احمدیہ تعلیمی پاکٹ بک
ملک عبد الرحمٰن خادم صاحب
توفی معنی قبض روح یعنی موت
توفی معنی پورا پورا سہواً بتائے
صفحہ 187 کے حوالوں کا سکین
[insert_php] for($i=1; $i<=9; $i++){ echo '‘;}
[/insert_php]
Post Views: 408
Share this:
- Click to share on Facebook (Opens in new window)
- Click to share on Twitter (Opens in new window)
- Click to share on Reddit (Opens in new window)
- Click to share on Tumblr (Opens in new window)
- Click to share on Pinterest (Opens in new window)
- Click to share on Telegram (Opens in new window)
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window)
- Click to email a link to a friend (Opens in new window)
- Click to print (Opens in new window)
Discover more from احمدیت حقیقی اسلام
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
2 Responses
الدر المنثور صفحہ ۵۹٦ میں التوفی کی تشریح” و لیس بوفاۃ موت” بھی ہے وہ بھی دیکھ لو، یعنی توفی موت والی نہیں ہے
حدیث: ’’عن ابی ہریرۃؓ قال قال رسول ﷲﷺ والذی نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم حکماً عدلاً فیکسر الصلیب ویقتل الخنزیر ویضع الجزیۃ ویفیض المال حتیٰ لا یقبله احد حتیٰ تکون السجدۃ الواحدہ خیراً من الدنیا وما فیہا ثم یقول ابوہریرۃؓ فاقرؤا ان شئتم وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ‘‘
(رواہ البخاری ج۱ ص۴۹۰، باب نزول عیسیٰ بن مریم علیہ السلام، مسلم ج۱ ص۸۷، باب نزول عیسیٰ علیہ السلام)
English link https://sunnah.com/bukhari/60/118
اردو لنک http://www.elmedeen.com/read-book-2042#page-370&viewer-pdf
’’حضرت ابوہریرةؓ آنحضرتﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ *آپﷺ نے فرمایا۔ مجھے اس ذاتِ واحد کی قسم ہے جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ تحقیق ضرور اتریں گے۔ تم میں ابن مریم حاکم وعادل ہوکر* ۔ پس صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کرائیں گے اور جزیہ اٹھادیں گے۔ ان کے زمانہ میں مال اس قدر ہوگا کہ کوئی قبول نہ کرے گا۔ یہاں تک کہ ایک سجدہ عبادت الٰہی دنیا ومافیہا سے بہتر ہوگا۔ اگر تم چاہو تو (اس حدیث کی تائید میں) پڑھو۔ قرآن شریف کی یہ آیت: وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ‘‘
سوال… کیا یہ حدیث صحیح ہے؟
جواب… ہاں صاحب! یہ حدیث بالکل صحیح ہے۔ دلائل ملاحظہ کریں۔
۱… یہ حدیث بخاری ومسلم دونوں میں موجود ہے۔ جن کی صحت پر مرزاقادیانی نے مہر تصدیق ثبت کرادی ہے۔
(ازالہ اوہام ص۸۸۴، خزائن ج۳ ص۵۸۲، تبلیغ رسالت حصہ دوم ص۲۵، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۳۵) https://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?p=17&l=Urdu#page/128/mode/1up
۲… اس حدیث کی صحت کو مرزاقادیانی نے اپنی مندرجہ ذیل کتب میں صحیح تسلیم کر لیا ہے۔ (ایام الصلح ص۵۲،۵۳،۷۵،۹۱،۱۶۰،۱۷۶، خزائن ج۱۴ ص۲۸۵،۳۲۸،۴۰۸،۴۲۴، تحفہ گولڑویہ ص۲۵، خزائن ج۱۷ ص۱۲۸، شہادت القرآن ص۱۱، خزائن ج۶ ص۳۰۷) نیچے سے نویں لائن https://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?p=17&l=Urdu#page/128/mode/1up
سوال… اس حدیث کا ترجمہ لفظی تو واقعی حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات ثابت کرتا ہے۔ لیکن آپ کے پاس کیا دلیل ہے کہ اس حدیث سے مراد بھی وہی ہے جو لفظی ترجمہ سے ظاہر ہے اور یہ کہ ابن مریم سے مراد عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام ہی ہیں؟ وغیرہ وغیرہ!
جواب… جناب عالی! اس حدیث کا مطلب اور معنی وہی ہے جو اس کے الفاظ سے ظاہر ہیں۔ کیونکہ حقیقی معنوں سے پھیر کر مجازی معنی لینے کے لئے کوئی قرینہ ہونا ضروری ہے۔ ورنہ زبان کا مطلب سمجھنے میں بڑی گڑبڑ ہو جائے گی۔ میز سے مراد میز ہی لی جائے گی نہ کہ بینچ۔ مرزاغلام احمد قادیانی سے مراد ہمیشہ غلام احمد بن چراغ بی بی قادیانی ہی لی جائے گی۔ نہ اس کا بیٹا مرزابشیرالدین محمود۔ اسی طرح حدیث میں ابن مریم سے مراد ابن مریم (مریم کا بیٹا) حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی ہوں گے نہ کہ مرزاغلام احمد قادیانی ابن چراغ بی بی۔
۲… صحابہ کرامؓ! مجددین امت محمدیہ نے اس حدیث کے معنی وہی سمجھے جو اس کے الفاظ بتاتے ہیں۔ یعنی حضرت ابن مریم سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی سمجھتے رہے۔
۳… خود مرزاقادیانی نے کسی عبارت کے مفہوم کو سمجھنے کے متعلق ایک عجیب اصول باندھا ہے۔ فرماتے ہیں: ’’والقسم یدل علیٰ ان الخبر محمول علی الظاہر لا تاویل فیہ ولا استثناء والّا ای فائدۃ کانت فی ذکر القسم‘‘
(حمامتہ البشریٰ ص۱۴، خزائن ج۷ ص۱۹۲ حاشیہ) نیچے سے ساتویں لائن https://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?p=7&l=Urdu#page/192/mode/1up
’’اورقسم (حدیث میں) دلالت کرتی ہے کہ حدیث کے وہی معنی مراد ہوں گے جو اس کے ظاہری الفاظ سے نکلتے ہوں۔ ایسی حدیث میں نہ کوئی تاویل جائز ہے اور نہ کوئی استثناء ورنہ قسم میں فائدہ کیا رہا۔‘‘
سوال… کیا حدیث ہمارے لئے حجت ہے اور کیا حدیثی تفسیر کا قبول کرنا ہمارے واسطے ضروری ہے؟
جواب… حدیث کے فیصلہ کا حجت اور ضروری ہونا تو اسی سے ظاہر ہے کہ ﷲتعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں۔ ’’فلا وربک لا یؤمنون حتیٰ یحکموک فیما شجر بینہم ثم لا یجدوا فی انفسہم حرجاً مما قضیت ویسلموا تسلیما (نساء:۶۵)‘‘ {(ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں اے محمدﷺ) قسم ہے مجھے آپ کے رب کی (یعنی اپنی ذات کی) کہ کوئی انسان مؤمن نہیں ہوسکتا۔ جب تک وہ اپنے اختلاف اور جھگڑوں میں آپ کو ثالث نہ مانا کریں اور پھر آپ کے فیصلہ کے خلاف ان کے دلوں میں کوئی انقباض بھی پیدا نہ ہو اور آپ کے فیصلہ کے سامنے سرتسلیم خم کر دیں۔}
خود مرزاقادیانی اصول تفسیر کے ذیل میں لکھتے ہیں: ’’دوسرا معیار رسول ﷲﷺ کی تفسیر ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ سب سے زیادہ قرآن کے معنی سمجھنے والے ہمارے پیارے اور بزرگ نبی حضرت رسول کریمﷺ تھے۔ پس اگر آنحضرتﷺ سے کوئی تفسیر ثابت ہو جائے تو مسلمان کا فرض ہے کہ بلاتوقف اور بلا دغدغہ قبول کرے۔ نہیں تو اس میں الحاد اور فلسفیت کی رگ ہوگی۔‘‘(برکات الدعا ص۱۸، خزائن ج۶ ص ایضاً)
https://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?p=6&l=Urdu#page/18/mode/1up
پس معلوم ہوا کہ اس تفسیر نبوی پر اعتراض کرنے والا بحکم مرزاقادیانی ملحد اور فلسفی محض ہے۔ اسلام سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں۔
پھر یہ تفسیر نبوی مروی ہے۔ ایک جلیل القدر صحابی رسول ﷲﷺ سے جنہوں نے اس حدیث کو ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن‘‘ کی تفسیر کے طور پر بیان فرمایا ہے۔ گویا حضرت ابوہریرةؓ نے تمام صحابہؓ کے سامنے اس آیت کی تفسیر بیان کی اور کسی دوسرے بزرگ نے اس کی تردید نہ فرمائی۔ پس اس تفسیر کے صحیح ہونے پر صحابہ کا اجماع بھی ہو گیا۔ صحابی کی تفسیر کے متعلق مرزاقادیانی کا قول ملاحظہ ہو۔
’’تیسرا معیار صحابہؓ کی تفسیر ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ صحابہؓ آنحضرتﷺ کے نوروں کو حاصل کرنے والے اور علم نبوت کے پہلے وارث تھے اور خداتعالیٰ کا ان پر بڑا فضل تھا اور نصرت الٰہی ان کی قوت مدرکہ کے ساتھ تھی۔ کیونکہ ان کا نہ صرف قال بلکہ حال تھا۔‘‘
(برکات الدعا ص۱۸، خزائن ج۶ ص ایضاً)
https://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?p=6&l=Urdu#page/18/mode/1up
ناظرین! میں نے قرآن، حدیث، اقوال صحابہ اور مجددین امت کے بیانات اس آیت کی تفسیر میں بیان کر دیے ہیں۔ بیانات بھی وہ کہ قادیانی ان کی صحت پر اعتراض کریں تو اپنے ہی فتویٰ کی رو سے ملحد، کافر اور فاسق ہو جائیں۔ اگر تمام اقوال مجددین اور احادیث نبوی وروایات صحابہ کرامؓ درج کروں تو ایک مستقل کتاب اسی آیت کی تفسیر کے لئے چاہئے۔
’’واعطیت صفۃ الاحیاء والافناء‘‘ (خطبہ الہامیہ ص۵۶، خزائن ج۱۶ ص ایضاً)پہلی لائن https://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=16#page/56/mode/1up
’’یعنی مجھے مردوں کو زندہ کرنے اور زندوں کو مارنے کی طاقت دی گئی ہے۔‘‘
حضرات! کون بےوقوف ہے جو اس دعویٰ کو مراق کا نتیجہ نہ سمجھے گا۔ مرزاقادیانی نے کس مردے کوزندہ کیا اور کس زندہ کو مردہ کیا؟ ایک سلطان محمد کو فنا کر کے اپنی منکوحہ آسمانی بھی واپس نہ لاسکے؟ ’’فافہموا ایہا الناظرون‘‘
۳۹… ’’بنی اسرائیل میں اگرچہ بہت سے نبی آئے۔ مگر ان کی نبوت موسیٰ کی پیروی کا نتیجہ نہ تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیروی کا اس میں ذرہ بھی دخل نہ تھا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۹۷ حاشیہ، خزائن ج۲۲ ص۱۰۰) نیچے سے تیسری لائن https://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?p=22&l=Urdu#page/100/mode/1up
دیکھئے حضرات! کس زور سے ثابت کر رہے ہیں کہ اگلے نبیوں کی نبوت موسیٰ علیہ السلام کی پیروی کا نتیجہ نہ تھا۔ حالانکہ یہ بالکل جھوٹ ہے۔ دروغ گورا حافظہ نباشد!
خود (الحکم مورخہ ۲۴؍نومبر ۱۹۰۲ء ص۵) پر لکھتے ہیں: ’’حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اتباع سے ان کی امت میں ہزاروں نبی آئے۔‘‘
۴۰… ’’صاحب نبوت تامہ ہرگز امتی نہیں ہوسکتا اور جو شخص کامل طور پر رسول ﷲ کہلاتا ہے۔ اس کا کامل طور پر دوسرے نبی کا مطیع اور امتی ہو جانا نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کی رو سے بالکل ممتنع ہے۔‘‘ ﷲتعالیٰ فرماتا ہے: ’’وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن ﷲ‘‘
(ازالہ حصہ۲ ص۵۶۹، خزائن ج۳ ص۴۰۷) چوتھی لائن https://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?p=3&l=Urdu#page/407/mode/1up
مرزاقادیانی کا جھوٹا محض ہونا ان کے اپنے فرزند کی زبان سے سنو۔ ’’بعض نادان کہہ دیا کرتے ہیں کہ ایک نبی دوسرے نبی کا متبع نہیں ہوسکتا اور اس کی دلیل یہ دیتے: ’’وما ارسلنا من رسول الی آخرہ‘‘ لیکن یہ سب قلت تدبر ہے۔‘‘ (حقیقت النبوۃ ص۱۵۵)
قطع نظر شرعی مذہب کے جھوٹ بولنا ایک اخلاقی گناہ ہے۔ ’’لعنۃ ﷲ علی الکاذبین‘‘ (جھوٹوں پر خدا کی لعنت) فیصلہ خدائی ہے۔ لیکن اتمام حجت کے طور پر *جھوٹ اور جھوٹے* کے متعلق خود مرزاقادیانی کے اقوال ملاحظہ کیجئے۔ شاید جبھی جھوٹ کی مذمت سمجھ میں آسکے۔
قول مرزا
۱… ’’جب ایک بات میں کوئی جھوٹا ثابت ہو جائے تو پھر دوسری باتوں میں بھی اس پر کوئی اعتبار نہیں رہتا۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۲۲۲، خزائن ج۲۳ ص۲۳۱) https://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?p=23&l=Urdu#page/231/mode/1up
۲… ’’ظاہر ہے کہ ایک دل سے دو متناقض باتیں نہیں نکل سکتیں۔ کیونکہ ایسے طریق سے یا تو انسان پاگل کہلاتا ہے یا منافق۔‘‘ (ست بچن ص۳۱، خزائن ج۱۰ ص۱۴۳)😂 پانچویں لائن https://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?p=10&l=Urdu#page/143/mode/1up
۳… ’’جیسا کہ بت پوجنا شرک ہے، جھوٹ بولنا بھی شرک ہے۔ ان دونوں باتوں میں کچھ فرق نہیں۔‘‘ (ملحض الحکم ۱۱؍صفر ۱۳۲۳ھ ج۹ نمبر۱۳ ص۵، مورخہ ۱۷؍اپریل ۱۹۰۵ئ)