Search
Close this search box.

احمدیہ تعلیمی پاکٹ بک – ملک عبد الرحمٰن خادم صاحب – صفحہ 180 میں دیے گئے حوالے کا سکین

فہرست مضامین

احمدیہ تعلیمی پاکٹ بک – ملک عبد الرحمٰن خادم صاحب – صفحہ 180 میں دیے گئے حوالے کا سکین

احمدیہ تعلیمی پاکٹ بک

 ملک عبد الرحمٰن خادم صاحب

صفحہ 180 میں دیے گئے حوالے کا سکین

احمدیہ تعلیمی پاکٹ بک - ملک عبد الرحمٰن خادم صاحب - صفحہ 180 میں دیے گئے حوالے کا سکین

حوالہ محفوظ کریں


Discover more from احمدیت حقیقی اسلام

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

4 Responses

  1. ۴… اﷲتعالیٰ نے قادیانی معترضین کو لاجواب کرنے کے لئے پہلے ہی سے اعلان کر دیا ہے۔ ’’ویوم القیامۃ یکون علیہم شہیدا (نساء:۱۵۹)‘‘ {یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اہل کتاب پر دن قیامت کے بطور شاہد پیش ہوں گے۔} اسی پیش گوئی کی تصدیق میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے۔ ’’وکنت علیہم شہیداً ما دمت فیہم (مائدہ:۱۱۷)‘‘ {یعنی میں ان پر شاہد رہا۔ جب تک میں ان میں موجود رہا۔} چونکہ حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں حسب وعدہ باری تعالیٰ تشریف لائیں گے اور اپنی امت کا حال دیکھ چکے ہوں گے۔ اس واسطے اپنی شہادت کے وقت ان کے باطل عقائد سے ضرور مطلع ہوں گے۔
    ۵… اسی آیت کے آگے اﷲتعالیٰ حضرت مسیح علیہ السلام کا قول نقل فرماتے ہیں۔ ’’ان تعذبہم فانہم عبادک‘‘ یعنی اے باری تعالیٰ اگر آپ ان مشرکین نصاریٰ کو عذاب دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں۔
    کیا یہ اقرار اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ وہ وقت سوال قوم کے باطل عقائد سے اچھی طرح واقف ہوں گے۔ ورنہ اس سوال سے انہیں کیسے پتہ لگ سکتا ہے کہ نصاریٰ نے شرک کیا تھا؟
    ۶… اگر حضرت مسیح علیہ السلام کو اپنی امت کے باطل عقائد کا پتہ نہ ہوتا تو باری تعالیٰ کے سوال کے جواب میں موجود جواب نہ دیتے۔ بلکہ یوں عرض کرتے۔ ’’یا اﷲ اپنی الوہیت کی طرف ان کو دعوت دینا تو درکنار مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ ان لوگوں نے مجھے اور میری ماں کو خدا بنایا ہے یا نہ۔ مجھے تو آج ہی آپ کے ارشاد سے پتہ چلا ہے کہ ایسا ہوا ہے۔‘‘ مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا سوال کے جواب میں اپنی بریت ثابت کرنا اس بات کی بیّن دلیل ہے کہ آپ کو اپنی امت کا حال خوب معلوم تھا۔
    ۷… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی امت کے بگڑ جانے کا پتہ ہے اور اب یہ پتہ انہیں نزول کے بعد نہیں بلکہ قبل رفع لگ چکا تھا۔ ثبوت میں ہم قادیانیوں کی کتاب عسل مصفیٰ سے رسول کریمﷺ کی حدیث کا ترجمہ نقل کرتے ہیں۔ ’’دیلمی اور ابن النجار نے حضرت جابرؓ سے روایت کی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سفر کرتے کرتے ایک وادی میں پہنچے۔ جہاں ایک اندھا آدمی دیکھا جو ہل جل نہیں سکتا تھا اور وہ ایک مجذومی تھا اور جذام نے اس کے جسم کو پھاڑ دیا ہوا تھا۔ اس کے لئے کوئی سایہ کی جگہ نہیں تھی… وہ اپنے رب العالمین کا شکریہ ادا کرتا تھا۔ عیسیٰ علیہ السلام نے اس سے پوچھا کہ اے خدا کے بندے تو کس چیز پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے… اس شخص نے جواب دیا کہ اے عیسیٰ علیہ السلام میں ﷲتعالیٰ کی حمد اس لئے کرتا ہوں کہ میں اس زمانہ اور وقت میں نہیں ہوا جب کہ لوگ تیری نسبت کہیں گے کہ تو خدا کا بیٹا اوراقنوم ثالث ہے۔‘‘
    (کنزالعمال ج۳ ص۳۴۲، حدیث نمبر۶۸۵۲، وعسل مصفیٰ جلد اوّل ص۱۹۱،۱۹۲)
    ناظرین! کیسا صاف فیصلہ ہے اور قادیانیوں کی مسلمہ حدیث ببانگ دہل اعلان کر رہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنے رفع سے پہلے عیسائیوں کے فساد عقائد کا پتہ تھا۔ اب جو الزام قادیانی ہم پر لگاتے تھے کہ اسلامی عقیدہ کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جھوٹ کا مرتکب ماننا پڑتا ہے۔ وہی الٹا ان پر عائد ہوتا ہے۔ کیونکہ بفرض محال وہ فوت ہوچکے ہیں۔ جب بھی وہ عیسائیوں کے فساد عقائد سے لاعلمی نہیں ظاہر کر سکتے۔ کیونکہ اس حدیث کی رو سے انہیں (قادیانیوں کے قول کے مطابق) وفات سے پہلے پتہ لگ چکا تھا کہ دنیا میں ان کی پرستش ہوگی۔
    تصدیق از مرزاغلام احمد قادیانی
    ۸… ’’میرے پر یہ کشفاً ظاہر کیاگیا ہے کہ یہ زہرناک ہوا جو عیسائی قوم میں پھیل گئی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اس کی خبر دی گئی۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۲۵۴، خزائن ج۵ ص ایضاً)
    ’’خداتعالیٰ نے اس عیسائی فتنہ کے وقت میں یہ فتنہ حضرت مسیح علیہ السلام کو دکھایا گیا۔ یعنی اس کو آسمان پر اس فتنہ کی خبر دی گئی۔‘‘ (آئینہ کمالات ص۲۶۸، خزائن ج۵ ص ایضاً)
    ۹… مرزاقادیانی نے اس بھی زیادہ صفائی کے ساتھ عیسیٰ علیہ السلام کا اپنی امت کے بگاڑ سے مطلع ہونا تسلیم کیا ہے۔ (آئینہ کمالات اسلام ص۴۳۹،۴۴۰، خزائن ج۵ ص ایضاً)

    1. حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی لاعلمی کا اقرار کر چکے ہیں۔
      یہ اقرار اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ وہ وقت سوال قوم کے باطل عقائد سے اچھی طرح واقف ہوں گے۔ ورنہ اس سوال سے انہیں کیسے پتہ لگ سکتا ہے کہ نصاریٰ نے شرک کیا تھا؟

      اس سے یہ ثابت ہی نہیں ہو رہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پہلے ہی معلوم تھا صرف اتنا پتہ چل رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوال کرنے سے ان کو اندازہ ہوا کہ ایسا کچھ ہوا ہے اس لیے فرما رہے ہیں کہ اگر ایسا ہوا ہے تو اگر تو عزاب دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔

      جزاک اللہ

  2. ’’توفی‘‘ کا حقیقی معنی موت نہیں۔ اس لئے کہ اگر اس کا حقیقی معنی موت ہوتا تو ضرور قرآن و سنت میں کہیں ’’توفی‘‘ کو ’’حیات‘‘ کے مقابل ذکر کیا جاتا۔ حالانکہ ایسا کہیں نہیں ہے۔ بلکہ ’’توفی‘‘ کو ’’مادمت فیھم‘‘ کے مقابلہ میں رکھا گیا۔ معلوم ہوا کہ توفی کا حقیقی معنی موت نہیں۔ دیکھئے قرآن مجید میں جگہ جگہ موت و حیات کا تقابل کیا گیا ہے نہ کہ توفی و حیات کا۔ مثلاً الذی یحیی ویمیت، یحییکم ثم یمیتکم، ھوامات و احیی، لایموت فیھا ولایحییٰ، ویحي الموتیٰ، اموات غیر احیائ، یحییٰ الموتی، یحیی الارض بعد موتھا، تخرج الحي من المیت و تخرج المیت من الحي۰یہ تقابل بتاتا ہے کہ تعرف الاشیاء باضدادہا کے تحت حیات کی ضد موت ہے توفی نہیں۔ توفی کو قرآن مجید میں مادمت فیھم کے مقابلہ میں لایا گیا: ’’ وکنت علیھم شھیداً مادمت فیھم فلما توفیتنی‘‘ اس سے توفی کا حقیقی معنی سمجھا جاسکتا ہے کہ کیا ہے؟ اس کے لئے علامہ زمخشری کا حوالہ کافی ہوگا : ’’اوفاہ، استوفاہ، توفاہ استکمال ومن المجاز توفی و توفاہ ﷲ ادرکتہ الوفاة ترجمہ : ’’اوفاہ، استوفاہ اور توفاہ کے معنی استکمال یعنی پورا لینے کے ہیں۔ توفی کو مجازاً موت کے معنی میں لیا جاتا ہے۔ جیسے توفی اور توفاہ ﷲ یعنی اس کی وفات ہوگی۔‘‘
    اس حوالہ سے معلوم ہوا کہ توفی کا حقیقی معنی موت نہیں۔ البتہ مجازاً کہیں کہیں موت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
    ب… اﷲ رب العزت نے اپنی کتاب میں ’’اماتت‘‘ کی اسناد اپنی طرف ہی فرمائی۔ غیر اﷲ کی طرف ہرگز نہیں کی۔ جبکہ ’’توفی‘‘ کی اسناد ملائکہ کی طرف بھی اکثر موجود ہے۔ یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ توفی کا حقیقی معنی موت نہیں۔ جیسے ’’حتی اذا جاء احد کم الموت توفتہ رسلنا‘‘ یہاں پر توفی کی اسناد ملائکہ کی طرف کی گئی۔
    ج… توفی کا حقیقی معنی موت نہیں جیسے قرآن مجید میں ہے: ’’حتیٰ یتوفھن الموت‘‘ یہاں توفی اور موت کو مقابلہ میں ذکر کیا گیا ہے۔ اب اس کے معنی ہوںگے کہ ان کو موت کے وقت پورا پورا لے لیا جاتا ہے۔ اگر توفی کا معنی موت ہو تو پھر اس کا معنی تھا کہ: ’’یمیتہن الموت‘‘ یہ کس قدر رکیک معنی ہوں گے۔ کلام الٰہی اور یہ رکاکت؟ اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
    د… توفی کا حقیقی معنی موت نہیں۔ قرآن مجید میں ہے : ’’اﷲ یتوفی الانفس حین موتھا والتی لم تمت فی منامھا فیمسک التی قضیٰ علیہا الموت ویرسل الاخریٰ الیٰ اجل مسمی (الزمر: ۴۲)‘‘
    ترجمہ: ’’اﷲتعالیٰ نفسوں کو لے لیتا ہے ان کی موت کے وقت اور ان نفسوں کو جو نہیں مرے ان کو نیند میں لے لیتا ہے۔ پس وہ نفس جس کو موت وارد ہوتی ہے روک لیتا ہے اور دوسرے کو مقرر مدت تک چھوڑ دیتا ہے۔‘‘
    ۱…
    یہاں پہلے جملہ میں توفی نفس کو حین موتھا کے ساتھ مقید کیا ہے۔ معلوم ہوا توفی عین موت نہیں۔
    ۲…
    اور پھر توفی کو موت اور نیند کی طرف منقسم کیا ہے۔ لہٰذا نصاً معلوم ہوا کہ توفی موت کے مغائر ہے۔
    ۳…
    نیز یہ کہ توفی، موت اور نیند دونوں کو شامل ہے۔ نیند میں آدمی زندہ ہوتا ہے۔ اس کی طرف توفی کی نسبت کی گئی۔ توفی بھی ہے اور آدمی زندہ ہے۔ مرا نہیں۔ کیا یہ نص نہیں اس بات کی کہ توفی کا حقیقی معنی موت نہیں؟‘‘

    1. جناب لمبی تقریر کی ضرورت ہی نہیں۔ موجودہ شرائط کے تحت آپ توفی کا معنی قبض روح بنتیجہ موت کے علاوہ کہیں سے ثابت کر دیں تو ہم مان لیں گے
      1۔ اللہ تعالیٰ فاعل ہو
      2۔ زی روح مفعول ہو
      3۔ توفی باب تفعل میں استعمال ہوا ہو
      4۔ نوم اور لیل کا قرینہ موجود نہ ہو۔

      120 سال سے اوپر ہو گیا کوئی اس کا جواب نہیں دے سکا آپ کوشش کر لیں۔

Leave a Reply