بارہ دری میں شام ۔ صابر ظفر

بارہ دری میں شام ۔ صابر ظفر

بارہ دری میں شام ۔ صابر ظفر

میں صابر ظفر کے شعری سفر کو گزشتہ ۲۵ سال سے دیکھ رہا ہوں ۔ اُن کا
پہلا مجموعه است را نھا تو ۱۹۷۴ ء میں شائع ہوا اور زیر نظر مجموعہ ان کا آٹھواں مجموعہ
ہے ۔ ابتداء کے بعد دھواں اور پھول پاتال ، جتنی آنکھیں اچھی ہوں گی ، دریچہ
بے صدا کوئی نہیں ہے ” ہو ترنگ ، اور دکھوں کی چادر شائع ہوئے اور اب
بارہ دری میں شام ” صابر ظفر کی شاعری ایک دل شکستہ شاعر کا اظہار عدم اطمینان
Note of dissatisfaction نظر آتی رہی ہے۔ ایک ایسے دور میں جب تیسری دنیا
کا شاعر محض عادتا ہی خوش مزاج اور رومان پسند ہو سکتا ہے ۔ صابر ظفر کی شاعری
ایک شاعر کی نیم دلانہ شکایتی لہجہ اور دھیمے احتجاجی رویہ سے عبارت رہی ہے۔ ہیں
نے اکثر صابر ظفر کی شاعری کو اس طرح پڑھا ہے جیسے رجائیت کے شہر میں خوابوں
اور نا خوشگوار سنگلاخ حقائق پر حزن و ملال کی کر دی حقیقتوں سے روشناسی بھی ضروری
ہو، ایسا نہیں ہے کہ اس نوع کی حقیقتیں ہمارے تجربات سے باہر نہ پائی جاتی ہوں لیکن
ہم میں سے اکثر افراد انتہائی شکستگی کے عالم میں بڑے مہم جو اور رومانی نظر آتے ہیں
اور صرف نظر ہی نہیں آتے بلکہ اپنے چہرے پر رجائی نقاب Mask اوڑھے رہتے
ہیں اور یہ نقاب ایک ایسی زبان اور رویہ کو جنم دیتا ہے جو حقیقت سے قطعاً بعیدی


Discover more from احمدیت حقیقی اسلام

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply