Search
Close this search box.

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات و پیشگوئیوں پر اعتراض کا اصولی جواب

فہرست مضامین

Ahmady.org default featured image

پیشگوئیوں کی تکذیب۔ ایک وضاحت

پیشگوئیوں کے اصول

راشد علی اور اس کے پیر نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض پیشگوئیوں کی بھی تکذیب کی ہے۔

یہ ایک ابدی سچّائی ہے کہ خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی ہر بات سچی ہوتی ہے خواہ وہ آئندہ زمانہ کے لئے پیشگوئیوں کی صورت میں ہو یا ماضی کے واقعات کے بارہ میں خبروں کی صورت میں۔

اللہ تعالیٰ نے پیشگوئیوں کے بارہ میں بعض معیار مقرر فرمائے ہیں جنہیں مدّنظر رکھنا ضروری ہے۔

بعض پیشگوئیاں مشروط ہوتی ہیں اورایک شرط کے عدمِ تحقق کی وجہ سے پیشگوئی ٹل جاتی ہے ۔

بعض پیشگوئیاں وعید کی ہوتی ہیں جو رجوع اور توبہ کی وجہ سے ٹل جاتی ہیں۔

بعض میں نام کسی شخص یا قوم کا ہوتا ہے مگر اس کا اطلاق کسی اور پر ہوتا ہے۔ بعض پیشگوئیاں ایسی ہوتی ہیں کہ مکذّبین کی سمجھ سے بہر حال بالا ہوتی ہیں مگر بسا اوقات ملہم بھی ان کے وہ معنے سمجھ لیتا ہے جو خدا تعالیٰ کی منشاء میں نہیں ہوتے۔

اسی طرح بعض پیشگوئیاں مستقبل بعید سے تعلق رکھتی ہیں جن کے پورے ہونے کا قبل از وقت مطالبہ نامعقول اور ناجائز ہوتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ ۔

پیشگوئیوں کے اصول

پہلا اصول

بنیادی طور پرپیشگوئیاں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ بعض وعدہ پر مشتمل ہوتی ہیں اور بعض وعید پر یعنی ان میں کسی عذاب یا سزا کی خبرہوتی ہے۔

ا:۔
وہ پیشگوئیاں جوکسی وعدہ پر مشتمل ہوتی ہیں اگر ان کے ساتھ کوئی شرط مذکور نہ ہو تو وہ وعدہ لفظاً لفظاً پورا کر دیا جاتا ہے۔لیکن اگر وہ مشروط ہو اور جس شخص یا قوم سے وہ وعدہ ہو وہ اس شرط کو پورا نہ کرے جس شرط سے وہ مشروط ہے تو وہ پورا نہیں کیا جاتا یا اس میں اس وقت تک تأخیر ڈال دی جاتی ہے جب تک کہ مذکورہ شرط پوری نہیں کر دی جاتی۔قرآنِ کریم میں اس کی مثال حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے ذکرمیں موجود ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں کنعان کی(مقدّس) سرزمین دینے کا وعدہ دیا اور فرمایا

يٰقَوْمِ ادْخُلُوْا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِىْ کَتَبَ اللّٰهُ لَـکُمْ وَلَا تَرْتَدُّوْا عَلٰٓى اَدْبَارِکُمْ فَتَـنْقَلِبُوْا خٰسِرِيْنَ‏ (المائدہ:۲۲)

ترجمہ:۔اے میری قوم!ارضِ مقدّس میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ رکھی ہے اور اپنی پیٹھیں دکھاتے ہوئے مُڑ نہ جاؤ ورنہ تم اس حال میں لوٹو گے کہ گھاٹا کھانے والے ہو گے۔

اس آیت کریمہ سے ظاہر ہے کہ یہ وعدہ پیٹھ نہ پھیرنے سے مشروط تھا۔ چونکہ بنی اسرائیل نے یہ کہہ کر پیٹھ پھیر دی کہ

’’ يٰمُوْسٰٓى اِنَّ فِيْهَا قَوْمًا جَبَّارِيْنَ‌ۖ۔۔۔‘‘(المائدہ:۲۳)

ترجمہ:۔اے موسیٰ!یقیناً اس میں ایک بہت سخت گیر قوم ہے۔

۔۔۔ اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَاۤ اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِيْهَا‌ فَاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ‏ (المائدہ:۲۵)

ترجمہ:۔ہم تو ہرگز اس (بستی) میں کبھی داخل نہیں ہوں گے جب تک وہ اس میں موجود ہیں۔ پس جا تو اور تیرا ربّ دونوں لڑو ہم تو یہیں بیٹھے رہیں گے۔

اس پر اللہ تعالیٰ نے وہ علاقہ ان پر چالیس برس کے لئے حرام کر دیا۔فرمایا

فَاِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ‌ اَرْبَعِيْنَ سَنَةً‌‌ ۚ يَتِيْهُوْنَ فِىْ الْاَرْضِ‌ؕ (المائدہ:۲۷)

ترجمہ:۔پس یقیناً یہ (ارضِ مقدّس) ان پر چالیس سال تک حرام کر دی گئی۔وہ زمین میں مارے مارے پھریں گے۔

یعنی ان کے منفی رویّہ کی وجہ سے وہ وعدہ تأخیر میں ڈال دیا گیا۔

ب:۔
دوسری قسم کی پیشگوئیاں وعیدی ہیں۔جو ہمیشہ عدمِ عفو کی شرط سے مشروط ہوتی ہیں۔چنانچہ عقائد میں یہ مسلّم ہے کہ

’’انّ جمیع الوعیدات مشروطۃٌ بعدمِ العفو فلا یلزم من ترکھا دخول الکذب فی کلام اللّٰہ تعالٰی‘‘( تفسیر کبیر۔ جلد۲۔صفحہ ۴۰۹۔مصری)

ترجمہ:۔ وعیدی پیشگوئیوں میں یہ شرط ہوتی ہے کہ اگر خدا تعالیٰ نے معاف نہ کر دیاہو تووہ لفظاً لفظاً پوری ہوتی ہیں۔لہٰذا اگر وعیدی پیشگوئی (خدا تعالیٰ کے عفو کی وجہ سے) پوری نہ ہو تو اس سے خدا تعالیٰ کے کلام کا جھوٹا ہونا ثابت نہیں ہوتا۔

اہلِ سنت کے عقائد کی معروف کتاب ’’مسلّم الثبوت‘‘ میں لکھا ہے : ’’انّ الایعاد فی کلامہٖ تعالیٰ مقیّدٌ بعدم العفو‘‘(صفحہ ۲۸)

ترجمہ:۔ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہر وعید عدمِ عفو کی شرط سے مقیّد ہوتی ہے۔

پھر تفسیر بیضاوی میں لکھا ہے

’’انّ وعید الفساق مشروطٌ بعدم العفو‘‘ (تفسیر البیضاوی۔تفسیر سورۃ آلِ عمران۔ زیرآیت انّ اللہ لا یخلف المیعاد)

ترجمہ:۔فاسقوں کے متعلق عذاب کی پیشگوئی کا پورا ہونا اس شرط سے مشروط ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ معاف نہ کرے۔

وعیدی پیشگوئیوں کے متعلق یہ اصول بنیادی طور پر حدیث نبویؐ سے مأخوذ ہے۔ چنانچہ لکھا ہے

’’ان اللّٰہ تعالیٰ یجوز ان یخلف الوعید و امتنع ان یخلف الوعد و بھٰذا وردت السنّۃ ففی حدیث انس رضی اللّٰہ عنہٗ انّ النبیّ ﷺ قال من وعد اللّٰہ علی عملہٖ ثواباً فھو منجزٌ لہٗ ومن اوعد علی عملہٖ عقاباً فھو بالخیار و مِن ادعیۃ الائمّۃالصادقین یا من اذا وعد وفا و اذا اوعد عفا۔‘‘( تفسیر روح المعانی۔ جلد دوم صفحہ ۵۵ مصری)

ترجمہ:۔اللہ تعالیٰ کے لئے جائز ہے کہ وہ وعید (یعنی عذاب کی پیشگوئی) میں تخلّف کرے اگرچہ وعدہ کے خلاف کرنا ممتنع ہے اور اسی طرح سنت میں بھی وارد ہوا ہے۔ چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ اگر خدا تعالیٰ انسان کے عمل پر کسی ثواب (انعام) کا وعدہ کرے تو اسے پورا کرتا ہے۔اور جس سے اس کے عمل پر عذاب کی وعید کرے اسے اختیار ہے(چاہے تو اسے پورا کرے اور چاہے تو اسے معاف کردے)اور آئمّہ صادقین کی دعاؤں میں سے ایک دعا یوں ہے کہ ’’اے وہ اللہ! کہ جب وعدہ کرتا ہے تو پورا کرتا ہے اور جب وعید کرے تو معاف کر دیتا ہے۔‘‘

عذاب ادنیٰ رجوع سے ٹل سکتا ہے

قرآنِ کریم خدا تعالیٰ کے اس قانون کو کھول کر بیان کرتا ہے کہ ادنیٰ رجوع سے بھی وہ عذاب ٹال دیتا ہے۔چنانچہ جب قومِ فرعون پر موعود عذاب آتا تھا تووہ کہتے تھے

يٰۤاَيُّهَ السَّاحِرُ ادْعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَکَ‌ۚ اِنَّنَا لَمُهْتَدُوْنَ‏ ۔ فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ اِذَا هُمْ يَنْکُثُوْنَ‏ (الزخرف: ۵۱،۵۰)

ترجمہ:۔اے جادوگر! ہمارے لئے اپنے ربّ سے وہ مانگ جس کا اس نے تجھ سے عہد کر رکھا ہے۔یقیناً ہم ہدایت پانے والے ہو جائیں گے۔

اس آیت سے ظاہرہے کہ عذاب ادنیٰ رجوع سے بھی ٹل جاتا ہے۔قومِ فرعون نہ خدا تعالیٰ پر ایمان لاتی ہے ۔نہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نبی مانتی ہے اور نہ ہی آپؑ کی اتباع میں آتی ہے بلکہ آپ کو جادوگر کہتی ہے مگر صرف دعا کی درخواست کرنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ ان سے عذاب دور کر دیتا ہے حالانکہ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ یہ لوگ عہد شکنی کریں گے۔

پھر قرآنِ کریم میں یہ بھی ہے کہ

مَا کَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ‏ (الانفال:۳۴)

ترجمہ:۔ اللہ ایسا نہیں کہ انہیں عذاب دے جبکہ وہ بخشش طلب کرتے ہوں۔

پس اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ بخشش طلب کرنے والوں سے عذاب دور کر دیتا ہے بلکہ ادنیٰ رجوع سے بھی ان سے عذاب ٹال دیتا ہے۔

دوسرا اصول ۔ پیشگوئی میں اجتہادی غلطی

بعض اوقات ملہم اپنے الہام کا اپنے اجتہاد سے ایک مفہوم قائم کرتا ہے لیکن بعد میں اس کا یہ اجتہاد درست ثابت نہیں ہوتا۔یعنی اس کے اپنے اجتہادی معنوں میں تو وہ غیب کی خبر پوری نہیں ہوتی البتہ اصل الہامی الفاظ میں وہ بہرحال پوری ہوتی ہے ا ور خودواقعات الہامی الفاظ کی صحیح تشریح و تعبیر ظاہر کر دیتے ہیں۔قرآنِ کریم میں ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام سے فرمایا کہ میں تیرے اہل کو غرق ہونے سے بچالوں گا۔ جب ان کا بیٹا غرق ہونے لگا تو انہوں نے اپنے اجتہاد کے مطابق اپنے بچے کو بچائے جانے کی درخواست کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کو اس کا وعدہ یاد دلایا اور عرض کی کہ

اِنَّ ابْنِىْ مِنْ اَهْلِىْ وَاِنَّ وَعْدَکَ الْحَـقُّ (ہود:۴۶)

ترجمہ:۔ یقیناً میرا بیٹا بھی میرے اہل سے ہے اور تیرا وعدہ ضرور سچّاہے۔ (یعنی وعدہ کے مطابق اسے تو بچنا چاہئے)

اس پر خدا تعالیٰ نے جواب دیا

اِنَّهٗ لَـيْسَ مِنْ اَهْلِکَ‌ ‌ۚاِنَّهٗ عَمَلٌ غَيْرُ صٰلِحٍ‌‌ۖ فَلَا تَسْــَٔلْنِ مَا لَـيْسَ لَـکَ بِهٖ عِلْمٌ‌ؕ اِنِّىْۤ اَعِظُکَ اَنْ تَکُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِيْنَ‏ (ہود :۴۷)

ترجمہ:۔یقیناً وہ تیرے اہل میں سے نہیں ۔بلاشبہ وہ تو سراپا ایک ناپاک عمل تھا۔پس مجھ سے وہ نہ مانگ جس کا تجھے کچھ علم نہیں۔میں تجھے نصیحت کرتا ہوں مبادا تو جاہلوں میں سے ہو جائے۔

ان آیات سے ظاہر ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے غرق ہونے والے بیٹے کو اپنے اجتہاد سے پیشگوئی میں مذکور لفظ ’’اہل‘‘ میں داخل سمجھا کیونکہ جسمانی لحاظ سے وہ بہرحال آپؑ کے اہل میں شامل تھا لیکن علمِ الٰہی میں اہل کو بچائے جانے کے وعدہ میں وہ داخل نہ تھاکیونکہ خدا کے نزدیک وہ ’’اہل‘‘ مراد تھے جو روحانی لحاظ سے بھی ’’اہل‘‘ ہوں اس لئے نوح علیہ السلام نے اجتہادی غلطی سے اسے بچائے جانے والے اہل کے وعدہ میں داخل سمجھا حالانکہ وہ خدا کے وعدہ میں شامل نہ تھا۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کو اس سے بچائے جانے کی درخواست پر ان کو ان کی غلطی سے متنبّہ کر دیا۔

اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ ملہم الہام کے جو معنے سمجھے وہ ضرور صحیح ہوں یا جس امر کو وہ خدائی وعدہ سمجھے وہ ضرور خدائی وعدہ ہو اور اس میں تخلف جائز نہ ہو۔ ایسے خیالی وعدہ کو پورا کرنے کا خدا تعالیٰ ذمہ دار نہیں ہوتا۔ اسلامی عقائد کی کتابوں میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ

’’ انّ النّبیﷺ قد یجتھد فیکون خطأً‘‘۔(النبراس شرح الشرح لعقائد نسفی۔صفحہ ۳۹۲)

ترجمہ:۔نبی ﷺ کبھی اجتہاد کرتے تو اس میں خطا ہو جاتی۔

پھراس کے ثبوت میں آگے ایک حدیث نبویؐ درج کی گئی ہے کہ ’’ المجتھد یخطی و یصیب فإن اصاب فلہٗ اجران و ان اخطأ فلہٗ اجرٌ واحدٌ‘‘۔( حوالہ مذکورہ بالا)

ترجمہ:۔مجتہد اجتہاد میں غلطی بھی کرتا ہے اور وہ صحیح اجتہاد بھی کرتا ہے۔اگر اس کا اجتہاد درست ہو تو اسے دو اجر ملتے ہیں اور اگر وہ اجتہاد میں غلطی کرے تو اسے ایک اجر ملتاہے۔

امرِواقع یہ ہے کہ ملہم بعض اوقات ایک وعیدی پیشگوئی کو قضائے مبرم سمجھ لیتا ہے لیکن عند اللہ وہ قضائے معلق ہوتی ہے۔ ایسی مبرم سمجھی جانے والی قضاء بعض اوقات صدقہ و دعا وغیرہ سے ٹل جاتی ہے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے ’’اکثر من الدّعاء فان الدّعا یردّ القضاء المبرم۔‘‘ (کنز العمّال۔جامع الصغیر ۔جلد اوّل صفحہ۵۴۔ مطبوعہ مصر)

ترجمہ:۔ کثرت سے دعا کیا کرو کیونکہ دعا تقدیر مبرم( یعنی مبرم سمجھی گئی تقدیر) کو بھی ٹال دیتی ہے۔

اسی طرح صدقہ کے بارہ میں ہے کہ

’’انّ النّبیّ ﷺ قال انّ الصدقۃ تدفع البلاء النازل من السمآء ۔ ‘‘ ( روض الریاضین بر حاشیہ قصص الانبیاء۔۳۶۴)

ترجمہ:۔ صدقہ و خیرات اس بلاء کو دور کر دیتا ہے جو مبرم طور پر آسمان سے نازل ہونے والی ہو۔( یعنی جسے بظاہر مبرم سمجھا گیا ہو)

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

قُلْ يٰعِبَادِىَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا‌ؕ (الزمر:۵۴)

ترجمہ:۔تو کہہ دے کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یقیناً اللہ تمام گناہوں کو بخش سکتا ہے۔ یقیناً وہی بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔

تفسیر درّمنثور اور دیگر تفاسیر میں لکھا ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام نے اپنی قوم پر چالیس دنوں کے اندر عذاب نازل ہونے کی پیشگوئی فرمائی۔ اپنی پیشگوئی کے متعلق انہیں اتنا یقین تھا کہ شہر سے باہر ڈیرہ ڈال کر عذاب کا انتظار کرنے لگے۔ ادھر قوم نے ٹاٹ پہن لئے اور عورتوں اور بچوں نے عذاب کے ٹلانے کے لئے خدا تعالیٰ کے حضور واویلا شروع کر دیا تو خدا تعالیٰ نے قوم کے رجوع کی وجہ سے ان سے عذاب ٹال دیا۔لیکن حضرت یونس علیہ السلام اس خیال سے بھاگ کھڑے ہوئے کہ میری پیشگوئی پوری نہ ہونے کی وجہ سے لوگ مجھے جھٹلائیں گے۔اسی بھاگ جانے کی پاداش میں انہیں تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہنا پڑا۔اللہ تعالیٰ آپؑ کی قوم کے بارہ میں فرماتا ہے۔

فَلَوْلَا کَانَتْ قَرْيَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَاۤ اِيْمَانُهَاۤ اِلَّا قَوْمَ يُوْنُسَؕ لَمَّاۤ اٰمَنُوْا کَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْىِ ۔(یونس:۹۹)

ترجمہ:۔پس کیوں یونس کی قوم کے سوا ایسی کوئی بستی والے نہیں ہوئے جو ایمان لائے ہوں اور جن کو ان کے ایمان نے فائدہ پہنچایا ہو۔ جب وہ ایمان لائے تو ہم نے ان سے ذلّت کا عذاب دور کر دیا۔

حضرت یونس علیہ السلام کے بارہ میں ایک اور جگہ آتا ہے

وَ ذَا النُّوْنِ اِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّـقْدِرَ عَلَيْهِ (الانبیاء:۸۸)

ترجمہ:۔اور مچھلی والا، جب وہ غصے سے بھرا ہوا چلا اور اس نے گمان کیا کہ ہم اس پر گرفت نہیں کریں گے۔

الغرض حضرت یونس علیہ السلام سے یہ اجتہادی غلطی سرزد ہوئی کہ وہ یہ سمجھ کر بھاگ نکلے کہ ان کی پیشگوئی لفظاً پوری نہیں ہوئی۔ حالانکہ یہ پیشگوئی وعیدی پیشگوئیوں کے قاعدہ کے ماتحت قوم کی توبہ اور اس کے رجوع سے ٹل گئی تھی ۔اس کی وجہ سے یونس علیہ السلام پرکوئی اعتراض وارد نہیں ہو سکتا تھا۔وہ محض اپنے اجتہاد کی وجہ سے بھاگے تھے ۔اس لئے ان کے اس طرح بلا وجہ بھاگ نکلنے کے واقعہ کو یاد دلا کر اللہ تعالیٰ آنحضرتﷺ کو نصیحت فرماتا ہے کہ آپ ؐ بھی کسی وعیدی پیشگوئی کے متعلق ایسا نمونہ نہ دکھلائیں جو یونس علیہ السلام نے دکھایا تھا۔ فرمایا

فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلَا تَکُنْ کَصَاحِبِ الْحُوْتِ‌ۘ اِذْ نَادٰى وَهُوَ مَکْظُوْمٌؕ‏ (القلم: ۴۹)

ترجمہ:۔ سو اپنے رب کے فیصلے کے انتظار میں صبر کر اور مچھلی والے کی طرح نہ ہو جب اس نے (اپنے ربّ کو )پکارا اور وہ غم سے بھرا ہوا تھا۔

اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں اس واقعہ کو بیان کرکے امّتِ محمّدیہ کے ملہمین کو بھی بالواسطہ نصیحت فرماتا ہے کہ وعیدی پیشگوئیاں اگر لفظاً پوری نہ ہوں اور جس کے بارہ میں پیشگوئی ہو اس کے توبہ کر لینے سے اگر پیشگوئی ٹل جائے تو یہ گھبراہٹ کی جگہ نہیں۔ نیز اللہ تعالیٰ نے امّت کے علماء اور دوسرے لوگوں کو اس واقعہ کے ذکر سے متنبّہ کیا ہے کہ وہ وعیدی پیشگوئی پر بلاوجہ کسی ملہم پر زبانِ طعن دراز نہ کریں کیونکہ وعیدی پیشگوئیاں ہمیشہ توبہ کی شرط سے مشروط ہوتی ہیں اور توبہ کرلینے والوں سے ان میں بیان کردہ عذاب ٹل جایا کرتا ہے اس لئے یہ بات محلِّ اعتراض نہیں۔

اجتہادی خطا کا ایک واقعہ

آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں

’’رأیت فی المنام انّی اھاجر من مکّۃ الیٰ ارضٍ ذات نخل فذھب وھلی انّھا الیمامۃ او الحجر فإذا ھی مدینۃ یثرب ۔‘‘ ( بخاری۔ کتاب التعبیر۔باب اذا رأی بقراً تنحر )

ترجمہ:۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مکّہ سے ایک کھجوروں والی زمین کی طرف ہجرت کر رہا ہوں تو میرا خیال (اجتہادًا) اس طرف گیا یہ سرزمینِ یمامہ یا حجر ہو گی لیکن اچانک وہ سرزمین یثرب نکلی۔

آنحضرت ﷺ کے ایک ایسے ہی اجتہاد کا نمونہ صلح حدیبیہ والے واقعہ میں بھی موجود ہے۔ اس واقعہ کا تفصیلی ذکر ہم نے آئندہ سطور میں باب ’’رسول اللہ ﷺ کی توہین و گستاخی‘‘ کے عنوان نمبر ۱۲ کے تحت کیا ہے۔

یہ ایسے واقعات ہیں جو قطعی طور پر یہ ثابت کرتے ہیں کہ اجتہادی غلطی اگر نبی سے سرزد ہو تو یہ نبوت میں حارج نہیں اور اس پر اعتراض کرنا دیانتداری نہیں۔

تقدیر مبرم کی اقسام

وہ تقدیرِ مبرم کہ جس کے دعا و صدقہ سے ٹل جانے کا ذکر احادیث نبویّہ کی رو سے قبل ازیں پیش کیا جا چکا ہے ایسی تقدیرِ مبرم ہوتی ہے جو دراصل خدا تعالیٰ کے ہاں تو مبرم نہیں ہوتی بلکہ معلق ہی ہوتی ہے، لیکن ملہم پر اس کا معلّق ہونا ظاہر نہیں کیا جاتا اور وہ اجتہادًا اس کے قطعی مبرم ہونے کا حکم لگا دیتا ہے اور پھر خبر کے پورا نہ ہونے پر پتہ لگ جاتا ہے کہ دراصل وہ معلق تھی۔چنانچہ حضرت مجدّد الف ثانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں۔

’’باید دانست کہ اگر پرسند کہ بسبب چیست کہ در بعضے از کشوف کوئی کہ ازاولیاء اللہ صادر مے گردد غلط واقع مے شود وخلاف آں ظہور مے آید۔ مثلاً خبرکردند کہ فلاں بعد از یکماہ خواہد مرد یا از سفر بوطن مراجعت خواہد نمود اتفاقاً بعد از یکماہ ازیں چیز ہیچ کدام بوقوع نیامد۔ در جواب گوئم کہ حصولِ آں مکشوف و مخبر عنہ مشروط بشرائط بودہ است کہ صاحبِ کشف درآں وقت بہ تفصیل اطلاع نیافتہ و حکم کردہ بحصول آں شیء مطلقاً یا آنکہ گویم کلی از احکام لوحِ محفوظ بر عارفے ظاہر نشد کہ آں حکم فی نفسہٖ قابل محو و اثبات است و از قضائے معلق اما ازاں عارف را از تعلیق و قابلیت محو و بے خبر نے دریں صورت اگر بمقتضائے علم خود حکم کند ناچار احتمالِ تخلف خواہد شد۔‘‘ (مکتوبات امام ربّانی۔ جلد اوّل صفحہ۲۲۳ مکتوب۲۱۷۔مطبع منشی ۔نول کشور۔لکھنؤ)

ترجمہ:۔’’جاننا چاہئے کہ اگر یہ سوال کریں کہ اس بات کا کیا سبب ہے کہ بعض آئندہ ہونے والے واقعات کی خبر دینے سے متعلق بعض کشوف جو خدا کے پیاروں سے صادر ہوتے ہیں غلط واقع ہو جاتے ہیں اور ان کے خلاف ظہور میں آتا ہے مثلاً خبر دیتے ہیں کہ فلاں شخص ایک ماہ کے اندر مر جائے گا یا سفر سے وطن واپس آ جائے گا۔ اتفاقاً ایک ماہ کے بعد دونوں میں سے کوئی بات وقوع میں نہیں آتی۔

اس سوال کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ یہ کشف اور اس کی خبر مشروط بشرائط ہوتی ہے جس پر اس وقت صاحبِ کشف کو ان شرائط کی تفصیل سے اطلاع نہیں ملتی و ہ اس کے مطلق پورے ہونے کا حکم لگا دیتا ہے یا یہ کہ لوحِ محفوظ کے احکام کلی طور پر اس عارف پر ظاہر نہیں ہوئے کہ وہ حکم فی نفسہٖ محو واثبات کے قابل ہے اور قضائے معلق میں سے ہے ۔لیکن اس عارف کو اس کی تعلیق اور محو کی قابلیت کی خبر نہیں ہوتی۔ اس صورت میں اپنے علم کے تقاضا کے مطابق وہ حکم لگا دیتا ہے۔ ناچار ایسی خبر کے پورا نہ ہونے کا احتمال ہو گا۔‘‘

حضرت مجدّد الف ثانی علیہ الرحمہ اسی مکتوب میں اگلے صفحہ پر قضائے معلق کی دو قسمیں بیان فرماتے ہوئے رقمطراز ہیں۔کہ

’’قضائے معلق بردو گونہ است قضائے است کہ تعلیقِ اُو رَا دَرلوحِ محفوظ ظاہر ساختہ اند و ملائکہ را برآں اطلاع دادہ و قضائے کہ تعلیقِ او نزدِ خدا است جلّ شانہٗ و بس در لوحِ محفوظ صورتِ قضائے مبرم دارد و ایں قسم اخیر از قضائے معلق نیزاحتمال تبدیل دارد در رنگ قسم اوّل۔‘‘(مکتوبات جلد اوّل صفحہ۲۲۴۔مطبع منشی ۔نول کشور۔لکھنؤ)

ترجمہ:۔’’ قضائے معلق کی دو قسمیں ہیں۔ ایک قضائے معلق وہ ہے کہ جس کا معلق ہونا لوحِ محفوظ میں ظاہر کر دیا گیا ہوتا ہے۔ اور فرشتوں کو اس ( تعلیق) پر اطلاع دیدی جاتی ہے ۔اور ایک قضائے معلق وہ ہے جس کا معلق ہونا صرف خدا تعالیٰ جلّ شانہٗ ہی جانتا ہے۔اور لوحِ محفوظ میں وہ قضائے مبرم کی صورت میں ہوتی ہے۔یہ آخری قسم قضائے معلق کی بھی(جو صورۃً مبرم ہوتی ہے) پہلی قسم کی قضا کی طرح تبدیلی کا احتمال رکھتی ہے۔‘‘

حضرت مجدّد الف ثانی علیہ الرحمہ اس جگہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ کا ایک واقعہ اور جبریل علیہ السلام کی پیشگوئی درج کرتے ہیں جس میں ایک شخص کی موت کی خبر دی گئی تھی مگر صدقہ دینے کی وجہ سے وہ بچ گیا۔(مکتوبات ۔جلد اوّل صفحہ ۲۳۲)

اسی طرح کا ایک واقعہ تفسیر روح البیان میں بھی درج ہے کہ

’’ ان قصارًا مرّ علیٰ عیسیٰ علیہ السلام مع جماعۃ من الحواریین فقال لھم عیسیٰ احضروا جنازۃ ھذا الرجل وقت الظہر فلم یمت ھٰذا القصار فقال نعم ولٰکن تصدّق بعد ذٰلک ثلاثۃ ارغفۃٍ فنجا من الموت۔‘‘(تفسیر روح البیان۔جلد ۱ صفحہ ۲۵۷ مطبوعہ دارالفکر العربی)

ترجمہ:۔’’ایک دھوبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا جب کہ ایک حواریوں کی جماعت ان کے پاس تھی ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے حواریوں سے کہا کہ اس آدمی کے جنازہ پر ظہر کے وقت حاضر ہو جانا۔ لیکن وہ نہ مرا تو جبریل نازل ہوا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اسے کہا ۔ کیا تونے مجھے اس دھوبی کی موت کی خبر نہ دی تھی؟ جبریل نے کہا ۔ہاں لیکن اس نے تین روٹیاں صدقہ میں دے دیں تو موت سے نجات پا گیا۔‘‘

پس جیسا کہ احادیث میں آیا ہے صدقہ و دعا سے مبرم تقدیر بھی ٹل جاتی ہے۔ یہ وہی مبرم تقدیر ہوتی ہے جو دراصل تو معلق ہوتی ہے لیکن ملہم اسے مبرم سمجھتا ہے کیونکہ اس پر اس کے معلق ہونے کی وضاحت خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوئی ہوتی۔

تعبیر کا ایک اور رنگ میں ظہور

ایک اصل پیشگوئیوں کا یہ بھی ہے کہ کبھی ایک بات دکھائی جاتی ہے مگر وہ پوری کسی اور رنگ میں ہوتی ہے۔ چنانچہ لکھا ہے۔

’’قال اھل التعبیر انّ رسول اللہﷺ رأی فی المنام اُسید ابن ابی العیص والیاً علیٰ مکّۃ مسلماً، فمات علیٰ الکفر و کانت الرؤیا لولدہٖ عتاب اسلمَ۔‘‘(تاریخ الخمیس۔ جلد ۲ صفحہ ۱۲۱)

ترجمہ:۔اہلِ تعبیر کا کہنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خواب میں اسید بن ابی العیص کو مسلمان ہونے کی حالت میں مکّہ کا والی دیکھا۔ وہ تو کفر پر مر گیا اور رؤیا اس کے بیٹے عتاب کے حق میں پوری ہوئی جو مسلمان ہو گیا ۔

اسی طرح حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا

’’ بینما انا نائمٌ البارحۃ اذااُتیت مفاتیح خزآئن الارض حتّٰی وضعت فی یدي قال ابوھریرۃ فذھب رسول اللہ ﷺ و انتم تنتقلونھا۔‘‘ (بخاری۔کتاب التعبیر۔باب رؤیا اللیل)

ترجمہ:۔اس دوران جب کہ میں سو رہا تھا مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دی گئیں۔یہانتک کہ وہ میرے ہاتھوں میں رکھ دی گئیں۔ ابوھریرہ رضی اللہ عنہٗ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ تو تشریف لے گئے اور (اے صحابہ !) اب تم ان خزانوں کو لا رہے ہو۔

معزز قارئین! پیشگوئیوں کے بارہ میں ان اصولوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اب پیشگوئیوں پرراشد علی اور اس کے پیر کے اعتراضات کے جواب ملاحظہ فرمائیں۔

دراصل پیشگوئیوں کے بارہ میں اصولوں اور معیاروں کو نہ جاننے کے باعث یا ان کو نظرانداز کر دینے کی وجہ سے مکذّبین ان پیشگوئیوں کی تکذیب کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔ ایسا کرنے والے لازماً جھوٹے ہوتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کا کلام لازماً سچّا ہوتا ہے۔ راشد علی اور اس کے پیر نے بھی اسی ڈگر پر چلتے ہوئے خدا تعالیٰ کے اس کلام کی تکذیب کی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل ہوا ۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں میں سے ان بے شمار محکم پیشگوئیوں کو نظر انداز کر دیا جو معیّن اور محکم رنگ میں پوری ہوئیں اور ہو رہی ہیں۔ لیکن گنتی کی چند ایک ایسی پیشگوئیوں کو چن لیا جن کے پورے ہونے کا ابھی زمانہ نہیں آیا یا وہ ان کی کوتاہ سمجھ سے بالا تھیں۔ بہرحال وہ پیشگوئیاں جن کی انہوں نے تکذیب کی ، ان کے بارہ میں راشد علی لکھتا ہے۔

’’ ذیل میں چند معروف پیشگوئیاں تحریر کر رہا ہوں۔ آپ بھی جانتے ہیں کہ یہ وہ پیش گوئیاں (ہیں) جن کے بارہ میں مرزا صاحب نے بڑی شدّومدّ سے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ اللہ کا فیصلہ اٹل ہے اور وحی الہی کے مطابق یہ پیشنگوئیاں ضرور پوری ہوں گی مگر افسوس کہ ایسا نہ ہوا۔

* محمدی بیگم سے شادی کی پیشنگوئی ۔ (آئینہ کمالات اسلام)

* آتھم کی موت سے متعلق پیشنگوئی ۔ (جنگ مقدس)

* دو عورتوں (بیوہ اور باکرہ) سے شادی کا الہام ۔ (تریاق القلوب)

* اپنے مرید منظور احمد کے گھر لڑکا پیدا ہونے کی پیشگوئی جو کہ خدا کا نشان ہو گا۔ (ریویو مارچ ۱۹۰۶ء ص ۱۲۲) مگر لڑکا تو نہ پیدا ہوا لڑکی پیدا ہوئی وہ بھی مر گئی۔ پھر پیشتر اس کے کہ مرزا صاحب کوئی تاویل پیش کرتے خاتون بھی انتقال کر گئیں۔

* مکہ اور مدینہ میں مرنے کی پیشگی کی اطلاع ۔ (تذکرہ مجموعہ الہامات مرزا ۵۹۱۱)

* مکہ اور مدینہ کے درمیان ریل گاڑی کی پیشگوئی ۔ (روحانی خزائن جلد ۱۷ ص۱۹۵)

یہ چند نمونے ہیں ورنہ جھوٹی پیشگوئیوں کی ایک طویل فہرست ہے۔‘‘(الفتوٰی نمبر ۲۳ ۔جنوری۲۰۰۰)

جو پیشگوئیاں انہوں نے اپنی تکذیب کی دلیل کے طور پر پیش کی ہیں ان میں سے تین وہ ہیں جن پر اعتراض کا جواب قبل ازیں کتاب ’Three in One‘ میں تفصیل سے دیا جا چکا ہے۔ وہاں بدلائل یہ واضح کیا گیا ہے کہ ان پیشگوئیوں کی نوعیّت کیا تھی اور ثابت کیا جا چکا ہے کہ وہ پیشگوئیاں خدا تعالیٰ کی منشاء کے مطابق پوری ہوئیں۔ اور ان کی تکذیب کرنے والے قطعی جھوٹے ہیں۔ ان جوابات کا علمی ردّچونکہ ناممکن تھا اس لئے انہوں نے وہی اعتراض دوبارہ پیش کئے ہیں۔ لہٰذا دوسری پیشگوئیوں پر اعتراض کے جواب کے ساتھ ان کے جوابات یہاں بھی پیش کئے جارہے تاکہ ایک بار پھر یہ معترض جھوٹے ثابت ہوں ۔


Discover more from احمدیت حقیقی اسلام

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply