انگریز وں کی پشت پناہی اور کرم نوازیاں
راشد علی اور اس کے پیر نے اپنی’’ بے لگام کتاب‘‘ میں مزید خرافات یہ بھی لکھی ہیں۔
’’جماعت احمدیہ اور دیگر مسلمان :۔
انگریزوں کی پشت پناہی اور کرم نوازیوں سے بالآخر مرزا صاحب ایک نئی امت تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے۔۱۸۹۱ء میں انہوں نے جماعت احمدیہ کے نام سے اپنی اس امت کو انگریز سرکار میں رجسٹر کرایا ۔ صرف وہ اور ان کے پیروکار مسلمان قرار پائے باقی تمام جہنمی وحرامی قرار دئیے گئے۔ اسی طرح مرزا صاحب کا حکم تھا کہ ان کے ماننے والے نہ تو کسی غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھیں، نہ ان سے شادی کریں اور نہ غیر احمدی کی نماز جنازہ میں شریک ہوں۔ یہی وجہ تھی کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی نماز جنازہ میں اس وقت کے وزیر خارجہ ظفر اللہ خان قادیانی شریک نہیں ہوا بلکہ غیر مسلم مندوبین کے ساتھ بیٹھا رہا۔ جب اخبار والوں نے وجہ پوچھی تو کہا۔ آپ چاہیں تو مجھے اسلامی ملک کا کافر وزیر سمجھ لیں یا کافر ملک کا مسلمان وزیر۔‘‘
اس مختصر عبارت میں اس پیر خرافات اور مرید خرابات نے جھوٹ میں ڈبوئے ہوئے کئی ایک تیر چلائے ہیں جن میں سے ہر ایک انہیں کی طرف لوٹتا ہے۔
۱۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ’’ انگریزوں کی پشت پناہی اور کرم نوازیوں سے بالاخر مرزا صاحب ایک نئی امت تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ‘‘
یہ راشد علی اور اس کے پیر کا صریح جھوٹ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ نہ انگریز کی کرم نوازیاں تھیں نہ اس کی پشت پناہی اور نہ ہی آپ نے کوئی نئی امّت تیار کی۔
جیسا کہ گزشتہ اوراق میں تاریخی حقائق کی روشنی میں ثابت کیا جا چکا ہے کہ انگریزوں کی کرم نوازیاں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخالفین کے ساتھ تھیں۔ خواہ ان میں عیسائی تھے یا مسلمان۔ چنانچہ مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کے بارہ میں مولوی مسعود عالم صاحب ندوی لکھتے ہیں۔
’’ ہندوستان کی جماعت اہل حدیث ۔۔۔ کے سرکردہ مولوی محمدحسین بٹالوی ۔۔۔ نے سرکار انگریزی کی اطاعت کو واجب قرار دیا ۔۔۔ جہاد کی منسوخی پر ایک رسالہ ’’ الاقتصاد فی مسائل الجہاد ‘‘ فارسی زبان میں تصنیف فرمایا تھا اور مختلف زبانوں میں اس کے تراجم بھی شائع کرائے تھے۔ معتبر اور ثقہ راویوں کا بیان ہے کہ اس کے معاوضے میں سرکار انگریزی سے انہیں جاگیریں بھی ملی تھیں‘‘۔(ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک ۔صفحہ ۲۹)
Facebook Video
Youtube Video
یہ صرف معتبر اور ثقہ راویوں کا بیان ہی نہیں خود مولوی صاحب لکھتے ہیں۔
’’ اراضی جو خدا تعالیٰ نے گورنمنٹ سے مجھے دلوائی چار مربع ہے۔ ‘‘(اشاعۃ السنہ صفحہ۱نمبر ۱جلد ۱۹۔مطبع ریاض ہند امرتسر)
پشت پناہی اور کرم نوازیاں تو یہ تھیں جو انگریز،حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخالفین کی کرتا رہا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا معاملہ کلّیۃً اس کے برعکس تھا۔ آپ کے نام نہ انگریز نے کوئی جاگیر لگائی نہ جائیداد اور نہ ہی کسی قسم کی مالی معاونت کی۔
امر واقعہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آباء ریاست والے جاگیردار تھے مگر یہ ریاست اور جاگیر ان سے آہستہ آہستہ چھن گئی۔ اس صورتحال کو بھی آپ ؑ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت سمجھتے تھے جو اس کی حکیمانہ تقدیر کے تحت آپ کو ملی۔ چنانچہ ملکہ وکٹوریہ کو آپ نے جو خط رسالہ ’’تحفہ قیصریہ ‘‘ کے نام سے بھیجا اس میں خدا تعالیٰ کی اس پر حکمت تقدیر کو اجاگر کر کے بیان کیا تا کہ کسی بھی رنگ میں یہ تاثر پیدا نہ ہو کہ آپ کسی انعام واکرام اور جاگیر وریاست کی تمنا رکھتے ہیں اور یہ کہ آپ کا خط جو ملکہ وکٹوریہ کو عیسائیت چھوڑنے اور شہنشاہ دو عالم حضرت محمد مصطفی ﷺ کی غلامی میں آنے کی کھلی کھلی دعوت پر مشتمل تھا،کسی چاپلوس اور مصلحت پسند انسان کی حریصانہ کوشش نہ سمجھا جائے۔ چنانچہ آپ ؑ نے بڑی وضاحت کے ساتھ اپنے آباء کی ریاست کے زوال کی تفصیل بیان کی اور پھر لکھا کہ
’’ غرض ہماری ریاست کے ایّام دن بدن زوال پذیر ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ آخری نوبت ہماری یہ تھی کہ ایک کم درجہ کے زمیندار کی طرح ہمارے خاندان کی حیثیت ہو گئی۔ بظاہر یہ بات بہت غم دلانے والی ہے کہ ہم اول کیا تھے۔ اور پھر کیا ہو گئے ۔ لیکن جب میں سوچتا ہوں تو یہ حالت نہایت قابل شکر معلوم ہوتی ہے کہ خدا نے ہمیں بہت سے ان ابتلاؤں سے بچا لیا کہ جو دولتمندی کے لازمی نتائج ہیں۔ جن کو ہم اس وقت اس ملک میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ مگر میں اس ملک کے امیروں اور رئیسوں کے نظائر پیش کرنا نہیں چاہتا جو میری رائے کی تائید کرتے ہیں ۔ اور میں مناسب نہیں دیکھتا کہ اس ملک کے سست اور کاہل اور آرام پسند اور دین ودنیا سے غافل اور عیاشی میں غرق امیروں اور دولتمندوں کے نمونے اپنی تائید دعویٰ میں پیش کروں۔ کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ کسی کے دل کو دکھ دوں۔ اس جگہ میرا مطلب صرف اس قدر ہے کہ اگر ہمارے بزرگوں کی ریاست میں فتور نہ آتا ۔ تو شاید ہم بھی ایسی ہی ہزاروں طرح کی غفلتوں اور تاریکیوں اور نفسانی جذبات میں غرق ہوتے۔ سو ہمارے لئے جناب باری تعالیٰ جلّ جلالہ نے دولت عالیہ برطانیہ کو نہایت ہی مبارک کیا کہ ہم اس بابرکت سلطنت میں اس ناچیز دنیا کی صدہا زنجیروں اور اس کے فانی تعلقات سے فارغ ہو کر بیٹھ گئے۔ اور خدا نے ہمیں ان تمام امتحانوں اور آزمائشوں سے بچا لیا۔ کہ جو دولت اور حکومت اور ریاست اور امارت کی حالت میں پیش آتے۔ اور روحانی حالتوں کا ستیاناس کرتے۔ یہ خدا کا فصل ہے کہ اس نے ہمیں ان گردشوں اور طرح طرح کے حوادث میں جو حکومت کے بعد تحکّم کے زمانہ سے لازم حال پڑی ہوئی ہیں۔ برباد کرنا نہیں چاہا۔ بلکہ زمین کی ناچیز حکومتوں اور ریاستوں سے ہمیں نجات دے کر آسمان کی بادشاہت عطا کی ۔ جہاں نہ کوئی دشمن چڑھائی کر سکے۔ اور نہ آئے دن اس میں جنگوں اور خونریزیوں کے خطرات ہوں۔ اور نہ حاسدوں اور بخیلوں کو منصوبہ بازی کا موقع ملے ۔ اور چونکہ اس نے مجھے یسوع مسیح کے رنگ میں پیدا کیا تھا۔ اور توارد طبع کے لحاظ سے یسوع کی روح میرے اندر رکھی تھی۔ اس لئے ضرور تھا کہ گم گشتہ ریاست میں بھی مجھے یسوع مسیح کے ساتھ مشابہت ہوتی سو ریاست کا کاروبار تباہ ہونے سے یہ مشابہت بھی متحقق ہو گئی ۔ جس کو خدا نے پورا کیا ۔ کیونکہ یسوع کے ہاتھ میں داؤد بادشاہ نبی اللہ کے ممالک مقبوضہ میں سے جس کی اولاد میں سے یسوع تھا۔ ایک گاؤں بھی باقی نہیں رہا تھا ۔ صرف نام کی شہزادگی باقی رہ گئی تھی۔
ہر چند میں اس قدر تو مبالغہ نہیں کر سکتا کہ مجھے سر رکھنے کی جگہ نہیں ۔ لیکن میں شکر کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے ان تمام صعوبتوں اور شدتوں کے بعد جن کا اس جگہ ذکر کرنا بے محل ہے ۔ مجھے ایسے طور سے اپنی مہربانی کی گود میں لے لیا ۔ جیسا کہ اس نے اس مبارک انسان کولیا تھا جس کا نام ابراہیم تھا۔اس نے میرے دل کو اپنی طرف کھینچ لیا اور وہ باتیں میرے پر کھولیں جو کسی پر نہیں کھل سکتیں ۔ جب تک اس پاک گروہ میں داخل نہ کیا جائے جن کو دنیا نہیں پہچانتی ۔ کیونکہ وہ دنیا سے بہت دور اور دنیا ان سے دور ہے ۔ اس نے میرے پر ظاہر کیا کہ وہ اکیلا اور غیر متغیرّ اور قادر اور غیر محدود خدا ہے جس کی مانند اور کوئی نہیں۔ اور اس نے مجھے اپنے مکالمہ کا شرف بخشا۔ ‘‘(تحفہ قیصریہ ۔ روحانی خزائن جلد ۱۲صفحہ ۲۷۱ ، ۲۷۲)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے مامور فرمایا تووہی آپ کی پشت پناہی کرنے والا تھا اور وہی اکیلا اور غیر متغیر اور قادر اور غیر محدود خدا جس کی مانند اور کوئی نہیں آپ پر کرم نوازیاں کرتا تھا۔ آپ ؑ فرماتے ہیں ۔
جو کچھ مری مراد تھی سب کچھ دکھا دیا
میں اک غریب تھا مجھے بے انتہا دیا
اس قدر مجھ پر ہوئیں تیری عنایات وکرم
جن کا مشکل ہے کہ تا روز قیامت ہو شمار
Share this:
- Click to share on Facebook (Opens in new window)
- Click to share on Twitter (Opens in new window)
- Click to share on Reddit (Opens in new window)
- Click to share on Tumblr (Opens in new window)
- Click to share on Pinterest (Opens in new window)
- Click to share on Telegram (Opens in new window)
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window)
- Click to email a link to a friend (Opens in new window)
- Click to print (Opens in new window)
Discover more from احمدیت حقیقی اسلام
Subscribe to get the latest posts sent to your email.