رقم کی چوری اور نوکری
راشد علی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں لکھتا ہے کہ وہ
’’ گھر سے سالانہ پنشن کے پیسے چرا کر بھاگے اور اس کو اپنی عیاشی کی نظر کر دیا۔ کچھ عرصے بعد جب کنگلے ہو گئے تو سیالکوٹ میں کچہری میں نوکری کر لی۔ ‘‘( بے لگام کتاب)
i:۔چوری:
راشد علی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یہ ایک سراسر افترا باندھا ہے کہ آپ نے نعوذ باللہ من ذالک اس زمانہ میں چوری کی تھی۔ جس کی وجہ سے آپ گھر سے نکلے۔ اس کے متعلق ہم نے تلاش کیا کہ کہیں کوئی ایسا واقعہ ملتا ہو جس پر انہوں نے اس اعتراض کی بنا کی ہے تو ہمیں سیرۃ المہدی (جلد ۱ صفحہ۴۳ ، ۴۴ روایت نمبر۴۹) کی یہ روایت ملی کی ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے والد کی پنشن لینے سیالکوٹ گئے تو مرزا امام دین جو آپ کے خاندان ہی کا ایک فرد تھا وہ آپ کے پیچھے پڑ گیا اور قادیان لانے کی بجائے اِدھر اُدھر پھراتا رہا۔ پھر جب اس نے سارا روپیہ اڑا کر ختم کر دیا تو آپ کو چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا۔ چنانچہ حضرت مسیحِ موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام اس شرم سے قادیان واپس نہ گئے۔ چونکہ آپ ؑ کے والد صاحب کا منشاء رہتا تھا کہ آپ کہیں ملازم ہو جائیں اس لئے آپ سیالکوٹ شہر میں ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں قلیل تنخواہ پر ملازم ہو گئے۔
یہ واقعہ ہے عنفوانِ شباب کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بھول پن کا، آپ کے تقویٰ اور حیا کا ۔لیکن جہاں تک دھوکہ دینے والے کا تعلق ہے وہ دھوکا دینے والا نہ صرف یہ کہ پھر بعد میں احمدی نہیں ہوا تھا بلکہ شدید مخالف تھا یعنی راشد علی کی قماش کا تھا ۔چوری اس نے کی اور الزام حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ۔ پس روایت میں امام دین کے دھوکہ باز ہونے کا ذکر ہے۔ مجرم دھوکہ دینے والا ہوتا ہے دھوکہ کھانے والا نہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ فَدَلّٰھُمَا بِغُرُورٍ شیطان نے ان دونوں کو دھوکہ دیا۔ یعنی دھوکہ باز اور مجرم ابلیس ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوّا نہیں ۔بلکہ حضرت آدم ؑ کو تو خدا تعالیٰ نے مقامِ نبوّت عطا فرمایا ۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے متعلق یہ سراسر جھوٹ اور بے بنیاد اتّہام ہے ۔آپ کے متعلق تو ایک ایسے شخص(جو بعد میں آپ کا شدید مخالف بنا) کی اپنی گواہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تمام عمر انتہائی تقویٰ کے ساتھ گزاری۔ لیکن اس سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ ان لوگوں نے آپؑ پر چوری کا یہ الزام کیوں لگایا؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ پہلے نبیوں پر بھی چوریوں کے الزام لگانے کے عادی ہیں۔ کجا یہ کہ کسی کو غیر نبی مانتے ہوں یا کسی کو مفتری سمجھتے ہوں اورجس کو مفتری کہیں گے اس پر تو بڑھ بڑھ کر الزام لگائیں گے کیونکہ یہ تو پہلے انبیاء کو بھی نہیں چھوڑتے۔
چنانچہ قرآن کریم میں حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق جو یہ واقعہ آتا ہے کہ آپ ؑ کے بھائیوں نے بِن یا مین کے معاملہ میں کہا کہ اس سے پہلے اس کے بھائی ( یعنی حضرت یوسف ؑ )نے بھی چوری کی تھی تو یہاں یہ بات ظاہر ہے کہ قرآنِ کریم نے اس واقعہ کو ایک جھوٹے الزام کے طور پر پیش کیا ہے ۔نہ یہ کہ اسے تسلیم کیا ہے بلکہ صرف یہ بتانے کے لئے اس واقعہ کا ذکر کیا ہے کہ انبیاء پر جھوٹے الزام لگا کرتے ہیں اور ان کی دل آزاری کی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے بعض مسلمان مفسّرین نے خود اس واقعہ کو تسلیم کر لیا ہے اور پھر باقاعدہ اس چوری کی چھان بین بھی شروع کر دی کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے کیا چوری کی ہو گی۔ مختلف تفاسیر میں جن میں سے مثلاًتفسیرجلالین زیرِ آیت فَقَد سَرَقَ اَخٌ لَّہٗ مِن قَبلُ۔ (یوسف :۷۸) تفسیرالخازن الجزو ثالث زیرِ آیت فَقَد سَرَقَ اَخٌ لَّہٗ مِن قَبلُ۔اس طرح تفسیر فتح القدیر اور تفسیر روح المعانی ،میں بھی اس آیت کے تابع حضرت یوسف علیہ السلام کی فرضی چوری کی جستجو کی گئی ہے۔ ان سب مفسّرین میں یہ اختلاف ہے کہ کیا چیز چوری کی تھی ؟لیکن ان کا اس پر اتفاق ہے کہ ’نعوذ باللہ من ذالک‘ حضرت یوسف ؑ چور تھے اور پھر خدا کے نبی بھی بنے اور باوجود اس چوری کے اقرار کے نہ ان کے دین کو کوئی خطرہ ہوا اور نہ عالمِ اسلام کو۔
اب دیکھئے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی چوری سے متعلق کیا کیا اختلافات ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ سونے کا بت تھا بعض کہتے ہیں کہ مرغی تھی ۔ بعض کہتے ہیں کہ نہیں اتنی بڑی چیز نہیں تھی ،انڈا تھا مرغی نہیں تھی ۔بعض کہتے ہیں کہ کھانا چرایا تھا لیکن فقیروں کو دینے لئے چرایا تھا۔ الغرض یہ لوگ پہلے انبیاء کے متعلق ایسی ظالمانہ باتیں تسلیم کرتے ہیں اور پھربھی ان کی نبوّت پر شکّ کی کوئی گنجائش نہیں سمجھتے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر جھوٹا الزام لگانا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔
جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کردار کا تعلق ہے۔ سیالکوٹ کے زمانہ میں ،جس کا اس الزام میں ذکر کیا گیا ہے مولوی ظفر علی خان کے والد محترم منشی سراج الدین صاحب کی گواہی سنئے۔ وہ آپ کو اس زمانہ میں جانتے تھے ا س کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :۔
’’ ہم چشم دید شہادت سے کہہ سکتے ہیں کہ جوانی میں بھی نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے ۔کاروبارِ ملازمت کے بعد (یعنی آپ نے سیالکوٹ میں ملاز مت کی تھی) ان کا تمام وقت مطالعہ دینیات میں صرف ہوتا تھا عوام سے کم ملتے تھے ‘‘(اخبار زمیندار مئی ۱۹۰۸ء بحوالہ بدر ۲۵ جون ۱۹۰۸ئصفحہ ۱۳ )
مولوی محمّد حسین بٹالوی جوحضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے اوّل المخالفین تھے، آپ کے بارہ میں یہ گواہی دیتے ہیں
’’ مولّف براہین احمدیہ مخالف اور موافق کے تجربے اور مشاہدے کی رو سے واللّٰہ حسیبہٗ شریعت محمدیہ ؐ پر قائم ، پرہیزگار اور صداقت شعار ہے۔ ‘‘(اشاعۃ السنّۃ جلد نمبر ۹ صفحہ ۲۸۴ )
ii:۔نوکری :
