فرشتوں پر استہزاء
پیر عبدالحفیظ نے لکھا ہے۔
’’مرزا صاحب کا دعویٰ تھا ان کے پاس وحی آتی ہے ! سوال یہ ہے کہ وہ کون فرشتہ تھا جو وحی لاتا تھا اور اس وحی کی حقیقت کیا تھی ؟ ٹیچی ٹیچی ، درشانی ، خیراتی اور ایل ان کے بعض فرشتوں کے نام تھے۔‘‘( الفتوٰی نمبر۲۳)
اس مختصر عبارت میں پیر عبدالحفیظ نے جھوٹ بھی بولا ہے اور استہزاء بھی کیا ہے سوال یہ نہیں کہ وہ کون فرشتہ تھا جو وحی لاتا تھا؟ بلکہ سوال یہ ہے کہ جن لوگوں کا اپنا یہ اقرار ہو کہ ان پر شیطان نازل ہوتا ہے ان کو فرشتوں کے بارہ میں کلام کا کیا حق ہے ؟ جس طرح آنحضرت ﷺ نے کفّار مکّہ کو جب خدائے رحمن کو سجدہ کرنے کے لئے کہا تو وہ سوال کرنے لگے ’’ مَا الرَّحمٰن ‘‘ ؟ (الفرقان :۶۱) کہ ’’ رحمن ‘‘ کیا ہے ؟ بعینہ آج اسی طرح یہ لوگ جن پر نازل تو شیطان ہوتا ہے مگر یہ باتیں کرتے ہیں فرشتوں کی اور استفسار کرتے ہیں کہ ’’سوال یہ ہے کہ وہ کون فرشتہ تھا ؟‘‘
(۱)
انہوں نے ازراہِ استہزاء ایک فرشتہ کا نام ٹیچی ٹیچی بتایا ہے۔
۱۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی ایسا الہام نہیں۔ ایک خواب ضرور ہے جس میں حضور ؑ نے ایک آدمی دیکھا جو فرشتہ معلوم ہوتا تھا۔ اور اس نے اپنا نام’’ ٹیچی‘‘ بتایا۔ پنجابی زبان میں’ ٹیچی‘ کے معنے ہیں ’’ وقت مقررہ پر آنے والا ‘‘ پس اس خواب کی تعبیر یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بروقت امداد فرمائے گا ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور جو مشکلات لنگر کے اخراجات کی نسبت اس خواب کے دیکھنے سے پہلے درپیش تھیں وہ اس خواب کے بعد جلد ہی دور ہو گئیں ۔ پس یہ کہنا کہ مرزا صاحب کو ’’ٹیچی ٹیچی‘‘ الہام ہوا محض شرارت ہے۔
دوسرے ان کا یہ کہنا کہ وہ فرشتہ تھا۔ یہ بھی بالکل جھوٹ ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے کہیں بھی یہ تحریر نہیں فرمایا کہ وہ ’’فرشتہ ‘‘ تھا۔ بلکہ اسے فرشتہ نما انسان قرار دیا ہے ، لیکن یہ پیر اور مرید ذرا یہ تو بتائیں کہ کیا فرشتے کانے بھی ہوا کرتے ہیں ؟ بخاری میں ہے :۔
عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ارسل ملک الموت الی موسیٰ علیہ السلام فلما جاء ہ صکّہ فوضع عینہ فرجع الی ربّہ فقال ارسلتنی الی عبد لا یرید الموت فردّ اللّٰہ علیہ عینہ وقال ارجع فقل لہ یضع یدہ علی متن ثور فلہ بکلّ ما غطت بہ یدہ بکلّ شعرۃ سنۃ قال ای ربّ ثم ماذا قال الموت ‘‘(بخاری کتاب الصلوۃ باب من احب الدفن فی الارض المقدسۃ جل مطبع الٰہیہ مصر ۔ و بخاری کتاب بدء الخلق باب وفات موسیٰ وذکرہ بعدہ۔نیز مسلم مطبع العامرہ مصری کتاب الفضائل باب فضائل موسیٰ۔ نیز مشکوۃ باب بدء الخلق وذکر الانبیاء )
اس کا ترجمہ تجرید بخاری اردو شائع کردہ مولوی فیروز الدین اینڈ سنز لاہور سے نقل کیا جاتا ہے۔
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ملک الموت حضرت موسیٰ ؑ کے پاس بھیجا گیا جب وہ آیا تو موسیٰ ؑ نے اسے ایک طمانچہ مارا جس سے اس کی ایک آنکھ پھوٹ گئی۔ پس وہ اپنے پروردگار کے پاس لوٹ گیا اور عرض کی کہ تو نے مجھے ایسے بندے کے پاس بھیجا جو مرنا نہیں چاہتا۔ اللہ نے اس کی آنکھ دوبارہ عنایت کی اور ارشاد ہوا پھر جا کر ان سے کہو کہ وہ اپنا ہاتھ ایک بیل کی پیٹھ پر رکھیں۔ پس جس قدر بال ا ن کے ہاتھ کے نیچے آئیں گے۔ ہر بال کے عوض میں انہیں ایک ایک سال زندگی دی جائیگی۔ حضرت موسیٰ بولے اے پروردگار ! پھر کیا ہو گا اللہ نے فرمایا پھر موت آئیگی ۔ ‘‘
پس ’’ٹیچی ‘‘ تو محض ایک نام ہے۔ مگر اپنی منطق کے مطابق تویہ عملًا عزرائیل کو بھی ( نعوذ باللہ ) کچھ وقت کے لئے کانا مانتے ہیں۔
۲۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ فرشتہ تھا بلکہ فرمایا ہے کہ ’’ فرشتہ معلوم ہوتا تھا۔ ‘‘ (مکاشفات صفحہ ۳۸ ) نیز خواب میں اس فرشتہ نما انسان نے جو اپنا نام بتایا ہے وہ صرف ’’ ٹیچی ‘‘ہے ۔ مگر راشد علی وغیرہ محض شرارت سے ’’ ٹیچی ٹیچی ‘‘ کہتے ہیں جو یہود کی مثل یُحَرِّفُونَ الکَلِمَ عَن مَوَاضِعِہ کا مصداق بنتا ہے
۳۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا ترجمہ بتایا ہے :۔
’’ ٹیچی ‘‘پنجابی (زبان) میں ’’ وقت مقررہ‘‘ کو کہتے ہیں۔ یعنی عین ضرورت کے وقت آنے والا۔ ‘‘(حقیقۃ الوحی ۔روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۳۳۲ )
۴۔ اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ وہ کوئی فرشتہ تھا تو اس پر کیا اعتراض ہے۔ یہ تو ایک صفاتی نام ہے۔
چنانچہ ۔ بخاری شریف کے پہلے باب کی دوسری حدیث میں ہے :۔
’’ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احیانا یاتینی مثل صلصلۃ الجرس ‘‘ (بخاری ۔کتاب کیف کان بدء الوحی)
کہ اکثر دفعہ فرشتہ وحی لیکر ٹن ٹن ٹلی کی آواز کی طرح آتا ہے۔
یہ ا ب ’’ٹلی کی طرح ‘‘ یا ’’گھنٹی کی طرح ‘‘کوئی فرشتہ نہیں۔ بلکہ اس کی آمد کی کیفیت بیان کی گئی ہے۔ اسی طرح یہاں بھی ’’ٹیچی ‘‘ اس کی صفت ہے۔
۵۔ یہ تو ہر کوئی جانتا ہے کہ فرشتوں کے نام ’’ صفاتی‘‘ بھی ہوتے ہیں جو ان کے ذاتی نام (علم) کے سوا ہوتے ہیں۔
’’ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺنے فرمایا۔ جب میں بیت المقدس سے فارغ ہوا۔ اس وقت مجھ کو معراج ہوئی ۔۔۔۔۔۔ جبرائیل جو میرے ساتھی تھے انہوں نے مجھ کو آسمان دنیا کے دروازہ پر چڑھایا جس کا نام باب الحفظ ہے اور اس کا دربان ایک فرشتہ اسمعٰیل نام ہے اس کے ماتحت بارہ ہزار فرشتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے ماتحت بارہ بارہ ہزار فرشتے ہیں۔ ‘‘ (سیرت ابن ہشام ۔ الجزء الثانی۔صفحہ ۷ قصّۃالمعراج ۔المکتبہ التوفیقیہ القاہرہ)
ظاہر ہے کہ فرشتوں کے صفاتی نام بھی ہوتے ہیں جو ان کی ڈیوٹیوں کے اعتبار سے لگائے گئے ہیں۔ اگر کوئی از راہِ تمسخر، شرارت سے اس فرشتے کے متعلق یہ کہے کہ ’’میاں اسمعیل ‘‘ وہاں کھڑے تھے وغیرہ وغیرہ۔ تو جو جواب یہ دیں گے وہی ہمارا جواب ہے۔
قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے اصولی طور پر فرشتوں کے بارہ میں یہ بتایا ہے کہ وہ اس کے بے شمار لشکروں کی طرح ہیں اور آسمانوں اور زمین میں اس کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں۔ فرمایا
وَلِلّٰہِ جُنُودُ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضِ (الفتح :۵)
ترجمہ :۔اور اللہ کے آسمانوں میں بھی لشکر ہیں اور زمین میں بھی۔ لیکن خدا تعالیٰ کے ان لشکروں کی تفصیل کا کسی کو علم نہیں۔ کیونکہ فرمایا
وَمَا یَعلَمُ جُنُودَ رَبِّکَ اِلاَّ ھُوَ (المدّثرّ :۳۲)
ترجمہ :۔اور تیرے رب کے لشکروں کو سوائے اس کے کوئی نہیں جانتا۔
البتّہ ان فرشتوں کے لشکر میں سے چند ایک وہ ہیں جن کے بارہ میں خدا تعالیٰ نے اپنے پاک رسولوں کو خبر دی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی سنّت ہے کہ وہ اپنے غیب میں سے کچھ کی اپنے رسولوں کو خبر دیتا ہے۔ فرمایا
فلَاَ یُظھِرُ عَلٰی غَیبِہ اَحَدًا اِلاَّ مَنِ ارتَضٰی مِن رَّسُولٍ (الجنّ۲۷، ۲۸)
ترجمہ :۔ وہ اپنے غیب پر کسی کو غلبہ عطا نہیں کرتا سوائے اپنے برگزیدہ رسول کے۔
پس خدا تعالیٰ کے عطا کردہ علم کی بناء پر اس کے رسول بعض فرشتوں پر بھی اطلاع پاتے ہیں جس کا وہ ذکر کرتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بعض فرشتوں سے آگاہی عطا فرمائی۔ ان پر اعتراض کرنا یا تمسخر کرتے ہوئے ان کے نام بگاڑنا اور تضحیک کرنا ، تو خد اتعالیٰ کی خدائی پر حاوی ہونے کے دعویٰ کے مترادف ہے اور اس کے جنود پر پوری اطلاع رکھنے کے دعوی کے برابر ہے۔ ہاں اگر ایسے معترضین کے پاس خدا تعالیٰ کے لشکروں کا رجسٹر ہوتا اور فرشتوں کی مکمل فہرست موجودہوتی اور اس میں سے چیک کر کے وہ بتاتے کہ فرشتوں کے وہ نام جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر خدا تعالیٰ نے ظاہر فرمائے ہیں وہ اس فہرست میں نہیں ہیں تو پھر تو بات بن سکتی تھی۔ اور اگر ایسی کوئی فہرست ان کے پاس نہیں ہے تو پھر یہ اپنے اعتراض میں محض جھوٹے اور بے باک ہیں۔
(۲)
انہوں نے ایسا ہی ایک اور فرشتے کے نام پر اعتراض کیا ہے جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ’ تریاق القلوب ‘ میں فرماتے ہوئے اس کا نام’’ خیراتی ‘‘بتایا۔
یہ ایک رؤیا تھی ۔اس رؤیا کا متعلقہ حصّہ ہدیہ قارئین کیا جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ آپؑ نے دیکھا کہ
’’اتنے میں تین فرشتے آسمان سے آئے۔ ایک کا نام ان میں سے خیراتی تھا ۔۔۔ تب میں نے ان فرشتوں ۔۔۔۔۔۔ کو کہا کہ آؤ میں ایک دعا کرتا ہوں تم آمین کرو۔ تب میں نے دعا کی کہ ربّ اَذھب عنّی الرّجس وطھّرنی تطھیراً اس کے بعد وہ تینوں فرشتے آسمان کی طرف اٹھ گئے۔ ۔۔۔اور میری آنکھ کھل گئی اور آنکھ کھلتے ہی میں نے دیکھا کہ ایک طاقت بالا مجھ کو ارضی زندگی سے بلندتر کھینچ کر لے گئی اور وہ ایک ہی رات تھی جس میں خدا نے تمام وکمال میری اصلاح کر دی اور مجھ میں وہ تبدیلی واقع ہوئی جو انسان کے ہاتھ سے یا انسان کے ارادے سے نہیں ہو سکتی۔ ‘‘ (تریاق القلوب ۔ روحانی خزائن جلد ۱۵صفحہ ۳۵۱ ، ۳۵۲)
اس رؤیا میں مذکور فرشتے کا نام ’’خیراتی‘‘ درحقیقت ہندی ، پنجابی یا اردو کا ’’خیراتی ‘‘ نہیں بلکہ یہ عربی زبان کا لفظ ہے جو ’’ خَیرَاتِیٌ ‘‘ ہے جو ’’ خیر ‘‘ سے نکلا ہے جس کے معنے ہیں ’’ نیکیوں والا ‘‘ اس میں’ ی‘ نسبتی ہے۔ یہ اس فرشتے کا صفاتی نام ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مذکورہ بالا رؤیابھی انہیں معنوں کی تائید کرتی ہے۔ کیونکہ آپ کی یہ رؤیا ۱۸۷۴ء کی ہے یعنی ماموریت سے پہلے کی ہے۔ جو آپ کے اندر ایک مافوق البشر اور خارق عادت خیر اور اصلاح کی موجب تھی۔ لیکن جو لوگ اس پر استہزاء کرتے ہیں وہ خود بھی تو انسان کے ساتھ خیر اور شرّ کا حساب رکھنے والے دو فرشتوں کو مانتے ہیں۔ جو ’’ خیرات‘‘ یعنی نیکیوں کا حساب رکھنے والا ہے اسے یہ کیا کہیں گے؟
(۳)
راشد علی اور اس کے پیر نے ایک نام درشانی بھی لکھا ہے۔اس کا انہوں نے حوالہ نہیں دیا اس لئے ہم اس پر بحث کرنے سے قاصر ہیں۔علاوہ ازیں ایک فرشتے کا نام انہوں نے ’’ ایل‘‘ بھی درج کیا ہے ۔اور لکھا ہے کہ ’’ ان کے بعض فرشتوں کے نام تھے۔‘‘
فرشتے تو خدا تعالیٰ ہی کے ہیں جن کو وہ مختلف ناموں سے اپنے پاک بندوں پر ظاہرفرماتا ہے۔ مذکورہ بالا نام خدا تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ظاہر فرمایا لیکن وہ ’’ اِیل‘‘ نہیں تھا بلکہ ’’ اٰیل ‘‘ ہے۔ جس کا معنٰی ہے ’’بار بار آنے والا‘‘ چنانچہ الہامِ الٰہی کے الفاظ یہ ہیں۔
’’جاء نی اٰیل واختار وادار اصبعہ واشار انّ وعد اللّٰہ اتٰی‘‘ (حقیقۃ الوحی ۔ روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۱۰۶)
ترجمہ :۔ میرے پاس آیل آیا اور اس نے مجھے چن لیا اور اپنی انگلی کو گردش دی اور یہ اشارہ کیا کہ خدا کا وعدہ آگیا۔
اس نام ’’آئیل‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاکہ
’’اس جگہ آئیل خدا تعالیٰ نے جبرئیل کا نام رکھا ہے۔ اس لئے کہ بار بار رجوع کرتا ہے۔ ‘‘ (حقیقۃ الوحی ۔ روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۱۰۶حاشیہ)
پس اس پر اعتراض کرنا جہالت ہے کیونکہ یہ جبرئیل کا ہی صفاتی نام ہے جو اس کے بار بار رجوع کرنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ظاہر فرمایا۔
Share this:
- Click to share on Facebook (Opens in new window)
- Click to share on Twitter (Opens in new window)
- Click to share on Reddit (Opens in new window)
- Click to share on Tumblr (Opens in new window)
- Click to share on Pinterest (Opens in new window)
- Click to share on Telegram (Opens in new window)
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window)
- Click to email a link to a friend (Opens in new window)
- Click to print (Opens in new window)
Discover more from احمدیت حقیقی اسلام
Subscribe to get the latest posts sent to your email.