ثناء اللہ امرتسری اور محمد علی لاہوری کا حلف سے فرار

Ahmady.org default featured image

مولوی ثناء اللہ صاحب اپنے اخبار اہم دیتے ا ساعت ۲۴ جنوری شام ہے میں اپنے متعلق اور مولوی محمد علی صاحب کے متعلق سیٹھ عبد اللہ الدین کے مطالبہ حلف کا ذکر کرتے ہوئے صفحہ ہے

پر فرماتے ہیں:

ہم دونوں کو مولوی محمد علی صاحب پیر غیر سوالعلی اور مولوی ثناء اللہ صاحب راقم) کا اس پر اتفاق ہے ۔ کہ مرزا صاحب مول نہیں تھے۔ اب آئیے قرآن مجید کی تعلیم کیے یہودیوں، جب کیوں اور عرب کے مشرکوں وغیرہ ہم کو یکجا کر کے قرآن مجید کہتا ہے ۔

يقول الذين كفر و الست موسلا کافر کہتے ہیں کہ تو رسول نہیں ہے۔ یہ تحول کل کفار کا مشترک ہے۔ ناظر من خود کریں۔ ے آیت کیسے صاف الفاظ میں بتا رہی ہے۔

کہ میرے اور موادی محمد علی صاحب کے خلعت کا مضمون صرف اتنا ہی ہونا چاہیے۔ مالکان

سوزا رسول لا نبي “

مولوی ثناء اللہ صاحب نے قرآن کریم سے

جو مثال دی ہے، وہ تو صرفت اس امر واقعہ کا اظہار ہے۔ کہ جیلہ کفار حضرت محمد رسول الله صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے متعلق کیا کرتے

تھے۔ کاستا مرسلا، مینی تو نبی نہیں ہے۔ اس میں صنعت کا کہاں ذکر ہے کہ اللہ تعالی نے یا حضرت محمد رسول صلی للہ علیہ والہ وسلم نے حملہ کفار کو ان الفاظ میں حلف اٹھانے کی

دعوت دی تھی۔ حلف کے متعلق قرآن کریم سے اس نظیر کا لانا مولوی ثناء اللہ صاحب کو کوئی فائدہ نہیں دیتا۔ اس لئے حلف کے

اسد میں جو آپ نے فرمایا ہے کہ

پس سکندر آباد کا سیمہ عبد اللہ الہ دین

س لے کر میں اس قسم کا حلف قادیان میں

اٹھا چکا ہوں، اور اشتہار مہار شائع کر چکا

ہوں۔ اوراب بھی ایک خلقت اٹھانے کو تیار اور مولوی محمد علی الا حب

کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ ادھر اُدھر کی تالینی باتیں چھوڑ کر صرف یہی مضمون رکھیں۔ ماكان موزا رسولا ولا جيد

یہ بات تو جب قابل اقتضا ہوتی ۔ جب آپ اس آیت کریمہ سے یہ ثابت کرتے کہ جملہ

کمار نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ الہ وسلم کے مطالبہ پر اس قسم کا حلف اٹھایا تھا۔ یا کم از کم اس قسم کے حلف کا ان سے مطالبہ ہو ا تھا۔ اور وہ گریز کرتے تھے۔ اس آیت کا یہ سے صرف کفار کا مشترکہ عقید مالی الكفرملة واحد لینی محمد رسول الله صلی اللہ علیہ والہ وسلم رسول پانی نہیں ظاہر ہوتا ہے اور کچھ بھی نہیں۔

البته موادی صاحب اگر قرآن کریم سے کوئی

ایسی آیت پیش فرماتے جس سے یہ معلوم ہوتا۔ کہ میں قسم کا حلف آپ اٹھانا چاہتے ہیں۔ یا اٹھا چکے ہیں۔ اور جس پر اڑے رنے کی تلقین آپ مولوی محمد علی صاحب کو بھی فرماتے ہیں۔ تو کوئی بات بھی تھی۔ مگر مولوی صاحب نے یہ آیت پیش کر کے ہمارے علم میں اس امر کے متعلق کہ کونسی حلف از دوسے قرآن و حدیث صحیح ہے۔ کوئی اضافہ نہیں فرمایا۔ مولوی صاحب کی پیش کردہ آیت سے اگر کوئی بات ظاہر ہوتی ہے۔ تو اسی قدر ہوتی ہے۔ کہ جملہ کفار کا اس امر میں باہمی اشتراک تھا۔ کہ وہ کہتے تھے۔ کہ تو رسول نہیں”۔ مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ مولوی محمد علی صاحب اور آپ کو اگر دیے بعض دیگر عقائد میں اشتراک نہیں۔ نگردی بات میں اشتراک ہے کہ ہم دونوں میچ بووم علیہ رسول میرا السلام کو رسول تسلیم نہیں کرتے۔ اس اشتراک کے متعلق تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ تکریم نہیں سمجھے کہ اگر دونوں حضرات کا اشتراک قرآن کریب سے اس

قسم کا اشتراک ثابت ہوتا ہے۔ جس قسم کا اشتراک جله کفار کو باہم حاصل تھا۔ تو اس سے جناب سیٹھ عبد اللہ اللہ دیں صاحب کے مطالبہ حلف پر کیا اور کسی طرح روشنی پڑتی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا کہ آپ کا طریق علف تو درست ہے۔ مگر سیٹھ صاحب کا نہیں، البتہ مولوی صاحب کی تحریر سے بھی اتنی بات ضرور واضح ہوتی ہے که مولوی صاحب سیٹھ عبد اللہ اللہ دین صاحب کے مطالبہ حلف کے الفاظ کے مطالبی خلعت اٹھانے پر تیار نہیں۔ اور صرفت اپنے الفاظ میں حلف اٹھانے کے لئے تیار ہیں۔

اور اپنے الفاظ کی تائید میں قرآن کریم کی ایسی آیت پیش کرتے ہیں۔ جس کو حلف سے درد بھی تعلق نہیں۔

اس سے صرف یہی بات ظاہر ہوتی ہے۔ کہ مولوی ثناء اللہ صاحب علی مولوی محمد علی صاحب کی طرح سیٹھ عبد الله الردی صاحب کے مطالبہ حلف کے الفاظ میں حالت اٹھانے سے گریز کرتے ہیں۔ اور محض دنیا کو دکھانے کے لئے کبھی کبھی اس معاملہ پر قلم فرسائی کر چھوڑتے ہیں۔ تاکہ دنیا کو یہ معلوم ہو۔ کہ آپ مصروف پہلے قسم کھا چکے ہیں۔ یکہ اب ایک بار اور بھی تیار ہیں۔ اس لئے ہم وہی شعر و ہراتے ہیں ۔ جو مولوی صحاب نے اپنی تحریر کے اخیر میں لکھا ہے وہ نہیں وہ قول کا پکا ہمیشہ قول دے دے کر جو اس نے ہاتھ میرے ہاتھ پر مارا تو کیا بارا اس نے میرے ہاتھ پر مارا تو کیا بارا


Discover more from احمدیت حقیقی اسلام

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply