Search
Close this search box.

ختم نبوت۔ خاتم معنی مہر۔ مفردات القرآن۔ امام راغب

فہرست مضامین

ختم نبوت

خاتم معنی مہر

مفردات القرآن۔ امام راغب

الْخَtمُ وَالطَّبع: کے لفظ دو طرح سے استعمال ہوتے ہیں کبھی تو ختمت اور طبعت کے مصدر ہوتے ہیں اور اس کے معنی

کسی چیز پر مہر کی طرح نشان لگانا کے ہیں اور

کبھی اس نشان کو کہتے ہیں جو مہر لگانے سے بن جاتا
ہے۔
مجاز اکبھی اس سے کسی چیز کے متعلق وثوق حاصل کر لینا اور اس کا محفوظ کرنا مراد ہوتا ہے ۔ جیسا کہ کتابوں یا

دروازوں پر مہر لگا کر انہیں محفوظ کر دیا جاتا ہے۔ کہ کوئی چیز ان کے اندر داخل نہ ہو ۔ قرآن پاک میں ہے: خَتَمَ اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ (۷۲) اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے۔
وَخَتَمَ عَلَى سَمْعِهِ وَ قَلْبِه) (۴۵-۲۳) اور اس کے کانوں اور دل پر مہر لگادی۔
اور کبھی کسی چیز کا اثر حاصل کر لینے سے کنایہ ہوتا ہے جیسا کہ مہر سے نقش ہو جاتا ہے اور اسی سے خَتَمْتُ الْقُرْآنَ کا محاورہ ہے یعنی قرآن پاک ختم کر لیا اور آیت کریمہ: ختَمَ اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ (۷۲) خدا نے ان
کے دلوں پر مہر لگادی۔ اور آیت:
قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ اخَذَ اللَّهُ سَمْعَكُمْ وَابْصَارَكُمْ وَخَتَمَ عَلى قُلُوبِكُمْ (۲-۴۶) ( ان کافروں سے کہو بھلا دیکھو تو اگر تمہارے کان یا دو آنکھیں چھین لے اور اور تمہارے دلوں پر مہر لگا دے۔ میں عادت الہیہ کی طرف اشارہ ہے کہ جب انسان اعتقاد باطل یا محرمات کے ارتکاب میں حد کو پہنچ جاتا ہے اور کسی طرح حق کی طرف التفات نہیں کرتا تو اس کی ہیت نفسانی کچھ ایسی بن جاتی ہے کہ گناہوں کو اچھا سمجھنا اس کی خوبن جاتی ہے ۔ گویا اس طرح اس کے دل پر مہر لگ جاتی ہے۔ چنانچہ اسیمعنی میں فرمایا:
أولئِكَ الَّذِينَ طَبَعَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَسَمْعِهِمْ وَابْصَارِهِمْ (۱۶-۱۰۸) یہی لوگ ہیں جن کے دلوں اور کانوں اور آنکھوں پر

خدا نے مہر لگا رکھی ہے۔ اسی طرح آیات کریمہ:
وَلا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنَا (۱۸)- (۲۸) اور جس شخص کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے۔ اس کا کہنا نہ ماننا۔
وَجَعَلْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّهُ أَنْ يَفْقَهُوهُ (۴۶۱۷) اور ان کے دلوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں کہ اسے سمجھ نہ سکیں۔
وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةٌ ) (۱۳۵) اور ان کے دلوں کو سخت کر دیا ۔
میں اِغْفَالُ مِن اور قساوة سے بھی علی الترتیب یہی معنی مراد ہیں۔
جبائی کہتے ہیں کہ اللہ نے کفار کے دلوں پر مہر لگانے کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالٰی ان کے دلوں پر ایسی علامت قائم کر دیتے ہیں کہ فرشتے ان کے کفر سے آگاہ ہو جاتے ہیں اور ان کے حق میں دعائے خیر نہیں کرتے ۔ لیکن یہ بے معنی سی بات ہے ۔ کیونکہ اگر یہ کتابت محسوس ہو تو اصحاب التشریح کو بھی اس کا ادراک ہونا ضروری ہے اور اگر سراسر عقلی اور غیر محسوس ہے تو ملائکہ ان کے عقائد باطلہ سے مطلع ہونے کے بعد اس قسم کی علامت سے بے نیاز ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مہر لگانے کے معنی ان کے ایمان نہ لانے کی شہادت دینے کے ہیں اور آیت
کریم
الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَى أَفْوَاهِهِمْ (۳۶-۲۵) آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ

کلام نہیں کرسکیں گے۔ اور آیت (۳۳۔ (۴۰) میں آنحضرت کو خاتم النبيين فرمانے کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت نے اپنی آمد سے سلسلہ نبوت کو مکمل کردیا ہے۔ اور
آیت کریمہ:
﴿وَخِتَامُهُ مِسْك (۸۳-۲۶) جس کی مہر مسک کی ہوگی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ ختام کے معنی مَا يُخْتَمُ یہ کے ہیں یعنی وہ چیز جس سے مہر لگائی جائے مگر آیت کے معنی یہ ہیں کہ اس کا آخری لطف اور برتن میں باقی ماندہ چھوٹ مسلک کے طرح مہکے گا اور بعض نے اس سے یہ مراد لی ہے کہ اس پر کستوری کی مہر لگی ہوئی ہوگی۔ مگر یہ بے معنی سی بات ہے۔ کیونکہ شراب کو بذات خود لذیذ ہونا چاہیے اگر وہ بذات خود لذیذ نہ ہو تو اس پر مسک کی مہر لگانا چنداں مفید نہیں ہوسکتا ، اور نہ ہی اس کی لذت میں اضافہ کا باعث بن سکتا ہے۔

کتاب کا لنک

Discover more from احمدیت حقیقی اسلام

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply