منظور محمّد کے ہاں بیٹا
راشد علی اپنی ’’بے لگام کتاب‘‘ میں لکھتا ہے۔
’’مرزا غلام احمد قادیانی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے ۱۹ جون ۱۹۰۶ء میں ان کے ایک عقیدتمند میاں منظور محمد صاحب کے اس بیٹے کے نام بذریعہ الہام بتائے جو بطور نشان پیدا ہو گا۔ وہ نام یہ تھے۔
۱۔ کلمۃ العزیز ۔ ۲۔ کلمۃ اللہ خان ۔ ۳۔ وارڈ ۔ ۴۔ بشیرالدولہ ۵۔ شادی خان ۔ ۶۔ عالم کباب ۔ ۷۔ ناصر الدین ۔ ۸ ۔ فاتح الدین ۔ ۹۔ ھذا یوم مبارک
مگر اللہ تعالیٰ کو مرزا صاحب کی یہ پیشنگوئی پوری کرنے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ چنانچہ اس ’’ بطور نشان لڑکے ‘‘ کے بجائے لڑکی پیدا ہوئی جو کچھ ہی دنوں بعد مر گئی۔ یہی نہیں بلکہ کچھ عرصے بعد ان خاتون کا ہی انتقال ہو گیا تا کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری !! (تذکرہ :۔ مجموعہ الہامات مرزا صفحہ ۶۴۶ ، ۶۴۷ ، ۶۵۶ طبع سوم)‘‘
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی کے بارہ میں’ تذکرہ‘ کی اصل عبارت یہ ہے۔
’’دیکھا کہ منظور محمد صاحب کے ہاں لڑکا پیدا ہوا ہے اور دریافت کرتے ہیں کہ اس لڑکے کا کیا نام رکھا جائے تب خواب سے حالت الہام کی طرف چلی گئی اور یہ معلوم ہوا ’’ بشیر الدولہ ‘‘
فرمایا ۔’’کئی آدمیوں کے واسطے دعا کی جاتی ہے معلوم نہیں کہ منظور محمد کے لفظ سے کس کی طرف اشارہ ہے۔ ممکن ہے کہ بشیر الدولہ کے لفظ سے یہ مراد ہو کہ ایسا لڑکا میاں منظور محمد کے پیدا ہو گا جس کا پیدا ہونا موجب خوشحالی اور دولتمندی ہو جائے اور یہ بھی قرین قیاس ہے کہ وہ لڑکا خود اقبال مند اور صاحبِ دولت ہو لیکن ہم نہیں کہہ سکتے کہ کب اور کس وقت یہ لڑکا پیدا ہو گا ۔ خدا نے کوئی وقت ظاہر نہیں فرمایا ممکن ہے کہ جلد ہو یا خدا اس میں کئی برس کی تاخیر ڈال دے۔ ‘‘(تذکرہ صفحہ ۵۹۸ مطبوعہ۱۹۶۹ ء الشرکۃ الاسلامیہ ربوہ)
اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صاف اور غیر مبہم الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ ’’ معلوم نہیں منظور محمد سے کس کی طرف اشارہ ہے۔‘‘
آپ ؑ کی اس قطعی عبارت کو کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حتمی طور پر آپ ؑ پر ’’منظور محمد ‘‘ کی تعیین نہیں فرمائی۔ الہاماتِ الٰہیہ میں مذکور ایسے امور ہمیشہ تعبیر طلب ہوتے ہیں ۔چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک تعبیر کے لحاظ سے ’’ منظور محمد ‘‘ سے ظاہری طور پر پیر منظور محمد صاحب لدھیانویؓ بھی مراد لئے ۔مگر کسی ایک جگہ بھی ان کو الہامِ الٰہی کا حتمی مصداق قرار نہیں دیا اور نہ ہی کسی جگہ یہ ضروری قرار دیا کہ ’’ منظور محمد ‘‘ سے مراد پیر منظور محمد لدھیانویؓ ہی ہیں بلکہ فرمایا
’’ ممکن ہے کہ بشیر الدولہ کے لفظ سے یہ مراد ہو کہ ایسا لڑکا میاں منظور محمد کے پید اہو گا۔ ‘‘
یعنی ایک امکانی پہلو کے لحاظ سے میاں منظور محمدؓ کا نام بطور ایک مصداق کے اس پیشگوئی کی تعبیر میں لیا ۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک رؤیا تھی اور رؤیا ہمیشہ تعبیر کی محتاج ہوتی ہے۔ رؤیا میں اکثر نام صفات کے اعتبار سے بیان کئے جاتے ہیں جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے رؤیا میں دیکھا کہ دنیا کے خزانوں کی کنجیاں آپ ؐ کے ہاتھ پر رکھی گئی ہیں فرمایا وضعت فی یدی کہ وہ میرے ہاتھ پر رکھی گئیں۔ (بخاری کتاب الرؤیا والتعبیر باب المفاتیح فی الید )
اب اس موقع پر راشد علی کی سرشت کا انسان تو صاف کہہ دے گا کہ (نعوذ باللہ نعوذ باللہ) آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی جھوٹی نکلی کیونکہ آپ ؐ کے ہاتھ میں وہ چابیاں نہیں آئیں۔ جبکہ پیشگوئی کے الفاظ میں آپؐ کے ہاتھ میں ہی ان چابیوں کا آنا مذکور ہے۔
ہمارے عرفان کے لحاظ سے آنحضرت ﷺ کی یہ پیشگوئی پوری شان سے پوری ہوئی ۔کیونکہ تعبیر کے لحاظ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو آنحضرت ﷺ کا نام صفاتی طور پر دیا گیا تھا اور آپ ؐ کو کنجیاں ملنے سے یہ مراد تھی کہ آپ کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ملیں گی۔
پس زیرِبحث رؤیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں بھی صفاتی نام ہی مذکور تھا جس کی تعبیر بعد میں یہ ظاہر ہوئی کہ منظور محمد سے مراد صفاتی لحاظ سے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی ہیں جو اپنے آقا ومولیٰ حضرت محمد ﷺ کے منظورِ نظر ہیں کیونکہ آپ ؑ کو آنحضرت ﷺ نے ’’سلام ‘‘ بھیجا آپ ہی کے بارہ میں فرمایا ’’ اسمہ اسمی ‘‘ پس اس پیشگوئی میں مذکور بچّے کی تعبیر بعد میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کے وجود میں ظہور میں آئی۔ چونکہ اس پیشگوئی کی تعبیر کا ظہورصفاتی اور معنوی رنگ میں ہونا مقدّر تھا اس لئے بیٹے کی ولادت بھی اس کی صفات اور اس کے اوصاف کے ظہور کے ساتھ مقدّر تھی۔ جیسا کہ صوفیاء نے اس کو ولادت معنوی سے تعبیر کیا ہے۔ اس ولادت سے جسمانی طور پر بیٹے کی پیداش مقصود نہ تھی۔اللہ تعالیٰ نے اس رؤیا کے ذریعہ یہ خبر دی تھی کہ وہ کلمۃ اللہ اور سلسلہ احمدیہ کی اقبال مندی کا نشان عنقریب اپنی عظیم الشان صفات کے ساتھ دنیا پر ظاہر ہونے والا ہے ۔اس کی موعودہ صفات جو ۱۹۰۶ء تک دنیا کی نظر سے مخفی تھیں اب ان کے ظہور کا وقت قریب آیا ہے۔ چنانچہ ۱۹۰۶ء ہی میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ پسرِ مسیح موعود علیہ السلام نے عملی دنیا میں قدم رکھا اورآپ نے رسالہ ’’ تشحیذ الاذہان ‘‘ جاری فرمایا اور پھر ۱۹۱۴ء میں ۲۵ سال کی عمر میں آپ خلیفۃ المسیح ہوئے اور اسی سال زلزلہ عظیمہ کی پیشگوئی جنگِ عظیم کی صورت میں پوری ہوئی اور پھر جو جو صفاتی نام اس بچّہ کے پیشگوئی میں بیان ہوئے تھے ان سب کا ظہور اور ان کی تعبیر آپ ہی کی ذات میں جلوہ گر ہوئی۔
راشد علی نے یہ بھی استہزاء کیا ہے کہ
’’ اللہ تعالیٰ کو مرزا صاحب کی یہ پیشگوئی پوری کرنے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی چنانچہ اس ’’بطور نشان لڑکے ‘‘ کے بجائے لڑکی پیدا ہوئی جو کچھ ہی دنوں بعد مر گئی یہی نہیں بلکہ کچھ عرصے بعد ان خاتوں کا ہی انتقال ہو گیا تا کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ ‘‘
یہ راشد علی کی محض بے باکی ہے۔ جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس خواب کا ذکر فرمایا ہے وہاں یہ بھی واضح الفاظ میں تحریر فرمایا کہ
’’ ہم نہیں کہہ سکتے کہ کب اور کس وقت یہ لڑکا پید اہو گا خدا نے کوئی وقت ظاہر نہیں فرمایا ممکن ہے کہ جلد ہو یا خدا اس میں کئی برس کی تاخیر ڈال دے۔ ‘‘
پس نہ منظور محمد سے لازمی طور پر میاں منظور محمدؓ ،مراد تھے اور نہ ہی فوری طور پر بیٹے کی پیدائش کی تعیین کی گئی تھی۔
Share this:
- Click to share on Facebook (Opens in new window)
- Click to share on Twitter (Opens in new window)
- Click to share on Reddit (Opens in new window)
- Click to share on Tumblr (Opens in new window)
- Click to share on Pinterest (Opens in new window)
- Click to share on Telegram (Opens in new window)
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window)
- Click to email a link to a friend (Opens in new window)
- Click to print (Opens in new window)
Discover more from احمدیت حقیقی اسلام
Subscribe to get the latest posts sent to your email.