Search
Close this search box.

قرآن مجید میں کیا گالیاں بھری ہوئی ہیں؟ الزام کا جواب

فہرست مضامین

Ahmady.org default featured image

قرآن کریم گندے الفاظ سے بھرا ہوا ہے (نعوذ باللہ)

بدبخت حق کا دشمن راشد علی، اپنے دماغ کا گند حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے ہوئے اور آپ کی کتاب ازالہ اوہام کا ایک نام نہاد حوالہ دیتے ہوئے لکھتا ہے

“Holy Quran is full of filthy words.”( Beware…)

یہ لکھتے ہوئے اسے کچھ تو حیا کرنی چاہئے تھی کہ یہ بات وہ ایک ایسے شخص کی طرف منسوب کر رہا ہے جو قرآن کریم کا مقام اور مرتبہ دنیا پر ظاہر اور ثابت کرنے کے لئے مبعوث ہوا تھا۔ اس کی ساری زندگی قرآن کے حقائق ومعارف کے بیان اور اس کے اعلیٰ درجہ کے نور کی اشاعت میں بسر ہوئی۔ اس کو جو عرفان قرآنِ کریم کے مطالب کا دیا گیا اس کو چیلنج کے طور پر پیش کرتے ہوئے اس نے لکھا۔

’’ میں قرآن شریف کے حقائق ومعارف بیان کرنے کا نشان دیا گیا ہوں کوئی نہیں کہ جو اس کا مقابلہ کر سکے۔ ‘‘(ضرورۃ الامام ۔ روحانی خزائن جلد ۱۳صفحہ ۴۹۶)

آپ نے اپنے عربی ، اردو اور فارسی کلام نظم ونثر میں جس عرفان کے ساتھ قرآن کے حقائق ومعارف بیان کئے اور جس طرح قرآن کریم کے نور کے سمندر میں ڈوب کر اس کے حسن وجمال کو بیان فرمایا ہے اس کی کوئی نظیر تو پیش کرے۔

آپ ؑ فرماتے ہیں :۔

نورِ فرقاں ہے جو سب نوروں سے اَجلٰی نکلا

پاک وہ جس سے یہ انوار کا دریا نکلا

سب جہاں چھان چکے ساری دکانیں دیکھیں

مئے عرفاں کا یہی ایک ہی شیشہ نکلا

کس سے اس نور کی ممکن ہو جہاں میں تشبیہہ

وہ تو ہر بات میں ہر وصف میں یکتا نکلا

(براہین احمدیہ حصہ سوم ۔ روحانی خزائن جلد۱صفحہ۳۰۵ )

جہاں تک اس حوالے کا تعلق ہے ، جس کا ذکر راشد علی نے کیا ہے تو اس عبارت میں کہیں بھی یہ درج نہیں کہ قرآن کریم گندے الفاظ سے بھرا ہوا ہے۔ یہ ایک جھوٹا نتیجہ ہے جو اس نے اپنی طرف سے نکالا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اگر ہر وہ بات جو بے شک سخت ہو لیکن وہ امرِ واقعہ ہو اور اپنا ثبوت ساتھ رکھے وہ تو پھر ماننا پڑے گا کہ قرآن میں گالیاں ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ قرآن کریم تو کافروں کے سب پردے کھول کر رکھ دیتا ہے۔ اسے گالی قرار دینا خود حماقت ہے کیونکہ اظہار واقعہ اور چیز ہے اور گالی اور۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ مطلق طور پر نہیں لکھا بلکہ شرطی طور پر لکھا ہے کہ اگر ایسا ہو تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے۔ جیسے قرآن کریم میں آتا ہے۔

قُل اِن کَانَ لِلرَّحمٰنِ وَلَدٌ فَاَنَا اَوَّلُ العٰبِدِینَ (الزخرف :۸۲)

ترجمہ:۔ تو کہہ دے کہ اگر خدائے رحمن کا کوئی بیٹا ہوتا تو میں اس کی سب سے پہلے عبادت کرتا۔

یہ ایک امکانی اور شرطیہ بیان ہے کہ اگر ایسا ہو تو اس کے نتیجہ میں یہ ہوتا۔ مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ اسی طرح فرمایا ۔

لَو کَانَ فِیھِمَا اٰلِھَۃٌ اِلاَّ اللّٰہُ لَفَسَدَتَا (الانبیاء : ۲۳)

ترجمہ ۔ اگر دونوں (یعنی زمین وآسمان ) میں اللہ کے سوا اور بھی معبود ہوتے تو یہ دونوں تباہ ہو جاتے۔

بعینہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دلیل قائم فرمائی ہے چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں ۔

’’ بڑے دھوکہ کی بات یہ ہے کہ اکثر لوگ دشنام دہی اور بیان واقعہ کو ایک ہی صور ت میں سمجھ لیتے ہیں اور ان دونوں مختلف مفہوموں میں فرق کرنا نہیں جانتے۔ بلکہ ایسی ہر ایک بات کو جو دراصل ایک واقعی امر کا اظہار ہو اور اپنے محل پر چسپاں ہو محض اس کی کسی قدر مرارت کی وجہ سے جو حق گوئی کے لازمِ حال ہوا کرتی ہے دشنام ہی تصور کر لیتے ہیں حالانکہ دشنام اور سبّ اور شتم فقط اس مفہوم کا نام ہے جو خلافِ واقعہ اور دروغ کے طور پر محض آزار رسانی کی غرض سے استعمال کیا جائے۔ اور اگر ہر ایک سخت اور آزار دہ تقریر کو محض بوجہ اس کے کہ مرارت اور تلخی اور ایذا رسانی کے دشنام کے مفہوم میں داخل کر سکتے ہیں تو پھر اقرار کرنا پڑے گا کہ سارا قرآن شریف گالیوں سے پُر ہے۔ کیونکہ جو کچھ بُتوں کی ذلّت اور بُت پرستوں کی حقارت اور ان کے بارہ میں لعنت ملامت کے سخت الفاظ قرآنِ شریف میں استعمال کئے گئے ہیں یہ ہرگز ایسے نہیں ہیں جن کے سننے سے بُت پرستوں کے دل خوش ہوئے ہوں بلکہ بلاشبہ ان الفاظ نے ان کے غصّہ کی حالت کی بہت تحریک کی ہو گی۔ کیا خدائے تعالیٰ کا کفّار مکّہ کو مخاطب کر کے یہ فرمانا کہ اِنَّکُم وَمَا تَعبُدُونَ مِن دُونِ اللّٰہِ حَصَبُ جَھَنَّمَ (الانبیاء : ۹۹ ) معترض کے من گھڑت قاعدہ کے موافق گالی میں داخل نہیں ہے۔ کیا خدائے تعالیٰ کا قرآن شریف میں کفار کو شَرُّ البَرِیَّہ قرار دینا اور تمام رذیل اور پلید مخلوقات سے انہیں بدتر ظاہر کرنا یہ معترض کے خیال کے رو سے دشنام دہی میں داخل نہیں ہو گا؟ کیا خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں وَاغلُظ عَلَیھِم (التوبہ:۷۳)نہیں فرمایا کیا مومنوں کی علامات میں اَشِدَّآءُ عَلَی الکُفَّارِ (الفتح:۳۰) نہیں رکھا گیا۔ کیا حضرت مسیح کا یہودیوں کے معزز فقیہوں اور فریسیوں کو سؤر اور کتّے کے نام سے پکارنا اور گلیل کے عالی مرتبہ فرمانروا ہیرو دیس کا لونبڑی نام رکھنا اور معزز سردار کاہنوں اور فقیہوں کو کنجری کے ساتھ مثال دینا اور یہودیوں کے بزرگ مقتداؤں کو جو قیصری گورنمنٹ میں اعلیٰ درجہ کے عزت دار اور قیصری درباروں میں کرسی نشین تھے ان کریہہ اور نہایت دلازار اور خلاف تہذیب لفظوں سے یاد کرنا کہ تم حرامزادے ہو حرامکار ہو شریر ہو بدذات ہو ، بے ایمان ہو ، احمق ہو ، ریاکار ہو ، جہنمی ہو ، تم سانپ ہو ، سانپوں کے بچّے ہو۔ کیا یہ سب الفاظ معترض کی رائے کے موافق فاش اور گندی گالیاں نہیں ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دشنام دہی اور چیز ہے اور بیان، واقعہ کا گو وہ کیسا ہی تلخ اور سخت ہو دوسری شئے ہے ۔ہر ایک محقّق اور حق گو کا یہ فرض ہوتا ہے کہ سچی بات کو پورے پورے طور پر مخالفِ گم گشتہ کے کانوں تک پہنچا دیوے پھر اگر وہ سچ کو سنکر افروختہ ہو تو ہوا کرے ہمارے علماء جو اس جگہ لَاتَسُبُّوا (الانعام :۱۰۹)آیت پیش کرتے ہیں میں حیران ہوں کہ اس آیت کو ہمارے مقصد اور مدّعا سے کیا تعلق ہے۔ اس آیت کریمہ میں تو صرف دشنام دہی سے منع فرمایا گیا ہے نہ یہ کہ اظہارِ حق سے روکا گیا ہو اور اگر نادان مخالف ،حق کی مرارت اور تلخی دیکھ کر دشنام دہی کی صورت میں اس کو سمجھ لیوے اور پھر مشتعل ہو کر گالیاں دینی شروع کر دے تو کیا اس سے امر معروف کا دروازہ بند کر دینا چاہئے ؟ کیا اس قسم کی گالیاں پہلے کفّار نے کبھی نہیں دیں۔ آنحضرت ﷺ نے حق کی تائید کے لئے صرف الفاظ سخت ہی استعمال نہیں فرمائے بلکہ بُت پرستوں کے ان بُتوں کو جو ان کی نظر میں خدائی کا منصب رکھتے تھے اپنے ہاتھ سے توڑا بھی ہے

۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سو جاننا چاہئے کہ جن مولویوں نے ایسا خیال کیا ہے کہ گویا عام طور پر ہر ایک سخت کلامی سے خدائے تعالیٰ منع فرماتا ہے۔ یہ ان کی اپنی سمجھ کا ہی قصور ہے ورنہ وہ تلخ الفاظ جو اظہارِ حق کے لئے ضروری ہیں اور اپنے ساتھ اپنا ثبوت رکھتے ہیں وہ ہر ایک مخالف کو صاف صاف سنا دینا نہ صرف جائز بلکہ واجباتِ وقت سے ہے تا مداہنہ کی بلا میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ خدائے تعالیٰ کے برگزیدہ بندے ایسی سخت تبلیغ کے وقت میں کسی لاعِن کی لعنت اور کسی لائمِ کی ملامت سے ہرگز نہیں ڈرے ۔کیا معلوم نہیں کہ آنحضرت ﷺ کے وقت میں جس قدر مشرکین کا کینہ ترقی کر گیا تھا اس کا اصل باعث وہ سخت الفاظ ہی تھے جو ان نادانوں نے دشنام کی صورت پر سمجھ لئے تھے جن کی وجہ سے آخر لِسان سے سنان تک نوبت پہنچی۔ ورنہ اوّل حال میں تو وہ لوگ ایسے نہیں تھے بلکہ کمال اعتقاد سے آنحضرت ﷺ کی نسبت کہا کرتے تھے کہ عَشِقَ مُحَمَّدٌ عَلٰی رَبِّہ یعنی محمد ﷺ اپنے رب پر عاشق ہو گئے۔ ‘‘(ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد ۳صفحہ ۱۰۹تا ۱۱۵)

یہ وہ بحث ہے جس پر مشتمل عبارت میں سے ایک فقرہ کو سیاق وسباق سے الگ کر کے اور ازراہِ دجل غلط معنے چڑھا کر راشد علی نے اپنے نفس کا گند ظاہر کیا ہے۔حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کا دل عشقِ قرآن کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا اور آپ کا سینہ اس کے نور سے جگ مگ جگ مگ کرتا تھا۔ لیکن جہانتک ان اعتراض کرنے والوں کا تعلّق ہے،قرآن کریم کے بارہ میں ان لوگوں کے کیا عقائد ہیں؟ ملاحظہ فرمائیں:

۱:۔ بحالتِ خواب قرآن پر پیشاب کرنا اچھا ہے

مولانا اشرف علی تھانوی صاحب سے ایک شخص نے کہا کہ ’’ میں نے ایسا خواب دیکھا ہے کہ مجھے اندیشہ ہے کہ میرا ایمان نہ جاتا رہے۔ حضرت نے فرمایا بیان تو کرو۔ ان صاحب نے کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ قرآن مجید پر پیشاب کر رہا ہوں۔ حضرت نے فرمایا یہ تو بہت اچھا خواب ہے۔ ‘‘(افاضاتِ یومیہ تھانوی ۔صفحہ ۱۳۳۔فتاویٰ رشیدیہ صفحہ ۱۰۹ومزید المجید تھانوی صفحہ۶۶سطر۲۳)

۲:۔ خدا کے کلامِ لفظی یعنی قرآنِ مجید کا جھوٹا ہونا ممکن ہے

اس کے لئے کافی بحث موجود ہے۔ دیکھئے ’’ الجہد المقل ‘‘ از صد ر دیوبند صفحہ ۴۴ ،بوادر النوادر از تھانوی صفحہ ۲۱۰وصفحہ ۴۸۱ ۔

۳:۔ قرآن کو پاؤں تلے رکھنا جائز ہے

’’ کسی عذر سے قرآن مجید کو قارو رات میں ڈال دینا کفر نہیں ، رخصت ہے اور کوئی اور چیز نہ ہو تو قرآن شریف کو پاؤں کے نیچے رکھ کر اونچے مکان سے کھانا اتار لینا درست ہے اور بوقت حاجت قرآن شریف کو کسی کے نیچے ڈال لینا روا ہے۔ ‘‘ (تحریف اوراق صفحہ ۴بحوالہ وہابی نامہ صفحہ ۳۵)


Discover more from احمدیت حقیقی اسلام

Subscribe to get the latest posts to your email.

Leave a Reply