Search
Close this search box.

حضرت مسیح موعود مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام پر قرآن کی تحریف کے الزام کا جواب

فہرست مضامین

Ahmady.org default featured image

تحریف قرآن کا الزام (چھلنی کیا بولے جس میں بہتّر سو چھید)

+ فہرست مضامین

i۔ لفظی تحریف

راشد علی نے اپنے رسالہ ’’Ghulam Vs Master‘‘ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر قرآنِ کریم میں لفظی تحریف کا الزام لگایا اور اس کے ثبوت کے طور پر تین آیات پیش کی ہیں۔ عملًا تو اس کا یہ اعتراض (نعوذ باللہ) خدا تعالیٰ پر ہے کہ اس نے تو حفاظتِ قرآن کا قطعی فیصلہ اور حتمی وعدہ فرمایا تھا مگر اس میںحضرت مرزا صاحب نے (نعوذ باللہ) تحریف کر دی ہے اور وہ وعدۂ حفاظت (نعوذ باللہ) پورا نہیں ہوا۔ ہمارے نزدیک تو راشد علی کا دعویٰ جھوٹا ہے بلکہ کلّیّۃً جھوٹا ہے اور خدا تعالیٰ کا وعدہ سچّا اور تا قیامت قائم رہنے والا ہے۔ کسی کی مجال نہیں کہ اس الہٰی وعدہ کی طرف ٹیڑھی آنکھ کر کے بھی دیکھ سکے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔

’’قرآن کا ایک نقطہ یا شعشہ بھی اوّلین اور آخرین کے مجموعی حملہ سے ذرّہ سے نقصان کا اندیشہ نہیں رکھتا۔ وہ ایسا پتھر ہے کہ جس پر گرے گا اس کو پاش پاش کر دے گا اور جو اس پر گرے گا وہ خود پاش پاش ہو جائے گا۔ ‘‘(آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد ۵صفحہ ۲۵۷حاشیہا)

اس تمہید کے بعد ہم یہ واضح کر دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ کتابت کی غلطیاں کسی بھی ضابطے کے تحت تحریف نہیں کہلاتیں۔ یہ بات علمائے فن کے مسلّمہ اصولوں میں سے ہے ۔ تحریف کرنے والا اگراصل متن کے الفاظ کو جانتے بوجھتے ہوئے تبدیل کرے اور پھر تبدیل کردہ الفاظ کے مطابق اپنا عقیدہ یا مؤقف بنائے تو وہ تحریف کہلاتی ہے۔ اس لئے کسی بھی کتاب یا تحریر میں خصوصاً الہٰی کتب میں تحریف ایک بڑا گناہ ہے۔

علاوہ ازیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اُردو کے کاتب عموماً عربی زبان اور علم الاعراب سے ناواقف ہوتے ہیں اس لئے اگر ان کی کتابت کی غلطیاں ہوں اور باوجود سو احتیاط کے پروف ریڈنگ میں بھی وہ نہ پکڑی جا سکیں ، انہیں تحریف قرار دینا سخت ناانصافی ہی نہیں صریح زیادتی بھی ہے۔

حضرت مرزا صاحب کی کتب میں بھی معدودے چند جگہ کتابت کی غلطیاں رہ گئیں لیکن کسی ایک جگہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ ترجمہ اصل آیت کے مطابق نہ ہو اور نہ ہی کبھی یہ ہوا کہ کسی جگہ استدلال اصل آیات کے مخالف تھا۔

دوسرے یہ کہ وہی آیت جس پر تحریف کا الزام دھرا گیا جب اسی کتاب میں یا کسی دوسری کتاب میں درج کی گئی تو بالکل درست اور اصل الفاظ میں درج کی گئی۔

مزید برآں یہ کہ جب کبھی بھی علم ہوا کہ کسی جگہ سہوِ کتابت ہوئی ہے تو اگلے ایڈیشن میں اس کو درست کر دیا گیا۔

پس ایسی صورت میں کتابت کی کسی غلطی کو تحریف قرار دینا اخفائے حق نہیں تو کذبِ صریح ضرور ہے۔

اس وضاحت کے بعد ہم اب ان آیات کا ایک ایک کر کے جائزہ لیتے ہیں جو راشد علی نے بطور اعتراض کے تحریر کی ہیں۔وہ لکھتا ہے

پہلی آیت : وما ارسلنا من رسول ولا نبی الا اذا تمنّی القی الشیطان فی امنیتہ ۔(الحج : ۵۳) (ازالہ اوہام ص ۶۲۹ ، دافع الوساوس ، مقدمہ حقیقت اسلام ص ۳۳روحانی خزائن جلد ۳ص ۴۳۹)

’’مرزا غلام احمد صاحب نے قرآن شریف کی آیت سے من قبلک خارج کر دیا ہے کیونکہ اگر من قبلک یہاں رہتا تو مرزا صاحب کی نبوت کا ٹھکانا نہ بنتا۔ ‘‘

قارئین کرام! حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس آیت سے اپنی نبوّت کا استدلال نہیں کیا اس لئے راشد علی کا یہ کہنا کہ اگر من قبلک یہاں رہتا تو مرزا صاحب کی نبوت کا ٹھکانا نہ بنتا ‘‘ محض راشد علی کی زبان درازی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔

باقی جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ’’مرزا غلام احمد صاحب نے قرآن شریف کی آیت سے من قبلک خارج کر دیا ہے‘‘ تو اس بارہ میں حقیقتِ حال یہ ہے کہ واقعۃً یہاں یہ آیت درج کرتے ہوئے من قبلک کے الفاظ سہوِکتابت کی وجہ سے رہ گئے ہیں جبکہ یہی آیت اسی کتاب میں دوسری جگہ من قبلک کے الفاظ کے ساتھ لکھی گئی ہے ۔ پھر ایک اور کتاب براہین احمدیہ حصہ چہارم کے صفحہ ۵۴۹طبع اول کے حاشیہ در حاشیہ نمبر ۴ میں بھی یہ آیت اپنے پورے الفاظ کے ساتھ تحریر شدہ ہے۔ اس لئے اسے تحریف قرار دینا کھلا کھلا جھوٹ ہے۔ نیز بعد کے ایڈیشن میں مذکورہ بالا صفحہ ۴۳۹(روحانی خزائن جلد ۳)پر کتابت کی اس غلطی کی تصحیح کر لی گئی ہے۔

دوسری آیت : ان یجاھدوا فی سبیل اللہ باموالھم وانفسھم (التوبہ :۲۰) (جنگ مقدس صفحہ ۱۹۴۔۵جون ۱۸۹۳ء)

’’مرزا صاحب نے ان یجاھدوا باموالھم وانفسھم اپنی طرف سے داخل کیا ہے اور وجاھدوا باموالکم وانفسکم کو خارج کر کے فی سبیل اللہ کو آخر سے اٹھا کر درمیان میں رکھ دیا ہے۔ ‘‘

راشد علی کا یہ فقرہ ان کی بددیانتی اور بدنیتی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

قارئین کرام ! حضرت مرزا صاحب نے سورہ توبہ کی آیت ۲۰کا حوالہ دیا ہے۔ نہ کہ آیت ۴۱کا ۔ آیت ۲۰میں نہ تو باموالکم وانفسکم ہے اور نہ ہی فی سبیل اللہ آخر میں ہے بلکہ وہاں الفاظ ’’ فی سبیل اللہ باموالھم وانفسھم ‘‘ ہی ہیں۔ یعنی فی سبیل اللہ پہلے ہے اور باموالکم وانفسکم کی بجائے باموالھم وانفسھم اس کے بعد ہے۔

اب راشدعلی کا یہ کہنا کہ یہاں باموالھم وانفسھم کی بجائے باموالکم وانفسکم لکھ دیا جائے اور فی سبیل اللہ کے الفاظ شروع سے اٹھا کر بعد میں لکھے جائیں ، قرآن کریم میں تحریف کی جسارت نہیں تو اور کیا ہے؟ راشد علی جو قرآنِ کریم کی آیات کو بدلنے پر دوسروں کو ترغیب دے رہا ہے ، کیا خود سورہ توبہ کی اس آیت میں اسی طرح تبدیلی کرنے کی بے باکی کرے گا جس طرح کہ دوسروں سے کرانا چاہتا ہے؟ یہ لوگ تعصّب اور بے باکی میں حدّ سے اس قدر تجاوز کر چکے ہیں کہ قرآنِ کریم کی آیات میں تبدیلی کی تحریص سے بھی گریز نہیں کرتے۔

پھر راشد علی لکھتا ہے

تیسری آیت : وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی ولا محدث الا انا تمنی القی الشیطن فی امنیتہ فینسخ اللہ ما یلقی الشیطان ثم یحکم اللہ ایاتہ۔ (براہین ا حمدیہ۳۴۸)

’’ناظرین دیکھئے اصل آیت من رسول تک تحریر کی گئی آگے اپنی طرف سے ساری عبارت لگائی اور محدث کا لفظ جو سارے قرآن مجید میں نہیں ہے داخل کر دیا۔ یہ سارا ڈھونگ مرزا قادیانی نے اپنے آپ کو محدث وملہم من اللہ ثابت کرنے کے لئے رچایا۔ ‘‘

قارئین کرام ! براہین احمدیہ صفحہ ۶۵۵روحانی خزائن جلد ۱ کی جس عبارت کو راشد علی نے نقل کیا ہے اور نقل کرنے کے بعد جو حملہ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام پر کیا ہے دیکھئے یہ حملہ آپؑ پر نہیں بلکہ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ پر کیا گیا ہے۔ آپ کی بیان فرمودہ عبارت ملاحظہ فرماویں کہ :

’’ آپ لوگ کیوں قرآنِ شریف میں غور نہیں کرتے اور کیوں سوچنے کے وقت غلطی کھا جاتے ہیں۔ کیا آپ صاحبوں کو خبر نہیں کہ صحیحین سے ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ اس امّت کے لئے بشارت دے چکے ہیں کہ اس امّت میں بھی پہلی امّتوں کی طرح محدّث پیدا ہوں گے اور محدّث بفتحِ دال وہ لوگ ہیں جن سے مکالمات و مخاطباتِ الٰہیہ ہوتے ہیں اور آپ کو معلوم ہے کہ ابن عباسؓ کی قرات میں آیا ہے وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی ولا محدث الا اذا تمنی القی الشیطان فی امنیتہ فینسخ اللّٰہ ما یلقی الشیطان ثم یحکم اللّٰہ آیاتہ (الحج : ۵۳)پس اس آیت کی رو سے بھی جس کو بخاری نے بھی لکھا ہے محدّث کا الہام یقینی اور قطعی ثابت ہوتا ہے ‘‘(براہین احمدیہ ۔صفحہ ۶۵۵روحانی خزائن جلد ۱)

حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے اس آیت میں ولا محدث کے لفظ کا از خود ذکر نہیں فرمایا بلکہ اس آیت کی ایک دوسری قرآت کا ذکر فرمایا ہے جو حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے اور اسے تفسیر روح المعانی میں حضرت علامہ الوسیؒ نے اور تفسیر الدرالمنثور میں حضرت امام جلال الدین سیوطیؒ کے علاوہ متعدد کتب تفاسیر میں دیگر مفسّرین نے بھی درج فرمایا ہے۔ پس راشد علی کا حملہ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام پر نہیں بلکہ حضرت ابن عباسؓ پر ہے یا پھر ان مفسّرین پر جن کی بزرگی کے یہ خود بھی قائل ہیں۔

معزّز قارئین ! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ راشد علی نے جو الزام لگایا وہ جھوٹا تھا۔ اس نے کہیں خود قرآنی آیات میں تحریف کی تحریض کی ہے تو کہیں سہوِ کتابت کو اور کہیں صحابی رسول ؐ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ قرآت کو تحریف کا نام دیا ہے اور اس طرح اپنے گستاخِ صحابہؓ ہونے کا ثبوت دیا ہے۔

راشد علی نے حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کی اسی (۸۰) سے زائد کتب میں سے صرف تین آیات ایسی پیش کی ہیں جنہیں وہ از راہِ جہالت یامحض ظالمانہ طور پر تحریف قرار دیتا ہے۔ اس کی پیش کردہ تینوں آیات کے متعلق ہم نے وضاحت کر دی ہے اور قطعی طور پر ثابت کر دیا ہے کہ یہ تحریف ہرگز نہیں۔ قبل اس کے کہ ہم قارئین پر یہ واضح کریں کہ آیات قرآنیہ میں ایسی غلطیاں ہر مصنّف سے ممکن ہیں اور اس کے ثبوت کے لئے چند نمونے مشتے از خروارے پیش کریں ، یہ بتانا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اپنے جس رسالہ میں راشد علی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر قرآنِ مجید میں تحریف کا الزام لگایا ہے ،۱۹۹۸ء میں شائع کیا گیا ہے جبکہ اس سے کئی سال قبل حضرت مرزا صاحب کی کتب میں ایسی آیات جن میں کتابت کی غلطی ہوئی تھی ، ان کی تصحیح کر لی گئی تھی اور اس کے بعد وہ درست شکل میں تحریر ہیں۔ پس اس درستی کے بعد اس کا شور وغوغا اس کی بددیانتی کا واضح ثبوت ہے۔

اب قارئین کی تسلی کے لئے چند نمونے تحریر کئے جاتے ہیں تا کہ علم ہو کہ ایسی غلطیاں ہر جگہ ہوتی ہیں۔ ملاحظہ ہو۔

۱۔ حضرت مجدّد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ اپنے مکتوبات میں لکھتے ہیں :۔

اما ان الظن لا یغنی عن الحق شیئا (جلد۱ صفحہ ۱۵۶ مکتوب۱۵۳)

جبکہ اصل آیت ہے :۔وان الظن لا یغنی من الحق شیئا ( النجم :۲۹)

۲۔ علاّمہ سید محمد سلیمان صاحب ندوی لکھتے ہیں :۔

فان اللہ بالشمس من المشرق فات بھا من المغرب (ہفت روزہ الاعتصام لاہور ۵ دسمبر ۱۹۵۴ ء صفحہ ۵)

اصل آیت :فان اللہ یاتی بالشمس من المشرق فات بھا من المغرب (البقرہ : ۲۵۹)

۳۔ مولانا ابو الکلام آزاد لکھتے ہیں :۔

فای تصریق احق بالامن (مضامین البلاغ)

اصل آیت ۔ فای الفریقین احق بالامن (الانعام:۸۲)

۴۔ مولوی اشرف علی صاحب تھانوی دیو بندی مسلمانوں کے روحانی ودینی پیشوائے طریقت ومجدّد سمجھے جاتے ہیں۔ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :۔

یحلون فیما من اسارور (بہشتی زیور پہلا حصہ صفحہ ۵ مطبوعہ نومبر ۱۹۵۳ء)

اصل آیت یحلون فیھا من اساور (کہف :۳۱)

۵ ۔ ’’ امیر شریعت ‘‘ سید عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کی تقریروں کا ایک مجموعہ مکتبہ تبصرہ لاہور نے ’’خطباتِ امیر شریعت ‘‘ کے نام سے شائع کیا تھا جس کے دیباچہ میں لکھا ہے۔ ’’ شاہ جی اپنی تقریر کے دوران آیات قرآنی کی تلاوت کرتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ قرآن کی آیات آسمان سے نازل ہو رہی ہیں۔ ‘‘ ( شاید ان پرغلط ہی نازل ہوتی تھیں ۔ بہرحال )کئی ایک میں سے صرف ایک نمونۃً ملاحظہ فرمائیں

ولا تخط بیمینہ وما تدری الکتابO (خطبات صفحہ ۳۵)

اصل آیت: ولا تخطہ یمینک اذا لا رتاب المبطلونO(العنکبوت :۴۸)

۶۔ ممتاز محقق ومولّف علاّمہ سیّد مناظر احسن گیلانی نے حضرت شاہ اسمعیل مجدد صدی سیزدہم کی شہرہ آفاق تصنیف ’’طبقات ‘‘ کا ترجمہ شائع کیا ہے۔ اس میں سے چند حوالے مع اصل آیت کے درج ذیل ہیں :۔

وارسینا الی ام موسی ان ارضعیہ (طبقات ۔صفحہ ۱۴ ۔ ناشر اللجنتہ العلمیۃ ۔حیدر آباد)

اصل آیت: واوحینا الی ام موسی ان ارضعیہ (القصص :۸)

۷ ۔ مولانا کوثر نیازی صاحب کی کئی کتابیں ہیں، صرف ایک کتاب میں سے ایک آیت ملاحظہ فرمائیں جویوں درج ہے :۔

وما یتز غفک من الشیطان نزخ (تخلیق آدم ۔صفحہ ۷۵ناشر فیروز سنز لمیٹیڈ )

اصل آیت :واما ینز غنّک من الشّیطان نزغ (الاعراف :۲۰۱)

۸۔ مولوی احمد رضا خان بریلوی آیت قرآنی کو اس طرح لکھتے ہیں :۔

عالم الغیب فلا یظھر علی غیبہ احدا الا من ارتضی من رسول اللہ (الملفوظ حصہ اول صفحہ ۸۸)

اصل آیت :علم الغیب فلا یظھر علی غیبہ احدا الامن ارتضی من رسول (سورۃ الجن : ۲۵ ، ۲۶)

۹۔ کلّیہ عربی وعلوم اسلامیہ، علّامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے حال ہی میں شائع شدہ کتاب ’’ اسلامی تحریکات عہدِ جدید میں‘‘برائے تخصّص ایم اے علومِ اسلامیہ، جس کی ترتیب وتحریر ایک حافظِ قرآن، حافظ محمّد سجّاد نے کی ہے۔ اس کے صفحہ ۹۲ پر یعنی ایک ہی صفحہ پر سات(۷) غلطیاں ہیں۔اب راشد علی اور اس کا پیر ان کا کیا کریں گے؟ لگائیں تحریف کا الزام ان پر بھی۔

۱۰۔سنن ابی داؤد۔الجزء الثانی ۔کتاب النکاح ۔صفحہ ۲۳۹۔( مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت) میں سورۃ النساء کی آیت ۲ ،اس طرح لکھی ہوئی ہے ۔

ٰیایّھا الذین اٰمنوا اتّقوا اللّٰہ الّذی تساء لو ن بہ والارحام.انّ اللّٰہ کان علیکم رقیباً۔

جبکہ اصل آیت اس طرح ہے۔یٰا یّھا ا لنّاس اتّقوا ربّکم الّذی خلقکم من نفسٍ واحدۃٍ وّ خلق منھا زوجھا و بثّ منھما رجالاً کثیراً وّ نسآءً واتّقوااللّٰہ الذی تسآء لون بہ والارحام.انّ اللّٰہ کان علیکم رقیباً۔

اگر راشد علی اور اس کے پیر میں ذرّہ بھر بھی دیانتداری اور انصاف کی رمق باقی ہو تو اپنے اصول کے مطابق حضرت امام ابو داؤد پر بھی وہی الزام لگا کر دیکھیں جو انہوں نے حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام پر لگایا ہے۔

ایسی بیسیوں مثالیں ہیں جن میں سے یہاں صرف ۱۰ آیات جو مصنّفین کی کتب میں غلط طور پر لکھی گئیں ،پیش کی گئی ہیں تا کہ حقیقتِ حال سمجھ آ سکے۔

راشد علی اور اس کا پیر چونکہ اپنے حملہ میں جھوٹے ہیں اور اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں اور محض نادانستہ یا سہوِ کتابت کی وجہ سے آیت میں کسی غلطی کو حقیقی تحریف قرار دیتے ہیں اس لئے جب اس نکتہ نظر سے ان کی کتب ورسائل کا جائزہ لیا گیاتو یہ حقیقت حیرت انگیز طور پر سامنے آئی کہ اس چھلنی میں بجائے خود بہتّر سو چھید ہیں۔ چنانچہ یہ اپنے ہی مسلّمات کی رو سے حقیقی محرّفِ قرآن و کلمہ ثابت ہوتے ہیں۔

راشد علی نے اپنے پیر عبدالحفیظ کا ایک مضمون اپنے ’’ الفتویٰ‘‘ نمبر ۲۳ جوجنوری ۲۰۰۰ء میں شائع کیا جس میں پانچ آیات کریمہ میں اس نے اس طرح تحریف کی۔ ان کی تحریر کردہ آیات کا عکس پیش ہے۔

’’ * انا اعطینک الکوثر * یس والقران الحکیم *وما ینتق عن الھوی ان ہوالا وحی یوحی * وما ارسلنک الا رحمتہ اللعالمین * محمد الرسول اللہ والذین معہ* ‘‘

ان میں تیسری آیت اس طرح ہے ’’وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُّوْحٰی‘‘ اور چوتھی آیت اس طرح ہے ۔ وَمَاْ اَرْسَلْنٰکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ اور پانچویں آیت اس طرح ہے۔ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ یعنی انہوں نے پانچ آیات میں سے تین میں چار جگہ’’ تحریف‘‘ کر دی ہے۔

اسی طرح اپنی تنظیم ’’الحفیظ ذاکرین تنظیم پاکستان ‘‘ کے تعارف ، منشو ر، ترتیبِ ذکر اور دعا پر جو انہوں نے رسالہ شائع کیا ہے وہ ان کی تنظیم کے بنیادی نقوش کو نمایاں کرتا ہے اور ان کے بنیادی اصول بیان کرتا ہے ۔ اس میں انہوں نے صرف آٹھ آیات درج کی ہیں جن میں سے پانچ یعنی تقریباً ۶۵ فیصد آیات میں ’’تحریف ‘‘ کر دی ہے۔ چنانچہ ملاحظہ ہو کہ

۱۔ سورہ الحج کی آیت نمبر ۱۲۔خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ کو انہوں نے لکھا ہے ۔ خسرۃ الدنیا فی الآخرۃ (رسالہ ۔ الحفیظ ذاکرین تنظیم پاکستان صفحہ ۱۲) یعنی ایک آیت میں دو غلطیاں۔

۲۔ سورہ التوبہ کی آیت نمبر ۱۳۰ ۔ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللّٰہُ ۔۔۔۔۔۔کو لکھا ہے ۔ فان تولو وا فقل (رسالہ ۔۔۔ صفحہ ۱۴)

۳۔ سورۃ البقرہ کی ایت نمبر ۱۵۳۔ فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِیْ وَلاَ تَکْفُرُوْنِ میں واشکروالی کو بدل کر والشکرولی کر دیا ہے۔ ۔صفحہ۱۴)

۴۔ اسی مذکورہ بالا آیت کو صفحہ ۲۳ پر واشکرولی ولا تکفرون کر دیا ہے۔

۵۔ سورۃ یس کی آیت نمبر ۱۶ ۔ قَالُوْا مَا اَنْتُمْ اِلاَّ بَشَرٌ مِّثْلُنَا میں کلمہ قالوا میں سے ’’ ا ‘‘ نکال کر قالو ما انتم ۔۔۔۔۔۔ کر دیا ہے۔

اس کے باوجود بہتّر سو چھید والی چھلنی بولتی ہے اور جماعت احمدیہ کو اپنے جھوٹے اور بے بنیاد اعتراضات کا نشانہ بناتی ہے جبکہ عملًا ’’تحریفِ قرآن ‘‘ خود اس کے اپنے بنیادی تعارف ، منشور ، ترتیب ذکر ، اور دعا میں موجود ہے۔

علاوہ ازیں ان کے ماہوار رسالہ ’’الحفیظ ‘‘ کے شمارہ مئی ۹۹ء کے صفحہ ۴۰پر پانچ آیات درج ہیں جن میں سے چار میں انہوں نے تحریف کی ہے۔ چنانچہ وہ آیت کریمہ یٰسٓ وَالْقُرْآنِ الْحَکِیْمِ O کی بجائے یس والقرن اور ’’ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی ‘‘ کی بجائے ’’ وما یتنطق عن الھوی ‘‘ اور وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ کی بجائے وما ارسلنک الا رحمتہ اللعالمین اور مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ کی بجائے محمد الرسول اللہ والذین معہ تحریر کر کے انہوں نے واضح طور پر آیات قرآنیہ میں تحریف کا ارتکاب کیا ہے۔

نیز کتاب ’’ ہم اللہ کو کیوں مانیں ‘‘ میں صفحہ ۱۰۳ پر وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا میں تحریف کر کے وجعل شمس سراجا لکھا ہے ۔ اور اسی کتاب میں صفحہ ۱۰۵اور ص ۹۳ اور ص۸۳پر کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ میں تبدیلی کر کے لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کر دیا ہے۔ اسی کتاب میں صفحہ ۳۵پر آیت کریمہ ’’اِنِّی جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ‘‘ میں تحریف کر کے اسے ’’ رب انی جاعل فی الارض خلیفۃ ‘‘ بنا دیا ہے ۔ یعنی رب کا لفظ اپنی طرف سے داخل کر دیا ہے۔

الغرض انہوں نے اپنے لٹریچر میں آیاتِ قرآنیہ کے دشمن بن کر ان سے اس کثرت کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ انہوں نے تو کلمہ طیّبہ میں بھی حروف کا ردّ وبدل کر چھوڑا ہے۔ یہ اسلام ، کلمہ طیّبہ اور قرآنِ کریم سے دشمنی نہیں تو اور کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب قرآن کریم کی تخفیف اور تحقیر کرنے والے پادری مولویوں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لعنت بھیجی تو راشد علی اور اس کے پیر کو سخت تکلیف ہو ئی۔

معزز قارئین ! تحریفِ قرآن کا الزام مکمل طور پر ان پر الٹانے اور ان پر ثابت کر دینے کے باوجود بھی ہم اس یقین پر قائم ہیں راشد علی اور اس کا پیر جس قدر بھی کوشش کر لیں قرآنِ کریم کی کسی آیت کو نہ بدل سکتے ہیں نہ اسے بگاڑ سکتے ہیں۔

ii۔ترجمہ ومعانی میں تحریف

راشد علی نے قرآن کریم میں تحریف کے سلسلہ میں دوسرا الزام یہ لگایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآنی آیات کے ترجمہ ومعانی میں تحریف وتبدیلی کی ہے ۔چنانچہ اس سلسلہ میں نے آیت خاتم النبیّین کا ذکر کیا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جو ترجمہ وہ صحیح سمجھتے ہیں وہی درست ہے،اور جو ترجمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا ہے وہ تحریفی ترجمہ ہے۔چنانچہ وہ لکھتا ہے

’’طلوعِ اسلام سے لے کر آج تک تمام مسلمان اس آیت کو آنحضرت ﷺ کی نبوت کے آخری ہونے کا ایک غیر مبدّل اعلان سمجھتے آئے ہیں ۔ اس عقیدہ کو مستند احادیث کی تائید حاصل ہے لیکن مرزا غلام احمد نے اس کی یہ عجیب وغریب تاویل کر لی کہ یہ آخری ہونے کی مہر (Seal of finality) نہیں بلکہ آئندہ آنے والے نبیوں کے لئے تصدیق کی مہر (Seal of Approval) ہے۔ گویا کہ پہلے ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی تو خدا تعالیٰ نے بھیجے تھے لیکن اب یہ اختیار رسول اللہ ﷺ کو دے دیا گیا اس کے بعد انہوں (حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) نے یہ دعویٰ کر دیا کہ اب صرف وہی ایک ہی نبی ہیں خدا تعالیٰ کے سب نوروں میں سے آخری نورہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ یہ سب فضول تشریحات اس وجہ سے تھیں کہ وہ اپنے دعویٰ نبوّت کو ثابت کر سکیں۔ انہوں نے ختمِ نبوت کا دروازہ کھولا ، اس میں داخل ہوئے اور پھر اسے بند کر دیا۔‘‘

(Ghulam Vs Master)

یہ لبِّ لباب ہے اس کے اس کی تحریر کا کہ جس سے وہ یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کے معانی میں تبدیلی کی ہے۔

جہاں تک قرآنِ کریم کے معانی کی تبدیلی کے الزام کا تعلق ہے تو یہ الزام فی ذاتہ غلط ہے قرآن کریم کے معانی میں تحریف اس وقت قرار پاتی ہے جب وہ قواعدِ لغت ،محاورہ عرب اور دیگر آیاتِ قرآنیہ کے مخالف ومعارض ہوں۔ لیکن ان کے مطابق وموافق ایک سے زائد معانی پر معنوی تحریف کا الزام نہیں لگ سکتا۔کیونکہ قرآن کریم کے اسرار ومعارف اور رموز وحقائق ہر زمانہ میں الگ الگ ظاہر ہوتے ہیں۔ نیز ہر مترجم اور مفسّر کے علم ، پاکبازی ، تقویٰ ، تعلق باللہ اور عرفان کے لحاظ سے بھی اس کے معانی ومطالب بڑھ چڑھ کر جلوہ گری کرتے ہیں۔ اگر راشد علی کے اس اعتراض کو سچا سمجھ لیا جائے تو امّت میں نہ کوئی مفسّرِ قرآن اس کی زد سے بچ سکتا ہے نہ ہی کوئی تفسیرِ قرآن ۔حضرت امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر کا رنگ اور ہے اور حضرت امام ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر کا رنگ اور۔ علیٰ ھٰذا القیاس ہر تفسیر میں معانی ومطالب الگ الگ جلوہ گر ہیں۔ پس یہ اعتراض ویسے ہی بالبداہت غلط اور جھوٹا ہے ۔لیکن جہاں تک امّت میں آنے والے مسیح ومہدی کے عرفان کا تعلّق ہے اس کے بارہ میں حضرت مجدّد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی تنبیہہ راشد علی اور اس کے پیر وغیرہ کے لئے کافی روشنی کے سامان رکھتی ہے۔ آپ ؒ فرماتے ہیں

’’ علمائے ظواہر مجتہداتِ اُو رَا علی نبیّنا وعلیہ الصّلوۃ والسّلام از کمالِ دقّت وغموضِ ماخذ انکار نمائند ومخالفِ کتاب وسنّت دانند ۔ ‘‘ (مکتوبات ۔ امام ربانی حضرت مجدّد الف ثانی ۔ دفتر دوم ۔ حصہ ہفتم صفحہ ۱۴ مکتوب نمبر ۵۵)

’’ عجب نہیں کہ علمائے ظاہر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مجتہدات کا ان کے ماخذ کے کمال دقیق اور پوشیدہ ہونے کے باعث انکار کر جائیں گے اور انہیں کتاب وسنّت کے مخالف جانیں۔ ‘‘ (ترجمہ از: المکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی ؒ ۔اردو ترجمہ دفتر دوم ۔مطبوعہ باھتمام ملک محمد عارف خان پرنٹر ابن محمدی پریس لاہور)

حضرت مجدّد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول کے آئینہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان فرمودہ معانی ومعارف کا انتہائی درجہ دقیق ،گہرا اور بلند پایہ ہونا اور راشد علی وغیرہ کا ظاہر پرست اور پست خیال ہونا واضح طور پر ثابت ہوتا ہے پس ایک ظاہر پرست اور پست خیال انسان کا خدا تعالیٰ کے مامو ر ، اور رسول اللہ ﷺ کی شریعت اور آپؐ کی ذات کے کمال درجہ عرفان کے حامل وجود پر اعتراض، ایک کوڑی کی بھی حیثیت نہیں رکھتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا علم اور عرفان ،اس کی پہنچ سے بالا،دسترس سے ورے اور بساط سے باہر ہے۔ لہذا اسے اس طرف رخ کرنا ہی مناسب نہ تھا ۔

(ا)کیا عقیدہ ختمِ نبوّت کو مستند احادیث کی تائید حاصل ہے؟

راشد علی کی یہ بات بھی جھوٹی ہے کہ ان کے نام نہاد عقیدۂ ختم نبوّت کو مستند احادیث کی تائید حاصل ہے۔

امرِ واقعہ یہ ہے کہ ان کے غلط عقیدہ کو احادیثِ نبویّہ کی بالکل تائید حاصل نہیں ہے۔ ایسی احادیث جن کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ وہ سیّد المرسلین خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کو آخری نبی ثابت کرتی ہیں ،درحقیقت وہی احادیثِ مبارکہ آپ ؐ کو مقام ومرتبہ اور کمال کے لحاظ سے اور ایک بلند تر درجہ کے لحاظ سے آخری مقام پر فائز کرتی ہیں۔ ایسا مقام ومرتبہ کہ جس کے آگے اور کوئی مقامِ نبوّت نہیں۔ چنانچہ احادیث مثلاً ’’ انی آخر الانبیاء ‘‘ اور ’’ لا نبی بعدی ‘‘ آپ ؐ کے اسی مقامِ اعلیٰ وارفع کو ثابت کرتی ہیں جس کا ایک نظارہ ہمیں آپ ؐ کے معراج میں نظر آتا ہے۔ جب آپ ؐ تمام انبیاء ؑ کے مدارج سے سبقت لے جاتے ہوئے اسے مقام پر پہنچے، جہاں الوہیّت کی قوس شروع ہوجاتی ہے۔ یہی مقام ’’آخر الانبیاء ‘‘ اور لا نبی بعدی ‘‘ میں مذکور اعلیٰ وارفع مقام ہے۔ یعنی آپ ؐ سب انبیاء ؑ کے مقابلہ میں سب سے آخری مقام پرہیں جہاں آپ ؐ کے بعد نہ اور کوئی نبی ہے اور نہ ہی کوئی مقامِ نبوّت۔اس سے آگے مقامِ الوہیّت شروع ہوتا ہے۔یہ مقام ’’ لا نبیّ بعدی‘‘ ہے۔ سب انبیاء ؑ مقام کے لحاظ سے آپ ؐ سے نیچے رہ جاتے ہیں۔

صرف بعثت کے لحاظ سے آپ کا سب سے آخر میں ہونا ،یا زمانی لحاظ سے آپ ؐ کے بعد کسی اور نبی کا نہ آنا ایک ایسا نظریہ ہے جسے نہ احادیثِ نبویہؐ کی تصدیق حاصل ہے نہ تائید۔ بلکہ امّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے لے کر اب تک آئمّہ سلف ، بزرگان امّت اور علمائے دین اس نظریہ کو ردّ کرتے ہوئے ایک ایسے نبی کی آمد کی خبر دیتے ہیں جو اپنے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کا امّتی اور آپ ؐ کی شریعت کا تابع ہے۔ یہ وہی مسیح موعود ہے جس کو خود آنحضرت ﷺ نے ایک ہی حدیث میں چار مرتبہ ’’ نبی اللہ ‘‘ قرار دیا ۔ (ملاحظہ ہو مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال وصفتہ ومن معہ ) اسی طرح اور احادیث میں بھی آپ ؐ نے امّت میں آنے والے اس ایک نبی کی خبر دی۔ پس یہ بات تو قطعی طور پر جھوٹی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد امّت میں کوئی نبی نہیں آئے گا۔

اسی غلطی کے امکان کو دور کرنے کے لئے کہ بعثت کے لحاظ سے آنحضرتﷺ کے بعد اور کوئی نبی نہیں آئے گا ، امّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا (معلمہ نصف الدّین ) فرماتی ہیں :۔

’’ قولوا انہ خاتم الانبیاء ولا تقولوا لا نبی بعدہ ‘‘ (الدرّ المنثور ۔جلد ۵ صفحہ ۲۲۱ تفسیر سورۃ الاحزاب ۔مطبعۃ الانوار المحمدیہ۔القاھرہ)

ترجمہ :۔ یعنی اے لوگو یہ تو کہا کرو کہ آنحضرت ﷺ خاتم النبین ہیں مگر یہ نہ کہا کرو کہ آپ ؐ کے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔

الشیخ الامام حضرت ابن قتیبہؒ (المتوفّّٰٰی ۲۶۷ھ ) سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول نقل کر کے فرماتے ہیں :۔

’’ لیس ھذا من قولھا ناقضا بقول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا نبی بعدی لانہ اراد لا نبی بعدی ینسخ ماجئت بہ ‘‘ (تاویل مختلف الاحادیث ۔صفحہ ۲۳۶)

ترجمہ :۔ (حضرت عائشہؓ ) کا یہ قول آنحضرت ﷺ کے فرمان لا نبی بعدی کے مخالف نہیں کیونکہ حضور ؐ کا مقصد اس فرمان سے یہ ہے کہ میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں جو میری شریعت کو منسوخ کر دینے والا ہو۔

برِصغیر پاک وہند کے مشہور محدّث اور عالم حضرت امام محمد طاہرؒ (متوفی ۱۵۷۸ء/۹۸۶ھ) حضرت عائشہؓ کے اس ارشاد کی تشریح فرماتے ہوئے ’تکملہ مجمع البحار‘ میں لکھتے ہیں :۔

ھذا ناظر الی نزول عیسی وھذا ایضاً لا ینافی حدیث لا نبی بعدی لانہ اراد لا نبی ینسخ شرعہ (تکملہ مجمع البحار ۔ المجلد الرابع صفحہ ۸۵ المطبع العالی ۔منشی نول کشور)

ترجمہ :۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول اس بناء پر ہے کہ عیسٰی علیہ السلام نے بحیثیت نبی اللہ نازل ہونا ہے اور یہ قول حدیث لا نبی بعدی کے خلاف بھی نہیں کیونکہ آنحضرت ﷺ کی مراد اس قول سے یہ ہے کہ آپ ؐ کے بعد ایسا نبی نہیں ہو گا جو آپ ؐ کی شریعت منسوخ کرے۔

امام عبدالوہاب شعرانی ؒ (متوفی ۱۵۶۸ء /۹۷۶ھ ) حدیث لا نبی بعدی کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :۔

’’وقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا نبی بعدی ولا رسول بعدی ای ما ثم من یشرع بعدی شریعۃ خاصۃ ‘‘ (الیواقیت والجواہر جلد۲ صفحہ۳۵ ۔الطبقہ الاولی ۱۳۵۱ھ مصر ۔طبعہٗ عباس بن عبدالاسلام بن شقرون)

ترجمہ :۔ کہ آنحضرت ﷺ کے قول لا نبی بعدی اور لا رسول بعدی سے مراد یہ ہے کہ آپ ؐ کے بعد شریعت لانے والا نبی نہیں ہو گا۔

برصغیر پاک وہند کے مایہ ناز محدّث و شارح مشکّوۃ شریف اور مشہور امام اہلِ سنّت حضرت ملاّ علی قاریؒ (متوفّٰی ۱۶۰۶ء / ۱۰۱۴ھ ) فرماتے ہیں :۔

’’ ورد ’’ لا نبی بعدی ‘‘ معناہ عند العلماء لا یحدث نبی بشرع ینسخ شرعہ ‘‘(الاشاعت فی اشراط الساعۃ۔ صفحہ ۲۲۶)

ترجمہ :۔ حدیث میں لا نبی بعدی کے جو الفاظ آئے ہیں اس کے معنی علماء کے نزدیک یہ ہیں کہ کوئی نبی ایسی شریعت لے کر پیدا نہیں ہو گا جو آنحضرت ﷺ کی شریعت کو منسوخ کرتی ہو۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (متوفی ۱۱۷۶ھ) تحریر فرماتے ہیں :۔

فعلمنا بقول علیہ الصلوۃ والسلام لا نبی بعدی ولا رسول ان النبوۃ قد انقطعت والرسالۃ انما یرید بھا التشریع (قرۃ العینین فی تفضیل الشیخین صفحہ ۳۱۹)

ترجمہ :۔ آنحضرت ﷺ کے قول لا نبی بعدی ولا رسول سے ہمیں معلوم ہو گیا کہ جو نبوت ورسالت منقطع ہو گئی ہے وہ آنحضرت ؐ کے نزدیک نئی شریعت والی نبوت ہے۔

طریقہ نو شاہیہ قادریہ کے امام وپیشوا حضرت شیخ نو شاہ گنج قدّس سرّہ کے فرزند عالیجاہ اور خلیفہ آگاہ حضرت حافظ برخوردارؒ (متوفی ۱۰۹۳ھ) اس کی شرح فرماتے ہیں :۔

’’والمعنی لا نبی بنبوّۃ التشریع بعدی الا ما شاء اللہ من الانبیاء والاولیاء ‘‘(شرح الشرح لعقائد النسفی النبراس ۔صفحہ ۴۴۵ حاشیہ۔ ناشر مکتبہ رضویہ لاہور)

ترجمہ :۔ اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں جو نئی شریعت لے کر آئے ہاں جو اللہ چاہے انبیاء اور اولیاء میں سے۔

اہل حدیث کے مشہور ومعروف عالم نواب صدیق حسن خانصاحب فرماتے ہیں:

’’حدیث لا وحی بعد موتی بے اصل ہے البتہ لا نبیّ بعدی آیا ہے جس کے معنی نزدیک اہل علم کے یہ ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی شرع ناسخ نہیں لائے گا۔ ‘‘(اقتراب الساعۃ ۔صفحہ ۱۶۲۔از نواب نورالحسن خان ۔ مطبعۃ سعید المطابع بنارس۔ ۱۳۲۲ھ)

آئمّہ سلف اور علمائے امّت کے ان اقوال کی روشنی میں قطعی طور پر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ راشد علی کا دعویٰ محض جھوٹا ہی نہیں عقائد اسلامیہ کے بھی منافی ہے۔

راشد علی کا اصل اعتراض یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کے معانی میں تحریف کی ہے اس کی مثال اس نے آیت ’’ خاتم النبیّین ‘‘ کی پیش کی ہے۔

امرِ واقعہ یہ ہے کہ ’’ خاتم النبیّین ‘‘ کے معنوں کے محرِّف یہ لوگ خود ہیں ۔ یہ خود اس عظیم الشان لقب کے معنے ایسے کرتے ہیں جو سیّد الکونین ، خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کے مقام ومرتبہ ، قرآنِ کریم ، احادیثِ نبویّہ ، محاورۂ ولغتِ عرب اور اقوالِ آئمّہ سلف کے منافی ہیں۔

عربی زبان میں اس کے محاورات میں جب کبھی خاتم النبیّین کے طریق پر کوئی مرکّبِ اضافی کسی کی مدح میں استعمال ہو تو ایسے مرکّبِ اضافی کے معنے ہمیشہ اس جماعت مضاف اِلیہ کے اعلیٰ ، کامل اور انتہائی افضل فرد کے ہوتے ہیں اور وہ فرد اپنے کمال میں بے مثال اور عدیم النظیر ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے لفظِ ’خاتم‘ کے معنے نفئی کمال کے لئے جاتے ہیں۔ نفئی جنس کے نہیں۔ کیونکہ’ خاتم‘ کا لفظ مذکورہ بالا صورت میں کبھی بھی نفئی جنس کے ساتھ استعمال نہیں ہوا ۔ اگر ہوا ہو تو راشد علی ، اس کا پیر یا ان کے ہم مشرب اس کی مثال پیش کریں۔ انہیں ہمارا چیلنج ہے کہ عربی لغت میں ’خاتم النبیّین‘ کے طریق پر مرکّبِ اضافی جو کسی کی مدح میں استعمال ہوئی ہو ، وہاں’ خاتم‘ کے معنے نفئی جنس کے دکھا دیں تو ہم انہیں انعام دیں گے ۔یہ یاد رہے کہ یہ لوگ ایسی ایک بھی مثال پیش نہیں کر سکتے۔ لیکن اس کے برعکس’ خاتم النبیّین‘ کے وہ معنے جو سچّ ہیں اور آنحضرت ﷺ کے بلند مقام ومرتبہ کو ثابت کرنے والے ہیں ،جماعتِ احمدیہ وہ پیش کرتی ہے اور انہیں کی تائید میں کثرت سے مثالیں بھی موجود ہیں۔ چنانچہ ملاحظہ فرمائیں۔

’خاتم النبیّین ‘کے طریق پر’ خاتم‘ مرکّبِ اضافی کی مثالیں۔

۱۔ ابو تمام شاعر کو خاتَم الشعراء لکھا ہے۔ (وفیّات الاعیا ن ۔جلد اول )

۲۔ ابو الطبیب کو خاتم الشعراء کہا گیا ہے۔ (مقدّمہ دیوان المتنبّی ۔مصری صفحہ ی)

۳۔ ابو العلاء المعرّی کو خاتم الشعراء قرار دیا گیا ہے۔ (حوالہ مذکورہ بالاحاشیہ صفحہ ی)

۴۔ حبیب شیرازی کو ایران میں خاتم الشعراء سمجھا جاتا ہے۔ (حیات سعدی ۔صفحہ ۸۷)

۵۔ حضرت علیؓ خاتم الاولیاء ہیں ۔ (تفسیر صافی ۔سورہ الاحزاب)

۶۔ امام شافعی خاتم الاولیاء تھے۔ (التحفۃ السنّیہ۔ صفحہ ۴۵)

۷۔ شیخ ابن العربی خاتم الاولیاء تھے۔ (سرورق ۔فتوحاتِ مکّیہ)

۸۔ امام محمد عبدہ مصری خاتم الائمّہ تھے۔ (تفسیر الفاتحہ ۔صفحہ ۱۴۸)

۹۔ ابو الفضل الالوسی کو خاتمۃ المحقّقین کہا گیا ہے۔ (سرورق ۔تفسیر روح المعانی)

۱۰۔ امام سیوطی کو خاتمۃ المحقّقین لکھا گیا ہے۔ (سر ورق ۔تفسیر الاتقان)

۱۱۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی کو خاتم المحدثین لکھا جاتا ہے۔ (عجالہ نافعہ۔ جلد اول)

۱۲۔ سب سے بڑا ولی خاتم الاولیاء ہوتا ہے۔ (تذکرۃ الاولیاء ۔صفحہ ۴۲۲)

۱۳۔ترقی کرتے کرتے ولی خاتم الاولیاء بن جاتا ہے۔ (فتوح الغیب ۔صفحہ ۴۳)

۱۴۔ افضل ترین ولی خاتم الولایۃ ہوتا ہے۔ (مقدّمہ ابن خلدون ۔صفحہ ۲۷۱)

۱۵۔ شاہ عبدالعزیز خاتم المحدثین والمفسرین تھے۔ (ہدیۃ الشیعہ ۔صفحہ۴)

۱۶۔ انسان خاتم المخلوقات الجسمانیۃ ہے۔(تفسیر کبیر۔ جلد ۶صفحہ ۲۲مطبوعہ مصر)

۱۷۔ الشیخ محمد بن عبداللہ خاتم الحفاظ تھے ۔ (الرسائل النادرہ ۔صفحہ ۳۰)

۱۸۔ علامہ سعد الدین تفتاز انی خاتمۃ المحققین تھے۔ (شرح حدیث الاربعین ۔صفحہ۱)

۱۹۔ مولوی محمد قاسم صاحب کو خاتم المفسرینہیں۔ (اسرار قرآنی ۔ٹائیٹل پیج)

۲۰۔ امام سیوطی خاتمۃ المحدثین تھے ۔ (ہدیۃ الشیعہ ۔صفحہ۲۱۰)

۲۱۔ بادشاہ خاتم الحکّام ہوتا ہے۔ (حجۃ الاسلام ۔ص فحہ۳۵)

۲۲۔ انسانیت کا مرتبہ خاتم المراتب ہے اور آنحضرت صلعم خاتم الکمالات ہیں۔(علم الکتاب ۔صفحہ ۱۴۰)

۲۳۔ حضرت عیسیٰ ؑ خاتم الاصفیاء الائمّۃ ہیں ۔ (بقیۃ المتقدّمین ۔صفحہ ۱۸۴)

۲۴۔ حضرت علی خاتم الاوصیاء تھے ۔ (منار الہدٰی ۔صفحہ۱۰۶)

۲۵۔ رسول مقبولﷺ خاتم المعلّمین تھے ۔ (الصراط السّوی ۔مصنفہ علامہ محمد سبطین )

۲۶۔ الشیخ الصدوق کو خاتم المحدثین لکھا ہے۔ (کتاب ۔من لایحضرہ الفقیہ)

۲۷۔ ابو الفضل شہاب الالوسی کو خاتم الادباء لکھا ہے ۔ (سرورق۔ روح المعانی )

۲۸۔ مولوی انور شاہ صاحب کاشمیری کو خاتم المحدثین لکھا گیا ہے۔(کتاب۔ رئیس الاحرار ۔صفحہ ۹۹)

۲۹۔ مولانا قاری محمد طیب صاحب مہتمم مدرسہ دیوبند لکھتے ہیں :۔’’ آپؐ ہی منتہائے علوم ہیں کہ آپؐ ہی پر علوم کا کارخانہ ختم ہو جاتا ہے۔اس لئے آپ ؐ کو خاتم الانبیاء بنایا گیا ہے۔ ‘‘ (شانِ رسالت ۔صفحہ ۴۸)

۳۰۔ امام فخرالدین رازی ؒ فرماتے ہیں:۔ ’’ والخاتم یجب ان یکون افضل الا تری انّ رسولنا صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم لمّا کان خاتم النبیّین کان افضل الانبیاء علیھم الصّلٰوۃ والسّلام ‘‘ (تفسیر کبیر رازی ۔جلد ۶ صفحہ ۳۴مصری)

کہ’ خاتم‘ لازماً افضل ہوتا ہے جس طرح ہمارے نبی ﷺ کو جب خاتم النبیّین قرار دیا گیا تو آپ ؐ سب نبیوں سے افضل ٹھہرے۔

۳۱۔ حضرت فرید الدین عطّار ؒ ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق کہتے ہیں

ختم کردہ عدل وانصافش بحق تافراست بردہ از مردم سبق (منطق الطیر۔ صفحہ۲۵۔مطبع منشی نول کشور لکھنؤ۔۱۹۳۳ء)

۳۲۔ جناب مولانا حالی حضرت شیخ سعدی ؒ کے متعلق لکھتے ہیں :۔ ’’ہمارے نزدیک جس طرح طعن وضرب اور جنگ وحرب کا بیان فردوسی پر ختم ہے اسی طرح اخلاق ، نصیحت وپند ، عشق وجوانی ، ظرافت ومزاح ، زہد وریا وغیرہ کا بیان شیخ پر ختم ہے۔ ‘‘(رسالہ حیات سعدی ص ۱۰۸)

۳۳۔ حضرت مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی تحریر فرماتے ہیں :۔ ’’ سو جس میں اس صفت کا زیادہ ظہور ہو جو خاتم الصفات ہو یعنی اس سے اوپر اور صفت ممکن الظہور یعنی لائقِ انتقال وعطائے مخلوقات نہ ہو وہ شخص مخلوقات میں خاتم المراتب ہو گا اور وہی شخص سب کا سردار اور سب سے افضل ہو گا۔ ‘‘ (رسالہ انتصار الاسلام ۔صفحہ ۴۵)

۳۴۔ جناب قاری محمّد طیّب صاحب دیوبندی لکھتے ہیں :۔ ’’ انبیاء و دجاجلہ میں بھی ایک ایک فرد ’خاتم‘ ہے جو اپنے دائرہ میں مصدرِ فیض ہے۔ انبیاء علیہم السلام میں وہ فردِ کامل اور خاتمِ مطلق جو کمالاتِ نبوّت کا منبعِ فیض ہے اور جس کے ذریعہ سارے ہی طبقہ انبیاء کو علم وکمالات تقسیم ہوئے ہیں محمّد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ‘‘ (تعلیماتِ اسلام اور مسیحی اقوام ۔مطبوعہ دلی پرنٹنگ پریس دہلی ۔صفحہ ۲۲۳ ، ۲۲۴)

۳۵۔ مولوی شبیر احمد صاحب عثمانی دیوبندی (شیخ الاسلام پاکستان) نے لکھا ہے کہ:۔ ’’ جبکہ صفتِ علم تمام ان صفات کی خاتم ہے جو مربّی عالم ہیں تو جس کا اعجاز علمی ہو گا گویا اس پر تمام کمالاتِ علمی کا خاتمہ کر دیاجائے گا اور اسی کو ہمارے نزدیک خاتم الانبیاء کہنا مناسب ہو گا۔ ‘‘ (اعجاز القران۔ صفحہ ۶۱)

۳۶۔ حضرت مولانا روم ؒ فرماتے ہیں۔

’’بہر ایں خاتم شد است او کہ بجود

مثل او نے بود نے خواہند بود‘‘

کہ آنحضرت ﷺ اس لئے خاتم ہیں کہ آپ ؐ بے مثل وبے نظیر ہیں۔ (مثنوی مولانا روم ۔دفتر ششم۔ صفحہ ۱۸،۱۹ مطبوعہ محمود المطابع کانپور)

ان استعمالات سے ظاہر ہے کہ اہلِ عرب اور دوسرے محققین علماء کے نزدیک جب بھی کسی ممدوح کو خاتم الشعراء یا خاتم الفقہاء یا خاتم المحدّثین یا خاتم المفسّرین کہا جاتا ہے تو اس کے معنے بہترین شاعر ، سب سے بڑا فقیہہ ، اور سب سے بلند مرتبہ محدّث یا مفسّر کے ہوتے ہیں۔کیونکہ یہی معنے صحیح اور سچے ہیں۔ ان معانی کو تحریف کا نام دینا ایک بدترین جھوٹ ہے۔

’خاتم النبیّین‘ حضرت محمد ﷺ کا ایک ایسا لقب ہے جو کمالاتِ نبوّت کے لحاظ سے آپ ؐ کے آخری مقام پر فائز ہونے کو ظاہر کرتا ہے کہ آپ بلحاظ رفعت وشان اور بلحاظ علوِّ مرتبت ،آخری ہیں نہ کہ بلحاظ بعثت ۔

چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :۔

۱۔ لا شکّ انّ محمّداً خیر الورٰی ۔۔ریق الکرام و نخبۃ الاعیان

۲۔ تمّت علیہ صفات کلّ مزیّۃٍ ۔۔ختمت بہ نعماء کلّ زمان

۳۔ ھو خیر کلّ مقرّبٍ متقدّمٍ ۔۔والفضل بالخیرات لا بزمان

۴۔ یا ربّ صلّ علٰی نبیّک دائماً۔۔ فی ھٰذہ الدّنیا و بعثٍ ثان

ترجمہ (۱) بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم بہتر مخلوقات اور صاحبِ کرم وعطاء اور شرفاء لوگوں کی روح اور ان کی قوّت اور چیدہ اعیان ہیں۔

(۲) ہر قسم کی فضیلت کی صفات آپ میں علی الوجہ الاتم موجود ہیں۔ ہر زمانے کی نعمت آپ ؐ کی ذات پر ختم ہے۔

(۳)۔ آپ ؐ ہر پہلے مقرّب سے افضل ہیں اور فضیلت کار ہائے خیر پر موقوف نہ کہ زمانہ پر۔

(۴)۔ اے میرے رب اپنے نبی پر ہمیشہ درود بھیج اس دنیا میں بھی اور دوسرے عالم میں بھی۔

حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی ؒ (م ۵۶۱ھ) کے مرشدِ طریقت اور پیر خرقہ قدوہ سالکان ، برہان الاصفیاء ،سلطان الاولیاء ، حضرت ابو سعید مبارک ابن علی مخزومی (وفات ۵۱۳ھ) فرماتے ہیں :۔

’’والاخرۃ منھا اعنی الانسان اذا عرج ظھر فیہ جمیع مراتب المذکورہ مع انبساطھا ویقال لہ الانسان الکامل والعروج و الانبساط علی الوجہ الاکمل کان فی نبینا صلی اللہ علیہ وسلم ولھذا کان صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین ۔‘‘(تحفہ مرسلہ شریف مترجم ۔ص ۵۱)

ترجمہ :۔ (کائنات میں ) آخری مرتبہ انسان کا ہے جب وہ عروج پاتا ہے تو اس میں تمام مراتب مذکورہ اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ ظاہر ہو جاتے ہیں اور اس کو انسانِ کامل کہا جاتا ہے اور عروجِ کمالات اور سب مراتب کا پھیلاؤ کامل طور پر ہمارے نبی ﷺ میں ہے اور اسی لئے آنحضرت ﷺ خاتم النبین ہیں۔

(ب) Seal of Approval

راشد علی نے یہ بھی لکھا ہے کہ

’’ (حضرت) مرزا غلام احمد (علیہ السلام) نے یہ عجیب وغریب تاویل کر لی کہ یہ آخری ہونے کی مہر (Seal of Finality) نہیں بلکہ آئندہ آنے والے نبیوں کے لئے تصدیق کی مہر (Seal of Approval) ہے۔ گویا کہ پہلے ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی تو خدا تعالیٰ نے بھیجے تھے لیکن اب یہ اختیار رسول اللہ ﷺ کو دے دیا گیا۔‘‘

یہ راشد علی کا ایک طنزیہ جھوٹ ہے۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی جگہ یہ نہیں لکھا کہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ صرف آنے والے نبی کے لئے مہر ہیں ۔ بلکہ آپ ؑ نے فرمایا کہ جمیع انبیاء کے لئے آپ ؐ بطور مصدِّق ہیں۔ آپ ہی کی مہرِتصدیق سے انبیاء ؑ کی صداقت اور ان کی تعلیمات کی صداقت ثابت ہوتی ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں۔

’’ ۔۔۔۔۔۔ وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء امام الاصفیاء ختم المرسلین فخر النبیّین جناب محمد مصطفی ﷺ ہیں۔ اے پیارے خدا ! اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتداءِ دنیا سے تو نے کسی پر نہ بھیجا ہو۔ اگر یہ عظیم الشان نبی دنیا میں نہ آتا تو پھر جس قدر چھوٹے چھوٹے نبی دنیا میں آئے جیسا کہ یونسؑ اور ایّوبؑ اور مسیح بن مریم اؑ ور ملا کی ؑ اور یحیٰ ؑ اور زکریاؑ وغیرہ وغیرہ ان کی سچائی پر ہمارے پاس کوئی بھی دلیل نہ تھی ۔اگرچہ سب مقرّب اور وجیہہ اور خداتعالیٰ کے پیارے تھے یہ اسی نبی کا احسان ہے کہ یہ لوگ بھی دنیا میں سچے سمجھے گئے۔ ‘‘(اتمام الحجۃ ۔ روحانی خزائن جلد ۸ صفحہ ۳۰۸)

حضرت ابو الحسن شریف رضی ؒ (متوفی ۴۰۶ھ) جو حضرت امام موسیٰ کاظمؒ کی اولاد میں سے ایک عالی پایہ عالم تھے ۔خاتم النبیّین کے یہ معنی بیان فرماتے ہیں:۔

’’ھذہ استعارۃ والمراد بھا ان اللّٰہ تعالی جعلہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم واٰلہٗ حافظاً لشرائع الرسل علیھم السلام وکتبھم وجامعاً لمعالم دینھم وایاتھم کالخاتم الذی یطبع بہ علی الصحائف وغیرھا لحفظ ما فیھا ویکون علامۃ علیھا ‘‘(تلخیص البیان فی مجازات القرآن صفحہ ۱۹۱)

ترجمہ :۔ یہ استعارہ ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو تمام رسولوں کی شریعت اور کتابوں کا محافظ بنایا ہے اور ان کے دین کی اہم تعلیمات اور ان کے نشانات کا بھی اس مہر کی طرح جو خطوط پر ان کو محفوظ رکھنے اور ان کی علامت کے طور پر ثبت کی جاتی ہے۔

حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ فرماتے ہیں :۔

’’ آنحضرت ﷺ کے اخلاق کا دونوں طور (مصائب وتکالیف میں اور فتح واقبال میں ۔ ناقل) علی وجہ الکمال ثابت ہونا ۔ تمام انبیاء کے اخلاق کو ثابت کرتا ہے۔ کیونکہ آنجناب نے ان کی نبوّت اور ان کی کتابوں کو تصدیق کیا اور ان کا مقرّب اللہ ہونا ظاہر کر دیا ہے۔ ‘‘(براہین احمدیہ ۔ روحانی خزائن جلد ۱صفحہ ۲۸۵ حاشیہ ۱۱)

اسی طرح آپ ؑ یہ بھی فرماتے ہیں :۔

’’وہ خاتم الانبیاء بنے ۔ مگر ان معنوں سے نہیں کہ آئندہ اس سے کوئی روحانی فیض نہیں ملے گا بلکہ ان معنوں سے کہ وہ صاحب خاتم ہے بجز اس کی مہر کے کوئی فیض کسی کو نہیں پہنچ سکتا اور اس کی امّت کے لئے قیامت تک مکالمہ اور مخاطبہ الٰہیہ کا دروازہ کبھی بند نہ ہو گا۔ اور بجز اس کے کوئی نبی صاحبِ خاتم نہیں ایک وہی ہے جس کی مہر سے ایسی نبوّت بھی مل سکتی ہے جس کے لئے امّتی ہونا لازمی ہے۔ ‘‘(حقیقۃ الوحی ۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۹ ، ۳۰)

مولانا محمّد قاسم نانوتوی کے نواسے قاری محمّد طیّب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند فرماتے ہیں۔

’’ حضور کی شان محض نبوّت ہی نہیں نکلتی بلکہ نبوّت بخشی بھی نکلتی ہے کہ جو بھی نبوّت کی استعداد پایا ہوا فرد آپ ؐ کے سامنے آ گیا نبی ہو گیا۔‘‘(آفتابِ نبوّت۔صفحہ ۱۰۹۔ناشرادارہ اسلامیات لاہور)

نیز آپ ؑ نے فرمایا :۔

’’ اللہ جلّشانہ نے آنحضرت ﷺ کو صاحبِ خاتم بنایا یعنی آپ ؐ کو افاضۂ کمال کے لئے مہر دی جو کسی اور نبی کو ہرگز نہیں دی گئی۔ اسی وجہ سے آپ ؐ کا نام خاتم النبیّین ٹھہرا۔ یعنی آپ ؐ کی پیروی کمالاتِ نبوّت بخشتی ہے اور آپؐ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے اور یہ قوّتِ قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی۔ ‘‘(حقیقۃ الوحی ۔ روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۱۰۰ حاشیہ)

(۲) جناب مولوی شبیر احمد صاحب عثمانی ’’ شیخ الاسلام ‘‘ پاکستان لکھتے ہیں :۔

’’بدیں لحاظ کہہ سکتے ہیں کہ آپ ؐ رتبی اور زمانی ہر حیثیت سے خاتم النبیّین ہیں اور جن کو نبوّت ملی ہے آپ ؐ کی مہر لگ کر ملی ہے۔ ‘‘(قرآنِ مجید مترجم ۔علامہ عثمانی زیر آیت خاتم النبیین)

ان اقتباسات سے راشد علی کا جھوٹ دو طرح سے طشت از بام ہوتا ہے اوّل یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا کہ صرف مستقبل کے نبی کے لئے آنحضرت ﷺ کی مہر تصدیق کا کام کرے گی۔ بلکہ آپ ؑ نے فرمایا کہ پہلے سب انبیاء ؑ کی صداقت اور ان کی تعلیمات کی صداقت بھی آنحضرت ﷺ کی مہر کی تصدیق سے ہی ثابت ہوتی ہے۔

دوم یہ کہ آنحضرت ﷺ کا مصدِّق جمیع انبیاء ؑ ہونا صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہی نہیں بیان فرمایا بلکہ دیگرآئمّہ اسلام اور علمائے امّت بھی یہی عقیدہ رکھتے تھے۔

پس سچائی تو یہی ہے کہ نبی اور رسول تو خدا تعالیٰ ہی بھیجتا ہے لیکن ان کے مصدِّق ازل سے ابد تک ہمارے آقا ومولیٰ ، سیّد المرسلین، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی ﷺ ہیں۔

(ج)ختمِ نبوّت کا دروازہ کھولا….

باقی رہا راشد علی کا مامورِ زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یہ طنز کہ

’’انہوں نے ختمِ نبوّت کا دروازہ کھولا ، اس میں داخل ہوئے اور پھر اسے بند کر دیا۔‘‘

تو حقیقت یہ ہے کہ اس کا یہ طنز حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نہیں بلکہ آپ ؑ کے مصدِّق اور آپ ؑ کے بارہ میں پیشگوئی کرنے والے آقا پر ہے۔ اس امّت میں آنے والے مسیح ومہدی کے بارہ میں پیشگوئی خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ نے کی تھی اور اسے نبی اللہ قرار دیا تھا۔ لہذا اگر ختم نبوت کا کوئی دروازہ تھا تو وہ آپ ؐ نے ہی کھولا تھا اور اس میں آپ ؐ نے ہی اپنے مہدی ومسیح کو داخل کیا تھا اور آپ ؐ نے ہی امّت کو یہ تلقین کی تھی کہ وہ اس پر ایمان لائیں اور اس کی بیعت کریں اور اسے آپ ؐ کا سلام پہنچائیں۔ آپ ؐ نے اسی ایک وجود کو ہی اس دروازہ میں داخل فرمایا تھا لیکن راشد علی کو تکلیف یہ ہے کہ آپ ؐ نے امّت میں صرف ایک یعنی مسیح موعود ومہدی معہود کو کیوں نبی قرار دیا۔ پس ظاہر ہے کہ اس کے اس طنز کی تان کہاں جا کر ٹوٹتی ہے۔

ایسا اعتراض کرنے کا ویسے بھی راشد علی کو تب حق تھا جب وہ پہلے یہ ثابت کرتا کہ امّت میں ایک نہیں بلکہ ایک سے زائد نبیوں کی بعثت مقدّر ہے مرزا صاحب نے تو خواہ مخواہ صرف اپنے پر ہی دروازہ بند کر دیا۔ اس دروازے میں ابھی اور نبی بھی داخل ہونے باقی ہیں۔

آخر میں ہم راشد علی اس کے پیر اور ان کے ہم عقیدہ لوگوں کو غور وفکر کی دعوت دیتے ہیں کہ کیا وہ اکابرینِ اسلام جن کے متعدد اقتباسات گزر چکے ہیں، ان کے علم میں یہ حدیث نہیں تھی؟ یا نعوذ باللہ وہ عہدِ حاضر کے علماء سے کم متقی تھے کہ آنحضرت ﷺ کے واضح ارشاد کے باوجود کہ کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آسکے گا ، یہ مسلک اختیار کر لیا کہ صرف نئی شریعت لانے والے نبی کا آنا ممکن نہیں البتّہ امّتی یا تابع نبی کا آنا جائز اور ممکن ہے۔ ؟

اس غور وفکر کے وقت حسبِ ذیل اقتباسات بھی ضرور مد نظر رہنے چاہئیں تا کہ راشد علی اس کا پیر اور ان کے ہم عقیدہ لوگ اپنے بارہ میں بھی غور وفکر کر سکیں۔

دنیائے اسلام کے مشہور ومعروف صوفی اور مصنّف اور ممتاز متکلّم حضرت امام عبدالوہاب شعرانی (متوفی ۱۵۶۸ء / ۹۷۶ھ) فرماتے ہیں :۔

’’ اعلم انّ النبوۃ لم ترتفع مطلقاً بعد محمّدٍﷺ وانما ارتفع نبوۃ التشریع فقط ‘‘(الیواقیت والجواہر الجزء الثانی صفحہ ۳۹ ۔ طبعہٗ مصطفی البابی الحلبی مصر)

ترجمہ :۔ جان لو محمّدﷺ کے بعدمطلق طور پر نبوّت نہیں اٹھی (بند نہیں ہوئی) صرف تشریعی نبوّت منقطع ہوئی ہے۔

چھٹی صدی ہجری کے ممتاز ہسپانوی مفسر اور پیشوائے طریقت صوفی الشیخ الاکبر حضرت محی الدین ابن عربی (متوفی ۱۲۴۰ء/ ۶۳۸ھ) فرماتے ہیں :۔

’’ فالنبوۃ ساریۃ الی یوم القیامۃ فی الخلق وان کان التشریع قد انقطع فالتشریع جزء من اجزاء النبوۃ ‘‘ (فتوحات مکیہ ۔جلد ۲ صفحہ ۱۰۰ باب ۷۳سوال نمبر ۸۲ مطبوعہ دارصادر بیروت )

ترجمہ :۔ کہ نبوت مخلوق میں قیامت کے دن تک جاری ہے گو تشریعی نبوت منقطع ہو گئی ہے پس شریعت نبوت کے اجزاء میں سے ایک جزو ہے۔

جناب الشیخ عبدالقادر الکردستانی تحریر فرماتے ہیں :۔

’’ان معنی کونہ خاتم النبیّن ھو انہ لا یبعث بعدہ نبی اخر بشریعۃٍ اخرٰی ‘‘(تقریب المرام جلد۲ صفحہ۲۳۳)

ترجمہ :۔ کہ آنحضرت ﷺ کے خاتم النبیّین ہونے کے یہ معنی ہیں کہ آپ کے بعد کوئی نبی نئی شریعت لے کر مبعوث نہ ہو گا۔

اور توجہ فرمائیں کہ نامور صوفی حضرت ابو عبداللہ محمد بن علی حسین الحکیم الترمذی (م۳۰۸ھ) نے فرمایا :۔

’’یظن ان خاتم النبین تاویلہ انہ آخرھم مبعثا فای منقبۃ فی ھذا ؟ ھذا تاویل البلہ الجھلۃ ‘‘(کتاب ختم الاولیاء ۔صفحہ ۳۴۱۔المطبعہ الکاثولیکیۃ بیروت)

ترجمہ :۔ یہ جو گمان کیا جاتا ہے کہ خاتم النبیّین کی تاویل یہ ہے کہ آپ مبعوث ہونے کے اعتبار سے آخری نبی ہیں بھلا اس میں آپ کی کیا فضیلت وشان ہے ؟ اور اس میں کونسی علمی بات ہے ؟ یہ تو احمقوں اور جاہلوں کی تاویل ہے۔

بانی دارالعلوم دیوبند مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی (متوفی ۱۸۸۰ء / ۱۲۹۷ھ) فرماتے ہیں :۔

’’ عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلعم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ ؐ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانے کے بعد اور آپ ؐ سب میں آخری نبی ہیں ۔ مگر اہلِ فہم پر روشن ہو گا کہ تقدّم یا تاخّرِ زمانی میں بالذّات کچھ فضیلت نہیں ۔ پھر مقامِ مدح میں وَلٰکِن رَّسُولَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّین فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہو سکتا ہے۔ ہاں اگر اس وصف کو اوصافِ مدح میں سے نہ کہئے اور اس مقام کو مقامِ مدح قرار نہ دیجئے تو البتہ خاتمیّت باعتبار تاخّرِ زمانی صحیح ہو سکتی ہے مگر میں جانتا ہوں کہ اہلِ اسلام میں سے کسی کو یہ بات گوارا نہ ہو گی۔‘‘ (تحذیر الناس ۔ص ۷ مکتبہ قاسم العلوم کراچی ۔ ایڈیشن ۱۹۷۶ء)

نوٹ :۔ جلی الفاظ خاص توجّہ سے پڑھنے کے لائق ہیں ۔ آخروہ کیا فرق ہے جو عوام اور اہلِ فہم کے مذہب میں ہے اور اہلِ اسلام کو کیا بات گوارا نہیں ؟ اور موازنہ فرمائیے کہ کیاجماعتِ احمدیہ کا مذہب اہلِ فہم اور اہلِ اسلام والا ہے یا راشد علی اور اس کے پیر کا؟

iii۔ انطباق کے لحاظ سے آیات قرآنیہ میں تحریف

اس عنوان کے تحت راشد علی نے لکھا ہے کہ وہ آیاتِ قرآنیہ جو آنحضرت ﷺ کی مدح میں تھیں وہ (حضرت ) مرزا صاحب نے اپنے اوپر چسپاں کر لیں۔

راشد علی کا یہ اعتراض مسلّماتِ دین کے منافی ہے ۔ اس کا جواب آئندہ صفحات میں ’’ توہین وگستاخی رسول ﷺ کے الزام ‘‘کے جواب میں اعتراض نمبر ۱ کے تحت تفصیلاً دیا جا رہا ہے جس سے یہ ثابت کیا جا ئے گاکہ راشد علی اپنے اس اعتراض میں قطعی جھوٹا ہے۔

IV۔ احکامِ قرآن کی تنسیخ کے لحاظ سے تحریف

اس عنوان کے تحت راشد علی نے لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاد کو منسوخ قرار دیا ہے۔ چنانچہ اس نے ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظم کا ایک مصرع ’’ اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال ‘‘ بھی درج کیا ہے اور بعض تحریروں کو بھی پیش کیا ہے۔

معزّز قارئین ! جہاد کے بارہ میں ہم مفصّل بحث آئندہ صفحات میں باب ’’ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور انگریز ‘‘ میں زیرِ عنوان ’’سرکاری خدمات یا وضع حرب ‘‘ کررہے ہیں۔براہِ مہربانی تفصیل اس جگہ ملاحظہ فرمائیں۔

یہ جھوٹا الزام ہے جو راشد علی نے لگایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآنی حکم جہاد کو منسوخ قرار دیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قطعاً جہاد کو منسوخ قرار نہیں دیا بلکہ جہاد کے صرف ایک پہلو یعنی قتال کو موقوف قرار دیا ہے۔ جس نظم سے ایک مصرعہ راشد علی نے تحریر کیا ہے اسی نظم میں ہی اس کی تفصیل بھی موجود ہے ۔چند شعر ملاحظہ فرمائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ۔

’’اب چھوڑ د و جہاد کا اے دوستو خیال

دیں کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال

اب آگیا مسیح جو دیں کا امام ہے

دیں کے تمام جنگوں کا اب اختتام ہے

کیوں چھوڑتے ہو لوگو نبی ؐ کی حدیث کو

جو چھوڑتا ہے چھوڑ دو تم اس خبیث کو

کیوں بھولتے ہو تم یضع الحرب کی خبر

کیا یہ نہیں بخاری کو دیکھو تو کھول کر

فرما چکا ہے سیّدِ کونین مصطفیؐ

عیسیٰ مسیح جنگوں کا کر دے گا التوا

جب آئے گا تو صلح کو وہ ساتھ لائے گا

جنگوں کے سلسلہ کو وہ یکسر مٹائے گا

(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ۔ روحانی خزائن جلد ۱۷ ۔ص ۷۷ ، ۷۸)

صاف ظاہر ہے کہ اس نظم میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اِس زمانہ میں دین کے لئے صرف جنگ اور قتال کو ممنوع قرار دیا ہے اور اس کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی مسیح موعود کے لئے یہ واضح پیشگوئی ہے کہ

’’ یضع الحرب ‘‘ (بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسیٰ بن مریم)

یعنی مسیح موعود جنگ اور لڑائی کو اٹھا دے گا یعنی مذہبی جنگوں کا خاتم کر دے گا ۔

اس پیشگوئی کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صرف مذہبی جنگوں کو ممنوع قرار دیا جو دین کا نام لے کر لڑی جائیں۔ اپنے اس فیصلہ کی بنیاد آپ ؑ نے حدیثِ نبوی ؐ کو بنایا ہے جو مسیحِ موعود کے ظہور کی بیشتر علامتوں کو کھول کر بیان کرتی ہے۔ پس راشد علی کا حملہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نہیں درحقیقت حدیثِ نبوی ؐ پر ہے۔ کیونکہ ایسی لڑائیوں کی ممانعت کا حکم حدیثِ نبوی ؐ میں دیا گیا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فی ذاتہ جہاد کو ہرگز ممنوع قرار نہیں دیا بلکہ اس کے وسیع تر معنوں کے پیش نظر اسے ہر وقت جاری قرار دیا ہے۔اور آپ ؑ نے خود جہاد کو مزید زور اور تیزی کے ساتھ شروع فرمایا۔ ا س سلسلہ میں مفصل جواب ’’ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور انگریز ‘‘ کے باب میں ملاحظہ فرمائیں۔


Discover more from احمدیت حقیقی اسلام

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply