Search
Close this search box.

حضرت مسیح موعود مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام پر بیت الخلاء میں فوت ہونے کا الزام

فہرست مضامین

Ahmady.org default featured image

وفات پر اعتراض کا جواب

راشد علی اور اس کا پیر اپنی ’’ بے لگام کتاب‘‘ میں لکھتے ہیں ۔

’’موت کا شکنجہ :۔

’’بالاخر مخالفین کی ہزرہ سرائیوں سے تنگ آکر مرزا صاحب نے اللہ تعالیٰ کی جناب میں دعا کی کہ اگر جھوٹے مفتری ہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں ہیضہ اور طاعون سے موت دے دے۔ چنانچہ یہ دعا مقبول بارگاہ ایزدی ہوئی اور ایک سال بھی گزرنے نہ پایا کہ مرزا صاحب بآد حسرت ویاس اپنی منہ مانگی موت یعنی ہیضہ کا شکار ہو کر چل بسے۔ مرتے وقت کلمہ تک نصیب نہ ہو سکا۔ زبان سے جو آخری الفاظ نکلے وہ یہ تھے

’’ میر صاحب (مرزا صاحب کے خسر) مجھے وبائی ہیضہ ہو گیا ہے۔

(حیاتِ ناصر مرتبہ شیخ یعقوب علی قادیانی صفحہ ۱۱۴)‘‘

یہ بھی حسبِ معمول راشد علی اور اس کے پیر کی خیرہ سری ہے جو انہیں بار بار جھوٹ کی لعنت کا مورد بناتی ہے۔

i:۔ وصال کا سبب حضرت مسیح موعود علیہ السلام جس درد اور کرب کے ساتھ اسلام پر حملوں کے دفاع میں مصروف تھے۔ اس کے لئے دن رات کی علمی محنتِ شاقّہ ، آرام میں کمی اور غذا کی طرف سے لاپرواہی کے نتیجہ میں آپ کو اعصابی کمزوری کی وجہ سے اسہال کا مرض اکثر ہو جاتا تھا ۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ جس صبح حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کی وفات ہوئی ہے اس سے ملحقہ کئی دن آپ مسلسل دن رات تحریر وتقریر میں مصروف رہے حتّٰی کہ وفات سے بیس گھنٹے قبل بھی آپ نے لاہور میں صاحبِ علم افراد کے سامنے ایک طویل تقریر فرمائی ۔اس کی وجہ سے آپ کو اعصابی کمزوری لاحق ہوئی پھر رات کو اسی وجہ سے اسہال بھی آئے۔ اس کیفیت کا ہیضہ سے دُور کا بھی تعلق نہیں۔ نہ ہی روایات میں ڈاکٹروں کی طرف سے اس کا ذکر ملتا ہے۔

حضرت میر ناصر نواب رضی اللہ عنہ کی صرف ایک روایت ہے جو حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کے مکذّبین ایسے رنگ میں پیش کرتے ہیں کہ گویا آپ کی وفات کی وجہ یہ تھی کہ آپ اپنے دعوٰی میں صادق نہ تھے۔

حقیقتِ حال یہ ہے کہ حضرت میر ناصر نواب رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے یہ نتیجہ نکالنا کہ واقعۃً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وبائی ہیضہ ہو گیا تھا بالکل غلط بات ہے۔ اس فقرے کا مطلب تو صرف اس قدر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت میر صاحب سے استفسار کیا کہ ’’ مجھے وبائی ہیضہ ہو گیا ہے ؟ ‘‘ اور محض پوچھنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ واقعۃً وہ بات ہو بھی گئی ہو۔

ایسی حالت میں جبکہ اعصابی کمزوری ہو اور اس کی وجہ سے اسہال کی مرض بھی لاحق ہو تو نقاہت بے حد بڑھ جاتی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ سر پر چوٹ آنے کی وجہ سے حالت دِگر گوں ہو تو متاثرّ شخص سے یہ توقع رکھنا کہ اس کے ذہن میں ایک صحت مند شخص کے صحت مند ذہن کی طرح ہر بات پوری تفصیلات کے ساتھ مستحضر ہو ، انصاف کے خلاف ہے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ پر بھی ایک مرض کی وجہ سے ایسا وقت آیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔

انّہ لیخیّل الیہ انّہ یفعل الشّی وما فعلہٗ

(بخاری ۔ کتاب بدء الخلق ۔ باب فی ابلیس وجنودہ )

ترجمہ :۔ آپ ؐ کو خیال گذرتا تھا کہ آپ ؐ نے گویا کوئی کام کیا ہے حالانکہ آپ ؐ نے ایسا کیا نہ ہوتا تھا۔

(یہاں خدا تعالیٰ کی قدرت دیکھئے کہ حضرت امام بخاری ؒ اس حدیث کو ابلیس اور اس کے لشکر کے باب میں لائے ہیں۔ شاید نظرِ کشفی میں انہیں ان لوگوں کا علم ہو گیا ہو کہ ابلیس اور اس کے چیلے کون ہیں۔)

پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک ایسے فقرہ پر راشد علی اور اس کے پیر کا بغلیں بجانا بعینہ اسی طرح ہے جس طرح آنحضرت ﷺ کے بعض بشری عوارض پر مستشرقین نے استہزاء کئے ہیں۔

اس فقرے میں ’’ وبائی ہیضہ ‘‘ کا ذکر ہے۔ جبکہ تاریخی ریکارڈ شاہد ہے کہ اپریل ، مئی ۱۹۰۸ء میں پنجاب میں یہ وبا تھی ہی نہیں ۔ علاوہ ازیں یہ بھی تاریخی ریکارڈ سے ثابت ہے کہ لاہور میں اس وجہ سے کوئی موت نہیں ہوئی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں بھی ہیضہ کی کوئی علامت موجود نہ تھی ۔اس لئے اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معالج میجر ڈاکٹر سِدر لینڈ پرنسپل میڈیکل کالج لاہور نے آپ کی وفات کے سرٹیفکیٹ میں لکھا تھا کہ آپ ؑ کی وفات اعصابی اسہال کی بیماری سے ہوئی ہے۔ چنانچہ اس وقت جتنے بھی اطبّاء اور ڈاکٹر آپ کے معالج تھے یا ارد گرد تھے وہ سب ڈاکٹر سِدرلینڈ کی رائے سے متفق تھے کیونکہ ا س کے علاوہ سچائی اور تھی ہی کوئی نہیں۔

اسی طرح ڈاکٹر کننگھم سِول سرجن لاہور نے جو سرٹیفیکیٹ جاری کیا اس میں اس نے تحریراً یہ تصدیق کی کہ مرزا صاحب کی وفات عام اسہال کی شکایت سے ہوئی ہے ۔ اس اسہال کی وجہ اعصابی کمزوری تھی نہ کہ ہیضہ۔

اس پر مزید گواہی کے سامان خدا تعالیٰ نے یہ بھی فرمائے کہ جب آپ ؑ کی نعش مبارک ،قادیان لے جانے کے لئے لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچی اور گاڑی میں رکھی گئی تو راشد علی اور اس کے پیر کی قماش کے لوگوں نے محض شرّ پیدا کرنے کے لئے یہ جھوٹی شکایت اسٹیشن ماسٹر کے پاس کی کہ مرزا صاحب ہیضہ کی وجہ سے فوت ہوئے ہیں۔ چونکہ وبائی مرض کی وجہ سے ہیضہ سے وفات پانے والے کو دوسرے شہر لے جانا قانوناً منع تھا اس لئے اسٹیشن ماسٹر نے نعش بھجوانے سے انکار کر دیا ۔اس پرآپؑ کے ایک صحابی، شیخ رحمت اللہ صاحب نے سِول سرجن کا سرٹیفیکیٹ دکھایا تو پھر اسٹیشن ماسٹر کو حقیقتِ حال کا علم ہوا کہ یہ شکایت کرنے والے کہ حضرت مرزا صاحب کی وفات ہیضہ سے ہوئی ہے ، جھوٹے ہیں۔ چنانچہ اس نے اجازت دی اور آپ ؑ کی نعش مبارک قادیان لائی گئی۔ یہ سب واقعات تاریخ احمدیت جلد ۳صفحہ ۵۶۲پر تفصیل کے ساتھ درج ہیں۔

پس بیماری کی کیفیت ، علاج ، وفات اور پھر بعدکے تمام واقعات راشد علی اور اس کے پیر کے جھوٹ کوطشت از بام کرتے ہیں اوریہ ثابت کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ایک طبعی موت تھی جس میں کوئی غیر طبعی عوامل کار فرما نہیں تھے۔

ii:۔آخری الفاظ راشد علی اور اس کے پیر نے ایک اختراع یہ بھی کی ہے کہ

’’ مرتے وقت کلمہ تک نصیب نہ ہو سکا۔ زبان سے جو آخری الفاظ نکلے وہ یہ تھے۔ ’’ میر صاحب مجھے وبائی ہیضہ ہو گیا ہے۔ ‘‘

یہ ان دونوں کا جھوٹ ہے۔ یہ خود بخود ایک جھوٹ تراشتے ہیں اور اسے بڑی بے شرمی سے پیش کر دیتے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے وقت کے تمام حالات اور لمحہ لمحہ کی تفصیلات جماعتِ احمدیہ کی کتب میں درج ہیں جو راشد علی اور اس کے پیر کو پرلے درجہ کا جھوٹا اور فریبی ثابت کرتے ہیں۔ چنانچہ حضرت مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہٗ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کی کیفیّات کی تفصیل لکھتے ہوئے فرماتے ہیں۔

’’ جو کلمہ بھی اس وقت آپ کے منہ سے سنائی دیتا تھا وہ ان تین لفظوں میں محدود تھا ۔

’’اللہ ! میرے پیارے اللہ ‘‘

اس کے سوا کچھ نہیں فرمایا۔

صبح کی نماز کا وقت ہوا تو اس وقت جبکہ خاکسار مولّف (یعنی حضرت مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ) بھی پاس کھڑا تھا۔ نحیف آواز میں دریافت فرمایا

’’ کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ ‘‘

ایک خادم نے عرض کیا ہاں حضور ہو گیا ہے۔ اس پر آپ نے بستر کے ساتھ دونوں ہاتھ تیمم کے رنگ میں چھو کر لیٹے لیٹے ہی نماز کی نیّت باندھی مگر اسی دوران بے ہوشی کی حالت ہو گئی۔ جب ذرا ہوش آیا تو پھر پوچھا ’’ کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ ‘‘ عرض کیا گیا ہاں حضور ہو گیا ہے پھر دوبارہ نیّت باندھی اور لیٹے لیٹے نماز ادا کی۔ اس کے بعد نیم بے ہوشی کی کیفیت طاری رہی مگر جب ہوش آتا تھا وہی الفاظ۔

اللہ ! میرے پیارے اللہ

سنائی دیتے تھے ۔ ۔۔۔۔۔۔ آخر ساڑھے دس بجے کے قریب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دو لمبے لمبے سانس لئے اور آپ کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر کے اپنے ابدی آقا اور محبوبِ جاودانی کی خدمت میں پہنچ گئی۔ انّا للّٰہ وانّا الیہ راجعون (سلسلہ احمدیہ ۔صفحہ ۱۸۳ ، ۱۸۴۔مطبوعہ نظارت تالیف و تصنیف قادیان ۱۹۳۹ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بچپن میں دیکھ کر آپ ؑ کے والد صاحب نے فرمایا تھا کہ ’’ یہ زمینی نہیں بلکہ آسمانی ہے ‘‘ یعنی آپ کی ابتداء بھی خدا تعالیٰ کے خاص فضل اور رحمت کے سایہ میں تھی ، باقی زندگی بھی جیسا کہ آپ فرماتے ہیں۔

ابتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کٹے

گود میں تیری رہا میں مثل طفل شیر خوار

اسی طرح آپ ؑ کی وفات بھی خدا تعالیٰ کے نام پر ہی ہوئی۔ آپ کی زبان پر اسی کا نام تھا اور اسی کے نام کو زبان پر لے کر اس کے حضور حاضر ہو گئے۔

اس ابدی سچائی کے برخلاف جو بھی کوئی دوسری بات کرتا ہے وہ جھوٹا ہے اور جھوٹے پر خدا تعالیٰ کی لعنت ہے۔


Discover more from احمدیت حقیقی اسلام

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply