متفرق اعتراضات ۔ تاریخ کودیکھوکہ آنحضرت ﷺ وہی ایک یتیم لڑکاتھاجس کاباپ پیدائش سے چنددن بعدفوت ہوگیا
جواب مبشر احمد کاہلوں صاحب
جواب حافظ مظفر احمد صاحب
اعتراض:۔
مضمون نگار حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام کی کتاب ’پیغام صلح‘ صفحہ 27 کاایک فقرہ درج کرتاہے ۔ وہ فقرہ یہ ہے۔ حضورؑفرماتے ہیں ”تاریخ کودیکھوکہ آنحضرت ﷺ وہی ایک یتیم لڑکاتھاجس کاباپ پیدائش سے چنددن بعدفوت ہوگیا۔“
(پیغام صلح۔رخ جلدنمبر23صفحہ نمبر465)
اس فقرے کودرج کرکے مضمون نگارکہتاہے ”مرزاجی کایہ جھوٹ اتناواضح ہے کہ مزیدحوالہ دینے کی ضرورت نہیں۔ہرشخص کومعلوم ہے کہ آپ ﷺ کے والدآپ ﷺ کی پیدائش مبارک سے قبل ہی فوت ہوگئے تھے“۔
جواب:۔
یہ اعتراض مضمون نگارکے اپنے الفاظ میں ہے جومیں نے قارئین کی خدمت میں پیش کیاہے۔
قارئین! ’ پیغام صلح‘ کے اس جملے کے سیاق وسباق میں مضمون یہ بیان ہورہاہے کہ مخالفین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام تلوارکے زورسے پھیلاہے۔ حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام اس اعتراض کے جواب میں جومضمون لکھ رہے ہیں اس مضمون میں سے یہ فقرہ لیاگیاہے۔
حضورؑنے جوجواب لکھا۔اس جواب کاخلاصہ یہ ہے کہ آپؑ فرماتے ہیں کہ جب رسول پاک ﷺ نے دعویٰ فرمایاتوآپ کے پاس کوئی فوج نہیں تھی۔آپ کوئی صاحب اقتدارشخصیت نہیں تھے۔لوگوں کاجتھہ آپ کے ہمرکاب نہیں تھاتوکس تلوارسے آپ نے لوگوں کو زبردستی اسلام میں داخل کیا؟ اورکس بادشاہ سے آپ نے مددمانگی کہ اپنی فوج بھیجوجن کی مددکے سہارے میں لوگوں کوزبردستی دین اسلام میں داخل کروں؟
یہ خلاصہ ہے اس مضمون کا۔ تواس مضمون کی ابتداء میں حضرت بانی جماعت احمدیہ یہ تحریرفرمارہے ہیں کہ حضرت رسول پاک ﷺ کے پاس کوئی فوج نہیں تھی ۔ آپ جب پیداہوئے توتھوڑے ہی عرصہ کے بعدآپ کے والدفوت ہوگئے پھرکچھ عرصے کے بعدآپ کی والدہ فوت ہوگئیں۔ پھرآپ کے دادافوت ہوگئے۔توانہی لوگوں کی امدادکے سہارے آپ اپنی قوم میں اثرورسوخ پیدا کرسکتے تھے مگرآپ کی ابتداء تویوں ہوئی ۔ توکس فوج نے آپ کی مددکی؟ کون سالشکرآپ کے ساتھ شامل ہوا؟ یہ وہ مضمون ہے۔ اس پروہ کہتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے۔
جھوٹ کس کوکہتے ہیں؟ جھوٹ کہتے ہیں کہ کسی انسان کواس بات کاعلم ہوکہ فلاں بات یوں ہے اورپھریہ جانتے بوجھتے ہوئے اس علم کی موجودگی کے باوجود حقیقت کے خلاف کسی غلط بات کااظہارکرے، اس کانام جھوٹ ہے۔آپ یہ تو کہہ سکتے تھے کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ کو غلطی لگی۔ آپ یہ کہہ سکتے تھے کہ آپؑ نے جو تاریخ کی کتابوں میں مضمون پڑھا تھایہ مضمون لکھتے وقت آپؑ بھول گئے مگر اس کو جھوٹ نہیں کہہ سکتے ۔ جھوٹ تو انسان یا کوئی فائدہ حاصل کرنے کے لئے یاکسی دوسرے کو نقصان پہنچانے کے لئے بولا کرتا ہے اس میں کیا فائدہ تھا اگر آپؑ نعوذ باللہ یہ جھوٹ بول رہے ہیں۔یا کس کو نقصان پہنچانا مقصود تھا اگر آپؑ جھوٹ بول رہے ہیں؟
قرآن پاک ،احادیث اس بات سے بھری پڑی ہیں کہ نبی واقعہ بھول جاتے ہیں،نبیوں کو اندازے میں غلطی لگ جاتی ہے تواس کو جھوٹ نہیں کہا جاتا۔
تاریخ کی کتابیں اس بات سے بھری پڑی ہیں کہ حضرت رسول پاک ﷺکے والد کی وفات ایک اختلافی مسئلہ ہے۔ بعض موٴرخین کہتے ہیں کہ حضرت رسول پاک ﷺ کے والد محترم حضرت عبداللہ آپ کی پیدائش سے پہلے فوت ہو گئے ۔ دوسرے موٴرخین کہتے ہیں کہ حضرت رسول پاک ﷺ کے والد محترم آپ کی پیدائش کے بعد فوت ہوئے ۔ کوئی پہلے قول کو درست قرار دیتا ہے کوئی دوسرے قول کو درست قرار دیتا ہے۔ یہ مضمون تفسیر کی کتابوں میں بھی بیان ہے تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں بھی بیان ہے۔ نمونے کے طور پر وقت کی مناسبت کے اعتبار سے میں چند کتابوں کے اقتباس قارئین کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں۔
(1) ’ تفسیر ابن کثیر‘ ہے جلد 5۔جس کے مصنف امام ابن کثیر774 ھ میں فوت ہوئے ۔قرآن پاک کی آیت اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰی (سو رة الضحیٰ) کی تفسیر کے نیچے انہوں نے اس بات کا تذکرہ کیا ہے۔ اصل کتاب تفسیر ابن کثیر کی عربی زبان میں ہے اس کے اردو ترجمہ کا حوالہ دے رہا ہوں جو مکتبہ قدوسیہ اردو بازار لاہور نے شائع کیا۔ امام ابن کثیر اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰی کی تفسیر میں درج کرتے ہیں ”آپ ﷺ کے والد کا انتقال تو آپ کی پیدائش سے پہلے ہی ہو چکا تھا ،بعض کہتے ہیں ولادت کے بعد ہوا“۔
اگر یہ بات کہنا کہ حضرت رسول پاک ﷺکے والد آپ کی پیدائش کے بعد فوت ہوئے ، جھوٹ ہے تو امام ابن کثیر فرماتے ہیں موٴرخین کی دو قسمیں ہیں بعض کہتے ہیں کہ آپ کے والد کا انتقال تو آپ کی پیدائش سے پہلے ہی ہو چکا تھا۔ بعض کہتے ہیں ولادت کے بعد ہوا۔ تو جوموٴرخین یہ کہتے ہیں کہ آپ کے والد کا انتقال آپ کی پیدائش کے بعد ہوا ۔وہ مضمون نگارکی نگاہوں میں شاید کذب بیانی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔
(2) محقق الاثر مولانا محمد عاشق الٰہی مہاجر مدنی کی کتاب اردو زبان میں ہے ’انوا رالبیان فی کشف الاسرار القرآن ‘اس کی جلد پنجم مکتبۃالعلم اردو بازار لاہور پاکستان نے شائع کی ہے ۔اس میں بھی انہوں نے اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰی کی آیت کے نیچے دونوں اقوال درج کئے ہیں اس کے صفحہ657 میں وہ لکھتے ہیں ” رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ابھی بطن مادر ہی میں تھے کہ آپ کے والد کی وفات ہو گئی (اور ایک قول یہ ہے کہ آپکی پیدائش کے بعد انکی وفات ہوئی“)۔
(3) تیسرا حوالہ استادمحی الدین الدرویش کی کتاب ’ اعراب القرآن الکریم و بیانُہ ‘کی دسویں جلد سے لیا گیا ہے۔ یہ کتاب مصر سے شائع ہوئی ہے دار الارشاد للشوٴون الجامعیہ کی طرف سے۔ اس کتاب کے صفحہ 510پر مصنف لکھتے ہیں أَنَّ اَبَاہُ مَاتَ وَھُوَجَنِیْنٌ رسول پاک ﷺ ابھی اپنی ماں کے پیٹ میں تھے کہ آپ کے والد کی وفات ہو گئی وَقَبْلَ وَلَادَتِہ بِشَھْرَیْنِ اور آپ کی ولادت سے دو ماہ پہلے آپ کے والد محترم کی وفات ہوئی وَقِیْلَ کہتے ہیں ایک قول یہ ہے بَلْ بَعدَ وَلَادَتِہ بِشَھْرَیْنِ کہ آپ کی پیدائش کے دو ماہ بعد آپ کے والدمحترم کی وفات ہوئی وَقِیْلَ(تیسرا قول وہ یہ لکھتے ہیں) بِسَبْعَةِ اَشْھُرٍکہ آپ کی پیدائش کے سات ماہ بعدآپ کے والدمحترم کی وفات ہوئی وَقِیْلَ بِتِسْعَةٍ ایک قول یہ لکھتے ہیں کہ آپ کی پیدائش کے نو ماہ بعدآپ کے والدمحترم کی وفات ہوئی وَقِیْلَ بِثَمَانِیَةٍ وَعِشْرِیْنَ شَھْراً کہتے ہیں ایک قول یہ ہے کہ آپ کی پیدائش کے اٹھائیس مہینے بعدآپ کے والدمحترم کی وفات ہوئی ۔
اور مصنف اپنا تبصرہ یہ کرتے ہیں وَالْمَشْھُوْرُ اَلْاَوّلُ ان چار پانچ اقوال میں سے جو سب سے زیادہ مشہور ہے وہ پہلا قول ہے کہ آپ کی پیدائش سے پہلے آپ کے والد محترم کی وفات ہوئی۔
(4) پھر ’ تفسیر جلالین‘ کی شرح’ تفسیرکمالین‘ ہے جو مکتبہ رحمانیہ اردو بازار لاہور نے شائع کی۔ اس کے اردو ترجمہ کی جلد نمبر7 میں صفحہ 299 پروہ لکھتے ہیں ”آنحضرت کے والد ماجد کی وفات بقول ابن سعدآپ کی ولادت سے پہلے ہو گئی تھی۔ ابن اسحاق، ذہبی، ابن کثیرؒ کی رائے بھی یہی ہے اور بعض کی رائے ہے کہ ولادت کے دو تین یا نو ماہ بعد یا دو تین سال کے بعد ہوئی ہے“۔
تفسیر کی کتابوں میں سے چندحوالے نمونے کے طور پر قارئین کی خدمت میں پیش کئے گئے ہیں ۔ اگر حضرت بانی جماعت احمدیہ کا یہ لکھنا کہ حضرت رسول پاک ﷺ کے والد محترم کی وفات آپ کی پیدائش کے بعد ہوئی، جھوٹ ہے تو پھر یہ تمام مفسرین جو یہ لکھ رہے ہیں کہ حضرت رسول پاک ﷺ کی پیدائش کے بعد آپ کے والد کی وفات ہوئی ، سب پر جھوٹ کا الزام لگانا پڑے گا ۔
(5) اہل تشیع قارئین کے لئے بھی ان کی کتابوں میں سے اقتباس پیش ہے ۔اہل تشیع کی کتب اربعہ میں سے’ اصول کافی‘ کا اردوترجمہ جس کا نام ’الشافی ترجمہ اصول کافی‘ ہے ۔ مولاناظفرحسن صاحب امروہی نے اس کا ترجمہ کیاہے اور ظفرشمیم پبلیکیشنز ٹرسٹ ناظم آباد کراچی سے شائع ہوا۔ اس کی جلد نمبر سوئم باب نمبرایک سودس۔ جس کا عنوان ہے اَبْوَابُ التَّارِیْخِ باب مَوْلِدِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَوَفَاتِہ۔اس میں انہوں نے صرف ایک ہی قول لکھا ہے یہ کہتے ہیں وَتوُفِّیَ اَبُوْہُ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بِالْمَدِیْنَةِ رسول پاک ﷺکے والد محترم عبد اللہ بن عبد المطلب مدینہ میں فوت ہوئے عِنْدَ اَخْوَالِہ اپنے ماموٴوں کے پاس فوت ہوئے۔ کب فوت ہوئے، لکھتے ہیں وَھُوَابْنُ شَھْرَیْنِ جب رسول پاک ﷺ کی عمر دو مہینے تھی۔
جس طرح اہل سنت میں حدیث کی کتابوں میں سے سر فہرست نمبرایک ’ بخاری‘ سمجھی جاتی ے اسی طرح اہل تشیع کے ہاں حدیث کی کتابوں میں سے نمبر ۱یک ’ اصول کافی‘ سمجھی جاتی ہے تو اس میں انہوں نے صرف ایک ہی قول لکھا کہ رسول پاک ﷺ کی پیدائش کے دو مہینے بعد آپ کے والد محترم کی وفات ہوئی۔ اگلے صفحے پر اس عربی عبارت کا ترجمہ ہے آخری پیراگراف میں۔ ترجمہ یہ کیاگیا ہے اس فقرے کا ”اور آپ کے والد حضرت عبد اللہ نے مدینہ میں اپنے ماموٴوں کے پاس انتقال کیا جبکہ آپ صرف دو ماہ کے تھے“۔
دوستو ! حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام کا یہ لکھنا کہ حضرت رسول پاک ﷺ کی پیدائش کے بعد آپ کے والد محترم کی وفات ہوئی تھی اگر یہ جھوٹ ہے تو یہ تمام موٴرخین جو اس بات کا اظہار کر رہے ہیں سب کو نعوذ باللہ جھوٹ کے الزام کے نیچے لانا پڑے گا۔
(6)پھر’ مختصر سیرة الرسول ﷺ ‘ اردو ( اصل کتاب عربی زبان میں تصنیف ہوئی) جو طارق اکیڈمی ڈی گراوٴنڈ پیپلز کالونی فیصل آباد نے شائع کی ہے۔اس کتاب کے مصنف شیخ الاسلام امام محمد بن عبدالوہاب ہیں۔ بارھویں صدی ہجری میں سعودی عرب میں ہوئے۔
عجیب اتفاق ہے یہ مضمون جس کے بارے میں ،میں گزارشات پیش کر رہا ہوں یہ مضمون نگار اہل حدیث فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ رسالہ بھی اہل حدیث فرقے کا ہے اور اہل حدیث فرقے کے ہاں شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب ؒ بڑی ہی قابل احترام شخصیت سمجھی جاتی ہیں۔ ان کی کتاب ’ مختصر سیرة الرسول ﷺ ‘ کا جو اردو ترجمہ ہے اس کے صفحہ 94 پر عنوان ہے ” والد گرامی کی وفات“ ۔ کہتے ہیں ” آپ کے والد گرامی منزلت کی وفات کے متعلق اختلاف ہے“۔ یہ نہیں کہتے کہ اتفاق ہے ۔ مضمون نگار اپنے اس رسالے میں اپنے مضمون میں اپنے قارئین کو یہ تأثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ حضرت رسول پاک ﷺ کے والد محترم کی وفات کا مسئلہ متفقہ ہے۔ سارے کے سارے اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ آپ کے والد محترم رسول پاک ﷺکی پیدائش سے پہلے فوت ہو چکے تھے مگر بارھویں صدی ہجری کے بزرگ حضرت امام محمدبن عبد الوہابؒ اہل حدیث فرقہ کی قابل احترام شخصیت ۔ وہ اپنی کتاب میں اس عنوان کے نیچے پہلا جملہ ہی یہ لکھتے ہیں کہ یہ مسئلہ متفقہ نہیں ہے ۔ فرماتے ہیں ” آپ کے والد گرامی منزلت کی وفات کے متعلق اختلاف ہے کہ آپ کی ولادت باسعادت سے قبل ہوئی یا بعد؟ “۔
اگر آپ کی ولادت کے بعد آپ کے والد گرامی کی وفات قرار دینا جھوٹ ہے تو پھر حضرت امام عبد الوہاب ؒ جن موٴرخین کا تذکرہ کر رہے ہیں کہ وہ بعد میں آپ کی وفات کے قائل ہیں سبھی کو جھوٹا قرار دینا پڑے گا نعوذ باللہ ۔ فرماتے ہیں ” اختلاف ہے کہ آپ کی ولادت باسعادت سے قبل ہوئی یا بعد؟ اکثر علماء کا کہنا ہے کہ آپ ابھی شکم مادر ہی میں تھے کہ آپ کے والد اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے ۔“ یہ فقرہ قابل غور ہے قارئین ! یہ نہیں لکھتے کہ تمام علماء کا کہنا ہے کہ آپ ابھی شکم مادر ہی میں تھے کہ آپ کے والد اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے ۔ کہتے ہیں اس میں علماء کا اختلاف ہے ۔
(7) علامہ المحقق السید جعفرمرتضیٰ العاملی کی کتاب ’الصّحیح من سیرة النّبی الاعظم ﷺ ‘ کی دوسری جز کی فصل اول کا عنوان ہے عَھْدُ الطُّفُوْلَةِ آپ کا بچپن کا زمانہ۔ اس میں صفحہ 173 پرزیر عنوان فَقْدُالنَّبِیِّ ﷺ لِاَبَوَیْہِ کہ نبی پاک ﷺ کے والدین کی وفات۔ اس میں انہوں نے دو قول لکھے ہیں۔ کہتے ہیں لَقَدْ شَاءَ تِ الْاِرَادَةُ الْاِلٰہِیَّةُ الٰہی منشاء نے اس بات کا ارادہ کیا اَنْ یَّفْقِدَالنَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وسَلَّمَ اَبَاہُ کہ نبی پاک ﷺ اپنے والد سے محروم ہو جائیں ۔ آگے انہوں نے اس جملے کی تشریح دوفقروں میں کی۔کہتے ہیں وَھُوَلَایَزَالُ جَنِیْنًا اَوْطِفْلًاصَغِیراً کہ نبی پاک ﷺ یا تو پیدائش سے پہلے ہی باپ سے محروم ہو گئے یا جب آپ چھوٹے بچے تھے اس وقت آپ اپنے باپ کے سایہ سے محروم ہو گئے ۔
(8) امام محمد طاہر الہندی الگجراتی جو 986ھ میں فوت ہوئے اپنی کتاب’ مجمع بحار الانوار ‘جو قرآن کریم کی ڈکشنری ہے کی پانچویں جز میں زیر عنوان بَیَانُ نَسَبِہ آپ ؐکے نسب کا بیان۔ صفحہ نمبر 265 پرتحریر کرتے ہیں قَدْبَعَثَہ عبْدُالْمُطَّلِبِ اِلیٰ یَثْرِ بَ حضرت عبد المطلب نے رسول پاک ﷺ کے والد محترم کو یثرب یعنی مدینہ منورہ میں بھیجا یَمْتَارُ لَہ تَمْراً کہ وہاں سے کھجوریں لے کر آئے فَتُوُفِّیَ بِھَا حضرت عبداللہ یعنی رسول پاک ﷺ کے والد محترم مدینہ منورہ میں فوت ہو گئے فِیْ مُدَّةِ الْحَمْلِ رسول پاک ﷺ کی پیدائش سے پہلے دوران حمل ہی میں وَقِیلَ کہتے ہیں ایک قول یہ ہے کہ آپ (رسول پاک کی)پیدائش سے پہلے فوت نہیں ہوئے بَلْ تُوُفِّیَ بلکہ آپ کے والدمحترم کی وفات ہوئی بَعْدَمَا اَتٰی عَلَی النَّبِیِّ ﷺ ثَمَانِیَةٌ وَّعِشْرُوْنَ شَھْراً جب نبی پاک ﷺ کی پیدائش پر اٹھائیس مہینے گزر گئے یعنی جب آپ کی عمر اٹھائیس مہینے ہوئی تو آپکے والدمحترم کی وفات ہوئی۔
(9) امام ابن سید الناس جو 671 ھ میں پیدا ہوئے اور734ھ میں فوت ہوئے۔سیرت النبی پراپنی کتاب ’ عیونُ الاثر فی فنون المغازی والشّمائل والسّیر۔ جلد اوّل جو بیروت لبنان سے ادارہ دارالقلم نے شائع کی۔ اس کے صفحہ نمبر 32 پر زیر عنوان”ذِکْرُ وَ فَاةِ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ“حضرت عبداللہ بن عبد المطلب کی وفات کا تذکر ہ۔ پہلا پیراہی یہ ہے ،لکھتے ہیں قَالَ ابْنُ اِسْحَاقَ ابن اسحاق جو سیرت ابن اسحاق کے مصنف ہیں۔
’سیرت ابن اسحاق‘ اور’ سیرت ابن ہشام‘ یہ دو موٴلفین کی رائے یہ ہے کہ حضرت رسول پاک ﷺ کے والدمحترم آپ کی پیدائش سے پہلے فوت ہوگئے۔تو جن لوگوں نے صرف ان میں سے کسی کی کتا ب پڑھی ہوتی ہے وہ اپنی تقریر اور تحریر میں اسی بات کا تذکرہ کر تے ہیں کہ رسول پاک ﷺ کے والد محترم آپ کی پیدائش سے پہلے فوت ہوئے۔ لیکن دیگرموٴرخین دوسرے اقوال کا بھی تذکر ہ کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ کہتے ہیں قَالَ ابْنُ اِسْحَاقَ سیرت ابن اسحاق کے موٴلف ابن اسحاق کہتے ہیں ثُمَّ لَمْ یَلْبَثْ عَبْدُاللّٰہِ ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ اَنْ ھَلَکَ کہ حضر ت عبداللہ بن عبد المطلب فوت ہو گئے وَاُمُّ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ حَامِلٌ بِہ اور رسول پاک ﷺ کی والدہ محترمہ کو حضرت رسول پاک ﷺ کا حمل موجود تھا یعنی آپ کی پیدائش سے پہلے آپ کے والد محترم انتقال کر گئے۔ کہتے ہیں ھٰذَا قَوْلُ اِبْنِ اِسْحَاقَ یہ سیرت ابن اسحاق کے موٴلف ابن اسحاق کا قول ہے۔ اگلا جملہ قابل توجہ ہے لکھتے ہیں وَغَیْرُہ یَقُوْلُ سیرت ابن اسحاق کے موٴلف ابن اسحاق کے علاوہ دوسرے موٴرخین کہتے ہیں اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ کَانَ فِیْ الْمَھْدِ رسول پاک ﷺ بچپن کی عمر میں تھے پنگوڑے میں تھے حِیْنَ تُوُفِّیَ اَبُوْہُ جب آپ کے والد محترم کا انتقال ہوا ۔کہتے ہیں رَوَیْنَاہُ عَنِ الدُّوْلَابِیْ یہ روایت موٴرخ دولابی نے بیان کی ہے۔ آگے کہتے ہیں وَذَکَرَ ابْنُ اِبِیْ خَیْثَمَةَ ابن ابی خیثمہ نے اس بات کا ذکر کیا ہے اَنَّہ کَانَ اِبْنَ شَھْرَیْنِ کہ رسول پاک ﷺ کی عمر دو مہینے تھی کہ آپ کے والد محترم کا انتقال ہوا وَقِیْلَ کہتے ہیں ایک قول یہ ہے اِبْنَ ثَمَانِیَةٍ وَّعِشْرِیْنَ شَھْراً کہ رسول پاک کی عمر اٹھائیس مہینے تھی جبکہ آپ کے والد محترم کا انتقال ہوا وَقِیْلَ اور ایک قول یہ ہے بَلْ خَرَجَ بِہ اِلٰی اَخْوَالِہ زَائِراً کہ آپ کے والد محترم رسول پاک ﷺ کو اپنے ساتھ لے کر اپنے ماموٴوں کے پاس گئے مدینہ میں وَھُوَ ابْنُ سَبْعَةِ اَشْھُرٍ اور رسول پاک ﷺ کی عمر سات مہینے تھی کہ وہاں آپ کے والد محترم کا اپنے مامووں کے پاس مدینہ میں انتقال ہو گیا ۔
(10) ’سیرت سید الانبیاء ﷺ‘ پر مشتمل ابن جوزی کی کتاب ’الوفا باحوال المصطفےٰ ﷺ ‘ کا اردو ترجمہ جو فرید بک سٹال اردو بازار لاہور نے شائع کیا ہے ۔اس میں اٹھارھویں باب کے آخری پیرے میں یہ مضمون بیان ہوا ۔ اس کے صفحہ 117 پر ابن جوزی لکھتے ہیں ” نبی اکرم ﷺ ابھی حضرت آمنہ کے بطن اقدس میں تھے کہ یتیم ہو گئے“۔ یہ وہی ابن اسحاق اور ابن ہشام کا قول درج کیا ۔آخری فقرہ یہ ہے ” ایک روایت یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ کا وصال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے بعد ہوا“ ابن جوزی لکھتے ہیں ’ ’ مگر یہ صحیح نہیں ۔“ یعنی دوسرے موٴرخین کا یہ جوخیال ہے کہ آپ کے والد محترم رسول پاک ﷺ کی پیدائش کے بعد فوت ہوئے۔ ابن جوزی کی رائے میں وہ درست نہیں ۔ کیونکہ کوئی ابن اسحاق اورابن ہشام کی رائے کو درست قرار دیتا ہے کوئی دوسرے موٴرخین کی رائے کو درست قرار دیتا ہے ۔
(11) حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی ؒ کی کتاب ’مدارج النبوت‘جو فارسی زبان میں ہے کی دوسری جلد کے صفحہ نمبر19پر تحریر ہے ۔ ”محمدبن اسحاق گوید“ کہ ابن اسحاق کہتاہے ”آنحضرت درشکم مادربود کہ وفات یافت عبداللہ“ کہ رسول پاک ﷺ کی پیدائش سے پہلے ہی آپ کے والدمحترم فوت ہوگئے” وبعضی گویند“ اور بعض دوسرے موٴرخین کہتے ہیں” درمہدبود“ کہ رسول پاک ﷺ کی پیدائش ہوچکی تھی آپ بچپن میں تھے پنگھوڑے میں تھے کہ آپ کے والد محترم کا انتقال ہوا ۔ کہتے ہیں” بیست ہشت ماہہ“کہتے ہیں بعض موٴرخین کے نزدیک آپ ﷺکی عمر اٹھائیس مہینے تھی ”یا ہفت ماہہ“کہتے ہیں بعض موٴرخین کے نزدیک آپ کی عمر سات مہینے تھی یا”دوماہہ“ یا بعض موٴرخین کے نزدیک آپ کی عمر دومہینے تھی کہ آپ کے والد محترم کامدینہ میں انتقال ہوا۔کہتے ہیں ” وایں قول اصحح اقوال است“ حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی ؒ کے نزدیک آپ کی پیدائش کے دو مہینے بعد آپ کے والد محترم کا انتقال ۔ اس کے بارے میں وہ اپنی رائے درج کرتے ہیں کہ” ایں قول اصحح اقوال است“ کہ تمام اقوال میں سے سب سے صحیح ترین قول یہ ہے۔
(12) سیرت ابن ہشام کی ایک شرح ’الروض الانف‘ کے نام سے امام سہیلی نے لکھی ہے۔ یہ 581 ھ میں فوت ہوئے ۔ یہ بیروت لبنان سے شائع ہوئی۔وہ اس کے صفحہ نمبر 283 پر لکھتے ہیں عنوان ہے تَحْقِیْقُ وَفَاةِ اَبِیْہِ آپ کے والد کی وفات کی تحقیق ۔ کہتے ہیں وَذَکَرَ امام ابن ہشام نے ذکر کیا ہے اَنَّہ مَاتَ اَبُوْہُ وَھُوَ حَمْل ٌ رسول پاک ﷺ کی پیدائش سے پہلے آپ کے والدمحترم فوت ہوگئے ۔ ابن ہشام کی سیرت کے شارح امام سہیلی لکھتے ہیں اگلے فقرہ میں وَاَکْثَرُالْعُلَمَآءِ عَلٰی اَنَّہ کَانَ فِیْ الْمَھْدِ کہ اکثر علماء کا خیال ہے کہ رسول پاک ﷺ پنگھوڑے کی عمر میں تھے کہ آپ کے والد محترم کا انتقال ہوا ذَکَرَہ الدُّوْلَابِیْ وَ غَیْرُہ کہتے ہیں پیدائش کے بعد والدمحترم کی وفات کاتذکرہ دولابی اور دوسرے موٴرخین نے کیا ہے قِیْلَ اِبْنَ شَھْرَیْنِ ایک قول یہ ہے کہ آپ کی عمر دو مہینے تھی کہ والد محترم کا انتقال ہو ا۔ اورکہتے ہیں یہ قول امام احمدبن ابی خیثمہ کاہے وَقِیْلَ اَکْثَرُ مِنْ ذٰلِکَ بعض کہتے ہیں کہ آپ کی عمردومہینے سے زیادہ تھی کہ آپ کے والدمحترم کاانتقال ہوا وَقَدْقِیْلَ مَاتَ اَبُوْہُ ایک قول یہ ہے کہ جب آپ کے والد محترم فوت ہوئے وَھُوَابْنُ ثَمَانٍ وَّعِشْرِیْنَ شَھْراً اُس وقت آپ کی عمر اٹھائیس مہینے تھی ۔
(13) ’ طبقات ابن سعد‘ کی پہلی جز جو لبنان سے شائع ہو ئی ۔اس کے صفحہ نمبر 46 پر عنوان ہے ”ذِکْرُوَفَاةِ عَبْدِ اللّہِ ابْنِ عَبْدِالْمُطَلِبِ انہوں نے بھی دونوں اقوال ذکرکئے ہیں اور کہتے ہیں کہ میرے نزدیک رسول پاک ﷺکی پیدائش سے پہلے جووفات کاخیال ہے وہ درست ہے لیکن دوسرے اقوال کابھی انہوں نے تذکرہ کیا۔
(14) سیرت کی کتاب جوبیروت سے شائع ہوئی ’لباب الخیارفی سیرة المختار‘جوالشیخ مصطفٰی الغلایینی کی ہے۔ جو دمشق میں تفسیراور عربی علوم کے استاد رہے۔ انہوں نے صفحہ نمبر23پرعنوان باندھا ہے اَلدَّوْرُالْاَوَّلُ مِنْ حَیَاتِہ کہ حیا ت نبوی کادورِاوّل۔ کہتے ہیں ثُمَّ لَمْ یَلْبَثْ اَبُوْہُ اَنْ تُوُفِّیَ وَھِیَ حَامِلٌبِہ رسول پاک ﷺکی پیدائش سے پہلے ہی آپ کے والد کی وفات ہوگئی اَوْبَعْدَ وَضْعِہ بِشَھْرَیْنِ یا آپ کی پیدائش کے دو مہینے بعدآپ کے والد محترم کی وفات ہوئی۔ دونوں اقوال کاتذکرہ کرتے ہیں۔
(15) امام عبدالقادر بن محمدالمقریزی کی ’امتاع الاسماع‘۔ سیرت کی کتاب ہے، یہ صاحب 845ھ میں فوت ہوئے ۔ بیروت لبنان سے یہ شائع ہوئی۔ اس کے جز اوّل صفحہ نمبر 9پرعنوان ہے مَوْتُ اَبِیْہِ آپ کے والد محترم کاانتقال۔ کہتے ہیں وَمَاتَ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبِ۔ وَرَسُوْلُ اللّٰہِﷺ حَمْلٌفِیْ بَطْنِ اُمِّہ بِالْمَدِیْنَةِ رسول پاک ﷺکی پیدائش سے پہلے مدینہ میں آ پ کے والد محترم کاانتقال ہوا۔ کہتے ہیں بعض کہتے ہیں مدینہ میں نہیں ، مکّہ اورمدینہ کے درمیان ابواء کے مقام پر آپ کے والدمحترم کاانتقال ہوا۔کہتے ہیں وَالْاَوَّلُ ھُوَالْمَشْھُوْرُ دونوں میں سے جو مشہور قول ہے وہ مدینہ میں آپ کی وفات کا ہے وَقِیلَ اور ایک قول یہ ہے مَاتَ بَعْدَوَلَادَتِہ بِثَمَانِیَةٍ وَّعِشْرِیْنَ یَوْماً آپ کی پیدائش کے اٹھائیس مہینے بعد آپ کے والد محترم فوت ہوئے وَقِیْلَ بِسَبْعَةِ اَشْھُرٍ ایک قول یہ ہے کہ آپ کی پیدائش کے سات مہینے بعد آپ کے والد محترم فوت ہوئے وَقِیْلَ بِسَنَةٍ ایک قول یہ ہے کہ آپ کی پیدائش کے ایک سال بعد آپ کی وفات ہوئی وَقِیْلَ بِسَنَتَیْنِ ایک قول یہ ہے کہ آپ کی پیدائش کے دوسال بعد آپکے والد کی وفات ہوئی وَقِیْلَ بِشَھْرَیْنِ اور ایک قول یہ ہے کہ آپ کی پیدائش کی دو مہینے بعد آپ کے والد محترم کی وفات ہوئی۔
(16) ’سبل الھدٰی والرشاد فی سیرة خیر العباد‘از امام محمد بن یوسف الصّالحی الشّامی متوفی 942ھ مطبوعہ بیروت لبنان کے جزاوّل کے صفحہ نمبر331پر اس کا تیسرا باب ہے فِیْ وَفَاةِ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ پہلا جملہ یہ ہے کہ ابن اسحاق ؓ کہتے ہیں ثُمَّ لَمْ یَلْبَثْ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبِ اَنْ تُوُفِّیَ وَاُمُّ رَسُوْ لِ اللّّہِ ﷺحَامِلٌ بِہ کہ رسول ِپاک ﷺکی پیدائش سے پہلے آپ کے والد محترم فوت ہوگئے۔یہ ابن اسحاق کاقول ہے آگے لکھتے ہیں قَالَ غَیْرُاِبْنِ اِسْحَاقَ ۔کہتے ہیں ابن اسحاق کے علاوہ دوسرے موٴرخین یہ کہتے ہیں وَذٰلِکَ حِیْنَ تَمَّ لَھَاشَھْرَانِِ کہ آپ کے حمل پر دو مہینے گزرے تھے کہ آپ کے والد فوت ہوئے وَقِیْلَ کہتے ہیں ایک قول یہ ہے اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِﷺکَانَ فِیْ الَمَھْدِ حِیْنَ تُوُفِّیَ اَبُوْہُ کہ رسول پاک ﷺابھی پنگھوڑے میں کھیلتے تھے کہ آپ کے والد کا انتقال ہوا فَقِیْلَ وَلَہ شَھْرَانِ ایک قول یہ ہے کہ آپ کی عمر دو مہینے تھی کہ آپ کے والد محترم کا انتقال ہوا وَقِیْل ثَمَانِیَةٌ وَّعِشْرُوْنَ شَھْراً ایک قول یہ ہے آپ کی پیدائش کے ا ٹھائیس مہینے بعد آپ کے والد محترم کا انتقال ہوا وَقِیْلَ تِسْعَةُاَشْھُرٍ ایک قول یہ ہے کہ آپ کی پیدائش کے نو مہینے بعد آپ کے والدمحترم کا انتقال ہوا وَنَقَلَ السُّھَیْلِیُّ عَنِ الدُّوَْلَابِیِّ کہتے ہیں سہیلی نے دولابی سے یہ راویت کی ہے اَنَّہ قَوْلُ الْاَکْثَرِیْنَ کہ آپ کی پیدائش کے بعدوالد کی وفات یہ اکثر موٴرخین کاقول ہے قُلْتُ اس کتاب کے مصنف کہتے ہیں وَالْحَقُّ اَنَّہ قَوْلُ کَثِیْرِیِّیْنَ لَااَکْثَرِیْنَ کہتے ہیں یہ بات تو درست ہے کہ بہت سے موٴرخین کا یہ خیال ہے کہ آپ کے والد محترم آپ کی پیدائش کے بعد فوت ہوئے لیکن یہ بات درست نہیں کہ اکثر علماء کا یہی خیال ہے ۔
(17) حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ نے کتاب لکھی ’ ماثبت من السنۃ ‘۔اس کا اردو ترجمہ شائع ہوا ’ایّام اسلام‘ کے نام سے۔ یہ حمایت اسلام پریس لاہور نے شائع کیا۔ اس کے صفحہ نمبر78-79 پراس مضمون کو بیان کیا گیا ۔ لکھتے ہیں ”جب ان کے حمل کودومہینے گزرگئے توآپ کے والدماجدحضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوگئی ۔ اورایک قول یہ ہے کہ انکی وفات جب ہوئی جب کہ آپ مہد(جھولے) میں تھے۔“ کتاب کے مصنف کہتے ہیں ”غالب اورمشہورپہلی ہی روایت ہے“۔
(18) امام زرقانی کی کتاب ’ شرح المواھب اللدنیہ ‘۔ عربی زبان میں ہے اس کے اردوترجمہ جزاول صفحہ ۷۵ پرعنوان ہے ”حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کاوصال“۔ لکھتے ہیں” جب حمل مبارک کودوماہ گزرگئے توحضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کاانتقال ہو گیا۔“ ایک قول یہ ہے۔ دوسراکیاہے ،کہتے ہیں ” یہ بھی کہا گیاہے کہ وہ اس وقت فوت ہوئے جب آپ پنگھوڑے میں تھے“۔ کہتے ہیں” (حا فظ ابو بشرمحمد بن احمد بن حماد بن سعید انصاری )دولابی نے یہ بات کہی ہے جب کہ حضرت احمد بن ابی خثعمہ فرماتے ہیں:اس وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دوماہ کے تھے ،کسی نے سات مہینے کاذکرکیااورکسی نے کہاکہ آپ اٹھائیس ماہ کے تھے “ امام زرقانی کہتے ہیں ” لیکن پہلے قول کوترجیح ہے “۔
(19)سیرة النبی ﷺ پر کتاب’سیرت حلبیہ‘ جوامام علی بن برھان الدین حلبی کی تصنیف ہے اس کااردوترجمہ جودارالاشاعت ایم اے جناح روڈکراچی پاکستان سے شائع ہوا ہے۔ اس میں چوتھے باب جس کاعنوان ہے ”آنحضرت ﷺ کے والدکی وفات“ صفحہ نمبر170پرلکھتے ہیں ”ابن اسحاق سے روایت ہے کہ تھوڑاہی عرصہ گزراتھاکہ حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب کاانتقال ہوگیااس حال میں کہ حضرت آمنہ ابھی حاملہ ہی تھیں“کہتے ہیں ”اسی پراکثرعلماء کااتفاق ہے“ ۔آگے لکھتے ہیں ”(یعنی حضرت عبداللہ کاانتقال آنحضرت ﷺ کی ولادت سے پہلے ہوگیاتھااگرچہ کچھ روایات ایسی بھی ہیں جن سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت عبداللہ آنحضرت ﷺکی ولادت کے بعد فوت ہوئے جیساکہ ان کاذکرآگے آرہاہے)حافظ دمیاتی نے بھی اسی قول کودرست قراردیاہے “ کہ آپ کے والدآپ کی ولادت کے بعدفوت ہوئے۔
اگلاعنوان ہے ” کیاوالدکاانتقال آپ ﷺ کی پیدائش کے بعدہوا؟ “ اس عنوان کے نیچے لکھتے ہیں ”ایک روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ کے والدکاانتقال اس وقت ہواجب کہ آپ ﷺ صرف دومہینے کے حمل کی صورت میں تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ کی پیدائش سے دو مہینے پہلے ہوا۔ایک روایت یہ بھی ہے کہ آپ کی عمر اس وقت دو ماہ کی ہو چکی تھی اور آپ ﷺ پالنے میں جھولتے تھے “ (یعنی جھولے میں) ”جب آپ کے والد کا انتقال ہوا۔ علامہ سہیلی نے(روض الانف ) میں لکھاہے کہ اسی قول پراکثرعلماء کااتفاق ہے “۔
(20) امام ابن قیم کی سیر ت نبوی پر کتاب ’ زادالمعاد‘ہے ۔ اس کااردوترجمہ نفیس اکیڈمی کراچی نے شائع کیا۔ اس میں بھی انہوں نے صفحہ نمبر99پر لکھاہے ۔زیر عنوان ”والدین کاانتقال اورواقعات مابعد“۔ دونوں اقوال درج کئے ، لکھتے ہیں”آپ کے والدماجدکی تاریخ وفات میں اختلاف ہے “ یہ نہیں کہتے کہ تاریخ وفات میں اتفاق ہے۔کہتے ہیں ”آپ کے والدماجدکی تاریخ وفات میں اختلاف ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ابھی شکم مادرمیں تھے کہ ان کی وفات ہوگئی اوربعض آپ کے تولدمسعودکے بعدبتاتے ہیں“ ۔ یعنی دونوں اقوال موٴرخین کے اندرموجودہیں۔اپنی رائے یہ کہتے ہیں”لیکن پہلاقول( یعنی پیدائش سے پہلے وفات کاقول) زیادہ درست معلوم ہوتاہے“۔کہتے ہیں ”دوسرے قول کے مطابق آپ کے والدماجدآپ کی پیدائش کے سات ماہ بعدفوت ہوگئے تھے “ ۔
(21) سیرت کی ایک کتاب۔ جس کانام ’ کتاب المحبّر‘ ہے۔یہ امام ابوجعفرمحمدبن حبیب بن امیہ بن عمرو الہاشمی البغدادی نے تصنیف کی اور شیش محل لاہورپاکستان سے دارنشرالکتب الاسلامیہ نے اس کوشائع کیا۔ عربی زبان میں یہ کتاب ہے۔ اس کے صفحہ نمبر۹ پرلکھاہے وَ تُوُفِّیَ عَبْدُاللّٰہِ اَبُوْہُ آپ کے والدحضرت عبداللہ فوت ہوگئے بَعْدَ مَااَتٰی لَہ ثَمَانِیَةٌ وَّ عِشْرُوْنَ شَھْراً جبکہ آپ کی عمراٹھائیس مہینے تھی ۔ صرف ایک ہی قول انہوں نے درج کیا۔
(22) آخری حوالہ امام بیہقی ؒ کی کتاب ’دلائل النبوة‘ سے قارئین کے خدمت میں پیش ہے۔یہ المکتبۃالاثریہ الفضل مارکیٹ اردوبازار لاہور نے شائع کی ہے۔اس کی پہلی جلد کے صفحہ 187 پرباب ہے ذِکْرُ وَفَاةِ عَبْدِ اللّٰہِ اَبِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ ۔ کہتے ہیں وَقَدْھَلَکَ اَبُوُْہ ُعَبْدُاللّٰہِ آپ کے والدعبداللہ کی وفات ہوگئی وَھِیَ حُبْلٰی جبکہ آپ کی والدہ حاملہ تھیں یعنی آپ کی پیدائش سے پہلے آپکے والدفوت ہوگئے وَیُقَالُ اورایک قول یہ ہے اِنَّ عَبْدَ اللّٰہِ ھَلَکَ آپ کے والدعبداللہ اس وقت فوت ہوئے وَالنَّبِیُّ ﷺ اِبْنُ ثَمَانِیَةٍ وَّ عِشْرِیْنَ شَھْراً جبکہ نبی کریم ﷺ کی عمراٹھائیس مہینے تھی ۔ دونوں اقوال درج کرکے کہتے ہیں وَاللّٰہُ اَعْلَمُ اَیُّ ذَالِکَ کَانَ کہ موٴرخین کے ہاں یہ دونوں خیالات پائے جاتے ہیں۔اب اللہ ہی سب سے زیادہ جانتاہے کہ دونوں میں سے کس طبقہ خیال کی بات درست ہے۔ کہتے ہیں وَقَالَ بَعْضُھُمْ بعض موٴرخین یہ کہتے ہیں مَاتَ اَبُوْہُ وَھُوَ ابْنُ سَبْعَةِ اَشْھُرٍ کہ آپ کی پیدائش کے سات مہینے بعدآپ کے والدمحترم کاانتقال ہوگیا۔
وَآخِرُ دَعْوَانَااَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن۔
Share this:
- Click to share on Facebook (Opens in new window)
- Click to share on Twitter (Opens in new window)
- Click to share on Reddit (Opens in new window)
- Click to share on Tumblr (Opens in new window)
- Click to share on Pinterest (Opens in new window)
- Click to share on Telegram (Opens in new window)
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window)
- Click to email a link to a friend (Opens in new window)
- Click to print (Opens in new window)
Discover more from احمدیت حقیقی اسلام
Subscribe to get the latest posts sent to your email.