عذر گناہ بد تراز گناہ ۔ ناپاک پراپیگنڈہ سے محمد علی اورلاہوریوں کا تعلق

Ahmady.org default featured image

عذر گناہ بد تراز گناہ ۔ ناپاک پراپیگنڈہ سے محمد علی اورلاہوریوں کا تعلق

جلے دل کے پھپھولے

غیر مبایعین جو مستریوں کے کمینہ اور دور از شرم و حیا الزامات کی اشاعت میں ہر طرح ممددو معاون بنے ہوئے ہیں کہ” انجمن انصار خلافت ” کے پہلے ہی ٹریٹ کی اشاعت پر تلملا اٹھے ہیں۔ حتٰی کہ ان کے حضرت “امیر ایدہ اللہ “نے “ایک دوست کا خط ” کی اوٹ میں اپنے دل کابخار نکا لنا ضروری سمجھا ہے۔ پیغام نے ان جلے دل کے پھپھولوں کا عنوان “جواب مباہلہ کا ذلیل پروپیگنڈا ” رکھا ہے او اس طرح یہ ظاہر کیا ہے کہ “مباہلہ ” کے نام سے شائع ہونے والے چیتھڑے کے جواب میں جو ” جواب مباہلہ ” شائع کیا گیا ہے۔ وہ ” ذلیل پراپیگنڈا ” ہے۔ یہ ان لوگوں کی شرافت اور انسانیت کا حال ہے جنہوں نے اگرچہ اس مضمون میں بھی لکھا ہے کہ مستریوں کے شرمناک پروپیگنڈو میں ان کا کوئی حصہ نہیں ۔ لیکن آج تک ایک لفظ بھی اس کے خلاف انہوں نے نہیں لکھا۔ اور خلاف لکھنا تو الگ رہا۔ پیغام صلح میں کئی بار ان کے مطالبہ مباہلہ کی حمایت کر چکے ہیں۔ لیکن جب اس کا جواب دیا گیا ۔ تو اسے ” ذلیل پروپیگینڈا ” قرار دے دیا۔ اسی سے ظاہر ہے کہ ان لوگوں کا اس بارے میں کیا رویہ ہے۔ اور ان کی بے تعلقی کا دعوی کہاں تک صداقت پر مبنی ہے۔

ٹٹی کی آڑ میں شکار

اگرچہ مولوی محمد علی صاحب نے ” ایک دوست کا خط “معہ اپنے نوٹ کے یہ ظاہر کرنے کے لئے شائع کرایا کہ انہیں یا ان کے ساتھیوں کو مباہلہ کے پروپیگنڈا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن چونکہ یہ بات سراسرغلط اور جھوٹ ہے۔ اس لئے کھلے طور پر اسے پیش کرنے کی انہیں جرات نہ ہوئی۔ اور گول مول الفاظ لکھ کر اس بات کا مزید ثبوت بہم پہنچا دیا کہ اس فتنہ انگیزی میں ان کا پورا پورا دخل ہے ۔ اور “دوست کاخط ” محض ٹٹی کی آڑ بنایا گیا ہے

مولوی محمد علی صاحب کا نوٹ

مولوی صاحب نے اپنے دوست کا خط پیش کر نے سے قبل جو نوٹ لکھا ہے وہ تمام وکمال یہ ہے :-

” میں نے بھی اس اخبار کو دیکھا۔ مگر میں ایسی ذلیل حرکتوں کا کیا جواب دوں ۔ شروع سے ان لوگوں نے یہ طریق اختیار کر رکھا ہے کہ ان باتوں کو ہماری طرف منسوب کر کے اپنی جماعت کی نفرت کو ہمارے ساتھ بڑھائیں جس دن سے یہ الزامات میاں صاحب کے خلاف شروع ہوئے ۔ اسی دن سے جماعت قادیان کو اس کے رہبروں نے یہ تعلیم دینی شروع کی کہ یہ سب کچھ ہماری وجہ سے ہے ، حالا نکہ میں شروع

 

ہی میں لکھ چکا ہوں کہ یہ باتیں صحیح ہوں یا غلط ۔ ان سے ہمیں وہی نقصان پہنچ رہا ہے جو ان کی جماعت کو پہنچ رہا ہے۔ کیونکہ بد نام تو سارا سلسلہ ہورہا ہے۔ اگر ان کے نزدیک یہی ثواب کا کام ہے تو شوق سے کرتے رہیں مگر وہ یاد رکھیں کہ خوش عقیدہ مریدوں سے جو بات چاہیں منوا لیں ۔ ان باتوں پر تاریخ کا فتو ی کچھ اور ہوگا ۔

ان سطور کا ایک ایک لفظ پڑھ جائیے۔ کیا کہیں اس بات کا ذکر ہے ۔ کہ مباہلہ کے رزیلانہ پروپیگنڈا میں مولوی صاحب اور ان کے ساتھیوں کا ہاتھ نہیں۔ وہ اس میں مدد نہیں دے رہے۔ انھوں نے اس اخبار کی اشاعت میں حصہ نہیں لیا۔ ان کے علم اور مشوروں سے یہ پروپیگنڈا نہیں ہو رہا۔ اس قسم کی کسی ایک بات کا بھی تو انکار نہیں۔ اور انکار ہو ہی کسی طرح سکتا ہے۔ ہمارے پاس ثبوت موجود ہیں۔ کہ شمباہلہ کے پرچے پیغامیوں نے بڑی کثرت سے تقسیم کئے۔ دور دراز پہنچائے اور ان کی اشاعت میں ہر طرح امداد دی ۔ مولوی محمد علی صاحب اس بات سے انکار تو کریں

پیغام صلح میں مباہلہ کی تائید

پھر کیا یہ سچ نہیں ہے۔ کہ پیغام صلح نے مستریوں کے مطالبہ مباہلہ کی کھلے طور حمایت کی اور کئی رنگ میں ان کی تائید کی۔ ابھی چندہی روز کی بات ہے۔ پیغام صلح (28 جون 1929) نے ایک مضمون ” قادیان زمانہ مسیح موعودمیں اور آج ” کے عنوان سے شائع کیا، جن ہمیں مخاطب کر کے پوچھا۔ “آیا حضرت مسیح موعود ؑکے وقت میں اس قدر مخالف عناصر قادیان میں موجود تھے۔ جیسا کہ خلافت ثانیہ کی معجزانہ کا رفرمائیوں سے پیدا ہورہے ہیں “

ان الفاظ میں اگر صاف طور پر حضرت خلیفتہ االمسیح ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر حملہ نہیں کیا گیا اور مباہلہ کے ناپاک پروپیگنڈا کی بالواسطہ حمایت نہیں کی گئی تو بتایا جائے وہ کونسے مخالف عناصر ہیں جن کا ذکر کیا گیا ہے

پیغام کے چند حوالے

اور دیکھیے۔ مستریوں نے گذشتہ سالانہ جلسہ پر جب ایک نہایت فتنہ انگیز پرچہ چھپوا کر شائع کیا اور غیر مبایعین کی وساطت دور دراز بھیجا اور تقسیم کرا یا تو اس کے کچھ پرچوں کے چوری ہو جانے کا انہوں نے اعلان کرایا ۔ اس اعلان کو پیغام صلح نے اپنے 4 جنوری 1929 کے پرچہ میں ” پیغام صلح کا خاص تار ” عنوان دیکر شائع کیا جس میں لکھا تھا ۔

دو بنڈلوں میں جو قریب تین من وزنی تھے اور ان میں ہزار ہا کی تعداد میں ایسے اشتہارات تھے جن میں خلیفہ قادیان کو اپنے

کیرکٹر کی صفائی پیش کرنے کا چیلنج دیا گیا تھا ؟

پھر22 جنوری کے پیغام میں لکھا گیا :-

” خلیفہ قادیان کے مہاجر مریدجو کچھ قادیانی تہذیب پر روشنی ڈال رہے ہیں اور مباہلہ کے لئے چیلنج پر چیلنج دے رہے ہیں۔ اس مرض کا علاج آپ نے کیا سو چاہے “

19 مارچ 1929 کے پیغام صلح میں اپنی شرافت کا پورا پورا مظاہر کرتے ہوئے لکھا گیا :-

” مباہلہ کے ہوتے ہوئے جو شاہد منہم کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہم سے ایسی بلیوں اور کتوں کے حالات دریافت نہ کئے جائیں گے جو ڈبل ٹرپس کے خاص طور پر عادی ہو چکے ہیں “

یہ تھوڑے سے عرصہ کے پرچوں کے چندا قتباس ہیں۔ ایک طرف انہیں رکھیے اور دوسری طرف پیغام کا یہ دعوی ملاحظہ فرمائیے کہ :

” نہ ہم نے آج تک اس بارہ میں اشارتا یا کنا یتا ان میں سے کسی ایک کی حمایت یا تردید کر نا مناسب سمجھا”

تو معلوم ہو جاتا ہے۔ کہ ان لوگوں نے ہماری عداوت میں دروغ بافی اور کذب بیانی کو بھی جائز قرار دے لیا اور مولوی محمد علی صاحب نے پبلک کاحا فظہ اس قدر کمزو رسمجھ لیا ہے کہ تھوڑا ہی عرصہ قبل اس قسم کی تحریریں شائع کرنے کے باوجود اپنی ان حرکات کو ” الزامات” قرار دے اور دبے الفاظ میں ان کی تردید کر رہے ہیں ۔

مگر مچھ کے آنسو

جو لوگ اس طرح مستریوں کی حمایت کرتے رہے ہوں ۔ ان کا منہ نہیں کر اس بات سے انکار کر یں۔ یہی وجہ ہے کہ صاف طور پر انکار کی ہمت نہیں ۔ رہا یہ کہنا کہ ” ہمیں وہی نقصان پہنچ رہا ہے جو ان کی جماعت کو پہنچ رہاہے ” یہ مگرمچھ کے آنسو بہانے سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔ مولوی صاحب اپنے اسی ” نوٹ ” کو دیکھ لیں ۔ کیا اس میں انھوں نے اپنے ساتھیوں کو مباہلہ کے ناپاک پراپیگنڈا میں شریک ہونے سے روکا ہے یا اس کے خلاف کسی قسم کی نفرت کا اظہار کیا ہے۔

اگر ان کا یہ کہنا فی الواقعہ مبنی بر صداقت ہے کہ ” اس سے انھیں بھی نقصان پہنچے رہا ہے ” تو براہ کرم فرمائیں۔ آج تک اس نقصان کے ازالہ کے لئے انھوں نے کیا کوشش کی ۔ اگر کچھ نہیں تو کس طرح سمجھ لیا جائے کہ اس میں جو کچھ بیان کیا جاتا ہے اُسے مولوی صاحب اپنے لئے بھی نقصان رساں سمجھتے ہیں۔ کیا اسے نقصان رساں سمجھنے کا یہی ثبوت ہے کہ جب “مباہلہ” کئی ماہ سے ناپاک سے ناپاک افترا بازی کرتا رہا ۔ تو مولوی صاحب خوب مزے لے لے کر پڑھتے رہے اور ان کے دوست اس کی اشاعت میں سرگرم رہے۔ لیکن جب اس کے جو اب میں ایک ہی پرچہ شائع ہوا تو مولوی صاحب کے دوست بھی اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور خود مولوی صاحب کو بھی نوٹ لکھنے کی ضرورت پیش آگئی

مباہلہ کے پراپیگنڈا سے گہرا تعلق

ہم توان کے نوٹ اور ان کے دوست کے خط کو بھی جسے انہوں نے خاص اہتمام سے شائع کرایا ہے۔ اس بات کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں کہ مباہلہ کے پراپیگنڈا سے انہیں گہرا تعلق ہے :

مولوی صاحب کے نوٹ کو پڑھ کر ان کے ساتھی سوائے اس کے کیا سمجھ سکتے ہیں کہ آج تک انہوں نے اس بارے میں جو کچھ کہا اسے

مولوی صاحب بنظر استحسان دیکھتے ہیں اور ان کے دوست کے خط نے تو بھانڈا ہی پھوڑ دیا ۔ اس میں مستریوں کی حمایت کرنے میں سارا زور صرف کر دیا گیا ہے۔ کیا اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ (1) مستریوں کے فتنہ کے مقابلہ میں مبایعین بالکل عاجز ہو گئے ہیں (2) مباہلہ کے جواب میں جو ٹریکٹ شائع کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی معقول جواب نہیں ہے (3) جواب مباہلہ میں مولوی محمد علی صاحب کو جو مباہلہ کا چیلنج دیا گیا یہ درست نہیں۔ اسکی بجائے مستریوں سے مباہلہ ہونا چاہیئے ۔

یہ خط اس شخص نے شائع کر ایا ہےجس کا دعوی ہے کہ مستریوں کے پروپگینڈا سے اسے بھی ایسا ہی نقصان پہنچ رہا ہے۔ جیسا کہ مبایعین کو اور جس کا اخبار یہ لکھ رہا ہے کہ اس نے مستریوں کی کبھی اشارتا بھی حمایت نہیں کی

اس سارے خطے کو چھوڑ کر اس کی چند سطور ملاحظہ ہوں :

تعجب ہے۔ کہ ایسے گندہ الزام کے متعلق مباہلہ جائز نہیں ہے لیکن اگر کوئی شخص یہ خیال کر ے کہ ایسے حالات میں مباہلہ جائز ہے تو پھر اس کے ساتھ مباہلہ جائز ہو جاتا ہے۔ یعنی ایک الزام کے متعلق جس کی تردید حلفیہ بھی نہیں کی جاتی اور جن کا کوئی صریح ثبوت پیش کرنا یا صریح تردید کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ مباہلہ کرنا خلاف شریعت ہے لیکن ایک معمولی مسئلہ کے متعلق جو جز و ایمان بھی نہیں ہے اختلاف رائے کرنے پر مباہلہ جائز ہو سکتا ہے۔ انا للہ وانا اليہ راجعون ۔ یہ معارف اور دقائق ر اس جگہ سے نکل ر ہے ہیں ۔ جہاں کے براہین اور دلائل سے دنیا میں تہلکہ پڑ رہا تھا

کیا ان الفاظ میں صاف طورپر مستریوں کے الزام کی حمایت نہیں کی گئی اور ان کے مطالبہ مباہلہ کو جائز قرار نہیں دیا گیا ۔ لیکن ڈھٹائی ملاحظہ ہو ۔ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود کہا جاتا ہے ان کا ان باتوں سے کوئی تعلق نہیں ۔ انھوں نے کبھی اشارتاً بھی مستریوں کی حمایت نہیں کی ۔ وہ تو ان کے پر اپیگنڈا کو اپنے لئے بھی نقصاں رساں سمجھتے ہیں

اس قسم کی باتیں ممکن ہے ان لوگوں کو دھو کہ میں ڈال دیں جن کے سینوں میں ہمارے متعلق بغض و عداوت کے سوا کچھ نہیں لیکن کسی حق پسند انسان کے نزدیک عذر گناہ بدتر از گناہ سے بڑھ کر حقیقت نہیں رکھتیں

مولوی محمد علی صاحب کیوں مباہلہ نہیں کرتے

مباہلہ مباہلہ کا شور مچانے والے اور اس کی حمایت میں ناخنوں تک کا زورلگانے والے غیر مبایعین اور ان کے ” حضرت امیر ” کیوں اب سامنے نہیں آتے جبکہ حضرت خلیفہ المسیح ثانی ایده اللہ تعالی نے ان کا نام لیکر مباہلہ کی دعوت دی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ جن الزامات کی تائید اور حمایت میں غیر مبایعین شرافت اور انسانیت کو بھی ترک کر چکے ہیں ان کا ہزارواں حصہ بھی درست ہو اور پھر مباہلہ کرنے میں حضرت خلیفہ المسیح ثانی ایده اللہ کو کامیابی ہو۔ پھر کیا وجہ ہے کہ مولوی محمد علی صاحب سامنے نہیں آتے ۔ اور مباہلہ نہیں کرتے ۔ حقیقت ہے کہ وہ بھی سمجھتے ہیں یہ ساری افترا پردازیاں ہیں۔ لیکن پرانا بغض و کینہ انھیں چین نہیں لینے دیتا ۔ اس وجہ سے نہ تو وہ مرد میدان بن کر میدان مباہلہ میں آتے ہیں اور نہ شر انگیزوں کی تائید اور حمایت سے باز رہ سکتے ہیں


Discover more from احمدیت حقیقی اسلام

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply