اعتراض:۔
‘‘اگر حدیث کے بیان پر اعتبار ہے تو پہلے ان حدیثوں پر عمل کرنا چاہیے جو صحت اور وثوق میں اس حدیث سے کئی درجے بڑھی ہوئی ہوں مثلاً صحیح بخاری کی وہ حدیثیں جن میں آخری زمانہ میں بعض خلیفوں کی نسبت خبر دی گئی ہے۔خاص کر وہ خلیفہ جس کی نسبت بخاری میں لکھا ہے کہ آسمان سے اس کے لیے آواز آئے گی کہ ‘‘ھذا خلیفۃاللہ’’اب سوچو یہ حدیث کس پایہ اور مرتبہ کی ہے جو ایسی کتاب میں درج ہے جو ‘‘اصح الکتب بعد کتاب اللہ’’ہے!’’ (شھادة القرآن ص41 خزائن جلد6 337)
یہ حدیث بخاری شریف میں نہیں ہے۔غیرت مند قادیانیوں میں جرأت ہے تو اپنے نبی کا فرمان سچا کرنے کے لیے بخاری شریف سے یہ حدیث نکال کر دیں۔بخاری شریف تو کیا یہ حدیث پوری صحاح ستہ میں نہیں۔یہ مرزا نے جھوٹ بولا ہے اور وہ بھی حدیث نبوی کا نام لے کر۔
جواب:۔
یہ دونوں اعتراض 12 اور 13 سہو نسیان سے متعلق ہیں۔اس لیے ان کا اکٹھا جواب پیش کیا جا رہا ہے۔
ناظرین!اس جگہ بھی معترض نےتحریف لفظی سے کام لیتے ہوئے اپنے حوالہ میں حدیث کے اصل الفاظ‘‘خلیفة اللہ المھدی’’ کی بجائے صرف‘‘خلیفة اللہ’’لکھا ہے۔جس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے 1891ء میں اپنی کتاب ‘‘ازالہ اوہام’’ میں صاف لکھ دیا ہے کہ مہدی کی خبریں ضعف سے خالی نہیں ہیں اسی وجہ سے امامین حدیث (یعنی امام بخاری و مسلم )نے ان کو نہیں لیا۔
پس شہادة القرآن مطبوعہ 1893ء میں صحاح ستہ کی مشہور کتاب ‘‘سنن ابن ماجہ’’ کی اس حدیث ‘‘خلیفة اللہ المھدی’’(جو امام حاکم کے نزدیک بخاری و مسلم کی شرائط کے مطابق ہے) سہواً اگر بخاری کا حوالہ درج بھی ہوگیا تو معترض کی طرف سے اسے جھوٹ قرار دیتے ہوئے اس غلط بیانی کا ارتکاب کرنا کہ یہ صحاح ستہ میں بھی موجود نہیں،اہل علم و فضل کا شیوہ نہیں ہوسکتا۔
عن ثوبان قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ( يقتيل عند كنزكم ثلاثة كلهم ابن خليفة . ثم لا يصير إلى واحد منهم . ثم نطلع الرايات السود من قبل المشرق . فيقتلونكم قتلا لم يقتله قوم ) ثم ذكر شيئا لا أحفظه . فقال ( فإذا رأيتموه فبايعوه ولو حبوا على الثلج . فإنه خليفة الله المهدي )
(سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب خروج المھدی)
اس حدیث کو امام حاکم نے بھی مستدرک درج کیا ہے۔مستدرک میں امام حاکم نے ایسی روایات کو لیا ہے جو ان کے نزدیک شیخین کی شرائط کے مطابق تھیں مگر انہوں نے ان کو نہیں لیا۔ ابن ماجہ کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ
في الزوائد هذا إسناده صحيح . رجاله ثقات . ورواه الحاكم في المستدرك وقال . صحيح على شرط الشيخين۔
سہو و نسیان ہر انسان سے ہوجاتا ہےحتیٰ کہ انبیاء سے بھی ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت آدمؑ کے بارہ میں فرماتا ہے:
فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا
(طہ:115)
کہ وہ بھول گئےمگر ان کا ایسا کرنے کا ارادہ نہ تھا۔
اس طرح کے سہو کو جھوٹ قرار دینے سے امت کے علامہ سعید الدین تفتازاتی اور امام الربیع جیسے بزرگ علماء پر جھوٹ کا فتویٰ معترض کی طرف سے صادر ہوگا۔جنہوں نے کئی احادیث کا حوالہ بخاری کا دیا ۔حالانکہ وہ حوالہ بخاری میں موجود نہیں۔
پس نادانستہ بُھول انبیاء کی بھی اللہ کے نزدیک قابل معافی ہے مگر معترض کے نزدیک نہیں۔اس نے یہ بھی خیال نہیں کیا کہ سہو کو جھوٹ قرار دینے سے یہ اعتراض ہمارے نبیؐ پر آئے گا جنہوں نےفرمایا:
ِانَّمَا أَنَا بَشَرٌ أَنْسَى كَمَا تَنْسَوْنَ فَإِذَا نَسِيتُ فَذَكِّرُونِى
(صحیح بخاری ابواب القبلة باب التوجه نحو القبلة حيث كان،صحیح مسلم)
حضرت مرزا صاحب تو آپ کے امتی ہیں جس کے بارہ میں ہے:
تَجَاوَزَ اللَّهُ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأَ، وَالنِّسْيَانَ
(مستدرک حاکم جزء2 ص216)
یہاں سہو کے حوالہ سے اعتراض نمبر 13 کا ذکر بھی بر محل ہو گا۔حقیقة الوحی ص154 پر سہو کاتب سے سورة البقرة کی آیت 211‘‘هَلْ يَنْظُرُونَ إِلا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمَامِ’’ کی بجائے ‘‘یوم یأتی ربک فِي ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ’’لکھی گئی۔جسے اگلے ایڈیشن میں درست کر دیا گیا۔
اب دیانت کا تقاضا تو یہ تھا کہ معترض یہ کہنے کی بجائے کہ مرزا جی نے اللہ تعالیٰ پر بہتان اور جھوٹ باندھا ہے،واضح کرتا کہ یہ ایک سہو ہو گیا تھا جس کی درستی اگلے ایڈیشن میں کر دی گئی۔مگر یہ شرافت اور اعلیٰ اخلاق کی ایسی بات شاید معترض کو زیب نہیں دیتی۔
حضرت مرزا صاحب نے 1891ء میں ازالہ اوہام میں اس بات کی وضاحت فرماچکے ہیں کہ امام بخاری اور امام مسلم نے مہدی کی حدیثوں کو نہیں لیا۔آپ فرماتے ہیں:
دوسری حدیث جس کا حوالہ حضررت مرزا صاحب نے دیا ہے،امام ابو عبد اللہ نعیم بن حماد (متوفیٰ 228ھ) نے اپنی کتاب ‘‘الفتن’’ میں یوں درج کی ہے:
‘‘قَالَ: يُنَادِي مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ: أَلَا إِنَّ الْحَقَّ فِي آلِ مُحَمَّدٍ، وَيُنَادِي مُنَادٍ مِنَ الْأَرْضِ: أَلَا إِنَّ الْحَقَّ فِي آلِ عِيسَى’’
(کتاب الفتن از نعیم بن حماد جزء1 ص337)
یعنی آسمان سے آواز دینے والا آواز دے گا کہ سنو! حق آل محمدؐ میں ہے اور زمین سے آواز دینے والا آواز دے گا کہ حق آل عیسیٰؑ میں ہے۔
اب مولوی صاحب اس حدیث کے بخاری سے حوالوں کے مطالبے کرتے پھرتے ہیں۔اگر ان میں ذرا بھی خدا خوفی اور تحقیق کا مادہ ہوتاتو یہ جائزہ لیتے کہ کیا رسول اللہؐ کی یہ پیشگوئی پوری پوری ہوئی یا نہیں؟ اور اگر پوری ہوگئی تو آسمان سے اس کی صحت ثابت ہوگئی۔
ناظرین! جس شان کے ساتھرسول اللہﷺ کی یہ پیشگوئی پوری ہوئی وہ تاریخ میں ہمیشہ یاد رہے گا۔واقعہ ہوا کہ پادری عبد اللہ آتھم جس نے اپنی کتاب ‘‘اندرونہ بائبل’’ میں ہمارے آقا و مولاحضرت محمد مصطفیٰﷺ کے لیے دجال کے الفاظ استعمال کئے۔
حضرت مرزا صاحب نے اس سے اسلام کی حقانیت اور ابطال عیسائیت پر مناظرہ میں شکست فاش دی جو جنگ مقدس کے نام سے مشہور ہے۔اس موقع پر آپ نے یہ پیشگوئی بھی فرمائی کہ اگر آتھم حق کی طرف رجوع نہ کرے گا تو پندرہ ماہ میں ہاویہ میں گرایا جائیگا۔آتھم نے رجوع کر لیا۔اور پندرہ ماہ گزر گئے تو عیسائیوں نے شور مچایا کہ حق عیسائیوں کے ساتھ ہے مگر حضرت مرزا صاحب نے آتھم کو دعوت دی کہ اگر اس نے رجوع الی الحق نہیں کیا تو قسم کھا لے تو ایک سال میں ہلاک ہوگا۔اگر قسم نہ بھی کھاوے تو اخفائے حق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اسے بے سزا نہیں چھوڑے گا۔
چنانچہ 27 جولائی 1897ء کو پیشگوئی کے چوتھے سال آتھم مارا گیا اور یہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ مہدی کے وقت عیسائیوں سے مناظرہ ہوگا اور بعد میں فتنۂ عظیمہ ہوگا۔آسمان سے آواز آئے گی کہ حق آل مہدی میں ہے۔اور شیطان سے آواز آئے گی کہ حق آل عیسیٰ میں ہے۔لیکن آسمانی آواز درست ہوگی کہ حق آل مہدی میں ہے۔یعنی عیسائیت کے مقابل اسلام کی فتح ہوگی۔
آخر میں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ شہادة القرآن کے جس حوالہ کے بارہ میں معترض نے ایک سہو پریہ ہرزہ سرائی کی ہے کہ مرزا صاحب نے جھوٹ بولا اور وہ بھی حدیث نبویؐ پر۔کاش! اس نے شھادة القرآن کتاب کو تحقیق حق کی نظر سے پڑھا ہوتا تو اسے پتہ چلتا کہ یہ کتاب ہی ایک شخص عطا محمد کے جواب میں لکھی گئی جو حدیثوں کو ناقابل اعتبار قرار دے کر امت میں کسی مسیح موعود کے آنے کا انکاری تھا۔آپ نے اس کتاب میں جہاں حدیث کی اہمیت و ضرورت اور عزت و عظمت قائم کر کے دکھلائی اور حدیث میں موجود پوری ہونیوالی پیشگوئیوں کو بطور ثبوت پیش کر کے مسیح موعود کی آمد کو قرآن و حدیث دونوں سے ثابت کر دکھلایا۔اور سورةنور کی آیت استخلاف کو پیش کر کے بتلایا کہ امت محمدیہ کے دوسرے آخری دور میں بھی خلیفوں کا آنا اسی طرح ضروری تھا جیسا کہ پہلے دور میں۔کیونکہ ثلة من الاولین کے ساتھ ثلة من الآخرین بھی آیا ہے۔ اور اس کے ثبوت میں آپ نے یہ وضاحت کرتے ہوئے کہ ‘‘میں نے اس جگہ اصل الفاظ حدیث کو نقل نہیں کیا اور نہ تمام احادیث کے خلاصہ کو لکھا ہے۔’’(صفحہ309)بخاری کی ان احادیث کی طرف اشارہ فرمایا جن میں آخری زمانہ میں خلیفوں کے آنے کا ذکر ہے۔جیسے
1۔ َإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ کی حدیث
2۔ لاَ نَبِيَّ بَعْدِي، وَسَيَكُونُ خُلَفَاءُ فَيَكْثُرُونَ (بخاری کتاب الانبیاء بَابُ مَا ذُكِرَ عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ)
جن سے ظاہر ہے کہ امت کا اوّل زمانہ اور آخر زمانہ باہم بہت مشابہ ہیں اور دونوں زمانے اس بارش کی طرح ہیں جو ایسی خیرو برکت سے بھری ہوئی ہو کہ کچھ معلوم نہیں کہ برکت اس کے پہلے حصہ میں زیادہ ہے یا پچھلے میں جس میں رسول اللہﷺ کے روحانی فرزند غلام مسیح و مہدی نے آنا ۔یہ لطیف اور مبارک مضمون ہے جو دراصل معترض کو ناگوار معلوم ہوا۔کیونکہ وہ اس مبارک مسیح کا منکر ہوچکا۔
Share this:
- Click to share on Facebook (Opens in new window)
- Click to share on Twitter (Opens in new window)
- Click to share on Reddit (Opens in new window)
- Click to share on Tumblr (Opens in new window)
- Click to share on Pinterest (Opens in new window)
- Click to share on Telegram (Opens in new window)
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window)
- Click to email a link to a friend (Opens in new window)
- Click to print (Opens in new window)
Discover more from احمدیت حقیقی اسلام
Subscribe to get the latest posts sent to your email.