Search
Close this search box.

انبیاء، صحابہ، علماء اور بزرگان دین کی توہین کے الزام کا جواب

فہرست مضامین

Ahmady.org default featured image

انبیاء ء ، صحابہ ؓ ، علماء اور بزرگان دین کی تحقیر کے الزام کا جواب

راشد علی اور اس کے پیر نے اپنی ’’بے لگام کتاب ‘‘ میں ’’ قادیانی اخلاق ‘‘ کے عنوان کے تحت لکھا ہے۔

’’یہ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ علماء تو علماء بزرگان دین ، حتی کہ انبیائے کرام ، صحابہ کرام تک مرزا صاحب کی اس دریدہ دہنی کا شکار ہو چکے ہیں ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا اسلام کی ہر مقدّس شخصیت کی تحقیر کرنے اور ان کی ہستی کو گرانے میں مرزا غلام احمد قادیانی کو ایک خاص قسم کی لذت محسوس ہوتی تھی۔ فہرست بڑی طویل ہے۔ یہاں پر صرف چند حوالوں پر اکتفا کیا جا رہا ہے۔‘‘

اپنے اس بیان کی تائید میں، انہوں نے حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کی تحریرات میں سے چند اقتباسات پیش کئے ہیں ۔ان کو عند الجواب الگ الگ زیرِ بحث لایا جائے گا۔ انشاء اللہ

راشد علی اور اس کا پیر اپنے اس افتراء سے عامّۃ الناس میں اشتعال پھیلانا چاہتے ہیں ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر انبیاء علیہم السلام کی توہین وتحقیر کا الزام سراسر جھوٹا اور مبنی بر افتراء ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو فرماتے ہیں ۔

سب پاک ہیں پیمبر، اک دوسرے سے بہتر

لیک از خدائے برتر خیر الوریٰؐ یہی ہے

(درثمین۔ صفحہ ۸۳مطبوعہ اسلام انٹرنیشنل پبلیکیشنر لمیٹڈ لندن ۱۹۹۶ء)

نیز فرمایا :۔

’’یہ اصول نہایت پیارا اور امن بخش اور صلح کاری کی بنیاد ڈالنے والا اور اخلاقی حالتوں کو مدد دینے والا ہے کہ ہم ان تمام نبیوں کو سچا سمجھ لیں جو دنیا میں آئے ۔ خواہ ہند میں ظاہر ہوئے یا فارس میں یا چین میں یا کسی اور ملک میں ٗاور خدا نے کروڑہا دلوں میں ان کی عزت اور عظمت بٹھا دی ۔ اور ان کے مذہب کی جڑ قائم کر دی اور کئی صدیوں تک وہ مذہب چلا آیا ۔ یہی اصول ہے جو قرآن نے ہمیں سکھلایا۔ اسی اصول کے لحاظ سے ہم ہر ایک مذہب کے پیشوا کو جن کی سوانح اس تعریف کے نیچے آگئی ہیں ٗ عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں گو وہ ہندوؤں کے مذہب کے یا چینیوں کے مذہب کے یا یہودیوں کے مذہب کے یا عیسائیوں کے مذہب کے۔ ‘‘ (تحفہ قیصریہ ۔ روحانی خزائن جلد ۱۲صفحہ ۲۵۹)

اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ ، انبیاء علیہم السلام کی بابت جماعت احمدیہ کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

’’ اللہ کے تمام نبی معصوم عن الخطا ہوتے ہیں ۔ وہ سچائی کا زندہ نمونہ اور وفا کی جیتی جاگتی تصویر ہوتے ہیں ۔ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر ہوتے ہیں اور صفاتی خوبصورتی سے اللہ تعالیٰ کی سبوحیّت اور قدّوسیت اور اس کے بے عیب ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ درحقیقت وہ ایک آئینہ ہوتے ہیں جس میں بدکار بعض دفعہ اپنی شکل دیکھ کر اپنی بدصورتی اور زشت روئی کو ان کی طرف منسوب کر دیتا ہے۔‘‘ (دعوۃ الامیر ۔صفحہ ۱۴۹۔مطبوعہ اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشنز لمٹیڈ لندن)

ظاہر ہے کہ راشد علی اور اس کے پیر کو اسی آئینہ میں اپنی شکل دکھائی دی ہے جس کے نتیجہ میں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف اپنی زشت روئی منسوب کرتے ہیں۔

