Search
Close this search box.

متفرق اعتراضات ۔ اللہ کا قرآن میں فرمانا کہ 1857ء میں قرآن آسمان پر اٹھا لیا جائے گا یعنی مسلمان اس پر عمل نہیں کریں گے

فہرست مضامین

Ahmady.org default featured image
متفرق اعتراضات ۔ اللہ کا قرآن میں فرمانا کہ 1857ء میں قرآن آسمان پر اٹھا لیا جائے گا یعنی مسلمان اس پر عمل نہیں کریں گے

اعتراض:۔
” اس علیم و حکیم کا قرآن شریف میں فرمانا کہ 1857میں میرا کلام آسمان پر اٹھا لیا جائے گا یہی معنے رکھتا ہے کہ مسلمان اس پر عمل نہیں کریں گے۔”

(ازالہ اوہام ۔جلد3صفحہ490حاشیہ)

قادیانیو! ہے ہمت تواس مضمون کی آیت قرآن مجید سے نکال کر مرزاکوسچا ثابت کردو،ورنہ توبہ کرو ایسے شخص کو نبی ماننے سے جو اللہ تعالیٰ پر افتراء اور جھوٹ باندھتا ہے۔

جواب:۔
قرآن شریف میں ایک نہیں متعدد آیات اس مضمون کی موجود ہیں۔اگر واقعی معترض کو اپنے اس سوال کا جواب چاہیے تو خود حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ نے وہ آیت پیش فرمادی جو سورة مومنون کی آیت 19 ہےکہ وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَأَسْكَنَّاهُ فِي الْأَرْضِ وَإِنَّا عَلَى ذَهَابٍ بِهِ لَقَادِرُونَ(المومنون:19)کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے روحانی پانی ایک خاص اندازہ سے نازل فرمایا اور اس زمین میں رکھا اور ہم اس کے لے جانے پر بھی قادر ہیں۔خود حضرت مرزا صاحب نے اس کی یہ وضاحت فرمائی ہے:

”آیتؔ إِنَّا عَلَى ذَهَابٍ بِهِ لَقَادِرُونَ (المومنون:19)میں 1857ءکی طرف اشارہ ہے جس میں ہندوستان میں ایک مفسدہ عظیم ہو کر آثار باقیہ اسلامی سلطنت کے ملک ہند سے ناپدید ہوگئے تھے کیونکہ اس آیت کے اعداد بحساب جمل 1274 ہیں اور 1274کے زمانہ کو جب عیسوی تاریخ میں دیکھنا چاہیں تو 1857ءہوتاہے۔ سو درحقیقت ضعف اسلام کازمانہ ابتدائی یہی 1857ء ہے جس کی نسبت خدائے تعالےٰ آیت موصوفہ بالا میں فرماتاہے کہ جب وہ زمانہ آئیگا تو قرآن زمین پر سے اٹھایا جائیگا۔ سو ایساہی 1857ءمیں مسلمانوں کی حالت ہوگئی تھی کہ بجُز بدچلنی اور فسق وفجور کے اسلام کے رئیسوں کو اور کچھ یادنہ تھا جس کا اثر عوا م پر بہت پڑ گیا تھا انہیں ایام میں انہوں نے ایک ناجاؔئز اور ناگوار طریقہ سے سرکار انگریزی سے باوجود نمک خوار اور رعیت ہونے کے مقابلہ کیا۔ حالانکہ ایسامقابلہ اور ایسا جہاد ان کے لئے شرعًا جائز نہ تھاکیونکہ وہ اس گورنمنٹ کی رعیت اور ان کے زیر سایہ تھے اور رعیت کا اس گورنمنٹ کے مقابل پر سر اٹھاناجس کی وہ رعیت ہے اور جس کے زیر سایہ امن اور آزادی سے زندگی بسر کرتی ہے سخت حرام اورمعصیت کبیرہ اور ایک نہایت مکروہ بدکاری ہے۔جب ہم 1857ءکی سوانح کو دیکھتے ہیں اور اس زمانہ کے مولویوں کے فتووں پر نظر ڈالتے ہیں جنہوں نے عام طور پر مہریں لگا دی تھیں جو انگریزوں کو قتل کردینا چاہیئے تو ہم بحر ندامت میں ڈوب جاتے ہیں کہ یہ کیسے مولوی تھے اور کیسے اُن کے فتوے تھے۔ جن میں نہ رحم تھا نہ عقل تھی نہ اخلاق نہ اؔنصاف۔ ان لوگوں نے چوروں اور قزاقوں اور حرامیوں کی طرح اپنی محسن گورنمنٹ پر حملہ کرنا شروع کیا اور اس کا نام جہاد رکھا۔ننھے ننھے بچوں اور بے گناہ عورتوں کو قتل کیا اورنہایت بے رحمی سے انہیں پانی تک نہ دیا۔ کیا یہ حقیقی اسلام تھا یایہودیوں کی خصلت تھی۔ کیا کوئی بتلاسکتا ہے کہ خدائے تعالےٰ نے اپنی کتاب میں ایسے جہاد کاکسی جگہ حکم دیا ہے۔ پس اس حکیم وعلیم کا قرآن کریم میں یہ بیان فرمانا کہ 1857ء میں میرا کلام آسمان پر اُٹھایاجائیگا یہی معنے رکھتا ہے کہ مسلمان اس پر عمل نہیں کریں گے جیساکہ مسلمانوں نے ایسا ہی کیا۔خدائے تعالیٰ پر یہ الزام لگانا کہ ایسے جہاد اور ایسی لڑائیاں اس کے حکم سے کی تھیں یہ دوسرا گناہ ہے۔ کیا خدائے تعالیٰ ہمیں یہی شریعت سکھلاتا ہے کہ ہم نیکی کیؔ جگہ بدی کریں۔ اور اپنی محسن گورنمنٹ کے احسانات کا اس کو یہ صلہ دیں کہ اُن کی قوم کے صغر سن بچوں کو نہایت بے رحمی سے قتل کریں اور ان کی محبوبہ بیویوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرڈالیں۔ بلاشبہ ہم یہ داغ مسلمانوں خاص کر اپنے اکثر مولویوں کی پیشانی سے دھو نہیں سکتے کہ وہ 57ء میں مذہب کے پردہ میں ایسے گناہ عظیم کے مرتکب ہوئے جس کی ہم کسی قوم کی تواریخ میں نظیرنہیں دیکھتے اور نہ صرف اسی قدر بلکہ انہوں نے اور بھی ایسے بُرے کام کئے جو صرف وحشی حیوانات کی عادات ہیں نہ انسانوں کی خصلتیں۔ انہوں نے نہ سمجھا کہ اگر اُن کے ساتھ یہ سلوک کیاجائے کہ ایک ممنون منت اُن کااُن کے بچوں کومار دے اوران کی عورتوں کے ٹکڑے ٹکڑے کرے تو اُس وقت اُن کے دل میں کیا کیا خیال پیدا ہوگا۔ باوجوؔد اس کے یہ مولوی لوگ ا س بات کی شیخی مارتے ہیں کہ ہم بڑے متقی ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ نفاق سے زندگی بسر کرنا انہوں نے کہاں سے سیکھ لیا ہے۔ کتاب الٰہی کی غلط تفسیروں نے انہیں بہت خراب کیا ہے اور انکے دلی اور دماغی قویٰ پر بہت بُرا اثر ان سے پڑا ہے۔ اس زمانہ میں بلاشبہ کتاب الٰہی کے لئے ضرور ی ہے کہ اس کی ایک نئی اور صحیح تفسیرکی جائے کیونکہ حال میں جن تفسیروں کی تعلیم دی جاتی ہے وہ نہ اخلاقی حالت کو درست کرسکتی ہیں اور نہ ایمانی حالت پر نیک اثر ڈالتی ہیں بلکہ فطرتی سعادت اور نیک روشی کی مزاحم ہورہی ہیں۔ کیوں مزاحم ہورہی ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دراصل اپنے اکثر زوائد کی وجہ سے قرآن کریم کی تعلیم نہیں ہے قرآنی تعلیم ایسے لوگوں کے دلوں سے مٹ گئی ہے کہ گویا قرآن آسمان پر ٹھایاگیاہے۔ وہ ایمان جو قرآن نے سکھلایاتھا اس سے لوگ بے خبر ہیں وہ عرفان جو قرآن نے بخشاتھا اس سے لوگ غافل ہوگئے ہیں۔ ہاں یہ سچ ہے کہ قرآن پڑھتے ہیں مگر قرآن اُن کے حلق کے نیچے نہیں اُترتا۔

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3صفحہ488، 493)

اس بات کی تائید وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ(الجمعة:4)سے بھی ہوتی ہے جس کے اعداد1275 ہیں اور 1275 کا زمانہ 1858ء ہے۔

1857ءوہ زمانہ ہے جس کی تائید مولانا الطاف حسین حالی کی مسدس حالی کے اشعار سے ہوتی ہے جنہوں نے اپنے عنفوان شباب میں اس زمانہ کو دیکھ کر اور متاثر ہوکر اسلام کی حالت زار پر مرثیہ لکھا جس میں لکھا ہے کہ؂

سدا اہل تحقیق سے دل میں بل ہے حدیثوں پہ چلنے میں دیں کا خلل ہے

فتاووں پہ بالکل مدار عمل ہے ہر اک رائے قرآن کا نعم البدل ہے

کتاب اور سنت کا ہے نام باقی

خدا اور نبیؐ سے نہیں کام باقی

؂

رہا دین باقی نہ اسلام باقی

اک اسلام کا رہ گیا نام باقی

(مسدس حالی‘‘مدوجزر اسلام’’ از مولانا الطاف حسین حالی1879ء)

1


Discover more from احمدیت حقیقی اسلام

Subscribe to get the latest posts to your email.

Leave a Reply