یا بنی آدم اما یاتینکم رسل منکم یقصون علیکم آیاتی

یا بنی آدم اما یاتینکم رسل منکم یقصون علیکم آیاتی فمن التقیٰ و اصلح فلا خوف علیھم و لاھم یحزنون

سورت الاعراف آیت 35 ۔ اجرائے نبوت اور ختم نبوت

اے ابنائے آدم! اگر تمہارے پاس تم میں سے رسول آئیں جو تم پر میری آیات پڑھتے ہوں تو جو بھی تقویٰ اختیار کرے اور اصلاح کرے تو ان لوگوں پر کوئی خوف نہیں ہوگا اور وہ غمگین نہیں ہوں گے۔

ختم نبوت کا رد اور اجرائے نبوت کی دلیل

اے آدم کی اولاد اگر تمہارے پاس تم میں کے رسول آئیں میری آیتیں پڑھتے تو جو پرہیز گاری کرے اور سنورے تو اس پر نہ کچھ خوف اور نہ کچھ غم اور جنھوں نے ہماری آیتیں جھٹلائیں اور ان کے مقابل تکبر کیا ۔ کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن ۔ خزائن العرفان فی تفسیر القرآن

عاشقان رسول ﷺ کو خواب میں زیارت نبی ﷺ ۔

مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر معارف القرآن، جلد سوم صفحه ۵۵۲ پر
فرماتے ہیں چونکہ نماز میں صرف ستر پوشی ہی مطلوب نہیں بلکہ لباس زینت اختیار کرنے کا ارشاد ہے۔
خذوا زينتكم عند كل مسجد (سورۃ الاعراف آیت ۳۱ پاره (۸)
اس لئے مرد کا ننگے سرنماز پڑھنا، مونڈھے، گھٹنے یا کہنیاں کھول کر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ اسی
طرح ایسے لباس میں بھی نماز مکروہ ہے جس کو پہن کر آدمی اپنے دوستوں اور عوام کے سامنے جانا
قابل شرم و عار سمجھے۔ جیسے صرف بنیان بغیر کرتے کے یا سر پر بجائے ٹوپی کے ( کھجور کی ٹوپی ) کوئی
کپڑا یا چھوٹا دستی رومال باندھ لینا۔ جب کوئی سمجھدار آدمی اپنے دوستوں یا دوسروں کے سامنے
اس ہیئت میں جانا پسند نہیں کرتا تو اللہ رب العالمین کے دربا میں جانا کیسے پسندیدہ ہو سکتا ہے؟ سمر،
مونڈھے یا کہنیاں کھول کر نماز کا مکروہ ہونا آیت قرآن کے لفظ زینت سے بھی مستفاد ہے اور
حضرت رسول کریم ﷺ کی تصریحات سے بھی۔
اس آیت سے مساجد کے لئے اہتمام، پاک ستھرا اچھا لباس پہننا، خوشبو وغیرہ کا استعمال
مطلوب ہے اور وجہ اس کی ظاہر ہے کہ جب دنیا میں امراء وسلاطین کے دربار میں بغیر مناسب
لباس کے حاضر نہیں ہوتے تو مسجد جو کہ خاص اللہ تعالیٰ کا گھر ہے اور نماز کے لئے خاص در بارالہی
ہے، وہاں بغیر زینت اور پاکیزہ لباس کے حاضر ہونا بے ادبی ہے۔ نمازی حسب استطاعت اپنا
پورا لباس پہنے جس میں ستر پوشی بھی ہو اور زینت بھی ۔ فقہاء نے لکھا ہے کہ جس لباس کو پہن کر
لوگوں کے سامنے بازار میں جاتے شرم آئے ، اس لباس سے نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
( درس قرآن جلد چهارم صفحه ۱۴۹ تا ۱۵۰ از الحاج مولا نا محمد احمد صاحب)

تسھیل مکمل تفسیر بیان القرآن ۔ اشرف علی تھانوی

اے اولاد آدم کی اگر تمہارے پاس پیغمبر آویں جو تم ہی میں سے ہوں گے جو میرے احکام تم سے بیان کریں گے سو جوشخص پرہیز رکھے اور درستی کرے سو ان لوگوں پر نہ کچھ اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے

۳۵۔ اے بنی آدم ہم تم کو یہ نصیحت ہمیشہ کرتے
رہے ہیں کہ جب ہمارے پیغمبر تمہارے پاس آیا کریں اور ہماری آیتیں تم کو سٹایا کریں تو ان پر ایمان لایا کرو کہ اب جو شخص ان پر ایمان لا کر اللہ سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا تو ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہو گا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

بیان للناس جلد دوم ۔ احمد الدین

اے نبی آدم اگر تمہارے پاس تم میں سے رسول آئیں جو تم پر میسری آیتیں پڑھیں تو نص تقوی اختیار کریگا اور سدھر جائیگا تو اُن پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ غم

تفسیر نمونہ جلد 6 ۔ سید صفدر حیسن نجفی

اے آدم کی اولاد ! اگر تمہارے پاس تم میں سے رسول آئیں اور وہ میری آمیتیں تمہارے
لیے پڑھیں تو ان کی پیروی کرنا، کیونکہ جو لوگ تقویٰ اختیار کریں اور عمل صالح بجا لائیں،
د اور اپنی اور دوسروں کی اصلاح کی کوشش کریں، تو ان کے لیے نہ تو کوئی خوف ہے اور
نہ وہ غمگین ہوں گے ۔
اور وہ لوگ جو ہماری آیتوں کو جھٹلائیں گے اور ان کے مقابلہ میں تکبر کریں گے وہ
دوزخی ہیں ، اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔

انوار النجف فی اسرار المصحف جلد 6

اے اولاد آدم اگر آئیں تمہارے پاس رسول تم میں سے جو بیان کریں تم پر ہماری آیات کو پس جس نے تقویٰ اختیار کیا اور اصلاح کی تو نہ خوف ہو گا ان کو اور نہ وہ غمگین ہوں گے ۔ اور جن لوگوں نے جھٹلایا ہماری آیات کو اور تکبر کیا ان سے وہی دوزخ جانے والے ہوں گے کہ اس مین ہمیشہ رہیں گے

تفسیر مظہری ۔ جلد چہارم ۔ قاضی محمد ثناء اللہ پانی پتی عثمانی مجددی

بغوی نے لکھا ہے جاہلیت کے زمانہ میں لوگ کعبہ کا طواف بر ہنہ ہو کر کیا کرتے تھے مردوں میں اور عورتیں رات میں۔
ان کا قول تھا کہ جن کپڑوں میں ہم نے گناہ کئے ہیں ان کو پہنے ہوئے ہم طواف نہیں کریں گے۔ اس پر آیت مذکورہ نازل ہوئی۔
قتادہ نے کہا عورت دوران طواف میں اپنی شرمگار پر ہاتھ رکھے ہوئے کہتی تھی آج اس کا کچھ حصہ کھلا ہو یا سب بر ہنہ ہو میں اس
کو کسی کے لئے حلال نہیں کروں گی اس پر اللہ نے کپڑے پہننے کا حکم دیا اور فرمایا ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا ہے۔
سواتر یما قابل ستر اعضاء یہ سوءۃ کی جمع ہے۔ واجب الستر حصہ کا کھلنا برا معلوم ہوتا ہے اس لئے اس کو سوء ہ کہا جاتا
ہے۔ انزلنا سے مراد یہ نہیں ہے کہ براہ راست لباس آسمان سے اترا ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ اسباب سماوی اور نظام علوی کے قریر
اثر ہم نے لباس پیدا کیا ہے۔ ایسا ہی دوسری آیات میں بھی آیا ہے فرمایا ہے وانزل لكُم مِّنَ الْأَنْعَامِ تمہارے لئے مویشی
اتارے وَأَنْزَلْنَا الحَدِيدُ اور ہم نے لوہا اتارا۔ یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ہم نے تم پر لباس پہنے کا حکم اتارا۔ شاید حضرت
آدم کا قصہ اس بات کی تمہید ہے کہ کشف عورت ممنوع ہے شیطان کی طرف سے پہلی مصیبت انسان پر جو آئی وہ بے پردہ
ہونے کی شکل میں ہی آئی۔ شیطان نے ہی حضرت آدم و حوا کو اغواء کر کے برہنہ کر لیا اور ان کی اولاد کو بھی اسی طرح اغواء کر رہا
ہے۔

وَلَاهُمْ يَحْزَنُونَ
اے اولاد آدم جب تمہارے پاس (میرے) پیمبر آئیں گے جو تم میں سے ہوں گے
(اور) تم سے میرے احکام بیان کرینگے سو جو لوگ پر ہیز رکھیں گے اور درستی کرینگے انکو کچھ اندیشہ نہ ہو گا نہ وہ غمگین ہوں گے)۔
اما میں مازائد ہے جس کو تاکید شرط کے لئے زیادہ کیا گیا۔ لفظ ان جو شک کے لئے آتا ہے (باوجود یہ کہ پیغمبروں کا آنا
یقینی تھا) اس لئے استعمال
کیا گیا کہ پیغمبروں کو بھیجا اللہ کے ذمہ واجب نہیں۔ اللہ پر کوئی چیز بھی واجب نہیں (کسی کا اس پر کوئی
لازمی واجب الاداء حق نہیں جب ہوش و حواس عقل و فہم اور تمام علمی و عملی طاقتیں عطا فرما دیں اور انفسی ، آفاقی ، داخلی اور
خارجی دلیلیں قائم کر دیں تو سوچ سمجھ کر افکار و اعمال کی درستی سب پر واجب ہو گئی۔ ہدایت نامے اور انبیاء کی بعثت ضروری نہیں
رہی مگر اللہ نے اپنی مہربانی سے
کتابیں اور پیغمبر بھیجے)۔
منکم یعنی آدمیوں میں سے۔ آیاتی یعنی اللہ کی کتابوں کی آیات فمن اتھی یعنی جو شخص شرک اور تکذیب انبیاء
سے بچتا رہا۔ واصلح یعنی اس نے اپنے اعمال کو درست کر لیا اور اللہ کے حکم کے مطابق خالص اللہ ہی کی خوشنودی کے لئے کام
گئے۔ فلا خوف یعنی قبر میں اور قیامت کے دن جب دوسرے لوگوں کو خوف ہو گا ، ان کو کوئی خوف نہ ہوگا۔ ولا هم يحزنون
یعنی جب دوزخ کے اندر دوسرے لوگ حزن میں مبتلا ہونگے (اور گزشتہ زندگی تباہ کرنے کا ان کو غم ہو گا) ان کو کوئی غم نہ ہو گا۔
وَالَّذِينَ كَلبُوا بِايْتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا أُولَيكَ اَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ .
اور جو لوگ ہمارے احکام کی تکذیب کریں گے اور ان سے تکبر کریں گے وہ دوزخی ہوں گے اور دوزخ میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں
گے)۔ تکبر کریں گے یعنی ایمان لانے سے غرور کریں گے۔ فلا خوف میں فاء کو ذکر کرنا اور اولئک کو بغیر فاء کے لانے
ما وجود سے کہ دونوں جزاء شرط نہیں وعدہ ثواب کی قوت اور وعید عذاب کی سبکی کو ظاہر کر رہا ہے۔

تفسیر السعدی ۔ عبد الرحمان بن ناصر السعدی

اے بنی آدم اگر آئیں تمہارے پاس رسول تم میں سے جو بیان کریں تم پر میری آیتیں تو جس نے تقویٰ اختیار کیا اور اپنی اصلاح کر لی تو نہ ہو گا کوئی خوف ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے ۔ اور وہ لوگ جنہوں نے جھٹلایا ہماری آیات کو اور تکبر کیا ان سے یہ لوگ ہیں دوزخی وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے

تفسیر جواہر القرآن مولانا غلام اللہ خان

اے اولاد آدم اگر آئیں تمہارے پاس رسول تم میں کے کہ سنائیں تم کو آیتیں میری تو جو کوئی ڈرے اور نیکی پکڑے تو نہ خوف ہو گا ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے اور جنہوں نے جھٹلایا ہماری آیتوں کو اور تکبر کیا ان سے وہی ہیں دوزخ میں رہنے والے

ترجمہ اردو تفسیر حسینی ۔ تفسیر قادری ۔

یہ عرب کے مشرکوں سے خطاب ہے کہ جب تمہارے پاس تم میں سے تمہاری زبان والے رسول آئیں اور صحیح بات یہ ہے کہ خطاب عام ہے یعنی اے آدم کے بیٹو جب آئیں رسول تمہارے پاس تمہاری ہی نوع سے پڑھیں تم پر آیتیں میری کتاب کی یا خبر دیں تم کو احکام شریعت سے پھر جو کوئی پرہیز رکھے گا شرک اور تکذیب سے اور اصلاح کریگا اپنے کاموں کی پاس کچھ خوف نہیں ان پر یعنی جس سے ڈرتے ہیں اس سے بے خوف ہو جائیں گے

معارف القرآن تالیف شیخ التفسیر والحدیث محمد ادریس کاندھلوی جلد سوم

ترجمہ قرآن شاہ عبد القادر بن شاہ ولی اللہ

اے اولاد آدم کی کبھی پہنچیں تم پاس رسول تم میں کے سنا دیں تم کو آیتیں میری تو جس نے خطرہ بچاؤ کیا اور سنوار پکڑی نہ ڈر ہے ان پر اور نہ وہ غم کھویں

ابن جریر نے ابو یسار سلمی سے نقل کیا ہے کہ یہ خطاب یعنی یا بنی آدم کل اولاد آدم کو ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم اور انکی ذریت کو اپنے دست قدرت میں لے کر عالم ارواح میں فرمایا تھا ۔ روح المعانی ص 99 جلد 8

تفسیر ابن عباس جلد 1

شان نزول: يُبَنِي آدَمَ خُذُو زِينَتَكُمْ ( الخ )
امام
م مسلم نے حضرت ابن عباس اللہ سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ ایام جاہلیت میں عورت بیت اللہ کا
ننگے طواف کیا کرتی تھی اور اس کی شرمگاہ پر ایک کپڑا ہوتا تھا اور یہ کہتی تھی کہ آج کے دن خواہ سارا جسم کھل جائے یا بعض
اس کا حصہ اور جو اس سے کھل جائے اس کو میں حلال
نہیں سمجھتی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
(۳۲) کفار مکہ ایام جاہلیت میں ایام حج میں اپنے اوپر گوشت اور چربی کو حرام کر لیتے تھے اور حرم شریف میں مرد اور
عورتیں رات کے وقت ننگے داخل ہوتے تھے اور بیت اللہ شریف کا ننگے طواف کرتے تھے ، اللہ تعالیٰ نے ان تمام
چیزوں
کو منع کر دیا کہ اس کی پیدا کر دہ چیزوں کو کس لیے حرام کیا ہے۔
اور آپ یہ بھی فرمادیجیے کہ یہ پاکیزہ چیزیں دنیاوی زندگی میں خالص اہل ایمان کے لیے ہیں ، اس طرح ہم
ایسے لوگوں کے لیے جو منجانب اللہ ہونے کی تصدیق کرتے ہیں، بذریعہ قرآن کریم حلال و حرام کو بیان کرتے ہیں۔
(۳۳) اے محمد ﷺ آپ ان سے فرمادیجیے زنا اور اجنبیہ کے ساتھ خلوت اور اثسم یعنی شراب جیسا کہ شاعر کہتا ہے کہ
میں نے شراب اتنی پی کہ میری عقل جاتی رہی، اسی طرح شراب عقل کو ختم کر دیتی ہے، میں نے شراب اعلانیہ فنجانوں
میں پی اور اسے مخاطب تو ہمارے میں بہتک عزت کا مشاہدہ کر رہا ہے۔
نیز ناحق کسی پر ظلم کرنے کو اور بغیر سند اور دلیل کے شرک کرنے کو اور خود کھیتیوں جانوروں پاکیزہ چیزوں اور
لباسوں کو اپنے اوپر حرام کرنے کو اللہ تعالیٰ نے حرام کر دیا ہے۔
(۳۴) ہر ایک اہل دین کی ہلاکت و تباہی کا ایک وقت معین ہے ان کی ہلاکت و تباہی وقت آنے پر نہ آنکھ جھپکنے کے
بقدران کو چھوڑا جائے گا اور نہ وقت آنے سے پہلے بقدر آنکھ جھپکنے کے ان کو ہلاک کیا جائے گا۔
(۳۵) جس وقت تمہارے پاس تم ہی میں سے پیغمبر آئیں جو اچھے کام کرنے اور بُرے کاموں سے منع کرنا تم سے
بیان کریں، تو جو اس وقت کتاب الہی اور رسول پر ایمان لائے اور اطاعت ربانی کرے تو اسے عذاب کا کوئی خوف
نہیں ہوگا۔
(۳۶) اور جو ہماری کتاب اور رسولوں پر ایمان لانے سے تکبر کریں یہی لوگ جہنمی ہیں اس میں ہمیشہ رہیں گے نہ
وہاں
کبھی موت آئے گی اور نہ اس سے بھی نجات ملے گی۔

تفسیر مدارک اردو ۔ مدارک التنزیل و حقائق تاویل ۔ جلد اول

عبد اللہ بن احمد بن محمود النسفی

اے اولاد آدم اگر تمہارے پاس میرے رسول آئیں جو تمہارے سامنے میری اایات بیان کریں سو جس نے تقویٰ اختیار کیا اور اصلاح کی سوان پر کوئی خوف نہیں اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے ۔ اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور ان سے تکبر کیا وہ لوگ دوزخ والے ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے

منتقی اور اصلاح والے کو کوئی غم نہیں
آیت ۳۵: يُبَنِی آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ (اے اولاد آدم اگر تمہارے پاس آئیں ) اما یہ اصل میں اِنْ مَا ہے ان شرطیہ کے ساتھ ما
ملایا گیا تا کہ شرط کے معنی میں تاکید پیدا ہو جائے ۔ کیونکہ ما بھی شرط کے لیے ہے اس لیے کہ اس کے فعل پر نون ثقیلہ یا نون خفیفہ
لازم کیا جاتا ہے۔ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمُ ایلی ( پیغمبر جو کہ تم ہی میں سے ہو نگے ۔ جو میرے احکام تم سے بیان کریں
گے ) میری کتابیں تم پر پڑھیں گے ۔ یہ جملہ یقصوں موضع رفع میں رسل کی صفت ہے اور فَمَنِ اتَّقی (پس جو شخص پر ہیز

رکھے ) یہ جواب شرط ہے انفی کا سنی شرک سے بچنا ہے۔ واصلح ( اور اصلاح و ورق کرے اس کی تم میں سے فلاحون
عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (پس ان پر نہ کچھ اندیشہ ہے اورنہ وہ ھمگین ہونگے ) بالکل – قراءت : یعقوب نے فَلَا خَوفَ پڑھا
مکذب و متکبر کا انجام :
:
أيت ۳: وَالَّذِينَ كَذَّبُوا (اور جولوگ جھوٹا تلاویں گے ) تم میں سے بِالنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا (ہمارے ان احکام کو اور
ان سے تکبر کریں گے ) ان پر ایمان لانے سے بڑے بے اوليْكَ اَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ ( وہ لوگ دوزخ والے
ہونگے وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے )

تفسیر عثمانی ۔ ترجمہ شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی ۔ تفسیر شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی

اے اولاد آدم کی اگر آئیں تمہارے پاس رسول تم میں کے کہ سنائیں تم آیتیں میری تو جو کوئی ڈرے اور نیکی پکڑے تو نہ خوف ہو گا ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے

تبیان القرآن ۔ مودودی

اے اولاد آدم اگر تمہارے پاس خود تم میں سے ایسے رسول آئیں جو تمہارے سامنے میری اایتیں بیان کریں سو جو شخص اللہ سے ڈرا اور نیک ہو گیا تو ان پر کوئی خوف نہیں اور نہ وہ غمگین ہوں گے

تفسیر القرآن ۔ ظفر حسن امروہی

قادیانیوں نے اس آیت سے یہ نتیجہ نکالا کہ دنیا میں ہمیشہ رسول آتے رہیں گے رسالت آنحضرت پر ختم نہیں ہوئی ۔
لیکن یہ ان
کا قریب ہے کیونکہ جو کچھ کہا جارہا ہے تمام اولاد آدم سے کہا جارہا ہے، آگے ہوں یا پیچھے لینی ایک دو امی او مستقل
حکم ہے جو ہر زمانہ والوں کے لیے ہے۔ تقوایی و اصلاح نفس کسی خاص قوم سے مخصوص نہیں بلکہ اس کا حکم تمام بنی آدم کے
لیے ہے ۔ یہ ایک مسلمہ اصول ہے جو ہمیشہ سے چلا آرہا ہے ۔


Discover more from احمدیت حقیقی اسلام

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply