Search
Close this search box.

رسول اللہ صلعم کے بارے میں نازل ہونے والی آیات کے الہامات پر اعتراض

فہرست مضامین

Ahmady.org default featured image

رسول اللہ ﷺ کی شان میں نازل ہونے والی آیات کا دوبارہ نزول

اپنی ’’بے لگام کتاب‘‘ میں’’قادیانی اخلاق ‘‘ کے عنوان کے تحت راشد علی اور اس کا پیر لکھتے ہیں۔

’’باوجود اس کے کہ مرزا صاحب حضور ﷺ کی محبت کے دعویدار تھے مگر ان کی کتب کا مطالعہ کرنے کے بعد ہر ذی شعور اور دیانتدار شخص اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ مرزا صاحب کی سب سے زیادہ رقابت جن دو ہستیوں سے تھی وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفی ﷺ تھے۔ چنانچہ کہیں تو ان کے فضائل پر ڈاکہ مارنے کی سعی ناکام تھی تو کہیں ان کو ان کے مقام سے گرانے کی مزموم کوششیں۔‘‘

ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی توہین کے بدترین الزام کے ثبوت کے لئے راشد علی اور اس کا پیر حسبِ ذیل دلیل دیتے ہیں۔(نقل بمطابق اصل )

’’ہر وہ آیت جو قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ کی شان میں نازل فرمائی وہ مرزا صاحب کا ٹیچی ٹیچی فرشتہ ان کے حق میں لے کر نازل ہوا۔ مثلاً

* محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم کے الہام میں محمد رسول اللہ سے مراد میں ہی ہوں اور رسول اللہ خدا نے مجھے کہا ہے۔ (ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد ۱۸صفحہ ۲۰۷)

* انا اعطینک الکوثر (روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۱۰۵)

* انک لعلی خلق عظیم (روحانی خزائن ملفوظات جلد ۱ص ۱۴۱)

* وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی (روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۴۲۶)

*وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین(روحانی خزائن جلد ۱۷صفحہ ۴۱۱)

* یس والقرآن الحکیم (روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۱۱۰)

* سبحان الذی اسری بعبدہ من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی (روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۸۱)‘‘

جب انسان بغض وعناد میں اندھا ہو جائے تو وہ ایسی ہی حرکتیں کرتا ہے جن کا ذکر اس مثال میں بیان ہوا ہے کہ ’’ گیدڑ کی موت آئے تو وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے۔ ‘‘ ایک جھوٹا اور کذّاب جب دین کے معاملات میں دخل دے گا اور معرفت وسلوک کی پاک راہوں کوگندہ کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ خدا تعالیٰ کے ساتھ اس کے فرشتوں اور عوام الناس کی لعنت کا مَورد تو ضرور بنے گا۔

مذکورہ بالا اعتراض میں اوّل تو یہ پیر اور مرید بالکل جھوٹے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اپنے جھوٹ کو سچ باور کرانے کے لئے انہوں نے یہودیانہ تحریف کی لعنت اختیار کی ہے۔ مذکورہ بالا آیات میں سے آخری دو آیات انہوں نے واضح طور پر تحریف کر کے تحریر کی ہیں۔وہ لکھتے ہیں۔

’’ یس والقرآن الحکیم‘‘ (روحانی خزائن جلد۲۲صفحہ ۱۱۰)

جبکہ اصل کتاب میں لکھا ہے۔ ’’ یٰسٓ انک لمن المرسلین کیونکہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ہے۔ سورہ یٰسٓ کا شروع نہیں ہے ۔

پھر انہوں نے لکھا ہے۔ سبحان الذی اسری بعبدہ من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی (روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۸۱)

جبکہ اصل کتاب میں لکھا ہے ۔ ’’ سبحان الذی اسرٰی بعبدہ لیلاً خلق اٰدم فاکرمہ ‘‘ گویا ایک تو آیت تحریف کی اور اس میں سے’’ لیلا ‘‘ کا لفظ نکال دیا اور دوسرے الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو محر ّ ف کر کے تحریر کیا۔

ایسے شاطروں سے سچائی اور دیانتداری کی امید کون رکھ سکتا ہے ؟

اسی طرح راشد علی نے یہودیانہ خصلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک عبارت میں تحریف کر کے اسے مورد طعن قرار دیا ہے۔

اس نے حسب ذیل عبارت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب کی۔

’’ (محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم ) کے الہام میں محمد رسول اللہ سے مراد میں ہوں اور محمد رسول اللہ خدا نے مجھے کہا ہے۔ ‘‘ (روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۰۷)

یہ عبارت راشد علی کی خود ساختہ ہے جبکہ اصل عبارت یہ ہے ۔

’’محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینہم اس وحی الٰہی میں میرا نام محمد رکھا گیا اور رسول بھی۔ ‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ۔ روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۲۰۷)

راشد علی کا شیطان نامعلوم اسے کون کون سی ہیرا پھیریاں سکھاتا ہے جن کی بناء پر وہ ہر تحریف ، ہر جھوٹ اور ہر تلبیس کو شِیرِ مادر سمجھتا ہے۔ اس مذکورہ بالا عبارت کو اس نے تبدیل کرنے کے بعد قابلِ اعتراض بنانے کی کوشش کی ہے۔ ورنہ ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنی عبارت پر کوئی اعتراض نہیں اٹھ سکتا۔ کیونکہ آپ ؑ کو اللہ تعالیٰ نے نام ’’ محمّد ‘‘ دیا ہے ۔ظاہر ہے کہ کسی کو محمّد نام دینے سے کوئی اعتراض نہیں اٹھ سکتا۔ اس دنیا میں کروڑوں مسلمان ایسے ہیں جن کو ان کے والدین نے محمّد نام دیا ہے اور عرب تو عام طور پر ہر اس شخص کو ’’ محمّد ‘‘ کہہ کر بلاتے ہیں جس کا وہ نام نہ جانتے ہوں ۔ جس جگہ راشد علی رہتا ہے وہاں بھی اس کے ارد گرد روزانہ اس کا مظاہرہ ہوتا ہے ،ان پر تو راشد علی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا مگر اعتراض ہے تو خدا تعالیٰ پر کہ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ’’ محمّد ‘‘ نام کیوں دیا۔

باقی جہاں تک ’’رسول ‘‘ بنانے کا تعلق ہے تو اس پر راشد علی جس قدر بھی سیخ پا ہو، خدا تعالیٰ کو اس کی کیا پرواہ ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسٰلَـتَهٗ‌ؕ (الانعام :۱۲۵) اللہ تعالیٰ سب سے بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کہاں رکھے۔

چنانچہ امّتِ مسلمہ کا مسلّمہ عقیدہ ہے کہ آنے والا مسیح رسول ہے۔

پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس زیر بحث عبارت میں آنحضرت ﷺ سے نہ برابری کے دعویٰ کا استنباط ہو سکتا ہے اور نہ بعینہ محمد رسول اللہ ﷺ ہونے کا ۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام مذکورہ بالا زیرِ بحث آیتِ کریمہ کے بارہ میں فرماتے ہیں۔

’’ہمارے نبی ﷺ کے دو نام ہیں (۱) ایک محمد ﷺ اور یہ نام توریت میں لکھا گیا ہے جو ایک آتشی شریعت ہے۔ جیسا کہ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے۔ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اَشِدَّآءُ عَلَی الکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَہُم ۔۔۔ ذٰلِکَ مَثَلُھُمْ فِی التَّوْرَاۃِ (۲) دوسرا نام احمد ہے ﷺ اور یہ نام انجیل میں ہے جو ایک جمالی رنگ میں تعلیمِ الٰہی ہے جیساکہ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے۔ وَمُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَّاتِیْ مِنْ بَعْدِی اسْمُہٗ اَحْمَدُ۔ اور ہمارے نبی ﷺ جلال اور جمال دونوں کے جامع تھے۔ ‘‘(اربعین نمبر ۴ ۔ روحانی خزائن جلد ۱۷صفحہ ۴۴۳)

نیز فرمایا۔

’’ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اَشِدَّآءُ میں حضرت رسولِ کریم ﷺ کی مدنی زندگی کی طرف اشارہ ہے۔ ‘‘ (الحکم ۳جنوری ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۱)

اس وضاحت کے بعد ہم راشد علی اور اس کے پیر کی اس بے باک تعلّی کا جائزہ لیتے ہیں کہ

’’ہر وہ آیت جو قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ کی شان میں نازل فرمائی وہ مرزا صاحب کا ٹیچی ٹیچی فرشتہ ان کے حق میں لے کر نازل ہوا۔‘‘

یعنی یہ وہ وجہ ہے کہ اس سے سردارِ انبیاء خاتم النبیّین حضرت محمد مصطفی ﷺ کی توہین ہو گئی ہے۔ اس الزام کے پیش نظر دیکھنا یہ ہے کہ

۱۔ کیا آیات قرآنیہ کسی امّتی پر الہاماً نازل ہو سکتی ہیں یا نہیں ؟

۲۔ کیا وہ آیات جن میں خاص طور پر ہمارے آقاومولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو مخاطب فرمایا گیا ہے ، وہ کسی امّتی پر الہاماً نازل ہو سکتی ہیں یا نہیں۔

۳۔ وہ آیات جن میں خاص طور پر ہمارے آقا ومولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو مخاطب فرمایا گیا ہے اگر وہ کسی امّتی پر الہاماً نازل ہوں تو کیا ا س سے رسول ِ خدا ﷺ کی توہین ہو جاتی ہے ؟

۱ ۔ جہاں تک امرِ اوّل کا تعلق ہے، ہمیں سرتاجِ صوفیاء حضرت شیخ محی الدین ابن العربی ؒ بتاتے ہیں۔

’’ تنزّل القرآن علی قلوب الاولیاء ما نقطع مع کونہ محفوظاً لہم ولکن لھم ذوق الانزال وھذا لبعضھم ‘‘ (فتوحاتِ مکیہ۔ جلد ۲صفحہ ۲۸۵باب ۱۵۹۔مطبوعہ دار صادر بیروت)

یعنی قرآن کریم کا ولیوں کے دل پر نازل ہونا منقطع نہیں ہوا ،باوجودیکہ وہ ان کے پاس اصلی صورت میں محفوظ ہے ، لیکن اولیاء کو نزولِ قرآنی کا ذائقہ چکھانے کی خاطر ان پر نازل ہوتا ہے اور یہ شان بعض کو عطا کی جاتی ہے۔

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ ہر سالک کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

’’ اے انسان ! اگر تو نیکی میں ترقی کرتا چلا جائے تو اللہ تعالیٰ تجھے اتنی عزت دے گا کہ تخاطب بانّک الیوم لدینا مکین امین ۔ (فتوح الغیب ۔مقالہ ۲۸، صفحہ ۱۷۱سورہ یوسف ۔مطبع ہوپ لاہور ۔ ۱۳۸۳ھ)

’’ اِنَّکَ الیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ ‘‘ سورہ یوسف کی آیت ۵۵ہے جس کا ترجمہ ہے۔ ’’ تو آج سے ہمارے ہاں معزّز مرتبہ والا اور قابلِ اعتماد آدمی شمار ہو گا ‘‘

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ تجھے اس آیتِ قرآنی سے مخاطب فرمائے گا۔

پس یہ خدا تعالیٰ کی سنّت ہے کہ وہ اپنے پاک بندوں پر بعض اوقات آیات قرآنیہ الہاماً نازل فرماتا ہے۔ اسی طرح حضرت مجدّد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ پر بھی آیت قرآنیہ الہام ہوئی چنانچہ بیٹے کی پیدائش سے قبل انہیں الہام ہوا۔ ’’ انّا نبشّرک بغلام اسمہٗ یحیٰ ‘‘ (مکتوبات امام ربانی ۔فارسی ۔جلد دوم ۔صفحہ ۱۲۶مطبوعہ دہلی)

یہ سورۃمریم کی آٹھویں آیت ہے جس کا معنی یہ ہے کہ ’’ ہم تجھے ایک ہونہار بچّے کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام یحیٰ ہے ‘‘ چنانچہ حضرت مجدّد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے گھر بیٹا پیدا ہوا اور اس کا نام آپ نے یحیٰ رکھا۔

معرفت اور سلوک کی شاہراہ پر آویزاں ان الواح سے یہ حقیقت توبہر حال اظہر من الشمس ہو گئی کہ آیاتِ قرآنیہ رسول اللہ ﷺ کے امّتیوں پر الہاماً نازل ہو سکتی ہیں اور امّت میں آنے والے مسیحِ موعود کے بارہ میں تو حضرت امام عبدالوہاب شعرانی رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب یوں بیان فرماتے ہیں

’’فیُرسَل ولیاً ذا نبوۃٍ مطلقۃٍ ویلہم بشرع محمدٍ ؐ‘‘ (الیواقیت والجواہر جلد ۲صفحہ ۸۹بحث ۴۷ ،الطبعۃ الثانیہ المطبعۃ الازھریہ ۱۳۲۱ھ)

کہ مسیح موعود ایسے ولی کی صورت میں بھیجا جائے گا جو نبوّتِ مطلقہ کا حامل ہو گا اور اس پر شریعتِ محمدیہ الہاماً نازل ہو گی۔

پس اس حد تک تو راشد علی اور اس کا پیر کلّیۃً جھوٹے ثابت ہو چکے ہیں۔ اب آگے دیکھئے۔

۲۔ جہاں تک کسی امّتی پر ان آیاتِ قرآنیہ کے الہاماً نزول کا تعلق ہے جن میں خالصۃً رسول اللہ ﷺ کو مخاطب فرمایا گیا ہے تو

(ا) حضرت مولوی عبداللہ غزنوی صاحب کی سوانح میں درج الہامات سے چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔ یہ سب وہ آیات ہیں جن میں آنحضرت ﷺ کو مخاطب فرمایا گیا ہے۔

نیسّرک للیسرٰی بار بار الہام ہوئی (صفحہ ۵)

ولئن اتبعت اھواء ھم بعد الذی جاء ک من العلم مالک من اللہ من ولی ولا واق (صفحہ ۱۵)

واصبر نفسک مع الذین یدعون ربھم بالغداۃ والعشی یریدون وجھہ فاذا قرانہ فاتبع قرآنہ ثم ان علینا بیانہ (صفحہ ۳۵)

لا تمدن عینیک الی ما متعنا بہ ازواجا منہم زہرۃ الحیواۃ الدنیا ولا تطع من اغفلنا قلبہ عن ذکرنا واتبع ھواہ وکان امرہ فرطا (صفحہ ۳۶)

ولسوف یعطیک ربک فترضی (صفحہ ۳۷)

الم نشرح لک صدرک (صفحہ ۳۷)

(سوانح مولوی عبداللہ غزنوی ۔مؤلفہ مولوی عبدالجبار غزنوی ومولوی غلام رسول ۔ مطبع القرآن السنۃ امرتسر)

اسی وجہ سے اس وقت کے مولویوں نے شدید طوفان برپا کیا تھا۔ مثلاً مولوی غلام علی قصوری نے سخت مخالفت کی لیکن حضرت مولوی عبداللہ غزنوی کے صاحبزادے نے بڑے متوازن اور سلجھے ہوئے انداز سے حسب ذیل الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کی کہ۔

’’ اگر الہام میں اس آیت کا القاء ہو جس میں خاص آنحضرت ؐ کو خطاب ہو تو صاحب الہام اپنے حق میں خیال کر کے اس مضمون کو اپنے حال کے مطابق کرے گا اور نصیحت پکڑے گا اگر کوئی شخص ایک آیت کو جو پروردگار نے جناب رسول اللہ ﷺ کے حق میں نازل فرمائی ہے اسے اپنے پروارد کرے اور اس کے امرونہی اور تائید وترغیب کو بطور اعتبار اپنے لئے سمجھے تو بے شک وہ شخص صاحب بصیرت اور مستحق تحسین ہو گا۔ اگر کسی پر ان آیات کا القاء ہو جن میں خاص آنحضرت ؐ کو خطاب ہے مثلاً الم نشرح لک صدرک کیا نہیں کھولا ہم نے واسطے ترے سینہ تر ا ، ولسوف یعطیک ربک فترضی۔ فسیکفیکھم اللّٰہ ۔ فاصبر کما صبر اولوالعزم من الرسل ۔ واصبر نفسک مع الذین یدعون ربھم بالغداۃ والعشی یریدون وجہہ ۔ فصل لربک وانحر ۔ ولا تطع من اغفلنا قلبہ عن ذکرنا واتبع ھواہ ۔ ووجدک ضالا فھدی ۔ تو بطریق اعتبار یہ مطلب نکالا جائے گا کہ انشراحِ صدر اور رضا اور انعامِ ہدایت جس لائق یہ ہے علیٰ حسبِ المنزلہ اس شخص کو نصیب ہو گا اور اس امرونہی وغیرہ میں اس کو آنحضرت ؐ کے حال میں شریک سمجھا جائے گا۔ ‘‘(اثبات الالہام والبیعۃ ۔ صفحہ ۴۳ ، ۱۴۲)

(ب) حضرت خواجہ میر درد مرحوم ؒ نے اپنی کتاب ’’ علم الکتاب ‘‘ میں اپنے الہامات درج فرمائے ہیں۔ ان میں دو درجن سے زائد الہامات آیاتِ قرآنیہ پر مشتمل ہیں۔ ان میں سے ایک الہام یہ بھی ہے۔ وانذر عشیرتک الاقربین ‘‘ (علم الکتاب ۔صفحہ ۶۴)

(ج) حضرت شیخ نظام الدین اولیاء ؒ کو کئی مرتبہ آیت قرآنی الہام ہوئی :

وَمَا اَرسَلنٰکَ اِلاَّرَحمَۃً لِّلعَالَمِینَ

چنانچہ حضرت مخدوم گیسو دراز ؒ لکھتے ہیں :

’’ حضرت شیخ فرماتے تھے کہ کبھی کبھی کسی ماہ میرے سرہانے ایک خوب رو اور خوش جمال لڑکا نمودار ہو کر مجھے اس طرح مخاطب کرتا : وما ارسلنٰک الّارحمۃ للعالمین میں شرمندہ سر جھکا لیتا اور کہتا یہ کیا کہتے ہو ؟ یہ خطاب حضرت پیغمبر ﷺ کے لئے مخصوص ہے۔ یہ بندہ نظام کس شمار میں ہے جو اس کو اس طرح مخاطب کیا جائے۔‘‘ (جوامع الکلم ۔ملفوظات گیسو در ۔صفحہ ۲۲۶ ڈائری بروز شنبہ ۲۶شعبان ۸۰۲ھ)

تمام مسلمان جانتے ہیں کہ مندرجہ بالا الہامات آیاتِ قرانیہ ہیں۔ اور ایسی آیاتِ قرآنیہ ہیں کہ جن میں خاص طور پر آنحضرت ﷺ کو خطاب ہے۔

اب کیا راشد علی اور اس کا پیر، ان بزرگانِ امّت پر بھی توہینِ رسول ؐکا فتویٰ صادر کریں گے ؟؟

۳۔ باقی رہا تیسرا سوال تو مذکورہ بالا سچائیاں کھول کھول کر بتا رہی ہیں کہ نہ تو قرآنِ کریم کی آیات کا محمّد رسول اللہ ﷺ کے امّتیوں میں سے کسی پر نازل ہونا اعتراض کا موجب ہے نہ ہی ایسی آیات کا نازل ہونا محلّ ِ اعتراض ہے جو خاص حضرت محمّدرسول اللہ ﷺ کے حق میں نازل ہوئی ہیں یا آپ کو مخاطب کر کے نازل فرمائی گئی ہیں اور نہ ہی ایسی آیات کا کسی امّتی پر نزول آنحضرت ﷺ کی توہین کا موجب ہے ۔بلکہ یہ رسول اللہ ﷺ کا فیض ہے جس سے راشد علی اور اس کا پیر اگرقطعی محروم اور دُور ہیں تو اس میں ان خوش نصیبوں کا کیا قصور ہے جو اس موعودہ انعام سے فیض یافتہ ہیں۔

لیکن اس کے بعد بھی اصل سوال یہ باقی رہے گا کہ جس شخص کے دل پر ایسی آیاتِ قرآنیہ الہام ہوئی ہوں وہ آنحضور ﷺ کی نسبت سے خود اپنی نظر میں اپنا کیا مقام سمجھتا ہے اور کیا مرتبہ تصوّر کرتا ہے۔

اگر وہ یہ اعلان کرے کہ میں محمد ﷺ کا ثانی بن کر پیدا ہوا ہوں (نعوذ باللہ) اور پرانے محمد ﷺرسول اللہ ؐ کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اور اب نیا محمد دنیا میں پیدا ہو چکا ہے تو اس کا یہ اعلان کفر صریح پر مشتمل ہو گا۔ لیکن ایسے الہامات کے باوجود اگر ایسا شخص آنحضرت ﷺ کے مقابل پر بے انتہاء انکسار اور خاکساری سے کام لیتا رہے اور کامل یقین رکھتا ہو اور اسی کا برملا اظہار کرتا ہو کہ جو فیض بھی اس کو عطا ہوا ہے ، محمد رسول اللہ ﷺ کے صدقے عطا ہوا ہے اور آپ کی محبّت کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ اس پر مہربان ہے ۔اور قیامت تک کوئی شخص پاک محمد مصطفیٰ ﷺکے وسیلہ کے بغیر کوئی فیض کسی سے پا نہیں سکتا۔ اور امّتِ محمدیہ میں جو بکثرت فیض رساں وجود نظر آتے ہیں وہ اپنا نہیں بلکہ محمد رسول اللہ ﷺ کا فیض بانٹنے والے ہیں جو خود محمد رسول اللہ ﷺ سے فیض یاب ہیں تو ایسے شخص پر اگر راشد علی اور اس کے پیر کی اوقات کا انسان بڑھ چڑھ کر گند بولے اور لعنتیں ڈالے، تو وہ خود اپنے ہاتھوں صرف اپنی ہی عاقبت برباد کر رہا ہو گا۔وہ اﷲ تعالٰی کی عطا اور محمّد رسول اﷲ ﷺ کے فیض کو تو نہیں روک سکتا ۔ اللہ کرے کہ ان کے ہاتھوں سے عاقبت کی بربادی ان کے اپنے تک ہی محدود رہے اور دوسرے بندگانِ خدا اس سے محفوظ رہیں۔

دیکھئے حضرت مرزا صاحب کے جس الہام پر اعتراض کرتے ہوئے راشد علی اور اس کا پیر اپنی دانست میں یہ ثابت کر رہے ہیں کہ گویا مرزا صاحب نے (نعوذ باللہ) حضرت محمد مصطفی ﷺ سے رقابت کی ہے اور جس کے بعد ہر فیضان ، محمد مصطفی ﷺ کی بجائے انہوں نے اپنی ذات سے جاری کرنے کا دعویٰ کر دیا ہے۔ وہ خود حضرت محمد مصطفی ﷺ کے مقابل پر اپنی حیثیت کیا بیان کرتے ہیں۔

آپ فرماتے ہیں :۔

ایں چشمہ رواں کہ بخلقِ خدا دہم

یک قطرۂ ز بحرِ کمالِ محمد است

یعنی معارف وحقائق کا جو چشمہ میں خدا کی مخلوق میں تقسیم کر رہا ہوں یہ میرا مال نہیں بلکہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے کمالات کے سمندر کے بے شمار قطروں میں سے ایک قطرہ ہے۔نیز فرمایا

وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا

نام اس کا ہے محمد دلبر مرا یہی ہے

اس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں

وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے

سب ہم نے اس سے پایا شاہد ہے تو خدایا

وہ جس نے حق دکھایا و ہ مہ لقا یہی ہے

(قادیان کے آریہ اور ہم ۔روحانی خزائن جلد ۲۰صفحہ ۴۵۶)

فرمایا :

’’خداوند کریم نے اس رسول مقبول ؐ کی متابعت اور محبت کی برکت سے اور اپنے پاک کلام کی پیروی کی تاثیر سے اس خاکسار کو اپنے مخاطبات سے خا ص کیا ہے اور علوم لدنّیہ سے سرفراز فرمایا ہے اور بہت سے اسرارِ مخفیہ سے اطلاع بخشی ہے اور بہت سے حقائق اور معارف سے اس ناچیز کے سینہ کو پُر کر دیا ہے اور بارہا بتلا رہا ہے کہ یہ سب عطیات اور عنایات اور یہ سب تفضّلات اور احسانات اور یہ سب تلطّفات اور توجہّات اور یہ سب انعامات اور تائیدات اور یہ سب مکالمات اور مخاطبات بیُمنِ متابعت ومحبتِ حضرت خاتم الانبیاء ﷺ ہیں۔

جمال ہمنشیں درمن اثر کرد

وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم

(براہین احمدیہ ۔ روحانی خزائن جلد ۱صفحہ ۲۶۳ ، ۲۶۴ حاشیہ نمبر۱۱)

فرمایا :

’’سو میں نے خدا کے فضل سے نہ اپنے کسی ہنر سے اس نعمت سے کامل حصّہ پایا ہے جو مجھ سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور خدا کے برگزیدوں کو دی گئی تھی اور میرے لئے اس نعمت کا پانا ممکن نہ تھا اگر میں اپنے سیّد ومولیٰ فخر الانبیاء اور خیر الوریٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی راہوں کی پیروی نہ کرتا۔ سو میں نے جو کچھ پایا اس پیروی سے پایا اور میں اپنے سچیّ اور کامل علم سے جانتا ہوں کہ کوئی انسان بجز پیروی اس نبی ﷺ، خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ معرفتِ کاملہ کا حصہ پا سکتا ہے۔ ‘‘(حقیقۃ الوحی ۔روحانی خزائن جلد نمبر ۲۲صفحہ ۶۴ ، ۶۵)

پس یہ سچائی ہے جو ہم نے تحریر کی ہے ! ا ور جو راشد علی اور اس کے پیر نے لکھا ہے وہ جھوٹ ہے اور یہ بھی ثابت شدہ حقیقت ہے کہ راشد علی اور اس کا پیر عملاً جھوٹ کی غلاظت پر منہ مارتے ہیں۔


Discover more from احمدیت حقیقی اسلام

Subscribe to get the latest posts to your email.

Leave a Reply