جہاں تک نبی کے نوکری کرنے کا تعلق ہے اس کے متعلق اس معترض کے پیش رَو دیوبندی اور اہل حدیث خود تسلیم کرتے ہیں اور انہیں ماننا پڑتا ہے کہ نبی کسی غیر نبی کی نوکری کر سکتا ہے۔ کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کی نوکری کا کھلم کھلا ذکر فرمایا ہے۔ علاوہ ازیں یہ کہنا ویسے ہی بڑی بے عقلی کی بات ہے کہ نبی نوکری نہیں کر سکتا۔ آخر کیوں نہیں کر سکتا ؟ اس کی کوئی دلیل نہیں دیتے ،کوئی بنیاد نہیں اور نہ ہی کسی کتاب کا حوالہ ۔ لیکن جیسا کہ اوپر بیان کیا گیاہے کہ قرآن کریم نے ایک ایسے نبی کا واضح طور پر ذکر کیا ہے جس نے غیر قوم کی نوکری کی اور خود اپنی خواہش سے مال کا شعبہ طلب کیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق اہلِ حدیث کے ایک عالم مولوی ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں کہ:۔
’’ ہم قرآن مجید میں یہ پاتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام کافر بادشاہ کے ماتحت انتظامِ سلطنت کرتے تھے ۔ کسی ایک نبی کا فعل بھی ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے۔ ‘‘(’’اہلحدیث ‘‘ امرتسر۱۶ نومبر ۱۹۴۵ ء صفحہ۴)
پھر ’’ اہل حدیث ‘‘ اپنی اشاعت ۲۵ اکتوبر۱۹۴۶ء ،صفحہ۳ میں لکھتا ہے :۔
’’ حضرت یوسف علیہ السلام سے لے کر حضرت مسیح علیہ السلام تک کئی رسول اور نبی ایسے ہوئے ہیں جو اپنے زمانہ کی حکومتوں کے ماتحت رہے۔ ‘‘
ہم نے پہلے بھی لکھا تھا کہ ان کے حملوں کی زد سیّد الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ پر بھی پڑتی ہے اور دیگر سابقہ انبیاء علیہم السلام پر بھی۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یہ اعتراض کرنے سے پہلے اگر یہ آنحضرت ﷺ کے دربار میں حاضرہوتے تو آپ ؐ ان کو بتاتے کہ تمہارا یہ حملہ درست نہیں کیونکہ
’’کنت ارعاھاعلی قراریط لاھل مکّۃ‘‘(بخاری ۔کتاب الاجارہ ۔ باب رعی الغنم)
کہ میں کچھ قیراط لے کر مکّہ والوں کی بکریاں چرایا کرتا تھا۔ آنحضرت ﷺ کے بکریاں چرانے کاذکر خود سید عبدالحفیظ نے ’’ ہم اللہ کو کیوں مانیں ‘‘ کے صفحہ ۷۸ پر بھی کیا۔ قرآن کریم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اپنے خسر کی بکریاں چرانے کا ذکر ہے۔ اور انجیل میں لکھا ہے کہ حصرت عیسیٰ علیہ السلام کو بڑھئی ہونے کا طعنہ دیا گیا۔ مرقس ۶/۳
پس راشد علی کا اعتراض براہِ راست انبیاء علیہم السلام پر ہے اور سب سے بڑھ کر اس کی زد ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ پر پڑتی ہے۔ اسی سے پتہ چل جاتا ہے کہ یہ اعتراض قابلِ ردّ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو خدا تعالیٰ کی نوکری اختیار کر چکے تھے۔ درِ مولیٰ کو چھوڑ کر آپ کو نہ کسی نوکری کی خواہش تھی نہ ضرورت۔ خدا تعالیٰ نے آپ ؑ کو سّنتِ انبیاء ؑ سے حصہ عطا فرمانا تھا ۔البتّہ اس کا سبب سید عبدالحفیظ جیسا ایک غاصب شخص بن گیا جس نے آپ ؑ سے آپ ؑ کے والد کی پنشن کی رقم اڑا لی تھی۔
Share this:
- Click to share on Facebook (Opens in new window)
- Click to share on Twitter (Opens in new window)
- Click to share on Reddit (Opens in new window)
- Click to share on Tumblr (Opens in new window)
- Click to share on Pinterest (Opens in new window)
- Click to share on Telegram (Opens in new window)
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window)
- Click to email a link to a friend (Opens in new window)
- Click to print (Opens in new window)
Discover more from احمدیت حقیقی اسلام
Subscribe to get the latest posts sent to your email.