جس زور اور قوّت کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ ؑ پر ایمان لانے والوں کو انبیاء علیہم السلام، صحابہ رضوان اللہ علیہم اور دیگر مقدّس ہستیوں کے ساتھ باندھا ہے اور ان کی تعظیم وتکریم کا عرفان دیا ہے وہ عدیم المثال ہے، چنانچہ انبیاء علیہم السلام کے بارہ میں آپؑ فرماتے ہیں۔

’’ انبیاء علیہم السلام طبیب روحانی ہوتے ہیں ۔ اس لئے روحانی طور پر ان کے کامل طبیب ہونے کی یہی نشانی ہے کہ جو نسخہ وہ دیتے ہیں یعنی خدا کا کلام۔ وہ ایسا تیر بہدف ہوتا ہے کہ جو شخص بغیر کسی اعراض صوری یا معنوی کے اس نسخہ کو استعمال کرے وہ شفا پا جاتا ہے اور گناہوں کی مرض دور ہو جاتی ہے اور خدا تعالیٰ کی عظمت دل میں بیٹھ جاتی ہے اور اس کی محبت میں دل محو ہو جاتا ہے۔ ‘‘

(چشمہ معرفت ۔ روحانی خزائن جلد ۲۳صفحہ ۱۳۵)

کاش اس زمانہ میں شیطان کے چیلے بغیر کسی اعراض صوری یا معنوی کے اس نسخہ کو استعمال کرتے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انبیاء علیہم السلام کی بابت یہ بھی فرمایا۔

’’وہ زمین پر خدا کے قائمقام ہوتے ہیں ۔ اس لئے ہر ایک مناسب وقت پر خدا کی صفات ان سے ظاہر ہوتی ہیں اور کوئی امر ان سے ایسا ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ خدا کی صفات کے بر خلاف ہو۔ ‘‘(چشمہ معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳صفحہ ۲۹۶)

کیا انبیاء کاخدا کا قائمقام ہونا اور ان سے اسکی صفات کا ظاہر ہونا ،انبیاءکے مقام کو گراتا ہے؟پس صاف ظاہر ہے کہ راشد علی نے حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام پر محض ایک افتراء باندھا ہے۔

اہلِ بیتِ نبوی ؐ

حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام، اہلِ بیتِ نبویؐ کے متعلق فرماتے ہیں

جان و دلم فدائے جمالِ محمّدؐ است

خاکم نثار کوچہ آلِ محمّدؐ است

(درثمین فارسی ۔صفحہ ۸۹۔نظارت اشاعت ربوہ)

کہ میری جان اور دل محمّد مصطفی ﷺ کے جمال پر فدا ہیں اور میری خاک آل محمّدؐ کے کوچے پر قربان ہے۔فرمایا

جنّتے ہست آں رسولؐ جلال۔۔۔ آلِ اُوہست جملہ چوں گُل آل

کہ صاحبِ جلال رسول ﷺ تو ایک جنّت ہیں اور آپ کی اولاد سب کی سب گلاب کے پھول کی طرح ہیں۔

آنحضرت ﷺ اور آپؐ کی آل پر درود بھیجتے ہوئے حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔

’’ھم لِشجرۃ النّبوّۃ کالَاغصان و لِشامّۃ النّبیّ کالرّیحان۔‘‘ ( نور الحق۔ الجزء الثانی۔روحانی خزائن جلد ۸ صفحہ۱۸۸)

کہ وہ نبوّت کے درخت کی شاخیں اور نبیؐ کی قوّتِ شامّہ کے لئے ریحان کی طرح ہیں۔ پھر آپ فرماتے ہیں

’’ افاضہء انوارِ الٰہی میں محبّت اہلِ بیت کو بھی عظیم دخل ہے اور جو شخص حضرتِ احدیّت کے مقرّبین میں داخل ہوتا ہے انہیں طیّبین طاہرین کی وراثت پاتا ہے اور تمام علوم و معارف میں ان کا وارث ٹھہرتا ہے۔‘‘(براہینِ احمدیہ۔ روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ۵۹۸ حاشیہ در حاشیہ۳)

صحابہؓ رسول ﷺ

’’ آنحضرت ﷺ کی جماعت نے اپنے رسول مقبول کی راہ میں ایسا اتحاد اور ایسی روحانی یگانگت پیدا کر لی تھی کہ اسلامی اخوت کی رو سے سچ مچ عضو واحد کی طرح ہو گئی تھی اور ان کے روزانہ برتاؤ اور زندگی اور ظاہر اور باطن میں انوار نبوت ایسے رچ گئے تھے کہ گویا وہ سب آنحضرت ﷺ کی عکسی تصویریں تھے۔ ‘‘(فتح اسلام ۔روحانی خزائن جلد۳صفحہ ۲۱ )

آئمّہ اثناعشر

’’ آئمّہ اثناعشر نہایت درجہ کے مقدّس اور راستباز اور ان لوگوں میں سے تھے جن پر کشفِ صحیح کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔ ‘‘(ازالہ اوہام حصہ دوم ۔ روحانی خزائن جلد ۳صفحہ ۳۴۴ )

فرمایا

’’ و کان الامام محمّد الباقر من آئمّۃ المھدیّین و فلذۃ الامام الکامل زین العابدین‘‘( نور الحق۔ الجزء الثانی۔روحانی خزائن جلد۸ صفحہ۲۰۶)

کہ امام محمّد باقرؓ ،آئمّہ مہدیّین میں سے تھے اور امام کامل حضرت زین العابدین کے جگر گوشہ تھے۔

آئمّہ اربعہؒ

’’یہ چار امام اسلام کے واسطے مثل چار دیواری کے تھے۔ ‘‘(البدر ۳نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۴)

صلحائے امّتؒ

’’ہمارے سید ومولیٰ آنحضرت ﷺ کے زمانہ سے آج تک ہر ایک صدی میں ایسے باخدا لوگ ہوتے رہے جن کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ غیر قوموں کو آسمانی نشان دکھلا کر ان کو ہدایت دیتا رہا ہے۔ جیسا کہ سید عبدالقادر جیلانی اور ابوالحسن خرقانی اور ابویزید بسطامی اور جنید بغدادی اور محی الدین ابن العربی اور ذوالنون مصری اور معین الدین چشتی اجمیری اور قطب الدین بختیار کاکی اور فریدالدین پاک پٹنی اور نظام الدین دہلوی اور شاہ ولی اللہ دہلوی اور شیخ احمد سرہندی رضی اللہ عنہم ورضوا عنہٗ اسلام میں گزرے ہیں اور ان لوگوں کا ہزارہا تک عدد پہنچا ہے اور اس قدر ان لوگوں کے خوارق علماء اور فضلاء کی کتابوں میں منقول ہیں کہ ایک متعصب کو باوجود سخت تعصب کے آخر ماننا پڑا ہے کہ یہ لوگ صاحب خوراق وکرامات تھے ۔۔۔۔۔۔ جس قدر اسلام میں ، اسلام کی تائید میں اور آنحضرت ﷺ کی سچائی کی گواہی میں آسمانی نشان بذریعہ اس امّت کے اولیاء کے ظاہر ہوئے اور ہو رہے ہیں ان کی نظیر دوسرے مذاہب میں ہرگز نہیں۔ ‘‘(کتاب البریّہ ۔روحانی خزائن جلد ۱۳صفحہ۹۱ ،۰ ۹ )

پھر فرمایا :۔

’’ درمیانی زمانہ کے صلحائے امّتِ محمّدیہ بھی باوجود طوفانِ بدعات کے ایک دریائے عظیم کی طرح ہیں۔ ‘‘(تحفہ گولڑویہ ۔ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۲۲۶)

یہ وہ تعلیم اور عقیدہ ہے جس پر حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ عمل پیرا تھے اور اسی پر اپنی جماعت کو کاربند فرمایا۔ وہ نہ کسی نبی ؑ کی تحقیر گوارا کرتے تھے اور نہ ہی اسلام کی بزرگ اور مقدّس شخصیات کی ،یہی طریق ہے جس پر آپ ؑ کی جماعت بھی عمل کرتی ہے ۔ اس کے خلاف جو شخص جماعت احمدیہ پر یا بانی جماعت احمدیہ پر اتہام باندھتا ہے وہ جھوٹا ہے۔


Discover more from احمدیت حقیقی اسلام

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply