Search
Close this search box.

متفرق اعتراضات ۔ اشتہار 28مئی 1900ء ”سبحان الذی اسریٰ ” میں مسجد اقصیٰ سے مسجد اقصیٰ قادیان مراد ہے

فہرست مضامین

Ahmady.org default featured image
متفرق اعتراضات ۔ اشتہار 28مئی 1900ء ”سبحان الذی اسریٰ ” میں مسجد اقصیٰ سے مسجد اقصیٰ قادیان مراد ہے

اعتراض 20:۔
‘‘اشتہار 28مئی 1900ء ”سبحان الذی اسریٰ ” میں مسجد اقصیٰ سے مسجد اقصیٰ قادیان مراد ہے۔’’

(مجموعہ اشتہارات جلد3صفحہ289حاشیہ)

مرزائیو!پڑھو۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔ہم اس جھوٹ کے متعلق کچھ لکھنا نہیں چاہتے۔اس کا فیصلہ آپ پر چھوڑتے ہیں۔

جواب:۔
حضرت مرزا صاحب کی لطیف کشفی و الہامی تفسیر جو آنحضرتﷺ کے کمالات عالیہ کا اظہار ہے معترض کو پسند نہیں تو اس پر جھوٹ کا الزام لگا دینا کہاں کی شرافت ہے۔

اصول تفسیر: 1۔تفسیر بالقرآن 2۔تفسیر بالمأثور رسول 3۔تفسیر بالمأثورصحابہ 4۔ تفسیر بالالہام

صرف تفسیر بالرائے منع ہے۔

حجۃ الاسلام حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنی کتاب ‘‘الفوز الکبیر فی اصول التفسیر’’ میں فرماتے ہیں:

‘‘فنون تفسیر کے دو تین اور فن بھی فیض الہٰی کے نامتناہی دریا سے القاء ہوتے ہیں۔اگر سچ پوچھتا ہے تو میں قرآن مجید کا بلا واسطہ ایسا ہی شاگرد ہوں جیسا کہ روح پر فتوح حضرت رسالت مآب ﷺ کا اویسی ہوں۔’’

(الفوز الکبیراردو ترجمہ ص71مطبع علی گڑھ 1914ء)

پھر اپنی کتاب ‘‘تفہیمات الہیہ’’ میں لکھتے ہیں:

‘‘علمنی ربی جل جلالہ علم التفسیر فی کلمات یسیرة۔ھی ان الایمان الحقیقی ودیعة فی کل نسمة بحسب الفطرة ولکن الناس استولی علیھم سرور عالم التخلیط فانزل اللہ القرآن لتنقھر بہ طباعھم’’

(تفھیمات الٰھیة جزء 2 ص147)

انہوں نے 500 آیات منسوخہ کو حل کر دیا،صرف 20 رہ گئیں۔

اصل عبارت

حضور فرماتے ہیں:

”میں نے اپنی کتاب براہین احمدیہ میں خدا تعالیٰ کا یہ کلام جو میری زبان پر جاری کیا گیا لکھا تھا کہ انا انزلناہ قریبا من القادیان وبالحق انزلناہ وبالحق نزل صدق اللہ ورسولہ وکان امر اللہ مفعولا۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ 498 ۔ یعنی ہم نے اس مسیح موعودکوقادیان میں اتارا ہے اور وہ ضرورت حقہ کے ساتھ اتارا گیا اور ضرورت حقہ کےساتھ اترا ۔ خدا نے قرآن میں اوررسول نے حدیث میں جوکچھ فرمایاتھاوہ اس کےآنےسےپوراہوا۔اس الہام کےوقت جیسا کہ میں کئی دفعہ لکھ چکا ہوں مجھے کشفی طور پر یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ یہ الہام قرآن شریف میں لکھا ہوا ہے اور اس وقت عالم کشف میں میرے دل میں اس بات کا یقین تھا کہ قرآن شریف میں تین شہروں کا ذکر ہے یعنی مکہ اور مدینہ اور قادیاں کا۔ اس بات کو قریبا بیس برس ہو گئے جبکہ میں نے براہین احمدیہ میں لکھا تھا۔ اب اس رسالہ کی تحریر کے وقت میرے پر یہ منکشف ہوا کہ جو کچھ براہین احمدیہ میں قادیان کے بارے میں کشفی طور پر میں نے لکھا یعنی یہ کہ اس کا ذکر قرآن شریف میں موجود ہے درحقیقت یہ صحیح بات ہے کیونکہ یہ یقینی امر ہے کہ قرآن شریف کی یہ آیت کہ سبحان الذی اسریٰ بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصیٰ الذی بارکنا حولہ معراج مکانی اور زمانی دونوں پر مشتمل ہے اور بغیر اس کے معراج ناقص رہتا ہے۔ پس جیسا کہ سیر مکانی کے لحاظ سے خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد الحرام سے بیت المقدس تک پہونچا دیا تھا ایسا ہی سیر زمانی کے لحاظ سے آنجناب کو شوکت اسلام کے زمانہ سے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تھا برکات اسلامی کے زمانہ تک جو مسیح موعود کا زمانہ ہے پہونچا دیا۔ پس اس پہلو کے رو سے جو اسلام کے انتہاء زمانہ تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سیر کشفی ہے مسجد اقصیٰ سے مراد مسیح موعود کی مسجد ہے جو قادیان میں واقع ہے۔”

(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ288،289حاشیہ درحاشیہ)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

”ماحصل اس معراج کا یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خیر الاولین والآخرین ہیں۔ معراج جو مسجد الحرام سے شروع ہوا۔ اس میں یہ اشارہ ہے کہ صفی اللہ آدم کے تمام کمالات اور ابراہیم خلیل اللہ کے تمام کمالات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود تھے اور پھر اس جگہ سے قدم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکانی سیر کے طور پر بیت المقدس کی طرف گیا۔ اور اس میں یہ اشارہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں تمام اسرائیلی نبیوں کے کمالات بھی موجود ہیں اور پھر اس جگہ سے قدم آنجناب علیہ السلام زمانی سیر کے طور پر اس مسجد اقصیٰ تک گیا جو مسیح موعود کی مسجد ہے۔ یعنی کشفی نظر اس آخری زمانہ تک جو مسیح موعود کا زمانہ کہلاتا ہے پہونچ گئی۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ جو کچھ مسیح موعود کو دیا گیا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں موجود ہے اور پھر قدم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آسمانی سیر کے طور پر اوپر کی طرف گیا اور مرتبہ قاب قوسین کا پایا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مظہر صفات الہٰیہ اتم اور اکمل طور پر تھے۔ غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس قسم کا معراج یعنی مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک جو زمانی مکانی دونوں رنگ کی سیر تھی اور نیز خدا تعالیٰ کی طرف ایک سیر تھا مکان اور زمان دونوں سے پاک تھا۔ اس جدید طرز کی معراج سے غرض یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم خیر الاولین والآخرین ہیں اور نیز خدا تعالیٰ کی طرف سیر ان کا اس نقطہ ارتفاع پر ہے کہ اس سے بڑھ کر کسی انسان کو گنجائش نہیں۔”

(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ288،289حاشیہ درحاشیہ)


Discover more from احمدیت حقیقی اسلام

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply