Search
Close this search box.

قرآن مجید کے معجزات کی تفسیر پر اعتراض کا جواب

فہرست مضامین

Ahmady.org default featured image

قرآن کریم میں مذکور معجزات از نوع مسمریزم ہیں

راشد علی نے قرآن کریم کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف یہ بھی بات منسوب کی ہے کہ گویا آپؑ نے اپنی کتاب ’ازالہ اوہام‘ میں یہ لکھا ہے کہ

“Miracles mentioned in Holy Quran are mesmerism” (Beware…..)

ایسے جھوٹے پر خدا تعالیٰ کی لعنت ہو جس نے یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب کی ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو یہ فرماتے ہیں۔

’’خدا تعالیٰ نے قرآن شریف کو جو معجزہ عطا فرمایا ہے وہ اعلیٰ درجہ کی اخلاقی تعلیم اور اصولِ تمدّن کا ہے ۔اور اس کی بلاغت اور فصاحت کا ہے جس کا مقابلہ کوئی انسان کر نہیں سکتا ۔اور ایسا ہی معجزہ غیب کی خبروں او رپیشگوئیوں کا ہے۔ ‘‘ (ملفوظات جلد ۱۰صفحہ ۱۷۲)

نیز فرمایا :۔

’’جاننا چاہئے کہ کھلا کھلا اعجاز قرآن شریف کا جو ہر ایک قوم اور ہر ایک اہلِ زبان پر روشن ہو سکتا ہے جس کو پیش کر کے ہم ہر ایک ملک کے آدمی کو خواہ ہندی ہو یا پارسی یا یورپین یا امریکن یا کسی اور ملک کا ہو ملزم وساکت ولاجواب کر سکتے ہیں ۔وہ غیر محدود معارف وحقائق وعلومِ حکمیہ قرآنیہ ہیں جو ہر زمانہ میں اس زمانہ کی حاجت کے موافق کھلتے جاتے ہیں اور ہر ایک زمانہ کے خیالات کا مقابلہ کرنے کے لئے مسلّح سپاہیوں کی طرح کھڑے ہیں ۔۔۔۔۔۔ کھلا کھلا اعجاز اس کا تو یہی ہے کہ وہ غیر محدود معارف و دقائق اپنے اندر رکھتا ہے۔ جو شخص قرآنِ شریف کے اس اعجاز کو نہیں مانتا وہ علمِ قرآن سے سخت بے نصیب ہے۔ ومن لم یومن بذلک الاعجاز فواللّٰہ ما قدر القرآن حقّ قدرہ وما عرف اللّٰہ حقّ معرفتہ وما وقر الرّسول حقّ توقیرہ ‘‘ (ازالہ اوہام ۔ روحانی خزائن جلد ۳صفحہ ۲۵۵تا ۲۵۷)

یہ حقیقت ہے کہ کتاب ’ازالہ اوہام‘ میں اور نہ ہی کسی اور کتاب میں کسی جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمایا ہے کہ قرآن کریم میں مذکور معجزات از نوع مسمریزم ہیں۔ یہ راشد علی اور اس کے پیر کا کھلا کھلا جھوٹ ہے۔ ہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا ذکر فرمایا ہے وہاں ان معجزات کی ظاہری وباطنی دونوں توجیہات بیان فرمائی ہیں ۔چونکہ عامّۃ المسلمین حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدائی صفات کا مالک قرار دیتے ہوئے ان کو پرندوں کا خالق مانتے ہیں اور ان کے معجزات کی ظاہری صورت پر ہی ایمان رکھتے ہیں اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کو ان کی غلطی سے آگاہ کرنے کے لئے ان معجزات کی ایک ایسی توجیہہ فرمائی جو شرک کے خیالات سے دور اور عقل کے قریب تر ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان معجزات کو ظاہری صورت کے اعتبار سے مسمریزم کے عمل سے مشابہہ قرار دیا۔ چونکہ راشد علی اور اس کے پیر کو ابلیس کی پیروی اورتلبیس کی مہارت حاصل ہے اس لئے انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جھوٹا الزام یہ لگا دیا کہ گویا آپ ؑ نے (نعوذ باللہ) یہ کہاہے کہ قرآنِ کریم میں مذکور معجزات از نوع مسمریزم ہیں۔ راشد علی اور اس کے پیر کے اس فعل پر ہم لعنۃ اللہ علی الکاذبین کے سوا کیا کہہ سکتے ہیں؟

جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ توجیہہ کا تعلق ہے تو ہم اس مضمون کو پوری تفصیل کے ساتھ ہدیہ قارئین کرتے ہیں تا کہ حق کھل جائے۔

امرِ واقعہ یہ ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام مبعوث ہوئے اس وقت یہود میں طبّ اور دیگر شعبدہ بازی وغیرہ کے کام بہت رائج تھے۔ اس لئے اس بات کے ماننے میں کوئی حرج نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کے ہاتھ پر ایسے معجزاتِ عقلیّہ ظاہر فرمائے جن سے یہود کی طبّ اور ان کے دیگر امور مغلوب ہو گئے۔ چنانچہ علاّمہ سعدالدین تفتازانی اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’ تلویح ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں۔

’’ وقد حقّق فی الکتب الکلامیۃ ان معجزۃ کل نبیّ بما یتباھی بہ قومہ بحیث لا یتصوّر المزید علیہ کالسحر فی زمن موسٰی علیہ السلام والطب فی زمن عیسٰی علیہ السلام والبلاغۃ فی زمن سیّدنا محمّد علیہ السلام ‘‘

ترجمہ ۔ علم کلام کی کتابوں میں بالتحقیق بتایا گیا ہے کہ ہر نبی کو اسی رنگ کا معجزہ دیا گیا جس پر اس کی قوم کو فخر تھا۔ اور اس کیفیّت وکمیّت کی صورت میں دیا گیا جس پر زیادتی ناممکن تھی۔ جیسا کہ حضرت موسٰی ؑ کے زمانہ میں سحر اور جادو تھا اور حضرت مسیح کے وقت میں طبّ تھی اور آنحضرت ﷺ کے ظہور پر بلاغت تھی۔ ‘‘ (تلویح شرح توضیح ۔مطبوعہ مصر۔ جلداول صفحہ ۵۲)

سلسلہ احمدیہ کے اشد مخالف مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے بھی لکھا ہے :

’’خدا تعالیٰ کی قدیم سے عادت ہے کہ ہر زمانہ میں اس قسم کے معجزات وخوارق منکرین کو دکھاتاہے جو اس زمانہ کے لئے مناسب ہوں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں سحر کا بڑا زور تھا اسلئے ان کو ایسامعجزہ دیا جو سحر کا ہم جنس یا ہم صورت تھا اور وہ سحر پر غالب آیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں طبّ کا بڑا چرچا تھا اس لئے ان کو ایسا معجزہ دیا گیا جس نے طبیبوں کو مغلوب کیا۔ آنحضرت ﷺ کے مخاطبین وقت کو فصاحت کا ایسا دعویٰ تھا کہ وہ اپنے سو اکسی کو اہل سخن نہ جانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بلادِ غیر کے لوگوں کا عجم (گونگے) نام رکھتے تھے۔ ‘‘ ( اشاعۃ السّنّہ ۔جلد ۷نمبر ۱۰صفحہ ۲۸۹)

اس حقیقت کو سامنے رکھ کر اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان الفاظ کو پڑھیں :۔

’’ مخالف لوگ کہتے ہیں کہ یہ شخص حضرت مسیح علیہ السلام کے خالقِ طیور اور مُحیِ اموات ہونے کا منکر ہے اور اس کو نہیں مانتا۔ مگر میرا جواب یہ ہے کہ میں حضرت مسیح کے اعجازی احیاء اور اعجازی خلق کو مانتا ہوں۔ ہاں اس بات کو نہیں مانتا کہ حضرت مسیح نے خدا تعالیٰ کی طرح حقیقی طور پر کسی مردہ کو زندہ کیا ہو یا حقیقی طور پر کسی پرندہ کو پیدا کیا ہو۔ کیونکہ اگر حقیقی طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مردہ زندہ کرنے اور پرندہ پیدا کرنے کو تسلیم کیا جائے تو اس سے خدا تعالیٰ کی خلق اور اس کا احیاء مشتبہ ہو جائے گا۔ مسیح علیہ السلام کے پرندوں کا حال عصائے موسیٰ کی طرح ہے جیسے وہ سانپ کی طرح دوڑتا تھا مگر ہمیشہ کے لئے اس نے اپنی اصلی حالت کو نہ چھوڑا تھا۔ ایسا ہی محققین نے لکھا ہے کہ مسیح کے پرندے لوگوں کے نظر آنے تک اڑتے تھے لیکن جب نظر سے اوجھل ہو جاتے تو زمین پر گر پڑتے اور اپنی پہلی حالت پر آجاتے تھے۔ ‘‘(ترجمہ از عربی عبارت کتاب ’’حمامۃ البشریٰ ۔ روحانی خزائن جلد ۷صفحہ ۳۱۵ ، ۳۱۶)

فرمایا

’’واضح ہو کہ انبیاء کے معجزات دو قسم کے ہوتے ہیں (۱) ایک وہ محض سماوی امور ہوتے ہیں جن میں انسان کی تدبیر اور عقل کو کچھ دخل نہیں ہوتا۔ جیسے شق القمر ، جو ہمارے سیّد ومولیٰ نبی ﷺ کا معجزہ تھا اور خدا تعالیٰ کی غیر محدود قدرت نے ایک راستباز اور کامل نبی کی عظمت ظاہر کرنے کے لئے اس کو دکھایا تھا۔ (۲) دوسرے عقلی معجزات ہیں جو اس خارق عادت عقل کے ذریعہ سے ظہور پذیر ہوتے ہیں جو الہامِ الٰہی سے ملتی ہے۔ جیسے حضرت سلیمانؑ کا وہ معجزہ جو صَرحٌ مُّمَرَّدٌ مِّن قَوَارِیر ہے جس کو دیکھ کر بلقیس کو ایمان نصیب ہوا۔ اب جاننا چاہئے کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرت مسیحؑ کا معجزہ ،حضرت سلیمانؑ کے معجزہ کی طرح صرف عقلی تھا۔‘‘(ازالہ اوہام ۔ روحانی خزائن جلد ۳صفحہ ۲۵۳ ، ۲۵۴ حاشیہ)

نیز فرمایا

’’وہ لوگ جو فرعون کے وقت میں مصر میں ایسے ایسے کام کرتے تھے جو سانپ بنا کر دکھلا دیتے تھے اور کئی قسم کے جانور تیار کر کے ان کو زندہ جانوروں کی طرح چلا دیتے تھے۔ وہ حضرت مسیح کے وقت میں عام طور پر یہودیوں کے ملکوں میں پھیل گئے تھے اور یہودیوں نے ان کے بہت سے ساحرانہ کام سیکھ لئے تھے جیساکہ قرآن کریم بھی اس بات کا شاہد ہے۔ سو کچھ تعجب کی جگہ نہیں کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح کو عقلی طور سے ایسے طریق پر اطلاع دے دی ہو جو ایک مٹی کا کھلونا کسی کل کے دبانے یا کسی پھونک مارنے کے طور پر ایسا پرواز کرتا ہو جیسے پرندہ پرواز کرتا ہے یا اگر پرواز نہیں توپیروں سے چلتا ہو۔ ‘‘(ازالہ اوہام ۔ روحانی خزائن جلد ۳صفحہ ۲۵۴حاشیہ)

ظاہر ہے کہ وہ لوگ جو حضرت مسیح علیہ السلام کے ظاہری پرندے مانیں گے انہیں لازمی طور پر اسی قسم کی کوئی توجیہہ کرنی پڑے گی۔لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہ توجیہہ فرمائی جو واقعات کے مطابق اور انسانی عقل کے موافق ہے۔ اور پھر معجزہ بھی ہے ۔ کیونکہ اس صورت پرحضرت مسیح علیہ السلام کو منجانب اللہ اطلاع دی گئی اور آپ کے اس طریق کے سامنے باقی لوگ مغلوب ہو گئے ۔اور چونکہ وہ پرندے با تفاق مفسّرین عارضی اور وقتی زندگی پاتے تھے اس لئے اس کو عمل التّرب کا نتیجہ قرار دینا بھی درست ہے۔

مسمریزم یعنی عمل الترّب کی حقیقت

حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں :۔

’’اس جگہ یہ بھی جاننا چاہئے کہ سلبِ امراض کرنا یا اپنی روح کی گرمی جماد میں ڈال دینا در حقیقت یہ سب عمل التّرب کی شاخیں ہیں۔ ہر ایک زمانہ میں ایسے لوگ ہوتے رہے ہیں ۔ اور مفلوج ، مبروص ، مدقوق وغیرہ ان کی توجہّ سے اچھے ہوتے رہے ہیں۔ جن لوگوں کے معلومات وسیع ہیں وہ میرے اس بیان پر شہادت دے سکتے ہیں کہ بعض فقراء نقشبندی وسہروردی وغیرہ نے بھی ان مشقوں کی طرف بہت توجّہ کی تھی اور بعض ان میں یہاں تک مشّاق گذرے ہیں کہ صدہا بیماروں کو اپنی یمین ویسار میں بٹھا کر صرف نظر سے اچھا کر دیتے تھے اور محی الدین ابن عربی صاحب کو بھی اس میں خاص درجہ کی مشق تھی۔ ‘‘ (ازالہ اوہام ۔ روحانی خزائن جلد ۳صفحہ ۲۵۶ ، ۲۵۷حاشیہ)

یعنی عمل الترّب بالذّات کوئی بری چیز نہیں ، ہاں جو اس کا برا استعمال کرتا ہے اور مسمریزم وغیرہ کی صورت میں اس کا ناجائز طریق اختیار کرتا ہے وہ غلطی کرتا ہے۔ البتہ بلند روحانیّت کے لحاظ سے یہ کوئی اعلیٰ کمال نہیں ۔اسی لئے حضرت اقدس ؑ نے اپنے لئے اس کو ناپسند فرمایا ہے ۔ اور حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق بھی تحریر فرمایا ہے :۔

’’حضرت مسیح نے بھی اس عمل جسمانی کو یہودیوں کے جسمانی اور پست خیالات کی وجہ سے جو ان کی فطرت میں مرکوز تھے باذن وحکمِ الہی اختیار کیا تھا ورنہ دراصل مسیحؑ کو بھی یہ عمل پسند نہ تھا۔ ‘‘(ازالہ اوہام ۔ روحانی خزائن جلد ۳صفحہ ۲۵۸حاشیہ)

ہمارے اس بیان سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مسیح علیہ السلام کے معجزہ خلق الطیور کو عمل التّرب کہہ کر اس کی توہین نہیں فرمائی بلکہ آپ نے صرف اسی حقیقت کو جس کا تمام مفسّرین کواقرار ہے ایک جدید اصطلاح ’’عمل التّرب ‘‘ کے ذریعہ بیان فرما دیا ہے۔ پس اس مضمون پر یہ عنوان لگانا پرلے درجہ کا جھوٹ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے گویا یہ فرمایا ہے کہ ’’قرآن کریم میں مذکور معجزات از نوع مسمریزم ہیں۔ ‘‘

خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مسیح کے معجزہ خلق الطیور کو قرآنی الفاظ میں نہ صرف یہ کہ تسلیم کیا ہے بلکہ حسبِ حدیث لکلّ آیۃ ظھر وبطن، اس کی دو تشریحیں بیان فرمائی ہیں۔

(۱) ظاہری ۔ جو اوپر مذکور ہوئی۔ اور جس کا ماحصل یہی ہے کہ بے شک وہ پرندے بن گئے تھے مگر حقیقی نہ تھے۔ بلکہ یا تو عمل التّرب کا نتیجہ تھے یا پھر کسی کل وغیرہ کی وجہ سے تھے جس کی حضرت مسیح ؑ کو منجانب اللہ تعلیم کی گئی تھی۔

(۲) باطنی۔ اس تشریح میں آپ نے تحریر فرمایا ہے:۔

’’ چونکہ قرآن شریف اکثر استعارات سے بھرا ہوا ہے اس لئے ان آیات کے روحانی طور پر یہ معنی بھی کر سکتے ہیں کہ مٹی کی چڑیوں سے مراد وہ امّی اور نادان لوگ ہیں جن کو حضرت عیسیٰ ؑ نے اپنا رفیق بنایا۔ گویا اپنی صحبت میں لے کر پرندوں کی صورت کا خاکہ کھینچا پھر ہدایت کی روح ان میں پھونک دی جس سے وہ پرواز کرنے لگے۔ ‘‘(ازالہ اوہام ۔ روحانی خزائن جلد ۳صفحہ ۲۵۵حاشیہ)

پس دونوں تشریحات ہو سکتی ہیں۔ ظاہری بھی باطنی بھی۔ مگر جیسا کہ واضح ہے ظاہری تشریح ایک ’’خفیف امر ‘‘ ہو گا جو پائیدار نہیں ہو گا۔ لیکن باطنی تشریح ایک مستقل اور اہم صورت ہے اور انبیاء کے عین شایانِ شان ہے ۔ آیاتِ قرآنیہ کی متعدد تفاسیر کرنا تمام اہل علم کا طریق ہے کیونکہ قرآن مجید جو امع الکلم ہے۔

الغرض اس تمام بحث سے یہ کھل کر واضح ہو گیا ہے کہ راشد علی اور اس کے پیر نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جو یہ الزام لگایا ہے کہ آپؑ نے گویا یہ فرمایا کہ

“Miracles mentioned in Holy Quran are mesmerism”

قطعی جھوٹا ہے اور کذبِ صریح ہے۔

بالآخر یاد رہے کہ ہم اس بات کو کھلا کھلا شرک سمجھتے ہیں کہ جو صفت محض ذاتِ باری کے لئے مختصّ ہے وہ اس کے غیر کو دی جائے اور حضرت مسیح علیہ السلام کو واقعی خالق یقین کیا جائے۔ درحقیقت ہمارے مخالفین کی نظر میں ہمارا یہی جرم ہے کہ ہم اس بات کو توحیدِ کامل کے خلاف سمجھتے ہیں اور اسی کے باعث ہم اُن اصحاب کی نظروں میں موردِ عتاب ہیں جو حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق غالیانہ خیالات رکھتے ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ اس معجزہ میں غلوّ کر کے یہ لوگ نصاریٰ سے بھی چار قدم آگے نکل گئے ہیں۔ اناجیل کو پڑھ جاؤ وہاں یہ معجزہ حقیقی پرندوں کی پیدائش کا کہیں نہ دیکھو گے۔ اگر یہ واقعہ تھا تو کیا ممکن تھا کہ انجیل نویس مزید مبالغہ کی چادر چڑھا کر اس کو ذکر نہ کرتے ؟ ان کا ذکر نہ کرنا صاف دلالت کرتا ہے کہ یہ پرندے حقیقی پرندے نہیں تھے یا تو روحانی پرندے مراد ہیں یا مجازی۔ کما مرّ۔حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ۔

’’کیوں بنایا ابنِ مریم ؑ کو خدا۔۔ سنّت اللہ سے وہ کیوں باہر رہا

ہے وہی اکثر پرندوں کا خدا۔۔ اس خدا دانی پہ تیرے مرحبا

مولوی صاحب ! یہی توحید ہے ۔۔سچ کہو کس دیو کی تقلید ہے؟‘‘


Discover more from احمدیت حقیقی اسلام

Subscribe to get the latest posts to your email.

Leave a Reply