بہاء اللہ نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا

Ahmady.org default featured image

بہاء اللہ نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا

حال میں مولوی عبداللہ صاحب کشمیری نے جو بہائیت سے بہت حد تک متاثر معلوم ہوتے ہیں۔ ایک ٹریکٹ اور قادیانی اور بابی کے نام سے شائع کیا ہے جس میں لکھا ہے ۔ ” بہاء اللہ کا دعوےٰ نبوت کا تھا” ۔

اس لئے مناسب معلوم ہوا کہ مولوی صاحب اور ان کے ہم خیال دوسرے لوگوں کی غلط فہمی دور کرنے کے لئے معتبر کتب بہائیہ ورسالہ جات سے چندحوا لے نقل کر دئے جائیں۔ تاکہ معلوم ہو۔ مولوی صاحب کس طرح دیدہ دانستہ مسلمانوں کو دھوکہ دے رہے ہیں :

1۔ نہ سید علی محمد باب کا دعوےٰ نبوت کا تھا۔ نہ اہل بہاء ان کو یا حضرت بہاء اللہ کو نبی مانتے ہیں۔ (بہائی اخبار کو کب ہند جلد 4 نمبر 15 ۔ 17 اپریل 1927)

2۔ جناب شیخ گمان فرموده اند . کہ شاید ادعاء ایشان ادعا نبوت باشد. محض وہم و گمان خود جناب شیخ است ۔ (کتاب الفرائد ص 275) کہ شیخ صاحب کا یہ خیال کرنا کہ بہاء اللہ نے نبوت کا دعوے کیا تھا ۔ یہ جناب شیخ صاحب کا محض وہم ہے ۔ بہا اللہ نے نبوت کا دعوےٰ نہیں کیا

3۔ پس دریں مسئلہ کہ اکنوں فیما بین ما و شما محل اختلاف است کہ آیا ظهور موعود ظهور نیابت و امامت وخلافت است یا ظهور بوبیت و شارعیت (کتاب الفرائد ص 279 ) پس یہ مسئلہ جو ہمارے تمہارے درمیان محل نزاع ہے کہ آیا بہاء اللہ کا ظہور ظہور نبوت امامت اور خلافت ہے یا ظہور ربوبیت۔

4۔ مقام او مقام نیابت و خلافت و امامت نیست بل ظهور کلی الهی است ( الفرائد ص 282) کہ بہاء اللہ کا دعوےٰ اور مقام نبوت خلافت اور امامت کا نہیں ہے ۔ بلکہ پورے طور پر خدا کے ظہور ( اوتار)ہونے کا دعوے ہے

5۔ ہرکس کہ با اہل بہاء معاشر و یا از کتب این طائفہ مطلع باشدمیداند کہ نہ در الواع مقدسہ اد عا نبوت دارد شده و نہ بر السنہ اہل بہا لفظ نبی بر آن وجود اقدس اطلاق گشتہ ( الفرائد ص375) کہ ہر ایک وہ شخص جو بھائیوں کے ساتھ میل جول رکھتا ہے۔ یا بہائیوں کی کتابوں سے واقف ہے اچھی طرح جانتا ہے کہ نہ بہاء اللہ نے کہیں اپنی کتابوں میں نبوت کا دعوٰی کیا اور نہ بہائیوں نے کبھی ان کو نبی کہا ہے

6۔ اد عا جمال اقدس الٰہی ادعا ظهور موعود است نہ اد عا نبوت (الفرائد ص 278) بہاء اللہ کا دعوےٰ ظہور موعود یعنی اوتار ہونے کا ہےنبوت کا دعوے نہیں ۔

7۔ چنانچہ بہائیت کا ایک بڑا مبلغ صاف لکھتا ہے ۔ ” ہم حضرت بہاء اللہ کو سب دینوں کا موعود اور پر ماتما کا اوتا ر جانتے ہیں ( کوکب الہند ۔2 اگست 1920۔ بحوالہ اخبار اہلحدیث 7 جولائی 1928)

8۔ کلام الہی اور احادیث نبوی سے معلوم ہوتا ہے ۔ کہ اب نبوت اور رسالت کا دورہ نہیں ہے بلکہ ربوبیت اور الوہیت کا دورہ ہے ( المعيار الصحیح ص 86 مصنفہ سید مصطفیٰ رومی بہائی رنگون)

9۔ اہل بہاء نبوت کو ختم مانتے ہیں اور حضرت بہاء اللہ کو نبی و رسول نہیں کہتے( کوکب ہند جلد ششم نمبر ہفتم ص 36 )

10 ۔ ایک مرتبہ کو کب ہند کے بہائی ایڈیٹر نے مولوی ثنا اللہ صاحب کو ڈانٹ کر لکھا :-

اہلحدیث نے جناب بہار اللہ کو نبی کیوں لکھا جبکہ اہلِ بہاء ان کو نبی نہیں مانتے ۔ بحوالہ اہلحدیث 15 جون1928 نمبر 32- جلد25

11۔ اہل بہاء کا عقیدہ ہے کہ دورہ نبوت ختم ہو گیا۔ اس مظہریت (اوتار) اور ولایت (ربوبیت) کا زمانہ ہے جس کے مدعی جناب بہاء اللہ ہیں۔ مناظرات الدينیہ ص 88 (اخبار اہلحدیث 15 جون1928)

12۔ حضرت بہاء اللہ کا دعویٰ وہ دعوی ہے جو کسی صادق یا غیر صادق نے آج تک نہیں کیا۔ کسی صادق نے تو اس لئے نہیں کیا۔ کہ وہ سچائی اور بصیرت کے مقام پر یہ جانتے تھے کہ اس مقام یکتا کا مالک صرف وہ موعود مطلق بہا اللہ ہے جس کے ظہور کو ظہور رب العالمین کہا گیا ہے ؟ کو کب ہندص 28 بحوالہ اہلحدیث 15 جون 1928

صاف بات ہے کہ جب بہاء اللہ نے صادقوں کی طرح دعوے ہی نہیں کیا۔ تو اس کی طرف نبوت کا دعوےٰ منسوب کرنا ظلم اور افتر ہے۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بہاء اللہ نے مسیح موعود یا مامورمن اللہ ہونے کا بھی دعوٰی نہیں کیا کیونکہ مسیحیت اور ماموریت کا دعوے کرنے والے بہاء اللہ سے پہلے بہت سے صادق اور غیر صادق گذرے ہیں۔ لیکن ” بہاء اللہ کا دعوی وہ دعوٰی ہے ۔ جو کسی صادق یا غیر صادق نے آج تک نہیں کیا ۔ 13۔ نہ تو آیہ مبارکہ میں نبی کا لفظ ہے ۔ نہ فرقان کے موعود کو نبی کیا گیا ہے ۔ نہ اہل بہا حضرت بہاء اللہ جل ذکرہ الاعظم کو نبی مانتے ہیں اور کو کب ہند میں بارہا اس امر کا اعلان کیا جا چکا ہے ” ( کو کب ہند24 جون 1928ص 30)

14۔ مولوی ثناء اللہ صاحب لکھتے ہیں ” تیرھویں صدی ہجری کے شروع میں ملک ایران میں ایک شخص پیدا ہوا جس نے بڑے بڑے دعوے کئے (یعنی الوہیت اور ربوبیت کے ) ہم تو یہی سمجھتے تھے کہ کسی انسان کے لئے سب سے بڑا دعوےٰ نبوت اور رسالت ہے۔ اس لئے ہم آج تک کہتے رہے کہ شیخ بہاء اللہ نبوت کے مدعی تھے۔ مگر آج اُن کی جماعت کے آرگن اخبار کو کب ہند نے ہمارے اس خیال کی بڑی سختی سے تردید کی ہے۔( اہلحدیث ۔ 6جولائی1928)

اس کے بعد مولوی ثناء اللہ صاحب اسی پر چہ میں لکھتے ہیں ۔ بہت خوب ہمیں کیا ضرورت کہ ہم ان کی نبوت پر اصرار کریں ہمارے نامہ نگار مولوی محمدحسین صاحب صابری کو کیا مطلب کہ وہ قادیانیوں کے حملے سے ان کی مدافعت کریں کہ شیخ بہاء اللہ نے خدائی کا دعوےٰ نہیں کیا تھا

15۔ ایک مقتدر اور بلند پایہ بہائی کھلے لفظوں میں لکھتا ہے :-

بالوہیت حی لا یزال بے مثال جمال قدم مذعن و مطمئن گشتیم ۔ بہجہۃ الصدورص 367 مصنفہ مرزا حیدر علی بہائی ) کہ ہم بہائی لوگ جمال قدم بہا اللہ کی الوہیت اور خدائی پر کامل یقین رکھتے ہیں اور اُس کو حی و قیوم ولاز وال جانتے ہیں ۔

16۔ مرزا حیدر علی بہائی اصفہانی لکھتا ہے۔ حضرت بہاء اللہ آسمانی است کہ از آفاقش شموس انبیا مرسلین اشراق نموده – مرسل رسل و منزل كتب ورب الارباب و سلطان مبده و مآب است ۔ بہجۃ الصدور ۔ ص399

کہ بہار اللہ وہ آسمان ہے جس کے افق سے تمام انبیاء و مرسلین کا سورج نمودار ہوا ہے ۔ بہاء اللہ رسولوں کا بھیجنے والا نبیوں کا مبعوث کرنے والا۔ اور کتابوں کا نازل کرنے والا ہے۔ بہاء اللہ ہی رب الارباب یعنے سب کا رب ہے ۔ اور بہاء اللہ ہی ابتداء اور انتہاء سب کا بادشاہ اور سلطان ہے ۔

اس عبارت میں مرزا حیدر علی بہائی نے جو بہائی فرقے کے بہت بڑے عالم اور بلند پایہ مبلغ ہیں۔ صاف لفظوں میں تمام بہائی فرقے کا یہ اعتقا و ظاہر کر دیا ہے ۔ کہ بہاء اللہ نبی نہیں بلکہ وہ نبیوں کا بھیجنے والا اور کتابوں کا اُتارنے والا ہے جس سے صاف طور پر معلوم ہوا کہ بہاء اللہ کا یہی دعوےٰ تھا کہ وہ خدا ہے ۔ نبی اور رسول نہیں۔ کیونکہ رسولوں کو مبعوث کرنا اور کتابوں کا نازل کرنا صرف خدا وند تعالےٰہی کا کام ہے ۔

کیا ان چند ایک حوالہ جات سے ظاہر نہیں کہ بہاء اللہ نے نبوت کا نہیں بلکہ خدائی کا دعوےٰ کیا اور جو لوگ ان کی طرف سے نبوت کا دعو یٰ پیش کرتے ہیں وہ صریح دھوکہ دہی سے کام لیتے ہیں۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ بہاء ا للہ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقابلہ پر پیش کرنا بھی محض شرارت اور فتنہ سازی ہے


Discover more from احمدیت حقیقی اسلام

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply