)
نیز فرمایا :۔
اسلام سے نہ بھاگو راہِ ہدیٰ یہی ہے
اے سونے والو جاگو شمس الضحیٰ یہی ہے
مجھ کو قسم خدا کی جس نے ہمیں بنایا
اب آسماں کے نیچے دین خدا یہی ہے
دنیا کی سب دکانیں ہیں ہم نے دیکھی بھالیں
آخر ہوا یہ ثابت دارالشفا یہی ہے
سب خشک ہو گئے ہیں جتنے تھے باغ پہلے
ہر طرف میں نے دیکھا بستاں ہرا یہی ہے
اسلام کی سچائی ثابت ہے جیسے سورج
پر دیکھتے نہیں ہیں دشمن بلا یہی ہے
ملتی ہے بادشاہی اس دیں سے آسمانی
اے طالبانِ دولت ! ظلِّ ہما یہی ہے
سب دیں ہیں اک فسانہ شرکوں کا آشیانہ
اس کا ہے جو یگانہ چہرہ نما یہی ہے
کرتا ہے معجزوں سے وہ یار دیں کو تازہ
اسلام کے چمن کی بادِ صبا یہی ہے
یہ سب نشاں ہیں جن سے دیں اب تلک ہے زندہ
اے گرنے والو دوڑو دیں کا عصا یہی ہے
کس کام کا وہ دیں ہے جس میں نشاں نہیں ہے
دیں کی مرے پیارو ! زرّیں قبا یہی ہے
( درّ ثمین۔صفحہ ۷۱۔مطبوعہ لندن ۱۹۹۶ء)
پھر آپ فرماتے ہیں۔
’’ میں صرف اسلام کو سچّا مذہب سمجھتا ہوں اور دوسرے مذاہب کو باطل اور سراسر دروغ کا پتلا خیال کرتا ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ اسلام کے ماننے سے نور کے چشمے میرے اندر بہہ رہے ہیں اور محض محبّتِ رسول اللہ ﷺ کی وجہ سے وہ اعلیٰ مرتبہ مکالمہ الہٰیہ اور اجابت دعاؤں کا مجھے حاصل ہوا ہے جو کہ بجز سچّے نبی کے پیرو کے اور کسی کو حاصل نہیں ہو سکے گا اور اگر ہندو اور عیسائی وغیرہ اپنے باطل معبودوں سے دعا کرتے مر بھی جائیں تب بھی ان کو وہ مرتبہ مل نہیں سکتا اور وہ کلام الہٰی جو دوسرے ظنّی طور پر اس کو مانتے ہیں میں اس کو سن رہا ہوں اور مجھے دکھلایا اور بتلایا گیا ہے کہ دنیا میں فقط اسلام ہی حق ہے اور میرے پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ سب کچھ بہ برکت پیروی حضرت خاتم الانبیاء ﷺ تجھ کو ملا ہے اور جو کچھ ملا ہے اس کی نظیر دوسرے مذاہب میں نہیں کیونکہ وہ باطل پر ہیں۔ ‘‘(آئینہ کمالات اسلام ۔ روحانی خزائن جلد۵ صفحہ ۲۷۵ ، ۲۷۶)
اب ہم اس بحث کو ختم کرتے ہیں اور آخر میں ایک دفعہ پھر خدا تعالیٰ کو گواہ کر کے کہتے ہیں کہ راشد علی اور سیّد عبدالحفیظ نے جو بھی اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یا آپ ؑ کی جماعت پر کیا ہے وہ سراسر باطل جھوٹا اور حقیقت کے خلاف ہے ہم ان کا معاملہ حوالہ بخدا کرتے ہیں۔
Share this:
- Click to share on Facebook (Opens in new window)
- Click to share on Twitter (Opens in new window)
- Click to share on Reddit (Opens in new window)
- Click to share on Tumblr (Opens in new window)
- Click to share on Pinterest (Opens in new window)
- Click to share on Telegram (Opens in new window)
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window)
- Click to email a link to a friend (Opens in new window)
- Click to print (Opens in new window)
Discover more from احمدیت حقیقی اسلام
Subscribe to get the latest posts sent to your email.