Search
Close this search box.

قرآن مجید میں قادیان کا نام آنے کے بیان پر اعتراض کا جواب

فہرست مضامین

قرآن مجید میں قادیان کا نام آنے کے بیان پر اعتراض کا جواب

ہم نے اسے قادیان کے قریب اتارا ہے

مکّہ ،مدینہ اور قادیان کے نام قرآن کریم میں عزت کے ساتھ درج ہیں

راشد علی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حسبِ ذیل دو کشوف کو بھی اپنے فولڈر’.. . . Beware ‘ میں ہدفِ اعتراض بنایا ہے۔

’’انّا انزلناہ قریباً من القادیان

(i) No Doubt we have revealed it (Quran) in Qadian

(ii) Names of Makkah ,Madina and Qadian are ’’ mentioned in Holy Quran with respect.

اس میں ایک بدیانتی تو راشد علی نے یہ کی ہے کہ Quran کو اپنی طرف سے بریکٹوں میں تحریر کر کے یہ تاثّر دینے کی کوشش کی ہے کہ گویا قرآن کریم قادیان میں نازل ہوا ہے۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کشف کی تفصیل کے ساتھ وضاحت فرماتے ہوئے قادیان میں اپنی بعثت کا ذکر کیا ہیں ۔ پس ایک تو یہ شیطانی ہے جو راشد علی نے کی ہیں۔

دوسرے یہ کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک کشف ہے۔ جس کو اس شیطان نے اس طرح پیش کیا ہے کہ اس سے یہ تاثّرملے کہ گویا یہ ظاہری واقعہ ہے اس لئے قابلِ اعتراض ہے۔

امرِ واقعہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلی الفاظ میں لکھا ہے کہ یہ کشف تھا۔ آپ ؑ نے کبھی بھی اسے ظاہری واقعہ کے طور پر پیش نہیں کیا اور نہ ہی جماعتِ احمدیہ کا کوئی فرد اسے ظاہری واقعہ کے طور پر پیش کرتا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ۔

’’ کشفی طور پر میں نے دیکھا کہ میرے بھائی صاحب مرحوم مرزا غلام قادر مرے قریب بیٹھ کر بآواز بلند قرآن شریف پڑھ رہے ہیں اور پڑھتے پڑھتے انہوں نے ان فقرات کو پڑھا کہ انّا انزلناہ قریباً من القادیان تو میں نے سنکر بہت تعجب کیا کہ کیا قادیان کا نام بھی قرآن شریف میں لکھا ہوا ہے ؟ تب انہوں نے کہا کہ یہ دیکھو لکھا ہوا ہے ۔تب میں نے نظر ڈال کر جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ فی الحقیقت قرآن شریف کے دائیں صفحہ میں شاید قریب نصف کے موقع پر یہی الہامی عبارت لکھی ہوئی موجود ہے۔ تب میں نے اپنے دل میں کہا کہ ہاں واقعی طور پر قادیان کا نام قرآن شریف میں درج ہے اور میں نے کہا کہ تین شہروں کا نام اعزاز کے ساتھ قرآنِ شریف میں درج کیا گیا ہے ۔ مکّہ اور مدینہ اور قادیان ۔ یہ کشف تھا جو کئی سال ہوئے کہ مجھے دکھلا گیا تھا۔ ‘‘(ازالہ اوہام ۔ روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۴۰ حاشیہ )

ہر صاحب فہم انسان جانتا ہے کہ عموماً کشوف تعبیر طلب ہوتے ہیں اس لئے ایک کشف کو لازمی طور پر ظاہری واقعہ کی شکل میں پیش کر کے موردِ الزام بنانا صرف اور صرف جھوٹوں اور شیطانوں کا کام ہے۔ کشوف کی عموماً تعبیر ہوتی ہے۔ اگر انہیں ظاہر پر محمول کر کے اور ظاہری واقعہ قرار دے کر موردِ طعن بنایا جائے تو نہ صرف یہ کہ عالمِ اسلام میں کوئی بزرگ ایسے طعن سے بچ نہیں سکتا بلکہ خدا تعالیٰ کے مقدّس انبیاء بھی اس شیطان راشد علی کی کچلیوں کی زد میں آتے ہیں۔

اس کے ثبوت کے لئے ذیل میں صرف چند آئمہ اور بزرگوں کے کشوف درج کئے جاتے ہیں۔

۱۔ حضرت امام ابو حنیفہ ؒ نے دیکھا کہ :۔

’’ آنحضرت ﷺ کی استخوان مبارک لحد میں جمع کر رہے ہیں۔ ان میں سے بعض کو پسند کرتے ہیں اور بعض کو ناپسند۔ چنانچہ خواب کی ہیبت سے بیدار ہو گئے۔ ‘‘(تذکرۃ الاولیاء ۔باب ۱۸۔کشف المحجوب مترجم اردو صفحہ ۱۰۶ )

۲۔ اور حضرت سید عبدالقادر جیلانی ؒ فرماتے ہیں۔

’’ رایت فی المنام کانی فی حجر عائشۃ امّ المؤمنین رضی اللّٰہ عنھا وانا ارضع ثدیھا الایمن ثم اخرجت ثدیھا الایسر فارضعتہ فدخل رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم (قلائد الجو اھرفی مناقب الشیخ عبدالقادر جیلانی ؒ ۔مطبوعہ مصر صفحہ ۵۷سطر ۸)

ترجمہ:۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت عائشہؓ کی گود میں ہوں اور ان کے دائیں پستان کو چوس رہا ہوں۔ پھر میں نے بایاں پستان باہر نکالا اور اس کو چوسا۔ اس وقت آنحضرت ﷺ تشریف لے آئے۔

یہ تو امّت کے مسلّمہ بزرگوں کے کشوف میں سے دو نمونہ کے طور پر قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔ اب دیوبندیوں کے مشہور بزرگ حضرت شاہ محمد آفاق متوفی ۱۴ اگست ۱۸۳۵ء کے اس کشف کو بھی پڑھ لیں جو انہوں نے اپنے ایک مرید فضل الرحمان گنج مراد آبادی کو بتایا۔ چنانچہ

’’ حضرت … ہادی شریعت وطریقت ، واقفِ اسرارِ حقیقت ومعرفت ، مرجع خواص وعوام ، قطبِ دوران ، غوثِ زمان مرشدنا ومولانا فضل الرحمان صاحب دامت برکاتہم وعمّت فیوضا تہم کی زبانِ فیض ترجمان سے ارشاد ہوا کہ’’ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہٗ فرمانے لگے کہ ہمارے گھر میں جاؤ۔ مجھے جاتے ہوئے شرم آئی۔ اس لئے تامّل کیا۔ حضرت نے مکرّر فرمایا کہ جاؤ۔ ہم کہتے ہیں۔ میں گیا۔ اندر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا تشریف رکھتی تھیں۔ آپ نے سینہ مبارک کھول کر مجھے سینہ سے لگا لیا اور بہت پیار کیا۔ ‘‘(ارشاد رحمانی و فضلِ یزدانی۔صفحہ ۵۰۔شائع کردہ درویش پریس دہلی ۱۹۴۵ء)

پس تعجب ہے راشد علی اور اس کے پیر کی عقل پر کہ اگر کوئی کشف میں مکّہ ، مدینہ اور قادیان کے نام قرآن کریم میں دیکھ لے تو یہ شور مچا دیتے ہیں لیکن مولانا فضل الرحمان کے اس ’’ارشاد ‘‘ مذکورہ بالا کو پڑھ کر انہیں شرم تک نہیں آتی۔

حقیقت یہ ہے کہ کشوف تعبیر طلب ہوتے ہیں اور اگر ان کی عقل وسمجھ اور بصیرت کے مطابق مناسب تعبیر نہ کی جائے تو نتائج انتہائی بھیانک ہو جاتے ہیں جس کے ذمہ دار صاحب رؤیا وکشوف بزرگ نہیں بلکہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو ان کشوف کی غیر مناسب تعبیر کرتے ہیں یا تعبیر کی بجائے اسے ظاہر پر محمول کر کے پھر اپنے خبثِ باطن کا اظہار کرتے ہیں۔

نوٹ: اس اعتراض کاویڈیو جواب ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔


Discover more from احمدیت حقیقی اسلام

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply