Search
Close this search box.

روحانی خزائن جلد 1۔ براہین احمدیہ حصہ چہارم یونی کوڈ

 

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 313

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 313

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/313/mode/1up

Blank

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 314

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 314

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/314/mode/1up

فہرست مضامین براہین احمدیہ حصۂ چہارم ۱؂

۱۔

کلام الٰہی کی ضرورت کے ثبوت میں اور اس بات کے اثبات میں کہ حقیقی اور کامل ایمان اور معرفت جس کو اپنی نجات کے لئے اس دنیا میں حاصل کرنا چاہئے بجز کلام الٰہی غیر ممکن ہے اور اس کے ضمن میں بہت سے خیالات برہمیوں اور فلسفیوں اور نیچریوں کا ردّ صفحہ ۲۷۹ سے ۵۶۲ تک حاشیہ نمبر ۱۱ و نیز متن۔

۲۔

قرآن شریف کی ایک سورۃ یعنی سورۃ فاتحہ کے بے مثل دقائق و حقائق و خواص کا بیان صفحہ ۳۳۹ سے ۵۲۷ تک۔

۳۔

قرآن شریف کی بعض دوسری آیات کا بیان کہ جو توحید الٰہی کے مضمون پر مشتمل ہیں صفحہ ۳۴۷ سے صفحہ ۵۶۲ تک حاشیہ نمبر ۱۱۔

۴۔

اس بات کا بیان کہ وید تعلیمِ توحید اور فصاحت بلاغت سے خالی ہے اور وید کی بعض شرتیوں کا ذکر صفحہ ۳۹۷ سے تا صفحہ ۴۶۸ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۳۔

۵۔

وید کے عقائد باطلہ کا ذکر صفحہ ۳۹۲ سے تا صفحہ ۴۳۳ حاشیہ نمبر ۱۱۔

۶۔

پنڈت دیانند اور ان کے لاجواب رہنے کا بیان اور ان سوالات کا ذکر جس میں وہ لاجواب رہے اور ان کی وفات کی نسبت پیشگوئی کہ جو قبل از وقوع بعض آریہ کو بتلائی گئی۔ صفحہ ۵۳۱ تا ۳۶ ۵حاشیہ نمبر ۱۱۔

۷۔

انجیل اور قرآن شریف کی تعلیم کا مقابلہ صفحہ ۳۳۲ سے ۳۶۶ تک۔

۸۔

ان تمام پیشگوئیوں کا ذکر کہ جو بعض آریوں کو بتلائی گئیں صفحہ ۴۶۸ تا صفحہ۵۱۴ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۳۔

۹۔

آئندہ پیشگوئیوں کا بیان صفحہ ۵۱۴ سے تا صفحہ ۵۶۲ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۳۔

۱۰۔

مسیح سے کوئی معجزہ ظہور میں آنا یا ان کا کوئی پیشگوئی بتلانا ثابت نہیں۔ صفحہ ۴۳۴ سے تا صفحہ ۴۶۹ متن۔

۱۱۔

نجات حقیقی کیا چیز ہے اور کیونکر مل سکتی ہے صفحہ ۲۹۳ سے تا صفحہ ۳۰۶ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۲۔

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 315

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 315

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/315/mode/1up

مسلمانوں ؔ کی نازک حالت

اور

انگریزی گورنمنٹ

ترسم کہ بہ کعبہ چوں روی۱؂ اے اَعرابی

کیں رہ کہ تومے روی بترکستان است

آج کل ہمارے دینی بھائیوں مسلمانوں نے دینی فرائض کے ادا کرنے اور اخوت اسلامی کے بجالانے اور ہمدردی قومی کے پورا کرنے میں اس قدر سستی اور لاپروائی اور غفلت کررکھی ہے کہ کسی قوم میں اس کی نظیر نہیں پائی جاتی۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ان میں ہمدردی قومی اور دینی کا مادہ ہی نہیں رہا۔ اندرونی فسادوں اور عنادوں اور اختلافوں نے قریب قریب ہلاکت کے ان کو پہنچا دیا ہے اور افراط تفریط کی بے جا حرکات نے اصل مقصود سے ان کو بہت دور ڈال دیا ہے جس نفسانی طرز سے ان کی باہمی خصومتیں برپا ہورہی ہیں۔ اس سے نہ صرف یہی اندیشہ ہے کہ ان کا بے اصل کینہ دن بدن ترقی کرتا جائے گا اور کیڑوں کی طرح بعض کو بعض کھائیں گے اور اپنے ہاتھ سے اپنے استیصال کے موجب ہوں گے بلکہ یہ بھی یقیناً خیال کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی دن ایسا ہی ان کا حال رہا۔ تو ان کے ہاتھ سے سخت ضرر اسلام کو پہنچے گا۔ اور ان کے ذریعہ سے بیرونی مفسد مخالف بہت سا موقعہ نکتہ چینی اور فساد انگیزی کا پائیں گے۔ آج کل کے بعض علماء پر ایک یہ بھی افسوس ہے کہ وہ اپنے بھائیوں پر اعتراض کرنے میں بڑی عجلت کرتے ہیں۔ اور قبل اس کے جو اپنے پاس علم صحیح قطعی موجود ہو۔ اپنے بھائی پر حملہ کرنے کو طیار ہوجاتے ہیں۔ اور کیونکر طیار نہ ہوں بباعث غلبہ نفسانیت یہ بھی تو مدنظر ہوتا ہے کہ کسی طرح ایک مسلمان کو کہ جو مقابل پر نظر آرہا ہے نابود کیا جائے۔ اور اس کو شکست اور ذلت اور رسوائی پہنچے اور ہماری فتح اور فضیلت ثابت ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بات بات میں ان کو فضول جھگڑے کرنے پڑتے ہیں۔ خدا نے یکلخت ان سے عجز

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 316

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 316

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/316/mode/1up

اور فروتنی اور حسن ظن اور محبت برادرانہ کو اٹھالیا۔ انا للّہ وانا الیہ راجعون

تھوڑا عرصہ گزرا ہے کہ بعض صاحبوں نے مسلمانوں میں سے اس مضمون کی بابت کہ جو حصہ سوم کے ساتھ گورنمنٹ انگریزی کے شکر کے بارے میں شامل ہے اعتراض کیا اور بعض نے خطوط بھی بھیجے اور بعض نے سخت اور درشت لفظ بھی لکھے کہ انگریزی عملداری کو دوسری عملداریوں پر کیوں ترجیح دی۔ لیکن ظاہر ہے کہ جس سلطنت کو اپنی شائستگی اور حسن انتظام کے رو سے ترجیح ہو۔ اس کو کیونکر چھپا سکتے ہیں۔ خوبی باعتبار اپنی ذاتی کیفیت کے خوبی ہی ہے گو وہ کسی گورنمنٹ میں پائی جائے۔ الحکمۃ ضالّۃ المؤمن۔ الخ۔ اور یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ اسلام کا ہرگز یہ اصول نہیں ہے کہ مسلمانوں کی قوم جس سلطنت کے ماتحت رہ کر اس کا احسان اٹھاوے اس کے ظل حمایت میں باَمن و آسائش رہ کر اپنا رزق مقسوم کھاوے۔ اس کے انعامات متواترہ سے پرورش پاوے پھر اسی پر عقرب کی طرح نیش چلاوے۔ اور اس کے سلوک اور مروّت کا ایک ذرہ شکر نہ بجا لاوے۔ بلکہ ہم کو ہمارے خداوند کریم نے اپنے رسول مقبول کے ذریعہ سے یہی تعلیم دی ہے کہ ہم نیکی کا معاوضہ بہت زیادہ نیکی کے ساتھ کریں اورُ منعم کا شکر بجالاویں۔ اور جب کبھی ہم کو موقعہ ملے تو ایسی گورنمنٹ سے بدلی صدق کمال ہمدردی سے پیش آویں اور بہ طیب خاطر معروف اور واجب طور پر اطاعت اٹھاویں۔ سو اس عاجز نے جس قدر حصہ سوم کے پرچہ مشمولہ میں انگریزی گورنمنٹ کا شکر ادا کیا ہے وہ صرف اپنے ذاتی خیال سے ادا نہیں کیا بلکہ قرآن شریف و احادیث نبوی کی ان بزرگ تاکیدوں نے جو اس عاجز کے پیش نظر ہیں مجھ کو اس شکر ادا کرنے پر مجبور کیا ہے۔ سو ہمارے بعض ناسمجھ بھائیوں کی یہ افراط ہے جس کو وہ اپنی کوتہ اندیشی اور بخل فطرتی سے اسلام کا جز سمجھ بیٹھے ہیں۔

اے جفاکیش نہ عذرست طریق عشاق

ہرزہ بدنام کنی چند نکو نامے را

اور جیسا کہ ہم نے ابھی اپنے بعض بھائیوں کی افراط کا ذکر کیا ہے ایسا ہی بعض ان میں سے تفریط کی مرض میں بھی مبتلا ہیں اور دین سے کچھ غرض واسطہ ان کا نہیں رہا۔ بلکہ ان کے خیالاتؔ کا تمام زور

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 317

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 317

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/317/mode/1up

دنیا کی طرف لگ رہا ہے۔ مگر افسوس کہ دنیا بھی ان کو نہیں ملتی۔ خسر الدنیا والعاقبۃ بن رہے ہیں۔ اور کیونکر ملے۔ دین تو ہاتھ سے گیا اور دنیا کمانے کے لئے جو لیاقتیں ہونی چاہئیں وہ حاصل نہیں کیں۔ صرف شیخ چلی کی طرح دنیا کے خیالات دل میں بھرے ہیں۔ اور جس لکیر پر چلنے سے دنیا ملتی ہے اس پر قدم نہ رکھا۔ اور اس کے مناسب حال اپنے تئیں نہ بنایا۔ سو اب ان کا یہ حال ہے کہ نہ اِدھر کے رہے اور نہ اُدھر کے رہے۔ انگریز جو انہیں نیم وحشی کہتے ہیں یہ بھی ان کا احسان ہی سمجھیئے ورنہ اکثر مسلمان وحشیوں سے بھی بدتر نظر آتے ہیں۔ نہ عقل رہی نہ ہمت رہی نہ غیرت رہی نہ محبت رہی۔ فی الحقیقت یہ سچ ہے کہ جس قدر ان کے ہمسائیوں آریوں کی نظر میں ایک ادنیٰ حیوان گائے کی عزت اور توقیر ہے ان کے دلوں میں اپنی قوم اور اپنے بھائیوں اور اپنے سچے دین کی مہمات کی اس قدر بھی عزت نہیں۔ کیونکہ ہم ہمیشہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ اولوالعزم قوم آریہ گائے کی عزت قائم رکھنے کے لئے اس قدر کوششیں کرکے لکھو کھہا روپیہ جمع کرلیتے ہیں کہ مسلمان لوگ اللہ اور رسول کی عزت ظاہر کرنے کے لئے اس کا ہزارم حصہ بھی جمع نہیں کرسکتے بلکہ جہاں کہیں اعانت دینی کا ذکر آیا تو وہیں عورتوں کی طرح اپنا مونہہ چھپالیتے ہیں۔ اور آریہ قوم کی اولوالعزمی غور کرنے سے اور بھی زیادہ ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ گائے کی جان بچانے کے لئے کوشش کرنا حقیقت میں ان کے مذہب کے رو سے ایک ادنیٰ کام ہے کہ جو مذہبی کتب سے ثابت نہیں ۔بلکہ ان کے محقق پنڈتوں کو خوب معلوم ہے کہ کسی وید میں گائے کا حرام ہونا نہیں پایا جاتا۔ بلکہ رگ وید کے پہلے حصہ سے ہی ثابت ہوتا ہے کہ وید کے زمانہ میں گائے کا گوشت عام طور پر بازاروں میں بکتا تھا اور آریہ لوگ بخوشی خاطر اس کو کھاتے تھے۔ اور حال میں جو ایک بڑے محقق یعنے آنریبل مونٹ اسٹورٹ الفنسٹن صاحب بہادر سابق گورنر بمبئی نے واقعات آریہ قوم میں ہندوؤں کے مستند پستکوں کی رو سے ایک کتاب بنائی ہے جس کا نام تاریخ ہندوستان ہے اس کے صفحہ نواسی میں منوؔ کے مجموعہ کی نسبت صاحب موصوف لکھتے ہیں کہ اس میں بڑے بڑے تیوہاروں میں بیل کا گوشت کھانے کے لئے برہمنوں کو تاکید کی گئی ہے یعنے اگر

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 318

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 318

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/318/mode/1up

نہ کھاویں تو گنہگار ہوں۔ اور ایسی ہی ایک اَورکتاب انہیں دنوں میں ایک پنڈت صاحب نے بمقام کلکتہ چھپوائی ہے جس میں لکھا ہے کہ وید کے زمانہ میں گائے کا کھانا ہندوؤں کے لئے دینی فرائض میں سے تھا اور بڑے بڑے اور عمدہ عمدہ ٹکڑے برہمنوں کو کھانے کے لئے ملتے تھے۔ اور علیٰ ہذا القیاس مہابھارت کے پرب تیرھویں میں بھی صاف تصریح ہے کہ گوشت گائے کا نہ صرف حلال اور طیب بلکہ اس کا اپنے پتروں کے لئے برہمنوں کو کھلانا تمام جانوروں میں سے اولیٰ اور بہتر ہے اور اس کے کھانے سے پتر دس ماہ تک سیر رہتے ہیں۔ غرض وید کے تمام رشیوں اور منوجی اور بیاس جی نے گوشت گائے کا استعمال کرنا فرائض دینی میں داخل کیا ہے اور موجب ثواب سمجھا ہے۔ اور اس جگہ ہمارا بیان بعض کی نظر میں ناقص رہ جاتا اگر ہم پنڈت دیانند صاحب کو کہ جو ۳۰ ؍اکتوبر ۱۸۸۳ء میں اس جہان کو چھوڑ گئے رائے متفقہ بالا سے باہر رکھ لیتے۔ سو غور سے دیکھنا چاہئے کہ پنڈت صاحب موصوف نے بھی کسی اپنی کتاب میں گائے کا حرام یا پلید ہونا نہیں لکھا اور نہ وید کے رو سے اس کی حرمت اور ممانعت ذبح کو ثابت کیا بلکہ بنظر ارزانی دودھ اور گھی کے اس رواج کی بنیاد بیان کی۔ اور بعض ضرورت کے موقعوں میں گاؤ کشی کو مناسب بھی سمجھا جیسا کہ ان کی ستیارتھ پرکاش اور وید بھاش سے ظاہر ہے۔

اب اس تمام تقریر سے ہماری یہ غرض ہرگز نہیں کہ آریہ لوگ اپنے وید مقدس اور اپنے بزرگ رشیوں اور بیاس جی اور منوجی کے قابل تعظیم فرمان اور اپنے محقق اور فاضل پنڈتوں کے قول سے کیوں خلاف ورزی اور انحراف کرتے ہیں۔ بلکہ اس جگہ صرف یہ غرض ہے کہ آریہ قوم کیسی اولوالعزم اور باہمت اور اتفاق کرنے والی قوم ہے کہ ایک ادنیٰ بات پر بھی کہ جس کی مذہب کے رو سے کچھ بھی اصلیت نہیں پائی جاتی وہ اتفاق کرلیتے ہیں اور ہزارہا روپیہ چندہ ہاتھوں ہاتھ جمع ہوجاتا ہے۔ پس جس قوم کا ناکارہ خیالات پر یہ اتفاق اور جوش ہے اس قوم کی عالی ہمتی اور دلی جوش کا مہمات عظیمہ پر خود اندازہ کرلینا چاہئے۔ پست ہمت مسلمانوں کو لازم ہے کہ جیتے ہی مرجائیں۔ اگر محبت خدا اور رسول کی نہیں تو اسلام کا دعویٰ کیوں کرتے ہیں کیا خباثت

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 319

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 319

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/319/mode/1up

کے کاموں میں اور نفس امارہ کی پیروی میں اور ناک کے بڑھانے کی نیّت سے بےؔ اندازہ مال ضائع کرنا اور اللہ اور رسول کی محبت میں اور ہمدردی کی راہ میں ایک دانہ ہاتھ سے نہ چھوڑنا یہی اسلام ہے ، نہیں یہ ہرگز اسلام نہیں۔ یہ ایک باطنی جذام ہے۔ یہی ادبار ہے کہ مسلمانوں پر عاید ہورہا ہے۔ اکثر مسلمان امیروں نے مذہب کو ایک ایسی چیز سمجھ رکھا ہے کہ جس کی ہمدردی غریبوں پر ہی لازم ہے اور دولتمند اس سے مستثنیٰ ہیں۔ جنہیں اس بوجھ کو ہاتھ لگانا بھی منع ہے۔ اس عاجز کو اس تجربہ کا اسی کتاب کے چھپنے کے اثناء میں خوب موقعہ ملا کہ حالانکہ بخوبی مشتہر کیا گیا تھا کہ اب بباعث بڑھ جانے ضخامت کے اصل قیمت کتاب کی 3سو روپیہ ہی مناسب ہے کہ ذی مقدرت لوگ اس کی رعایت رکھیں کیونکہ غریبوں کو یہ صرف 3دس روپیہ میں دی جاتی ہے سو جبر نقصان کا واجبات سے ہے مگر بجز سات آٹھ آدمی کے سب غریبوں میں داخل ہوگئے۔ خوب جبر کیا ہم نے جب کسی منی آرڈر کی تفتیش کی کہ یہ پانچ روپیہ بوجہ قیمت کتاب کس کے آئے ہیں یا یہ دس روپیہ کتاب کے مول میں کس نے بھیجے ہیں تو اکثر یہی معلوم ہوا کہ فلاں نواب صاحب نے یا فلاں رئیس اعظم نے ہاں نواب اقبال الدولہ صاحب حیدر آباد نے اور ایک اور رئیس نے ضلع بلند شہر سے جس نے اپنا نام ظاہر کرنے سے منع کیا ہے ایک نسخہ کی قیمت میں سو سو روپیہ بھیجا ہے اور ایک عہدہ دار محمد افضل خان نام نے 3ایک سو دس اور نواب صاحب کوٹلہ مالیر نے تین نسخہ کی قیمت میں 3سو روپیہ بھیجا اور سردار عطر سنگھ صاحب رئیس اعظم لودھیانہ نے کہ جو ایک ہندو رئیس ہیں اپنی عالی ہمتی اور فیاضی کی وجہ سے بطور اعانت3 بھیجے ہیں۔ سردار صاحب موصوف نے ہندو ہونے کی حالت میں اسلام سے ہمدردی ظاہر کی۔ بخیل اور ممسک مسلمانوں کو جو بڑے بڑے لقبوں اور ناموں سے بلائے جاتے ہیں اور قارون کی طرح بہت سا روپیہ دبائے بیٹھے ہیں اس جگہ اپنی حالت کو سردار صاحب کے مقابلہ پر دیکھ لینا چاہئے جس حالت میں آریوں میں ایسے لوگ بھی پائے گئے ہیں کہ جو دوسری قوم کی بھی ہمدردی کرتے ہیں اور مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی کم ہیں کہ جو اپنی ہی قوم سے ہمدردی کرسکیں تو پھر کہو کہ

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 320

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 320

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/320/mode/1up

اِس قوم کی ترقی کیونکر ہو۔3۔ ۱؂ دینی ہمدردی بجز مسلمانوں کے ہر ایک قوم کے امراء میں پائی جاتی ہے۔ ہاں اسلامی امیروں میں ایسے لوگ بہت ہی کم پائے جائیں گے کہ جن کو اپنے سچے اور پاک دین کا ایک ذرّہ خیال ہو۔ کچھ تھوڑا عرصہ گزرا ہے کہ اس خاکسار نے ایک نواب صاحب کی خدمت میں کہ جو بہت پارسا طبع اور متقی اور فضائل علمیہ سے متصف اور قال اللہ اور قال الرسول سے بدرجہ غایت خبر رکھتے ہیں کتاب براہین احمدیہ کی اعانت کیلئے لکھا تھا۔ سو اگر نواب صاحب ممدوح اسکے جواب میں یہ لکھتے کہ ہماری رائے میں کتاب ایسی عمدہ نہیں جس کیلئے کچھ مدد کی جائے تو کچھ جائے افسوس نہ تھا۔ مگر صاحب موصوف نے پہلے تو یہ لکھا کہ پندرہ بیس کتابیں ضرور خریدیں گے اور پھر دوبارہ یاد دہانی پر یہ جواب آیا کہ دینی مباحثات کی کتابوں کا خریدنا یا ان میں کچھ مدد دینا خلاف منشاء گورنمنٹ انگریزی ہے اسلئے اس ریاست سے خرید وغیرہ کی کچھ امید نہ رکھیں۔ سو ہم بھی نواب صاحب کو امیدگاہ نہیں بناتے بلکہ امیدگاہ خداوند کریم ہی ہے اور وہی کافی ہے (خدا کرے گورنمنٹ انگریزی نواب صاحب پر بہت راضی رہے) لیکن ہم بادب تمام عرض کرتے ہیں کہ ایسے ایسے خیالات میں گورنمنٹ کی ہجو ملیح ہے۔ گورنمنٹ انگریزی کا یہ اصول نہیں ہے کہ کسی قوم کو اپنے مذہب کی حقانیت ثابت کرنے سے روکے یا دینی کتابوں کی اعانت کرنے سے منع کرے۔ ہاں اگر کوئی مضمون مخلِ امن یا مخالف انتظام سلطنت ہو تو اس میں گورنمنٹ مداخلت کرے گی۔ ورنہ اپنے اپنے مذہب کی ترقی کیلئے وسائل جائزہ کو استعمال میں لانا ہر یک قوم کو گورنمنٹ کی طرف سے اجازت ہے۔ پھر جس قوم کا مذہب حقیقت میں سچا ہے اور نہایت کامل اور مضبوط دلائل سے اس کی حقیت ثابت ہے۔ وہ قوم اگر نیک نیتی اور تواضع اور فروتنی سے خلق اللہ کو نفع پہنچانے کیلئے اپنے دلائل حقہ شائع کرے تو عادل گورنمنٹ کیوں اس پر ناراض ہوگی۔ ہمارے اسلامی امراء کو اس بات سے بہت کم خبر ہے کہ گورنمنٹ کی عادلانہ مصلحت کا یہی تقاضا ہے کہ وہ دلی انشراح سے آزادی کو قائم رکھے اور خود ہم نے بچشم خود ایسے لائق اور نیک فطرت انگریزؔ کئی دیکھے ہیں کہ جو مداہنہ اور منافقانہ سیرت کو پسند نہیں کرتے اور تقویٰ اور خدا ترسی اور یکرنگی کو اچھا سمجھتے ہیں اور حقیقت میں تمام برکتیں یکرنگی اور

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 321

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 321

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/321/mode/1up

خدا ترسی میں ہی ہیں جن کا عکس کبھی نہ کبھی خویش اور بیگانہ پر پڑجاتا ہے۔ اور جس پر خدا راضی ہے آخر اس پر خلق اللہ بھی راضی ہوجاتی ہے۔ غرض نیک نیتی اور صالحانہ قدم سے دینی اور قومی ہمدردی میں مشغول ہونا اور فی الحقیقت دنیا اور دین میں دلی جوش سے خلق اللہ کا خیر خواہ بننا ایک ایسی نیک صفت ہے کہ اس قسم کے لوگ کسی گورنمنٹ میں پائے جانا اس گورنمنٹ کا فخر ہے اور اس زمین پر آسمان سے برکات نازل ہوتی ہیں جس میں ایسے لوگ پائے جائیں۔ لیکن سخت بدنصیب وہ گورنمنٹ ہے جس کے ماتحت سب منافق ہی ہوں کہ جو گھر میں کچھ کہیں اور روبرو کچھ کہیں۔ سو یقیناً سمجھنا چاہئے کہ لوگوں کا یکرنگی میں ترقی کرتے جانا اور گورنمنٹ کو ایک محسن دوست سمجھ کر بے تکلف اس کے ساتھ پیش آنا یہی خوش قسمتی گورنمنٹ انگریزی کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے مربی حکام نہ صرف قول سے آزادی کا سبق ہم کو دیتے ہیں۔ بلکہ دینی امور میں خود آزادانہ افعال بجالاکر اپنی فعلی نصیحت سے ہم کو آزادی پر قائم کرنا چاہتے ہیں اور بطور نظیر کے یہی کافی ہے کہ شاید ایک ماہ کا عرصہ ہوا ہے کہ جب ہمارے ملک کے نوابلفٹیننٹ گورنر پنجاب سر چارلس ایچیسن صاحب بہادر بٹالہ ضلع گورداسپورہ میں تشریف لائے تو انہوں نے گرجا گھر کی بنیاد رکھنے کے وقت نہایت سادگی اور بے تکلفی سے عیسائی مذہب سے اپنی ہمدردی ظاہر کرکے فرمایا کہ مجھ کو امید تھی کہ چند روز میں یہ ملک دینداری اور راستبازی میں بخوبی ترقی پائے گا۔ لیکن تجربہ اور مشاہدہ سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ بہت ہی کم ترقی ہوئی (یعنی ابھی لوگ بکثرت عیسائی نہیں ہوئے اور پاک گروہ کرسچنوں کا ہنوز قلیل المقدار ہے) تو بھی ہم کو مایوس نہیں ہونا چاہئے کیونکہ پادری صاحبان کا کام بے فائدہ نہیں اور ان کی محنت ہرگز ضائع نہیں بلکہ خیر کے موافق دلوں میں اثر کرتی ہے اور باطن میں بہت سے لوگوں کے دل طیار ہوتے جاتے ہیں۔ مثلاً ایک مہینہ سے کم گزرا ہوگا کہ ایک معزز رئیس میرے پاس آیا اور مجھ سے ایک گھنٹہ تک دینی گفتگو کی۔ معلوم ہوتا تھا کہ اس کا دل کچھ طیاری چاہتا ہے۔ اس نے کہا کہ میں نے دینی کتابیں بہت دیکھیں لیکن میرے گناہوں کا بوجھ ٹلا نہیں اور میں خوب جانتا ہوں کہ میں نیک کام نہیں کرسکتا۔ مجھے بہت بے چینی ہے۔ میں نے جواب میں اپنی ٹوٹی پھوٹی اردو زبان میں اس کو اس لہو کی بابت

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 322

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 322

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/322/mode/1up

سمجھایا جو سارے گناہوں سے پاک و صاف کرتا ہے اور اس راستبازی کی بابت سمجھایا کہ جو اعمال سے حاصل نہیں ہوسکتیں بلکہ مفت ملتی ہے۔ اس نے کہا کہ میں نے سنسکرت میں انجیل دیکھی ہے اور ایک دو دفعہ یسوع مسیح سے دعا مانگی ہے اور اب میں خوب انجیل کو دیکھوں گا اور زور زور سے عیسیٰ مسیح سے دعا مانگوں گا۔ (یعنے مجھ کو آپکے وعظ سے بڑی تاثیر ہوئی اور عیسائی مذہب کی کامل رغبت پیدا ہوگئی) اب دیکھنا چاہئے کہ نواب لفٹیننٹ گورنر بہادر نے کس محنت سے ہندو رئیس کو اپنے مذہب کی طرف مائل کیا۔ اور اگرچہ ایسے ایسے رئیس اپنے مطلب نکالنے کیلئے حکام کے روبرو ایسی ایسی منافقانہ باتیں کیا کرتے ہیں تاحکام ان پر خوش ہوجائیں اور ان کو اپنا دینی بھائی بھی خیال کرلیں۔ لیکن اس تقریر سے مطلب تو صرف اس قدر ہے کہ صاحب موصوف کی اس گفتگو سے گورنمنٹ انگریزی کی آزادی کو سمجھ لینا چاہئے۔ کیونکہ جب خود نواب لفٹیننٹ گورنر بہادر اپنے خوش عقیدہ کا ہندوستان میں پھیلانا بدلی رغبت چاہتے ہیں بلکہ اس کیلئے کبھی کبھی موقعہ پاکر تحریک بھی کرتے ہیں تو پھر وہ دوسروں پر اپنے اپنے دین کی ہمدردی کرنے میں کیوں ناراض ہوں گے۔ اور حقیقت میں یکرنگی سے ہمدردی بجا لانا ایک نیک صفت ہے جس پر نفاق کی سیرت کو قربان کرنا چاہئے۔ اسی یکرنگی کے جوش سے بمبئی کے سابق گورنر سر رچرڈ ٹیمپل صاحب نے مسلمانوں کی نسبت ایک مضمون لکھا ہے چنانچہ وہ ولایت کے ایک اخبار ایوننگ سٹینڈرڈ نامی میں چھپ کر اردو اخباروں میں بھی شائع ہوگیا ہے۔ صاحب موصوف لکھتے ہیں کہ افسوس ہے کہ مسلمان لوگ عیسائی نہیں ہوتے۔ اور وجہ یہ ہے کہ ان کا مذہب ان ناممکن باتوں سے لبریز نہیں ہے جن میں ہندو مذہب ڈوبا ہوا ہے۔ ہندو مذہب اور بدھ مذہب کے قائل کرنے کیلئے ممکن ہے کہ ہنسی ہنسی میں عام دلائل سے قائل کرکے انکو مذہب سے گرایا جائے لیکن اسلامی مذہب عقل کا مقابلہ بخوبی کرتا ہے اور دلائل سے نہیں ٹوٹ سکتا ہے۔ عیسائی لوگ آسانی سے دوسرے مذہبوں کے ناممکنات ظاہر کرکے انکے پیرؤں کو مذہب سے ہٹاسکتے ہیں مگر محمدیوں کے ساتھ ایسا کرنا ان کیلئے ٹیڑھی لکیر ہے۔ سو یہ یکرنگی مسلمان امیروں میں نہیں پائی جاتی چہ جائیکہ وہ اس مضمون پر غور کریں۔

خاکسار غلام احمد

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 323

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 323

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/323/mode/1up

اسکی ذات اور صفات اور افعال کا شرکت غیر سے پاک ہونا اور قدرت کاملہ سے یعنےؔ

ایسا ؔ کہ پھر ذرہ شک کرنے کی گنجائش نہیں رہتی۔ اور ایسے امر ثابت شدہ پر شک کرنا ان سودائیوں اور وہمیوں اور سوفسطائیوں کا کام ہے جن کے دل اصل فطرت سے ایسے مغلوب الوہم ہیں کہ کسی صداقت پر بظن غالب اعتقاد کرنا بھی ان کو نصیب نہیں ہوتا اور ہمیشہ شکوک اور شبہات میں ڈوبے رہتے ہیں۔ اور گو روشنی کیسی ہی اپنے کمال کو پہنچ جائے۔ مگر ان کی جبلی کور باطنی کہ جو خفاش کی طرح ان کی پیدائش کو لازم ذاتی ہے کچھ روبہ کمی نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ خدا کے وجود میں بھی ہمیشہ ان کو دُبدھا ہی رہتی ہے۔ پس ایسے اندھوں کی بیماری حقیقت میں لاعلاج ہے۔ ورنہ جس شخص کو ایک ذرہ سی بصیرت بھی حاصل ہے۔ وہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ جب سلسلہ تحقیق اور تدقیق کا اس حد تک پہنچ جائے کہ حقیقت واقعی بکلی منکشف ہوجائے اور چاروں طرف سے دلائل واضحہ اور شواہد قاطعہ آفتاب کی طرح چمکتے ہوئے نکل آویں۔ تو امر تنقیح اور تفتیش کا وہیں ختم ہوجاتا ہے اور طالب حق کو اسی جگہ مضبوطی سے قدم مارنا پڑتا ہے اور انسان کو بجز ماننے اس کے کچھ َ بن نہیں پڑتا اور خود ظاہر ہے کہ جب مکمل ثبوت ہاتھ میں آگیا اور ہرایک گوشہ امر مبحوثعنہ کا صبح صادق کی طرح کھل گیا اور حق الامر کا چہرہ بکمال صفائی نمودار ہوگیا۔ تو پھر کیوں دانشمند اور صحیح الحواس انسان اس میں شک کرے۔ اور کیا و جہ کہ سلیم العقل انسان کا دل پھر بھی اس پر تسلی نہ پکڑے۔ ہاں جب تک امکان غلطی باقی ہے اور بصفائی تمام انکشاف نہیں ہوا۔ تب تک غور اور فکر کا گھوڑا آگے سے آگے دوڑ سکتا ہے اور نظر ثانی در نظر ثانی ہوسکتی ہے نہ یہ کہ ثابت شدہ صداقت میں بھی وہمیوں کی طرح شک کرکے بیہودہ وساوس میں پڑتے جائیں اس کا نام خیالات کی ترقی نہیں۔ یہ تو مادۂ سودا کی ترقی ہے۔ جس شخص پر ایک امر کے جواز یا عدم جواز کی نسبت حال واقعی اظہر من الشمس ہوگیا۔ تو پھر کیا وہ مدہوش یا دیوانہ ہے کہ باوصف اس انکشاف تام کے پھر بھی اپنے دل میں یہ سوال کرے۔ کہ شاید

آپؔ کا اسی قسم کا ہے۔ جیسے تمام یہودی اب تک باصرارِ تمام کہتے ہیں کہ مسیح نے انجیل کو ہمارے نبیوں کی کتب مقدسہ سے ُ چرا کر بنالیا ہے۔ بلکہ ان کے علماء اور اَحبار تو کتابیں کھول کھول کر بتلاتے ہیں کہ اس اس جگہ سے فقرات

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 324

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 324

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/324/mode/1up

بھرے ہوئےؔ ہونا یہ ایسا امر نہیں ہے کہ جو فقط تجربہ سے ثابت ہوا ہو بلکہ دلائل عقلیہ

جس امر کو میں ناجائز سمجھتا ہوں وہ جائز ہی ہو۔ یا جس کو میں جائز قرار دیتا ہوں وہ حقیقت میں ناجائز ہو۔ البتہ ایسے سوالات اس وقت پیش آسکتے تھے اور ایسے وساوس اس حالت میں دلوں میں اٹھ سکتے تھے کہ جب سارا مدارؔ قیاسات عقلیہ پر ہوتا اور عقل انسانی برہمو سماج والوں کی عقل کی طرح اپنے دوسرے رفیق کے اتفاق اور اشتمال سے محروم اور بے نصیب ہوتی۔ لیکن الہام حقیقی کے تابعین کی عقل ایسی غریب اور بے کس نہیں بلکہ اس کا ممد و معاون خدا کا کلامِ کامل ہے جو سلسلہ تحقیقات کو اپنے مرکز اصلی تک پہنچاتا ہے اور وہ مرتبہ یقین اور معرفت کا بخشتا ہے کہ جس کے آگے قدم رکھنے کی گنجائش ہی نہیں کیونکہ ایک طرف تو دلائل عقلیہ کو باستیفا بیان کرتا ہے۔ اور دوسری طرف خود وہ بے مثل و مانند ہونے کی و جہ سے خدا اور اس کی ہدایتوں پر یقین لانے کے لئے حجت قاطعہ ہے۔ سو اس دوہرے ثبوت سے جس قدر طالب حق کو مرتبہ حق الیقین حاصل ہوتا ہے اس مرتبہ کا قدر وہی شخص جانتا ہے کہ جو سچے دل سے خدا کو ڈھونڈتا ہے۔ اور وہی اس کو چاہتا ہے کہ جو روح کی سچائی سے خدا کا طالب ہے لیکن برہمو سماج والے جن کا یہ اصول ہے کہ ایسی کوئی کتاب یا ایسا کوئی انسان نہیں جس میں غلطی کا امکان نہ ہو کیونکر اس مرتبہ یقین تک پہنچ سکتے ہیں۔ جب تک اس شیطانی اصول سے توبہ کرکے یقینی راہ کے طالب نہ ہوں۔ کیونکہ جس حالت میں اب تک برہمو سماج والوں کو خود باقرار ان کے ایسی کوئی کتاب نہیں ملی۔ اور نہ انہوں نے آپ بنائی کہ جو ایسے مسائل کا مجموعہ ہوکہ جو غلطی سے خالی ہوں تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ اب تک ایمان ان کا ورطہ شبہات میں ڈوبتا پھرتا ہے اور یہ اصول ان کا صاف دلالت کرتا ہے کہ ان کو خدا شناسی کے مسائل میں سے کسی مسئلہ پر یقین حاصل نہیں اور ان کے نزدیک یہ بات محالات میں سے ہے کہ کوئی کتاب علم دین میں صحیح مسائل کا مجموعہ ہو۔ بلکہ انہوں نے

چرائےؔ گئے ہیں۔ اسی طرح دیانند پنڈت بھی اپنی تالیفات میں شور مچارہا ہے کہ توریت ہمارے پستکوں سے کاٹ چھانٹ کر بنائی گئی ہے اور اب تک ہون وغیرہ کی رسم وید کی طرح اس

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 325

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 325

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/325/mode/1up

بھی خدا کا اپنی ذات اورؔ جمیع صفات اور افعال میں واحد لاشریک ہونا ضروری اور

تو علانیہ یہ رائے ظاہر کردی ہے کہ گو کوئی کتاب ایسی ہو کہ جو سراسر خدا کی ہستی کی قائل اور اس کو واحد لاشریک اور قادر اور خالق اور عالم الغیب اور حکیم اور رحمان اور دوسری صفات کاملہ سے یاد کرتی ہو۔ اور حدوث اور فنا اور تغیر اور تبدل اور شرکتِ غیر وغیرہ امور ناقصہ سے پاک اور برتر سمجھتی ہو۔ مگر تب بھی وہ کتاب ان کے نزدیک غلطی کے امکان سے خالی نہیں اور اس لائق نہیں کہ جو اس پر یقین کیا جائے۔ اور اسی وجہ سے یہ لوگ قرآن شریف سے بھی انکار کررہے ہیں۔ اب دیکھو کہ ان کے دین و ایمان کا انہیں کے اقرار سے یہ خلاصہ نکلا کہ ان کے نزدیک خدا کی ہستی اور ؔ اس کی وحدانیّت اور قادریت بھی امکان غلطی سے خالی نہیں!! غرض جب کہ انہوں نے آپ ہی اقرار کردیا کہ ان کے پاس کوئی ایسی کتاب نہیں جس کی صحت ان کے نزدیک یقینی ہو۔ تو اس سے صاف کھل گیا کہ ان کے مذہب کی بنیاد سراسر ظنیات پر ہے اور ایمان ان کا مراتب یقینیہ سے بکلی دور و مہجور ہے۔ پس یہ وہی بات ہے جس کو ہم بارہا اسی حاشیہ میں لکھ چکے ہیں کہ مجرد عقلی تقریروں سے علم الٰہیات میں کامل تسلی اور تشفی ممکن نہیں۔ اس صورت میں ہمارا اور برہمو لوگوں کا اس بات پر تو اتفاق ہوچکا کہ مجرد عقل کی رہبری سے کوئی انسان یقین کامل تک نہیں پہنچ سکتا۔ اور مابہ النزاع فقط یہی امر تھا کہ کیا خدا نے برہمو لوگوں کی رائے کے موافق انسان کو اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ باوجود جوش طلب یقین کامل اور حق محض کے جو اس کی فطرت میں ڈالا گیا ہے پھر بھی اپنی اس فطرتی مراد سے ناکام اور بے نصیب رہے۔ اور صرف ایسے خیالوں تک اس کا علم محدود رہے کہ جو امکان غلطی سے خالی نہیں یا خدا نے اس کی معرفت کامل اور پوری پوری کامیابی کے لئے کوئی سبیل بھی مقرر کررکھا ہے۔ اور کوئی ایسی کتاب بھی عطا فرمائی ہے کہ جو اس اصول متذکرہ بالا سے

میں پائی جاتی ہیں۔ چنانچہ آپ بھی توؔ اقرار کرتے ہیں کہ ہندوؤں کے اصول سے انجیلی تعلیم کو بہت کچھ مشابہت ہے۔ پس اس اقرار سے ہی آپ اپنے مونہہ سے ہندوؤں کے دعویٰ

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 326

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 326

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/326/mode/1up

واجب ٹھہراتے ہیں۔ اور اس کی الوہیّتؔ کے تحقق کو انہیں خواص کے تحقق سے

باہر ہو کہ جس میں امکان غلطی کا قاعدہ کلیہ کررکھا ہے۔ سو الحمد للّٰہ والمِنّۃ ایسی کتاب کا خدا کی طرف سے نازل ہونا براہین قطعیہ سے ہم پر ثابت ہوگیا ہے اور ہم بذریعہ کتاب ممدوح کے اس ہلاکت کے ورطہ سے باہر نکل آئے ہیں جس میں برہمو لوگ مردہ کی طرح پڑے ہوئے ہیں۔ اور وہ کتاب وہی عالی شان اور مقدس کتاب ہے جس کا نام فرقان ہے۔ جو حق اور باطل میں فرق بین دکھلاتی ہے اور ہرایک قسم کی غلطیوں سے مبرا ہے۔ جس کی پہلی صفت یہی ہے۔ 3۔ ۱؂ اسی نے ہم پر ظاہر کیا ہے کہ خدا حق کے طالبوں کو مراتب یقینیہ سے محروم رکھ کر ہلاک کرنا نہیں چاہتا۔ بلکہ اس رحیم و کریم نے ایسا اپنے ضعیف اور ناقص بندوں پر احسان کیا ہے کہ جس کام کو عقل ناقص انسان کی نہیں کرسکتی تھی اس نے وہ کام آپ کر دکھایا ہے۔ اور جس درخت بلند تک بشر کا کوتہ ہاتھ نہیں پہنچتا تھا اس کے پھلوں کو اس نے اپنے ہاتھ سے نیچے گرایا ہے اور حق کے طالبوں کو اور سچائی کے بھوکے اور پیاسوں کو یقین کامل اور قطعی کا سامان عطا کردیا ہے۔ اور جو دینیؔ صداقتوں کے ہزارہا دقائق ذرّات کی طرح روحانی آسمان کی دور دراز فضاؤں میں منتشر تھے اور جو زندگی کا پانی شبنم کی طرح متفرق طور پر انسانی سرشت کے ظلمات میں اور اس کی عمیق درعمیق استعدادات میں مخفی اور محتجب تھا۔ جس کو بمنصۂ ظہور لانا اور ناپیدا کنار فضاؤں سے ایک جگہ اکٹھا کرنا انسانی عقل کی طاقتوں سے باہر تھا۔ اور بشر کی ضعیف قوتوں کے پاس کوئی ایسا باریک اور غیب نما آلہ نہ تھا کہ جس کے ذریعہ سے انسان ان اَدَق اور پوشیدہ ذرّات حقیقت کو کہ جن کو باستیفاء دیکھنے کے لئے بصارت وفا نہیں کرتی تھی۔ اور جمع کرنے کے لئے عمر فرصت نہیں دیتی تھی۔ آسانی سے دریافت اور حاصل کرلیتا۔ ان سب

کی تصدیق کررہے ہیں لیکن قرآن شریف ایسا نہیں جس پر یہ الزامات عاید ہو سکیںؔ یا کسی بداندیش کا منصوبہ پیش جاسکے۔ آپ نے برا کیا کہ آفتاب پر تھوکنے کا ارادہ کیا۔ وہ تو حضرت الٹ کر آپ ہی کے مونہہ پر پڑے گا۔ متکلم صاحب شاید آپ کی بے اصل لاف و گذاف سے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 327

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 327

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/327/mode/1up

مشروط قرار دیتے ہیں۔ پس اب ان نادانوں کو ذراؔ حیا اور شرم کو کام میں

لطائف حکمت و دقائق معرفت کو اس کامل کتاب نے بلاتفاوت و بلا نقصان و بلا سہو و بلا نسیان خدائی کی قدرت اور قوت سے اور ربّانیت کی طاقت اور حکومت سے ہمارے سامنے لارکھا ہے۔ تاہم اس پانی کو پی کر بچ جائیں اور موت کے گڑھے میں نہ پڑیں اور پھر کمال یہ کہ اس جامعیت سے اکٹھا کیا ہے کہ کوئی دقیقہ دقائق صداقت سے اور کوئی لطیفہ لطائفِ حکمت سے باہر نہیں رہا اور نہ کوئی ایسا امر داخل ہوا کہ جو کسی صداقت کے مبائن اور منافی ہو۔ چنانچہ ہم نے منکرین کو ملزم اور رسوا کرنے کے لئے جابجا بصراحت لکھ دیا ہے اور بآواز بلند سنا دیا ہے کہ اگر کوئی برہمو قرآن شریف کے کسی بیان کو خلاف صداقت سمجھتا ہے یا کسی صداقت سے خالی خیال کرتا ہے تو اپنا اعتراض پیش کرے۔ ہم خدا کے فضل اور کرم سے اس کے وہم کو ایسا دور کردیں گے کہ جس بات کو وہ اپنے خیال باطل میں ایک عیب سمجھتا تھا اس کا ہنر ہونا اس پر آشکارا ہوجائے گا۔

اس جگہ یہ بھی یاد رہے کہ مجرد عقلی خیالوں میں صرف اتنا ہی نقص نہیں کہ وہ مراتب یقینیہ سے قاصر ہیں اور دقائق الٰہیات کے مجموعہ پر قابض نہیں ہوسکتے۔ بلکہ ایک یہ بھی نقص ہے کہ مجرد عقلی تقریریں دلوں پر اثر کرنے میں بھی بغایت درجہ کمزور و بے جان ہیں۔ اور کمزور ہونے کی وجہ یہ ہے کہ کسی کلام کا دل پر کارگر ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ اس کلام کی سچائی سامع کے ذہن میں ایسی متحقق ہو کہ جس میں ایک ذرا شک کرنے کی گنجائش نہ ہو۔ اور دلی یقین سے یہ بات دل میں بیٹھ جائے کہ جس واقعہ کی مجھ کو خبرؔ دی گئی ہے اس میں غلطی کا امکان نہیں۔ اور ابھی ظاہر ہوچکا ہے کہ مجرد عقل یقین کامل تک پہنچا ہی نہیں سکتی۔ پس اس صورت میں یہ بات بدیہی ہے کہ وہ آثار کہ یقین کامل پر مترتب ہوتے ہیں اور وہ تاثیریں کہ جو یقینی کلام دلوں پر

غرض یہ ہے کہ تاؔ آپ بعض سادہ لوح عیسائیوں کو خوش کردیں۔ ورنہ دانشمند عیسائی آپ کی اس بے مغز بات پر ہنسے گا کہ جس حالت میں آپ کو خوب معلوم ہے کہ قرآن کہاں سے اکٹھا کیا گیا ہے اور اس کے تمام حقائق دقائق کس کس کتاب

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 328

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 328

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/328/mode/1up

لاکر غور کرنی چاہئے جنہوں نے کلام الٰہی کی بے نظیری کی عدم تسلیم میںؔ صرف یہ

کرتی ہے وہ مجرد عقل سے ہرگز متوقع نہیں اور اس کا ثبوت روزمرہ تجربہ سے ظاہر ہے۔ مثلاً ایک شخص ایک دور دراز ولایت کا سیر کرکے آتا ہے۔ تو جب اپنے وطن میں پہنچتا ہے تو ہریک خویش و بیگانہ اس ولایت کی خبریں اس سے دریافت کرتا ہے اور اس کی چشم دید خبریں بشرطیکہ وہ دروغگوئی کی عادت سے متہم نہ ہو۔ دلوں پر بہت اثر کرتی ہیں اور بغیرکسی تردّد اور شک کے فی الواقعہ راست اور صحیح سمجھی جاتی ہیں بالخصوص جب ایسا مخبر ہوکہ لوگوں کی نظر میں ایک بزرگوار اور صالح آدمی ہو۔ اس قدر تاثیر اس کی کلام میں کیوں ہوتی ہے۔ اس لئے ہوتی ہے کہ اول اس کو ایک شریف اور راست باز تسلیم کرکے پھر اس کی نسبت یہ یقین کیا گیا ہے کہ وہ جو جو ان ملکوں کے واقعات بیان کرتا ہے۔ ان کو اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اور جو جو خبریں بتلاتا ہے وہ سب اس کا چشم دید ماجرا ہے۔ پس اسی باعث سے اس کی باتوں کا دلوں پر سخت اثر واقعہ ہوتا ہے اور اس کے بیانات طبیعتوں میں ایسے جم جاتے ہیں کہ گویا ان واقعات کی تصویر نظر کے سامنے آموجود ہوتی ہے۔ بلکہ بسا اوقات جب وہ اپنے سفر کی ایک رقت آمیز حکایت سناتا ہے یا کسی قوم کا دردانگیز قصہ بیان کرتا ہے تو سنتے ہی وہ بات سامعین کے دل کو ایسا پکڑلیتی ہے کہ ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں اور ان کی ایک ایسی حالت ہوجاتی ہے کہ گویا وہ موقعہ پر موجود ہیں اور اس واقعہ کو بچشم خود دیکھ رہے ہیں۔

لیکن جو شخص اپنے گھر کی چار دیوار سے کبھی باہر نہیں نکلا نہ اس ملک میں کبھی گیا اور نہ دیکھنے والوں سے کبھی اس کا حال سنا اگر وہ اٹھ کر صرف اپنی اٹکل سے اس ملک کی خبریں بیان کرنے لگے تو اس کی بک بک سے خاک بھی تاثیر نہیں ہوتی بلکہ لوگ اسے کہتے ہیں کہ کیا تو پاگل اور دیوانہ ہے کہ ایسی باتیں بیان کرنے لگا کہ جو تیرے معائنہ اور تجربہ سے باہر ہیں اور تیرے ناقص علم سے بلند تر ہیں اور اس پر ایسا ہی کہتے ہیں کہ جیسا ایکؔ بزرگ نے کسی احمق کا قصہ لکھا ہے کہ وہ ایک جگہ گیہوں کی روٹی کی بہت سی تعریفیں کررہا تھا کہ وہ بہت ہی مزہ دار ہوتی ہے۔ اور جب پوچھا گیا کہ کیا تو نے بھی کبھی کھائی

یہودؔ نصاریٰ یا مجوس سے بطور سرقہ اخذ کئے گئے ہیں تو پھر کیوں آپ ایسے کام کے دکھانے سے جس کے کرنے سے تمام عیسائیوں کی عزت بحال رہے اور ان کا قدیمی داغ عاجز اور لاجواب

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 329

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 329

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/329/mode/1up

اعتراض بنا رکھا ہے کہ جس حالت میں خدا کا کلام بھی ہمارے کلام کی جنس

ہے۔ تو اس نے جواب دیا کہ میں نے کھائی تو کبھی نہیں پر میرے دادا جی بات کیا کرتے تھے کہ ایک دفعہ ہم نے کسی کو کھاتے دیکھا ہے۔

غرض جب تک کوئی سامعین کی نظر میں کسی واقعہ پر بکلی محیط نہ ہو۔ تب تک بجائے اس کے کہ اس کا کلام دلوں پر کچھ اثر کرے خواہ نخواہ ٹھٹھا اور ہنسی کرانے کا موجب ٹھہرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجرد عقلمندوں کی خشک تقریروں نے کسی کو عالم آخرت کی طرف یقینی طور پر متوجہ نہیں کیا۔ اور لوگ یہی سمجھتے رہے کہ جیسا یہ لوگ صرف اٹکل سے باتیں کرتے ہیں۔ علیٰ ہذا القیاس ہم بھی ان کی رائے کے مخالف اٹکلیں دوڑا سکتے ہیں۔ نہ انہوں نے موقعہ پر جاکر اصل حقیقت کو دیکھا نہ ہم نے۔ اسی باعث سے جب ایک طرف بعض عقلمندوں نے خدا کی ہستی پر رائے ظاہر کرنی شروع کی تو دوسرے عقلمندوں نے ان کے مخالف ہوکر دہریہ مذہب کی تائید میں کتابیں تصنیف کیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ان عاقلوں کا فرقہ کہ جو خدا کی ہستی کے کسی قدر قائل تھے وہ بھی دہریہ پن کی رگ سے کبھی خالی نہیں ہوا اور نہ اب خالی ہے۔ انہیں برہمو لوگوں کو دیکھو۔ کب وہ خدا کو کامل صفتوں سے متصف سمجھتے ہیں۔ کب ان کو اقرار ہے کہ خدا گونگا نہیں بلکہ اس میں حقیقی طور پر صفت تکلم بھی ہے جیسی ایک جیتے جاگتے میں ہونی چاہئے۔ کب وہ اس کو حقانی طور پر پورا پورا مدبّر اور رزّاق سمجھتے ہیں۔ کب ان کو اس بات پر ایمان ہے کہ حقیقت میں خدا حی و قیوم ہے اور اپنی آوازیں صادق دلوں تک پہنچا سکتا ہے۔ بلکہ وہ تو اس کے وجود کو ایک موہومی اور مردہ سا خیال کرتے ہیں کہ جس کو عقل انسانی صرف اپنے ہی تصورات سے ایک فرضی طور پر ٹھہرا لیتی ہے۔ اور اس طرف سے زندوں کی طرح کبھی آواز نہیں آتی۔ گویا وہ خدا نہیں ایک بت ہی ہے کہ جو کسی گوشہ میں پڑا ہے۔ میں متعجب ہوں کہ ایسے کچے اور ضعیف خیالات سے کیونکر یہ لوگ خوش ہوئے بیٹھے ہیں۔ اور ایسی

رہنے کا آپ کی ہمت سے دھویا جائے۔ اورؔ ان سب کے علاوہ دس ہزار روپیہ ہاتھ لگے دست کش ہیں۔ اگر آپ کی ذات شریف میں ایسا ہنر حاصل ہے کہ جو حضرت مسیح کو بھی

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 330

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 330

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/330/mode/1up

میںؔ سے ہے اور انہیں کلمات اور الفاظ سے مرکب ہے جن سے ہمارا کلام مرکب ہے

خود تراشیدہ باتوں سے کن ثمرات کی توقع ہے۔ کیوں سچے طالبوں کی طرح اس خدا کو نہیں ڈھونڈتے کہ جو قادر توانا اور جیتا جاگتا ہے۔ اور اپنے وجود پر آپ اطلاع دینے کیؔ قُدرت رکھتا ہے۔ اور اِنِّی اَنَا اللّٰہ کی آواز سےُ مردوں کو ایک دم میں زندہ کرسکتا ہے۔ جب یہ لوگ خود جانتے ہیں کہ عقل کی روشنی دود آمیز ہے تو پھر کامل روشنی کے کیوں خواہاں نہیں ہوتے۔ عجب احمق ہیں کہ اپنے مریض ہونے کے تو قائل ہیں پر علاج کا کچھ فکر نہیں۔ ہائے افسوس کیوں ان کی آنکھیں نہیں کھلتیں تا وہ حق الامر کو دیکھ لیں۔ کیوں ان کے کانوں پر سے پردہ نہیں اٹھتا تا وہ حقانی آواز کو سن لیں۔ کیوں ان کے دل ایسے کجرو اور ان کی سمجھیں ایسی الٹی ہوگئیں کہ جو اعتراض حقیقت میں انہیں پر وارد ہوتا تھا وہ الہام حقیقی کے تابعین پر کرنے لگے۔ کیا ابھی تک ہم نے ان کو یہ ثابت کرکے نہیں دکھلایا کہ وہ معرفت الٰہی میں نہایت ناقص اور خطرہ کی حالت میں ہیں۔ کیا ہم نے ابھی تک ان پر یہ ظاہر نہیں کیا کہ معرفت تامہ و کاملہ صرف قرآن شریف کے ذریعہ سے حاصل ہوسکتی ہے وبس۔ پھر جب کہ ہریک طور سے انہیں کا جھوٹا اور غلطی پر ہونا ثابت ہوچکا ہے تو پھر یہ کیسی ایمانداری اور دیانت شعاری ہے کہ اپنے گھر کے ماتم سے بے خبر رہ کر اہل اسلام کو بیمار قرار دیتے ہیں اور خبث اور شر کی باتیں مونہہ پر لاتے ہیں جن سے یقیناً سمجھا جاتا ہے کہ ان کو راست روی سے کچھ بھی غرض اور تعلق نہیں۔ اور یہ باتیں ان کی باتیں نہیں ہیں بلکہ حسد اور تعصب کا بدبودار خوان ہے۔

اسی وہم کا ضمیمہ برہمو سماج والوں کا ایک اور وہم بھی ہے کہ الہام ایک قید ہے اور ہم ہریک قید سے آزاد ہیں یعنے ہم اچھے ہیں کیونکہ آزاد قیدی سے اچھا ہوتا ہے۔ ہم اس نکتہ چینی کو مانتے ہیں اور اقرار کرتے ہیں کہ بلاشبہ الہام ایک قید ہے مگر ایسی قید ہے کہ جس کے بغیر سچی آزادی حاصل ہونا ممکن نہیں۔ کیونکہ سچی آزادی وہ ہے کہ انسان کو ہریک نوع کی غلطی اور شکوک اور شبہات سے نجات ہوکر مرتبہ یقین کامل کا

حاصل نہیں تھا۔ تو پھر یہ جوہر کس دن کے لئے چھپا رکھا ہے۔ جب آپ ایسے ہی لائق

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 331

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 331

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/331/mode/1up

تو پھر کیا وجہ کہ اسؔ کی مثل بنانے پر ہم قادر نہ ہوسکیں۔ ایسے لوگوں کی حالت پر

حاصل ہوجائے اور اپنے مولیٰ کریم کو اسی دنیا میں دیکھ لے۔ سو جیسا کہ ہم اسی حاشیہ میں ثابت کرچکے ہیں یہ حقیقی آزادی دنیا میں کامل اور خدا دوست مسلمانوں کو بذریعہ قرآن شریف حاصل ہے۔ اور بجز ان کے کسی برہمو وغیرہ کو حاصل نہیں۔ ہاں ایک وجہ سے برہمو سماج والوں کا نام بھی آزاد اور بے قید ہوسکتا ہے۔ اور اسی خیال سے ہم نے بھی بعض بعض مقامات اس کتاب میں ان کا نام آزاد مشرب رکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ جیسے بعض رند و لوند شراب پی کر یا ایک پیالہ بھنگ کا چڑھاؔ کر یا چرس وغیرہ منشی چیزوں کا دم لگا کر ہریک قسم کی شرم و حیا و حفظ مراتب و پابندی سے بلکہ خدا سے بھی آزاد بن بیٹھے ہیں اور جس قسم کا دل میں بخار اٹھتا ہے بول اٹھتے ہیں اور جو چاہتے ہیں بک پڑتے ہیں۔ انہیں کے مطابق بعض برہمو صاحبوں نے ہم پر ثابت کردیا ہے کہ حقیقت میں وہ ویسے ہی آزاد ہیں اور درحقیقت انہوں نے بے قید اور آزاد ہوکر اس دنیا کا آرام تو خاطر خواہ حاصل کرلیا کہ سب حلال و حرام اپنی زبان پر ہی آگیا۔ اور دینی احکام کی کنجی اپنے ہی ہاتھ میں ہوگئی۔ اب نفس امارہ کے مشورہ سے جس دروازہ کو چاہیں کھول دیں اور جس کو چاہیں بند کردیں۔ آپ ہی کرم دھرم کے بانی جو ہوئے۔ لیکن ان آزادیوں کا مزہ اس دن چکھیں گے جس دن خدائے تعالیٰ کے حضور میں اپنی بے ایمانیوں کا جواب دینا پڑے گا۔

اسی وہم کا ضمیمہ برہمو سماج والوں کا ایک اور مقولہ ہے کہ گویا انہوں نے اپنے اسی قامت ناساز کو ایک دوسرے لباس میں ظاہر کیا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ الہام کا تابع ہونا ایک حرکت خلاف وضع استقامت اور مبائن طریق فطرت ہے۔ کیونکہ ہریک امر کی حقیقت پر مطلع ہونے کے لئے صاف اور سیدھا راستہ کہ جس کو

ہیںؔ کہ قرآن شریف کا مقابلہ کرسکتے ہیں بلکہ اس کا ماخذ بتلا سکتے ہیں تو پھر آپ کے لئے بات ہی آسان ہے اور آپ بڑی آسانی سے ان تمام حقائق اور دقائق اور

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 332

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 332

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/332/mode/1up

رونا آتا ہے جن کو ایسی مستحکم اوربدیہی صداقتؔ کہ جو دلائل قاطعہ سے ثابت ہے

ہریک انسان کا نفس ناطقہ بمقتضائے اپنی فطرت کے چاہتا ہے یہی ہے کہ عقلی دلائل سے اس حقیقت کو کھولا جائے۔ جیسے مثلاً فعل سرقہ کے قبیح ہونے کے لئے حقیقی وجہ جس پر روحانی اطمینان موقوف ہے یہی ہے کہ وہ ایک ظلم اور تعدی ہے کہ عندالعقل نامناسب اور ناجائز ہے۔ یہ وجہ نہیں ہے کہ جو کسی الہامی کتاب نے اس کا مرتکب ہونا گناہ لکھا ہے۔ یا مثلاً سم الفار جو ایک زہر ہے۔ اس کے کھانے کی ممانعت حقیقی طور پر اسی بنا پر ہوسکتی ہے کہ وہ قاتل اور مہلک ہے۔ نہ اس بنا پر کہ خدا کے کلام میں اس کے اکل و شرب سے نہی وارد ہے۔ پس ثابت ہے کہ واقعی اور حقیقی سچائی کی رہنما صرف عقل ہے نہ الہام۔ لیکن ان حضرات کو ابھی تک یہ خبر بھی نہیں کہ اس وہم کا تو اسی وقت قلع قمع ہوگیا کہ جب مضبوط اور قوی دلائل سے ان کی عقل کا خام اور ناتمام ہونا بہ پایہ ثبوت پہنچ گیا۔ کیا یہ عقلمندی ہے کہ جس وسوسہ کو دلائل قویہ کے پرزور لشکر نے پیس ڈالا ہے۔ اسی مردہ خیال کو بے شرم آدمی کی طرح بار بار پیش کیا جائے۔ افسوس افسوس!! ارے بابا۔ کیا تم بارہا سن نہیں چکے کہ گو حقائقؔ اشیاء عقلی دلائل سے کسی قدر منکشف ہوتے ہیں۔ مگر ایسا تو نہیں کہ تمام مراتب یقین کا استکمال عقل ہی پر موقوف ہے۔ آپ تو اپنی ہی مثال پیش کردہ سے مُلزم ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ سم الفار کا قاتل اور مہلک ہونا مجرد عقل کے ذریعہ سے بہ پایہ ثبوت نہیں پہنچا۔ بلکہ یقینی طور پر یہ خاصیت اس کی تب معلوم ہوئی جب عقل نے تجربہ صحیحہ کو اپنا رفیق بناکر سم الفار کی خاصیت مخفیہ کو مشاہدہ کرلیا ہے۔ سو ہم بھی آپ کو یہی سمجھاتے ہیں کہ جیسی سم الفار کی خاصیت یقینی طور پر دریافت کرنے کے لئے عقل کو ایک دوسرے رفیق کی حاجت ہوئی یعنے تجربہ صحیحہ کی حاجت ایسا ہی الٰہیات اور عالم معاد کے حقائق علیٰ وجہ الیقین دریافت کرنے کے لئے

براہین اور برکات فرقانیہ کا مقابلہ کرکے کہ جو براہین احمدیہ میںؔ اسی غرض کے لئے مندرج ہیں اشتہار کا کل روپیہ لے سکتے ہیں۔ بالخصوص جب آپ کی تقریر کے ضمن میں یہ بھی

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 333

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 333

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/333/mode/1up

سمجھ آنے سے رہ گئی۔ اگر ان میں ذرا عقلِ خداداد ہوتی تو اسؔ بیہودہ اعتراض

عقل کو الہام الٰہی کی حاجت ہے۔ اور بغیر اس رفیق کے عقل کا کام علم دین میں چل نہیں سکتا جیسے دوسرے علوم میں بغیر دوسرے رفیقوں کے عقل بے دست وپا اور ناقص اور ناتمام ہے۔ غرض عقل فی حد ذاتہ مستقل طور پر کسی کام کو یقینی طور پر انجام نہیں دے سکتی جب تک کوئی دوسرا رفیق اس کے ساتھ شامل نہ ہو۔ اور بغیر شمول رفیق کے ممکن نہیں کہ خطا اور غلطی سے محفوظ اور معصوم رہ سکے۔ بالخصوص علم الٰہی میں جس کے تمام اَبحاث کی کنہ اور حقیقت اس عالم کی وراء الوراء ہے اور جس کا کوئی نمونہ اس دنیا میں موجود نہیں۔ ان امور میں عقل ناقص انسانی غلطی سے تو کیا بچے گی۔ کمال معرفت کے مرتبے تک بھی نہیں پہنچا سکتی۔ اور غایت کار جو بذریعہ عقل دریافت کیا جاتا ہے۔ اس کا مضمون صرف اسی قدر ہوتا ہے کہ قیاس کنندہ اپنے گمان میں گو وہ گمان واقعی ہو یا غیر واقعی۔ کسی امر کی ضرورت قرار دے لیتا ہے۔ مگر یہ ثابت نہیں کرسکتا کہ وہ امر جو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ خارجی طور پر بھی متحقق الوجود ہے۔ اور اسی جہت سے علم اس کا ایک ایسی فرضی ضرورت پر مبنی ہونے کی و جہ سے جس کا خارجی طور پر اس کو کوئی پتہ نہیں ملا۔ ایک مجرد خیال بے بنیاد تصور ہوتا ہے اور یقین کامل کے درجہ سے اس کو بکلی یاس اور بے نصیبی حاصل ہوتی ہے اور ہم بارہا لکھ چکے ہیں کہ ہرگز ممکن ہی نہیں کہ محض فرضی ضرورتوں اور مجرد خیالات کی تودہ بندی سے یقین کامل کا مرتبہ عقل کو حاصل ہوجائے۔ بلکہ اس کامل یقین کے حاصل کرنے کے لئے تمام معاملات دنیا اور دین کے ایک ہی اصول محکم پر چلتے ہیں یعنے ہر یک امر خواہ دینی ہو خواہ دنیویؔ اسی حالت میں کامل یقین کے مرتبہ تک پہنچ سکتا ہے کہ جب علم حقائق اشیاء کا صرف قیاسی وجوہ میں محدود نہ رہے۔ اور وجہ ثبوت وجود کسی چیز کی فقط اتنی ہی اپنے ہاتھ میں نہ ہو کہ قیاس اس کے

پایا جاتا ہے کہ آپ دنیا کی تکالیف میں سخت مبتلا ہیں اور آپ کو روپیہ کی اشد ضرورت ہے تو پھر اس صورتؔ میں دنیا حاصل کرنے کی اس سے بہتر اور کیا تدبیر ہے کہ آپ سب

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 334

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 334

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/334/mode/1up

کرنے کے وقت اول یہی سوچتے کہ کیا خدا کا اپنی ذات اور صفات اور جمیع افعال میں

وجود کو چاہتا ہے۔ بلکہ کسی طور سے اس کے واقعہ فی الخارج ہونے کا بھی پتہ مل جائے تا عجوزہ عقل صرف خیالات کے ورطہ میں ڈوبی نہ رہے اور جس امر کا موجود ہونا خیالی طور پر اس نے فرض کرلیا ہے اس امر کے وجود پر بطور واقعی مطلع بھی ہوجائے۔ اور جبکہ استکمال یقین کا علم واقعہ پر موقوف ہوا اور ظاہر ہے کہ واقعات خارجیہ کی خبر دینا عقل کا کام اور منصب نہیں بلکہ یہ مؤرخوں اور واقعہ نگاروں اور تجربہ کاروں کا منصب ہے جنہوں نے بچشم خود ان واقعات کو دیکھا ہو یا ان حالات کو کسی دیکھنے والے کی زبان سے سنا ہو۔ پس اس صورت میں عقل ناقص انسان کے لئے واقعہ نگاروں اور مؤرخوں اور آزمودہ کاروں کی ضرورت پڑی۔ یہی و جہ ہے کہ گو کسی امر میں لاکھ موشگافی کرو۔ مگر جو کچھ وقعت اور شان اس کی تجربہ یا تاریخ کے شمول سے کھلتی ہے۔ وہ بات مجرد قیاس سے ہرگز حاصل نہیں ہوسکتی اور جس جگہ کسی شہادت رویت کی حاجت پڑتی ہے۔ اس جگہ قیاسی اٹکلیں کام نہیں دے سکتیں اور فقط قیاسی تیر چلانے والااور صرف مونہہ سے باتیں بنانے والا ایک مؤرخ واقف حالات یا صاحب تجربہ اور آزمائش کا قائم مقام نہیں ہوسکتا۔ اور اگر ہوسکتا تو پھر مؤرخوں اور واقعہ نگاروں اور تجربہ کاروں کی کچھ ضرورت نہ رہتی اور لوگ صرف اپنے قیاسوں سے دنیا کے متفرق حالات جن کا جاننا تاریخ اور تجربہ اور واقعہ دانی پر موقوف ہے معلوم کرلیتے اور سارا دھندا نظام عالم کا فقط قیاسی اٹکلوں سے چلا لیتے ۔مؤرخوں اور واقعہ نگاروں اور اہل تجربہ لوگوں کی تب ہی تو حاجت پڑی کہ جب اکیلی عقل اور مجرد قیاس سے کام چل نہ سکا اور صرف قیاس کی کشتی میں بیٹھنے سے دنیا کی سب مہمات ڈوبتی نظر آئیں اور فقط عقل کے چرخ پر چڑھنے سے سارا کام اس عالم کا برباد ہوتا دکھائی دیا۔ حالانکہ دنیا کے معاملات کچھ

کام چھوڑ چھاڑ کر یہی کام اختیار کریں اور قرآن شریف کے علوم الٰہیہ اور دقائقِ عقلیہ اور تاثیراتِ باطنیہ کا اپنی کتاب سے مقابلہ دکھلا کر روپیہ انعام کا وصول کریں۔

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 335

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 335

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/335/mode/1up

واحدؔ لاشریک ہونا ضروری ہے یا نہیں؟ اور اگر اس دلیل کو نہیں سوچا تھا تو کاش

ایسے بڑے پیچیدہ نہیں بلکہ ایسے صاف اور واضح ہیں کہ گویا ہماری آنکھ کے سامنے اور نظر کے نیچے ہیں۔ اور جو دقتیں اس نادیدہ عالم کے واقعات میں پیش آتی ہیں اور جس طرح غیر مرئی اور غیب الغیب جہان کے تصور کرنے کے وقت میں حیرتیں رونما ہوتی ہیں اور نظر اور فکر کے آگے ایکؔ دریا ناپیدا کنار دکھلائی دیتا ہے۔ اس جگہ اس کا ہزارم حصہ بھی نہیں۔ تو اس صورت میں اگر ہم صریحاً و عمداً بے راہی اختیار نہ کریں تو بلاشبہ اس اقرار کرنے کے لئے مجبور ہیں کہ ہمیں اس عالم کے حالات اور واقعات ٹھیک ٹھیک معلوم کرنے کے لئے اور ان پر یقین کامل لانے کی غرض سے دنیا کی نسبت صدہا درجہ زیادہ مؤرخوں اور واقعہ نگاروں اور تجربہ کاروں کی حاجت ہے۔ اور جبکہ اس عالم کا مورخ اور واقعہ نگار بجز خدا کی کلام کے کوئی اور نہیں ہوسکتا اور ہمارے یقین کا جہاز بغیر وجود واقعہ نگار کے تباہ ہوا جاتا ہے اور باد صرصر وساوس کی ایمان کی کشتی کو ورطہ ہلاکت میں ڈالتی جاتی ہے تو اس صورت میں کون عاقل ہے کہ جو صرف عقل ناقص کی رہبری پر بھروسہ کرکے ایسے کلام کی ضرورت سے منہ پھیرے جس پر اس کی جان کی سلامتی موقوف ہے اور جس کے مضامین صرف قیاسی اٹکلوں میں محدود نہیں بلکہ وہ عقلی دلائل کے علاوہ بہ حیثیت ایک مورخ صادق عالم ثانی کے واقعات صحیحہ کی خبر بھی دیتا ہے اور چشم دید ماجرا بیان کرتا ہے۔

از وحی خدا صبح صداقت بِدمیدہ

چشمے کہ ندید آںُ صحفِ پاک چہ دیدہ

کاخ دل ما شد زہماں نافہ معطّر

وآں یار بیامد کہ ز ما بود رمیدہ

آں دیدہ کہ نورے نگرفت ست زفرقاں

حقا کہ ہمہ عمر ز کوری نہ رہیدہ

آں دل کہ جز ازوے گل و گلزار خدا جست

سو گند تواں خورد کہ بویش نشمیدہ

با خور ندہم نسبت آں نور کہ بینم

صد خور کہ بہ پیرامنِ او حلقہ کشیدہ

بے دولت و بدبخت کسانیکہ ازاں نور

سر تافتہ از نخوت و پیوند بریدہ

اسؔ سے آپ کی بڑی ناموری ہوجاوے گی۔ اور جس میدان کے فتح کرنے سے حضرت مسیح قاصر رہے اور اپنی تعلیم ناقص کا آپ اقرار کرکے اس جہان سے سدھار گئے۔ وہ میدان

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 336

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 336

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/336/mode/1up

اس دوسری دلیلؔ کو ہی سوچا ہوتا کہ جس ذات کو علمی اور قدرتی طاقتوں میں سب سے زیادہ

ہاں سچ بات ہے کہ عقل بھی بے سود اور بے فائدہ نہیں اور ہم نے کب کہا ہے کہ بے فائدہ ہے۔ مگر اس بدیہی صداقت کے ماننے سے ہم کس طرف بھاگ سکتے ہیں کہ مجرد عقل اور قیاس کے ذریعہ سے ہمیں وہ کامل یقین کا سرمایہ حاصل نہیں ہوسکتا کہ جو عقل اور الہام کے اشتمال سے حاصل ہوتا ہے۔ اور نہ لغزشوں اور غلطیوں اور خطاؤں اور گمراہیوں اور خود پسندیوں اور خود بینیوں سے بچ سکتے ہیں اور نہ ہمارے خود تراشیدہ خیالات خدا کے ُ پرزور اورُ پرجلال اورُ پررُعب حکم کی طرح جذبات نفسانی پر غالب آسکتے ہیں اور نہ ہمارے طبع زاد تصورات اور خشک تخیلات اور بے اصل توہمات ہم کو وہ سرور اور خوشی اور تسلی اور تشفی پہنچا سکتے ہیں کہ جو محبوب حقیقی کا دلآویز کلام پہنچاتا ہے۔ تو پھر کیا ہم ایک اکیلی عقل کے پیرو ہوکر ان تمام نقصانوں اور زیانوں اور بدبختیوں اور بدنصیبیوں کوؔ اپنے لئے قبول کرلیں اور ہزارہا بلاؤں کا اپنے نفس پر دروازہ کھول دیں۔ عاقل انسان کسی طرح اس مہمل بات کو باور نہیں کرسکتا کہ جس نے کامل معرفت کی پیاس لگا دی ہے۔ اس نے پوری معرفت کا لبالب پیالہ دینے سے دریغ کیا ہے اور جس نے آپ ہی دلوں کو اپنی طرف کھینچا ہے۔ اس نے حقیقی عرفان کے دروازے بند کررکھے ہیں۔ اور خداشناسی کے تمام مراتب کو صرف فرضی ضرورت پر خیال دوڑانے میں محدود کردیا ہے۔ کیا خدا نے انسان کو ایسا ہی بدبخت اور بے نصیب پیدا کیا ہے کہ جس کامل تسلی کو خدا شناسی کی راہ میں اس کی روح چاہتی ہے اور دل تڑپتا ہے۔ اور جس کے حصول کا جوش اس کی جان و جگر میں بھرا ہوا ہے۔ اس کے حصول سے اس دنیا میں اس کو بکلی یاس اور ناامیدی ہے۔ کیا تم ہزارہا لوگوں میں سے کوئی بھی ایسی روح نہیں کہ اس بات کو سمجھے کہ جو معرفت کے دروازے صرف خدا کے کھولنے سے کھلتے ہیں وہ انسانی قوتوں سے کھل نہیں سکتے۔ اور جو خدا کا آپ کہنا ہے

گویا آپ کے ہاتھ سے فتح ہوجائے گا۔ گویا ایک صورتؔ سے آپ عیسائیوں کی نظر میں مسیح سے بہتر ٹھہر جاویں گے۔ کہ جس کتاب کو وہ مدت العمر ناقص سمجھتے رہے۔ آپ نے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 337

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 337

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/337/mode/1up

اور بے مثل و مانند تسلیم کرتےؔ ہیں ان طاقتوں کے آثار کو بھی بے مثل و مانند

کہ میں موجود ہوں اس سے انسانوں کے صرف قیاسی خیالات برابر نہیں ہوسکتے۔ بلاشبہ خدا کا اپنے وجود کی نسبت خبر دینا ایسا ہے کہ گویا خدا کو دکھلا دیتا ہے مگر صرف قیاساً انسان کا کہنا ایسا نہیں ہے اور جبکہ خدا کے کلام سے کہ جو اس کے وجود خاص پر دلالت کرتا ہے ہمارے عقلی خیالات کسی طرح برابر نہیں ہوسکتے تو پھر تکمیل یقین کے لئے کیوں اس کے کلام کی حاجت نہیں۔ کیا اس صریح تفاوت کو دیکھنا تمہارے دل کو ذرا بھی بیدار نہیں کرتا؟ کیا ہمارے کلام میں کوئی بھی ایسی بات نہیں کہ جو تمہارے دل پر مؤثر ہو؟ اے لوگو اس بات کے سمجھنے میں کچھ بھی دقت نہیں کہ عقل انسانی مغیبات کے جاننے کا آلہ نہیں ہوسکتی اور کون تم میں سے اس بات کا منکر ہوسکتا ہے کہ جو کچھ بعد فوت کے پیش آنے والا ہے وہ سب مغیبات میں ہی داخل ہے مثلاً تم سوچو کہ کسی کو واقعی طور پر کیا خبر ہے کہ موت کے وقت کیونکر انسان کی جان نکلتی ہے اور کہاں جاتی ہے اور کون ہمراہ لے جاتا ہے اور کس مقام میں ٹھہرائی جاتی ہے اور پھر کیا کیا معاملہ اس پر گزرتا ہے ان سب باتوں میں عقل انسانی کیونکر قطعی فیصلہ کرسکے۔ قطعی طور پر تو انسان تب فیصلہ کرسکتا ہے کہ جب ایک دو مرتبہ پہلے مرچکا ہوتا اور وہ راہیں اسے معلوم ہوتیں جن راہوں سے خدا تک پہنچتا تھا اور وہ مقاماتؔ اسے یاد ہوتے جن میں ایک عرصہ تک اس کی سکونت رہی تھی مگر اب تو نری اٹکلیں ہیں گو ہزار احتمال نکالو موقعہ پر جاکر تو کسی عاقل نے نہ دیکھا اس صورت میں ظاہر ہے کہ ایسے بے بنیاد خیالات سے آپ ہی تسلی پکڑنا ایک طفل تسلی ہے حقیقی تسلی نہیں ہے۔ اگر تم محققانہ نگاہوں سے دیکھو تو آپ ہی شہادت دو کہ انسان کی عقل اور اس کا کانشنس ان سب امور کو علی وجہ الیقین ہرگز دریافت نہیں کرسکتا اور صحیفہ قدرت کا کوئی صفحہ ان امور پر یقینی دلالت نہیں کرتا۔ دور دراز کی باتیں تو یک طرف رہیں اول قدم میں ہی عقل کو حیرانی

اس کا کمال ظاہر کر دکھایا۔ دنیا کے سخت محتاج ہوکر کیوں اس قدر روپیہ ناحق چھوڑتے ہیں اور اگر اکیلےؔ اس کام کو انجام دینا ممکن نہیں تو دوچار یادس بیس دوسرے پادری

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 338

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 338

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/338/mode/1up

ماننا چاہئے کیونکہ جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں کلام کیؔ عظمت و شوکت متکلم کی علمی

ہے کہ روح کیا چیز ہے اور کیونکر داخل ہوتی اور کیونکر نکلتی ہے ظاہراً تو کچھ نکلتا نظر نہیں آتا اور نہ داخل ہوتا نظر آتا ہے اور اگر کسی جاندار کو وقت نزع جان کے کسی شیشہ میں بھی بند کرو تب بھی کوئی چیز نکلتی نظر نہیں آتی اور اگر بند شیشہ کے اندر کسی مادہ میں کیڑے پڑجائیں تو ان روحوں کے داخل ہونے کا بھی کوئی راہ دکھائی نہیں دیتا۔ انڈے میں اس سے بھی زیادہ تعجب ہے کس راہ سے روح پرواز کرکے آتی ہے اور اگر بچہ اندر ہی مر جائے تو کس راہ سے نکل جاتی ہے کیا کوئی عاقل اس معمہ کو صرف اپنی ہی عقل کے زور سے کھول سکتا ہے۔ وہم جتنے چاہو دوڑاؤ مگر مجرد عقل کے ذریعہ سے کوئی واقعی اور یقینی بات تو معلوم نہیں ہوتی پھر جبکہ پہلے ہی قدم میں یہ حال ہے تو پھر یہ ناقص عقل امور معاد میں قطعی طور پر کیا دریافت کرلے گی؟ کیا آپ لوگوں میں اس بات کا سمجھنے والا کوئی نہیں رہا؟ کیا تمہاری اس مصیبت زدہ حالت پر تمہیں آپ ہی رحم نہیں آتا؟ جس حالت میں جیفۂ دنیا کے پیچھے تمہارے پیٹ میں اتنی کھلبلی پڑی ہوئی ہے کہ اس کے حصول کے جوش میں ہزارہا کوس کا سفر خشکی و تری میں کرتے ہو تو کیا عالم معاد تمہاری نظر میں کچھ چیز نہیں۔ افسوس کیوں آپ لوگوں کو سمجھ نہیں آتا کہ روح کی ہریک بے قراری کا چارہ اور نفس امارہ کی ہریک مرض کا علاج صرف اپنے ہی تخیلات اور تصورات سے ممکن نہیں۔ یہ ایک قدرتی قاعدہ ہے کہ جب انسان کسی جذبہ نفسانی یا آفت روحانی میں مبتلاء ہو مثلاً قوت غضبیہ اشتعال میں ہو یا قوت شہویہ شعلہ زن ہو یا کسی مصیبت اور ماتم اورہم اور غم میں گرفتار ہو یا کسی اور تغیر نفسانی یا روحانی سے مقہور ہو تووہ اُن امراض اور اغراض کو کہ جو اس کے نفس اور روح پر غلبہ کررہی ہیںؔ صرف اپنے وعظ اور نصیحت سے دور نہیں کرسکتا بلکہ ان جذبات کے فرو کرنے کے لئے ایک ایسے واعظ کا محتاج ہوتا ہے کہ جو سامع کی نظر میں بارعب اور بزرگ اور اپنی بات میں سچا اور اپنے

جو بیہودہ بازاروں اور دیہات میں گشت کرتے پھرتے ہیں شریک کرلیجئے۔ اور خدا کے ساتھ ذرا لڑکر دکھائیے۔ ورنہ جو لوگ ہمارا مردانہ اشتہار پڑھؔ کر آپ لوگوں کی یہ

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 339

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 339

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/339/mode/1up

طاقتوں کے تابع ہے جو کوئی علمی طاقتوں میں زیادہ تر ہے اس کی تقریرؔ کی

علم میں کامل اور اپنے عہدوں میں وفادار ہو اور باایں ہمہ ان امور کے پورا کرنے پر قادر بھی ہو جن سے سامع کے دل میں خوف یا امید یا تسلی پیدا ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ بات نہایت بدیہی اور ظاہر ہے کہ اکثر اوقات انسان کی یہ حالت ہوتی ہے کہ اگرچہ وہ ایک گناہ کو حقیقت میں ایک گناہ سمجھتا ہے یا ایک امر خلاف استقامت اور صبر کو خلاف استقامت بھی جانتا ہے مگر کچھ ایسا غفلت کا پردہ یا ناگہانی غم کا صدمہ اس کے دل پر آپڑتا ہے کہ وہ پردہ تب ہی اٹھتا ہے کہ جب دوسرا شخص جس کی عظمت اور بزرگی اور صداقت اس کے دل میں متمکن ہے اس کو سمجھاتا ہے اور ترغیب یا ترہیب یا تسلی و تشفی یعنے جیسا کہ موقعہ ہو اس کو دیتا ہے اور اس کا کلام اثر میں کچھ ایسا عجیب ہوتا ہے کہ گو وہ انہیں دلائل کو پیش کرے کہ جو سامع کو معلوم ہیں مگر وہ پاشکستہ کو کمربستہ اور سست کو چست اور ضعیف کو قوی اور مضطرب کو تسلی یافتہ کردیتا ہے اور یہ سب امور ایسے ہیں جن میں دانا انسان آپ اقراری ہوتا ہے کہ وہ اپنے مغلوب النفس یا بے قرار ہونے کی حالتوں میں ان کا محتاج ہے بلکہ جن کی روحیں نہایت لطیف اور طالب حق اور جن کے دل گناہوں کی کدورت اور کثافت سے جلد تر بیزار ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنے مغلوب النفس ہونے کی حالتوں میں خود بیمار کی طرح اس علاج کے مستدعی ہوتے ہیں تا کسی مرد خدا کی زبان سے کلمہ ترغیب یا ترہیب یا کلمات تسلی و تشفی سن کر اپنے اندرونی انقباض سے شفا پاویں غرض بلاشبہ انسان کی فطرت میں یہ خاصیت ہے کہ گو وہ کیسا ہی عالم فاضل کیوں نہ ہو مگر حوادث اور جذبات نفسانی کے وقت جیسا دوسروں کی باتوں سے متاثر ہوتا ہے صرف اپنی باتوں سے ہرگز نہیں۔ مثلاً جس پر کوئی حادثہ پڑتا ہے یا کوئی ماتم وقوع میں آجاتا ہے وہ فی نفسہ اس بات سے کچھ بے خبر نہیں ہوتا کہ دنیا خوشی اور امن کی جگہ نہیں نہ ہمیشہ رہنے کا مقام ہے لیکن صدمہ کے وقت اس عاجز انسان پر قلق اور بے قراری غلبہ کرجاتی ہے اور دل ہاتھ سے نکلتا جاتا

زنانہ باتیں سنتے ہیں اب ان لوگوں پر حضرات عیسائیوں کی دیانت اور خداترسی جیسی کہ ہے بخوبی کھل جائے گی۔

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 340

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 340

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/340/mode/1up

عظمت و شوکت بھی زیادہ تر ہے اور اگر اس دلیل کو بھی نظر سے ساقط کردیا تھا تو

ہے ایسے وقت میں اگر کوئی ایسا شخص کہ جو اس کی نظر میں نہایت مقدّس و کامل و بزرگوار ہے‘ اسے سمجھا جاتا ہے کہ صبر کر صابروں کے جناب الٰہی میں بڑے بڑے اجر ہیں اور یہ دنیا ہمیشہ رہنے کی جگہ نہیں سوؔ اگرچہ یہ بات اس کو پہلے بھی معلوم ہی تھی پر اس کے مونہہ سے سن کر ایک عجیب طرح کا اثر ہوتا ہے کہ جو گرتے ہوئے کو تھام لیتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ ہر وقت اور ہر محل میں اپنے ہی خود تراشیدہ خیالات اپنے دل پر اثر ڈال نہیں سکتے بلکہ بسا اوقات جذبات نفسانی یا آلام روحانی سے ایسی عقل دب جاتی ہے کہ انسان میں سوچنے اور سمجھنے کی قوت ہی نہیں رہتی اور اس وقت وہ خود اپنے تئیں اس حالت میں پاتا ہے کہ اس کے لئے کسی دوسرے کی طرف سے ترغیب یا ترہیب یا تسلی تشفی کی باتیں صادر ہوں۔ پس ان تمام امور پر نظر ڈالنے سے دانا انسان اس نتیجہ تک پہونچ سکتا ہے کہ خدا نے جو اس کی فطرت کو ایسا بنایا ہے یہی وضع فطرت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس حکیم مطلق نے انسان ضعیف البنیان کو اپنی ہی رائے اور قیاس پر چھوڑنا نہیں چاہا بلکہ جس طور کے واعظوں اور متکلموں سے اس کی تسلی اور تشفی ہوسکتی ہے اور اس کے جذبات نفسانی دب سکتے ہیں اور اس کی روحانی بے قراریاں دور ہوسکتی ہیں وہ سب متکلم اس کے لئے پیدا کئے ہیں اور جس کلام سے اس کی امراض و اعراض دور ہوسکتی ہیں وہ کلام اس کے لئے مہیا کیا ہے یہ ثبوت ضرورت الہام کا کسی اور طرز سے نہیں بلکہ خدا کا ہی قانون قدرت اسے ثابت کرتا ہے کیا یہ سچ نہیں کہ دنیا میں کروڑہا آدمی کہ جو مصیبت میں معصیّت میں غفلت میں گرفتار ہوتے ہیں ہمیشہ وہ دوسرے واعظ اور ناصح سے متاثر ہوا کرتے ہیں اور ہر جگہ اپنا ہی علم اور اپنے ہی خیالات ہرگز کافی نہیں ہوتے اور ساتھ ہی یہ بات بھی ہے کہ جس قدر متکلّم کی ذاتی عظمت اور وقعت سامع کی نظر میں ثابت ہو اُسی قدر اس کا کلام تسلی اور تشفی بخشتا ہے اسی شخص کا وعدہ موجب تسکین خاطر ہوتا ہے کہ جو سامع کی نظر میں صادق الوعد اور ایفاء وعدہ پر قادر بھی ہو اس صورت میں کون اس بدیہی بات میں کلام کرسکتا ہے کہ امور معاد اور ماوراء المحسوسات میں اعلیٰ مرتبہ

ایکؔ اَور عیسائی صاحب ۲۵۔ مئی ۱۸۸۲ء کے نور افشان میں یہ سوال کرتے ہیں کہ کون کون سے علامات یا شرائط ہیں جن سے سچے اور جھوٹے نجات دہندہ میں تمیز کی جاسکے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 341

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 341

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/341/mode/1up

کاش مسئلہ خواصؔ الاشیاء حق کا یاد رکھتے کیا انہیں معلوم نہیں کہ

تسلی اور تشفی اور تسکین خاطر کا کہ جو جذبات نفسانی اور آلام روحانی کو دور کرنے والا ہو صرف خدا کے کلام سے حاصل ہوسکتا ہے اور قانون قدرت پر نظر ڈالنے سے اس سے عمدہ تر موجب تسلی و تشفی کا اور کوئی امر قرار نہیں پاسکتا جب کوئی آدمی خدا کے کلام پر پورا پورا ایمان لاتا ہے اور کوئی اعراض صوری یا معنوی درمیان نہیں ہوتا تو خدا کا کلام اس کو بڑے بڑے گردابوں میں سے بچالیتا ہے اور سخت سخت جذبات نفسانی کا مقابلہ کرتا ہے اور بڑے بڑےؔ ُ پردہشت حادثوں میں صبر بخشتا ہے جب دانا انسان کسی مشکل یا جذبہ نفسانی کے وقت میں خدا کے کلام میں وعد اور وعید پاتا ہے یا کوئی دوسرا اسے سمجھاتا ہے کہ خدا نے ایسا فرمایا ہے تو ایکبارگی اس سے ایسا متاثر ہوجاتا ہے کہ توبہ پر توبہ کرتا ہے۔ انسان کو خدا کی طرف سے تسلی پانے کی بڑی بڑی حاجتیں پڑتی ہیں بسا اوقات وہ ایسی سخت مصیبت میں گرفتار ہوجاتا ہے کہ اگر خدا کا کلام آیا نہ ہوتا اور اس کو اپنی اس بشارت سے مطلع نہ کرتا 3

333۔ ۱؂ تو وہ بے حوصلہ ہوکر شاید خدا کے وجود سے ہی انکار کرتا اور یا ناامیدی کی حالت میں خدا سے بکلی رابطہ توڑ دیتا اور یا غموں کے صدمہ سے ہلاک ہوجاتا۔ اسی طرح جذبات نفسانی ایسے ہیں کہ جن کی کسرِ ثوران کے لئے خدا کے کلام کی ضرورت تھی اور قدم قدم میں انسان کو وہ امور پیش آتے ہیں جن کا تدارک صرف خدا کا کلام کرسکتا ہے جب انسان خدا کی طرف متوجہ ہونا چاہتا ہے تو صدہا موانع اس کو اس توجہ سے روکتے ہیں کبھی اس دنیا کی لذت یاد ہوتی ہے کبھی ہم مشربوں کی صحبت دامن کھینچتی ہے کبھی اس راہ کی تکالیف ڈراتی ہیں کبھی قدیمی عادات اور ملکات راسخہ سنگ راہ ہوجاتی ہیں کبھی ننگ کبھی نام کبھی ریاست کبھی حکومت اس راہ سے روکنا چاہتی ہے اور کبھی یہ سارے ایک لشکر کی طرح

اس کا جواب بھی یہی ہے کہ خدا کی طرف سے سچا نجات دہندہ وہؔ شخص ہے جس کی متابعت سے سچی نجات حاصل ہو یعنی خدا نے اس کے وعظ میں یہ برکت رکھی ہو کہ کامل پیرو

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 342

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 342

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/342/mode/1up

صدہا چیزیں ایک ہی جنس کی ہوتی ہیںؔ بلکہ ایک ہی صنف کے تحت میں داخل ہوتی

ایک جگہ فراہم ہوکر اپنی طرف کھینچتے ہیں اور اپنے فوائد نقد کی خوبیاں پیش کرتے ہیں پس ان کے اتفاق اور اژدہام میں ایک ایسا زور پیدا ہوجاتا ہے کہ خیالات خود تراشیدہ ان کی مدافعت نہیں کرسکتے بلکہ ایک دم بھی ان کے مقابلہ پر ٹھہر نہیں سکتے ایسے جنگ کے موقعہ میں خدا کے کلام کی پرزور بندوقیں درکار ہیں کہ تا مخالف کی صف کو ایک ہی فیر میں اڑادیں۔ کیا کوئی کام یکطرفہ بھی ہوسکتا ہے پس یہ کیونکر ممکن ہے کہ خدا ایک پتھر کی طرح ہمیشہ خاموش رہے اور بندہ وفاداری میں صدق میں صبر میں خودبخود بڑھتا جائے اور صرف یہی ایک خیال کہ آسمان اور زمین کا البتہ کوئی خالق ہوگا اُس کو ہمیشہؔ کی قوت دے کر عشق کے میدانوں میں آگے سے آگے کھینچتا چلا جائے خیالی باتیں واقعی باتوں کی ہرگز قائم مقام نہیں ہوسکتیں اور نہ کبھی ہوئیں مثلاً ایک مفلس قرض دار نے کسی راست باز دولت مند سے وعدہ پایا ہے کہ عین وقت پر میں تیرا کل قرضہ ادا کردوں گا اور دوسرا ایک اور مفلس قرضدار ہے اس کو کسی نے اپنی زبان سے وعدہ نہیں دیا وہ اپنے ہی خیالات دوڑاتا ہے کہ شاید مجھ کو بھی وقت پر روپیہ مل جائے کیا تسلی پانے میں یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں ہرگز نہیں ہرگز نہیں یہ سب قوانین قدرت ہی ہیں۔ قوانین قدرت سے کون سی حقانی صداقت باہر ہے۔ پر افسوس ان لوگوں پر کہ جو قوانین قدرت کی پابندی کا دعویٰ کرتے کرتے پھر انہیں توڑ کر دوسری طرف بھاگ گئے اور جو کچھ کہا تھا اس کے برعکس عمل میں لائے۔ اے برہمو سماج والو اگر تم کو دینی اُمور میں دلسوزی سے نظر نہیں۔ اگر تمہیں معاد کی کچھ بھی پرواہ نہیں تو کیا ابھی تک دنیوی امور میں تم پر ثابت نہیں ہوچُکا کہ عقل نے تن تنہا کوئی کام تمہاری دنیا کا کبھی سرے تک نہیں پہونچایا کیا تمہیں اس صداقت کے ماننے سے ہنوز کسی عذر کی گنجائش ہے

اس کا ظلمات نفسانیہ اور اَدْناسِ بشریہ سے نجات پاجائے اور اس میں وہ انوار پیدا ہوجائیں جن کا پاک دلوںؔ میں پیدا ہوجانا ضروری ہے ہاں جب تک پیروی کنندہ کی متابعت میں کسر ہو تب تک ظلماتِ نفسانیہ دور نہیں ہوں گے اور نہ انوارِ باطنیہ ظاہر ہوں گے لیکن یہ اس نبی متبوع کا قصور نہیں بلکہ خود وہ مدع ئ اِتباع کا اعراض صوری یا معنوی

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 343

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 343

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/343/mode/1up

ہیں مگر پھر بھی حکیم مطلق نے ہریک چیز میں جداؔ جدا خواص مودّع کئے ہیں۔

کہ عقل کو کبھی یہ لیاقت حاصل نہیں ہوئی کہ بغیر اشتمال کسی دوسرے رفیق کے بذات خود کسی کام کو بوجہ احسن و اکمل انجام دے سکے سچ کہو کیا ابھی تک تمہیں اس بات کا امتحان نہیں ہوا کہ جو کام صرف عقل پر پڑا وہی مشتبہ اور مظنون اور ناتمام رہا اور جب تک واقعات کا نقشہ بذریعہ کسی واقعہ دان کے طیار ہوکر نہ آیا تب تک تمام کام عقل اور قیاس کا ادھورا اور خام رہا تم انصاف سے کہو کیا تمہیں آج تک اس بات کی خبر نہیں کہ ہمیشہ سے عقلمند لوگوں کا یہی شعار ہے کہ وہ اپنی قیاسی وجوہ کو کبھی تجربہ سے تقویت دے لیتے ہیں اور کبھی تواریخ سے اور کبھی نقشہ جات موقعہ نما سے اور کبھی خطوط اور مراسلات سے اور کبھی اپنی ہی قوت باصرہ اور سامعہ اور شامہ اور لامسہ وغیرہ کی گواہی سے پس اب تو تم آپ ہی سوچو اوراپنے دلوں میں آپ ہی خیال کرو اور اپنی نگاہوں میں آپ ہی جانچ لو کہ جس حالت میں دنیوی امور کے لئے کہ جو مشہود اور محسوسؔ ہیں دوسرے رفیقوں کی حاجت پڑے تو پھر ان امور کے لئے کہ جو اس عالم سے وراء الوراء اور غیب الغیب اور اخفی من الاخفی ہیں کس قدر زیادہ حاجت ہے اور جس حالت میں مجرد عقل دنیا کے سہل اور آسان امور کے لئے بھی کافی نہیں تو پھر امور معاد کے دریافت کرنے میں کہ جو اَدق اور اَلْطَف ہیں کیونکر کافی ہوسکتی ہے اور جبکہ تم معاشرت کے ناپائیدار اور ناچیز کاموں میں جن کا نفع نقصان ایک گزر جانے والی چیز ہے مجرد قیاس اور عقل کو قابل اطمینان نہیں سمجھتے تو پھر آپ لوگ امور معاد میں جن کے آثار دائمی اور جن کے خطرات لاعلاج ہیں فقط اسی عقل ناقص پر کیونکر بھروسہ کرکے بیٹھ رہے ہیں کیا یہ اس بات کا عمدہ ثبوت نہیں کہ آپ لوگوں نے آخرت کے فکر کو پس پشت ڈال رکھا ہے اور جیفۂ دنیا بڑا لذیذ اور مزہ دار معلوم ہورہا ہے

کی آفت میں گرفتار ہے اور اسی اعراض کی وجہ سے محروم اور محجوب ہے یہی حقیقی علامت ہے جس سے انسان گزشتہ قصوں اور کہانیوں کا محتاج نہیں ہوتا بلکہ خود طالب حق بن کر سچے ہادی اور حقیقی فیض رساں کوؔ شناخت کرلیتا ہے اور اس تقدس اور نور کو

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 344

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 344

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/344/mode/1up

بعضؔ لوگ اس دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں کہ بولی انسان کی ایجاد ہے۔

ورنہ کیونکر باور کیا جائے کہ خدا نے اتنی بھی تمہیں سمجھ نہیں دی کہ جس حالت میں اس کریم مطلق نے دنیا کے ناپائیدار امور میں عقل انسانی کو تن تنہا نہیں چھوڑا بلکہ کئی رفیقوں سے تقویت بخشی ہے تو دارِ آخرت کے نازک اور دقیق مہمّات میں جو باقی اور دائم ہیں اس کی رحمت عظیمہ کا ازلی اور ابدی خاصہ کیوں مفقود ہوگیا کہ اس جگہ عقل غریب اور سرگردان کو رفیق کامل کے اشتمال سے تقویت نہ بخشی اور ایسا مصاحب اس کو عنایت نہ کیا کہ جو اس ملک کے کلی اور جزئی امور سے ذاتی واقفیت رکھتا اور رویت کے گواہ کی طرح خبر دے سکتا تا قیاس اور تجربہ دونوں مل کر انواع اقسام کی برکتوں کا چشمہ ٹھہرتے اور طالب حق کو اس مرتبہ کمال معرفت تک پہونچا سکتے جس کے حصول کا جوش اس کی فطرت میں ڈالا گیا ہے نہ معلوم آپ لوگوں کو کس نے بہکا دیا کہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ گویا عقل اور الہام میں کسی قدر باہم تناقص ہے جس کے باعث وہ دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے خدا تمہاری آنکھیں کھولے اور تمہارے دلوں کے پردے اٹھا دے کیا تم اس آسان بات کو سمجھ نہیں سکتے کہ جس حالت میں الہام کی طفیل سے عقل اپنے کمال کو پہونچتی ہے اپنی غلطیوں پر متنبہ ہوتی ہے اپنی راہ مقصود کی سمت خاص کو دریافت کرلیتی ہے آوارہؔ گردی اور سرگردانی سے چھوٹ جاتی ہے اور ناحق کی محنتوں اور بے ہودہ مشقتوں اور بے فائدہ جان کنی سے رہائی پاتی ہے اور اپنے مشتبہ اور مظنون علم کو یقینی اور قطعی کرلیتی ہے اور مجرد اٹکلوں سے آگے بڑھ کر واقعی وجود پر مطلع ہوجاتی ہے تسلی پکڑتی ہے آرام اور اطمینان پاتی ہے تو پھر اس صورت میں الہام اس کا محسن و مددگار اور مربی ہوا یا اس کا دشمن اور مخالف اور ضرر رسان ہوا۔یہ کس قسم کا تعصب اور کس نوع کی نابینائی ہے کہ جو ایک بزرگ مربی کو جو صریح رہبری

کامل اور فیض رساں ہی کی نسبت اعتقاد کیا گیا ہے نہ صرف اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے بلکہ اپنی استعداد کے موافق اس کا مزہ بھی چکھ لیتا ہے اور نجات کو نہ صرف خیالی طور پر ایک ایسا امر قرار دیتا ہے کہ جو قیامت میں ظاہر ہوگا بلکہ جہل اور ظلمت اور شک اور شبہ اور نفسانی جذبات کے عذاب سے نجات پا کر اور آسمانی نوروں سے منور ہوکر

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 345

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 345

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/345/mode/1up

اور جبکہ انسان کی ایجاد ہوئی توؔ پھر بلاغت اور فصاحت اور دوسرے کمالاتِ

اور رہنمائی کا کام دے رہا ہے رہزن اور مزاحم تصور کیا جاتا ہے اور جو گڑھے سے باہر نکالتا ہے اس کو گڑھے کے اندر دھکیلنے والا سمجھ رہے ہیں سارا جہان جانتا ہے اور تمام آنکھوں والے دیکھ رہے ہیں اور غور کرنے والی طبیعتیں مشاہدہ کررہی ہیں کہ دنیا میں عقل کی خوبی اور عظمت کو ماننے والے لاکھوں ایسے ہوگزرے ہیں اور اب بھی ہیں کہ جو باوجود اس کے کہ عقل کے پیغمبر پر ایمان لائے اور عاقل کہلائے اور عقل کو عمدہ چیز اور اپنا رہبر سمجھتے تھے مگر باایں ہمہ خدا کے وجود سے منکر ہی رہے اور منکر ہی مرے لیکن ایسا آدمی کوئی ایک تو دکھلاؤ کہ جو الہام پر ایمان لاکر پھر بھی خدا کے وجود سے انکاری رہا پس جس حالت میں خدا پر محکم ایمان لانے کے لئے الہام ہی شرط ہے تو ظاہر ہے کہ جس جگہ شرط مفقود ہوگی اس جگہ مشروط بھی ساتھ ہی مفقود ہوگا سو اب بدیہی طور پر ثابت ہے کہ جو لوگ الہام سے منکر ہو بیٹھے ہیں انہوں نے دیدہ و دانستہ بے ایمانی کی راہوں سے پیار کیا ہے اور دہریہ مذہب کے پھیلنے اور شائع ہوجانے کو روا رکھا ہے یہ نادان نہیں سوچتے کہ جو وجود غیب الغیب نہ دیکھنے میں آسکتا ہے نہ سونگھنے میں نہ ٹٹولنے میں اگر قوت سامعہ بھی اس ذات کامل کے کلام سے محروم اور بے خبر ہو تو پھر اس ناپیدا وجود پر کیونکر یقین آوے اور اگر مصنوعات کے ملاحظہ سے صانع کا کچھ خیال بھی دل میں آیا لیکن جب طالب حق نے مدتُ العمر کوشش کرکے نہ کبھی اس صانع کو اپنی آنکھوں سے دیکھا نہ کبھی اُس کے کلام پر مطلع ہوا نہ کبھی اُس کی نسبت کوئی ایسا نشان پایا کہ جو جیتے جاگتے میں ہوناؔ چاہئے تو کیا آخر اس کو یہ وسوسہ نہیں گزرے گا کہ شاید میری فکر نے ایسے صانع

اسی عالم میں حقیقت نجات کو پالیتا ہے۔ اب جبکہ سچےؔ نجات دہندہ کی یہی علامت ٹھہری اور یہی طالب حق کا مقصود اعظم ہے کہ جو اس کی زندگی کا اصل مقصد اور اس کے مذہب پکڑنے کی علت غائی ہے تو سمجھنا چاہئے کہ یہ علامت صرف حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی ہے اور انہیں کی اتباع سے کہ جو قرآن شریف کی اتباع پر منحصر ہے باطنی نور اور محبت الٰہیہ حاصل ہوتی ہے قرآن شریف جو آنحضرت کی اِتباع کا مدار علیہ ہے ایک ایسی کتاب ہے جس کی متابعت سے اسیؔ جہان میں آثار نجات کے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 346

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 346

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/346/mode/1up

متعلقہ کلام میں جیسا کہ چاہئے انسان مراتب اقصیٰؔ تک پہونچ سکتا ہے کیونکہ

کے قرار دینے میں غلطی کی ہو اور شاید دہریہ اور طبعیہ ہی سچے ہوں کہ جو عالم کی بعض اجزا کو بعض کا صانع قرار دیتے ہیں اور کسی دوسرے صانع کی ضرورت نہیں سمجھتے میں جانتا ہوں کہ جب نرا عقل پرست اس باب میں اپنے خیال کو آگے سے آگے دوڑائے گا تو وسوسہ مذکورہ ضرور اس کے دل کو پکڑ لے گا کیونکہ ممکن نہیں کہ وہ خدا کے ذاتی نشان سے باوجود سخت جستجو اور تگاپو کے ناکام رہ کر پھر ایسے وساوس سے بچ جائے وجہ یہ کہ انسان میں یہ فطرتی اور طبعی عادت ہے کہ جس چیز کے وجود کو قیاسی قرائن سے واجب اور ضروری سمجھے اور پھر باوجود نہایت تلاش اور پرلے درجہ کی جستجو کے خارج میں اس چیز کا کچھ پتہ نہ لگے تو اپنے قیاس کی صحت میں اس کو شک بلکہ انکار پیدا ہوجاتا ہے اور اس قیاس کے مخالف اور منافی سینکڑوں احتمال دل میں نمودار ہوجاتے ہیں اور بارہا ہم تم ایک مخفی امر کی نسبت قیاس دوڑایا کرتے ہیں کہ یوں ہوگا یا وُوں ہوگا اور جب بات کھلتی ہے تو وہ اور ہی ہوتی ہے انہیں روزمرہ کے تجارب نے انسان کو یہ سبق دیا ہے کہ مجرد قیاسوں پر طمانیت کرکے بیٹھنا کمال نادانی ہے غرض جب تک قیاسی اٹکلوں کے ساتھ خبر واقعہ نہ ملے تب تک ساری نمائش عقل کی ایک سراب ہے اس سے زیادہ نہیں جس کا آخری نتیجہ دہریہ پن ہے سو اگر دہریہ بننے کا ارادہ ہے تو تمہاری خوشی ورنہ وساوس کے تند سیلاب سے کہ جو تم سے بہتر ہزارہا عقلمندوں کو اپنی ایک ہی موج سے تحت الثریٰ کی طرف لے گیا ہے صرف اُسی حالت میں تم بچ سکتے ہو کہ جب عروہ و ثقیٰ الہام حقیقی کو مضبوطی سے پکڑلو ورنہ یہ تو ہرگز نہیں ہوگا کہ تم مجرد خیالات عقلیہ میں ترقی کرتے کرتے آخر خدا کو کسی جگہ بیٹھا ہوا دیکھ لو گے بلکہ تمہارے خیالات کی ترقی کا اگر کچھ انجام ہوگا تو بالآخر یہی انجام ہوگا کہ تم خدا کو بے نشان پاکر اور زندوں کی علامات سے خالی دیکھ کر اور اس کے سراغ لگانے سے عاجز اور درماندہ رہ کر اپنے دہریہ بھائیوں سے ہاتھ جاملاؤ گے اور اِس سے

ظاہر ہوجاتے ہیں کیونکہ وہی کتاب ہے کہ جو دونوں طریق ظاہری اور باطنی کے ذریعہ سے نفوس ناقصہ کو بمرتبہ تکمیل پہونچاتی ہے اور شکوک اور شبہات سے خلاصی بخشتی ہے۔ ظاہری طریق سے اس طرح پر کہ بیان اس کا ایسا جامع دقائق و حقائق ہے کہ جس قدر دنیا میں ایسے شبہات پائے جاتے ہیں کہ جو خدا تک پہنچنے سے روکتے ہیں جن میں مبتلا ہوکر صدہا جھوٹے فرقے پھیل رہے ہیں اور صدہا طرح کے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 347

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 347

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/347/mode/1up

یہ بات بالکل غیر معقول اور خلاف قیاس ہے کہ انسان اپنی ایجاد میں ترقیاتؔ

دھوکاؔ مت کھانا کہ اگر نری عقل کا انجام دہریہ پن ہے تو اب تک برہمو سماج والے کیوں کسی قدر خدا کے وجود کے اقراری ہیں اور کیوںیک لخت انکاری نہیں ہوجاتے اس کے دو باعث ہیں ایک تو یہ کہ ہنوز ان کو اپنے خیالات میں پوری پوری ترقی حاصل نہیں ہوئی اور جس وجود کو فرضی طور پر انہوں نے قرار دے لیا ہے ابھی تک اسی فرضی خیال پر ٹھہرے ہوئے ہیں اور تاحال آگے قدم بڑھا کر اس جستجو میں نہیں پڑے کہ اس فرضی وجود کا خارج میں کہیں پتہ لگاویں مگر یہ بات یاد رکھو کہ جب ہی کہ وہ اپنے خیالات میں ترقی کرکے کچھ آگے قدم بڑھاویں گے تو پہلا اثر اس پیش قدمی کا یہی ہوگا کہ ان کے دلوں میں یہ کھٹکا پیدا ہوجائے گا کہ جس ذات کو ہم حی قیوم اور ہر جگہ موجود تسلیم کررہے ہیں وہ کہاں اور کدھر اور کس طرف ہے۔ اگر وہ واقعی طور پر بوجود خارجی موجود ہے توپھر اس کا کیوں پتہ نہیں ملتا اور کیوں وہ تلاش کرنے والوں پر اپنی ہستی کو ظاہر نہیں کرتا اس کھٹکے کے پیدا ہونے سے یا تو وہ بالآخر الہام حقیقی پر ایمان لائیں گے اور اپنے نفس کو ورطۂ شبہات سے چھوڑا لیں گے اور اگر یہ نہیں تو پھر ذرا خیالات کی ترقی ہونے دیجئے پھر دیکھنا کہ پکے دہریہ ہیں یا نہیں۔ انہیں کے لاکھوں بھائی کہ جو مجرد عقل کے پابند تھے جب ان کے خیالات نے ترقی کی تو آخر طبعیہ اور دہریہ ہوکر مرے یہ کچھ انوکھے عقل پرست نہیں ہیں کہ جو خیالات میں ترقی کرکے دہریہ نہیں بنیں گے بلکہ خدا کی رہائش کے شیش محل انہیں نظر آجائیں گے بلاشبہ جو کچھ اثر خیالات کی ترقی سے پہلے عقلمندوں

خیالاتؔ باطلہ گمراہ لوگوں کے دلوں میں جم رہے ہیں سب کا ردّ معقولی طور پر اس میں موجود ہے اور جو جو تعلیم حقہ اور کاملہ کی روشنی ظلمت موجودہ زمانہ کے لئے درکار ہے وہ سب آفتاب کی طرح اس میں چمک رہی ہے اور تمام امراض نفسانی کا علاج اس میں مندرج ہے اور تمام معارف حقہ کا بیان اس میں بھرا ہوا ہے اور کوئی دقیقہ علم الٰہی نہیں کہ جو آئندہ کسی وقت ظاہر ہوسکتا ہے اور اس سے باہر رہ گیا ہو۔ اور باطنی طریق سے اس طور پر کہ اس کی کامل متابعت دل کو ایسا صاف کردیتی ہے کہ انسان اندرونی آلودگیوں

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 348

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 348

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/348/mode/1up

کرنے سے قاصر اور عاجز رہے اور جب کلام کی بلاغت اور فصاحت میں

کی ذات پر آیا وہی اثر کسی دن ان کے لئے بھی درپیش ہے توقف صرف اتنا ہی ہے کہ ابھی اُن کو خدا کیؔ پوری جستجو اور تلاش میں بہت سی کسر باقی ہے اور ہنوز دنیا ہی پیاری اور میٹھی معلوم ہوتی ہے اور دن رات اسی کا سودا ہے اور اسی کے لئے سمندر چیرتے ہوئے دور دراز ملکوں میں چلے جاتے ہیں اور ابھی تک آخرت کے ملک کا ان کو دھیان ہی نہیں اور نہ اس مالکُ الملک کا کچھ خیال ہے مگر ماشاء اللہ جب وہ دن آئیں گے کہ وہ مجرد عقل کے ذریعہ سے اس بات کا فیصلہ کرنا چاہیں گے کہ اگر خدا موجود ہے تو کہاں ہے اور کیوں اس کا وجود تمام موجود چیزوں کی طرح محسوس نہیں تو پھر ایسا فیصلہ ہوگا کہ یا تو اس ذات لطیف کے کلام پر ایمان لانا پڑے گا اور یا یہ فرضی قول بھی ہاتھ سے چھوڑنا پڑے گا کہ مصنوعات کے لئے ایک صانع ہونا چاہئے دوسرا باعث جس کی تقویت سے مجرد عقل پرست جلد تر دہریہ بننے سے رک جاتے ہیں الہام الٰہی کی برکتیں اور وحی اللہ کے آفتاب کی شعاعیں ہیں جنہوں نے خدا کی ہستی کو شہرہ آفاق کردیا ہے اور جن کی متواتر بارشوں نے اقرار ہستی الٰہی کو لاکھوں

سے بالکل پاک ہوکر حضرت اعلیٰ سے اتصال پکڑلیتا ہے اور انوار قبولیت اس پر وارد ہونے شروع ہوجاتے ہیں اور عنایات الٰہیہ اس قدر اس پر احاطہ کرلیتی ہیں کہ جب وہ مشکلات کے وقت دعا کرتا ہے تو کمال رحمت اور عطوفت سے خداوند کریم اس کا جواب دیتا ہے اور بسا اوقات ایسا اتفاق ہوتا ہے کہ اگر وہ ہزار مرتبہ ہی اپنی مشکلات اور ہجوم غموں کے وقت میں سوال کرےؔ تو ہزارہا مرتبہ ہی اپنے مولیٰ کریم کی طرف سے نہایت فصیح اور لذیذ اور متبرّک کلام میں محبّت آمیز جواب پاتا ہے اور الہام الٰہی بارش کی طرح اس پر برستا ہے اور وہ اپنے دل میں محبت الٰہیہ کو ایسا بھرا ہوا پاتا ہے جیسا ایک نہایت صاف شیشہ ایک لطیف عطر سے بھرا ہوتا ہے اور انس اور شوق کی ایک ایسی پاک لذت اس کو عطا کی جاتی ہے کہ جو اس کی سخت سخت نفسانی زنجیروں کو توڑ کر اور اس دخانستان سے باہر نکال کر محبوب حقیقی کی

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 349

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 349

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/349/mode/1up

ہر قسم کی ترقی کرنا اور مرتبۂ کمالؔ تک پہونچ جانا عندالعقل ممنوع نہیں ہے

خداترس روحوں میں مضبوطی سے جما دیا ہے اور کروڑہا دلوں پر ایک بزرگ اثر ڈال رکھا ہے پس چونکہ اسی کی مستحکم اور قدیمی شہادتوں کی بلند آوازوں سے ہریک انسان کی قوت سامعہ بھر گئی ہے اور ہریک عصبہ سماعت کی تمام تار وپود میں وہ دلربا آوازیں ایسی سرایت کرگئی ہیں کہ ایک نادان اور اُمی آدمی کہ جو عقل کے نام سے بھی واقف نہیں اور نہ یہ جانتا ہے کہ دلائل کیا چیز ہیں اگر خدا کی ہستی کے بارہ میں سوال کیا جائے کہ آیا وہ موجود ہے یا نہیں تو ایسے سائل کو وہ نہایت درجہ کا احمق جانتا ہے اور خدا کی ہستی پر ایسا پختہ اعتقاد رکھتا ہے کہ اگر تمام مجرد عقل پرست ایک طرف رکھےؔ جائیں اور دوسری طرف اس کو رکھا جائے تو اس کے یقین کا پلہ بھاری ہو اور لطف یہ کہ معقولیوں اور فلسفیوں کی طرح ایک دلیل بھی اسے یاد نہیں ہوتی بلکہ اس کی بلا کو بھی خبر نہیں ہوتی کہ برہان اور دلیل اور حجت اور قیاس کسے کہتے ہیں غرض انہیں برکتوں کے سہارے سے برہمو سماج والے بھی باوجود سخت بیراہی اختیار کرنے کے اب تک کسی قدر خدا کی ہستی کے قائل ہیں اور خدا کے موجود ہونے کی بزرگ شہرت نے ان کے خیالات کو بھی آوارہ گردی سے تھام رکھا ہے پس

ٹھنڈی اور دلارام ہوا سے اس کو ہر دم اور ہر لحظہ تازہ زندگی بخشتی رہتی ہے پس وہ اپنی وفات سے پہلے ہی ان عنایات الٰہیہ کو بچشم خود دیکھ لیتا ہے جن کے دیکھنے کے لئے دوسرے لوگ بعد مرنے کے امیدیں باندھتے ہیں اور یہ سب نعمتیں کسی راہبانہ محنت اور ریاضت پر موقوف نہیں بلکہ صرف قرآن شریف کے کامل اتباع سے دی جاتی ہیں اور ہریک طالب صادق ان کو پاسکتا ہے ہاں ان کے حصول میں خاتم الرسل اور فخر الرسل کی بدرجہ کامل محبت بھی شرطؔ ہے تب بعد محبت نبی اللہ کے انسان ان نوروں میں سے بقدر استعداد خود حصہ پالیتا ہے کہ جو کامل طور پر نبی اللہ کو دی گئی ہیں۔ پس طالب حق کے لئے اس سے بہتر اور کوئی طریق نہیں کہ وہ کسی صاحب بصیرت اور معرفت کے ذریعہ سے خود اس دین متین میں داخل ہوکر اور اتباع کلام الٰہی اور محبت رسول مقبول اختیار کرکے ہمارے ان بیانات کی حقیت کو بچشم خود دیکھ لے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 350

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 350

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/350/mode/1up

تو اس صورت میں قرآنی بلاغت کی نظیر بنانا بھی ممنوع نہ ہوؔ گا سو واضح

اگرچہ کوئی اپنے خبث باطن سے الہام الٰہی کا شکر گزار نہ ہو مگر درحقیقت اسی کے قوی ہاتھ اور پرزور بازو سے یقین اور صدق کی کشتی چل رہی ہے اور وہی خدادانی کے دریا کا ناخدا ہے اور اگر دہریہ اس کے آثار فیض سے بے بہرہ رہے ہیں تو یہ اس کا قصور نہیں بلکہ خود دہریہ اس شخص کی طرح ہیں کہ جو اپنی فطرت سے اندھا اور بہرہ ہو یا اس عضو کی طرح ہیں جو فاسد اور جذام خوردہ ہوگیا ہو۔

اس جگہ یہ بھی یاد رہے کہ اکیلی عقل کو ماننے والے جیسے علم اور معرفت اور یقین میں ناقص ہیں ویسا ہی عمل اور وفاداری اور صدق قدم میں بھی ناقص اور قاصر ہیں اور ان کی جماعت نے کوئی ایسا نمونہ قائم نہیں کیا جس سے یہ ثبوت مل سکے کہ وہ بھی ان کروڑہا مقدس لوگوں کی طرح خدا کے وفادار اور مقبول بندے ہیں کہ جن کی برکتیں ایسی دنیا میں ظاہر ہوئیں کہ ان کے وعظ اور نصیحت اور دعا اور توجہ اور تاثیر صحبت سے صدہا لوگ پاک روش اور باخدا ہوکر ایسے اپنے مولیٰ کی طرف جھک گئے کہ دنیا و مافیہا کی کچھ پرواہ نہ رکھ کر اور اس جہان کی لذّتوںؔ اور راحتوں اور خوشیوں اور شہرتوں اور فخروں اور مالوں اور ملکوں سے بالکل قطع نظر کرکے اس سچائی کے راستہ پر قدم مارا جس پر قدم مارنے سے ان میں سے سینکڑوں کی

اور اگر وہ اس غرض کے حصول کے لئے ہماری طرف بصدق دل رجوع کرے تو ہم خدا کے فضل اور کرم پر بھروسہ کرکے اس کو طریق اتباع بتلانے کو طیار ہیں پر خدا کا فضل اور استعداد ذاتی درکار ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ سچی نجات سچی تندرستی کی مانند ہے پس جیسی سچی تندرستی وہ ہے کہ جس میں تمام آثار تندرستی کے ظاہر ہوں اور کوئی عارضہ منافی اور مغائر تندرستی کا لاحق نہ ہو اسی طرح سچی نجات بھی وہی ہے کہ جس میں حصول نجات کے آثار بھی پائے جائیں کیونکہ جس چیز کا واقعیؔ طور پر وجود متحقق ہو اس وجود متحقق کے لئے آثار و علامات کا پائے جانا لازم پڑا ہوا ہے اور بغیر تحقق وجود ان آثار و علامات کے وجود اس چیز کا متحقق نہیں ہوسکتا اور جیسا کہ ہم بارہا لکھ چکے ہیں تحققِ نجات کے لئے یہ علامات خاصہ ہیں کہ انقطاع

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 351

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 351

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/351/mode/1up

ہو کہ یہ وسوسہ اول تو ہماری اس تقریر متذکرہ بالا سے دور ہوتا ہے جس میں ہم نے

جانیں تلف ہوئیں ہزارہا سرکاٹے گئے لاکھوں مقدسوں کے خون سے زمین تر ہوگئی پر باوجود ان سب آفتوں کے انہوں نے ایسا صدق دکھایا کہ عاشق دلدادہ کی طرح پابزنجیر ہوکر ہنستے رہے اور دکھ اٹھا کر خوش ہوتے رہے اور بلاؤں میں پڑ کر شکر کرتے رہے اور اسی ایک کی محبت میں وطنوں سے بے وطن ہوگئے اور عزت سے ذلت اختیار کی اور آرام سے مصیبت کو سرپر لے لیا اور تونگری سے مفلسی قبول کرلی ور ہریک پیوند و رابطہ اور خویشی سے غریبی اور تنہائی اور بے کسی پر قناعت کی اور اپنے خون کے بہانے سے اور اپنے سروں کے کٹانے سے اور اپنی جانوں کے دینے سے خدا کی ہستی پر مہریں لگادیں اور کلام الٰہی کی سچی متابعت کی برکت سے وہ انوار خاصہ ان میں پیدا ہوگئے کہ جو ان کے غیر میں کبھی نہیں پائے گئے اور ایسے لوگ نہ صرف پہلے زمانوں میں موجود تھے بلکہ یہ برگزیدہ جماعت ہمیشہ اہلِ اسلام میں پیدا ہوتی رہتی ہے اور ہمیشہ اپنے نورانی وجود سے اپنے مخالفین کو ملزم و لاجواب کرتی آئی ہے لہذا منکرین پر ہماری یہ حجت بھی تمام ہے کہ قرآن شریف جیسے مراتب علمیہ میں اعلیٰ درجہ کمال تک پہونچاتا ہے ویسا ہی مراتب عملیہ کے کمالات بھی اسی کے ذریعہ سے ملتے ہیں اور آثار و انوار قبولیت حضرت احدیت انہیں لوگوں میں ظاہر

الی اللہ اور غلبۂ حُبّ الٰہی اس قدر کمال کے درجہ تک پہونچ جائے کہ اس شخص کی صحبت اور توجہ اور دعا سے بھی یہ امور دوسرے ذی استعداد لوگوں میں پیدا ہوسکیں اور خود وہ اپنی ذاتی حالت میں ایسا منورالباطن ہوکہ اس کی برکات طالب حق کی نظر میں بدیہی الظہور ہوں اور اس میں وہ تمام خصوصیّات اور مخاطبات حضرت احدیت پائی جائیں کہ جو مقربین میں پائی جاتی ہیں۔ اس جگہ کوئی شخص نجومیوں اور جوتشیوں وغیرہ غیب گویوں کی پیشگوئیوں پر دھوکا نہ کھاوے اور بخوبی یاد رکھے کہ ان لوگوں کو اہل اللہ کے انوار اور برکات سے کچھ بھی مناسبت نہیں۔ ہم پہلے بھی لکھ چکے کہ قادرانہ پیشگوئیوں اور کریمانہ مواعید کہ جو حق محضؔ ہیں اور جن میں سراسر

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 352

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 352

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/352/mode/1up

بتوضیحؔ تمام لکھ دیا ہے کہ انسان کی علمی طاقتیں خدا تعالیٰ کی علمی طاقتوں

ہوتے رہے ہیں اور اب بھی ظاہر ہوتے ہیںؔ جنہوں نے اس پاک کلام کی متابعت اختیار کی ہے دوسروں میں ہرگز ظاہر نہیں ہوتے۔ پس طالب حق کے لئے یہی دلیل جس کو وہ بچشم خود معائنہ کرسکتا ہے کافی ہے یعنی یہ کہ آسمانی برکتیں اور ربّانی نشان صرف قرآن شریف کے کامل تابعین میں پائے جاتے ہیں اور دوسرے تمام فرقے کہ جو حقیقی اور پاک الہام سے روگردان ہیں کیا برہمو اور کیا آریا اور کیا عیسائی وہ اس نور صداقت سے بے نصیب اور بے بہرہ ہیں چنانچہ ہریک منکر کی تسلی کرنے کے لئے ہم ہی ذمہ اٹھاتے ہیں بشرطیکہ وہ سچے دل سے اسلام قبول کرنے پر مستعد ہوکر پوری پوری ارادت اور استقامت اور صبر اور صداقت سے طلب حق کے لئے اس طرف تکلیف کش ہو اگر اب بھی کوئی انکار سے باز نہ آوے تو یہ انکار اس کا اس بات پر صاف دلیل ہے کہ وہ دنیا کی محبت سے سچائی کو قبول کرنا نہیں چاہتا اور تمام گفتگو اس کی عناد اور بغض کی راہ سے ہے نہ حق جوئی کی راہ سے۔ اب اے حضرات برہمو !! ذرا آنکھ کھول کر دیکھ لو کہ ہماری اس تحقیق سے بانکشاف تمام

فتح اور نصرت کی بشارتیں اور اقبال اور عزت کی خبریں بھری ہوئی ہیں ان سے انسانی آلات کو کچھ بھی نسبت نہیں خداوند تعالیٰ نے اہل اللہ کو ایسی فطرت بخشی ہے کہ ان کی نظر اور صحبت اور توجہ اور دعا اکسیر کا حکم رکھتی ہے بشرطیکہ شخص مستفیض میں قابلیت موجود ہو اور ایسے لوگ صرف پیش گویوں سے نہیں بلکہ اپنے خزائن معرفت سے اپنے توکّل خارق عادت سے اپنی کامل محبت سے اپنے انقطاع تام سے اپنے صدق اور ثبات سے اپنے انس باللہ اور شوق اور ذوق سے اور اپنے غلبہ خشوع اور خضوع سے اور اپنے تزکیہ نفس سے اور اپنی ترکِ محبتِ دنیا سے اور اپنی کثیر الوجود برکتوں سے کہ جو بارش کی طرح برستی ہیں اور اپنے موید من اللہ ہونے سے اور اپنی بے مثل استقامت اور اعلیٰ درجہ کی وفاداری اور لاثانی تقویٰ اور طہارت اور عظیم الشان ہمت اور انشراحِ صدر سے شناخت کئے جاتے ہیں اور پیشیگوئیاں ان کا اصل منصب

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 353

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 353

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/353/mode/1up

سے ہرگز برابر نہیں ہوؔ سکتیں اور جو علمی طاقتوں میں ادنیٰ اور اعلیٰ اور قوی اور

ثابت ہوگیا کہ الہام نہ غیر ممکن ہے اور نہ غیر موجود بلکہ ایک بدیہی الثبوت صداقت ہے کہ جو عندالعقل واجب اور ضروری اور عندا لتفتیش متحقق الوجود ہے جس کا موجود ہونا ہم نے ثابت کردکھایا ہے پس اے حضرات اب آپ لوگوں پر لازم ہے کہ اس حاشیہ کو اور نیز حاشیہ در حاشیہ نمبر ایک اور نمبر ۲ اور نمبر ۳ کو بغور تمام پڑھیں اور بار بار پڑھیں اور پھر بمقتضائے خدا ترسی راستے کے روشن چراغ کو پاکر ناراستی کے تاریک خیالات کو چھوڑ دیں اورؔ اس متعصبانہ شرم کو دل میں جگہ نہ دیں کہ اپنا ہی سیا ہوا کیونکر ادھیڑیں بلکہ لازم ہے کہ جو شخص اپنے تئیں منصف سمجھتا ہے اب وہ اپنا انصاف دکھاوے اور جو اپنے تئیں حق کا طالب جانتا ہے اب وہ حق کے قبول کرنے میں توقف نہ کرے ہاں نفسانی آدمی کو ایسی صداقت کا قبول کرنا جس کے ماننے سے اس کی شیخی میں فرق آتا ہے ایک مشکل امر ہوگا مگر اے ایسی طبیعت کے آدمی!! تو بھی اس قادر مطلق سے خوف کر جس سے آخرکار تیرا معاملہ ہے اور دل میں خوب سوچ لے کہ جو شخص حق کو پاکر پھر بھی طریقہ ناحق کو نہیں چھوڑتا اور مخالفت پر ضد کرتا ہے اور

نہیں ہے بلکہ وہ اس غرض سے ہے کہ تا وہ ان برکتوں کو جو ان پر اور ان کے متعلقین پر وارد ہونے کو ہیں قبل از وقوع بیان کرکے توجہ خاص حضرت احدیت پر یقین دلائیں اور نیز وہ مخاطبات اورؔ مکالمات جو حضرت احدیت کی طرف سے ان کو ہوتے ہیں ان کی صحت اور منجانب اللہ ہونے پر ایک قطعی اور یقینی حجت پیش کریں۔ اور ایسے انسان جن کو یہ سب برکات قدسیہ بکثرت عطا ہوتی ہیں ان کی نسبت خدا کی قدرت اور حکمت قدیمہ کے قانون میں یہی قرار پایا ہے کہ وہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کے سچے اور پاک عقائد ہوں اور جو سچے مذہب پر ثابت اور مستقیم ہوں اور حضرت احدیت سے غایت درجہ کا اتصال اور دنیا و مافیہا سے غایت درجہ کا انقطاع رکھتے ہوں ایسے لوگ کبریت احمر کا حکم رکھتے ہیں اور ان کی فطرت کو ربانی انوار اور حقانی مذہب لازم ہے اور ان کی ذات ستودہ صفات کو کہ جو جامع البرکات ہے بدبخت نجومیوں اور جوتشیوں

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 354

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 354

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/354/mode/1up

ضعیف کا فرق ہوتا ہے وہ ضرور ہے کہ کلام میںؔ ظاہر ہو یعنے جو کلام اعلیٰ طاقت

خدا کے پاک نبیوں کے نفوس قدسیہ کو اپنے نفس امارہ پر قیاس کرکے دنیا کے لالچوں سے آلودہ سمجھتا ہے حالانکہ کلام الٰہی کے مقابلہ پر آپ ہی جھوٹا اور ذلیل اور رسوا ہورہا ہے ایسے شخص کی شقاوت اور بدبختی پر خود اس کی روح گواہ ہوجاتی ہے کہ جو اس کو ہر وقت ملزم کرتی رہتی ہے اور بلاشبہ وہ خدا کے حضور میں اپنی بے ایمانی کا پاداش پائے گا کیونکہ جو شخص نہایت سخت اور جلانے والی دھوپ میں کھڑا ہے وہ ظلِ ظلیل کا آرام نہیں پاسکتا۔ سو اگرچہ نصیحت ایسا تیر نہیں ہے کہ چھوٹتے ہی پار ہوجائے لیکن جس کام کے اختیار کرنے میں صریح دنیا کی رسوائی نظر آتی ہے اور آخر کی بدبختی بھی ٹلنے والی چیز نہیں اس کام کو کیوں ایسے لوگ اختیار کریں جن کا یہ دعویٰ ہے جو ہم عقل کی راہوں پر چلنا چاہتے ہیں بالخصوص برہمو سماج کے بعض متین اور شائستہ لوگ جو ذی علم اور لائق آدمی ہیں ان کی حکیمانہ طبیعت پر ہمیں قوی امید ہے کہ وہ بصدق دلی ان تمام صداقتوں کو جن کی سچائی اس حاشیہ میں ثابت ہوچکی ہے۔ قبول کرلیں گے بلکہ میں یہ امید رکھتا ہوں کہ قبل اس کے جو ایسے لوگ بہؔ تمام و کمال

سے نسبت دینا کمال درجہ کی کج فہمی اور غایت درجہ کی بدنصیبی ہے کیونکہ وہ دنیا کے ذلیل جیفہ خواروں کے ساتھ کچھ مناسبت نہیںؔ رکھتے بلکہ وہ آفتاب اور چاند کی طرح آسمانی نور ہیں اور حکمت الٰہیہ کے قانون قدیم نے اسی غرض سے ان کو پیدا کیا ہے کہ تا دنیا میں آکر دنیا کو منور کریں۔ یہ بات بتوجہ تمام یاد رکھنی چاہئے کہ جیسے خدا نے امراض بدنی کے لئے بعض ادویہ پیدا کی ہیں اور عمدہ عمدہ چیزیں جیسے تریاق وغیرہ انواع اقسام کے آلام اسقام کے لئے دنیا میں موجود کی ہیں اور ان ادویہ میں ابتدا سے یہ خاصیت رکھی ہے کہ جب کوئی بیمار بشرطیکہ اس کی بیماری درجہ شفا یابی سے تجاوز نہ کرگئی ہو ان دواؤں کو برعایت پرہیز وغیرہ شرائط استعمال کرتا ہے تو اس حکیم مطلق کی اسی پر عادت جاری ہے کہ اس بیمار کو حسب استعداد اور قابلیت کسی قدر صحت اور تندرستی سے حصہ بخشتا ہے یا بکلی شفا عنایت کرتا ہے اسی طرح خداوند کریم نے نفوس طیبہ ان مقربین

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 355

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 355

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/355/mode/1up

سے صادر ہوئی ہے وہ اعلیٰ اور جو ادنیٰ طاقت سے صادر ہوئی ہے وہؔ ادنیٰ ہو

یہ حاشیہ پڑھیں متاثر اور ہدایت پذیر ہوجائیں گے کیونکہ دانا اور شریف آدمی کسی بحث میں اپنے تئیں ملزم ہوتے دیکھ کر اپنی حالت کو رسوائی کی نوبت تک نہیں پہونچاتا اور اس وقت سے پہلے جو ذلت ظاہر ہو عزت کے ساتھ حق کو قبول کرکے ارباب حق کی نظر میں قابل تعظیم ٹھہر جاتا ہے لیکن جو شخص اپنی فطرت سے بے حیا اور بے شرم ہے اس کو رسوائی اور ذلت کا ذرہ خیال نہیں اور رسوا ہونے سے وہ کچھ بھی اندیشہ نہیں رکھتا۔ اور حقیقت میں اکثر ایسی جنس کے لوگ دنیا میں پائے جاتے ہیں کہ جو صفت حیا سے بکلی الگ ہوکر بکمال بے حیائی ایک امر بدیہی البطلان پر اصرار کرتے رہتے ہیں اور ہزار سمجھاؤ اپنی ضد کو نہیں چھوڑتے اور اپنی راہ کج سے باز نہیں آتے اور دن کو دیکھ کر پھر اسے رات کہے جاتے ہیں اور اس بات سے کچھ خوف نہیں رکھتے کہ لوگ انہیں اندھا اور نابینا کہیں گے یہی لوگ ہیں جو بباعث شدّت تعصّب و قلّت علم و لیاقت مردہ کی طرح پڑے ہیں اور صداقت کی طرف ایک ذرہ حرکت نہیں کرتے اور راستی اور استقامت کا راستہ نہیں پکڑتے جو ادا دیکھو نرالی جو بات دیکھو ٹیڑھی‘ انہیں کی نسبت ہم بار بار

میں بھی روز ازل سے یہؔ خاصیت ڈال رکھی ہے کہ ان کی توجہ اور دعا اور صحبت اور عقد ہمت بشرط قابلیت امراض روحانی کی دعا ہے اور اُن کے نفوس حضرت احدیت سے بذریعہ مکالمات و مخاطبات و مکاشفات انواع اقسام کے فیض پاتے رہتے ہیں اور پھر وہ تمام فیوض خلق اللہ کی ہدایت کے لئے ایک عظیم الشان اثر دکھلاتے ہیں۔ غرض اہل اللہ کا وجود خلق اللہ کے لئے ایک رحمت ہوتا ہے اور جس طرح اس جائے اسباب میں قانون قدرت حضرت احدیت کا یہی ہے کہ جو شخص پانی پیتا ہے وہی پیاس کی درد سے نجات پاتا ہے اور جو شخص روٹی کھاتا ہے وہی بھوک کے دکھ سے خلاصی حاصل کرتا ہے اسی طرح عادت الٰہیہ جاری ہے کہ امراض روحانی دور کرنے کے لئے انبیا اور ان کے کامل تابعین کو ذریعہ اور وسیلہ ٹھہرا رکھا ہے انہیں کی صحبت میں دل تسلی پکڑتے ہیں اور بشریت کی آلائشیں رو بکمی ہوتی ہیں اور نفسانی ظلمتیں اٹھتی ہیں اور محبت الٰہی کا شوق جوش مارتا ہے اور آسمانی برکات

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 356

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 356

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/356/mode/1up

جیسا کہ خود انسان کے افراد متفاوت الاستعداد پر نظر کرنے سے یہ فرق ظاہر اور

لکھتے ہیں کہ ہوش سنبھالیں اور عقل کا دعویٰ کرتے کرتے بے عقل نہ بن جائیں وہ انسان بڑا نالائق اور دون ہمت کہلاتا ہے جس کی زبان پاکوں اور مقدّسوں کی تحقیر میں تو بڑی لمبی ہو لیکن کلمہ حق بولنے کے وقت میں گونگی ہوجائے اگر یہ لوگ کسی ایسی بات کے سمجھنے سے رک جاتے کہ جو حقیقت میں ایک باریک دقیقہ ہوتا تو میں سمجھتا کہ ان کا کچھ قصور نہیں بات باریک تھی اس لئے سمجھ آنے سے رہ گئی مگر اس تعصب کو دیکھو کہ وہ باتیں کہ جو ادنیٰ استعداد کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے انہیں کے قبول کرنے سے ان کو انکار ہے۔ بھلاؔ الہام ہی کے بحث میں کوئی منصف آدمی خیال کرے کہ کیا اس بات کا سمجھنا کچھ مشکل ہے کہ خدا جو تمام صفات کاملہ سے متّصف ہے گونگا نہیں ہوسکتا بلکہ ضرور لازم ہے کہ جیسے دیکھتا ہے سنتا ہے جانتا ہے ایسا ہی بولتا بھی ہو اور جب بولنے کی صفت پائی گئی تو اس صفت کا فیض بھی افراد لائقہ نوع انسان پر ہونا چاہئے کیونکہ خدا کی کوئی صفت فیض رسانی سے خالی نہیں اور وہ بجمیع صفاتہ مبدء فیوض ہے نہ بہ بعض صفاتہ اور تمام صفتوں کے رو سے انسان کے لئے رحمت ہے نہ بعض صفتوں کے رو سے کیا اس بات کا سمجھنا کچھ پیچ دار ہے کہ انسان جو انواع اقسام کے جذبات نفسانی میں گرفتار ہے اور ہریک لحظہ حرص اور ہوا کی طرف جھکا جاتا ہے وہ آپ ہی قانون شریعت کا واضع اور بنانے والا نہیں ہوسکتا بلکہ وہ پاک قانون اسی کی طرف سے صادر ہوسکتا ہے کہ جو اپنی ذات میں ہریک جذبہ نفسانی اور سہو و خطا سے پاک ہے۔ کیا اس امر میں کچھ شک بھی ہے کہ مجرد عقل خداشناسی کے بارہ میں مرتب ۂہے تک ہرگز نہیں پہونچا سکتی کیا انسانوں کے دلوں میں طبعی طور پر اس خواہش کا احساس پایا نہیں جاتا کہ وہ خدا کی دریافت کے بارے میں ظنون عقلیہ سے آگے قدم بڑھاویں

اپنا جلوہ دکھاتی ہیں اور بغیر ان کے ہرگز یہ باتیں حاصل نہیں ہوتیں پس یہی باتیں ان کی شناخت کی علامات خاصہ ہیں۔ فتدبر و لا تغفل۔

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 357

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 357

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/357/mode/1up

ہویدا ہے اورؔ ضعیف الاستعداد قوی الاستعداد کا مقابلہ نہیں کرسکتا حالانکہ

کیا سچے طالبوں کی روح ایسے انکشاف کے لئے نہیں تڑپتی جس سے ان کو اس زندہ خدا کے وجود اور عالم مجازات پر کامل تسلّی اور تشفّی ملے اور اس کی ہستیؔ اور اس کے وعدوں کا حقیقی طور پر پتہ لگ جاوے۔ کیا یہ امر منصف پر پوشیدہ رہ سکتا ہے کہ جو صدہا مذہبی جھگڑے طول طویل تقریروں سے پیدا ہوئے ہیں جن کا اصل موجب غلط تقریروں کا اثر ہے۔ وہ صرف قانون قدرت کے اشارات سے اور اسی مبہم صحیفہ کے ایمایات سے طے نہیں ہوسکتے بلکہ جو بات تقریروں نے بگاڑی ہے۔ اس کی اصلاح بھی تقریروں ہی سے ہوسکتی ہے اور جو کلام کا مارا ہوا ہے وہ کلام ہی سے زندہ ہوسکتا ہے۔ مگر بمقابلہ ناپاک کلام کے کلام ایسا پاک چاہئیے جو بالکل حق محض اور خدا کے خالص علم سے نکلا ہو۔ پھر جب کہ باوجود بدیہی الصداقت ہونے مسئلہ ضرورت الہام کے پھر بھی بعض لوگ الہام سے انکار کئے جاتے ہیں اور خدا کی مقدس کتاب کو انسان کا اختراع خیال کرتے ہیں تو کیونکر خیال کیا جائے کہ ان کو کچھ خدا کا خوف بھی ہے اور کیونکر امید رکھیں کہ ان کے مونہہ سے بھی کوئی انصاف کا کلمہ نکلے گا۔ جو لوگ کسی حالت میں جھوٹ کو چھوڑنا نہیں چاہتے۔ ان کو ہمارا کہنا بھی عبث ہے اور ان کا اس کتاب کو دیکھنا بھی عبث۔ افسوس کہ صدہا آدمی عاقل کہلا کر پھر جہالت میں گرفتار ہیں۔ آنکھیں رکھتے ہیں پر دیکھتے نہیں۔ اور کان بھی ہیں پر سنتے نہیں۔ اور دل بھی ہے پر سمجھتے نہیں۔ ایسے لوگ برہمو سماج والوں میں کچھ کم نہیں جنہوں نے اپنی عقلمندی بھی دکھلائی تو یہ دکھلائی کہ خدا کی صفات قدیمہ کو اس کی ذات میں سے ادھیڑ کر الگ رکھ دیا اور گونگا اور ناقص الفیض اور ناقص القدرت نام رکھا۔ جب ان کے عقلمندوں کا یہ حال ہے تو کیا وہ جس کی عقل ان میں سے ناقص ہے ان کو دیکھ کر بکلی خدا کی صفات سے منکر نہیں ہوجائے گا۔ کیونکہ اگر خدا بولنے پر قادر نہیں تو پھر کیونکر کوئی سمجھے کہ دیکھنے اور سننے اور جاننے پر قادر ہے۔ اگر اس میں صفت کلام نہیں پائی جاتی تو پھر اس پر کیا دلیل ہے کہ اور صفتیں پائی جاتی ہیں اور اگر صفت تکلم تو اس کو حاصل ہے پر اس صفت سے کسی مخلوق کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا تو کیا یہ

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 358

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 358

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/358/mode/1up

سب انسان ایک ہی نوعؔ میں داخل ہیں ماسوا اس کے یہ خیال بھی صحیح نہیں کہ

خیال نہیں کیا جائے گا کہ وہ درخت رحمت اپنی تمام شاخوں کے ساتھ جو صفات کاملہ ہیں اپنی مخلوق پر سایہ افگن نہیں بلکہ بعض ٹہنیاں اس کی خشک بھی ہیں جن سے کبھی کسی کو فائدہ نہیں پہنچا یہ تو برہمو سماج والوں کا خوش اعتقاد ہے پھر ایسے لوگ باوجود ان ذلیل اور باطل اعتقادوں کے قرآن شریف کو کہ جو تمام صداقتوں کا چشمہ ہے ایسا خیال کررہے ہیں کہ نعوذ باللہ وہ خدا کا کلام نہیں بلکہ خود غرضی سے لکھا گیا ہے۔ اور چونکہ برے خیالات اچھےُ خلقوں سے محروم رکھتے ہیں اس لئے یہ لوگ بھی قرآن شریف پرؔ بدگمانی کرکے طرح طرح کے خبائث میں پڑگئے اور انواع اقسام کی اہانت روا رکھی۔ تندرست کو بیمار قرار دے دیا اور اپنے گھر کے ماتم سے بے خبر رہے۔ افسوس کہ یہ لوگ نہیں سوچتے کہ جو کتاب خودغرضی سے لکھی جاتی ہے کیا اس کی یہی نشانیاں ہوا کرتی ہیں کہ وہ حکمت میں معرفت میں حقائق میں دقائق میں سب کتابوں سے افضل و اعلیٰ ہو۔ اور انسان اس کے مقابلہ سے عاجز ہو۔ کیا ایسی کتاب کو انسان کا افترا کہنا چاہئے۔ جس کے مقابلہ پر اگر سارے انسان فکر کرتے کرتے مربھی جائیں تب بھی اس کے سامنے کچھ بن نہیں پڑے۔ کیا ایسے مقدّس اور معصوم اور پاک اور کامل انسان کو نفسانی اور اہل غرض کہنا چاہئے جس نے دنیا کی تعلیموں میں سے ایک ذرا حصہ نہ پایا اور اُمّی اور محض بے علم ہوکر حکیموں کو اپنے فضائل علمیہ سے شرمندہ کیا تمام فلاسفروں کا گھمنڈ توڑا۔ گم گشتہ لوگوں کو خدا کا راستہ دکھایا۔ اگر اس کام کو کسی انسان نے کیا ہے تو گویا وہ انسان نہیں خدا ہی ہوا جس نے ایسا کام کر دکھایا۔ جس کی نظیر پیش کرنے سے انسانی قوتیں قاصر و درماندہ ہیں۔ اگر وہ پاک نبی جو قرآن شریف لایا نعوذ باللہ نفسانی آدمی ہے تو پھر ان لوگوں کا نام کیا رکھیں جو بڑے بڑے عاقل اور حکیم و فلاسفر بلکہ خدا کہلا کر اور مخلوق پرستوں کی نظر میں ربُّ العالمین بن کر پھر بھی فضائل علمیہ میں اس کے برابر نہ ہوسکے اور ان کی کلام نے قرآن شریف کے سامنے اتنی بھی حیثیت پیدا نہ کی جیسی سمندر کے سامنے ایک نیم قطرہ کی حیثیت ہوتی ہے۔ افسوس کہ یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 359

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 359

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/359/mode/1up

ہر یک بولی انسان کی ہی ایجاد ہے بلکہ بکماؔ ل تحقیق ثابت ہے کہ موجد اور خالق

کسر شان روا رکھ کر یہ خیال نہیں کرتے کہ اس سے ایک عالم کی کسر شان لازم آتی ہے۔ کوئی اپنی عقل پر ناز کرے یا بزعم خود کسی دوسرے نبی کا تابع بن بیٹھے۔ اس کے لئے یہی سیدھا راستہ ہے کہ اول انتہا کی کوشش کرکے قرآن شریف کے حقائق و معارف کے مقابلہ پر اپنی عقل یا اپنی الہامی کتاب میں سے ویسے ہی حقائق حکمیہ نکال کر دکھلا دے پھر جو چاہے بکا کرے۔ مگر قبل اس کے جو اس مہم کو انجام دے سکے جو کچھ وہ کسر شان قرآن شریف کرتا ہے یا جو الفاظ تحقیرانہ حضرت خاتم الانبیاء کے حق میں بولتا ہے۔ وہ حقیقت میں اسی نادان ناقص العقل پر یا اس کے کسی نبی و بزرگ پر وارد ہوتے ہیں۔ کیونکہ اگر آفتاب کی روشنی کو تاریکی قرار دیا جائے تو پھر بعد اس کے اور کون سی چیز رہے گی جس کو ہم روشن کہہ سکتے ہیں۔

اے سر خود کشیدہ از فرقان

پا نہادہ بہ لُجۂ طغیاں

بانگ کم کن بہ پیش نور ہُدٰی

توبہ کن از فسوس و بازیہا

ایں چہ چشمے ست کور و سخت کبود

کافتابے درو چو ذرہ نمود

تانگیری کنارہ زیں رہ و خو

ہست دور از کنار کشتی تو

باخدایت عناد و کیں تاچند

خندہ و بازیت بدیں تاچند

خویشتن رامکش بہ ترک حیا

جائے گریہ مشو باستہزا

مہرؔ تاباں چو برفلک رخشید

چوں توانی بخاک و خس پوشید

شب تواں کرد صد فریب نہاں

لیک در روز روشن ایں نتواں

نور فرقاں نہ تافت است چناں

کو بمانَد نہاں زِ دیدہ وراں

آن چراغ ہدٰی ست دنیا را

رہبر و رہنما ست دنیا را

رحمتے از خداست دنیا را

نعمتے از سماست دنیا را

مخزن راز ہائے ربانی

از خدا آلۂ خدا دانی

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 360

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 360

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/360/mode/1up

انسان کی بولیوں کا وہی خدائے قادر مطلق ہے جس نے اپنیؔ قدرت کاملہ سے

برتر از پایہ بشر بکمال

دستگیر قیاس و استدلال

کار سازِ اَتم بعلم و عمل

حجتش اعظم و اثر اکمل

ہر کہ برعظمتش نظر بکشاد

بے توقف خدایش آمد یاد

داں کہ از کبر و کیں ندید آں نور

کور ماند و ز نور حق مہجور

وہ چہ دارد ازاں یگاں اسرار

دل و جانم فدائے آں اسرار

پُر ز نور جلال حضرت پاک

خور تاباں ز اوج حق برخاک

وہ چہ دارد خزائن اسرار

دل و جانم فدائے آں انوار

ہست آئینہ بہر روئے خدا

عالمے را کشید سوئے خدا

بے زباناں از و فصیح شدند

زِشت رویاں از و صبیح شدند

میوہ از روضۂ فنا خوردند

واز خود و آرزوئے خودُ مردند

دست غیبے کشید دامن دل

پا بر آورد جذب یار زِ گل

بود آں جذبۂ کلام خدا

کہ دل شاں ربود از دنیا

سینۂ شاں ز غیر حق پرداخت

وازمئے عشق آں یگاںُ پر ساخت

چوں شد آں نورِ پاک شامل شاں

تافت از پردہَ بدْرِ کامل شاں

دور شد ہر حجاب ظلمانی

شد سراسر وجود نورانی

خاطرِ شاں بجذب پنہانی

کرد مائل بعشق ربانی

آں چناں عشق تیزَ مرَکب راند

کہ ازاں مشت خاک ہیچ نماند

نے خودی ماند نے ہوا و ہوس

اوفتادہ بخاک و خوں سرکس

عاشقان جلالِ روئے خدا

طالبانِ زلالِ جوئے خدا

پر زعشق و تہی ز ہر آزے

کشت وز ایشاں نخاست آوازے

پاک گشتہ زلوث ہستی خویش

رَستہ از بند خود پرستی خویش

آنچناں یار در کمند انداخت

کہ نہ دانند بادگر پرداخت

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 361

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 361

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/361/mode/1up

انسان کو پیدا کیا اور اس کو اسی غرض سے زبان عطا فرمائی کہ تا وہ کلام کرنے پر

قدم خود زدہ براہ عدم

گم بیادش ز فرق تا بقدم

ذکرِ دلبر غذائے نغز حیات

حاصلِ روزگار و مغزِ حیات

سوختہ ہر غرض بجز دلدار

دوختہ چشمِ خود زغیر نگار

دل و جاں بر رخے فدا کردہ

وصل او اصل مدعا کردہ

مُردہ و خویشتن فنا کردہ

عشق جوشید و کارہا کردہ

از دیار خودی شدند جدا

سیلُ پرزور بودُ برَد ازجا

لا جرم یافتند نور خدا

چوں خودی رفت شد ظہور خدا

تن چو فرسود دلستاں آمد

دل چو ازدست رفت جاں آمد

عشق دلبر بروئے شاں بارید

ابر رحمت بکوئے شاں بارید

ہست ایں قوم پاک را جاہے

کہ ندارد جہاں بدو راہے

دست بہر دعا چو بردارند

مَوردِ فیض ہائے داداراند

کشف رازے گر از خدا خواہند

ملہم از حضرت شہنشاہ اند

کس بسر وقت شاں ندارد راہ

کہ نہاں اند در قباب اللہ

گر نماید خدا یکے زاناں

بَرِکابش دَوَند سلطاناں

ایں ہمہ عاشقان آں یکتا

نور یابند از کلام خدا

گرچہ ہستند از جہاں پنہاں

باز گہہ گہہ ہمی شوند عیاں

ہمچوؔ خورشید و مہ بروں آیند

غیر را چہرہ نیز بنمایند

بالخصوص آں زماں کہ باد خزاں

باغ مہر و وفا کند ویراں

دل بہ بندَد جہاں بدار فنا

لب کشاید بمدحت دنیا

جیفہ را کنند مدح و ثنا

واز خداوند جود استغنا

عاشق زر شوند و دولت و جاہ

سرد گردد محبت آں شاہ

شوکت و شان ایں سرائے زوال

خوش نماید بدیدہُ جہال

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 362

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 362

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/362/mode/1up

قادرؔ ہوسکے۔ اگر بولی انسان کی ایجاد ہوتی تو اس صورت میں کسی بچہ نوزاد کو

بر زبانہا شود مقام خدا

اندروںُ پر شود ز حرص و ہوا

اندریں روز ہائے چوں شب تار

دست گیرد عنایت دادار

مے فرستد بخلق صاحب نور

تاشود تیرگی ز نورش دور

تاز شور و فغان عاشق زار

خلق گردد ز خواب خود بیدار

تا شناسند مردمانِ رہ راست

تا بدانند منکراں کہ خداست

ایں چنیں کس چو رُوِ نہد بہ جہاں

بر جہاں عظمتش کنند عیاں

چوں بیایَد بہار باز آید

موسم لالہ زار باز آید

وقت دیدار یار باز آید

بے دلاں را قرار باز آید

ماہ روئے نگار باز آید

خور بہ نصف النہار باز آید

باز خندد بہ ناز لالہ و گل

باز خیزد ز بلبلان غلغل

دست غیبش بہ َ پروَرَد ز کرم

صبح صدقش کند ظہور اتم

نور الہام ہمچو باد صبا

نزدش آرد زغیب خوشبوہا

مے شود ملہم از امور نہاں

زاں سرائیر کہ خاصۂ یزداں

تا نماید عیاں حقیقت کار

تا زند سنگ بر سر انکار

ہمچنیں آں کریم و پاک و قدیر

مے کند روشنش چو مہر منیر

دیدہا مے کند بدو بینا

گوشہا مے کند بدو شنوا

ہر کہ آمد بدو بصدق و صفا

یا بد از وے شفا بحکم خدا

گفت پیغمبر ستودہ صفات

از خدائے علیم مخفیات

برسر ہر صدی بروں آید

آنکہ ایں کار را ہمی شاید

تا شود پاک ملت از بدعات

تا بیابند خلق زو برکات

الغرض ذات اولیاء کرام

ہست مخصوص ملت اسلام

ایں مگو کیں گزاف و لغو و خطاست

تو طلب کن ثبوت آں برماست

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 363

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 363

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/363/mode/1up

تعلیم کی کچھ بھی حاجتؔ نہ ہوتی بلکہ بالغ ہوکر آپ ہی کوئی بولی ایجاد کرلیتا

اے یکے ذرۂ ذلیل و خوار

چہ شود عاجز از تواں دادار

ہمہ ایں راست ست لافے نیست

امتحان کن گر اعترافے نیست

وعدۂ کج بہ طالباں ندہم

کاذبم گر ازو نشاں ندہم

من خود از بہر ایں نشاں زادم

دیگر از ہر غمے دل آزادم

ایں سعادت چو بود قسمت ما

رفتہ رفتہ رسید نوبت ما

نعرہ ہا میزنم برآب زلال

ہمچو مادر دواں پئے اطفال

تا مگر تشنگان بادیہ ہا

گردم آیند زیں فغان و صلا

لیک شرط است عجز و صدق و صفا

آمدن بانیاز و خوفِ خدا

جستن از غربت و تذلل دل

و ز خلوص و اطاعت کامل

گر کنوں ہم کسے بتابد سر

گیرد از راہ عدل راہ دگر

نے ز ما پرسد و نہ خود دانَد

نے زِ کیں روئے خود بگرداند

آں نہ انساں کہ کرمکِ دون ست

راندۂ بارگاہ بے چون ست

سروکارے بحق نمیدارد

لاجرم لعنتش برو بارد

حجت مومناں بر اوست تمام

کارِ ما پختہ عذر اُو ہمہ خام

اَیّھا الجامِحون فی الشھوات

اَکْثِرُوا ذکرَ ھادمِ اللّذّات

رفتنی است ایں مقام فنا

دل چہ بندی دریں دو روزہ سرا

عمرؔ اول ببیں کجا رفت است

رفت و بنگر ز توچہ ہا رفت است

پارۂ عمر رفت در خوردی

پارہ را بہ سرکشی بردی

تازہ رفت و بماند پس خوردہ

دشمناں شاد و یار آزردہ

صد چو تو معجبے بخورد زمیں

سر ہنوزت بر آسماں ازکیں

بشنو از وضع عالم گذراں

چوں کند از زبانِ حال بیاں

کیں جہاں باکسے وفا نکند

نکند صبر تا جدا نکند

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 364

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 364

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/364/mode/1up

لیکن بہ بداہت عقل ظاہر ہے کہ اگر کسیؔ بچہ کو بولی نہ سکھائی جائے

گر بود گوش بشنوی صد آہ

از دل مردۂ درون تباہ

کہ چرا رُو بتافتم ز خدا

دل نہادم در آنچہ گشت جدا

قدر ایں راہ پرس از اموات

اے بسا گورہاُ پر از حسرات

جائے آنست کز چنیں جائے

از تورّع بروں نہی پائے

ہرچہ اندازدت ز یار جدا

باش زاں جملہ کاروبار جدا

آخر اے خیرہ سرکشی تاچند

کس ز دلدار بگسَلَد پیوند

روئے دل را بتاب از اغیار

باش ہر دم بجستجوئے نگار

رو بدوکن کہ رو رخ یارست

ہمہ رو ہا فدائے دلدارست

تو بروں آزِ خود لقا این ست

تو در و محو شو بقا این ست

ہر کہ غافل ز ذات بیچون ست

او نہ دانا کہ سخت مجنون ست

تابکے رو بتابی از رخ دوست

دیگرے را نشاں دہی کہ چو اوست

در دو عالم نظیر یار کجا

عاشقاں را بغیر کار کجا

چو بدل آتشے زعشق افروخت

دلستاں ماند و غیر او ہمہ سوخت

لیکن این ست بخششِ یزداں

تا نہ بخشند یافتن نتواں

آں کساں را عطا شود ز خدا

کز کمند خودی شوند رہا

زیر حکم کلام حقِ َبروَند

و زِ فرامین او بروں نشوند

دیگرے را نمے دہند اینجا

وَر دہندش ثبوت آں بنما

غیر را آں وفا و مہر کجا

زہد خشک ست غایت عقلا

عاقلانے کہ برخرد نازاند

بے خبر از حقیقت و رازند

ہمچو گوری سپید کردہ بروں

اندروںُ پر زخبث گوناگوں

مرخدا را چوسنگ دادہ قرار

عاجز از نطق و ساکت از گفتار

آں خدائے کہ حی و قیوم است

نزدِ شاں یک وجودِ موہوم است

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 365

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 365

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/365/mode/1up

تو وہ کچھ بول نہیں سکتا۔ اور خواہ تم اس بچہ کو یونان کے کسی جنگل

آں حفیظ و قدیر و ربِّ عباد

نزد شاں اوفتادہ ہمچو جماد

خود پسنداں بعقل خویش اسیر

فارغ از حضرت علیم و قدیر

آنکہ خودبین و معجب افتاداست

حضرت اقدسش کجا یاد است

خوئے عشاق عجز ہست و نیاز

نشنیدیم عشق و کبر انباز

گر بجوئی سوار ایں رہ راست

اندر آنجا بجوکہ گرد بخاست

اندر آنجا بجوکہ زور نماند

خود نمائی و کبر و شور نماند

فانیاں را جہانیاں نرسند

جانیاں را زبانیاں نرسند

خلق و عالم ہمہ بشور و شراند

عشق بازاں بعالم دگر اند

تا نہ کارِ دلت بجاں برسد

چوں پیامت زدلستاں برسد

تا نہ از خود روی جدا گردی

تا نہ قربان آشنا گردی

تا نیائی زنفس خود بیروں

تا نہ گردی برائے او مجنوں

تا نہ خاکت شود بسان غبار

تا نہ گردد غبار تو خوں بار

تا نہ خونت چکد برائے کسے

تا نہ جانت شود فدائے کسے

چوں دہندت بکوئے جاناں راہ

خود کن از راہ صدق و سوز نگاہ

نیست ایں عقلَ مرکب آں راہ

ہوش کن ہوش کن مشو گمراہ

اصل طاعت بود فنا زِ ہوا

تو کجا و طریق عشق کجا

توؔ نشستہ بکبر از اصرار

کردہ ایماں فدائے استکبار

ایں چہ عقل تو ایں چہ دانش و رائے

کہ کنی ہمسری بآں یکتائے

ایں چہ استاد ناقصت آموخت

ایں چہ قہر خدا دوچشمت دوخت

ایں چہ از فکر خود خطا خوردی

اوّل الدُّنّ دُردی آوردی

چوں شود عقل ناقصت چو خدائے

خاک زادی چساں پرد بہ سما

آنچہ صد سہو و صد خطا دارد

علم آں پاک از کجا آرد

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 366

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 366

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/366/mode/1up

میںؔ پرورش کرو یا انگلینڈ کے جزیرہ میں چھوڑ دو۔ خواہ تم اس کو

سہو کن را ثنا کنی ہیہات

ایں چہ سہو و خطا کنی ہیہات

آں چہ لغزد بہر قدم صدبار

چوں ز دریا رساندت بکنار

ایں سراب است سوئے آں مشتاب

می نماید زِ دُور چشمۂ آب

کشتی تو شکستہ است و خراب

باز افتادہ در تگ گرداب

نازکم کن بریں چنیں کشتی

کم خرام اے دنی بدیں زشتی

نَرَسی تا یقیں ز راہِ قیاس

ہمہ بر ظن و وہم ہست اساس

گر ز فکر و نظر گداز شوی

ایں نہ ممکن کہ اہل راز شوی

گر دو صد جانِ تو ز تن بِرَوَد

ایں نہ ممکن کہ شک و ظن بِرَوَد

ہست داروئے دل کلام خدا

کے شوی مست جز بجام خدا

ہست برغیر راہ آں بستہ

ہمہ ابوابِ آسماں بستہ

تانشد مشعلے ز غیب پدید

از شب تار جہل کس نرہید

باید اینجا ز کبرہا دوری

تو بعقل و قیاس مغروری

ایں چہ غفلت کہ خوش بدیں کیشی

و از خدا ہیچ گہ نینَدیشی

رو طلب کن وصال یار ز یار

تکیہ بر زور خود مکن زنہار

تانہ گردد نگوں سرت بہ نیاز

پردہ از نفس تو نہ گردد باز

تا نریزد ترا ہمہ پر و بال

اندر اینجا پریدن است محال

ناتوانی ست قوت اینجا

ایں چنیں قوتے بیار و بیا

پردۂ نیست بر رخ دلدار

تو ز خود پردہ خودی بردار

ہر کہ را دولت ازل شد یار

کار او شد تذلل اندر کار

آں در آمد بہ حضرت بیچوں

کہ شد از تنگنائی کبر برون

حق شناسی ز خود روی ناید

خود رَوی خود رَوی بیفزاید

از خودی حالِ خود خراب مکن

شب پری کار آفتاب مکن

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 367

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 367

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/367/mode/1up

خط استوا کے نیچے لے جاؤ تب بھیؔ وہ بولی سیکھنے میں تعلیم کا محتاج ہو گا اور

تا بشرُ پر بود باستکبار

اندرونش تہی بود از یار

چوں رسد عجز کس بحدِّ تمام

شورشِ عشق را رسد ہنگام

اَے کہ چشمت ز کبر پوشیدہ

چہ کنم تا کشایدت دیدہ

گر ترا در دل ست صدق طلب

خود روی ہا مکن ز ترک ادب

راز راہ خدا بجو ز خدا

تو نۂ چوں خدا بجائے خود آ

بندہ گانیم بندہ را باید

کہ کند ہرچہ خواجہ فرماید

منصب بندہ نیست خود رائی

خود نشستن بکار فرمائی

ہر کہ بر وَفق حکم مشغول است

برسر اجرت است و مقبول است

وانکہ بے حکم خود تراشد کار

مزدِ واجب نمی شوَد زنہار

ما ضعیفیم و اوفتادہ بخاک

خود چہ دانیم راز حضرت پاک

ما ہمہ ہیچ اوست کامل ذات

علمِ ما چوں شود چہ او ہیہات

ذات بیچوں کہ نام اوست خدا

کے خیال خرد رسد آنجا

آنکہ او آمدست ازبرِ یار

او رساند زدلستاں اسرار

آنچہ ما فی الضمیر تُست نہاں

کے چو تو داندش دگر انساں

پس تو ما فی الضمیر آں دادار

مثل او چوں بدانی اے غدّار

آنکہ چشم آفرید نور دہَد

آنکہ دل داد اُو سرور دہد

چشمؔ ظاہر بہ بیں کہ چوں زکرم

خالقش داد نیرِّاعظم

وز برائے مصالح دوراں

گاہ پیدا نمود و گاہ نہاں

ایں چنیں ست حال چشم دروں

آفتابش کلام آں بے چوں

ہوش دار اے بشر کہ عقلِ بشر

دارد اندر نظر ہزار خطر

سرکشیدن طریق شیطانی ست

برخلاف سرشتِ انسانی ست

تانہ فضلش رہ تو بکشاید

صد فضولی بکن چہ کار آید

در سرائر چہ جائے استنباط

شترے چوں خزد بَسَمِ خیاط

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 368

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 368

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/368/mode/1up

بغیر سکھانے کے بے زبان رہے گا۔

تونۂ باخبر ازاں کوئے

تونہ دانی جمال آں روئے

خبرے زو بمردماں چہ دہی

ماہ نادیدہ را نشاں چہ دہی

سخن یار و سینۂ افسردہ

جامۂ زندہ است بر مردہ

گر بری ریگ را بزرگ و بلند

جنبش باد خواہدش افگند

ہست ما را یکے کہ ہر فیضاں

میشود زاں محافظ تن و جاں

آں خدائے کہ آفرید جہاں

ہست ہر آفریدہ را نگراں

ہرچہ باید برائے مخلوقات

از لباس و خوراک و راہ نجات

خود مہیا کند بمنت وجود

کہ کریم است و قادر است و وَدود

چشم خود کن بکشت صحرا باز

خوشہ با خوشہ ایستادہ بناز

ہمہ از بہر ماست تا بخوریم

درد و رنجِ گرسنگی نہ بریم

آنکہ از بہر چند روزہ حیات

ایں قدر کردہ است تائیدات

چوں نہ کردی برائے دار بقا

نظرے کن بعقل و شرم و حیا

سنگ افتد بر ایں چنیں فرہنگ

کہ ز صدق است دور صد فرسنگ

گرکنی سوئے نفس خویش خطاب

کہ چہ سانت گذر شود بجناب

خود ندائے بیایدت ز دروں

کہ ز تائید حضرت بیچوں

ناید اندر قیاس و فہم کسے

کہ شود کار پیل از مگسے

پس چہ ممکن کہ ذرۂ امکاں

خود کند کار حق بزور و تواں

شان دادار پاک را بشناس

و از چنیں کسر شان او بہراس

خویشتن را شریک او سازی

پیش او دم زنی بانبازی

ایں چہ عقل است اے بتر ز دواب

ایں چہ برفہم تو فتاد حجاب

گر کسے گویدت باستحقار

کہ دریں شہر چوںُ تو ہست ہزار

نیستی از کسے بعقل فزوں

باتو ہم پایہ اند مردم دوں

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 369

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 369

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/369/mode/1up

اورؔ اس خیال کی تائید میں یہ وہم پیش کرنا کہ ہم بچشم خود دیکھتے ہیں

مشتعل میشوی بہ کیں خیزی

در دل آری کہ خون او ریزی

آنچہ برخود روا نمیداری

چوں پسندی بحضرت باری

چوں پسندی کہ کار ساز امور

ابکمے ہست و از سخن معذور

چوں پسندی کہ واہب ہر نور

بخل ورزیدہ باشد است قصور

چوں پسندی کہ حضرت غیور

ہست عاجز چوُ مردگان قبور

بہر تعظیم ہست مذہب و دیں

تُف برآں دیں کہ میکند توہین

آنکہ او خلق را زبانہا داد

خاک را طاقت بیانہا داد

چوں بود گنگ و بے زباں ہیہات

شرمت آید زپاک و کامل ذات

جامع ہر کمال و عز و جلال

چوں بود ناقص اے اسیرِ ضلال

ہمہ اوصاف او چو گشت عیاں

چوں بماندے تکلمش پنہاں

دیدہ آخر برائے آں باشد

کہ بدوَ مرد راہ داں باشد

وہ چہ ایں چشم ہست و ایں دیدہ

کہ برو آفتاب پوشیدہ

گر بدل باشدت خیال خدا

ایں چنیں ناید از تو استغنا

از دل و جاں طریق او جوئی

و از سر صدق سوئے او پوئی

ہر کرا دل بود بہ دلدارے

خبرش پرسد از خبردارے

گرؔ نباشد لقائے محبوبے

جوید از نزد یار مکتوبے

بے دلآرام نایدش آرام

گہَ برویش نظر گہے بکلام

آنکہ داری بہ دل محبت او

نایدت صبر جز بہ صحبت او

فرقت او گر اتفاق افتد

در تن و جانِ تو فراق افتد

دولت از ہجر او کباب شود

چشمت از رفتنشُ پر آب شود

باز چوں آں جمال و آں روئے

شد نصیبِ دوچشم در کوئے

دست در دامَنَش زنی بجنوں

کہ ز نادیدنت دلم شد خوں

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 370

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 370

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/370/mode/1up

کہ بولیوں میں ہمیشہؔ صدہا طرح کے تغیر و تبدل خود بخود ہوتے رہتے ہیں جن

ایں محبت بہ ذرۂ امکاں

واز دل افگندۂ خدائے یگاں

لاابالی فتادہ زاں یار

فارغی زاں جمال و زاں گفتار

مُردگاں را ہمے کشی بہ کنار

و از دلآرام زندۂ بیزار

کس شنیدی کہ قانع ازیارست

عشق و صبر ایں دوکار دشوارست

آنکہ در قعر دل فزود آید

دیدہ از دیدنش نیا سایَد

تو دل خود بہ دیگراں دادہ

یکسر از یار فارغ افتادہ

ایں بود حال و طور عاشق زار

ایں بود قدر دلبر اے مردار

عاشقاں را بود ز صدق آثار

اے سیہ دل ترا بعشق چہ کار

تاز توہستی ات بدر نرود

تخم شرک از دل تو بر نرود

پائے سعیت بلند تر نروَد

تا ترا دودِ دل بسر نروَد

یار پیدا شود دراں ہنگام

کہ تو گردی نہاں زخود بہ تمام

تا نہ سوزی زسوز و غم نرہی

تانمیری ز موت ہم نرہی

چیست آں ہر زہ جان و تن کہ نسوخت

آتش اندر دلے بزن کہ نسوخت

کلبۂ جسم خودِ بکن برباد

چوں نمی گردد از خدا آباد

پائے خود را جداکن از تن خویش

چوں نگیرد رہے صداقت پیش

ہیچ چیزے چو ذات بیچوں نیست

جگرے خوں شود کزوخوں نیست

گنجہائے جہاں فدائے نگار

بہ ز صد گنج خاک پائے نگار

ہرچہ از دست او رسد آں بِہ

خار او از ہزار بستاں بِہ

ذلت از بہر او زعزت بِہ

قلت از بہر او ز کثرتِ بہ

مُردن از بہر او حیات مدام

صد لذائذ فدائے آں آلام

اے کہ در کوئے دلستاں گذری

باوفا باش ور زجاں گذری

صادقانے کہ طالب یار اند

جانفشاناں ز بہر دلدار اند

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 371

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 371

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/371/mode/1up

سے بولیوں میں انسانی تصرّف کاؔ ثبوت ملتا ہے۔ سو واضح ہو کہ یہ وہم سراسر

گر نیابند راہ آں دلبر

از غمش جاں کنند زیر و زبر

از دلآرام رنگ میدارند

و از رہ نام ننگ میدارند

لذّت خود بدرد می بینند

حسن در روئے زرد می بینند

تو کہ چوں خر بہِ گل فرومانی

ہمت آں یلاں چہ میدانی

سہل باشد حکایت از غم ودرد

داند آں کس کہ رو بغمہا کرد

آفرین خدا بر آں جانے

کہ ز خود شد برائے جانانے

منزل یار خویش کرد بہ دل

و از ہواہا رمید صد منزل

از خودی در شد و خدا را یافت

گم شد و دست رہنما را یافت

توچہ یابی کہ غافلے زیں راہ

و از جلال خدا نۂ آگاہ

ہمہ کارت بعقل خام افتاد

ہمہ سعی تو ناتمام افتاد

ہمچو طوطی ہمیں سخن یادست

کہ بشر عاقلست و آزادست

اے کہ دیوانۂ پئے اموال

وہ کہ در کارِ دیں چنیں اہمال

روئے دل را بجانب دیں کن

فکر آخر غم نخستیں کن

حصر تو برقیاس در ہمہ حال

ہست بر حُمقِ تو یک استدلال

تا نہ فرماں رسد باعلانے

چوں شود کس مطیع فرمانے

تاؔ نہ حکمے شود ظہور پذیر

چوں توانی شدن مطیع امیر

تا نہ گردد کسے ز حق مامور

کُفر و ایماں چساں کنند ظہور

تا نیاید اشارتے زنگار

چہ برآید زدست عاشق زار

فرق در سرکش و مطیع خدا

جز بحکمش چساں شود پیدا

شرط تعمیل حکم چوں حکم است

پس وجودش بجو نخست اے مست

ورنہ ایں دعویئِ غلط بگذار

کہَ روَم زیر حُکم آں دادار

خود تراشیدن از خودی فرماں

آں نہ حکم خداست اے نادان

نہ بعرف است و نے بعقل روا

کہ شود ظن خویش حکم خدا

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 372

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 372

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/372/mode/1up

دھوکا ہے۔ تغیرات کہ جو ہمیشہ بولیوں کو لگے ہوئےؔ ہیں یہ انسان کے ارادہ

حکم او آں بود کہ او فرمود

پس چو فرمود خود نگہ کن زود

کہ ازیں شد ثبوت وحی خدا

شد ضرورت مسلمش زیں جا

گر دہندت بصیرت دینی

در گمانہا ہلاک خود بینی

بنگر آخر بعقل و فکر و قیاس

کہ خرد را نہ محکم است اساس

تا نباشد رفیق او دگرے

نایدش از رہ یقیں خبرے

تا نہ بینی بدیدہا جائے

یا نہ یابی خبر ز بینائے

خود نگوید ترا خرد زنہار

کہ چنیں دارد آں مکاں آثار

پس چہ ممکن کہ دم زند بمعاد

کہ چنیں اند آں دیار و بلاد

ایں چہ حمق ست و ایں چہ بے راہی

کہ بجہل است لاف آگاہی

چوں روی از قیاس خود بر ہے

کہ ندیدی بعمر خویش گہے

چوں شد از عالم دگر خبرت

مادرت دیدہ بود یا پدرت

ور ندیداست کس چہ ساں دانی

کم خرام اے دَنی بہ عریانی

توکہ داری زِ انبیاء انکار

ایں ہمہ کوری است و استکبار

یک نظر کن بہ فطرت انساں

کہ ندارند جوہرے یکساں

مختلف اوفتاد ہر بشرے

کس بخیرے فزود کس بشرے

پس چویک بیش و دیگر است کمی

ہم چنیں در قبول فیض ہمی

خود نگہ کن کنوں ز صدق و صفا

کہ چہ ثابت ہمیں شود زیں جا

شب تاراست و خوف بیش از بیش

از سر خود روی مدہ سرِ خویش

پسِ دیوار چوں نمے دانی

چوں بدانی غیوب ربانی

در شگفتم کہ باچنیں نقصاں

ازچہ برعقل مے شوی نازاں

ایں چہ عقل است و ایں چہ معرفت است

اینچہ قہر خدا دو چشمت بست

ایں جہانت چو عید خوش افتاد

واں وعید خدا نداری یاد

بشنو از وحئ حق چہ گوید راز

از جناب وحید و بے انباز

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 373

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 373

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/373/mode/1up

اور اختیار سے ظہور میں نہیں آتے۔ اور نہ یہ کچھ قاعدہ مقرر ہوؔ سکتا

کاںِ خرَدہا کہ در دلُ عقلاست

ہمہ یک ذرۂ ز آتش ماست

آں کلام خدا نہ برفلک است

تا بگوئی کہ ہست دور از دست

یا بگوئی کہ کار ہست محال

برفلک رفتنم کدام مجال

نے بزیر زمیں کلام خدا

تابگوئی کہ چوں خزم آنجا

چوں ز قعر زمیں بروں آرم

خود چنیں طاقتے نمی دارم

قطع عُذر تو کردہ داور پاک

نورِ عرش آمداست برسر خاک

گر ترا رحم آں یگاں بکشد

دولتت سوئے او عناں بکشد

اللہ اللہ چہ ریخت از انوار

ہست رشح دگر در آں گفتار

جہل گردد زدیدنش یکسو

رو دہد صد کشائشے زاں رو

نور بار آورد تلاوت او

عالمے زیر بار منت او

چشم بد دور ایں چہ ہست جمال

ہست یک چشمۂ ز آب زلال

تا جہاں رسم دلبری بنہاد

کس چو او دلبری ندارد یاد

آں شعاعے کزو شداست عیاں

کس ندیدہ ز مہر و مہ بجہاں

چندؔ برعقل خام نازکنی

چہ کنم تا تو دیدہ بازکنی

نقص خود بنگر و کمال خدا

ذلت خویشتن جلال خدا

از رہ عقل راہ ربّ مجید

کس ندید است و کس نخواہد دید

اندر آنجا کہ سوختن باید

چوں رہے از قیاس بکشاید

تا نشد وحی حق مدد فرما

تا نیاوُرد بو نسیم صبا

عقل را زاں چمن نہ بود خبر

طائر فکر بود سوختہ پر

آں صبا نگہتے زیار آوُرد

تا خرد نیز رو بکار آورد

بارہا آب خود نگار آورد

تا نخیل قیاس بار آوُرد

وقت عیش است و موسم شادی

تو چہ در سوگ و ماتم افتادی

تند بادے بخواہ از دادار

تا خس و خار تو برد یک بار

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 374

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 374

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/374/mode/1up

ہے کہ خود انسان کی طبیعت کسی خاص خاص وقتوں میں بولیوں میں تغیر

در خور و مہ شکے نگیرد راہ

تو ز دلدار خویش دیدہ بخواہ

گمرہی تا دمے کہ سرتابی

چوں بجوئی ز صدق دل یابی

نیستی طالب حقیقت راز

بس ہمیں مشکل است اے ناساز

بروجودش ز صنعت استدلال

ایں مجاز است نے چو اصل وصال

وصلش از آلۂ مجازی نیست

باز کن دیدہ جائے بازی نیست

گر بر آتش دو صد جگر سوزی

نیستت از قیاس پیروزی

خبرے نیستت ز جانا نہ

مے زنی ہرزہ گام کورانہ

آں یقینے کہ بخشدت دادار

چوں قیاس خودت نہد بکنار

آں یکے از دہان دلدارے

نکتہ ہائے شنید و اسرارے

و آں دگر از خیال خود بگماں

پس کجا باشد ایں دو کس یکساں

اے کہ مغرور راہ مظنونی

تو نہ عاقل کہ سخت مجنونی

آں خدا را کزوست منت ہا

بشمری زیر منت عقلاء

ایں خدائی عجیب در دل تست

کہ چنیں است زار و ماندہ و سست

تانہ از عاقلاں مدد ہا یافت

نتوانست سوئے خلق شتافت

کے پسند وِ خرَد کہ آں اکبر

شہرتے یافت از طُفیلِ بشر

شبِ تارست و دشت و بیم دواں

چوں بخوابی بغفلت اے ناداں

خیز و برحال خود نگاہ بکن

خطر راہ بہ بین و آہ بکن

خیز و از نفس خود بپرس نشاں

کہ چہ خواہد مراتب عرفاں

مے تپد از برائے رفع حجاب

یا قیاسش بس است در ہر باب

افلا تبصرون گفت خدا

خیز و درنفس چو تعطش ہا

* وفی انفسکم افلا تبصرون

تو اسیری بصد ہزار خطا

ہر خطائے بتر ز اژدرہا

عجب ایں کوری است و بے بصری

کہ ازیں کار خام بے خبری

سخن راست است نے زخطاست

تو نہ فہمی سخن خطا اینجاست

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 375

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 375

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/375/mode/1up

تبدل کرتی رہتی ہےؔ ۔ بلکہ عمیق نظر سے معلوم ہوگا کہ یہ تغیرات بھی اس علت العلل

سِرّ سربستہ و ورائے وراء

کہ کشاید بدون وحی خدا

راز ذات نہاں کہ گوید باز

جز خدائے کہ ہستَ محرم راز

مشت خاکے فتادہ است براہ

تند بادے بجوید از درگاہ

تو نہ فہمی ہنوز ایں سخنم

در دلت چوںِ فرو شوم چہ کنم

اے دریغا کہ دل ز درد گداخت

درد مارا مخاطبے نشناخت

اے خورِ روئے یار زود برآ

کہ دل آزرد از شب یلدا

یک نگاہے بس است در دیں ہا

کاش دیدے کسے ز خوف خدا

آشکار است کفر و ایماں ہم

گفتمت آشکار و پنہاں ہم

ترک خوف خدا و بدعملی

ایں دو چیز اند تخم تیرہ دلی

ورنہ روئے نگار نیست نہاں

ہر حجابے ز تست اے بیجاں

از رگ جاں قریب تر یارست

ہرزہ از تو درازی کار است

ہرؔ کہ برخواست از خودی یکبار

خود نشیند بکار او دادار

حی و قیوم و قادر ست نگار

تو مپندار مردہ اے مردار

میل رفتن گرست جانب یار

جانب صدق را عزیز بدار

در شکے ہست خیز و تجربہ کن

تا شکوکت بر آورم ازُ بن

گر خرد پاک از خطا بودے

ہر خرد مند باخدا بودے

کس نرست از ذہول و سہو و خطا

جز خداوند عالم الاشیاء

نظرے کن زروئے استقرا

گر کسے رَستہ است بازنما

ورنہ باز آ زِ شورش و انکار

جیفۂ کذب را مخور زنہار

آخرت باخدا فتد سروکار

خود نگہ کن بترس زاں دادار

در خرابات اوفتاد دلے

خودبخود چوں بروں شود زگلے

رو بہ باطل نہادۂٖ باز آ

دل بہ بد روئے دادۂٖ باز آ

در مزابل فتادۂٖ باز آ

ایں کجا ایستادۂٖ باز آ

آخر اے لافِ زن ز عقل و خرد

ہوش کن پامنہ بروں از حدّ

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 376

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 376

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/376/mode/1up

کے ارادہ اور اختیار سے وقوعؔ میں آتے رہتے ہیں جیسے تمام تغیرات سماوی و اَرضی

دم زدن در خیالہائے محال

ہست شوریدہَ مشربی و ضلال

ہرکہ رخت افگند بویرانہ

می نماید بتر زِ دیوانہ

چوں چنیں سرزنی ز راہ صواب

چہ نہ دانی کہ آخر است حساب

پائے تو لنگ منزل تو دراز

ترَ سمت چوں رَسی ازیں تگ وتاز

خود چنیں است فطرت انساں

کہ چو بیند کہ مشکل است گراں

اول از زور و تاب و طاقت خویش

می کند سعی و جہد بیش از بیش

تا مگر کار بستہ بکشاید

زیر بار سپاس کس ناید

چوں بہ بیند کہ کار رفت از دست

رسن اختیار رفت از دست

رو نہد سوئے کوچۂ یاراں

مددے جوید از مددگاراں

زور دست برادراں جوید

نزد ہر کارداں ہمی پوید

چوں بماند زہر طرف ناچار

نالد آخر بدرگہِ دادار

نعرہ ہا میزند بحضرت پاک

و از تضرع جبیں نہد برخاک

در خود بندد و بگرید زار

کاے کشایندۂ رہِ دشوار

گنہ من بہ بخش و پردہ بہ پوش

تانہ دشمن زند بشادی جوش

چوں چنیں فطرت بشر افتاد

زاں سہ گونہ صفت کہ کردم یاد

آں حکیمش ز لطف بے پایاں

حسب فطرت بداد ہم ساماں

ازپئے جہد خویش عقلش داد

راہ فکر و قیاس و خوض کشاد

و از پئے کار با ہمیں امداد

رحم در قلب یک دگر بنہاد

از شعوب و قبائل و اقوام

کرد کار نظام و ربط تمام

و از پئے حاجت فیوض خدا

کرد الہام را ز رحم عطا

تا رَسَد کار آدمی بکمال

تا میسر شود ہمہ آمال

تا بحدِّ یقین رسد تعلیم

زاں دوگونہ شود رہ تفہیم

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 377

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 377

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/377/mode/1up

اس کے خاص ارادہ سے ظہور پذیر ہیںؔ ۔ یہ امر کبھی ثابت نہیں ہوسکتا کہ کبھی

زاں دوگونہ مناہج تلقیں

می کشاید رہ حصول یقیں

ہر طبیعت بحسب فہم و خیال

می براید بداں زچاہ ضلال

غرض آں میل فطرتے کہ خدا

کرد در فطرت بشر پیدا

آں ہمی خواست وحی ربانی

نظرے کن بغور تا دانی

فطرتت چوں فتادہ است چناں

چوں کشی سر ز فطرت اے ناداں

اقتضائے طبیعتِ انساں

کہ نہاد ست ایزد منان

گہ بشر را کشد بسوئے قیاس

تا نہد کار را بعقل اساس

گاہ دیگر کشد بمنقولات

تا بیار آمد از بیان ثقات

زینکہ آرام قلب و اطمینان

جز باخبار صادقاں نتواں

نیزؔ چوں واجب است در تعلیم

کہ بقدر خردَ بوَد تفہیم

لا جرم راہ کشادہ اند دوتا

تا رَسَد ہر طبیعتے بخدا

تا ذکی و غبی و اشرف و دون

رہ بیابند سوئے آں بیچون

دیگر ایں است نیز ہم برہان

بر ضرورات وحی آں رحمان

کہ چنیں شہرت خدائے یگان

ہرگز از جہد عقلہا نتواں

گر نہ گفتے خدا اَنَا الْمَوْجُوْد

چوں فتادے جہاں برش بسجود

ایں ہمہ شور ہستی آں یار

کہ ازو عالم ست عاشق زار

خود بینداخت آں خدائے جہاں

نہ بشر کرد بر سرش احساں

اے دریغ ایں چہ آدمی زادند

کز خدا درخودی بیفتادند

عقل چوں شد چو فیض وحی نہ بود

دیدہ را زِ آفتاب ہست وجود

او اگر نورِ خود نہ بخشیدے

چشم ما خود بخود چساں دیدے

بلبل از فیض گل سخن آموخت

منکر ازوے ہماں کہ چشم بدوخت

ہمہ عالم گواہ آلائش

اَ بْلَہَ منکر ز وحی و القایش

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 378

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 378

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/378/mode/1up

انسانوں نے متفق ہوکر یا الگ الگ ان تمام بولیوںؔ کو ایجاد کیا تھا جو دنیا میں

مہر پاکاں بجان خود بنشاں

تا شوی جان من ہم از پاکاں

ایں خرد جملہ خلق میدارند

ناز کم کن کہ چوں تو بسیار اند

چارۂ ما بغیر یار کجا

ما کجائیم و عقل زار کجا

زہر فرقت چشی و ناکامی

باز منکر ز وحی و الہامی

جان تو برلب از نخوردن آب

باز از آب زندگی رو تاب

کور ہستی وِ کیں بدیدہ وراں

وہ چہ داری شقاوت و خسران

داروئے دردِ دِل نہ فطنتِ ماست

آں بدار الشفائے وحی خداست

نشود عین زر تصور زر

زر ہمانست کوفتد بہ نظر

ہست برعقل منت الہام

کہ ازو پخت ہر تصورِ خام

آں گماں برد و ایں نمود فراز

آں نہاں گفت و ایں کشود آں راز

آںِ فرو ریخت ایں بکف بسپرد

آں طمع داد و ایں بجا آورد

آنکہ بشکست ہر بُتِ دلِ ما

ہست وحئ خدائے بے ہمتا

آنکہ مارا رُخِ نگار نمود

ہست الہام آں خدائے ودود

آنکہ داد از یقین دل جامے

ہست گفتار آں دلارامے

وصل دلدار و مستی از جامش

ہمہ حاصل شدہ ز الہامش

وصل آں یار اصل ہرکامیست

وانکہ زیں اصل غافل آں خامیست

بے عطیّات ما ہمہ بے زاد

بے عنایات ما ہمہ برباد

اس جگہ ہم اس بات کا لکھنا بھی مناسب سمجھتے ہیں کہ ہمارے بیان مذکورہ بالا پر جو ضرورت کلام الٰہی کے لئے لکھا گیا ہے۔ پنڈت شیونرائن صاحب اگنی ہوتری نے جو براہم سماج لاہور کے ایک اعلیٰ ممبر ہیں۔ اپنی دانست میں کچھ تعرض کرکے یہ چاہا ہے کہ کسی طرح اس حق الامر کی تاثیر کو اپنی قوم تک پہنچنے سے روک دیں۔ چنانچہ انہوں نے اس بارہ میں بہت ہی ہاتھ پاؤں مارے ہیں اور بڑی جان کنی سے ایک

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 379

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 379

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/379/mode/1up

بولی جاتی ہیں۔ اور اگر کوئی یہ وہم پیش کرے کہ جس طرح طبعی طورؔ پر خدا تعالیٰ بولیوں

ریویو بھی لکھا ہے۔ لیکن چونکہ بقول مشہور سانچ کو آنچ نہیں۔ اور آفتاب صداقت کسی کے چھپانے سے چھپ نہیں سکتا۔ اس لئے پنڈت صاحب نے جس قدر کوشش کی اس کا بجز اس کے اور کوئی نتیجہ نہیں ہوا کہ دانشمندوں پر صاف کھل گیا ہے کہ پنڈت صاحب حق کے قبول کرنے سے کسؔ قدر نفرت رکھتے ہیں۔ سو اگرچہ پنڈت صاحب کی وہ تحریر اس لائق ہرگز نہیں کہ اس کے ردّ کرنے کی طرف توجہ کی جائے۔ بلکہ خود ہمارے مضمون گزشتہ کو غور سے پڑھنا اس کے ردّ کرنے کے لئے کافی و وافی ہے۔ لیکن اس جہت سے کہ تا پنڈت صاحب کچھ افسوس نہ کریں یا ان کے بعض رفیق ہماری اس خاموشی کو اپنی خوش فہمی سے کسی طور کے عجز پر حمل نہ کر بیٹھیں قرین مصلحت معلوم ہوا کہ گو پنڈت صاحب کی تحریر کیسی ہی بے حقیقت ہے۔ تب بھی منصفین پر اس کی اصلیت ظاہر کی جائے۔ سو واضح ہو کہ پنڈت صاحب نے ہمارے ثبوت کے مقابلہ پر اپنے ریویو میں اس بات پر زور دیا ہے کہ جس طریق سے کتب آسمانی کا الہامی ہونا مانا جاتا ہے وہ طریق عقلاً ممتنع اور محال ہے اور قوانین نیچریہ کے برخلاف ہونے کی وجہ سے ہرگز وہ طریق درست نہیں۔ یعنے پنڈت صاحب کی نظر شریف میں وہ الہام ہرگز ممکن الوجود نہیں جس کو کلام الٰہی کہا جاتا ہے۔ اور جو محض خداوند حکیم و عالم الغیب کی طرف سے نازل ہوتا ہے اور اس کی ذات پاک کی طرح ہریک شک و شبہ اور غلطی و سہو اور نسیان سے بکلی پاک ہوتا ہے اور جو صفات کاملہ خدا کے کلام میں چاہئے اُن تمام صفتوں سے موصوف ہوتا ہے یعنی جیسے خدا عالم الغیب ہے وہ کلام بھی علم غیب پر مشتمل ہوتا ہے۔ اور جیسے خدا حکیم و علیم ہے وہ کلام بھی حکمت اور علم پر اشتمال رکھتا ہے۔ اور جیسے خدا غلطی اور جھوٹ اور سہو اور نسیان سے پاک ہے وہ کلام بھی ان تمام امور سے پاک ہوتا ہے اور انسانی خیالات کا اس میں کچھ بھی دخل نہیں ہوتا اور نہ انسان کے اختیار میں ہے کہ کسی نوع کا تقدس اور پاکیزگی حاصل کرکے یا کوئی اور حیلہ اور تدبیر بجالاکر خواہ نخواہ وہ الہام اپنے نفس پر آپ ہی کھول دیا کرے اور انوارِ غیبیہ اور امورِ پنہانی اور اسرار آسمانی پر جب چاہے آپ ہی مطلع ہوجائے۔ کیونکہ اگر ایسا ہو سکتا تو انسان بھی خدا کی

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 380

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 380

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/380/mode/1up

میں ہمیشہ تغیر تبدل کرتا رہتا ہے کیوں جائز نہیں کہ ابتدا میں بھی اسی

طرح ذرّہ ذرّہ کا علم رکھتا اور کوئی چیز اس پر پوشیدہ نہ رہ سکتی اور جن معلومات سے اس کا اقبال چمکتا اور اُس کی آفات دور ہوتی وہ سب معلومات اپنے تقدس اور پاکیزگی کی جہت سے آپ ہی حاصل کرلیتا اور کبھی اس کو کسی جہت سے تکلیف اور رنج نہ پہنچتا۔ مگر تعجب کہ پنڈت صاحب نے باوجود اس قدر انکار اور اصرار کے جو ان کو کلام الٰہی کے بارہ میں ہے پھر بھی انہوں نے ہمارے ان دلائل اور براہین کو کہ جو ضرورت کلام الٰہی پر بطور یقینی و قطعی ناطق ہیں توڑ کر نہیں دکھلایا بلکہ اُن کی طرف توجہ ہی نہیں کی۔ ظاہر ہے کہ جس حالت میں ہم نے ضرورت کلام الٰہی اور اس کے تحقق وجود پر کامل دلائل لکھ دیئے تھےؔ بلکہ بطور نمونہ بعض الہامات پیش بھی کردیئے تھے۔ تو اس صورت میں اگر پنڈت صاحب حق ُ جو وحق گو ہوکر بحث کرتے تو ان کے لئے بجز اس کے اور کوئی طریق نہ تھا کہ وہ ہمارے دلائل کو توڑ کر دکھلاتے اور جو کچھ ہم نے ثبوت ضرورت الہام اور ثبوت وجود الہام اپنی کتاب میں دیا ہے اس ثبوت کو اپنے دلائل بالمقابل سے معدوم اور مرتفع کرتے۔ لیکن پنڈت صاحب کو خوب معلوم ہے کہ اس عاجز نے دو مرتبہ علی التواتر دو خط رجسٹر کرا کر اس غرض سے ان کی خدمت میں بھیجے کہ اگر ان کو اس عادت الٰہی میں کچھ تردد درپیش ہے کہ وہ ضرور بعض بندوں سے مکالمات اور مخاطبات کرتا ہے اور ان کو ایسی چیزوں اور ایسے علموں سے اپنے خاص کلام کے ذریعہ سے مطلع فرماتا ہے کہ جن کی شان عظیم تک وہ خیالات نہیں پہنچ سکتے کہ جن کا منشاء اور منبع صرف انسان کے تخیلات محدودہ ہیں۔ تو چند روز صدق اور صبر سے اس عاجز کے پاس ٹھہر کر اس صداقت کو جو ان کی نظر میں ممتنع اور محال اور خلاف قوانین نیچر ہے۔ بچشم خود دیکھ لیں۔ اور پھر صادقوں کی طرح وہ راہ اختیار کریں جس کا اختیار کرنا صادق آدمی کے صدق کی شرط اور اس کی صاف باطنی کی علامت ہے۔ مگر افسوس کہ پنڈت صاحب نے باوجود سنیاس دھارنے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 381

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 381

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/381/mode/1up

طورؔ پر بولیاں ایجاد ہو گئی ہوں اور کوئی خاص الہام نہ ہوا ہو۔ تو اس کا جواب یہ

کے اس امر کو جو حقیقی سنیاس کی پہلی نشانی ہے۔ سچے طالبوں کی طرح قبول نہیں کیا۔ بلکہ اس کے جواب میں قرآن شریف کی نسبت بعض کلمات اپنے خط میں ایسے لکھے کہ جو ایک سچے خداترس کی قلم سے ہرگز نہیں نکل سکتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ پنڈت صاحب کو صداقت حقانی سے صرف انکار ہی نہیں بلکہ عداوت بھی ہے۔ ورنہ جس حالت میں تحقق وجود کلمات اللہ پر عقلی اور مشہودی طور پر ایک بھارا ثبوت دیا گیا ہے اور ہر طرح کے وساوس کی بیخ کنی کر دی گئی ہے اور ہر یک قسم کی تشفّی اور تسلی کے لئے یہ عاجز ہروقت مستعد کھڑا ہے۔ تو پھر بجز بغض اور عداوت ذاتی کے اور کونسی وجہ ہے جو پنڈت صاحب کو حق کے قبول کرنے سے روکتی ہے۔

اب یہ بھی دیکھئے کہ بمقابلہ ہماری تحقیقات کے پنڈت صاحب کے عذرات کیا کیا ہیں۔ پہلے سب سے آپ یہ فرماتے ہیں کہ براہم لوگ الہام کے قائل تو ہیں۔ مگر جہاں تک وہ اپنے اصل معنوں اور طبعی طریقہ سے متعلق ہے۔ پھر طبعی طریقہ کی یہ تشریح کرتے ہیں کہ وہ کوئی کلام مقرر اور معین نہیں کہ جو بطور خارق عادت کسی کے دل پر نازل ہوتا ہو اور ایسے امور پر مشتمل ہوتا ہو کہ جو انسانی طاقتوں سے برتر ہوں بلکہ وہ معمولی خیالات ہیں کہ جو حسب مراتب ہر انسان کے دل میں خدا کی طرف سے گزرا کرتے ہیں۔ کیونکہؔ خدا کی روح کامل و حاضر و ناظر و علت العلل ہونے کی وجہ سے ہریک ذرہ اور ہریک روحانی انسان میں کام کرتی رہتی ہے۔ پس جو شخص جس قدر روحانی نعمتوں اور خدا کی قربت کا بھوکا اور پیاسا ہوتا ہے۔ جس قدر اندرونی زندگی کو مقدس رکھتا ہے۔ جس قدر اپنے تئیں خدا کے حوالے کرتا ہے اور جس قدر ادراک اور ایمان صاف رکھتا ہے اُسی قدر وہ اس طبعی فیض سے فیض یاب ہوتا ہے۔ اس فیض کی ابتدا اسی دن سے ہے جس دن سے انسان کی پیدائش ہے۔ یہ الہام باطنی ہے کہ جو روح انسانی میں ہوتا ہے۔ اس لئے روح انسانی خدا کی زندہ الہامی کتاب ہے۔ پھر بعد اس کے فرماتے ہیں کہ چونکہ انسانیت میں نفسانیت بھی شامل ہے اس لئے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 382

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 382

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/382/mode/1up

ہے کہ ابتدا زمانہ کےؔ لئے عام قانون قدرت یہی ہے کہ خدا نے ہریک چیز کو اپنی

وہ خیالات جو انسانوں کے دلوں میں گزرتے ہیں جن کا نام براہم لوگوں کے نزدیک الہام یا القا ہے وہ اعتماد کلی کے لائق نہیں ہیں بلکہ براہم لوگ ان خیالات کی تصدیق کے لئے کہ جو صدق اور کذب دونوں کا احتمال رکھتے ہیں اخلاقی قوتوں کو کسوٹی قرار دیتے ہیں اور جس قوت کے ذریعہ سے یہ فیصلہ کرتے ہیں اس کو عقل کہتے ہیں۔ یہ خلاصہ تقریر پنڈت صاحب ہے۔ اب ظاہر ہے کہ پنڈت صاحب کی ان تمام تقریروں سے مطلب یہ نکلتا ہے کہ جن چیزوں کا نام پنڈت صاحب اور ان کے بھائی الہام رکھتے ہیں۔ وہ فقط عام خیالات ہیں کہ جو عام انسانوں کے دلوں میں عام طور پر گزرا کرتے ہیں۔ اور جو باقرار پنڈت صاحب احتمال غلطی اور خطا سے خالی نہیں ہیں۔ لیکن خدا کی کتابوں میں جس الہام کو خدا کا کلام اور وحی اللہ اور مخاطبات حضرت احدیت بولا جاتا ہے وہ نور ہی الگ ہے جو انسانی خیالات اور بشری طاقتوں سے برتر و اعلیٰ ہے۔ پنڈت صاحب اس نور آسمانی کی نسبت جو ایک غیبی آواز ہے جس میں انسان کے خیال اور اس کی طبیعت کا ایک ذرا دخل نہیں ہے۔ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ بوجہ اس کے کہ نیچر کے برخلاف ہے۔ اور ایک امر خارق عادت ہے اس لئے ممتنع اور محال ہے اور ہرگز جائز نہیں کہ خدا اپنا کلام کسی بشر پر نازل کرے۔ بلکہ الہام انہیں خیالات کا نام ہے کہ جو عام طور پر لوگوں کے دلوں میں معمولی اور پیدائشی طریق پر اٹھا کرتے ہیں اور کبھی سچے اور کبھی جھوٹے اور کبھی صحیح اور کبھی غلط اور کبھی پاک اور کبھی ناپاک ہوتے ہیں۔ اور ان میں کوئی ایسی خصوصیت نہیں ہوتی کہ جو انسانی طاقتوں سے بلند تر ہو۔ بلکہ وہ تمام انسانی طاقتوں کی حد میں پیدا ہوتے ہیں اور انسانی طبیعت ان کا سرچشمہ ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ پنڈت صاحب نے ان چند سطروں کے لکھنے میں اپنا وقت ناحق ضائع کیا۔ اگر پنڈت صاحب اپنی اس تحریر سے پہلے کتاب ہذا کے حصہ سوم کے صفحہ ۲۱۲ ؔ و ۲۱۳ و ۲۱۴ و ۲۱۵ کو ذرا غور سے پڑھ لیتے تو ان پر صاف کھل جاتا کہ اس قسم کے خیالات

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 383

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 383

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/383/mode/1up

قدرتِ محض سے پیدا کیا تھا۔ آسمانؔ اور زمین اور سورج اور چاند اور خود انسان کی

خدا کا کلام نہیں کہلاتے۔ یہ خیالات خلق اللہ ہیں جو انسان کی طبیعت کا لازمہ ذاتی ہے اور خدا کا کلام جو خدا کی طرف سے نازل ہوتا ہے وہ امر اللہ ہے جو ایک وہبی اور لدنی امر ہے۔ خدا کے کلام کے لئے یہ شرط ضروری ہے کہ جیسے خدا اپنی ذات میں سہو اور خطا اور کذب اور فضول اور ہریک نقصان اور نالائق امر سے منزہ ہے۔ ایسا ہی اس کا کلام بھی ہریک سہو اور خطا اور کذب اور فضول اور ہر طرح کے نقصان اور نالائق حالت سے منزہ اور پاک چاہئے۔ کیونکہ جو کلام پاک اور کامل چشمہ سے نکلا ہے۔ اس پر ہرگز یہ بات جائز نہیں کہ کسی نوع کی اس میں ناپاکی یا نقصان پایا جاوے اور ضرور ہے کہ وہ کلام ان تمام کمالات سے متصف ہو کہ جو خدائے قادر و کامل و قدوس و عالم الغیب کے کلام میں ہونی چاہئے۔ لیکن پنڈت صاحب آپ اقراری ہیں کہ جس چیز کا نام انہوں نے الہام رکھا ہوا ہے وہ ہرگز شک اور شبہ اور سہو اور غلطی اور نقصان اور نالیاقتی سے خالی نہیں۔ بلکہ ان کی تقریر کا خلاصہ یہ ہے کہ ان کا الہام ہمیشہ لوگوں کو کفر اور بے ایمانی میں ڈالتا رہا ہے۔ چنانچہ اس نے ابتدائی زمانہ کے لوگوں کو کبھی یہ بتلایا کہ گویا ان کا خدا درخت ہیں۔ اور کبھی پہاڑوں کو خدا بنا دیا۔ کبھی طوفان کو۔ کبھی پانی کو۔ کبھی آگ کو۔ کبھی ستاروں کو۔ کبھی چاند کو۔ کبھی سورج کو۔ غرض اسی طرح طرح طرح کے خداؤں کی طرف ان کو رجوع دیتا رہا۔ اور عقل بھی اُس الہام کی تصدیق کرتی گئی۔ آخر مدتوں کے بعد اب کچھ تھوڑے ہی عرصہ سے الہام اور عقل کو اصلی خدا کا پتہ لگا۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ جس حالت میں پہلے اس سے ہزارہا مرتبہ پنڈت صاحب کے باپ دادوں کے خیالی الہام نے اور نیز ان کی عقل نے طرح طرح کے دھوکے کھائے ہیں اور خدا شناسی میں ہمیشہ کچھ کا کچھ سمجھتے رہے تو اب کیونکر پنڈت صاحب تسلی کرسکتے ہیں کہ ان کا خیالی الہام اور خیالی اٹکلیں خطا اور غلطی سے محفوظ ہیں۔ کیا ممکن نہیں کہ اس میں بھی کچھ دھوکا ہی ہو۔ جس

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 384

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 384

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/384/mode/1up

فطرت پر نظر کرنے سے معلوم ہوگا کہ وہ ابتدائیؔ زمانہ محض قدرت نمائی کا زمانہ تھا

حالت میں پنڈت صاحب کا خیالی الہام ہمیشہ خطا اور غلطی میں ابتدا زمانہ سے ڈوبتا آیا ہے تو پھر اس کا اعتبار کیا رہا۔ غرض پنڈت صاحب کے الہام کی حقیقت اچھی طرح کھل گئی اور انہیں کے اقرار سے ثابت ہوگیا کہ انہوں نے صرف بے بنیاد خیالات کا نام الہام رکھا ہوا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جس چیز پر اکثر اوقات جھوٹ غالب ہے وہ حق شناسی کا آلہ کیونکر ہوسکے انسان کے اپنے ہی خیالات جن کا نام بقول پنڈت صاحب الہامؔ ہے کیونکر انسان کو غلطی سے بچا سکتے ہیں اور کیونکر اس کو وہ تاریک خیال ہریک تاریکی سے باہر نکال کر یقین کامل کی روشنی تک پہنچاسکتے ہیں۔ بقول پنڈت صاحب انہیں پراگندہ خیالات نے جو ان کے زعم میں باوصف اس پراگندگی کے الہام کے نام سے موسوم ہیں۔ ابتدائے زمانہ میں جو ایک پاک زمانہ تھا۔ ایسے لوگوں سے پتھروں کی پوجا کرائی اور چاند اور سورج کو ان کی نظر میں خدا ٹھہرایا کہ جو باقرار پنڈت صاحب الہامی فیض کے پہلے فیض یاب اور الہام یابوں کے صدر نشین تھے اور سب سے زیادہ خدا کی معرفت کے بھوکے اور پیاسے تھے اور دلی اخلاص سے اپنے لئے کوئی خدا مقرر کرنا چاہتے تھے اور اپنی اندرونی زندگی کو بہت مقدس رکھتے تھے۔ کیونکہ ابھی دنیا میں گناہ نہیں پھیلا تھا اور ست جُگ کا زمانہ تھا اور اپنے تئیں خدا کے حوالے کرنا چاہتے تھے اسی غرض سے تو خودبخود ان کے دل میں یہ بات گدگدائی تھی کہ آؤ اپنے لئے کوئی خدا مقرر کریں بے خدا ہی نہ رہیں۔ ایمان اور ادراک صاف رکھتے تھے تب ہی تو ان کو ایک باریک بات سوجھی اور خودبخود بیٹھے بٹھائے خدا کی تلاش میں پڑگئے۔ پس جس حالت میں بقول پنڈت صاحب ایسے پاک لوگ جو پرمیشر کی پرحکمت پیدائش کا پہلا نمونہ تھا اور حال کے زمانہ کے انواع اقسام کے تعصبات اور آلودگیوں سے پاک اور دلی جوش سے صانع عالم کی تلاش میں مصروف تھے اور اپنی تازہ پیدائش اور پیدا کنندہ کے تازہ فعل سے ذاتی واقفیت رکھتے تھے۔ ان کے الہام اور عقل کا یہ حال ہوکہ پتھروں اور پہاڑوں کی پوجا شروع کردیں اور چاند اور سورج اور آگ اور ہوا کو اپنا پیدا کنندہ سمجھ بیٹھیں تو پھر

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 385

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 385

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/385/mode/1up

جس میں اسباب معتادہ کی ذرہ آمیزش نہ تھی۔ اور اس زمانہؔ میں جو کچھ

پنڈت صاحب کا ایسا الہام اور ایسی عقل جس نے پہلی دفعہ ہی ایسی رہزنی کی دوسرے لوگوں کی طبیعت کو کہ جو غفلت کے زمانوں میں اور صدہا ظلمتوں کے وقت میں پیدا ہوئے ہیں کیونکر راہ راست پر لاوے گا کیونکہ یہ لوگ تو اپنے سلسلہ نوعی کی تازہ پیدائش سے بھی واقف نہیں ہیں اور بباعث غلبہُ حبِّ دنیا اور طرح طرح کے فسادوں کی زندگی بھی مقدس نہیں رکھتے اور خدا کی قربت کے بھوکے اور پیاسے بھی نہیں بلکہ انسانی گورنمنٹ کی قربت کے بھوکے اور پیاسے ہیں۔ پس جبکہ پنڈت صاحب کے خیالی الہام کا پاک زمانوں میں وہ اثر ہوا کہ مخلوق چیزوں کو خدا سمجھ بیٹھے تو اس تاریک زمانہ میں ایسے الہام کی یہ تاثیر ہونی چاہئے کہ لوگ خدا سے ہی انکار کریں۔ غرض پنڈت صاحب جو ایسے خیالات کا نام الہام رکھتے ہیں جن سے باقرار ان کے ابتدا سے غلطی ہوتی چلی آئی ہے۔ یہ پنڈت صاحب کاؔ خیال یا یوں کہو کہ ان کا خیالی الہام سراسر غلط اور جھوٹ ہے۔ اگرچہ انسانی خیالات کا علت العلل بھی خدا ہے۔ اور خدا ہی دلوں میں ڈالتا ہے اور عقلوں کو راہ دکھاتا ہے۔ لیکن وہ الہام کو جو حقیقت میں خدا کا پاک کلام اور اس کا آواز اور اس کی وحی ہے۔ وہ انسان کے فطرتی خیالات سے برتر و اعلیٰ ہے۔ وہ حضرت خدا تعالیٰ کی طرف سے اور اس کے ارادہ سے کاملوں کے دلوں پر نازل ہوتا اور خدا کا کلام ہونے کی وجہ سے خدا کی برکتوں کو اپنے ہمراہ رکھتا ہے۔ خدا کی قدرتوں کو اپنے ہمراہ رکھتا ہے۔ خدا کی پاک سچائیوں کو اپنے ہمراہ رکھتا ہے۔ لاریب فیہ ہونا اس میں ایک ذاتی خاصیت ہے۔ اور جس طرح خوشبو عطر کے وجود پر دلالت کرتی ہے اسی طرح وہ خدا کی ذات اور صفات کے وجود پر قطعی اور یقینی دلالت کرتا ہے۔ لیکن انسان کے اپنے ہی خیالات یہ مرتبہ حاصل نہیں کرسکتے۔ کیونکہ جس طرح انسان پر ضعف مخلوقیت ہے اسی طرح انسانی خیالات پر وہ ضعف غالب ہے۔ جو کچھ قادر مطلق کے چشمہ سے نکلتا ہے وہ اَور چیز ہے اور جو کچھ انسانی طبیعت سے پیدا ہوتا ہے وہ اَور ہے۔ مناسب ہے کہ پنڈت صاحب

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 386

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 386

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/386/mode/1up

خدا نے پیدا کیا وہ ایسی اعلیٰ قدرت سے کیا جس میں عقل انسان حیران ہے۔

حصہ سوم کے صفحہ ۲۱۲ سے ۲۱۵ تک پھر دیکھیں تا انہیں کلام الٰہی اور خیالات انسانی میں فرق معلوم ہو۔ اور جو پنڈت صاحب بار بار عقل پر ناز کرتے ہیں یہ ناز ان کا بھی سراسر بے جا ہے۔ ہم نے اسی حصہ سوم میں بہ تفصیل لکھ دیا ہے کہ مصنوعات صانع کے وجود کو بہ حیثیت موجودیت ہرگز ثابت نہیں کرتیں بلکہ اس کے وجود کی ضرورت کو ثابت کرتی ہیں اور وہ بھی بطور ظنی۔ لیکن خدا کا کلام اس کی موجودیت کو قطعی اور یقینی طور پر ثابت کرتا ہے نہ یہ کہ صرف اس کی ضرورت کو ثابت کرے۔ اسی طرح مصنوعات کے ملاحظہ سے خدا کا ازلی اور قدیم ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ کیونکہ مصنوعات خود ازلی اور قدیم نہیں۔ پھر دوسرے کا ازلی ہونا کیونکر ثابت کرسکیں۔ حادث جو اپنی ذات میں نوپیدا اور مستحدث ہے خداتعالیٰ کے وجود کی ضرورت کو صرف اسی حد تک ثابت کرے گا جس حد تک حادث کی انتہا ہے۔ یعنے جو اس کے ظہور اور حدوث کی حد ہے۔ اور پھر بعد اس کے بذریعہ حادث ثابت نہیں ہوتا کہ وجود کائنات سے پہلے خدائے تعالیٰ ازلی طور پر ہمیشہ موجود تھا یا نہیں۔ پس جو علم وجود باری بذریعہ وجود حادثات حاصل کیا جاتا ہے۔ نہایت ہی تنگ اور منقبض اور ناقص علم ہے جو انسان کو شکوک اور شبہات کے ورطہ سے ہرگز نہیں نکالتا اور جہل کی تاریکی اور ظلمت سے باہر نہیں لاتا۔ بلکہ طرح طرح کے تردّدات میں ڈالتا ہے۔ اسی وجہ سے جن لوگوں کی معرفت کا مدار صرف عقلی علم پر تھا ان کا خاتمہ اچھا نہیں ہوا اور اپنے عقائد میںؔ بہت سی تاریکی اور ظلمات کو ساتھ لے گئے۔ انسان اگر تعصّب اور ضد سے بکلی الگ ہوکر اور اپنے تئیں ایک سچا طالب حق بناکر اور فی الحقیقت معرفت الٰہی کا بھوکا اور پیاسا بن کر اپنے دل میں آپ ہی سوچے کہ مجھ کو خدا کی ہستی اور اس کی قادریت اور تمام صفات کاملہ پر یقین حاصل کرنے کے لئے اور عالم معاد اور معاملہ جزا سزا کو بطور علم قطعی و ضروری جاننے کے لئے کیا کیا ذخیرہ معرفت درکار ہے۔ کیا میں اپنی خوشحالی دائمی کو صرف اسی مرتبہ علم سے حاصل کرسکتا ہوں کہ جو ظنی طور پر بذریعہ عقل حاصل

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 387

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 387

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/387/mode/1up

زمینؔ آسمان اور سورج و چاند وغیرہ اجرام پر نظر ڈال کر دیکھو کہ کیونکر اتنا بڑا کام

ہوتا ہے یا خداوند کریم و رحیم نے میرے لئے کوئی اَور بھی راہ رکھا ہے۔ کیا اس نے میری تکمیل معرفت کے لئے کوئی اور راہ نہیں رکھا۔ اور مجھ کو صرف میرے ہی خیالات پر چھوڑ دیا ہے۔ کیا اس نے اس قدر مہربانی کرنے سے دریغ کیا ہے کہ جس جگہ میں اپنے کمزور پاؤں سے پہنچ نہیں سکتا اس جگہ وہ اب اپنی ربانی قوت سے مجھ کو پہنچادے۔ اور جن باریک چیزوں کو میں اپنی ضعیف آنکھ سے دیکھ نہیں سکتا۔ وہ مجھ کو اپنی عمیق نگاہ کی مدد سے آپ دکھادے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ وہ میرے دل کو ایک دریا کی پیاس لگا کر پھر مجھ کو ایک ناچیز قطرہ پر جو قلت معرفت کی بدبو سے بھرا ہوا ہے روک رکھے۔ کیا اس کے ُ جود اور بخشش اور رحمت اور قدرت کا یہی تقاضا ہے؟ کیا اُس کی قادریت یہیں تک ہے کہ جو کچھ عاجز بندہ اپنے طور پر ہاتھ پاؤں مار کر خدا کے وجود کی نسبت کوئی ڈھکونسلہ اپنے دل میں قائم کرے اسی پر اس کی معرفت کو ختم کر دے اور اپنی الوہیت کی خاص قوتوں سے اس کو معرفت حقانی کے عالم کا سیر نہ کرادے۔ تو جب طالب حق ایسے سوالات اپنے دل سے کرے گا تو ضرور وہ اپنے دل سے یہی محکم جواب پاوے گا کہ بلاشبہ خدائے تعالیٰ کی بے انتہا بخشائشوں کا یہی تقاضا ہونا چاہئے کہ وہ اپنے عاجز بندہ کی آپ دستگیری کرے۔ گم گشتہ کو آپ راہ دکھاوے۔ کمزور کا آپ ہاتھ پکڑے۔ کیا ممکن ہے کہ خدائے تعالیٰ قادر ہوکر، توانا ہوکر، رحیم ہوکر، کریم ہوکر، حی ہوکر، قیوم ہوکر اپنی طرف سے ہمیشہ خاموشی اختیار کرے۔ اور بندہ جاہل اور نابینا اس کی جستجو میں آپ ٹکریں مارتا پھرے۔

ناتواناں را کجا تاب و تواں

تانشاں یابند خود زاں بے نشاں

عقلِ کوراں رہنما جویَد براہ

رہبری از دانشِ کوراں مخواہ

عقلِ ما ازبہرِ زاری و بکاست

دفعِ آزار جہالت از خداست

عقلِ طفل است ایں کہ گریَد زار زار

شیر جز مادر نیاید زینہار

سو اے ناظرین!! اس مضمون میں انصاف سے نظر کرو اور غور اور تعمق سے سوچو۔

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 388

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 388

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/388/mode/1up

بغیر مدد اسباب اور معماروں اور مزدوروں کے محض ارادہ سے بہ مجرد حکم کے انجام

ہوشیار رہو اور کسی دھوکا دہندہ کے دھوکا میں مت آؤ۔ اپنے دلوں سے آپ ہی پوچھ لو کہ تمہارے دل کس قدر یقینؔ کے خواہش مند ہیں۔ کیا فقط تمہارے اپنے ہی افسردہ خیال تمہارے دلوں کو پوری پوری تسلی دے سکتے ہیں۔ کیا تمہارے روح اس بات کے خواہاں نہیں ہیں کہ تم اس دنیا میں کامل یقین تک پہنچ جاؤ اور نابینائی سے خلاصی پاؤ۔ تم سچ سچ کہو کیا تمہیں اس بات کی طلب نہیں کہ تمہاری ظلمت اور حیرت دور ہو۔ اور وہ شبہات جو تمہارے دلوں میں مخفی ہیں جن کو تم ظاہر بھی نہیں کرسکتے‘ دور ہوجائیں۔ پس اگر الٰہی معرفت کا کچھ جوش ہے تو یقیناً سمجھو کہ اس دنیا میں خدا کا قانون قدرت یہی ہے کہ اس نے ہریک چیز کے دریافت کرنے کے لئے یا حاصل کرنے کے لئے کسی نہ کسی چیز کو آلہ ٹھہرا دیا ہے۔ اور عقل کا صرف یہی کام ہے کہ اس آلہ کی ضرورت کو ثابت کرتی ہے۔ لیکن آپ اس آلہ کا کام نہیں دے سکتی۔ مثلاً آٹا پیسنے کے لئے چکی کی ضرورت کو عقل ثابت کرتی ہے۔ مگر یہ بات نہیں کہ عقل آپ ہی چکی بن جاوے اور آٹا پیسنے لگے۔ اسی طرح آج تک صدہا آلات کی عقل نے رہبری کی ہے لیکن کام وہی انجام کو پہنچا ہے جس کو آلہ نے انجام دیا ہے۔ اور جس کام کا آلہ میسر نہیں آیا۔ وہاں عقل حیران رہی ہے۔ پس دنیا کے تمام کاروبار پر نظر ڈال کر دیکھ لو کہ غایت درجہ کی سعی عقل کی یہی ہے کہ اس کو کسی کام کے انجام دینے کے لئے کسی آلہ کا خیال دل میں پیدا ہوجائے۔ مثلاً عقل نے یہ سوچا کہ عبور دریا کے لئے کوئی آلہ چاہئے تو کشتی کی صورت دل میں جم گئی اور پھر کشتی بنانے کا ایک مادہ میسّر آ گیا جو دریا پر چلتا ہے اور ڈوبتا نہیں، سو اس مادہ کے میسر آنے سے کشتی بن گئی۔ علیٰ ہذا القیاس ہزارہا اَور آلات ہیں جن سے دنیا کا دھندا چلتا ہے اور ہرجگہ عقل کا صرف اتنا منصب ہے کہ وہ آلہ کی ضرورت کو ثابت کرتی ہے اور یہ بیان کردیتی ہے کہ اس قسم کا آلہ ہونا چاہئے۔ یہ نہیں کہ وہ آپ آلہ مطلوبہ کا کام دے سکتی ہے۔ اب سمجھنا چاہئے کہ عقل سلیم اس بات کو بہ بداہت سمجھتی ہے کہ

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 389

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 389

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/389/mode/1up

دے دیا۔ پھر جس حالت میںؔ اس ابتدائی زمانہ میں خدا کا سارا کام قدرتی پایا جاتا

عالم ثانی کے واقعات اور صانع عالم کی ہستی اور اس صانع کی مرضیات اور غیر مرضیات اور جزاسزا کی کیفیات اور کمیّات اور ارواح کے خلود اور بقا کے یقینی حالات معلوم کرنا یہ ایک ایسا باریک اور دقیق امر ہے کہ بجز ایک سماوی آلہ کے صحیح اور یقینی طور پر ہرگز معلوم نہیں ہوسکتا۔ اور جس طرح عقل نے دنیا کے احسن انتظام کے لئے ہزارہا آلات کی ضرورت ثابت کی ہے۔ اسی طرح اس جگہ بھی عقل سلیم اس نادیدہ عالم کا قطعی طور پر پتہ دریافت کرنے کے لئے ایک آسمانی آلہ کی ضرورت قرار دیتی ہے تا اس قادر مطلق کی ہستی جس کے سمجھنے میں لاکھوں عقلمندوں نے دھوکے کھائے ہیں یقینی اور قطعیؔ طور پر معلوم ہوجاوے۔ اور اسی طرح عالمِ جزا سزا بھی قطعی طور پر معلوم ہو تا طالب حق ظنیات سے ترقی کرکے اسی عالم میں حضرت باری تعالیٰ اور اس کی صفاتِ کاملہ اور عالم آخرت کو بعین الیقین دیکھ لے۔ اور وہ آلہ جو اس مرتبہ اعلیٰ یقین تک پہنچاتا ہے کلام الٰہی ہے جس کے ذریعہ سے انسان بہ یقین کامل خدائے تعالیٰ کے وجود اور اس کی صفات کاملہ اور عالم جزا سزا کو سمجھ لیتا ہے اور خدائے تعالیٰ نے لاکھوں انسانوں کو اس مرتبۂ معرفت تک پہنچا کر ثابت کردکھایا ہے کہ یہ آلہ خداشناسی کا فی الواقعہ دنیا میں موجود ہے۔ اور جو شخص اس سماوی آلہ سے روشنی حاصل نہیں کرتا وہ اس اندھے کی مانند ہے کہ جو ایک ایسی راہ میں چلتا ہے جس میں جابجا خندقیں ہیں اور ہریک طرف بڑے بڑے گڑھے ہیں اس کو کچھ خبر نہیں کہ سلامتی کی راہ کدھر ہے۔ کچھ پتہ نہیں کہ بچاؤ کی طرف کون سی ہے۔ کچھ خبر نہیں کہ انجام قدم اٹھانے کا کیا ہے۔ نہ آپ دیکھ سکتا ہے نہ کسی رہنما کا دامن پکڑا ہوا ہے اور نہ یہ جانتا ہے کہ آخر کس جگہ کا منہ دیکھنا نصیب ہے اور نہ یہ یقین ہے کہ جس مطلب کے لئے اس نے قدم اٹھایا ہے وہ مطلب ضرور حاصل ہوجائے گا۔ بلکہ آنکھیں بھی اندھی ہیں اور دل بھی اندھا ہے۔

پھر ایک اَور وسوسہ جو پنڈت صاحب کے دل کو پکڑتا ہے یہ ہے کہ الہامی کتاب

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 390

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 390

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/390/mode/1up

ہے کہ جو آمیزش طبیعت اور سبب سے بہ کلی پاک اور خالص ربانی ارادہ سے نکلا

کسی انسان کے لئے اس کے ایمان کی بنیاد نہیں ہوسکتی۔ کیوں بنیاد نہیں ہوسکتی۔ اس کی دلیل آپ یہ لکھتے ہیں کہ الہامی کتاب کے تسلیم کرنے سے پہلے ضرور ہے کہ خدا پر ایمان قائم کرلیا جاوے ہریک پیغمبر یا رشی جس پر خدا کا کلام نازل ہوا اس نے کلام پر ایمان لانے سے پہلے متکلم کے وجود کو تسلیم کیا ہے کیونکہ کسی کلام پر ایمان لانے سے پہلے خود کلام کرنے والے کو مان لینا لازمی ہے۔ پس ظاہر ہے کہ پیغمبروں نے کلام کے نازل کنندہ کے وجود کا یقین بذریعہ اسی کلام کے حاصل نہیں کیا۔ بلکہ اس کلام کے نزول سے پہلے ہی ان کو اپنی اندرونی فطرت کی گواہی سے وہ یقین حاصل تھا۔ یہ دلیل پنڈت صاحب نے کلام الٰہی کے غیر ضروری ہونے پر گویا اپنی عقل کا تمام رس نچوڑ کر پیش کی ہے۔ لیکن ہریک عاقل پر سوچنے سے ظاہر ہوگا کہ یہ پنڈت صاحب کا سراسر وہم ہے کہ جو ان کے دل میں ایک صداقت کی غلط فہمی سے پیدا ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ پنڈت صاحب ان دونوں امروں متذکرہ ذیل کو اجتماع ضِدَّین قرار دیتے ہیں۔ یعنے یہ کہ بے خبر بندہ پر جو خدا کی ذات اور صفات سے بے خبر ہے کلام الٰہی نازل ہو اور ساتھ ہی وہ قادر خدا بذریعہ اپنی اس پاک کلام کے اپنے وجود پر آپ مطلع کرے یہ دونوں باتیں پنڈت صاحب کی نظر میں ضِدَّین ہیں جو ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتیں حالانکہ ان دونوں باتوں کا جمع ہونا کسی عاقل کے نزدیک اجتماع ؔ ضِدَّین میں داخل نہیں۔ جس حالت میں انسان بھی اپنے کلام کے ذریعہ سے دوسرے انسان کو اپنے وجود سے اطلاع دے سکتا ہے تو پھر وہ اطلاع دہی خدائے تعالیٰ سے کیوں غیر ممکن ہے کیا وہ پنڈت صاحب کے نزدیک اس بات پر قادر نہیں کہ بذریعہ اپنے کامل اور قادرانہ کلام کے جو تجلّیات الوہیت پر مشتمل ہے اپنے وجود سے مطلع کرے۔ اور اگر پنڈت صاحب کے دل کو یہ وسوسہ پکڑتا ہے کہ جس قدر نبی آئے وہ بلاشبہ کلام الٰہی کے نازل ہونے سے پہلے خدا پر یقین رکھتے تھے۔ پس اس سے ثابت ہے کہ وہ یقین انہیں کی فطرت اور عقل سے ان کو حاصل ہوا تھا۔ لیکن واضح ہو کہ یہ وسوسہ محض قلّت تدبر سے ناشی ہے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 391

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 391

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/391/mode/1up

ہوا ہے تو پھر کیونکر بے ایمانوں کی طرح بولیوں کے بارہؔ میں خدا کو اس بات سے عاجز

کیونکہ اس یقین کا باعث کسی طور سے مجرد عقل اور فطرت نہیں ہوسکتے۔ انبیاء کسی جنگل میں اکیلے پیدا نہیں ہوئے تھے تا یہ کہا جائے کہ انہوں نے الہام پانے سے پہلے بذریعہ سلسلہ سماعی بھی جس کی الہام الٰہی سے بنیاد چلی آتی ہے۔ خدا کا نام نہیں سنا تھا اور صرف اپنی فطرت اور عقل سے خدا کے وجود پر یقین رکھتے تھے بلکہ بہ بداہت ثابت ہے کہ خدا کے وجود کی شہرت اس کلام الٰہی کے ذریعہ سے دنیا میں ہوئی ہے کہ جو ابتدا زمانہ میں حضرت آدم پر نازل ہوا تھا۔ پھر بعد حضرت آدم کے جس قدر انبیا وقتاً فوقتاً زمانہ کی اصلاح کے لئے آتے رہے۔ ان کو قبل از وحی خدا کے وجود سے یاد دلانے والی وہی سماعی شہرت تھی جس کی بنیاد حضرت آدم کے صحیفہ سے پڑی تھی۔ پس وہی سماعی شہرت تھی جس کو نبیوں کی مستعد اور پرجوش فطرت نے فی الفور قبول کرلیا تھا۔ اور پھر خدا نے بذریعہ اپنے خاص کلام کے مراتب اعلیٰ یقین اور معرفت تک ان کو پہنچا دیا تھا اور اس نقصان اور قصور کو پورا کردیا تھا کہ جو محض سماعی شہرت کی پیروی سے عائد حال تھا۔ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ خدائے تعالیٰ کے وجود کی شہرت بطور سماعی چلی آتی ہے۔ اور سماعی سلسلہ کی بنیاد وہ الہام ہے جو پہلے پہل خدائے تعالیٰ کی طرف سے حضرت آدم ابوالبشر کو ہوا تھا۔ اور اس پر دلیل یہی کافی ہے کہ یہ بات نہایت بدیہی ہے کہ ابتداء میں خداوند قادر مطلق کی ہستی کا پتہ اسی شے کے ذریعہ سے لگا ہے کہ جس میں اب بھی پتہ لگانے کی قدرت مستقلہ حاصل ہے سو وہ قدرت مستقلہ صرف کلام الٰہی میں پائی جاتی ہے کیونکہ اب بھی کلام الٰہی میں یہ اقتدار موجود و مشہود ہے کہ وہ امورِ پنہانی پر جیسا کہ چاہئے صحیح صحیح اطلاع دے سکتا ہے اور گزشتہ خبریں بھی ظاہر کرسکتا ہے اور ذات باری کی غائبانہ ہستی کا ٹھیک ٹھیک نشان بھی دے سکتا ہے اور اپنے طریق خارق عادت سے اس پر یقین بھی بخش سکتا ہے اور عالم ثانی کے حقائق اور کیفیتوں پر بھی مفصل طور پر مطلع کرسکتا ہے جیسا کہ اسی زمانہ میں ملہمین کے تجارب صحیحہ اس بات کی تصدیق کررہے ہیں۔ لیکنؔ یہ َ جوہر عقل میں موجود نہیں ہے چنانچہ یہ بات بہ پایہ ثبوت پہنچ چکی ہے کہ جس بچہ نو پیدا کو سلسلہ سماعی کی تعلیم سے بہ کلی محروم رکھ کر صرف اس کی عقل پر اس کی خداشناسی کو چھوڑا جاوے تو وہ خدا

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 392

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 392

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/392/mode/1up

سمجھا جائے کہ جس طرح اس نے تمام چیزوں کو محض قدرت سے پیدا کیا تھا وہ بولیوں

کی ہستی اور اس کی صفات کاملہ اور عالم جزا سزا سے بکلی بے خبر رہتا ہے۔ پس چونکہ معرفت حقہ کی تعلیم کا اقتدار صرف کلام الٰہی میں ثابت ہے عقل میں ثابت نہیں۔ اس لئے ہریک عاقل کو ماننا پڑتا ہے کہ ایمان اور دین کی بنیاد کلام الٰہی ہے خیالات عقلیہ ہرگز بنیاد نہیں ہیں۔ اگرچہ استعداد عقلی نفس انسان میں موجود ہے مگر وہ استعداد بغیر رہبری کلام الٰہی کے ناکارہ ہے۔ جیسے استعداد بصارت آنکھوں میں موجود تو ہے مگر بغیر آفتاب کے کچھ چیز نہیں اور جس طرح آفتاب کی روشنی اپنے وجود کو بھی ثابت کرتی ہے اور آفتاب کے وجود کی طرف بھی رہبر ہے۔ اسی طرح خدا کا کلام اپنی ذاتی روشنی اور صداقت اور بے مثل ہونے کی وجہ سے اپنا منجانب اللہ ہونا بھی ثابت کرتا ہے اور خدائے تعالیٰ کی ہستی کی طرف بھی یقینی اور قطعی طور پر رہبر ہے۔

پھر پنڈت صاحب نے پرچہ دھرم جیون جنوری ۱۸۸۳ء میں یہ دعویٰ کردیا ہے کہ دانشمند انسان ایسی کتاب تالیف کرسکتا ہے کہ جو کمالات میں مثل قرآن شریف کے یا اس سے بڑھ کر ہو۔ اب چونکہ پنڈت صاحب بھی دانشمند ہی ہیں بلکہ اپنی قوم کے ریفارمر اور مصلح ہونے کا دم مارتے ہیں اس لئے یہ بار ثبوت انہیں کے ذمہ ہے کہ وہ ایسی کتاب تالیف کرکے دکھلاویں اور جس طرح قرآن شریف باوجود کمالِ ایجاز جامع تمام حقائق و دقائق ہے اور جس طرح قرآن شریف باوجود التزام حق اور حکمت اور صداقت کے اعلیٰ درجہ کی فصاحت اور بلاغت پر ہے اور جس طرح قرآن شریف اعلیٰ درجہ کی پیشین گوئیوں اور امور غیبیہ سے بھرا ہوا ہے اور جس طرح قرآن شریف اپنی پاک تاثیروں کی وجہ سے سچے طالبوں کے دلوں کو پاک کرکے آسمانی روشنی سے منور کرتا ہے اور ان میں وہ خاص برکتیں پیدا کرتا ہے کہ جو دوسرے مذہبوں میں نہیں پائی جاتیں جیسا کہ ہم نے ان سب باتوں کو اپنی کتاب میں ثابت کردیا ہے اور کامل ثبوت دے دیا ہے۔ اسی طور اور شان کی کوئی اور کتاب تالیف کرکے پیش کریں۔

ندارد کسے باتو ناگفتہ کار

و لیکن چو گفتی دلیلش بیار

لیکن ہم پنڈت صاحب پر ظاہر کرتے ہیں کہ کسی انسان کے لئے ہرگز ممکن نہیں کہ وہ امور متذکرہ بالا کو جو طاقت انسانی سے بلند تر ہیں اپنے کلام میں پیدا کرسکے مگر خدا کے کلام میں

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 393

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 393

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/393/mode/1up

کے پیدا کرنے پر قدرت نہیں رکھتا تھا۔ جس نے خود انسان کوؔ بغیر باپ اور ماں کے

ان امور کا جمع ہونا نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے۔ کیونکہ جیسا کہ خدا بے مثل و مانند ہے اسی طرح جو چیز اسی کی طرف سے صادر ہے وہ بے مثل و مانند چاہئے جس کی نظیر بنانے پر انسان قادر نہ ہوسکے۔ پس قرآن شریف نے جو اپنے ؔ کمالات میں بے مثل ہونے کا دعویٰ کیا ہے یہ کوئی بے موقعہ دعویٰ نہیں۔ یہ وہی قانون قدرت کا مسئلہ ہے جس پر چلنا انسان کی دانشمندی ہے۔ جس سے انحراف کرنا حماقت کی نشانی ہے۔ ذرا اپنے ہی دل میں سوچ کر آپ انصافاًفرمائیے کہ خدا کے کلام کا بے نظیر ہونا قانون قدرت کے لحاظ سے لازم ہے یا نہیں۔ اگر آپ کے نزدیک لازم نہیں اور خدا کے کاموں میں شرکت غیر بھی جائز ہے تو پھر صاف یہی کیوں نہیں کہتے کہ ہم کو خدا کے واحد لا شریک ہونے میں ہی کلام ہے۔ کیا آپ اس بدیہی بات کو سمجھ نہیں سکتے کہ خدا کی وحدانیت تب ہی تک ہے جب تک اس کی تمام صفات شرکتِ غیر سے منزہ ہیں۔ اگر خدا کے کلام کی یہ حیثیت ہو کہ انسان بھی ایسا ہی کلام بناسکے تو گویا خدا کی ساری حیثیت معلوم ہوگئی۔ گویا اس کی خدائی کا سارا بھید ہی کھل گیا۔*

* اسؔ بات پر عیسائیوں کو بھی نہایت توجہ سے غور کرنی چاہئے کہ خدائے بے مثل و مانند اور کامل کے کلام میں کن کن نشانیوں کا ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ ان کی انجیل بو جہ محرّف اور مبدّل ہوجانے کے ان نشانیوں سے بالکل بے بہرہ اور بے نصیب ہے بلکہ الٰہی نشان تو یک طرف رہے معمولی راستے اور صداقت بھی کہ جو ایک منصف اور دانشمند مُُتکلّم کے کلام میں ہونی چاہئے انجیل کو نصیب نہیں۔ کم بخت مخلوق پرستوں نے خدا کے کلام کو، خدا کی ہدایت کو، خدا کے نور کو اپنے ظلمانی خیالات سے ایسا ملا دیا کہ اب وہ کتاب بجائے رہبری کے رہزنی کا ایک پکا ذریعہ ہے۔ ایک عالم کو کس نے توحید سے برگشتہ کیا؟ اسی مصنوعی انجیل نے۔ ایک دنیا کا کس نے خون کیا؟ انہیں تالیفات اربعہ نے جن اعتقادوں کی طرف مخلوق پرستوں کا نفس امّارہ جھکتا گیا اُسی طرف ترجمہ کرنے کے وقت ان کے الفاظ بھی جھکتے گئے۔ کیونکہ انسان کے الفاظ ہمیشہ اس کے خیالات کے تابع ہوتے ہیں۔ غرض انجیل کی ہمیشہ کایا پلٹ کرتے رہنے سے اب وہ کچھ اور ہی چیز ہے اور خدا بھی اس کی تعلیم

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 394

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 394

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/394/mode/1up

پیدا کرکے اپنی قدرت تامہ کا ثبوت دے دیا ہے۔ پھر بولیوں کے بارہ میں کیوں اس کی

ابؔ ہم اس جگہ بغرض فائدہ عام یہ بات بطور قاعدہ کلیہ بیان کرتے ہیں کہ کلام کا وہ کون سا مرتبہ ہے جس مرتبہ پر کوئی کلام واقعہ ہونے سے اس صفت سے متّصِف ہوجاتا ہے کہ اُس کو بے نظیر اور منجانب اللہ کہا جائے اور پھر بطور نمونہ کوئی سورہ قرآن شریف کی لکھ کر اس میں یہ ثابت کرکے دکھلائیں گے کہ وہ تمام وجوہ بے نظیری جو قاعدہ کلیہ میں قرار دی گئی ہیں۔ اس سورہ میں بہ تمام و کمال پائی جاتی ہیں اور اگر کسی کو ان وجوہ بے نظیری کے قبول کرنے میں پھر بھی انکار ہوگا تو یہ بار ثبوت اسی کے ذمہ ہوگا کہ کوئی دوسرا کلام پیش کرکے دکھلاوے جس میں وہ تمام وجوہ بے نظیری پائے جاویں۔

سو واضح ہو کہ اگر کوئی کلام ان تمام چیزوں میں سے کہ جو خدائے تعالیٰ کی طرف سے صادر اور اس کے دست قدرت کی صنعت ہیں کسی چیز سے مشابہت کلی رکھتا ہو یعنے اس میں عجائبات ظاہری و باطنی ایسے طور پر جمع ہوں کہ جو مصنوعات الٰہیہ میں سے کسی شے میں جمع ہیں تو اس صورت میں کہا جائے گا کہ وہ کلام ایسے مرتبہ پر واقع ہے کہ جس کی مثل بنانے سے انسانی طاقتیں عاجز ہیں کیونکہ جس چیز کی نسبت بے نظیر اور صادر من اللہ ہونا عندالخواص و العوام ایک مسلّم اور مقبول امر ہے جس میں کسی کو اختلاف و نزاع نہیں

موجودہ کے رو سے وہ اصلی خدا نہیں کہ جو ہمیشہ حدوث اور تولّد اور تجسّم اور موت سے پاک تھا۔ بلکہ انجیل کی تعلیم کے رو سے عیسائیوں کا خدا ایک نیا خدا ہے یا وہی خدا ہے کہ جس پر بدقسمتی سے بہت سی مصیبتیں آئیں اور آخری حال اس کا پہلے حال سے کہ جو ازلی اور قدیم تھا بالکل بدل گیا اور ہمیشہ قیوم اور غیر متبدل رہ کر آخرکار تمام قیومی اس کی خاک میں مل گئی۔ ماسوائے اس کے عیسائیوں کے محققین کو خود اقرار ہے کہ ساری انجیل الہامی طور پر نہیں لکھی گئی بلکہ متی وغیرہ نے بہت سی باتیں اس کی لوگوں سے سن سنا کر لکھی ہیں اور لوقا کی انجیل میں تو خود لوقا اقرار کرتا ہے کہ جن لوگوں نے مسیح کو دیکھا تھاانؔ سے دریافت کرکے میں نے لکھا ہے۔ پس اس تقریر میں خود لوقا اقراری ہے کہ اس کی انجیل الہامی نہیں۔ کیونکہ الہام کے بعد لوگوں سے پوچھنے کی کیا حاجت تھی۔ اسی طرح مرقس کا مسیح کے شاگردوں میں سے ہونا ثابت نہیں۔ پھر وہ نبی کیونکر ہوا۔ بہرحال چاروں انجیلیں نہ اپنی صحت پر قائم ہیں اور

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 395

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 395

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/395/mode/1up

قدرت کو ناقص خیال کیا جائے۔ غرض جبکہ ہریک عاقل کو یہ ماننا پڑتاؔ ہے کہ پہلا

اس کی وجوہ بے نظیری میں کسی شے کی شراکت تامہ ثابت ہونا بلاشبہ اس امر کو ثابت کرتا ہے کہ وہ شے بھی بے نظیر ہی ہے مثلاً اگر کوئی چیز اس چیز سے بکلی مطابق آجائے جو اپنے مقدار میں دس گز ہے تو اس کی نسبت بھی یہ علم صحیح قطعی مفید یقین جازم حاصل ہوگا کہ وہ بھی دس گز ہے۔

اب ہم ان مصنوعات الٰہیہ میں سے ایک لطیف مصنوع کو مثلاً گلاب کے پھول کو بطور مثال قرار دے کر اس کے وہ عجائبات ظاہری و باطنی لکھتے ہیں جن کی رو سے وہ ایسی اعلیٰ حالت پر تسلیم کیا گیا ہے کہ اس کی نظیر بنانے سے انسانیؔ طاقتیں عاجز ہیں۔ اور پھر اس بات کو ثابت کرکے دکھلائیں گے کہ ان سب عجائبات سے سورۃ فاتحہ کے عجائبات اور کمالات ہم وزن ہیں۔ بلکہ ان عجائبات کا پلہ بھاری ہے اور اس مثال کے اختیار کرنے کا موجب یہ ہوا کہ ایک مرتبہ اس عاجز نے اپنی نظر کشفی میں سورۃ فاتحہ کو دیکھا کہ ایک ورق پر لکھی ہوئی اس عاجز کے ہاتھ میں ہے اور ایک ایسی خوبصورت اور دلکش شکل میں ہے کہ گویا وہ کاغذ جس پر سورۃ فاتحہ لکھی ہوئی ہے سرخ سرخ اور ملائم گلاب کے پھولوں سے اس قدر لدا ہوا ہے کہ جس کا کچھ انتہا نہیں اور جب یہ عاجز اس سورۃ کی کوئی آیت پڑھتا ہے تو اس میں سے بہت سے گلاب کے پھول ایک خوش آواز کے ساتھ پرواز کرکے اوپر کی طرف اڑتے ہیں اور وہ پھول نہایت لطیف اور بڑے بڑے اور سندر اور تروتازہ اور خوشبودار ہیں جن کے اوپر چڑھنے کے وقت دل و دماغ نہایت معطر ہوجاتا ہے اور ایک ایسا عالم مستی کا پیدا کرتے ہیں کہ جو اپنی بے مثل لذتوں کی کشش سے دنیا و مافیہا سے نہایت درجہ کی نفرت دلاتے ہیں۔ اس مکاشفہ سے

اور نہ اپنے سب بیان کے رو سے الہامیؔ ہیں اور اسی وجہ سے انجیلوں کے واقعات میں طرح طرح کی غلطیاں پڑگئیں اور کچھ کا کچھ لکھا گیا۔ غرض اس بات پر عیسائیوں کے کامل محققین کا اتفاق ہوچکا ہے کہ انجیل خالص خدا کا کلام نہیں ہے بلکہ پتے داری گاؤں کی طرح کچھ خدا کا کچھ انسان کا ہے۔ ہاں بعض ناواقف عیسائی بوجہ اپنی نہایت سادہ لوحی کے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 396

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 396

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/396/mode/1up

زمانہ خالص قدرت نمائی کا زمانہ تھا اور اس میں عام طور پر قانون قدرت یہی تھا کہ

معلوم ہوا کہ گلاب کے پھول کو سورۃ فاتحہ کے ساتھ ایک روحانی مناسبت ہے۔ سو ایسی مناسبت کے لحاظ سے اس مثال کو اختیار کیا گیا اور مناسب معلوم ہوا کہ اول بطور مثال گلاب کے پھول کے عجائبات کو کہ جو اس کے ظاہر و باطن میں پائے جاتے ہیں لکھا جائے اور پھر بمقابلہ اس کے عجائبات کے سورۃ فاتحہ کے عجائبات ظاہری و باطنی قلمبند ہوں تا ناظرین باانصاف کو معلوم ہو کہ جو خوبیاں گلاب کے پھول میں ظاہراً و باطناً پائی جاتی ہیں جن کے رو سے اس کی نظیر بنانا عادتاً محال سمجھا گیا ہے۔ اسی طور پر اور اس سے بہتر خوبیاں سورۃ فاتحہ میں موجود ہیں اور تا اس مثال کے لکھنے سے اشارہ کشفی پر بھی عمل ہوجائے۔ پس جاننا چاہئے کہ یہ امر ہریک عاقل کے نزدیک بغیر کسی تردّد اور توقّف کے مسلّم الثبوت ہے کہ گلاب کا پھول بھی مثل اور مصنوعات الٰہیہ کے ایسی عمدہ خوبیاں اپنی ذات میں جمع رکھتا ہے جن کی مثل بنانے پر انسانؔ قادر نہیں اور وہ دو طور کی خوبیاں ہیں۔ ایک وہ کہ جو اس کی ظاہری صورت میں پائی جاتی ہیں اور وہ یہ ہیں کہ اس کا رنگ نہایت خوشنما اور خوب ہے اور اس کی خوشبو نہایت دلارام اور دلکش ہے اور اس کے ظاہر بدن میں نہایت درجہ کی ملائمت اور تروتازگی اور نرمی اور نزاکت اور صفائی ہے اور دوسری وہ خوبیاں ہیں کہ جو باطنی طور پر حکیم مطلق نے اس میں ڈال رکھی ہیں یعنے وہ خواص کہ جو اس کے جوہر میں پوشیدہ ہیں اور وہ یہ ہیں کہ وہ مفرح اور مقوّئ قلب اورُ مسکن صفرا ہے اور تمام قویٰ اور ارواح کو تقویت بخشتا ہے اور صفر اور بلغم رقیق کا مسہل بھی ہے اور اسی طرح معدہ اور جگر اور گردہ اور امعا اور رِحم اور پھیپھڑہ کو بھی قوّت بخشتا ہے اور خفقان حارّ اور غشی اور ضعفِ قلب کے لئے نہایت مفید ہے اور اسی طرح اور کئی امراض بدنی کو

کبھیؔ کبھی یہ دعویٰ کر بیٹھتے ہیں کہ انجیل بھی اپنی تعلیم کی رو سے بے مثل و مانند ہے۔ یعنے انسان اس کی مثل بنانے پر قادر نہیں۔ پس اس سے ثابت ہے کہ تعلیم اس کی خدا کا کلام ہے اور انجیل کی تعلیم کا بے مثل و مانند ہونا اس طرح پر بیان کرتے ہیں کہ اس میں عفو اور درگزر اور نیکی اور احسان کے لئے بہت سی تاکید ہے۔

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 397

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 397

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/397/mode/1up

ہریک کام بغیر آمیزش اسباب معتادہ کے کیا جائے تو پھر بولیوں کو اس عام

فائدہ مند ہے۔ پس انہیں دونوں طور کی خوبیوں کی وجہ سے اس کی نسبت اعتقاد کیا گیا ہے کہ وہ ایسے مرتبہ کمال پر واقعہ ہے کہ ہرگز کسی انسان کے لئے ممکن نہیں کہ اپنی طرف سے کوئی ایسا پھول بناوے کہ جو اس پھول کی طرح رنگ میں خوشنما اور خوشبو میں دلکش اور بدن میں نہایت تروتازہ اور نرم اور نازک اور مصفا ہو اور باوجود اس کے باطنی طور پر تمام وہ خواص بھی رکھتا ہو جو گلاب کے پھول میں پائے جاتے ہیں اور اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیوں گلاب کے پھول کی نسبت ایسا اعتقاد کیا گیا کہ انسانی قوتیں اس کی نظیر بنانے سے عاجز ہیں اور کیوں جائز نہیں کہ کوئی انسان اس کی نظیر بناسکے اور جو خوبیاں اس کی ظاہر و باطن میں پائی جاتی ہیں وہ مصنوعی پھول میں پیدا کرسکے۔ تو اس سوال کا جواب یہی ہے کہ ایسا پھول بنانا عادتاً ممتنع ہے اور آج تک کوئی حکیم اور فیلسوف کسی ایسی ترکیب سے کسی قسم کی ادویہ کو بہم نہیں پہنچا سکا کہ جن کے باہم مخلوط اور ممزوج کرنے سے ظاہر و باطن میں گلاب کے پھول کی سی صورت اور سیرت پیدا ہوجائے۔ اب سمجھنا چاہئے کہ یہی وجوہ بے نظیری کی سورۃ فاتحہ میں بلکہ قرآن شریف کے ہریک حصہ اقل قلیل میں کہ جو چار آیت سےؔ بھی کم ہو پائی جاتی ہیں۔ پہلے ظاہری صورت پر نظر ڈال کر دیکھو کہ کیسی رنگینی عبارت اور خوش بیانی اور جودت الفاظ اور کلام میں کمال سلاست اور نرمی اور روانگی اور آب و تاب اور لطافت وغیرہ لوازم حسن کلام اپنا کامل جلوہ دکھا رہے ہیں۔ ایسا جلوہ کہ جس پر زیادت متصور نہیں اور وحشت کلمات اور تعقید ترکیبات سے بکلی سالم اور بری ہے۔ ہریک فقرہ اس کا نہایت فصیح اور بلیغ ہے اور ہریک ترکیب اس کی اپنے اپنے

اورؔ ہریک جگہ شر کے مقابلہ سے منع کیا ہے۔ بلکہ بدی کے عوض نیکی کرنا لکھا ہے اور ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری گال بھی پھیر دینے کا حکم ہے۔ پس اس دلیل سے ثابت ہوگیا کہ وہ بے مثل و مانند اور انسانی طاقتوں سے برتر ہے۔

لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ۔ اے حضرات! یہ نئی منطق آپ کہاں سے لائے جس سے آپ یہ

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 398

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 398

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/398/mode/1up

قانون سے باہرؔ نکال کر قانون قدرت کو توڑنا سراسر جہالت اور نادانی ہے۔

سب اس میں پایا جاتا ہے اور جس قدر حسن تقریر کے لئے بلاغت اور خوش بیانی کا اعلیٰ سے درجہ ذہن میں آسکتا ہے وہ کامل طور پر اس میں موجود اور مشہود ہے اور جس قدر مطلب کے دل نشین کرنے کے لئے حسن بیان درکار ہے وہ سب اس میں مہیا اور موجود ہے اور باوجود اس بلاغت معانی اور التزام کمالیت حسن بیان کے صدق اور راستی کی خوشبو سے بھرا ہو اہے۔ کوئی مبالغہ ایسا نہیں جس میں جھوٹ کی ذرا آمیزش ہو۔ کوئی رنگینی عبارت اس قسم کی نہیں جس میں شاعروں کی طرح جھوٹ اور ہزل اور فضول گوئی کی نجاست اور بدبو سے مدد لی گئی ہو۔ پس جیسے شاعروں کا کلام جھوٹ اور ہزل اور فضول گوئی کی بدبو سے بھرا ہوا ہوتا ہے یہ کلام صداقت اور راستی کی لطیف خوشبو سے بھرا ہوا ہے اور پھر اس خوشبو کے ساتھ خوش بیانی اور َ جودت الفاظ اور رنگینی اور صفائی عبارت کو ایسا جمع کیا گیا ہے کہ جیسے گلاب کے پھول میں خوشبو کے ساتھ اس کی خوش رنگی اور صفائی بھی جمع ہوتی ہے۔ یہ خوبیاں تو باعتبار ظاہر کے ہیں اور باعتبار باطن کے اس میں یعنے سورۃ فاتحہ میں یہ خواص ہیں کہ وہ بڑی بڑی امراض روحانی کے علاج پر مشتمل ہے اور تکمیل قوت علمی اور عملی کے لئے بہت سا سامان اس میں موجود ہے اور بڑے بڑے بگاڑوں کی اصلاح کرتی ہے اور بڑے بڑے معارف اور دقائق اور لطائف کہ جو حکیموں اور فلسفیوں کی نظر سے چھپے رہے اس میں مذکور ہیں۔ سالک کے دل کو اسؔ کے پڑھنے سے یقینی قوت بڑھتی ہے اور شک اور شبہ اور ضلالت کی بیماری سے شفا حاصل ہوتی ہے اور بہت سی اعلیٰ درجہ کی صداقتیں اور

سمجھؔ بیٹھے کہ جن نصیحتوں میں حلم اور درگزر کی تاکید مزید ہو وہ بے نظیر ہوجایا کرتی ہیں اور قویٰ بشریہ ایسی نصیحتوں کے بیان کرنے سے قاصر ہوتی ہیں۔ یہی تو سمجھ کا پھیر ہے کہ اب تک آپ کو یہ بھی خبر نہیں کہ بے مثل و مانند کا لفظ کسی شے کی نسبت صرف انہیں حالتوں میں بولا جاتا ہے کہ جب وہ شے اپنی ذات میں ایسے مرتبہ پر

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 399

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 399

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/399/mode/1up

اُس زمانہ کی نظیر میں اِس زمانہ کے حالات پیش کرنا درست نہیں ہے۔ مثلاً اب کوئی

نہایت باریک حقیقتیں کہ جو تکمیل نفس ناطقہ کے لئے ضروری ہیں۔ اس کے مبارک مضمون میں بھری ہوئی ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ کمالات بھی ایسے ہیں کہ گلاب کے پھول کے کمالات کی طرح ان میں بھی عادتاً ممتنع معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی انسان کے کلام میں مجتمع ہوسکیں اور یہ امتناع نہ نظری بلکہ بدیہی ہے۔ کیونکہ جن دقائق و معارفِ عالیہ کو خدائے تعالیٰ نے عین ضرورت حقہ کے وقت اپنے بلیغ اور فصیح کلام میں بیان فرما کر ظاہری اور باطنی خوبی کا کمال دکھلایا ہے اور بڑی نازک شرطوں کے ساتھ دونوں پہلوؤں ظاہر و باطن کو کمالیت کے اعلیٰ مرتبہ تک پہنچایا ہے۔ یعنے اول تو ایسے معارف عالیہ ضروریہ لکھے ہیں کہ جن کے آثار پہلی تعلیموں سے ُ مندرس اور محو ہوگئے تھے اور کسی حکیم یا فیلسوف نے بھی اُن معارف عالیہ پر قدم نہیں مارا تھا اور پھر ان معارف کو غیر ضروری اور فضول طور پر نہیں لکھا بلکہ ٹھیک ٹھیک اس وقت اور اس زمانہ میں ان کو بیان فرمایا جس وقت حالت موجودہ زمانہ کی اصلاح کے لئے ان کا بیان کرنا ازبس ضروری تھا اور بغیر ان کے بیان کرنے کے زمانہ کی ہلاکت اور تباہی متصور تھی اور پھر وہ معارف عالیہ ناقص اور ناتمام طور پر نہیں لکھے گئے بلکہ کماً و کیفاًکامل درجہ پر واقعہ ہیں اور کسی عاقل کی عقل کوئی ایسی دینی صداقت پیش نہیں کرسکتی جو ان سے باہر رہ گئی ہو اور کسی باطل پرست کا کوئی ایسا وسوسہ نہیں جس کا ازالہ اس کلام میں موجود نہ ہو۔ ان تمام حقائق و دقائق کے التزام سے کہ جو دوسری طرف ضرورات حقہ کے التزام کے ساتھ وابستہ ہیں فصاحت بلاغت کے ان اعلیٰ کمالات کو ادا کرنا جن پر زیادت متصور نہ ہو۔ یہ تو نہایت بڑا کام ہے کہ جو بشری طاقتوں سے بہ بداہت نظر بلند تر ہے۔ مگر انسان تو ایسا بے ہنر ہے کہ اگر ادنیٰ اور ناکارہ معاملات کو کہ جو حقائق عالیہ سے کچھ تعلق نہیں رکھتے کسی رنگین اور فصیح عبارت میں بہ التزام راست بیانی اور حق گوئی کے

واقعہؔ ہو کہ جس کی نظیر پیش کرنے سے انسانی طاقتیں عاجز رہ جائیں۔ آپ اپنے دعویٰ میں بار بار اسی بات پر زور دیتے ہیں کہ انجیل میں ہرجگہ اور ہر موقعہ میں عفو اور درگزر کرنے کے لئے تاکید ہے اور ایسی تاکید کسی دوسری کتاب میں نہیں۔ بھلا بہت

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 400

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 400

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/400/mode/1up

بچہ انسان کا بغیر ذریعہ ماں اور باپ کے پیدا نہیں ہوتاؔ ۔ لیکن اگر اس ابتدائی

لکھنا چاہے تو یہ بھی اس کے لئےؔ ممکن نہیں جیسا کہ یہ بات ہر عاقل کے نزدیک نہایت بدیہی ہے کہ اگر مثلاً ایک دوکاندار جو کامل درجہ کا شاعر اور انشا پرداز ہو۔ یہ چاہے کہ جو اپنی اس گفتگو کو جو ہر روز اسے رنگا رنگ کے خریداروں اور معاملہ داروں کے ساتھ کرنی پڑتی ہے۔ کمال بلاغت اور رنگینی عبارت کے ساتھ کیا کرے اور پھر یہ بھی التزام رکھے کہ ہر محل اور ہر موقعہ میں جس قسم کی گفتگو کرنا ضروری ہے وہی کرے مثلاً جہاں کم بولنا مناسب ہے وہاں کم بولے اور جہاں بہت مغززنی مصلحت ہے وہاں بہت گفتگو کرے اور جب اس میں اور اس کے خریدار میں کوئی بحث آپڑے تو وہ طرز تقریر اختیار کرے جس سے اس بحث کو اپنے مفید مطلب طے کرسکے۔ یا مثلاً ایک حاکم جس کا یہ کام ہے کہ فریقین اور گواہوں کے بیان کو ٹھیک ٹھیک قلمبند کرے اور ہریک بیان پر جو جو واقعی اور ضروری طور پر جرح قدح کرنا چاہئے وہی کرے اور جیسا کہ تنقیح مقدمہ کے لئے شرط ہے اور تفتیش امر متنازعہ فیہ کے لئے قرین مصلحت ہے سوال کے موقعہ پر سوال اور جواب کے موقعہ پر جواب لکھے اور جہاں قانونی وجوہ کا بیان کرنا لازم ہو۔ ان کو درست طور پر حسب منشاء قانون بیان کرے اور جہاں واقعات کا بہ ترتیب تمام کھولنا واجب ہو۔ ان کو بہ پابندی ترتیب و صحت کھول دے اور پھر جو کچھ فی الواقعہ اپنی رائے اور بتائید اُس رائے کے وجوہات ہیں ان کو بہ صحت تمام بیان کرے اور باوصف ان تمام التزامات کے فصاحت بلاغت کے اس اعلیٰ درجہ پر اس کا کلام ہو کہ اس سے بہتر کسی بشر کے لئے ممکن نہ ہو تو اس قسم کی بلاغت کو بانجام پہنچانا بہ بداہت ان کے لئے محال ہے۔ سو انسانی فصاحتوں کا یہی حال ہے کہ بجز فضول اور غیر ضروری اور واہیات باتوں کے قدم ہی نہیں اٹھ سکتا۔ اور بغیر جھوٹ

خوب یوں ہی سہی مگر کیا اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ اس قدر تاکید انسان نہیں کرسکتا۔ اورؔ انسانی قوّتیں ان تاکیدوں کے بیان سے قاصر ہیں۔ کیا رحم اور عفو کی تاکید بُت پرستوں کے پُستکوں میں کچھ کم ہے۔ بلکہ سچ پوچھو تو آریہ قوم کے بت پرستوں نے رحم کی تاکید کو

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 401

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 401

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/401/mode/1up

زمانہ میں بھی انسان کا پیدا ہونا والدین کے وجود پر ہی موقوف ہوتا تو پھر کیونکر

اور ہزل کے اختیار کرنے کے کچھ بول ہی نہیں سکتے۔ اور اگر کچھ بولے بھی تو ادھورا۔ ناک ہے تو کان نہیں۔ کان ہیں تو آنکھ ندارد۔ سچ بولے تو فصاحت گئی۔ فصاحت کے پیچھے پڑے تو جھوٹ اور فضول گوئی کے انبار کے انبار جمع کرلئے۔ پیاز کی طرح سب پوست ہی پوست اور بیچ میں کچھ بھی نہیں۔ پس جس صورت میں عقل سلیم صریح حکم دیتی ہے کہؔ ناکارہ اور خفیف معاملات اور سیدھے سادھے واقعات کو بھی ضرورت َ حقہ اور راستی کے التزام سے رنگین اور بلیغ عبارت میں ادا کرنا ممکن نہیں تو پھر اس بات کا سمجھنا کس قدر آسان ہے کہ معارفِ عالیہ کو ضرورتِ َ حقہ کے التزام کے ساتھ نہایت رنگین اور فصیح عبارت میں جس سے اعلیٰ اور اصفیٰ متصور نہ ہو بیان کرنا بالکل خارق عادت اور بشری طاقتوں سے بعید ہے اور جیسا کہ گلاب کے پھول کی طرح کوئی پھول جو کہ ظاہر و باطن میں اس سے مشابہ ہو بنانا عادتاً محال ہے۔ ایسا ہی یہ بھی محال ہے کیونکہ جب ادنیٰ ادنیٰ امور میں تجربہ صحیحہ شہادت دیتا ہے اور فطرت سلیمہ قبول کرتی ہے کہ انسان اپنی کسی ضروری اور راست راست بات کو خواہ وہ بات کسی معاملہ خرید وفروخت سے متعلق ہو یا تحقیقات عدالت وغیرہ سے تعلق رکھتی ہو۔ جب اس کو اَصلح اور اَنسب طور پر بجا لانا چاہے تو یہ بات غیر ممکن ہوجاتی ہے کہ اس کی عبارت خواہ نخواہ ہر محل میں موزوں اور مُقفّٰی اور فصیح اور بلیغ بلکہ اعلیٰ درجہ کی فصاحت اور بلاغت پر ہو تو پھر ایسی تقریر کہ جو علاوہ التزام راستی اور صدق کے معارف اور حقائقِ عالیہ سے بھی بھری ہوئی اور ضرورت حقہ کے رو سے صادر ہو اور تمام حقانی صداقتوں پر محیط ہو اور اپنے منصب اصلاح حالت موجودہ اور اتمام حجت اور الزام منکرین میں ایک

اس کمال تک پہنچایا ہے کہ بس حد ہی کردی۔ ان کے ایک شاستر کا اشلوک اِس وقت ہم کو یاد آیا ہے۔ جس پر تقریباً سارے ہندوؤں کا عمل ہے اورؔ وہ یہ ہے۔ اہنسا برمودھرما یعنے اس سے بڑا دھرم اور کوئی نہیں کہ کسی جاندار کو تکلیف نہ دی جائے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 402

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 402

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/402/mode/1up

یہ دنیا پیدا ہوسکتی۔ علاوہ اس کے جو تغیرات بولیوں میں طبعی طور پر ہوتے رہتے

ذرا فروگذاشت نہ کرتی ہو اور مناظرہ اور مباحثہ کے تمام پہلوؤں کی کماحقہ رعایت رکھتی ہو اور تمام ضروری دلائل اور ضروری براہین اور ضروری تعلیم اور ضروری سوال اور ضروری جواب پر مشتمل ہو کیونکر باوجود ان مشکلات پیچ در پیچ کے کہ جو پہلی صورت سے صدہا درجہ زیادہ ہیں ایسی فصاحت اور بلاغت کے ساتھ کسی بشر کی تحریر میں جمع ہوسکتی ہے کہ وہ بلاغت بھی بے مثل و مانند ہو اور اُس مضمون کو اُس سے زیادہ فصیح عبارت میں بیان کرنا ممکن نہ ہو۔

یہ تو وہ وجوہ ہیں کہ جو سورۃ فاتحہ اور قرآن شریف میں ایسے طور سے پائی جاتی ہیں جن کو گلاب کے پھول کیؔ وجوہ بے نظیری سے بکلی مطابقت ہے۔ لیکن سورۃ فاتحہ اور قرآن شریف میں ایک اور خاصہ بزرگ پایا جاتا ہے کہ جو اسی کلام پاک سے خاص ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کو توجہ اور اخلاص سے پڑھنا دل کو صاف کرتا ہے اور ظلمانی پردوں کو اٹھاتا ہے اور سینے کو منشرح کرتا ہے اور طالبِ حقّ کو حضرتِ احدیّت کی طرف کھینچ کر ایسے انوار اور آثار کا مورد کرتا ہے کہ جو مقربان حضرتِ احدیت میں ہونی چاہئے اور جن کو انسان کسی دوسرے حیلہ یا تدبیر سے ہرگز حاصل نہیں کرسکتا۔ اور اس روحانی تاثیر کا ثبوت بھی ہم اس کتاب میں دے چکے ہیں اور اگر کوئی طالب حق ہو تو بالمواجہ ہم اس کی تسلی کرسکتے ہیں اور ہر وقت تازہ بتازہ ثبوت دینے کو طیار ہیں۔ اور نیز اس بات کو بخوبی یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن شریف کا اپنی کلام میں بے مثل و مانند ہونا صرف عقلی دلائل میں محصور نہیں بلکہ زمانہ دراز کا تجربہ صحیحہ بھی اس کا مؤیّد اور مصدّق ہے۔ کیونکہ باوجود اس کے کہ قرآن شریف

اسی اشلوک کے رو سے ہندو لوگ کسی جاندار کو آزار دینا پسند نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ سانپوں کے شرکا بھی مقابلہ نہیں کرتے بلکہ بجائے ان کے شر کے ان کو دودھ پلاتے ہیں اور ان کی پوجا کرتے ہیں۔ اس پوجا کاؔ نام ان کے مذہب میں

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 403

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 403

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/403/mode/1up

ہیں۔ انؔ تغیرات میں اور اس دوسری صورت میں کہ جب بولی عدمِ محض سے پیدا کی جائے بڑا فرق ہے۔ کسی موجودہ بولی میں کچھ تغیر ہونا شے دیگر ہے اور عدم محض

برابر تیرہ سو برس سے اپنی تمام خوبیاں پیش کرکے ھل من معارض کا نقارہ بجارہا ہے اور تمام دنیا کو بآواز بلند کہہ رہا ہے کہ وہ اپنی ظاہری صورت اور باطنی خواص میں بے مثل و مانند ہے اور کسی جن یا اِنس کو اس کے مقابلہ یا معارضہ کی طاقت نہیں۔ مگر پھر بھی کسی متنفّس نے اس کے مقابلہ پر دم نہیں مارا بلکہ اس کی کم سے کم کسی سورۃ مثلاً سورۃ فاتحہ کی ظاہری و باطنی خوبیوں کا بھی مقابلہ نہیں کرسکا تو دیکھو اس سے زیادہ بدیہی اور کھلاُ کھلا معجزہ اور کیا ہوگا کہ عقلی طور پر بھی اس پاک کلام کا بشری طاقتوں سے بلند تر ہونا ثابت ہوتا ہے اور زمانہ دراز کا تجربہ بھی اس کے مرتبہ اعجاز پر گواہی دیتا ہے اور اگر کسی کو یہ دونوں طور کی گواہی کہ جو عقل اور تجربہ زمانہ دراز کے رو سے بہ پایہ ثبوت پہنچ چکی ہے نامنظور ہو اور اپنے علم اور ہنر پر نازاں ہو یا دنیا میں کسی ایسے بشر کی انشا پردازی کا قائل ہو کہ جو قرآن شریف کی طرح کوئی کلام بناسکتا ہے تو ہم جیسا کہ وعدہ کرچکے ہیں کچھ بطور نمونہ حقائق دقائق سورۃ فاتحہ کے لکھتے ہیں اس کو چاہئے کہ بمقابلہ ان ظاہری و باطنی سورۃ فاتحہؔ کی خوبیوں کے کوئی اپنا کلام پیش کرے۔ لیکن قبل تفصیل حقائقِ عالیہ سورۃ فاتحہ کے ہم طولِ کلام سے کچھ اندیشہ نہ کرکے مکرّر بیان کرتے ہیں کہ شخص معارض اس بات کو خوب یاد رکھے کہ جیسا کہ ہم ابھی لکھ چکے ہیں سورۃ فاتحہ میں تمام قرآن شریف کی طرح دو قسم کی خوبیاں کہ جو بے مثل و مانند ہیں پائی جاتی ہیں۔ یعنی ایک ظاہری صورت میں خوبی اور ایک باطنی خوبی۔ ظاہری خوبی یہ کہ جیسا کہ

ناگ پوجا ہے۔ بعض ہندو اس قدر رحم دل ہوتے ہیں کہ بالوں میں جوئیں جوپڑجاتی ہیں ان کو بھی اپنے بالوں سے نہیں نکالتے۔ بلکہ ان کے آرام کی نظر سے اپنے تمام بدن کے بال نہیں کٹاتے اور آپ دکھ اٹھاتے ہیں تا ان کے استھان میں صورت

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 404

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 404

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/404/mode/1up

سے ایک بولی کا من کل الوجوہ پیداؔ ہوجانا یہ اور بات ہے۔ ماسوا ان سب باتوں کے جبکہ اب بھی خدائے تعالیٰ بذریعہ اپنے الہام کے مختلف بولیوں کو اپنے

بارہا ذکر کیا گیا ہے اُس کی عبارت میں ایسی رنگینی اور آب و تاب اور نزاکت و لطافت و ملایمت اور بلاغت اور شیرینی اور روانگی اور حسن بیان اور حسن ترتیب پایا جاتا ہے کہ ان معانی کو اس سے بہتر یا اس سے مساوی کسی دوسری فصیح عبارت میں ادا کرنا ممکن نہیں اور اگر تمام دنیا کے انشاپرداز اور شاعر متفق ہوکر یہ چاہیں کہ اسی مضمون کو لیکر اپنے طور سے کسی دوسری فصیح عبارت میں لکھیں کہ جو سورۃ فاتحہ کی عبارت سے مساوی یا اس سے بہتر ہو تو یہ بات بالکل محال اور ممتنع ہے کہ ایسی عبارت لکھ سکیں۔ کیونکہ تیرہ سو برس سے قرآن شریف تمام دنیا کے سامنے اپنی بے نظیری کا دعویٰ پیش کررہا ہے۔ اگر ممکن ہوتا تو البتہ کوئی مخالف اس کا معارضہ کرکے دکھلاتا۔ حالانکہ ایسے دعویٰ کے معارضہ نہ کرنے میں تمام مخالفین کی رسوائی اور ذلّت اور قرآن شریف کی شوکت اور عزت ثابت ہوتی ہے۔ پس چونکہ تیرہ سو برس سے اب تک کسی مخالف نے عبارت قرآنی کی مثل پیش نہیں کی تو اس قدر زمانہ دراز تک تمام مخالفین کا مثل پیش کرنے سے عاجز رہنا اور اپنی نسبت ان تمام رسوائیوں اور ندامتوں اور لعنتوں کو روا رکھنا کہ جو جھوٹوں اور لاجواب رہنے والوں کی طرف عائد ہوتے ہیں صریح اس بات پر دلیل ہے کہ فی الحقیقت ان کی علمی طاقت مقابلہ سے عاجز رہی ہے اور اگر کوئی اس امر کو تسلیم نہ کرے تو یہ بار ثبوت اسی کی گردن پر ہے کہ وہ آپ یا کسی اپنے مددگار سے عبارت قرآن کی مثل بنواکر پیش کرے۔ مثلاً سورۃ فاتحہ کے مضمون کو لیکر کوئی دوسری فصیح عبارت بناکر دکھلادے جو کمال بلاغت اور فصاحت میں اس کے برابر ہوسکے اور جب تک ایسا نہ کرے۔ تب تک وہ ثبوت کہؔ جو مخالفین کے تیرہ سو برس خاموش اور لاجواب رہنے سے اہل حق

تفرقہ پیدا نہ ہو اور بعض ہندو اپنے مونہہ پر تھیلی چڑھا کر رکھتے ہیں اورؔ پانی پن کر پیتے ہیں تا کوئی جیو ان کے مونہہ کے اندر نہ چلا جائے اور اس طرح پر وہ کسی جیو گھات کے موجب نہ ٹھہریں۔ اب دیکھئے اس کمال کا رحم اور عفو انجیل میں کہاں ہے۔ لیکن باوجود اس کے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 405

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 405

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/405/mode/1up

بندوں پر القا کرتا ہے اور ایسی زبانوں میں الہام کرسکتا ہےؔ جن زبانوں کا ان بندوں کو کچھ بھی علم حاصل نہیں جیسا کہ ہم حاشیہ در حاشیہ نمبر ۱ میں اس کا ثبوت دے چکے

کے ہاتھ میں ہے کسی طور سے ضعیف الاعتبار نہیں ہوسکتا۔ بلکہ مخالفین کے سینکڑوں برسوں کی خاموشی اور لاجواب رہنے نے اس کو وہ کامل مرتبہ ثبوت کا بخشا ہے کہ جو گلاب کے پھول وغیرہ کو وہ ثبوت بے نظیری کا حاصل نہیں۔ کیونکہ دنیا کے حکیموں اور صنعت کاروں کو کسی دوسری چیز میں اس طور پر معارضہ کے لئے کبھی ترغیب نہیں دی گئی اور نہ اس کی مثل بنانے سے عاجز رہنے کی حالت میں کبھی ان کو یہ خوف دلایا گیا کہ وہ طرح طرح کی تباہی اور ہلاکت میں ڈالے جائیں گے۔ پس ظاہر ہے کہ جس بداہت اور چمک اور دمک سے قرآن شریف کی بلاغت اور فصاحت کا انسانی طاقتوں سے بلند تر ہونا ثابت ہے اس طرح پر گلاب کی لطافت اور رنگینی وغیرہ کا بے مثل ہونا ہرگز ثابت نہیں۔ پس یہ تو سورۃ فاتحہ اور تمام قرآن شریف کی ظاہری خوبی کا بیان ہے جس میں اس کا بے مثل و مانند ہونا اور بشری طاقتوں سے برتر ہونا مخالفین کے عاجز رہنے سے بہ پایۂ ثبوت پہنچ گیا ہے۔ اب ہم باطنی خوبیوں کو بھی دوہرا کر ذکر کرتے ہیں تا اچھی طرح غور کرنے والوں کے ذہن میں آجائیں۔ سو جاننا چاہئے کہ جیسا خداوند حکیم مطلق نے گلاب کے پھول میں بدن انسان کے لئے طرح طرح کے منافع رکھے ہیں کہ وہ دل کو قوت دیتا ہے اور قویٰ اور ارواح کو تقویت بخشتا ہے اور کئی اور مرضوں کو مفید ہے۔ ایسا ہی خداوند کریم نے سورۃ فاتحہ میں تمام قرآن شریف کی طرح روحانی مرضوں کے شفا رکھی ہے اور باطنی بیماریوں کا اس میں وہ علاج موجود ہے کہ جو اس کے غیر میں ہرگز نہیں پایا گیا۔ کیونکہ اس میں وہ کامل صداقتیں بھری ہوئی ہیں کہ جو روئے زمین سے نابود ہوگئی تھیں اور دنیا میں ان کا نام و نشان باقی نہیں رہا تھا۔ پس وہ پاک کلام فضول اور بے فائدہ طور پر دنیا میں نہیں آیا بلکہ وہ آسمانی نور اس وقت تجلی فرما ہوا جبکہ دنیا کو اس

کوئی عیسائی یہ رائے ظاہر نہیں کرتا کہ ہندو شاستر کی وہ تعلیم بے نظیر اور انسانی طاقتوں سے باہر ہے۔ پھر انجیل کی تعلیم کہؔ جو حلم اور عفو اور رحم کی تاکید میں اس سے کچھ بڑھ کر نہیں۔ کیونکر

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 406

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 406

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/406/mode/1up

ہیں۔ تو اس صورت میں کس قدر حماقت ہے کہ یہ خیال کیا جائے کہؔ اس القا کے خداوند علیم مطلق کو ابتدائی زمانہ میں قدرت حاصل نہیں تھی کیونکہ جس حالت میں اس کی

کی نہایت ضرورت تھی اور ان تعلیموں کو لایا جن کا دنیا میں پھیلانا دنیا کی اصلاح کے لئے نہایت ضروری تھا۔ غرض جن پاکؔ تعلیموں کی بغایت درجہ ضرورت تھی اور جن معارف حقائق کے شائع کرنے کی شدت سے حاجت تھی۔ انہیں ضروری اور لابدی اور حقانی صداقتوں کو عین ضرورت کے وقتوں میں اور ٹھیک ٹھیک حاجت کے موقعہ میں ایک بے مثل بلاغت اور فصاحت کے پیرایہ میں بیان فرمایا اور باوصف اس التزام کے جو کچھ گمراہوں کی ہدایت کے لئے اور حالت موجودہ کی اصلاح کے لئے بیان کرنا واجب تھا۔ اس سے ایک ذرا ترک نہ کیا۔ اور جو کچھ غیر واجب اور فضول اور بیہودہ تھا اس کا کسی فقرہ میں کچھ دخل ہونا نہ پایا۔ غرض وہ انوار اور پاک صداقتیں باوصف اس شان عالی کے کہ جو ان کو بوجہ اعلیٰ درجہ کے معارف ہونے کے حاصل ہے۔ ایک نہایت درجہ کی عظمت اور برکت یہ رکھتے ہیں کہ وہ عبث اور فضول طور پر ظاہر نہیں کی گئیں بلکہ جن جن اقسام انواع کی ظلمت دنیا میں پھیلی ہوئی تھی اور جس جس قسم کا جہل اور فساد علمی اور عملی اور اعتقادی امور میں حالت زمانہ پر غالب آگیا تھا اُس ہریک قسم کے فساد کے مقابلہ پر پورے پورے زور سے ان سب ظلمتوں کو اٹھانے کے لئے اور روشنی کو پھیلانے کے لئے عین ضروری وقت پر باران رحمت کی طرح ان صداقتوں کو دنیا میں ظاہر کیا گیا اور حقیقت میں وہ باران رحمت ہی تھا کہ سخت پیاسوں کی جان رکھنے کے لئے آسمان سے اترا اور دنیا کی روحانی حیات اسی بات پر موقوف تھی کہ وہ آب حیات نازل ہو اور کوئی قطرہ اس کا ایسا نہ تھا کہ کسی موجود الوقت بیماری کی دوا نہ ہو اور حالت موجودہ زمانہ نے صدہا سال تک اپنی معمولی گمراہی پر رہ کر یہ ثابت کردیا تھا کہ وہ ان بیماریوں کے علاج کو خودبخود بغیر اترنے اس نور کے حاصل نہیں کرسکتا اور نہ اپنی ظلمت کو آپ اٹھا سکتا ہے۔ بلکہ ایک آسمانی نور کا

بے نظیر ہوسکتی ہے۔ افسوس حضرات عیسائی ذرا نہیں سوچتے کہ اخلاقی امور کو کسی قدر شد و مد سے بیان کرنا اس بات کو مستلزم نہیں کہ انسان ایسی شد و مد سے بیان

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 407

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 407

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/407/mode/1up

غیر محدود قدرت کا اب بھی بدیہی طور پر ثبوت ملتا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو ایسیؔ بولیوں کا الہام کردیتا ہے کہ جن بولیوں سے وہ بندے ناآشنا محض ہیں اور جن کو

محتاج ہے کہ جو اپنی سچائی کی شعاعوں سے دنیا کو روشن کرے اور ان کو دکھاوے جنہوں نے کبھی نہیں دیکھا اور ان کو سمجھاوے جنہوں نے کبھی نہیں سمجھا۔ اس آسمانی نور نے دنیا میں آکر صرف یہی کام نہیں کیا کہ ایسے معارفِ حقہ ضروریہ پیش کئے جن کا صفحہ زمین پر نشانؔ باقی نہیں رہا تھا بلکہ اپنے روحانی خاصہ کے زور سے ان جواہر حق اور حکمت کو بہت سے سینوں میں بھردیا اور بہت سے دلوں کو اپنے دلربا چہرہ کی طرف کھینچ لایا اور اپنی قوی تاثیر سے بہتوں کو علم اور عمل کے اعلیٰ مقام تک پہنچایا۔ اب یہ دونوں قسم کی خوبیاں کہ جو سورۃ فاتحہ اور تمام قرآن شریف میں پائی جاتی ہیں کلام الٰہی کی بے نظیری ثابت کرنے کے لئے ایسے روشن دلائل ہیں کہ جیسی وہ خوبیاں جو گلاب کے پھول میں سب کے نزدیک انسانی طاقتوں سے اعلیٰ تسلیم کی گئی ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جس قدر یہ خوبیاں بدیہی طور پر عادت سے خارج اور طاقت انسانی سے باہر ہیں۔ اس شان کی خوبیاں گلاب کے پھول میں ہرگز نہیں پائی جاتیں۔ ان خوبیوں کی عظمت اور شوکت اور بے نظیری اس وقت کھلتی ہے جب انسان سب کو من حیث الاجتماع اپنے خیال میں لاوے اور اس اجتماعی ہیئت پر غور اور تدبر سے نظر ڈالے۔ مثلاً اول اس بات کے تصور کرنے سے کہ ایک کلام کی عبارت ایسے اعلیٰ درجہ کی فصیح اور بلیغ اور ملائم اور شیریں اور سلیس اور خوش طرز اور رنگین ہو کہ اگر کوئی انسان کوئی ایسی عبارت اپنی طرف سے بنانا چاہے کہ جو بتمام و کمال انہیں معانی پر مشتمل ہو کہ جو اس بلیغ کلام میں پائی جاتی ہیں تو ہرگز ممکن نہ ہو کہ وہ انسانی عبارت اس پایۂ بلاغت اور رنگینی کو پہنچ سکے۔ پھر ساتھ ہی یہ دوسرا تصور کرنے سے کہ اس عبارت کا مضمون ایسے حقائق دقائق پر مشتمل ہو کہ جو فی الحقیقت اعلیٰ درجہ کی صداقتیں ہوں اور کوئی فقر

نہیں کرسکتا اور اگر مستلزم ہے تو کوئی برہان منطقی اس پر قائم کرنی چاہئے تا اُس برہان کے ذریعہؔ سے انجیل کی تعلیم اور ہندوؤں کی پستک بے نظیر بن جائیں مگر جب تک کوئی دلیل بیان نہ ہو تب تک ہم کیونکر ایسی تعلیموں کا بے نظیر ہونا تسلیم کریں جن کے استخراج کے لئے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 408

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 408

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/408/mode/1up

نہ انہوں نے اپنے ما باپ۱؂ سے سیکھا اور نہ کسی استاد سے تعلیم پائی۔ تو پھر کیا وجہ کہ ابتداء پیدائشؔ میں جو عین حاجت کا زمانہ ہے۔ انسان کو بولیاں تعلیم کرنا خدائے تعالیٰ کی

اور کوئی لفظ اور کوئی حرف ایسا نہ ہو کہ جو حکیمانہ بیان پر مبنی نہ ہو۔ پھر ساتھ ہی یہ تیسرا تصور کرنے سے کہ وہ صداقتیں ایسی ہوں کہ حالت موجودہ زمانہ کو ان کی نہایت ضرورت ہو۔ پھر ساتھ ہی یہ چوتھا تصور کرنے سے کہ وہ صداقتیں ایسی بے مثل و مانند ہوں کہ کسی حکیم یا فیلسوف کا پتہ نہ مل سکتا ہو کہ ان صداقتوں کو اپنی نظر اور فکر سے دریافت کرنے والا ہوچکا ہو۔ پھر ساتھ ہی یہ پانچواں تصور کرنے سے کہ جس زمانہ میں وہ صداقتیں ظاہر ہوئی ہوں ایک تازہ نعمت کی طرح ظاہر ہوئی ہوں اور اس زمانہ کے لوگ ان کے ظہور سے پہلے اس راہ راست سے بکلی بے خبر ہوں۔ پھرؔ ساتھ ہی یہ چھٹا تصور کرنے سے کہ اُس کلام میں ایک آسمانی برکت بھی ثابت ہو کہ جو اس کی متابعت سے طالب حق کو خداوند کریم کے ساتھ ایک سچا پیوند اور ایک حقیقی انس پیدا ہوجائے اور وہ انوار اس میں چمکنے لگیں کہ جو مردان خدا میں چمکنے چاہئیں۔ یہ کل مجموعی ایک ایسی حالت میں معلوم ہوتا ہے کہ عقل سلیم بلا توقف و تردّد حکم دیتی ہے کہ بشری کلام کا ان تمام مراتب کاملہ پر مشتمل ہونا متمنع اور محال اور خارق عادت ہے اور بلاشبہ ان تمام فضائل ظاہری و باطنی کو بہ نظر یکجائی دیکھنے سے ایک رُعب ناک حالت ان میں پائی جاتی ہے کہ جو عقلمند کو اس بات کا یقین دلاتی ہے کہ اس کل مجموعی کا انسانی طاقتوں سے انجام پذیر ہونا عقل اور قیاس سے باہر ہے اور ایسی رعب ناک حالت گلاب کے پھول میں ہرگز پائی نہیں جاتی کیونکہ قرآن شریف میں یہ خصوصیت زیادہ ہے کہ اس کی صفات مذکورہ کہ جو بے نظیری کا مدار ہیں نہایت بدیہی الثبوت ہیں

صریحاً انسان کے نفس میں قوت پاتے ہیں۔ کیا ہم نرا دعویٰ کسی دلیل کے بغیر تسلیم کرلیں۔ یا ایک امر بدیہی البطلان کو حق محض مان لیں کیا کریں؟ توؔ اب ظاہر ہے کہ یہ کیسا نکما جھگڑا اور کس درجہ کی نادانی ہے کہ ایک بے اصل اور بے ثبوت بات پر اصرار کرتے ہیں اور جو راستہ صاف اور سیدھا نظر آتا ہے۔ اس پر قدم رکھنا نہیں چاہتے اور لطف

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 409

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 409

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/409/mode/1up

قدرت کاملہ سے بعید خیال کیا جائے اور کیوں خدا کو کمزور اور عاجز ٹھہرا کر انسان پر اس قدر مصیبتیں ڈالی جائیںؔ جن کی تفصیل میں یہ بیان کیا جائے کہ انسان

اور اسی و جہ سے جب معارض کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ایک حرف بھی ایسے موقعہ پر نہیں رکھا گیا کہ جو حکمت اور مصلحت سے دور ہو اور اُس کا ایک فقرہ بھی ایسا نہیں کہ جو زمانہ کی اصلاح کے لئے اشد ضروری نہ ہو۔ اور پھر بلاغت کا یہ کمال کہ ہرگز ممکن ہی نہیں کہ اس کی ایک سطر کی عبارت تبدیل کرکے بجائے اس کے کوئی دوسری عبارت لکھ سکیں۔ تو ان بدیہی کمالات کے مشاہدہ کرنے سے معارض کے دل پر ایک بزرگ رعب پڑ جاتا ہے۔ ہاں کوئی نادان جس نے ان باتوں میں کبھی غور نہیں کی شاید بباعث نادانی سوال کرے کہ اس بات کا ثبوت کیا ہے کہ یہ ساری خوبیاں سورۃ فاتحہ اور تمام قرآن شریف میں متحقق اور ثابت ہیں۔ سو واضح ہو کہ اس بات کا یہی ثبوت ہے کہ جنہوں نے قرآن شریف کے بے مثل کمالات پر غور کی اور اس کی عبارت کو ایسے اعلیٰ درجہ کی فصاحت اور بلاغت پر پایا کہ اس کی نظیر بنانے سے عاجز رہ گئے اور پھر اس کے دقائق و حقائق کو ایسے مرتبۂ عالیہ پر دیکھا کہ تمام زمانہ میں اس کی نظیر نظر نہ آئی اور اس میں وہ تاثیرات عجیبہ مشاہدہ کیں کہ جو انسانی کلمات میں ہرگز نہیں ہواؔ کرتیں اور پھر اس میں یہ صفت پاک دیکھی کہ وہ بطور ہزل اور فضول گوئی کے نازل نہیں ہوا بلکہ عین ضرورت حقہ کے وقت نازل ہوا تو انہوں نے ان تمام کمالات کے مشاہدہ کرنے سے بے اختیار اس کی بے مثل عظمت کو تسلیم کرلیا اور ان میں سے جو لوگ بباعث شقاوت ازلی نعمت ایمان سے محروم رہے ان کے دلوں پر بھی اس قدر ہیبت اور رعب اس بے مثل کلام کا

یہ کہ انجیل کی تعلیم کامل بھی نہیں چہ جائے کہ اس کو بے نظیر کہا جائے۔ تمام محقّقین کا اس بات پر اتفاق ہوچکا ہے کہ اخلاق کا کامل مرتبہ صرف ؔ اس میں منحصر نہیں ہوسکتا کہ ہر جگہ و ہر محل میں عفو اور درگزر کو اختیار کیا جائے۔ اگر انسان کو صرف عفو اور درگزر کا ہی حکم دیا جاتا تو صدہا کام کہ جو غضب اور انتقام پر موقوف ہیں

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 410

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 410

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/410/mode/1up

پیدا ہوکر پھر ایک مدت دراز تک گونگا اور بے زبان رہا اور اُس بدبختی کے زمانہ میں بصد دقّت و مصیبت صرف اشارات سے کام نکالتاؔ رہا۔ اور جو لمبی تقریریں یا

پڑا کہ انہوں نے بھی مبہوت اور سراسیمہ ہوکر یہ کہا کہ یہ تو سحر مبین ہے۔ اور پھر منصف کو اس بات سے بھی قرآن شریف کے بے مثل و مانند ہونے پر ایک قوی دلیل ملتی ہے اور روشن ثبوت ہاتھ میں آتا ہے کہ باوجود اس کے مخالفین کو تیرہ سو برس سے خود قرآن شریف مقابلہ کرنے کی سخت غیرت دلاتا ہے اور لاجواب رہ کر مخالفت اور انکار کرنے والوں کا نام شریر اور پلید اور لعنتی اور جہنمی رکھتا ہے۔ مگر پھر بھی مخالفین نے نامردوں اور مخنثوں کی طرح کمال بے شرمی اور بے حیائی سے اس تمام ذلت اور بے آبروئی اور بے عزتی کو اپنے لئے منظور کیا اور یہ روا رکھا کہ ان کا نام جھوٹا اور ذلیل اور بے حیا اور خبیث اور پلید اور شریر اور بے ایمان اور جہنمی رکھا جاوے مگر ایک قلیل المقدار سورۃ کا مقابلہ نہ کرسکے اور نہ ان خوبیوں اور صفتوں اور عظمتوں اور صداقتوں میں کچھ نقص نکال سکے کہ جن کو کلام الٰہی نے پیش کیا ہے۔ حالانکہ ہمارے مخالفین پر درحالت انکار لازم تھا اور اب بھی لازم ہے کہ اگر وہ اپنے کفر اور بے ایمانی کو چھوڑنا نہیں چاہتے تو وہ قرآن شریف کی کسی سورۃ کی نظیر پیش کریں اور کوئی ایسا کلام بطور معارضہ ہمارے سامنے لاویں کہ جس میں یہ تمام ظاہری و باطنی خوبیاں پائی جاتی ہوں کہ جو قرآن شریف کی ہریک اقل قلیل سورۃ میں پائی جاتی ہیں یعنی عبارت اس کی ایسی اعلیٰ درجہ کی بلاغت پر باوصف التزام راستی اور صداقت اور باوصف التزام ضرورت حقہ کے واقعہ ہوکہ ہرگز کسی بشر کے لئے ممکن نہ ہو کہ وہ معانی کسی دوسری ایسی ہی فصیح عبارت میں لاسکے اور مضمون اُس کا نہایت

فوت ہوجاتے۔ انسان کی صورتِ فطرت کہ جس پر قائم ہوجانے سے وہ انسان کہلاتا ہے یہ ہے کہ خدا نے اس کی سرشت میں جیسا عفوؔ اور درگزر کی استعداد رکھی ہے ایسا ہی غضب اور انتقام کی خواہش بھی رکھی ہے اور ان تمام قوتوں پر عقل کو بطور افسر کے مقرر کیا ہے پس انسان اپنی حقیقی انسانیت تک تب پہنچتا ہے کہ جب فطرتی صورت

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 411

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 411

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/411/mode/1up

باریک باتیں اشارات سے ادا نہ ہوسکیں ان کے ادا کرنے سے قاصر رہ کر ان نقصانوں کو اٹھاتا رہا کہ جو ان تقریروں کی عدم تفہیم اور تفہّم سے عائد حال

اعلیٰ ؔ درجہ کی صداقتوں پر مشتمل ہو اور پھر وہ صداقتیں بھی ایسی ہوں کہ فضول طور پر نہ لکھی گئی ہوں بلکہ کمال درجہ کی ضرورت نے ان کا لکھنا واجب کیا ہو اور نیز وہ صداقتیں ایسی ہوں کہ قبل ان کے ظہور کے تمام دنیا ان سے بے خبر ہو اوران کا ظہور ایک نئی نعمت کی طرح ہو اور پھر ان تمام خوبیوں کے ساتھ ایک یہ روحانی خاصہ بھی ان میں موجود ہو کہ قرآن شریف کی طرح ان میں وہ صریح تاثیریں بھی پائی جائیں جن کا ثبوت ہم نے اس کتاب میں دے دیا ہے اور ہر وقت طالب حق کے لئے تازہ سے تازہ ثبوت دینے کو طیار ہیں اور جب تک کوئی معارض ایسی نظیر پیش نہ کرے تب تک اسی کا عاجز رہنا قرآن شریف کی بے نظیری کو ثابت کرتا ہے۔ اور یہ وجوہ بے نظیری قرآن شریف کی جو اس جگہ لکھی گئی یہ تو ہم نے بطور تنزل اور کفایت شعاری کے لکھی ہیں اور اگر ہم قرآن شریف کی ان تمام دوسری خوبیوں کو بھی کہ جو اس میں پائی جاتی ہیں نظیر طلب کرنے کے لئے لازمی شرط ٹھہراویں مثلاً اپنے مخالفوں کو یہ کہیں کہ جیسا قرآن شریف تمام حقائق اور معارف دینی پر محیط اور مشتمل ہے اور کوئی دینی صداقت اس سے باہر نہیں اور جیسا وہ صدہا امور غیبیہ اور پیشگوئیوں پر احاطہ رکھتا ہے اور پیشگوئیاں بھی ایسی قادرانہ کہ جن میں اپنی عزت اور دشمن کی ذلت اور اپنا اقبال اور دشمن کا ادبار اور اپنی فتح اور دشمن کی شکست پائی جاتی ہے۔ یہ تمام خوبیاں بھی ہمراہ متذکرہ بالا خوبیوں کے اپنے معارضانہ کلام میں پیش کرکے دکھلاویں تو اس شرط سے ان کو تباہی پر تباہی اور موت پر موت آوے گی۔ مگر چونکہ جس قدر پہلے اس سے قرآن شریف کی خوبیاں لکھی گئی ہیں۔ وہی دشمن کور باطن کے ملزم اور لاجواب اور عاجز کرنے کے

کے موافق یہ دونوں طور کی قوتیں عقل کی تابع ہوکر چلتی رہیں۔ یعنے یہ قوتیں مثل رعایا کے ہوں اور عقل مثلؔ بادشاہ عادل ان کی پرورش اور فیض رسانی اور رفع تنازعہ اور مشکل کشائی میں مشغول رہے۔ مثلاً ایک وقت غضب نمودار ہوتا ہے اور حقیقت میں

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 412

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 412

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/412/mode/1up

ہونیؔ ضروری تھی اور باوجود ان سب تکالیف کے کہ جو انسان پر پیدا ہوتی ہے۱؂ پڑگئیں

خدا نے اس کے دردوں کا کچھ علاج نہ کیا اور اس کی حاجتوں کو پورا نہ کرسکا اور

لئے کافی ہیں اور انہیں سے ہمارے مخالفوں پر وہ حالت وارد ہوگی جس سے مردوں سے پرلے پار ہوجائیں گے۔ اس لئے قرآن شریف کی تمام خوبیوں کو نظیر طلب کرنے کے لئے پیش کرنا غیر ضروری ہے اور نیز تمام خوبیوں کے لکھنے سے کتاب میں بھی بہت سا طول ہوجائے گا۔ سو اسی قدر قتل موذی کے لئے کافی ہتھیار سمجھؔ ؔ کر پیش کیا گیا۔ اب باوصف اس کے کہ بتمامتر رعایت و تخفیف قرآن شریف کی کسی اَقل قلیل سورۃ کی نظیر مخالفوں سے طلب کی جاتی ہے مگر پھر بھی ہریک باخبر آدمی پر ظاہر ہے کہ مخالفین باوجود سخت حرص اور شدت عناد اور پرلے درجہ کی مخالفت اور عداوت کے مقابلہ اور معارضہ سے قدیم سے عاجز رہے ہیں اور اب بھی عاجز ہیں اور کسی کو دم مارنے کی جگہ نہیں اور باوجود اس بات کے کہ اس مقابلہ سے ان کا عاجز رہنا ان کو ذلیل بناتا ہے۔ جہنمی ٹھہراتا ہے۔ کافر اور بے ایمان کا ان کو لقب دیتا ہے۔ بے حیا اور بے شرم ان کا نام رکھتا ہے۔ مگر مردہ کی طرح ان کے مونہہ سے کوئی آواز نہیں نکلتی۔ پس لاجواب رہنے کی ساری ذلتوں کو قبول کرنا اور تمام ذلیل ناموں کو اپنے لئے روا رکھنا اور تمام قسم کی بے حیائی اور بے شرمی کی خس و خاشاک کو اپنے سر پر اٹھالینا اس بات پر نہایت روشن دلیل ہے کہ ان ذلیل چمگادڑوں کی اس آفتاب حقیقت کے آگے کچھ پیش نہیں جاتی پس جبکہ اُس آفتاب صداقت کی اس قدر تیز شعاعیں چاروں طرف سے چھوٹ رہی ہیں کہ ان کے سامنے ہمارے دشمن خفاش سیرت اندھے ہورہے ہیں تو اس صورت میں یہ بالکل مکابرہ اور سخت جہالت ہے کہ گلاب کے پھول کی خوبیوں کو کہ جو بہ نسبت قرآنی خوبیوں کے ضعیف اور کمزور اور قلیل الثبوت

اس وقت حلم کے ظاہر ہونے کا موقعہ ہوتا ہے۔ پس ایسے وقت میں عقل اپنی فہمائش سے غضب کو فرو کرتی ہے اور حلم کو حرکت دیتی ہے۔ اور بعض وقت غضب کرنے کا وقت ہوتا ہے اورؔ حلم پیدا ہوجاتا ہے اور ایسے وقت میں عقل غضب کو مشتعل

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 413

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 413

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/413/mode/1up

اگرچہ خدا نے اپنی قُدرت کاملہؔ سے انسان کو عدم محض سے بنایا۔ پھر اس کو زبان عطا کی۔ آنکھیں دیں۔ کان دیئے اور طرح طرح کی ترقیات کے لئے استعداد بخشی

ہیں اس مرتبہ بے نظیری پر سمجھا جائے کہ انسانی قوتیں ان کی مثل بنانے سے عاجز ہیں مگر ان اعلیٰ درجہ کی خوبیوں کو کہ جو کئی درجہ گلاب کے پھول کی ظاہری و باطنی خوبیوں سے افضل و بہتر اور قوی الثبوت ہیں ایسا خیال کیا جائے کہ گویا انسان ان کی نظیر بنانے پر قادر ہے۔ حالانکہ جس حالت میں انسان میں یہ قدرت نہیں پائی جاتی کہ ایک گلاب کے پھول کی جو صرف ایک ساعت تروتازہ اور خوشنما نظر آتا ہے اور دوسری ساعت میں نہایت افسردہ اور پژمردہ اور بدنما ہوجاتا ہے اور اس کا وہ لطیف رنگ اڑ جاتا ہے اور اس کے پات ایک دوسرے سے الگ ہوکر گر پڑتے ہیں نظیر بناسکے تو پھر ایسے حقیقی پھول کا مقابلہ کیونکر ہوسکے جس کے لئے مالک ازلی نے بہار جاوداں رکھی ہے اور جس کو ہمیشہ بادؔ خزاں کے صدمات سے محفوظ رکھا ہے اور جس کی طراوت اور ملائمت اور حسن اور نزاکت میں کبھی فرق نہیں آتا اور کبھی افسردگی اور پژمردگی اس کی ذاتِ بابرکات میں راہ نہیں پاتی بلکہ جس قدر پرانا ہوتا جاتا ہے اسی قدر اس کی تازگی اور طراوت زیادہ سے زیادہ کھلتی جاتی ہے اور اس کے عجائبات زیادہ سے زیادہ منکشف ہوتے جاتے ہیں اور اس کے حقائق دقائق لوگوں پر بکثرت ظاہر ہوتے جاتے ہیں۔ تو پھر ایسے حقیقی پھول کے اعلٰی درجہ کے فضائل اور مراتب سے انکار کرنا پرلے درجہ کی کور باطنی ہے یا نہیں۔ بہرحال اگر کوئی ایسا ہی نابینا ہو کہ جو اپنی اس کور باطنی سے ان خوبیوں کی شان عظیم کو نہ سمجھتا ہو تو یہ بارِ ثبوت اسی نادان کی گردن پر ہے کہ جو کچھ ہم نے بے نظیری کلام الٰہی کا ثبوت دیا ہے اور جس قدر ہم نے وجوہِ متفرقہ سے اس پاک کلام کا انسانی طاقتوں سے بلند تر ہونا

کرتی ہے اور حلم کو درمیان سے اٹھالیتی ہے خلاصہ یہ کہ تحقیقِ عمیق سے ثابت ہوا ہے کہ انسان اِس دُنیا میں بہت سی مختلف قوتوں کے ساتھ بھیجا گیا ہے اور اس کا کمال فطرتی یہ ہے کہ ہریک قُوّت کو اپنے اپنے موقعہ پر استعمال میں لاوے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 414

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 414

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/414/mode/1up

اسی طرح اپنی قدرت کاملہ سے اس قدر نعمتیں عطاؔ فرمائیں جن کو انسان گن نہیں سکتا لیکن وہی قادر خدا بولی جو انسان کے لئے نہایت ضروری تھی انسان کو

بہ پایۂ ثبوت پہنچایا ہے ان سب فضائل قرآنی کی نظیر پیش کرے اور کسی انسان کے کلام میں ایسے ہی کمالات ظاہری و باطنی دکھلاوے جن کا کلام الٰہی میں پایا جانا ہم نے ثابت کردیا ہے۔ اب اتمام حجت کے لئے کچھ دقائق و حقائق سورۃ فاتحہ کے ذیل میں لکھے جاتے ہیں۔ مگر اول سورۃ فاتحہ کو لکھ کر پھر اس کے معارف عالیہ کا لکھنا شروع کریں گے۔ اور سورۃ فاتحہ یہ ہے:۔

333۔ ۱؂

اس سورۃ کی تفسیر جس میں کسی قدر بطور نمونہ اس سورۃ کے معارف و حقائق مذکور ہیں ذیل میں لکھے جاتے ہیں۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ یہ آیت سورۃ ممدوحہ کی آیتوں میں سے پہلی آیت ہے اور قرآن شریف کی دوسری سورتوں پر بھی لکھی گئی ہے اور ایک اور جگہ بھی قرآن شریف میں یہ آیت آئی ہے اور جس قدر تکرار اس آیت کا قرآن شریف میں بکثرت پایا جاتا ہے اور کسی آیت میں اس قدر تکرار نہیں پایا جاتا۔ اورؔ چونکہ اسلام میں یہ سنت ٹھہر گئی ہے کہ ہریک کام کے ابتدا میں جس میں خیر اور برکت مطلوب ہو بطریق تبرک اور استمداد اس آیت کو پڑھ لیتے ہیں اس لئے یہ آیت دشمنوں اور دوستوں اور چھوٹوں اور بڑوں میں شہرت پاگئی ہے یہاں تک کہ اگر کوئی شخص تمام قرآنی آیات سے بے خبر مطلق ہو۔ تب بھی امید قوی ہے کہ اس آیت سے ہرگز اس کو بے خبری نہیں ہوگی۔

غضب کی جگہ پر غضب رحمؔ کی جگہ پر رحم۔ یہ نہیں کہ نرا حلم ہی حلم ہو اور دوسری تمام قوتوں کو معطل اور بیکار چھوڑ دے۔ ہاں منجملہ تمام اندرونی قُوتوں کے قُوّت حلم کو بھی اپنے موقعہ پر ظاہر کرنا ایک انسان کی خوبی ہے۔ مگر انسان کی فطرت کا درخت جس کو خدا نے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 415

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 415

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/415/mode/1up

سکھلا نہ سکا۔ یہاں تک کہ انسان نے مدت دراز تک بے زبانی کی تکلیفیں اٹھاؔ کر آپ بولی کو ایجاد کیا۔ کیا یہ ایسا اعتقاد ہے جس سے خدا کی قدرت الُوہیّت قابل

اب یہ آیت جن کامل صداقتوں پر مشتمل ہے ان کو بھی سن لینا چاہئے سو منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ اصل مطلب اس آیت کے نزول سے یہ ہے کہ تا عاجز اور بے خبر بندوں کو اس نکتہۂ معرفت کی تعلیم کی جائے کہ ذات واجب الوجود کا اسم اعظم جو اللہ ہے کہ جو اصطلاح قرآنی ربّانی کے رو سے ذات مستجمع جمیع صفاتِ کاملہ اور منزہ عن جمیع رذائل اور معبود برحق اور واحد لاشریک اور مبدء جمیع فیوض پر بولا جاتا ہے۔ اس اسم اعظم کی بہت سی صفات میں سے جو دو صفتیں بسم اللہ میں بیان کی گئی ہیں یعنے صفت رحمانیت و رحیمیت انہیں دو صفتوں کے تقاضا سے کلام الٰہی کا نزول اور اس کے انوار و برکات کا صدور ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ خدا کے پاک کلام کا دنیا میں اترنا اور بندوں کو اس سے مطلع کیا جانا یہ صفت رحمانیت کا تقاضا ہے کیونکہ صفت رحمانیت کی کیفیت(جیسا کہ آگے بھی تفصیل سے لکھا جائے گا) یہ ہے کہ وہ صفت بغیر سبقت عمل کسی عامل کے محض ُ جود اور بخشش الٰہی کے جوش سے ظہور میں آتی ہے جیسا خدا نے سورج اور چاند اور پانی اور ہوا وغیرہ کو بندوں کی بھلائی کے لئے پیدا کیا ہے۔ یہ تمام جود اور بخشش صفت رحمانیت کے رو سے ہے۔ اَور کوئی شخص دعویٰ نہیں کرسکتا کہ یہ چیزیں میرے کس عمل کی پاداش میں بنائی گئی ہیں۔ اسی طرح خدا کا کلام بھی کہ جو بندوں کی اصلاح اور رہنمائی کے لئے اترا وہ بھی اس صفت کے رو سے اترا ہے۔ اور کوئی ایسا متنفس نہیں کہ یہ دعویٰ کرسکے کہ میرے کسی عمل یا مجاہدہ یا کسی پاک باطنی کے اجر میں خدا کا پاک کلام کہ جو اس کی شریعت پر مشتمل ہے نازل ہوا ہے یہی و جہؔ ہے کہ اگرچہ طہارت اور پاک باطنی کا دم مارنے والے

کئی شاخوں پر جو اس کی مختلف قُوّتیں ہیں منقسم کیا ہے صرف ایک شاخ کے سرسبز ہونے سے کامل نہیںؔ کہلا سکتا بلکہ وہ اُسی حالت میں کامل کہلائے گا کہ جب ساری شاخیں اس کی سرسبز و شاداب ہوں اور کوئی شاخ حدّ موزونیت سے کم یا زیادہ نہ ہو۔ یہ بات

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 416

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 416

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/416/mode/1up

تعریف ٹھہرسکتی ہے۔ کیا کوئی ایماندار اس کامل اور قادر مطلق کی نسبت ایسی بدظنی کرسکتا ہےؔ کہ وہ اپنی قدرت نمائی کے پہلے زمانہ میں ہے جبکہ خدائی کی

اور زہد اور عبادت میں زندگی بسر کرنے والے اب تک ہزاروں لوگ گزرے ہیں لیکن خدا کا پاک اور کامل کلام کہ جو اُس کے فرائض اور احکام کو دنیا میں لایا اور اس کے ارادوں سے خلق اللہ کو مطلع کیا۔ اُنہیں خاص وقتوں میں نازل ہوا ہے کہ جب اس کے نازل ہونے کی ضرورت تھی۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ خدا کا پاک کلام انہیں لوگوں پر نازل ہو کہ جو تقدّس اور پاک باطنی میں اعلیٰ درجہ رکھتے ہوں۔ کیونکہ پاک کو پلید سے کچھ میل اور مناسبت نہیں لیکن یہ ہرگز ضرور نہیں کہ ہر جگہ تقدس اور پاک باطنی کلام الٰہی کے نازل ہونے کو مستلزم ہو بلکہ خدائے تعالیٰ کی حقانیِ شریعت اور تعلیم کا نازل ہونا ضروراتِ حقہ سے وابستہ ہے۔ پس جس جگہ ضروراتِ حقہ پیدا ہوگئیں اور زمانہ کی اصلاح کے لئے واجب معلوم ہوا کہ کلام الٰہی نازل ہو اسی زمانہ میں خدائے تعالیٰ نے جو حکیم مطلق ہے اپنے کلام کو نازل کیا اور کسی دوسرے زمانہ میں گو لاکھوں آدمی تقویٰ اور طہارت کی صفت سےُ متصف ہوں اور گو کیسی ہی تقدس اور پاک باطنی رکھتے ہوں ان پر خدا کا وہ کامل کلام ہرگز نازل نہیں ہوتا کہ جو شریعت حقانی پر مشتمل ہو۔ ہاں مکالمات و مخاطبات حضرت احدیت کے بعض پاک باطنوں سے ہوجاتے ہیں اور وہ بھی اس وقت کہ جب حکمت الٰہیہ کے نزدیک ان مکالمات اور مخاطبات کے لئے کوئی ضرورتِ حقہ پیدا ہو۔ اور ان دونوں طور کی ضرورتوں میں فرق یہ ہے کہ شریعت حقانی کا نازل ہونا اس ضرورت کے وقت پیش آتا ہے کہ جب دنیا کے لوگ بباعث ضلالت اور گمراہی کے جادۂ استقامت سے منحرف ہوگئے ہوں اور اُن کے راہِ راست پر لانے کے لئے ایک نئی شریعت کی حاجت ہو کہ جو ان کی آفات موجودہ کا بخوبی تدارک

بہ بداہت عقل ثابت ہے کہ ہمیشہ اور ہرجگہ یہی خلق خلق اچھا نہیں ہوسکتا۔ کہ شریر کی شرارت سے درگزر کی جائے بلکہ خود قانونِ فطرت ہی اس خیال کا ناقص ہوناؔ ظاہر کرتا ہے۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ مدبر حقیقی نے انتظام عالم اسی میں رکھا ہے جو کبھی

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 417

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 417

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/417/mode/1up

طاقتیں بے خبر بندوں پر ظاہر کرنا منظور تھا بعض ضروری قدرتوں کے دکھلانے

کرسکے اور ان کی تاریکی اور ظلمت کو اپنے کامل اور شافی بیان کےُ نور سے بکلی اٹھاسکے اور جس طور کا علاج حالت فاسدہ زمانہ کے لئے درکار ہے۔ وہ علاج اپنے ُ پرزور بیان سے کرسکے۔ لیکن جو مکالمات و مخاطبات اولیاء اللہ کے ساتھ ہوتے ہیں ان کے لئےؔ غالباً اس ضرورت عظمیٰ کا پیش آنا ضروری نہیں بلکہ بسا اوقات صرف اسی قدر ان مکالمات سے مطلب ہوتا ہے کہ تا ولی کے نفس کو کسی مصیبت اور محنت کے وقت صبر اور استقامت کے لباس سے متحلی کیا جائے یا کسی غم اور حزن کے غلبہ میں کوئی بشارت اس کو دی جائے مگر وہ کامل اور پاک کلام خدائے تعالیٰ کا کہ جو نبیوں اور رسولوں پر نازل ہوتا ہے وہ جیسا کہ ہم نے ابھی بیان کیا ہے اس ضرورت حقہ کے پیش آنے پر نزول فرماتا ہے کہ جب خلق اللہ کو اس کے نزول کی بشدّت حاجت ہو۔ غرض کلامِ الٰہی کے نازل ہونے کا اصل موجب ضرورت حقہ ہے۔ جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ جب تمام رات کا اندھیر ہوجاتا ہے اور کچھُ نور باقی نہیں رہتا۔ تو اسی وقت تم سمجھ جاتے ہو کہ اب ماہ َ نو کی آمد نزدیک ہے۔ اسی طرح جب گمراہی کی ظلمت سخت طور پر دنیا پر غالب آجاتی ہے تو عقلِ سلیم اس روحانی چاند کے نکلنے کو بہت نزدیک سمجھتی ہے ایسا ہی جب اِمساکِ بَاراں سے لوگوں کا حال تباہ ہوجاتا ہے تو اس وقت عقلمند لوگ باران رحمت کا نازل ہونا بہت قریب خیال کرتے ہیں اور جیسا کہ خدا نے اپنے جسمانی قانون میں بھی بعض مہینے برسات کے لئے مقرر کررکھے ہیں یعنی وہ مہینے جن میں فی الحقیقت مخلوق اللہ کو بارش کی ضرورت ہوتی ہے اور ان مہینوں میں جو مینہہ برستا ہے اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جاتا کہ خاص ان مہینوں میں لوگ زیادہ

نرمی اور کبھی درشتی کی جائے اور کبھی عفو اور کبھی سزا دی جائے اور اگر صرف نرمی ہی ہو یا صرف درشتی ہی ہو تو پھر نظام عالم کیَ کل ہی بگڑ جاتی ہے۔ پس اس سے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 418

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 418

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/418/mode/1up

سے عاجز رہا۔ کیا قریب قیاس ہے کہ جس نےؔ چندیں ہزار مخلوقات کو بغیر مدد مادہ اور ہیولیٰ کے ایک حکم سے پیدا کردکھایا وہ بولیوں کی ایجاد پر قادر نہیں ہوسکتا

نیکی کرتے ہیں اور دوسرے مہینوں میں فسق و فجور میں مبتلا رہتے ہیں۔ بلکہ یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ وہ مہینے ہیں جن میں زمینداروں کو بارش کی ضرورت ہے اور جن میں بارش کا ہوجانا تمام سال کی سرسبزی کا موجب ہے ایسا ہی کلام الٰہی کا نزول فرمانا کسی شخص کی طہارت اور تقویٰ کے جہت سے نہیں ہے یعنی علّتِ موجبہ اُس کلام کے نزول کی یہ نہیں ہوسکتی کہ کوئی شخص غایت درجہ کا مقدس اور پاک باطن تھا یا راستی کا بھوکا اور پیاسا تھا بلکہ جیسا کہ ہم کئی دفعہ لکھ چکے ہیں۔ کتب آسمانی کے نزول کا اصلی موجب ضرورتِ حقّہ ہے یعنی وہ ظلمت اور تاریکی کہ جو دنیا پر طاری ہوکر ایک آسماؔ نی نور کو چاہتی ہے کہ تا وہ نور نازل ہوکر اس تاریکی کو دور کرے اور اسی کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے کہ جو خدائے تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں فرمایا ہے۔ 33۔ ۱؂ یہ لیلۃ القدر اگرچہ اپنے مشہور معنوں کے رو سے ایک بزرگ رات ہے لیکن قرآنی اشارات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی ظلمانی حالت بھی اپنی پوشیدہ خوبیوں میں لیلۃ القدر کا ہی حکم رکھتی ہے اور اس ظلمانی حالت کے دنوں میں صدق اور صبر اور زہد اور عبادت خدا کے نزدیک بڑا قدر رکھتا ہے اور وہی ظلمانی حالت تھی کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت تک اپنے کمال کو پہنچ کر ایک عظیم الشانُ نور کے نزول کو چاہتی تھی اور اُسی ظُلمانی حالت کو دیکھ کر اور ظلمت زدہ بندوں پر رحم کرکے صفت رحمانیت نے جوش مارا اور آسمانی برکتیں زمین کی طرف متوجہ ہوئیں۔ سو وہ ظلمانی حالت دنیا کے لئے مبارک ہوگئی اور دنیا نے اس سے

ثابت ہے کہ ہمیشہ اور ہر محل میں عفو کرنا حقیقی نیکی نہیں ہے بلکہ ایسی تعلیمؔ کو کامل تعلیم سمجھنا ایک غلطی ہے جو ان لوگوں کو لگی ہوئی ہے جن کی نگاہیں انسان کی فطرت کے پورے گہراؤ تک نہیں پہنچتیں اور جن کی نظر ان تمام قُوّتوں کے دیکھنے سے بند رہتی

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 419

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 419

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/419/mode/1up

تھا۔ کیا کوئی عقل اس بات کو قبول کرسکتی ہے کہ جس نے انسانؔ کو ایک بڑی مصلحت کے لئے پیدا کیا اور اپنے خاص ارادہ سے اُس کو اشرف المخلوقات بنایا

ایک عظیم الشان رحمت کا حصہ پایا کہ ایک کامل انسان اور سید الرسل کہ جس سا کوئی پیدا نہ ہوا اور نہ ہوگا دنیا کی ہدایت کے لئے آیا اور دنیا کے لئے اس روشن کتاب کو لایا جس کی نظیر کسی آنکھ نے نہیں دیکھی پس یہ خدا کی کمال رحمانیت کی ایک بزرگ تجلی تھی کہ جو اس نے ظلمت اور تاریکی کے وقت ایسا عظیم الشان ُ نور نازل کیا جس کا نام فرقان ہے جو حق اور باطل میں فرق کرتا ہے جس نے حق کو موجود اور باطل کو نابود کرکے دکھلا دیا وہ اس وقت زمین پر نازل ہوا جب زمین ایک موت روحانی کے ساتھ مر چکی تھی اور بَرّ اور بحر میں ایک بھاری فساد واقع ہو چکا تھا پس اس نے نزول فرما کر وہ کام کر دکھایا جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے آپ اشارہ فرماکر کہا ہے۔اِ3۔ ۱؂ یعنی زمین مرگئی تھی اب خدا اس کو نئے سرے زندہ کرتا ہے۔ اب اس بات کو بخوبی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ نزول قرآن شریف کا کہ جو زمین کے زندہ کرنے کے لئے ہوا یہ صفت رحمانیت کے جوش سے ہوا۔ وہی صفت ہے کہ جو کبھی جسمانی طور پر جوش مار کر قحط زدوں کی خبر لیتی ہے اور باران رحمت خشک زمین پر برساتی ہے اور وہی صفت کبھی روحانی طور پر جوش مار کر ان بھوکوں اور پیاسوں کی حالت پر رحم کرتی ہے کہ جو ضلالت اور گمراہی کی موت تک پہنچ جاتے ہیں اور حق اور صداقت کی غذا کہ جو روحانی زندگی کا موجب ہے ان کے پاس نہیں رہتیؔ پس رحمان مطلق جیسا جسم کی غذا کو اس کی حاجت کے وقت عطا فرماتا ہے ایسا ہی وہ اپنی رحمتِ کاملہ کے تقاضا سے روحانی غذا کو

ہے۔ جو انسان کو اپنے اپنے محل پر استعمال کرنے کے لئے عطا کی گئی ہیں۔ جو شخص لگا تار جابجا ایک ہی قوت کو استعمال کیاؔ جاتا ہے اور دوسری تمام اخلاقی قُوّتوں کو بیکار چھوڑ دیتا ہے۔ وہ گویا اس فطرت کو جو خدا نے عطا کی ہے منقلب کرنا چاہتا ہے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 420

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 420

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/420/mode/1up

وہ اس کی پیدائش کو ادھورا چھوڑ دیتا اور پھر انسان اتفاقی طور پر اپنے نقصان کی آپ تکمیلؔ کرتا ۔کیا جس ذات کو ان تمام بولیوں کا قدیم سے علم حاصل ہے۔

بھی ضرورتِ حقہ کے وقت مہیا کردیتا ہے۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ خدا کا کلام انہیں برگزیدہ لوگوں پر نازل ہوتا ہے جن سے خدا راضی ہے اور انہیں سے وہ مکالمات اور مخاطبات کرتا ہے جن سے وہ خوش ہے مگر یہ بات ہرگز درست نہیں کہ جس سے خدا راضی اور خوش ہو اس پر خواہ نخواہ بغیر کسی ضرورت حقہ کے کتاب آسمانی نازل ہوجایا کرے یا خدائے تعالیٰ یونہی بلاضرورت حقہ کسی کی طہارت لازمی کی و جہ سے لازمی اور دائمی طور پر اس سے ہر وقت باتیں کرتا رہے بلکہ خدا کی کتاب اسی وقت نازل ہوتی ہے جب فی الحقیقت اس کے نزول کی ضرورت پیش آجائے۔ اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ وحی اللہ کے نزول کا اصل موجب خدائے تعالیٰ کی رحمانیت ہے کسی عامل کا عمل نہیں اور یہ ایک بزرگ صداقت ہے جس سے ہمارے مخالف برہمو وغیرہ بے خبر ہیں۔

پھر بعد اس کے سمجھنا چاہئے کہ کسی فرد انسانی کا کلام الٰہی کے فیض سے فی الحقیقت مستفیض ہوجانا اور اس کی برکات اور انوار سے متمتع ہوکر منزل مقصود تک پہنچنا اور اپنی سعی اور کوشش کے ثمرہ کو حاصل کرنا یہ صفت رحیمیت کی تائید سے وقوع میں آتا ہے ۔ اور اسی جہت سے خدائے تعالیٰ نے بعد ذکر صفتِ رحمانیّت کے صفتِ رحیمیّت کو بیان فرمایا تا معلوم ہوکہ کلامِ الٰہی کی تاثیریں جو نفوسِ انسانیہ میں ہوتی ہیں یہ صفتِ رحیمیّت کا اثر ہے۔ جس قدر کوئی اعراض صوری و معنوی سے پاک ہوجاتا ہے۔ جس قدر کسی کے دل میں خلوص اور صدق پیدا ہوتا ہے جس قدر کوئی جدوجہد سے

اور فعل حکیم مطلق کو اپنی کوتہ فہمی سے قابل اعتراض ٹھہراتا ہے کیا یہ کچھ خوبی کی بات ہے کہ ہم ہر یک وقت بغیر لحاظ موقعہ و مصلحت اپنے گناہ گاروں کے گناہوں

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 421

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 421

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/421/mode/1up

اور جس کی نظر عمیق کے آگے سب موجود ہونے والی چیزیں موجود بالفعل کا حکم

متابعت اختیار کرتا ہے۔ اسی قدر کلام الٰہی کی تاثیر اس کے دل پر ہوتی ہے اور اسی قدر وہ اس کے انوار سے متمتع ہوتا ہے اور علامات خاصہ مقبولانِ الٰہی کی اس میں پیدا ہوجاتی ہیں۔ دوسری صداقت کہ جو بسم اللہ الرحمن الرحیم ط میں ؔ مودع ہے یہ ہے کہ یہ آیت قرآن شریف کے شروع کرنے کے لئے نازل ہوئی ہے اور اس کے پڑھنے سے مدعا یہ ہے کہ تا اس ذات مستجمع جمیع صفات کاملہ سے مدد طلب کی جائے جس کی صفتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ رحمان ہے اور طالب حق کے لئے محض تفضل اور احسان سے اسباب خیر اور برکت اور رُشد کے پیدا کردیتا ہے اور دوسری صفت یہ ہے کہ وہ رحیم ہے یعنی سعی اور کوشش کرنے والوں کی کوششوں کو ضائع نہیں کرتا بلکہ ان کے جدوجہد پر ثمرات حسنہ مترتب کرتا ہے اور ان کی محنت کا پھل ان کو عطا فرماتا ہے اور یہ دونوں صفتیں یعنی رحمانیت اور رحیمیت ایسی ہیں کہ بغیر ان کے کوئی کام دنیا کا ہو یا دین کا انجام کو پہنچ نہیں سکتا اور اگر غور کرکے دیکھو تو ظاہر ہوگا کہ دنیا کی تمام مہمات کے انجام دینے کے لئے یہ دونوں صفتیں ہر وقت اور ہر لحظہ کام میں لگی ہوئی ہیں۔ خدا کی رحمانیت اس وقت سے ظاہر ہورہی ہے کہ جب انسان ابھی پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔ سو وہ رحمانیت انسان کے لئے ایسے ایسے اسباب بہم پہنچاتی ہے کہ جو اس کی طاقت سے باہر ہیں اور جن کو وہ کسی حیلہ یا تدبیر سے ہرگز حاصل نہیں کرسکتا اور وہ اسباب کسی عمل کی پاداش میں نہیں دیئے جاتے بلکہ تفضل اور احسان کی راہ سے عطا ہوتے ہیں جیسے نبیوں کا آنا، کتابوں کا نازل ہونا، بارشوں کا ہونا، سورج اور چاند اور ہوا اور بادل وغیرہ کا

سے درگذر کیاؔ کریں اور کبھی اس قسم کی ہمدردی نہ کریں جس میں شریر کی شرارت کا علاج ہوکر آئندہ کو اس کی طبیعت سدھر جائے۔ ظاہر ہے کہ جیسے بات بات میں سزا دینا اور انتقام لینا مذموم و خلافِ اخلاق ہے۔ اسی طرح یہ بھی خیر خواہی حقیقی کے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 422

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 422

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/422/mode/1up

رکھتی ہیں اور جس کی قدرت تامہ ہریک طورؔ کی تعلیم و تفہیم کرسکتی ہے وہ اس لائق ہے کہ اس کی نسبت یہ گمان کیا جائے کہ اس نے دیدہ و دانستہ

اپنے اپنے کاموں میں لگے رہنا اور خود انسان کا طرح طرح کی قوتوں اور طاقتوں کے ساتھ مشرف ہوکر اس دنیا میں آنا اور تندرستی اور امن اور فرصت اور ایک کافی مدت تک عمر پانا یہ وہ سب امور ہیں کہ جو صفت رحمانیت کے تقاضا سے ظہور میں آتے ہیں۔ اسی طرح خدا کی رحیمیت تب ظہور کرتی ہے کہ جب انسان سب توفیقوں کو پاکر خداداد قوتوں کو کسی فعل کے انجام کے لئے حرکت دیتا ہے۔ اور جہاں تک اپنا زور اور طاقت اور قوت ہے خرچ کرتا ہے تو اسؔ وقت عادت الٰہیہ اس طرح پر جاری ہے کہ وہ اس کی کوششوں کو ضائع ہونے نہیں دیتا بلکہ ان کوششوں پر ثمرات حسنہ مترتب کرتا ہے۔ پس یہ اس کی سراسر رحیمیت ہے کہ جو انسان کی مردہ محنتوں میں جان ڈالتی ہے۔ اب جاننا چاہئے کہ آیت ممدوحہ کی تعلیم سے مطلب یہ ہے کہ قرآن شریف کے شروع کرنے کے وقت اللہ تعالیٰ کی ذات جامع صفات کاملہ کی رحمانیت اور رحیمیت سے استمداد اور برکت طلب کی جائے۔ صفت رحمانیت سے برکت طلب کرنا اس غرض سے ہے کہ تا وہ ذاتِ کامل اپنی رحمانیت کی وجہ سے اس سب اسباب کو محض لطف اور احسان سے میسر کردے کہ جو کلام الٰہی کی متابعت میں جدوجہد کرنے سے پہلے درکار ہیں۔ جیسے عمر کا وفا کرنا۔ فرصت اور فراغت کا حاصل ہونا۔ وقتِ صفا میسر آجانا۔ طاقتوں اور قوتوں کا قائم ہونا۔ کوئی ایسا امر پیش نہ آجانا کہ جو آسائش اور امن میں خلل ڈالے۔ کوئی ایسا مانع نہ آپڑنا کہ جو دل کو متوجہ ہونے سے روک دے۔ غرض ہر طرح سے توفیق عطا کئے جانا یہ سب امور صفت

برخلاف ہے کہ ہمیشہ یہی اصول ٹھہرایا جاوے کہ جب کبھی کسی سے کوئی مجرمانہؔ حرکت صادر ہو تو جھٹ پٹ کے اس کے جرم کو معاف کیا جائے۔ جو شخص ہمیشہ مجرم کو سزا کے بغیر چھوڑ دیتا ہے وہ ایسا ہی نظام عالم کا دشمن ہے جیسے وہ شخص کہ ہمیشہ

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 423

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 423

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/423/mode/1up

انسان کو بے زبانی کی حالت میں دیکھ کر پھر اس کو زبان سکھلانے سے دریغ

رحمانیت سے حاصل ہوتے ہیں۔ اور صفت رحیمیت سے برکت طلب کرنا اس غرض سے ہے کہ تا وہ ذات کامل اپنی رحیمیت کی وجہ سے انسان کی کوششوں پر ثمرات حسنہ مترتب کرے اور انسان کی محنتوں کو ضائع ہونے سے بچاوے اور اس کی سعی اور جدوجہد کے بعد اس کے کام میں برکت ڈالے پس اس طور پر خدائے تعالیٰ کی دونوں صفتوں رحمانیت اور رحیمیت سے کلام الٰہی کے شروع کرنے کے وقت بلکہ ہریک ذیشان کام کے ابتدا میں تبرک اور استمداد چاہنا یہ نہایت اعلیٰ درجہ کی صداقت ہے جس سے انسان کو حقیقت توحید کی حاصل ہوتی ہے اور اپنے جہل اور بے خبری اور نادانی اور گمراہی اور عاجزی اور خواری پر یقین کامل ہوکر مبدء فیض کی عظمت اور جلال پر نظر جاٹھہرتی ہے اور اپنے تئیں بکلی مفلس اور مسکین اور ہیچ اور ناچیز سمجھ کر خداوند قادر مطلق سے اس کی رحمانیت اور رحیمیت کی برکتیں طلب کرتا ہے۔ اور اگرچہ خدائے تعالیٰ کیؔ یہ صفتیں خودبخود اپنے کام میں لگی ہوئی ہیں مگر اس حکیم مطلق نے قدیم سے انسان کے لئے یہ قانون قدرت مقرر کردیا ہے کہ اس کی دعا اور استمداد کو کامیابی میں بہت سا دخل ہے جو لوگ اپنی مہمات میں دلی صدق سے دعا مانگتے ہیں اور ان کی دعا پورے پورے اخلاص تک پہنچ جاتی ہے تو ضرور فیضان الٰہی ان کی مشکل کشائی کی طرف توجہ کرتا ہے۔ ہریک انسان جو اپنی کمزوریوں پر نگاہ کرتا ہے اور اپنے قصوروں کو دیکھتا ہے وہ کسی کام پر آزادی اور خودبینی سے ہاتھ نہیں ڈالتا بلکہ سچی عبودیت اس کو یہ سمجھاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کہ جو متصرف مطلق ہے اس سے مدد طلب کرنی چاہئے یہ سچی عبودیت کا جوش ہریک ایسے دل میں پایا جاتا ہے کہ جو اپنی فطرتی سادگی پر قائم ہے اور اپنی کمزوری پر اطلاع رکھتا ہے۔

اور ہر حالت میں انتقام اور کینہ کشی پر مستعد رہتا ہے۔ نادان لوگ ہرمحل میں عفو اور درگزر کرنا پسند کرتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ ہمیشہ درگزرؔ کرنے سے نظام عالم میں ابتری پیدا ہوتی ہے۔ اور یہ فعل خود مجرم کے حق میں بھی مُضرّہے کیونکہ اس سے اس کی

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 424

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 424

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/424/mode/1up

کیاؔ یہاں تک کہ انسان اس کی کم التفاتی کی و جہ سے مدّت دراز تک حیوانوں اور وحشیوں کی طرح اپنی زندگی کو بسر کرتا رہا اور پھر آخرکار اس کو آپ ہی سوجھی کہ

پس صادق آدمی جس کے روح میں کسی قسم کے غرور اور ُ عجب نے جگہ نہیں پکڑی اور جو اپنے کمزور اور ہیچ اور بے حقیقت وجود پر خوب واقف ہے اور اپنے تئیں کسی کام کے انجام دینے کے لائق نہیں پاتا اور اپنے نفس میں کچھ قوت اور طاقت نہیں دیکھتا جب کسی کام کو شروع کرتا ہے تو ِ بلا تصنع اس کی کمزور روح آسمانی قوت کی خواستگار ہوتی ہے اور ہروقت اس کو خدا کی مقتدر ہستی اپنے سارے کمال و جلال کے ساتھ نظر آتی ہے اور اس کی رحمانیت اور رحیمیت ہریک کام کے انجام کے لئے مدار دکھلائی دیتی ہے۔ پس وہ بلاساختہ اپنا ناقص اور ناکارہ زور ظاہر کرنے سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم کی دعا سے امداد الٰہی چاہتا ہے پس اس انکسار اور فروتنی کی وجہ سے اس لائق ہوجاتا ہے کہ خدا کی قوت سے قوت اور خدا کی طاقت سے طاقت اور خدا کے علم سے علم پاوے اور اپنی مرادات میں کامیابی حاصل کرے۔ اس بات کے ثبوت کے واسطے کسی منطق یا فلسفہ کے دلائل ُ پراز تکلف درکار نہیں ہیں بلکہ ہریک انسان کے روح میں اس کے سمجھنے کی استعداد موجود ہے اور عارف صادق کے اپنے ذاتی تجارب اس کی صحت پر بہ تواتر شہادت دیتے ہیں بندہ ؔ کا خدا سے امداد چاہنا کوئی ایسا امر نہیں ہے جو صرف بیہودہ اور بناوٹ ہو یا جو صرف بے اصل خیالات پر مبنی ہو اور کوئی معقول نتیجہ اس پر مترتب نہ ہو بلکہ خداوند کریم کہ جو فی الحقیقت قیوم عالم ہے اور جس کے سہارے پر سچ مچ اس عالم کی کشتی چل رہی ہے اس کی عادت قدیمہ کے رو سے

بدی کی عادت پکتی جاتی ہے اور شرارت کا ملکہ راسخ ہوتا جاتا ہے ایک چور کو سزا کے بغیر چھوڑ دو پھر دیکھو کہ دوسری مرتبہ کیا رنگ دکھاتا ہے۔ اسی جہت سے خدائے تعالیٰ نے اپنی اس کتاب میں جوؔ حکمت سے بھری ہوئی ہے فرمایا

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 425

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 425

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/425/mode/1up

کوئی بولی ایجاد کرنیؔ چاہئے۔ یہ خیال ایسا بدیہی البطلان ہے کہ خدا کی وہ کامل قدرتیں اور کامل رحم اور کامل تربیت کہ جو ہریک زمانہ میں مشہود چلی آئی ہے

یہ صداقت قدیم سے چلی آتی ہے کہ جو لوگ اپنے تئیں حقیر اور ذلیل سمجھ کر اپنے کاموں میں اس کا سہارا طلب کرتے ہیں اور اس کے نام سے اپنے کاموں کو شروع کرتے ہیں تو وہ ان کو اپنا سہارا دیتا ہے۔ جب وہ ٹھیک ٹھیک اپنی عاجزی اور عبودیت سے روبخدا ہوجاتے ہیں تو اس کی تائیدیں ان کے شامل حال ہوجاتی ہیں۔ غرض ہریک شاندار کام کے شروع میں اس مبدء فیوض کے نام سے مدد چاہنا کہ جو رحمان و رحیم ہے۔ ایک نہایت ادب اور عبودیت اور نیستی اور فقر کا طریقہ ہے۔ اور ایسا ضروری طریقہ ہے کہ جس سے توحید فی الاعمال کا پہلا زینہ شروع ہوتا ہے جس کے التزام سے انسان بچوں کی سی عاجزی اختیار کرکے ان نخوتوں سے پاک ہوجاتا ہے کہ جو دنیا کے مغرور دانشمندوں کے دلوں میں بھری ہوتی ہیں اور پھر اپنی کمزوری اور امداد الٰہی پر یقین کامل کرکے اس معرفت سے حصہ پالیتا ہے کہ جو خاص اہل اللہ کو دی جاتی ہے اور بلاشبہ جس قدر انسان اس طریقہ کو لازم پکڑتا ہے جس قدر اس پر عمل کرنا اپنا فرض ٹھہرالیتا ہے۔ جس قدر اس کے چھوڑنے میں اپنی ہلاکت دیکھتا ہے اسی قدر اس کی توحید صاف ہوتی ہے اور اسی قدر عُجب اور خودبینی کی آلائشوں سے پاک ہوتا جاتا ہے اور اسی قدر تکلف اور بناوٹ کی سیاہی اس کے چہرہ پر سے اٹھ جاتی ہے اور سادگی اور بھولا پن کا ُ نور اس کے مونہہ پر چمکنے لگتا ہے پس یہ وہ صداقت ہے کہ جو رفتہ رفتہ انسان کو فنا فی اللہ کے مرتبہ تک پہنچاتی ہے۔ یہاں تک

یعنے اے دانشمندو۔ قاتل کے قتل کرنے اور موذی کی اسی قدر ایذا دینے میں تمہاری زندگی ہے۔ جس نے ایک انسان کو ناحق

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 426

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 426

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/426/mode/1up

وہ اس کی تکذیب کررہے ہیں۔ جس خدا کے عجائبؔ الہامات اب بھی نامعلوم بولیوں کو اپنے بندوںں پر منکشف کردیتے ہیں۔ اس کی نسبت یہ گمان کہ ایسے

کہ وہ دیکھتا ہے کہ میرا کچھ بھی اپنا نہیں بلکہ سب کچھ میں خدا سے پاتا ہوں۔ جہاں کہیں یہ طریق کسی نے اختیار کیا وہیں توحید کی خوشبو پہلی دفعہ میں ہی اس کو پہنچنے لگتی ؔ ہے اور دل اور دماغ کا معطر ہونا شروع ہوتا جاتا ہے بشرطیکہ قوت شامہ میں کچھ فساد نہ ہو۔ غرض اس صداقت کے التزام میں طالب صادق کو اپنے ہیچ اور بے حقیقت ہونے کا اقرار کرنا پڑتا ہے اور اللہ جل شانہ کے متصرف مطلق اور مبدء فیوض ہونے پر شہادت دینی پڑتی ہے۔ اور یہ دونوں ایسے امر ہیں کہ جو حق کے طالبوں کا مقصود ہے اور مرتبۂ فنا کے حاصل کرنے کے لئے ایک ضروری شرط ہے۔ اس ضروری شرط کے سمجھنے کے لئے یہی مثال کافی ہے کہ بارش اگرچہ عالمگیر ہو مگر تاہم اس پر پڑتی ہے کہ جو بارش کے موقعہ پر آکھڑا ہوتا ہے۔ اسی طرح جو لوگ طلب کرتے ہیں وہی پاتے ہیں اور جو ڈھونڈتے ہیں انہیں کو ملتا ہے۔ جو لوگ کسی کام کے شروع کرنے کے وقت اپنے ہنر یا عقل یا طاقت پر بھروسا رکھتے ہیں اور خدائے تعالیٰ پر بھروسہ نہیں رکھتے وہ اس ذات قادر مطلق کا کہ جو اپنی قیومی کے ساتھ تمام عالم پر محیط ہے کچھ قدر شناخت نہیں کرتے اور ان کا ایمان اس خشک ٹہنی کی طرح ہوتا ہے کہ جس کو اپنے شاداب اور سرسبز درخت سے کچھ علاقہ نہیں رہا اور جو ایسی خشک ہوگئی ہے کہ اپنے درخت کی تازگی اور پھول اور پھل سے کچھ بھی حصہ حاصل نہیں کرسکتے صرف ظاہری جوڑ ہے جوذرا سی جنبش ہوا سے یا کسی اور شخص کے ہلانے سے ٹوٹ سکتا ہے پس ایسا

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 427

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 427

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/427/mode/1up

الہامات سے ابتداء زمانہ میں جبکہ ان کی نہایت ضرورت تھی۔ خدا نے دریغ کیاؔ سخت نادانی اور کور باطنی ہے۔ اور اگر کسی کے دل میں یہ وہم گزرے کہ اب

ہی خشک فلسفیوں کا ایمان ہے کہ جو قیومِ َ عا َ لم کے سہارے پر نظر نہیں رکھتے اور اس مبدء فیوض کو جس کا نام اللہ ہے۔ ہریک طرفتہ العین کے لئے اور ہر حال میں اپنا محتاج الیہ قرار نہیں دیتے۔ پس یہ لوگ حقیقی توحید سے ایسے دور پڑے ہوئے ہیں جیسے ُ نور سے ظلمت دور ہے۔ انہیں یہ سمجھ ہی نہیں کہ اپنے تئیں ہیچ اور لا شئے سمجھ کر قادر مطلق کی طاقت عظمیٰ کے نیچے آپڑنا عبودیت کے مراتب کی آخری حد ہے اور توحید کا انتہائی مقام ہے جس سے فنا اتم کا چشمہ جوش مارتا ہے اور انسان اپنے نفس اور اس کے ارادوں سے بالکل کھویا جاتا ہے اور سچے دل سے خدا کے تصرف پر ایمان لاتا ہے۔ اس جگہ ان خشک فلسفیوں کے اس مقولہ کو بھی کچھ چیزؔ نہیں سمجھنا چاہئے کہ جو کہتے ہیں کہ کسی کام کے شروع کرنے میں استمدادِ الٰہی کی کیا حاجت ہے۔ خدا نے ہماری فطرت میں پہلے سے طاقتیں ڈال رکھی ہیں پس ان طاقتوں کے ہوتے ہوئے پھر دوبارہ خدا سے طاقت مانگنا تحصیل حاصل ہے۔ کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ بے شک یہ بات سچ ہے کہ خدائے تعالیٰ نے بعض افعال کے بجالانے کے لئے کچھ کچھ ہم کو طاقتیں بھی دی ہیں مگر پھر بھی اس قیوم عالم کی حکومت ہمارے سر پر سے دور نہیں ہوئی اور وہ ہم سے الگ نہیں ہوا اور اپنے سہارے سے ہم کو جدا کرنا نہیں چاہا اور اپنے فیوض غیر متناہی سے ہم کو محروم کرنا روا نہیں رکھا۔ جو کچھ ہم کو اس نے دیا ہے وہ ایک امر محدود ہے۔ اور جو کچھ اس سے مانگا جاتا ہے اس کی نہایت نہیں علاوہ اس کے جو کام ہماری طاقت سے باہر ہیں ان کے حاصل کرنے کے لئے کچھ بھی ہم کو طاقت نہیں دی گئی۔ اب اگر غور کرکے دیکھو اور ذرا پوری فلسفیت کو کام میں

جاننا چاہئے کہ انجیل کی تعلیم اس کمال کے مرتبہ سے جس سے نظام عالم مربوط و مضبوط ہے متنزّل و فروتر ہے۔ اورؔ اس تعلیم کو کامل خیال کرنا بھی بھاری غلطی ہے ایسی تعلیم ہرگز کامل نہیں ہوسکتی بلکہ یہ اُن ایام کی تدبیر ہے کہ جب قوم بنی اسرائیل کا اندرونی رحم

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 428

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 428

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/428/mode/1up

جنگلی آدمیوں کو جو بے زبانی کی حالت میں محض اشارات سے گزارہ کرتے ہیں کیوں بذریعہؔ الہام کے کسی بولی سے مطلع نہیں کیا جاتا اور کیوں کوئی بچۂ نوزاد جنگل میں

لاؤ تو ظاہر ہوگا کہ کامل طور پر کوئی بھی طاقت ہم کو حاصل نہیں۔ مثلاً ہماری بدنی طاقتیں ہماری تندرستی پر موقوف ہیں اور ہماری تندرستی بہت سے ایسے اسباب پر موقوف ہے کہ کچھ ان میں سے سماوی اور کچھ ارضی ہیں اور وہ سب کی سب ہماری طاقت سے بالکل باہر ہیں اور یہ تو ہم نے ایک موٹی سی بات عام لوگوں کی سمجھ کے موافق کہی ہے لیکن جس قدر درحقیقت وہ قیوم عالم اپنی علت العلل ہونے کی وجہ سے ہمارے ظاہر اور ہمارے باطن اور ہمارے اول اور ہمارے آخر اور ہمارے فَوق اور ہمارے تحت اور ہمارے یمین اور ہمارے یسار اور ہمارے دل اور ہماری جان اور ہمارے روح کی تمام طاقتوں پر احاطہ کررہا ہے وہ ایک ایسا مسئلہ دقیق ہے جس کے کنہ تک عقول بشریہ پہنچ ہی نہیں سکتیں۔ اور اس کے سمجھانے کی اس جگہ ضرورت بھی نہیں۔ کیونکہ جس قدر ہم نے اوپر لکھا ہے وہی مخالف کے الزام اور افہام کے لئے کافی ہے۔ غرض قیومِ عالم کے فیوض حاصل کرنے کا یہی طریق ہے کہ اپنی ساری قوت اور زور اور طاقت سے اپنا بچاؤ طلب کیا جائے اورؔ یہ طریق کچھ نیا طریق نہیں ہے بلکہ یہ وہی طریق ہے جو قدیم سے بنی آدم کی فطرت کے ساتھ لگا چلا آتا ہے۔ جو شخص عبودیت کے طریقہ پر چلنا چاہتا ہے وہ اسی طریق کو اختیار کرتا ہے اور جو شخص خدا کے فیوض کا طالب ہے وہ اسی راستے پر قدم مارتا ہے۔ اور جو شخص مورد رحمت ہونا چاہتا ہے وہ انہیں قوانین قدیمہ کی تعمیل کرتا ہے۔ یہ قوانین کچھ نئے نہیں ہیں۔ یہ عیسائیوں کے خدا کی طرح کچھ مستحدث بات نہیں۔ بلکہ خدا کا یہ ایک قانون محکم ہے کہ جو قدیم سے بندھا ہوا چلا آتا ہے۔ اور سنت اللہ ہے کہ جو ہمیشہ سے جاری ہے جس کی

بہت کم ہوگیا تھا اور بے رحمی اور بے مروّتی اور سنگدلی اور قساوتِ قلبی اور کینہ کشی حد سے زیادہ بڑھ گئی تھی اور خدا کو منظور تھا کہ جیسا وہ لوگ مبالغہ سے کینہ کشی کی طرف مائلؔ تھے۔ ایسا ہی بمبالغۂ تمام رحم اور درگزر کی طرف مائل کیا جاوے لیکن یہ رحم اور درگذر کی تعلیم ایسی

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 429

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 429

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/429/mode/1up

رکھنے سے خدا کی طرف سے کوئی الہام نہیں پاتا۔ تو یہ خدا کے صفات کی ایک غلط فہمی ہے۔ کیونکہ القاؔ اور الہام ایسا امر نہیں ہے کہ جو ہرجگہ بے جا بلالحاظ

سچائی کثرت تجارب سے ہریک طالب صادق پر روشن ہے اور کیونکر روشن نہ ہو۔ ہر عاقل سمجھ سکتا ہے کہ ہم لوگ کس حالت ضعف اور ناتوانی میں پڑے ہوئے ہیں اور بغیر خدا کی مددوں کے کیسے نکمے اور ناکارہ ہیں۔ اگر ایک ذات متصرف مطلق ہر لحظہ اور ہر دم ہماری خبر گیران نہ ہو۔ اور پھر اس کی رحمانیت اور رحیمیت ہماری کارسازی نہ کرے تو ہمارے سارے کام تباہ ہوجائیں۔ بلکہ ہم آپ ہی فنا کا راستہ لیں۔ پس اپنے کاموں کو خصوصاً آسمانی کتاب کو کہ جو سب امور عظیمہ سے اَدق اور اَلطف ہے۔ خداوند قادر مطلق کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے۔ بہ نیت تبرک و استمداد شروع کرنا ایک ایسی بدیہی صداقت ہے کہ بلااختیار ہم اس کی طرف کھینچے جاتے ہیں۔ کیوں کہ فی الحقیقت ہریک برکت اسی راہ سے آتی ہے کہ وہ ذات جو متصرف مطلق اور علّت العلل اور تمام فیوض کا مبدء ہے جس کا نام قرآن شریف کی اصطلاح میں اللہ ہے خود متوجہ ہوکر اول اپنی صفت رحمانیت کو ظاہر کرے اور جو کچھ قبل از سعی درکار ہے اس کو محض اپنے تفضل اور احسان سے بغیر توسط عمل کے ظہور میں لاوے۔ پھر جب وہ صفت رحمانیت کی اپنے کام کو بہ تمام و کمال کرچکے اور انسان توفیق پاکر اپنی قوتوں کے ذریعہ سے محنت اور کوشش کا حق بجالاوے۔ تو پھر دوسرا کام اللہ تعالیٰ کا یہ ہے کہ اپنی صفت رحیمیت کو ظاہر کرے اور جو کچھ بندہ نے محنت اور کوشش کی ہے اس پر نیک ثمرہ مترتب کرے اور اس کی محنتوں کو ضائعؔ ہونے سے بچا کر گوہر مراد عطا فرماوے اسی صفت ثانی کی رو سے کہا گیا ہے کہ جو ڈھونڈتا ہے پاتا ہے۔ جو مانگتا ہے اس کو دیا جاتا

تعلیم نہ تھی کہ جو ہمیشہ کے لئے قائم رہ سکتی۔ کیونکہ حقیقی مرکز پر اس کی بنیاد نہ تھی بلکہ اس قانون کی طرح جو مختص المقام ہوتا ہے صرف سرکش یہودیوں کی اصلاح کے لئے ایک خاص مصلحت تھی اور صرف چند روزہ انتظام تھا۔ اورؔ مسیح کو خوب معلوم تھا کہ خدا جلد تر اس عارضی

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 430

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 430

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/430/mode/1up

ماد ۂقابلہ کے ہوجایا کرے۔ بلکہ القا اور الہام کے لئے مادۂ قابلہ کا ہونا نہایت ضروری شرط ہے اور دوسری شرط یہؔ بھی ہے کہ اس الہام کے لئے ضرورت

ہے جو کھٹکھٹا تاہے اس کے واسطے کھولا جاتا ہے یعنی خدائے تعالیٰ اپنی صفتِ رحیمیت سے کسی کی محنت اور کوشش کو ضائع ہونے نہیں دیتا اور آخر جوئندہ یا بندہ ہوجاتا ہے۔ غرض یہ صداقتیں ایسی بیّن الظہور ہیں کہ ہریک شخص خود تجربہ کرکے ان کی سچائی کو شناخت کرسکتا ہے اور کوئی انسان ایسا نہیں کہ بشرط کسی قدر عقلمندی کے یہ بدیہی صداقتیں اس پر چھپی رہیں۔ ہاں یہ بات ان عام لوگوں پر نہیں کھلتی کہ جو دلوں کی سختی اور غفلت کی وجہ سے صرف اسبابِ معتادہ پر ان کی نظر ٹھہری رہتی ہے اور جو ذات متصرف فی الاسباب ہے اس کے تصرفات لطیفہ پر ان کو علم حاصل نہیں ہوتا اور نہ ان کی عقل اس قدر وسیع ہوتی ہے کہ جو اس بات کو سوچ لیں کہ ہزارہا بلکہ بے شمار ایسے اسباب سماوی و ارضی انسان کے ہریک جسم کی آرائش کے لئے درکار ہیں جن کا بہم پہنچنا ہرگز انسان کے اختیار اور قدرت میں نہیں بلکہ ایک ہی ذات مستجمع صفات کاملہ ہے کہ جو تمام اسباب کو آسمانوں کے اوپر سے زمینوں کے نیچے تک پیدا کرتا ہے اور ان پر بہرطور تصرف اور قدرت رکھتا ہے مگر جو لوگ عقلمند ہیں وہ اس بات کو بلاتردّد بلکہ بدیہی طور پر سمجھتے ہیں اور جو ان سے بھی اعلیٰ اور صاحب تجربہ ہیں وہ اس مسئلہ میں حق الیقین کے مرتبہ تک پہنچے ہوئے ہیں لیکن یہ شبہ کرنا کہ یہ استعانت بعض اوقات کیوں بے فائدہ اور غیر مفید ہوتی ہے اور کیوں خدا کی رحمانیت و رحیمیت ہریک وقت استعانت میں تجلی نہیں فرماتی۔ پس یہ ُ شبہ صرف ایک صداقت کی غلط فہمی ہے کیونکہ خدائے تعالیٰ ان دعاؤں کو کہ جو خلوص کے ساتھ کی جائیں ضرور سنتا ہے اور جس طرح مناسب ہو مدد چاہنے والوں کے لئے مدد بھی کرتا ہے مگر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کی اِستمداد اور دعا میں خلوص نہیں ہوتا نہ انسان

تعلیم کو نیست و نابود کرکے اس کامل کتاب کو دنیا کی تعلیم کے لئے بھیجے گا کہ جو حقیقی نیکی کی طرف تمام دنیا کو بلائے گی اور بندگان خدا پر حق اور حکمت کا دروازہ کھول دے گی۔ اس لئے کہ اس کو کہنا پڑا کہ ابھی بہت سی باتیں قابل تعلیم باقی ہیں جن کی تم ہنوز برداشت

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 431

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 431

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/431/mode/1up

حقہ بھی پائی جائے۔ ابتدا میں جب خدا نے انسان کو پیدا کیا۔ اس وقت بذریعہ الہام بولیوں کی تعلیم کرنا ایسا امر تھا کہ جس میں دونوں طور

دلی عاجزی کے ساتھ امداد الٰہی چاہتا ہے۔ اور نہ اس کی روحانی حالت درست ہوتی ہے بلکہ اس کے ہوؔ نٹوں میں دعا اور اس کے دل میں غفلت یا ریا ہوتی ہے۔ یا کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خدا اس کی دعا کو سن تو لیتا ہے اور اس کے لئے جو کچھ اپنی حکمت کاملہ کے رو سے مناسب اور اصلح دیکھتا ہے عطا بھی فرماتا ہے لیکن نادان انسان خدا کی ان الطافِ خفیہ کو شناخت نہیں کرتا اور بباعث اپنے جہل اور بے خبری کے شکوہ اور شکایت شروع کردیتا ہے۔ اور اس آیت کے مضمون کو نہیں سمجھتا۔33۔ ۱؂ یعنی یہ ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو بری سمجھو اور وہ اصل میں تمہارے لئے اچھی ہو اور ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو دوست رکھو اور وہ اصل میں تمہارے لئے بری ہو اور خدا چیزوں کی اصل حقیقت کو جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ اب ہماری اس تمام تقریر سے واضح ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کس قدر عالی شان صداقت ہے جس میں حقیقی توحید اور عبودیت اور خلوص میں ترقی کرنے کا نہایت عمدہ سامان موجود ہے جس کی نظیر کسی اور کتاب میں نہیں پائی جاتی۔ اور اگر کسی کے زعم میں پائی جاتی ہے تو وہ اس صداقت کو معہ تمام دوسری صداقتوں کے جو ہم نیچے لکھتے ہیں نکال کر پیش کرے۔

اس جگہ بعض کوتہ اندیش اور نادان دشمنوں نے ایک اعتراض بھی بسم اللہ کی بلاغت پر کیا ہے۔ ان معترضین میں سے ایک صاحب تو پادری عماد الدین نام ہیں۔ جس نے اپنی کتاب ہدایت المسلمین میں اعتراض مندرجہ ذیل لکھا ہے۔ دوسرے صاحب باوا

نہیں کرسکتے۔ مگر میرے بعدؔ ایک دوسرا آنے والا ہے وہ سب باتیں کھول دے گا اور علم دین کو بمرتبہ کمال پہنچائے گا۔ سو حضرت مسیح تو انجیل کو ناقص کی ناقص ہی چھوڑ کر آسمانوں پر جا بیٹھے اور ایک عرصہ تک وہی ناقص کتاب لوگوں کے ہاتھ میں رہی اور پھر اس نبی معصوم

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 432

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 432

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/432/mode/1up

کیؔ شرائط موجود تھی۔ اوّل ذاتی قابلیت پہلے انسان میں جیسا کہ چاہئیے الہام

نرائن سنگھ نام وکیل امرتسری ہیں جنہوں نے پادری کے اعتراض کو سچ سمجھ کر اپنے دِلی عناد کے تقاضا کی وجہ سے وہی پوچ اعتراض اپنے رسالہ ودیا پرکاشک میں درج کردیا ہے سو ہم اس اعتراض کو معہ جواب اس کے کے لکھنا مناسب سمجھتے ہیں تا منصفین کو معلوم ہوکہ فرطِ تعصب نے ہمارے مخالفین کو کس درجہ کی کور باطنی اور نابینائی تک پہنچا دیا ہے کہؔ جو نہایت درجہ کی روشنی ہے۔ وہ ان کو تاریکی دکھائی دیتی ہے۔ اور جو اعلیٰ درجہ کی خوشبو ہے وہ اس کو بد ُ بو تصور کرتے ہیں۔ سو اب جاننا چاہئے کہ جو اعتراض بسم اللہ الرحمن الرحیم کی بلاغت پر مذکورہ بالا لوگوں نے کیا ہے وہ یہ ہے کہ الرحمن الرحیم جو بسم اللہ میں واقع ہے یہ فصیح طرز پر نہیں اگر رحیم الرحمن ہوتا تو یہ فصیح اور صحیح طرز تھی کیونکہ خدا کا نام رحمان باعتبار اس رحمت کے ہے کہ جو اکثر اور عام ہے اور رحیم کا لفظ بہ نسبت رحمان کے اس رحمت کے لئے آتا ہے کہ جو قلیل اور خاص ہے۔ اور بلاغت کا کام یہ ہے کہ قلت سے کثرت کی طرف انتقال ہو نہ یہ کہ کثرت سے قلت کی طرف۔ یہ اعتراض ہے کہ ان دونوں صاحبوں نے اپنی آنکھیں بند کرکے اس کلام پر کیا ہے جس کلام کی بلاغت کو عرب کے تمام اہل زبان جن میں بڑے بڑے شاعر بھی تھے باوجود سخت مخالفت کے تسلیم کرچکے ہیں بلکہ بڑے بڑے معاند اس کلام کی شان عظیم سے نہایت درجہ تعجب میں پڑگئے اور اکثر ان میں سے کہ جو فصیح اور بلیغ کلام کے اسلوب کو بخوبی جاننے پہچاننے والے اور مذاق سخن سے عارف اور باانصاف تھے وہ طرزِ قرآنی کو طاقت انسانی سے باہر دیکھ کر ایک معجزہ عظیم یقین کرکے ایمان لے آئے جن کی شہادتیں

کی پیشین گوئی کے بموجب قرآن شریف کو خدا نے نازل کیا اور ایسیؔ جامع شریعت عطا فرمائی جس میں نہ توریت کی طرح خواہ نخواہ ہر جگہ اور ہر محل میں دانت کے عوض دانت نکالنا ضروری لکھا اور نہ انجیل کی طرح یہ حکم دیا کہ ہمیشہ اور ہر حالت میں دست دراز لوگوں کے طمانچے کھانے چاہئیے۔ بلکہ وہ کامل کلام عارضی خیالات سے ہٹا کر حقیقی نیکی کی طرف

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 433

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 433

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/433/mode/1up

پانے کیلئے موجود تھی۔ دوسری ضرورت حقہ بھی الہام کی مقتضی تھی۔ کیونکہ اس وقت

جابجا قرآن شریف میں درج ہیں اور جو لوگ سخت کور باطن تھے اگرچہ وہ ایمان نہ لائے مگر سراسیمگی اور حیرانی کی حالت میں ان کو بھی کہنا پڑا کہ یہ سحر عظیم ہے جس کا مقابلہ نہیں ہوسکتا چنانچہ ان کا یہ بیان بھی فرقان مجید کے کئی مقام میں موجود ہے۔ اب اسی کلام معجز نظام پر ایسے لوگ اعتراض کرنے لگے جن میں سے ایک تو وہ شخص ہے جس کو دو سطریں عربی کی بھی صحیح اور بلیغ طور پر لکھنے کا ملکہ نہیں اور اگر کسی اہل زبان سے بات چیت کرنے کا اتفاق ہو تو بجز ٹوٹے پھوٹے اور بے ربط اور غلط فقروں کے کچھ بول نہ سکے اور اگر کسی کو شک ہو تو امتحان کرکے دیکھ لے اور دوسرا وہ شخص ہے جو علم عربی سے بکلّی بے بہرہ بلکہ فارسی بھی اچھی طرح نہیں جانتاؔ ۔ اور افسوس کہ عیسائی مقدم الذکر کو یہ بھی خبر نہیں کہ یورپ کے اہل علم کہ جو اس کے بزرگ اور پیشرو ہیں جن کا بورٹ۱؂ صاحب وغیرہ انگریزوں نے ذکر کیا ہے وہ خود قرآن شریف کے اعلیٰ درجہ کی بلاغت کے قائل ہیں اور پھر دانا کو زیادہ تر اس بات پر غور کرنی چاہئے کہ جب ایک کتاب جو خود ایک اہل زبان پر ہی نازل ہوئی ہے اور اس کی کمال بلاغت پر تمام اہل زبان بلکہ سبعہ معلقہ کے شعراء جیسے اتفاق کرچکے ہیں تو کیا ایسا مسلم الثبوت کلام کسی نادان اجنبی و ژولیدہ زبان والے کے انکار سے جو کہ لیاقت فن سخن سے محض بے نصیب اور توغل علوم عربیہ سے بالکل بے بہرہ بلکہ کسی ادنیٰ عربی آدمی کے مقابلہ پر بولنے سے عاجز ہے قابل اعتراض ٹھہر سکتا ہے بلکہ ایسے لوگ جو اپنی حیثیت سے بڑھ کر بات کرتے ہیں خود اپنی نادانی دکھلاتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ اہل زبان کی شہادت کے برخلاف اور بڑے بڑے نامی شاعروں کی گواہی کے مخالف کوئی نکتہ چینی کرنا حقیقت میں اپنی جہالت اور خر فطرتی دکھلانا ہے۔ بھلا عماد الدین پادری کسی عربی آدمی کے

ترغیب دیتا ہے اور جس باتؔ میں واقعی طور پر بھلائی پیدا ہو خواہ وہ بات درشت ہو خواہ نرم۔ اسی کے کرنے کے لئے تاکید فرماتا ہے۔ جیسا فرمایا ہے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 434

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 434

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/434/mode/1up

بجز خدائے تعالیٰ کےؔ اور کوئی حضرت آدم کے لئے رفیق شفیق نہ تھا کہ جو ان کو بولنا سکھاتا۔ پھر اپنی تعلیم سے شائستگی اور تہذیب کے مرتبہ تک پہنچاتا۔ بلکہ حضرت

مقابلہ پر کسی دینی یا دنیوی معاملہ میں ذرا ایک آدھ گھنٹہ تک ہم کو بول کر تو دکھاوے تا اول یہی لوگوں پر کھلے کہ اس کو سیدھی سادھی اور بامحاورہ اہل عرب کے مذاق پر بات چیت کرنی آتی ہے یا نہیں۔ کیونکہ ہم کو یقین ہے کہ اس کو ہرگز نہیں آتی اور ہم بہ یقین تمام جانتے ہیں کہ اگر ہم کسی عربی آدمی کو اس کے سامنے بولنے کے لئے پیش کریں تو وہ عربوں کی طرح اور ان کے مذاق پر ایک چھوٹا سا قصہ بھی بیان نہ کرسکے اور جہالت کے کیچڑ میں پھنسا رہ جائے اور اگر شک ہے تو اس کو قسم ہے کہ آزما کر دیکھ لے۔ اور ہم خود اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ اگر پادری عماد الدین صاحب ہم سے درخواست کریں تو ہم کوئی عربی آدمی بہم پہنچا کر کسی مقررہ تاریخ پر ایک جلسہ کریں گے جس میں چند لائق ہندو ہوں گے اور چند مولوی مسلمان بھی ہوں گے اور عماد الدین صاحب پر لازم ہوگا کہ وہ بھی چند عیسائی بھائی اپنے ساتھ لے آویں اور پھر سب حاضرین کے روبرو اول عماد الدین صاحب کوئی قصہ جو اسی وقت ان کو بتلایا جائے گا عربی زبان میں بیان کریں۔ اور پھر وہی قصہ وہ عربی صاحب کہ جو مقابل پر حاضر ہوں گے اپنی زبان میں بیان فرماویں۔ پھر اگر منصفوں نے یہ رائے دے دی کہ عماد الدین صاحب نے ٹھیک ٹھیک عربوں کے مذاق پر عمدہ اور لطیف تقریر کی ہے تو ہم تسلیم کرلیں گے کہ ان کا اہل زبان پر نکتہ چینی کرنا کچھ جائے تعجب نہیں بلکہ اسی وقت 3پچاس روپیہ نقد بطور انعام ان کو دیئے جائیں گے لیکن اگر اس وقت عماد الدین صاحب بجائے فصیح اور بلیغ تقریر کے اپنے ژولیدہ اور غلط بیان کی بدبو پھیلانے لگے یا اپنی رسوائی اور نالیاقتی سے ڈر کر کسی اخبار کے ذریعہ سے یہ اطلاع بھی نہ دی کہ میں ایسے مقابلہ کے لئے حاضر ہوں تو ؔ پھر ہم بجز اس کے کہ لعنت اللّٰہ علی الکاذین کہیں

پاداش میں اصول انصاف تو یہی ہے کہ بدکن آدمی اسی قدر بدی کا سزاوار ہے جس قدر اس نے بدی کیؔ ہے پر جو شخص عفو کرکے کوئی اصلاح کا کام بجالائے یعنے ایسا عفو نہ ہو جس کا نتیجہ کوئی خرابی ہو سو اُس کا اجر خدا پر ہے اور ایسا ہی جامعیّت اور کمال شریعت کی طرف

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 435

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 435

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/435/mode/1up

آدم کے لئے صرف ایک خدائے تعالیٰ تھا جسؔ نے تمام ضروری حوائج آدم کو پورا کیا اور اُس کو آپ حُسنِ تربیت اور حسن تادیب سے بمرتبۂ حقیقی انسانیت

اور کیا کہہ سکتے ہیں۔ اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اگر عماد الدین صاحب تولد ثانی بھی پاویں تب بھی وہ کسی اہل زبان کا مقابلہ نہیں کرسکتے پھر جس حالت میں وہ عربوں کے سامنے بھی بول نہیں سکتے اور فی الفور گونگا بننے کے لئے طیار ہیں۔ تو پھر ان عیسائیوں اور آریوں کی ایسی سمجھ پر ہزار حیف اور دو ہزار لعنت ہے کہ جو ایسے نادان کی تالیف پر اعتماد کرکے اس بے مثل کتاب کی بلاغت پر اعتراض کرتے ہیں کہ جس نے سید العرب پر نازل ہوکر عرب کے تمام فصیحوں اور بلیغوں سے اپنی عظمت شان کا اقرار کرایا۔ اور جس کے نازل ہونے سے سبعہ معلقہ مکہ کے دروازہ پر سے اتارا گیا اور معلقہ مذکورہ کے شاعروں میں سے جو شاعر اس وقت بقید حیات تھا وہ بلاتوقف اس کتاب پر ایمان لایا پھر دوسرا افسوس یہ کہ اس نادان عیسائی کو اب تک یہ بھی خبر نہیں کہ بلاغتِ حقیقی اس امر میں محدود نہیں کہ قلیل کو کثیر پر ہرجگہ اور ہر محل میں خواہ نخواہ مقدّم رکھا جائے بلکہ اصل قاعدہ بلاغت کا یہ ہے کہ اپنے کلام کو واقعی صورت اور مناسب وقت کا آئینہ دار بنایا جاوے سو اس جگہ بھی رحمان کو رحیم پر مقدم کرنے میں کلام کو واقعی صورت اور ترتیب کا آئینہ بنایا گیا ہے چنانچہ اس ترتیب طبعی کا مفصل ذکر ابھی سورۃ فاتحہ کی آئندہ آیتوں میں آوے گا۔ اور اب ہم سورۃ ممدوحہ کی دوسری آیتوں کو تفصیل سے لکھتے ہیں اور وہ یہ ہے۔ الحمدللّٰہ تمام محامد اس ذات معبود برحق مستجمع جمیع صفات کاملہ کو ثابت ہیں جس کا نام اللہ ہے۔ ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں کہ قرآن شریف کی اصطلاح میں اللہ اس ذات کامل کا نام ہے کہ جو معبود برحق اور مستجمع جمیع صفات کاملہ اور تمام رذائل سے منزہ اور واحد لاشریک اور مبدء جمیع فیوض ہے۔ کیونکہ خدائے تعالیٰ نے اپنے کلام پاک قرآنِ شریف میں اپنے نام

اس آیت میں بھی اشارہ فرمایا۔

یعنے آج میں نے علم دین کو مرتبہ کمال تک

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 436

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 436

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/436/mode/1up

کے پہنچایا۔ ہاں بعد اس کے جب اولاد حضرت آدم کی دنیا میں پھیل گئیؔ ۔ اور جو علوم خدائے تعالیٰ نے آدم کو سکھلائے تھے۔ وہ اس کی اولاد میں بخوبی

اللہ کو تمام دوسرے اسماء و صفات کا موصوف ٹھہرایا ہے اور کسی جگہ کسی دوسرے اسم کو یہ رُتبہ نہیں دیا۔ پس اللہ کے اسم کو بوجہ موصوفیت تامہ ان تمام صفتوں پر دلالت ہے جن کا وہ موصوف ہے اور چونکہ وہ جمیع اسماء اور صفات کا موصوف ہے اس لئے اس کا مفہوم یہ ہوا کہ وہ جمیع صفات کاملہ پر مشتمل ہے۔ پس خلاصہ مطلب الحمدللہ کا یہ نکلا کہ تمام اقسام حمد کے کیا باعتبار ظاہر کے اور کیا باعتبار باطن کے اور کیا باعتبار ذاتی کمالات کے اور کیا باعتبار قدرتی عجائبات کے اللہ سے مخصوص ہیں اور اس میں کوئی دوسرا شریک نہیں۔ اور نیز جس قدر محامد صحیحہ اور کمالات تامہ کو عقل کسی عاقل کی سوچ سکتی ہےؔ یا فکر کسی متفکر کا ذہن میں لاسکتا ہے۔ وہ سب خوبیاں اللہ تعالیٰ میں موجود ہیں۔ اور کوئی ایسی خوبی نہیں کہ عقل اس خوبی کے امکان پر شہادت دے۔ مگر اللہ تعالیٰ بدقسمت انسان کی طرح اس خوبی سے محروم ہو۔ بلکہ کسی عاقل کی عقل ایسی خوبی پیش ہی نہیں کرسکتی کہ جو خدا میں نہ پائی جائے۔ جہاں تک انسان زیادہ سے زیادہ خوبیاں سوچ سکتا ہے وہ سب اس میں موجود ہیں اور اس کو اپنی ذات اور صفات اور محامد میں من کل الوجوہ کمال حاصل ہے اور رزائل سے بکلّی منزہ ہے۔ اب دیکھو یہ ایسی صداقت ہے جس سے سچا اور جھوٹا مذہب ظاہر ہوجاتا ہے کیونکہ تمام مذہبوں پر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ بجز اسلام دنیا میں کوئی بھی ایسا مذہب نہیں ہے کہ جو خدائے تعالیٰ کو جمیع رذائل سے منزہ اور تمام محامد کاملہ سے متصف سمجھتا ہو۔ عام ہندو اپنے دیوتاؤں کو کارخانہ ربوبیت میں شریک سمجھتے ہیں

پہنچایا اور اپنی نعمت کو امتؔ محمدیہ پر پورا کیا۔ اب اس تمام تحقیقات سے ظاہر ہے کہ انجیل کی تعلیم کامل بھی نہیں چہ جائیکہ اس کو بے نظیر اور لاثانی کہا جائے ہاں اگر انجیل لفظاً و معناً خدا کا کلام ہوتا اور اس میں ایسی خوبیاں پائی جاتیں جن کا

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 437

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 437

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/437/mode/1up

رواج پکڑگئے۔ تب بعض انسان بعض انسانوں کے استاد اور معلم بن بیٹھے اور

اور خدا کے کاموں میں ان کو مستقل طور پر دخیل قرار دیتے ہیں۔ بلکہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ خدا کے ارادوں کو بدلنے والے اور اس کی تقدیروں کو زیر زبر کرنے والے ہیں۔ اور نیز ہندو لوگ کئی انسانوں اور دوسرے جانوروں کی نسبت بلکہ بعض ناپاک اور نجاست خوار حیوانات یعنی خنزیر وغیرہ کی نسبت یہ خیال کرتے ہیں کہ کسی زمانہ میں ان کا پرمیشر ایسی ایسی جونوں میں تولد پاکر ان تمام آلائشوں اور آلودگیوں سے ملوث ہوتا رہا ہے کہ جو ان چیزوں کے عائد حال ہیں اور نیز انہیں چیزوں کی طرح بھوک اور پیاس اور درد اور دکھ اور خوف اور غم اور بیماری اور موت اور ذلت اور رسوائی اور عاجزی اور ناتوانی کی آفات میں گرفتار ہوتا رہا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ تمام اعتقادات خدائے تعالیٰ کی خوبیوں میں بٹہ لگاتے ہیں اور اس کے ازلی و ابدی جاہ و جلال کو گھٹاتے ہیں۔ اور آریہ سماج والے جو ان کے مہذب بھائی نکلے ہیں۔ جن کا یہ گمان ہے کہ وہ ٹھیک ٹھیک وید کی لکیر پر چلتے ہیں۔ وہ خدائے تعالیٰ کو خالقیت سے ہی جواب دیتے ہیں اور تمام روحوں کو اس کی ذات کامل کی طرح غیر مخلوق اور واجب الوجود اور موجود بوجود حقیقی قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ عقل سلیم خدائےؔ تعالیٰ کی نسبت صریح یہ نقص سمجھتی ہے کہ وہ دنیا کا مالک کہلا کر پھر کسی چیز کا رب اور خالق نہ ہو اور دنیا کی زندگی اس کے سہارے سے نہیں بلکہ اپنے ذاتی وجوب کے رو سے ہو۔ اور جب عقل سلیم کے آگے یہ دونوں سوال پیش کئے جائیں کہ آیا خداوند قادر مطلق کے محامد تامہ کے لئے یہ بات اصلح اور انسب ہے کہ وہ آپ ہی اپنی قدرت کاملہ سے تمام موجودات کو منصہ ظہور میں لاکر ان سب کا رب اور خالق ہو اور تمام کائنات کا سلسلہ اسی کی ربوبیت تک ختم ہوتا ہو اور خالقیت کی صفت

انسان کے کلام میں پائے جانا ممتنع اور محال ہے۔ تب وہ بلاشبہ بے نظیر ٹھہرتی مگر وہ خوبیاں تو انجیل میںؔ سے اسی زمانہ میں رخصت ہوگئیں جب حضرات عیسائیوں نے نفسانیت سے اس میں تصرّف کرنا شروع کیا۔ نہ وہ الفاظ رہے نہ وہ معانی رہے نہ وہ حکمت

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 438

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 438

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/438/mode/1up

ہریک بچہ کے لئے اسؔ کے والدین بولی سکھانے کے لئے رفیق شفیق نکل آئے۔ مگر آدم کے لئے بجز ایک خدا کے اور کوئی نہ تھا جو اسکو بولی سکھاتا اور ادب انسانیت

اور قدرت اس کی ذات کامل میں موجود ہو اور پیدائش اور موت کے نقصان سے پاک ہو یا یہ باتیں اس کی شان کے لائق ہیں کہ جس قدر مخلوقات اس کے قبضۂ تصرف میں ہیں یہ چیزیں اس کی مخلوق نہیں ہیں اور نہ اس کے سہارے سے اپنا وجود رکھتی ہیں اور نہ اپنے وجود اور بقا میں اس کی محتاج ہیں اور نہ وہ ان کا خالق اور رب ہے اور نہ خالقیت کی صفت اور قدرت اس میں پائی جاتی ہے اور نہ پیدائش اور موت کے نقصان سے پاک ہے۔ تو ہرگز عقل یہ فتویٰ نہیں دیتی کہ وہ جو دنیا کا مالک ہے وہ دنیا کا پیدا کنندہ نہیں اور ہزاروں ُ پرحکمت صفتیں کہ جو روحوں اور جسموں میں پائی جاتی ہیں وہ خودبخود ہیں اور ان کا بنانے والا کوئی نہیں اور خدا جو ان سب چیزوں کا مالک کہلاتا ہے وہ فرضی طور پر مالک ہے اور نہ یہ فتویٰ دیتی ہے کہ اس کو پیدا کرنے سے عاجز سمجھا جاوے یا ناطاقت اور ناقص ٹھہرایا جاوے یا پلیدی اور نجاست خواری کی نالائق اور قبیح عادت کو اس کی طرف منسوب کیا جائے یا موت اور درد اور دکھ اور بے علمی اور جہالت کو اس پر روا رکھا جائے۔ بلکہ صاف یہ شہادت دیتی ہے کہ خدائے تعالیٰ ان تمام رذیلتوں اور نقصانوں سے پاک ہونا چاہئے اور اس میں کمال تام چاہئے اور کمال تام قدرت تام سے مشروط ہے اور جب خدائے تعالیٰ میں قدرت تام نہ رہی۔ اور نہ وہ کسی دوسری چیز کو پیدا کرسکا۔ اور نہ اپنی ذات کو ہریک قسم کے نقصان اور عیب سے بچاسکا تو اس میں کمال تام بھی نہ رہا۔ اور جب کمال تام نہ رہا تو محامد کاملہ سے وہ بے نصیب رہا۔

یہؔ ہندوؤں اور آریوں کا حال ہے اور جو کچھ عیسائی لوگ خدائے تعالیٰ کا جلال ظاہر

اور نہ وہ معرفت۔ سو اب اے حضرات آپ لوگ ذرا ہوش سنبھال کر جواب دیں کہ جب ایک طرف تکمیل ایمان بے مثل کتاب پر موقوف ہے۔ اور دوسری طرفؔ آپ لوگوں کا یہ حال کہ نہ قرآن شریف کو مانیں اور نہ ایسی کوئی دوسری کتاب نکال کر دکھلاویں جو بے مثل ہو تو پھر

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 439

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 439

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/439/mode/1up

سے ادب آموز کرتا۔ اس کے لئے بجائےؔ استاد اور معلم اور ما۱؂اور باپ کے اکیلا خدا ہی تھا۔ جس نے اس کو پیدا کرکے آپ سب کچھ اس کو سکھایا۔ غرض آدم کے لئے یہ ضرورت حقاً و وجوباً پیش آگئی تھی کہ خدا اس کی تربیّت آپ فرماتا اور اس کے

کررہے ہیں۔ وہ ایک ایسا امر ہے کہ صرف ایک ہی سوال سے دانا انسان سمجھ سکتا ہے یعنی اگر کسی دانا سے پوچھا جائے کہ کیا اس ذات کامل اور قدیم اور غنی اور بے نیاز کی نسبت جائز ہے کہ باوجود اس کے کہ وہ اپنے تمام عظیم الشان کاموں میں جو قدیم سے وہ کرتا رہا ہے آپ ہی کافی ہو آپ ہی بغیر حاجت کسی باپ یا بیٹے کے تمام دنیا کو پیدا کیا ہو اور آپ ہی تمام روحوں اور جسموں کو وہ قوتیں بخشی ہوں جن کی انہیں حاجت ہے اور آپ ہی تمام کائنات کا حافظ اور قیوم اور مدبر ہو۔ بلکہ ان کے وجود سے پہلے جو کچھ ان کو زندگی کے لئے درکار تھا وہ سب اپنی صفت رحمانیت سے ظہور میں لایا اور بغیر انتظار عمل کسی عامل کے سورج اور چاند اور بے شمار ستارے اور زمین اور ہزارہا نعمتیں جو زمین پر پائی جاتی ہیں محض اپنے فضل و کرم سے انسانوں کے لئے پیدا کی ہوں اور ان سب کاموں میں کسی بیٹے کا محتاج نہ ہوا ہو لیکن پھر وہی کامل خدا آخری زمانہ میں اپنا تمام جلال اور اقتدار کالعدم کرکے مغفرت اور نجات دینے کے لئے بیٹے کا محتاج ہوجائے اور پھر بیٹا بھی ایسا ناقص بیٹا جس کو باپ سے کچھ بھی مناسب نہیں جس نے باپ کی طرح نہ کوئی گوشہ آسمان کا اور نہ کوئی قطعہ زمین کا پیدا کیا جس سے اس کی الوہیت ثابت ہو بلکہ مرقس کے ۸ باب ۱۲ آیت میں اس کی عاجزانہ حالت کو اس طرح بیان کیا ہے کہ اس نے اپنے دل سے آہ کھینچ کر کہا کہ اس زمانہ کے لوگ کیوں نشان چاہتے ہیں۔ میں

آپ لوگ کمال ایمان و یقین کے درجہ تک کیونکر پہنچ سکتے ہیں اور کیوں بے فکر بیٹھے ہیں۔ کیا کسی اور کتاب کے نازل ہونے کی انتظار ہے یا برہموجی بننے کا ارادہ ہے اور ایمان اور خدا کی کچھؔ پرواہ نہیں اب دیکھئے کہ قرآن شریف کی بے نظیری کے انکار

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 440

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 440

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/440/mode/1up

مایحتاج کا آپ بندوبست کرتا۔ لیکن اس کی اولاد کے لئے یہؔ ضرورت پیش نہیں آئی کیونکہ اب کروڑہا انسان مختلف بولیاں بولتے اور اپنے بچوں کو سکھاتے ہیں۔ ماسوا اس کے جیسا کہ ہم نے ابھی اوپر بیان کیا ہے۔ ذاتی قابلیّت بھی کہ

تم سے سچ کہتا ہوں کہ اس زمانہ کے لوگوں کو کوئی نشان دیا نہ جائے گا اور اس کے مصلوب ہونے کے وقت بھی یہودیوں نے کہا کہ اگر وہ اب ہمارے روبرو زندہ ہوجائے تو ہم ایمان لائیں گے۔ لیکن اس نے ان کو زندہ ہوکر نہ دکھلایا اور اپنی خدائی اور قدرت کاملہ کا ایکؔ ذرہ ثبوت نہ دیا۔ اور اگر بعض معجزات بھی دکھلائے تو وہ دکھلائے کہ اس سے پہلے اور نبی بکثرت دکھلا چکے تھے بلکہ اسی زمانہ میں ایک حوض کے پانی سے بھی ایسے ہی عجائبات ظہور میں آتے تھے(دیکھو باب پنجم انجیل یوحنا) غرض وہ اپنے خدا ہونے کا کوئی نشان دکھلا نہ سکا جیسا کہ آیت مذکورہ بالا میں خود اس کا اقرار موجود ہے بلکہ ایک ضعیفہ عاجزہ کے پیٹ سے تولد پاکر(بقول عیسائیوں) وہ ذلت اور رسوائی اور ناتوانی اور خواری عمر بھی دیکھی کہ جو انسانوں میں سے وہ انسان دیکھتے ہیں کہ جو بدقسمت اور بے نصیب کہلاتے ہیں۔ اور پھر مدت تک ظلمت خانہ رحم میں قید رہ کر اور اس ناپاک راہ سے کہ جو پیشاب کی بد ررو ہے پیدا ہوکر ہریک قسم کی آلودہ حالت کو اپنے اوپر وارد کرلیا اور بشری آلودگیوں اور نقصانوں میں سے کوئی ایسی آلودگی باقی نہ رہی جس سے وہ بیٹا باپ کا بدنام کنندہ ملوث نہ ہو اور پھر اس نے اپنی جہالت اور بے علمی اور بے قدرتی اور نیز اپنے نیک نہ ہونے کا اپنی کتاب میں آپ ہی اقرار کرلیا اور پھر در صورتیکہ وہ عاجز بندہ کہ خواہ نخواہ خدا کا بیٹا قرار دیا گیا بعض بزرگ نبیوں سے فضائل علمی اور عملی میں کم بھی تھا۔ اور اس کی تعلیم بھی ایک ناقص تعلیم تھی کہ جو موسیٰ کی شریعت کی ایک فرع تھی تو پھر کیونکر جائز ہے

نے آپ کو کہاں سے کہاں تک پُہنچایا اور ابھی ٹھہرئیے اسی پر ختم نہیں آپ کے اس اعتقاد سے تو خدا کی ہستی کی بھی خیر نظر نہیں آتی۔ کیونکہ جیسا ہم پہلے لکھ چکے ہیں بڑا بھاری

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 441

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 441

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/441/mode/1up

جو الہام پانے کے لئے ضروری شرط ہے۔ ہریک فرد بنی آدم میں نہیں پائی جاتی۔ اور اگرؔ کسی میں ذاتی قابلیت پائی جائے تو وہ اب بھی بذریعہ الہام اپنے مایحتاج میں خدائے تعالیٰ سے اطلاع پاسکتا ہے اور خدا اس کو ہرگز ضائع

کہ خداوند قادر مطلق اور ازلی اور ابدی پر یہ بہتان باندھا جاوے کہ وہ ہمیشہ اپنی ذات میں کامل اور غنی اور قادر مطلق رہ کر آخرکار ایسے ناقص بیٹے کا محتاج ہوگیا اور اپنے سارے جلال اور بزرگی کو بہ یکبارگی کھو دیا۔ میں ہرگز باور نہیں کرتا کہ کوئی دانا اس ذات کامل کی نسبت کہ جو مستجمع جمیع صفات کاملہ ہے ایسی ایسی ذلتیں جائز رکھے اور ظاہر ہے کہ اگر ابن مریم کے واقعات کو فضول اور بیہودہ تعریفوں سے الگ کرلیا جائے تو انجیلوں سے اس کے واقعی حالات کا یہی خلاصہ نکلتا ہے کہ وہ ایک عاجز اور ضعیف اور ناقص بندہ یعنی جیسے کہ بندے ہوا کرتے ہیں اور حضرت موسیٰ کے ماتحت نبیوں میں سے ایک نبی تھا۔ اور اس بزرگ اور عظیمؔ الشان رسول کا ایک تابع اور پس رو تھا اور خود اس بزرگی کو ہرگز نہیں پہنچا تھا یعنی اس کی تعلیم ایک اعلیٰ تعلیم کی فرع تھی مستقل تعلیم نہ تھی اور وہ خود انجیلوں میں اقرار کرتا ہے کہ میں نہ نیک ہوں اور نہ عالم الغیب ہوں۔ نہ قادر ہوں۔ بلکہ ایک بندہ عاجز ہوں۔ اور انجیل کے بیان سے ظاہر ہے کہ اس نے گرفتار ہونے سے پہلے کئی دفعہ رات کے وقت اپنے بچاؤ کے لئے دعا کی اور چاہتا تھا کہ دعا اس کی قبول ہوجائے مگر اس کی وہ دعا قبول نہ ہوئی اور نیز جیسے عاجز بندے آزمائے جاتے ہیں وہ شیطان سے آزمایا گیا پس اس سے ظاہر ہے کہ وہ ہر طرح عاجز ہی عاجز تھا۔ مخرج معلوم کی راہ سے جو پلیدی اور ناپاکی کا مبرز ہے تولد پاکر

نشان خدا کی ہستی کا یہی ہے کہ جو کچھ اس کی طرف سے ہے وہ ایسی حالت بے نظیری پرؔ واقعہ ہے کہ اس صانع بے مثل پر دلالت کررہا ہے اب جبکہ وہ بے نظیری انجیل میں ثابت نہ ہوئی اور قرآن شریف کو آپ لوگوں نے قبول نہ کیا تو اس صورت میں آپ لوگوں کو

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 442

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 442

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/442/mode/1up

نہیں چھوڑتا۔ خدا کی نظر عمیق ہر یک انسان کی استعداد کے گہراؤ تک پہنچی ہوئی ہے وہ صاحب استعداد کو اپنی استعداد ظاہر کرنے سے کبھی محرومؔ نہیں رکھتا اور ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ ایک شخص خدا کے علم میں استعداد معرفت اور

مدت تک بھوک اور پیاس اور درد اور بیماری کا دکھ اٹھاتا رہا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ وہ بھوک کے دکھ سے ایک انجیر کے نیچے گیا مگر چونکہ انجیر پھلوں سے خالی پڑی ہوئی تھی اس لئے محروم رہا اور یہ بھی نہ ہوسکا کہ دو چار انجیریں اپنے کھانے کے لئے پیدا کرلیتا۔ غرض ایک مدت تک ایسی ایسی آلودگیوں میں رہ کر اور ایسے ایسے دکھ اٹھا کر باقرار عیسائیوں کے مرگیا اور اس جہان سے اٹھایا گیا۔ اب ہم پوچھتے ہیں کہ کیا خداوند قادر مطلق کی ذات میں ایسی ہی صفات ناقصہ ہونی چاہئے۔ کیا وہ اسی سے قدوس اور ذوالجلال کہلاتا ہے کہ وہ ایسے عیبوں اور نقصانوں سے بھرا ہوا ہے اور کیا ممکن ہے کہ ایک ہی ماں یعنی مریم کے پیٹ میں سے پانچ بچے پیدا ہوکر ایک بچہ خدا کا بیٹا بلکہ خدا بن گیا اور چار باقی جو رہے ان بیچاروں کو خدائی سے کچھ بھی حصہ نہ ملا بلکہ قیاس یہ چاہتا تھا کہ جبکہ کسی مخلوق کے پیٹ سے خدا بھی پیدا ہوسکتا ہے یہ نہیں کہ ہمیشہ آدمی سے آدمی اور گدھی سے گدھا پیدا ہو۔ تو جہاں کہیں کسی عورت کے پیٹ سے خدا پیدا ہو تو پھر اس پیٹ سے کوئی مخلوق پیدا نہ ہو بلکہ جس قدر بچے پیدا ہوتے جائیں وہ سب خدا ہی ہوں تا وہ پاک رحم مخلوق کی شرکت سے منزہ رہے اور فقط خداؤں ہی کے پیدا ہونے کی ایک کان ہو۔ پس قیاس متذکرہ بالا کے رو سے لازم تھا کہ حضرت مسیح کے دوسرے بھائی اور بہن بھی کچھ نہ کچھ خدائی میں سے بخرہ پاتے ہیں اور ان پانچوں حضرات کی والدہ تو رب الارباب ہی کہلاتی۔ کیونکہ یہ پانچوں حضرات روحانی اور جسمانی قوتوں میں اسی سے فیض یاب ہیں۔ عیسائیوں نے ابن مریم کی بے جا

یہ ماننا پڑا کہ جو کچھ خدا کی طرف سے ہے اس کا بے نظیر ہونا ضروری نہیں اور اس اعتقاد سے آپ لوگوں کو یہ لازم آیا کہؔ یہ اقرار کریں کہ جو چیزیں خدا کی طرف سے صادر ہیں ان کے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 443

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 443

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/443/mode/1up

ولایت یا نبوت اور رسالت کی رکھتا ہے اور پھر بعض حوادث ارضی کے باعث سے یا جنگلی پیدائش ہونے کی و جہ سے وہ اسی حالت میں مرجائے اور خدا اس کو

تعریفوں میں بہت سا افترا بھی کیا۔ مگر پھر بھیؔ اس کے نقصانوں کو چھپا نہ سکے اور اس کی آلودگیوں کا آپ اقرار کرکے پھر خواہ نخواہ اس کو خدائے تعالیٰ کا بیٹا قرار دیا۔ یوں تو عیسائی اور یہودی اپنی عجیب کتابوں کے رو سے سب خدا کے بیٹے ہی ہیں بلکہ ایک آیت کے رو سے آپ ہی خدا ہیں۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ بدھ مت والے اپنے افترا اور اختراع میں ان سے اچھے رہے کیونکہ انہوں نے بدھ کو خدا ٹھہرا کر پھر ہرگز اس کے لئے یہ تجویز نہیں کیا کہ اس نے پلیدی اور ناپاکی کی راہ سے تولد پایا تھا یا کسی قسم کی نجاست کھائی تھی۔ بلکہ ان کا بدھ کی نسبت یہ اعتقاد ہے کہ وہ مونہہ کے راستہ سے پیدا ہوا تھا پر افسوس عیسائیوں نے بہت سی جعلسازیاں تو کیں مگر یہ جعلسازی نہ سوجھی کہ مسیح کو بھی مونہہ کے راستہ سے ہی پیدا کرتے اور اپنے خدا کو پیشاب اور پلیدی سے بچاتے۔ اور نہ یہ سوجھی کہ موت جو حقیقت الوہیت سے بکلی منافی ہے اس پر وارد نہ کرتے۔ اور نہ یہ خیال آیا کہ جہاں مریم کے بیٹے نے انجیلوں میں اقرار کیا ہے کہ میں نہ نیک ہوں اور نہ دانا مطلق ہوں نہ خودبخود آیا ہوں نہ عالم الغیب ہوں نہ قادر ہوں نہ دعا کی قبولیت میرے ہاتھ میں ہے۔ میں صرف ایک عاجز بندہ اور مسکین آدم زاد ہوں کہ جو ایک مالک رب العالمین کا بھیجا ہوا آیا ہوں۔ ان سب مقاموں کو انجیل سے نکال ڈالنا چاہئے۔ اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ جو عظیم الشان صداقت الحمدللہ کے مضمون میں ہے وہ بجز پاک اور مقدس مذہب اسلام کے کسی دوسرے مذہب میں ہرگز پائی نہیں جاتی لیکن اگر برہمو لوگ کہیں کہ صداقت مذکورہ بالا کے ہم قائل ہیں تو جاننا چاہئے کہ وہ بھی اپنے اس بیان میں جھوٹے ہیں۔ کیونکہ ہم اسی مضمون میں لکھ چکے ہیں کہ برہمو لوگ خدائے تعالیٰ کے لئے گونگا اور

بنانے میں کوئی دوسرا بھی قادر ہے۔ تو اس قول کے بموجب معرفت صانع عالم پر کوئی نشان نہ رہا گویا آپ کے مذہب کا یہ خلاصہ ہوا کہ خدائے تعالیٰ کی ہستی پر کوئی

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 444

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 444

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/444/mode/1up

اُس مرتبہ اقصیٰؔ تک نہ پُہنچاوے جس تک پہنچنے کے لئے اس کو استعداد دی گئی تھی بلکہ جنگلی اور بے زبان اور وحشی اور جاہل وہی رہتا ہے کہ جو اپنی فطرت میں ناقص اور ناکارہ اور چارپایوں کی طرح ہے۔ ماسوا اس کے جبکہ خدا نے

غیر متکلم ہونا اور نطق پر ہرگز قادر نہ ہونا اور اپنے علوم کے القا اور الہام سے عاجز ہونا تجویز کرتے ہیں اور جو حقیقی اور کامل ہادی میں صفات کاملہؔ ہونی چاہئے۔ ان صفات سے اس کو خالی سمجھتے ہیں بلکہ اس قدر ایمان بھی انہیں نصیب نہیں کہ وہ خدائے تعالیٰ کی نسبت یہ اعتقاد رکھیں کہ اپنی ہستی اور الوہیت کو اس نے اپنے ارادے اور اختیار سے دنیا میں ظاہر کیا ہے۔ برخلاف اس کے وہ تو یہ کہتے ہیں کہ خدائے تعالیٰ ایک مردہ یا ایک پتھر کی طرح کسی گوشۂ گمنامی میں پڑا ہوا تھا۔ عقلمندوں نے آپ محنتیں کرکے اس کے وجود کا پتہ لگایا اور اس کی خدائی کو دنیا میں مشہور کیا۔ پس ظاہر ہے کہ وہ بھی مثل اپنے اور بھائیوں کے محامدِ کاملہ حضرتِ احدیت سے منکر ہیں۔ بلکہ جن تعریفوں سے اس کو یاد کرنا چاہئے وہ تمام تعریفیں اپنے نفس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ رب العالمین الرحمن الرحیم ملک یوم الدین۔ اس جگہ سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی چار صفتیں بیان فرمائیں۔ یعنی رب العالمین۔ رحمان۔ رحیم۔ مالک یوم الدین۔ اور ان چہار صفتوں میں سے رب العالمین کو سب سے مقدم رکھا اور پھر بعد اس کے صفت رحمان کو ذکر کیا۔ پھر صفت رحیم کو بیان فرمایا۔ پھر سب کے اخیر صفت مالک یوم الدین کو لائے۔ پس سمجھنا چاہئے کہ یہ ترتیب خدائے تعالیٰ نے کیوں اختیار کی۔ اس میں نکتہ یہ ہے کہ ان صفات اربعہ کی ترتیب طبعی یہی ہے اور اپنی واقعی صورت میں اسی ترتیب سے یہ صفتیں ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ دنیا پر خدا کا

عقلی دلیل قائم نہیں ہوسکتی تو اب آپ ہی انصاف کیجئے کہ کیا آپ کے دہریہ بننے میں کچھ کسر بھی رہ گئی۔ کیا آپؔ لوگوں میں سے ایسی کوئی بھی روح نہیں کہ جو اس باریک دقیقہ کو سمجھے کہ قرآن سے انکار کرنا حقیقت میں رحمان پر حملہ ہے۔ جس کتاب کے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 445

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 445

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/445/mode/1up

کروڑہا انسانوں کو طرح طرح کی بولیاں عطاؔ کرکے دوسرے لوگوں کے لئے عام تعلیم کا دروازہ کھول دیا ہے۔ تو اس صورت میں بجز اس صورت خاص کے کہ جس میں کوئی نشان ظاہر کرنا منظور ہو اور سب صورتوں میں بطور الہام

چار طور پر فیضان پایا جاتا ہے۔ جو غور کرنے سے ہریک عاقل اس کو سمجھ سکتا ہے۔ پہلا فیضان فیضان اعم ہے۔ یہ وہ فیضان مطلق ہے کہ جو بلاتمیز ذی روح و غیر ذی روح افلاک سے لے کر خاک تک تمام چیزوں پر علی الاتصال جاری ہے اور ہریک چیز کا عدم سے صورت وجود پکڑنا اور پھر وجود کا حد کمال تک پہنچنا اسی فیضان کے ذریعہ سے ہے۔ اور کوئی چیز جاندار ہو یا غیر جاندارؔ اس سے باہر نہیں۔ اسی سے وجود تمام ارواح و اجسام ظہور پذیر ہوا اور ہوتا ہے اور ہریک چیز نے پرورش پائی اور پاتی ہے۔ یہی فیضان تمام کائنات کی جان ہے اگر ایک لمحہ منقطع ہوجائے۔ تو تمام عالم نابود ہوجائے۔ اور اگر نہ ہوتا۔ تو مخلوقات میں سے کچھ بھی نہ ہوتا۔ اس کا نام قرآن شریف میں ربوبیت ہے۔ اور اسی کی رو سے خدا کا نام رب العالمین ہے۔ جیسا کہ اس نے دوسری جگہ بھی فرمایا ہے۔ 3 ۱؂ الجزو نمبر ۸۔ یعنی خدا ہریک چیز کا رب ہے۔ اور کوئی چیز عالم کی چیزوں میں سے اس کی ربوبیت میں سے باہر نہیں سو خدا نے سورۃ فاتحہ میں سب صفات فیضانی میں سے پہلے صفت رب العالمین کو بیان فرمایا۔ اور کہا۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ یہ اس لئے کہا کہ سب فیضانی صفتوں میں سے تقدم طبعی صفت ربوبیت کو حاصل ہے یعنی ظہور کے رو سے بھی صفت مقدم الظہور اور تمام صفات فیضانی سے اعم ہے کیونکہ ہریک چیز پر خواہ جاندار ہو خواہ غیرجاندار مشتمل ہے۔ پھر دوسرا قسم فیضان کا جو دوسرے مرتبہ پر واقعہ ہے فیضان عام ہے۔ اس میں

رو سے اس کی صفات کا بے مثل ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اس کے وجود کا پتہ لگتا ہے۔ اس کا منزّہ اور مقدّس ہونا مانا جاتا ہے۔ اس کی وحدانیت پھیلتی ہے اس کی گم گشتہ توحید پھر قائم ہوتی ہےؔ ۔ اسی کتاب سے آپ لوگ مونہہ پھیرتے ہیں۔ بدقسمتی ہے یا نہیں؟

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 446

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 446

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/446/mode/1up

بولی سیکھنے کی کچھ بھی ضرورت نہیں۔ اور خدائے تعالیٰ کہ جو حکیم مطلق ہے۔ بغیر ضرورتؔ کے کوئی کام نہیں کرتا اور عبث اور بے فائدہ طریقوں کو خواہ نخواہ لازم نہیں پکڑتا۔

اور فیضان اعم میں یہ فرق ہے کہ فیضان اعم تو ایک عام ربوبیت ہے جس کے ذریعہ سے کل کائنات کا ظہور اور وجود ہے اور یہ فیضان جس کا نام فیضان عام ہے۔ یہ ایک خاص عنایت ازلیہ ہے جو جانداروں کے حال پر مبذول ہے یعنی ذی روح چیزوں کی طرف حضرت باری کی جو ایک خاص توجہ ہے، اس کا نام فیضان عام ہے۔ اور اس فیضان کی یہ تعریف ہے کہ یہ بلا استحقاق اور بغیر اس کے کہ کسی کا کچھ حق ہو سب ذی روحوں پر حسب حاجت ان کے جاری ہے۔ کسی کے عمل کا پاداش نہیں۔ اور اسی فیضان کی برکت سے ہریک جاندار جیتا، جاگتا، کھاتا، پیتا ؔ اور آفات سے محفوظ اور ضروریات سے متمتع نظر آتا ہے اور ہریک ذی روح کے لئے تمام اسباب زندگی کے جو اس کے لئے یا اس کے نوع کے بقا کے لئے مطلوب ہیں میسر نظر آتے ہیں اور یہ سب آثار اسی فیضان کے ہیں کہ جو کچھ روحوں کو جسمانی تربیت کے لئے درکار ہے۔ سب کچھ دیا گیا ہے۔ اور ایسا ہی جن روحوں کو علاوہ جسمانی تربیت کے روحانی تربیت کی بھی ضرورت ہے یعنی روحانی ترقی کی استعداد رکھتے ہیں۔ ان کے لئے قدیم سے عین ضرورتوں کے وقتوں میں کلام الٰہی نازل ہوتا رہا ہے۔ غرض اسی فیضانِ رحمانیت کے ذریعہ سے انسان اپنی کروڑہا ضروریات پر کامیاب ہے۔ سکونت کے لئے سطحِ زمین۔ روشنی کے لئے چاند اور سورج۔ دم لینے کے لئے ہوا۔ پینے کے لئے پانی۔ کھانے کے لئے انواع اقسام کے رزق۔ اور علاج امراض کے لئے لاکھوں طرح کی ادویہ۔ اور پوشاک کے لئے

صاحبو! اب بے نظیری و حقانیت قرآن شریف بالکل کھل گئی ہے۔ تمہارے چھپانے سے چھپ نہیں سکتی۔ جیسے تم دیکھتے ہو کہ موسم کے آنے سے پھلوں کو نکلنے اور پکنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ ایسا ہی اب صداقت قرآنی کے ظاہر ہونے کا وقتؔ آگیا ہے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 447

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 447

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/447/mode/1up

بعض نادان آریا ایک سنسکرت کو پرمیشر کی بولی ٹھہرا کر دوسری تمام بولیاں جو صدہاؔ عجائب اور غرائب صنع باری سے بھری ہوئی ہیں انسان کا ایجاد قرار دیتے ہیں۔ گویا انسان کے ہاتھ میں بھی ایک قسم کی خدائی ہے کہ پرمیشر نے تو صرف

طرح طرح کی پوشیدنی چیزیں اور ہدایت پانے کے لئےُ صحف ربانی موجود ہیں اور کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ یہ تمام چیزیں میرے عملوں کی برکت سے پیدا ہوگئیں ہیں اور میں نے ہی کسی پہلے جنم میں کوئی نیک عمل کیا تھا جس کی پاداش میں یہ بے شمار نعمتیں خدا نے بنی آدم کو عنایت کیں۔ پس ثابت ہے کہ یہ فیضان جو ہزارہا طور پر ذی روحوں کے آرام کے لئے ظہور پذیر ہورہا ہے یہ عطیہ بلا استحقاق ہے جو کسی عمل کے عوض میں نہیں فقط ربانی رحمت کا ایک جوش ہے تا ہریک جاندار اپنے فطرتی مطلوب کو پہنچ جائے اور جو کچھ اس کی فطرت میں حاجتیں ڈالی گئیں وہ پوری ہوجائیں۔ پس اس فیضان میں عنایت ازلیہ کا کام یہ ہے کہ انسان اور جمیع حیوانات کی ضروریات کا تعہد کرے اور ان کی بائیست اور نابائیست کی خبر رکھے تا وہ ضائع نہ ہوجائیں اور ان کی استعدادیں حَیّزِؔ کتمان میں نہ رہیں اور اس صفت فیضانی کا خدائے تعالیٰ کی ذات میں پایا جانا قانون قدرت کے ملاحظہ سے نہایت بدیہی طور پر ثابت ہورہا ہے کیونکہ کسی عاقل کو اس میں کلام نہیں کہ جو کچھ چاند اور سورج اور زمین اور عناصر وغیرہ ضروریات دنیا میں پائی جاتی ہیں جن پر تمام ذی روحوں کی زندگی کا مدار ہے اسی فیضان کے اثر سے ظہور پذیر ہیں اور ہریک متنفس بلاتمیز انسان و حیوان و مومن و کافرو نیک و بد حسب حاجت اپنے ان فیوض مذکورہ بالا سے مستفیض ہورہا ہے اور کوئی ذی روح اس سے محروم نہیں اور اس فیضان کا نام قرآن شریف میں رحمانیت ہے اور

اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے۔ سو اب تم چاند پر خاک مت ڈالو ایسا نہ ہو کہ وہ الٹ کر تمہاری ہی آنکھوں پر گر پڑے۔

بعض عیسائی انجیل کو بطور نظیر پیش کرنے سے ناامید ہوکر فیضی کی موارد القلم پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہؔ فیضی کی یہ کتاب ساری بے نقط ہے اس لئے وہ بھی اپنی فصاحت بلاغت

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 448

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 448

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/448/mode/1up

ایک بولی ظاہر کی۔ مگر آدمیوں نے وہ قوت دکھلائی کہ بیسیوں بولیاں اس سے بہتر ایجاد کرلیں۔ بھلا ہم آریہ لوگوں سےؔ پوچھتے ہیں کہ اگر یہی سچ ہے کہ سنسکرت ہی پرمیشر کے مونہہ سے نکلی ہے اور دوسری زبانیں انسانوں کی صنعت ہیں

اسی کے رو سے خدا کانام سورۃ فاتحہ میں بعد صفت رب العالمین رحمن آیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الرَّحْمٰن۔ اسی صفت کی طرف قرآن شریف کے کئی ایک اور مقامات میں بھی اشارہ فرمایا گیا ہے۔ چنانچہ منجملہ انکے یہ ہے یعنی جب کافروں اور بے دینوں اور دہریوں کو کہا جاتا ہے کہ تم رحمان کو سجدہ کرو تو وہ رحمان کے نام سے متنفر ہوکر بطور انکار سوال کرتے ہیں کہ رحمان کیا چیز ہے(پھر بطور جواب فرمایا) رحمان وہ ذات کثیر البرکت اور مصدر خیرات دائمی ہے جس نے آسمان میں بُرج بنائے۔ ُ برجوں میں آفتاب اور چاند کو رکھا جو کہ عامہ مخلوقات کو بغیر تفریق کافر و مومن کے روشنیؔ پہنچاتے ہیں۔ اسی رحمان نے تمہارے لئے یعنی تمام بنی آدم کے لئے دن اور رات بنائی جوکہ ایک دوسرے کے بعد دورہ کرتے رہتے ہیں تا جو شخص طالب معرفت ہو وہ ان دقائق حکمت سے فائدہ اٹھاوے اور جہل اور غفلت کے پردہ سے خلاصی پاوے اور جو شخص شکر نعمت کرنے پر

میں قرآن کی طرح بلکہ اس سے بہتر ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ نادانوں کو اتنی بھی سمجھ نہیں کہ یہ بیہودہ حرکت حقیقی فصاحت بلاغت کے دائرہ سے خارج ہے اور ایسا کام نہیں ہے جس کے التزام سے کوئی کتاب بےؔ نظیر اور بے مثل بن جائے بلکہ بے نقط عبارتوں کا لکھنا نہایت درجہ سہل اور آسان ہے اور کوئی ایسی صنعت نہیں ہے جس کا انجام دینا انسان پر سخت اور

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 449

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 449

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/449/mode/1up

اور پرمیشر کے مونہہ سے دور رہی ہوئی ہیں۔ تو ذرا ابتلاؤ تو سہی کہ وہ کون سے کمالاتِ خاصہ ہیں، جو سنسکرت میں پائے جاتے ہیں۔ اور دوسری زبانیں انؔ سے عاری ہیں۔

مستعد ہو۔ وہ شکر کرے۔ رحمان کے حقیقی پرستار وہ لوگ ہیں کہ جو زمین پر بردباری سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے سخت کلامی سے پیش آئیں تو سلامتی اور رحمت کے لفظوں سے ان کا معاوضہ کرتے ہیں یعنی بجائے سختی کے نرمی اور بجائے گالی کے دعا دیتے ہیں۔ اور تشبہ باخلاق رحمانی کرتے ہیں کیونکہ رحمان بھی بغیر تفریق نیک و بد کے اپنے سب بندوں کو سورج اور چاند اور زمین اور دوسری بے شمار نعمتوں سے فائدہ پہنچاتا ہے۔ پس ان آیات میں خدائے تعالیٰ نے اچھی طرح کھول دیا کہ رحمان کا لفظ ان معنوں کرکے خدا پر بولا جاتا ہے کہ اس کی رحمت وسیع عام طور پر ہریک ُ برے بھلے پر محیط ہورہی ہے۔ جیسا ایک جگہ اور بھی اسی رحمت عام کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔3 3 ۱؂ یعنی میں اپنا عذاب جس کو لائق اس کے دیکھتا ہوں پہنچاتا ہوں اور میری رحمت نے ہریک چیز کو گھیر رکھا ہے۔ اور پھر ایک اور موقعہ پر فرمایا 33۔ ۲؂ یعنی ان کافروں اور نافرمانوں کو کہہ کہ اگر خدا میں صفت رحمانیت کی نہ ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ تم اس کے عذاب سے محفوظ رہ سکتے یعنی اسی کی رحمانیت کا اثر ہے کہ وہ کافروں اور بے ایمانوں کو مہلت دیتا ہے اور جلد تر نہیں پکڑتا۔ پھر ایک اور جگہ اسی رحمانیت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔33 ۔ الجزو نمبر ۲۹ ۳؂ یعنی کیا ان لوگوں نے اپنے سروں پر پرندوں کو اڑتے ہوئے نہیں دیکھا کہ کبھی وہ بازو کھلے ہوئے ہوتے ہیں اور کبھی سمیٹ لیتے ہیں رحمن ہی ہے کہ

مشکل ہو۔ اسی وجہ سے بہت سے منشیوں نے اپنی عربی اور فارسی کے املاء میں اس قسم کی بے نقطہ عبارتیں لکھی ہیں اور اب بھی لکھتے ہیں۔ بلکہ بعض منشیوں کی ایسی عبارتیںؔ بھی موجود ہیں جن کے تمام حروف نقطہ دار ہیں اور کوئی بے نقط حرف ان میں داخل نہیں لیکن

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 450

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 450

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/450/mode/1up

کیونکر پرمیشر کی کلام کو انسان کے مصنوع پر ضرور فضیلت ہونی چاہئے۔ کیونکہ وہ اُسی سے خدا کہلاتا ہے کہ اپنی ذات میں، اپنی صفات میں، اپنے کاموں میں سب سے افضل اور بے مثل و مانند ہے۔ اگر ہم یہ فرض کرلیں کہ سنسکرت پرمیشر کاؔ کلام ہے جو

ان کو گرنے سے تھام رکھتا ہے یعنی فیضان رحمانیت ایسا تمام ذی روحوں پر محیط ہورہا ہے کہ پرندے بھی جو ایک پیسہ کے دو تین مل سکتے ہیں وہ بھی اس فیضان کے وسیع دریا میں خوشی اور سرور سے تیر رہے ہیں۔ اور چونکہ ربوبیت کے بعد اسی فیضان کا مرتبہ ہے۔ اس جہت سے اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں رب العالمین کی صفت بیان فرما کر پھر اس کے رحمان ہونے کی صفت بیان فرمائی تا ترتیب طبعی ان کی ملحفوظ رہے۔ تیسری قسم فیضان کی فیضان خاص ہے اس میں اور فیضان عام میں یہ فرق ہے کہ فیضان عام میں مستفیض پر لازم نہیں کہ حصول فیض کے لئے اپنی حالت کو نیک بناوے اور اپنے نفس کو حجب ظلمانیہ سے باہر نکالے یا کسی قسم کا مجاہدہ اور کوشش کرے بلکہ اس فیضان میں جیسا کہ ہم ابھی بیان کرچکے ہیں خدائے تعالیٰ آپ ہی ہریک ذی روح کو اس کی ضروریات جن کا وہ حسب فطرت محتاج ہے عنایت فرماتا ہے اور بن مانگے اور بغیر کسی کوشش کے مہیا کردیتا ہے۔ لیکن فیضان خاص میں جہد اور کوشش اور تزکیہ قلب اور دعا اور تضرع اور توجہ الی اللہ اور دوسرا ہر طرح کا مجاہدہ جیسا کہ موقع ہو شرط ہے اور اس فیضان کو وہی پاتا ہے جو ڈھونڈتا ہے اور اسی پر وارد ہوتا ہے جو اس کے لئے محنت کرتا ہے اور اس فیضان کا وجود بھی ملاحظہ قانون قدرت سے ثابت ہے کیونکہ یہ بات نہایت بدیہی ہے کہ خدا کی راہ میں سعی کرنے والے اور غافل رہنے والے دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ بلاشبہ جو لوگ دل کی سچائی سے خدا کی راہ میں کوشش کرتے ہیں اورؔ ہریک تاریکی اور فساد سے کنارہ کش

قرآن شریف کی فصاحت بلاغت جن لوازم اور خصائص سے مخصوص ہے وہ ایک ایسا امر ہے جس کو دانشمند انسان سوچتے ہی بہ یقین دل سمجھ سکتا ہے کہ وہ پاک کلام انسانی طاقتوں کے احاطہ سے خارج ہے کیونکہؔ جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں۔ قرآن شریف نے اپنی فصاحت

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 451

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 451

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/451/mode/1up

ہندوؤں کے باپ دادوں پر نازل ہوا ہے۔ اور دوسری زبانیں دوسرے لوگوں کے باپ دادوں نے بو جہ اس کے کہ وہ ہندوؤں کے باپ دادوں سے زیادہ زیرک اور دانا تھے، آپ بنالی ہیں۔ مگر کیا ہم یہ بھی فرض کرسکتے ہیں کہ وہ لوگ ہندوؤں

ہوجاتے ہیں ایک خاص رحمت ان کے شامل حال ہوجاتی ہے۔ اس فیضان کے رو سے خدائے تعالیٰ کا نام قرآن شریف میں رحیم ہے اور یہ مرتبہ صفت رحیمیت کا بوجہ خاص ہونے اور مشروط بہ شرائط ہونے کے مرتبہ صفت رحمانیت سے موخر ہے کیونکہ خدائے تعالیٰ کی طرف سے اول صفت رحمانیت ظہور میں آئی ہے۔ پھر بعد اس کے صفت رحیمیت ظہور پذیر ہوئی پس اسی ترتیب طبعی کے لحاظ سے سورۃ فاتحہ میں صفت رحیمیت کو صفت رحمانیت کے بعد میں ذکر فرمایا اور کہا الرحمن الرحیم اور صفت رحیمیت کے بیان میں کئی مقامات پر قرآن شریف میں ذکر موجود ہے۔ جیسا ایک جگہ فرمایا ہے 3۔ ۱؂ یعنی خدا کی رحیمیت صرف ایمانداروں سے خاص ہے جس سے کافر کو یعنی بے ایمان اورر سرکش کو حصہ نہیں۔

اس جگہ دیکھنا چاہئے کہ خدا نے کیسی صفت رحیمیت کو مومن کے ساتھ خاص کردیا لیکن رحمانیت کو کسی جگہ مومنین کے ساتھ خاص نہیں کیا اور کسی جگہ یہ نہیں فرمایا کہ کان بالمؤمنین رحمانًا بلکہ جو مومنین سے رحمت خلق متعلق ہے ہر جگہ اس کو رحیمیت کی صفت سے ذکر کیا ہے۔ پھر دوسری جگہ فرمایا ہے۔ 3۔ ۲؂ یعنی رحیمیت الٰہی انہیں لوگوں سے قریب ہے جو نیکو کار ہیں پھر ایک اور جگہ فرمایا ہے۔33۔ ۳؂ یعنی جو لوگ ایمان لائے اور

اور بلاغت کو حریری اور فیضی وغیرہ انشاء پردازوں کی طرح فضول بیان کے پیرایہ میں ادا نہیں کیا اور نہ کسی قسم کے لغو اور ہزل یا کذب کو اس پاک کلام میں دخل ہے بلکہ فرقان مجید نے اپنی فصاحت اور بلاغت کو صداقت اور حکمت اور ضرورت حقہ کے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 452

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 452

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/452/mode/1up

کےؔ پرمیشر سے بھی کچھ بڑھ کر تھے جن کی قدرت کاملہ نے صدہا عمدہ زبانیں بناکر دکھلادیں اور پرمیشر صرف ایک ہی بولی بناکر رہ گیا۔ جن لوگوں کی تار وپود میں شرک گھسا ہوا ہے انہوں نے اپنے پرمیشر کو بہت سی باتوں میں ایک برابر درجہ کا شخص

خدا کے لئے وطنوں سے یا نفس پرستیوں سے جدائی اختیار کی اور خدا کی راہ میں کوشش کی، وہ خدا کی رحیمیت کے امیدوار ہیں اور خدا غفور اور رحیم ہے یعنی اس کا فیضان رحیمیت ضرور ان لوگوں کے شامل حال ہوجاتا ہے کہؔ جو اس کے مستحق ہیں۔ کوئی ایسا نہیں جس نے اس کو طلب کیا اور نہ پایا۔

عاشق کہ شد کہ یار بحالش نظر نہ کرد

اے خواجہ درد نیست وگرنہ طبیب ہست

چوتھا قسم فیضان کا فیضان اخص ہے۔ یہ وہ فیضان ہے کہ جو صرف محنت اور سعی پر مترتب نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے ظہور اور بروز کے لئے اول شرط یہ ہے کہ یہ عالم اسباب کہ جو ایک تنگ و تاریک جگہ ہے۔ بکلی معدوم اور منعدم ہوجائے اور قدرت کاملہ حضرت احدیت کے بغیر آمیزش اسباب معتادہ کے برہنہ طور پر اپنا کامل چمکارا دکھلاوے کیونکہ اس آخری فیضان میں کہ جو تمام فیوض کا خاتمہ ہے جو کچھ پہلے فیضانوں کی نسبت عندالعقل زیادتی اور کمالیت متصور ہوسکتی ہے وہ یہی ہے کہ یہ فیضان نہایت منکشف اور صاف طور پر ہو اور کوئی اشتباہ اور خفا اور نقص باقی نہ رہے۔ یعنی نہ مفیض کے بالارادہ فیضان میں کوئی شبہ رہ جائے۔ اور نہ فیضان کے حقیقی فیضان اور رحمت خالصہ اور کاملہ ہونے میں کچھ جائے کلام ہو بلکہ جس مالک قدیم کی طرف سے فیض ہوا ہے اس کی فیاضی اور جزا دہی روز روشن کی طرح کھل جائے اور شخص فیض یاب کو بطور حق الیقین یہ امر مشہود اور محسوس ہو کہ حقیقت میں وہ مالک المک ہی اپنے ارادہ اور توجہ اور قدرت خاص سے ایک نعمت عظمیٰ اور لذت کبریٰ اس کو عطا کررہا ہے اور حقیقت میں اس کو اپنے اعمال صالحہ کی

التزامؔ سے ادا کیا ہے اور کمال ایجاز سے تمام دینی صداقتوں پر احاطہ کرکے دکھایا ہے۔ چنانچہ اس میں ہریک مخالف اور منکر کے ساکت کرنے کے لئے براہین ساطعہ بھری پڑی ہیں۔ اور مومنین کی تکمیل یقین کے لئے ہزارہا دقائق حقائق کا ایک دریائے عمیق و

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 453

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 453

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/453/mode/1up

سمجھ رکھا ہے۔ کیوںؔ نہ ہو۔ انادی جو ہوئے۔ خدا کے شریک جو ٹھہرے۔ اور اگر کسی کے دل میں یہ وہم پیدا ہو کہ خدا نے ایک بولی پر کفایت کیوں نہ کی۔ یہ وہم بھی قلت تدبر سے ناشی ہے۔ اگر کوئی دانا اقالیم مختلفہ کے اوضاع متفاوتہ اور طبائع متفرقہ پر نظر

ایک کامل اور دائمی جزا کہ جو نہایت اصفیٰ اور نہایت اعلیٰ اور نہایت مرغوب اور نہایت محبوب ہے مل رہی ہے۔ کسی قسم کا امتحان اور ابتلا نہیں ہے۔ اور ایسے فیضان اکمل اور اتم اور ا بقٰی اور اعلیٰ اور اجلیٰ سے متمتع ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ بندہ اس عالم ناقص اور مکدر اور کثیف اور تنگ اور منقبض اور ناپائیدار مشتبہ الحال سے دوسرے عالم کی طرف انتقال کرےؔ ۔ کیونکہ یہ فیضان تجلیات عظمیٰ کا مظہر ہے جن میں شرط ہے کہ محسن حقیقی کا جمال بطور عریاں اور بمرتبہ حق الیقین مشہود ہو۔ اور کوئی مرتبہ شہود اور ظہور اور یقین کا باقی نہ رہ جائے۔ اور کوئی پردہ اسباب معتادہ کا درمیان نہ ہو۔ اور ہریک دقیقہ معرفت تامہ کا مکمن قوت سے حیّز فعل میں آجائے۔ اور نیز فیضان بھی ایسا منکشف اور معلوم الحقیقت ہو کہ اس کی نسبت آپ خدا نے یہ ظاہر کردیا ہو کہ وہ ہریک امتحان اور ابتلاء کی کدورت سے پاک ہے اور نیز اس فیضان میں وہ اعلیٰ اور اکمل درجہ کی لذتیں ہوں جن کی پاک اور کامل کیفیت انسان کے دل اور روح اور ظاہر اور باطن اور جسم اور جان اور ہریک روحانی اور بدنی قوت پر ایسا اکمل اور ا بقٰی احاطہ رکھتی ہو کہ جس پر عقلاً اور خیالاً اور وہماً زیادت متصور نہ ہو۔ اور یہ عالم کہ جو ناقص الحقیقت اور مکدّر الصورت اور ہالکۃ الذات اور مشتبہ الکیفیت اور ضیق الظرف ہے۔ ان تجلیات عظمیٰ اور انوار اصفیٰ اور عطیّات دائمی کی برداشت نہیں کرسکتا۔ اور وہ اشعہ تامہ کاملہ دائمہ اس میں سما نہیں سکتے بلکہ اس کے ظہور کے لئے ایک دوسرا عالم درکار ہے کہ جو اسباب معتادہ کی ظلمت سے بکلی پاک اور منزہ اور ذات واحد قہار کی

شفاف اس میں بہتا ہوا نظر آرہا ہے۔ جن امور میں فساد دیکھاؔ ہے انہیں کی اصلاح کے لئے زور مارا ہے۔ جس شدت سے کسی افراط یا تفریط کا غلبہ پایا ہے اسی شدت سے اس کی مدافعت بھی کی ہے۔ جن انواع اقسام کی بیماریاں پھیلی ہوئی دیکھی ہیں ان سب کا

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 454

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 454

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/454/mode/1up

کرے۔ توبہ یقینِ کامل اس کو معلوم ہوگا کہ ایک ہی بولی ان سب کے مناسب حال نہیں تھی۔ بعض ملکوں کے لوگ بعض طور کے حروفؔ اور الفاظ کے بولنے پر بہ آسانی قادر ہیں۔ اور بعض ملکوں کے لوگوں کو ان حروف اور الفاظ کا بولنا ایک مصیبت ہے

اقتدار کامل اور خالص کا مظہر ہے۔ ہاں اس فیضان اخص سے ان کامل انسانوں کو اسی زندگی میں کچھ حظ پہنچتا ہے کہ جو سچائی کی راہ پر کامل طور پر قدم مارتے ہیں اور اپنے نفس کے ارادوں اور خواہشوں سے الگ ہوکر بکلی خدا کی طرف جھک جاتے ہیں کیونکہ وہ مرنے سے پہلے مرتے ہیں اور اگرچہ بظاہر صورت اس عالم میں ہیں لیکن درحقیقت وہ دوسرے عالم میں سکونت رکھتے ہیں۔ پس چونکہ وہ اپنے دل کو اس دنیا کے اسباب سے منقطع کرلیتے ہیں اور عادات بشریتؔ کو توڑ کر اور بیکبارگی غیر اللہ سے مونہہ پھیر کر وہ طریق جو خارق عادت ہے اختیار کرلیتے ہیں اس لئے خداوند کریم بھی ان کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرتا ہے اور بطور خارق عادت ان پر اپنے وہ انوار خاصہ ظاہر کرتا ہے کہ جو دوسروں پر بجز موت کے ظاہر نہیں ہوسکتے۔ غرض بباعث امور متذکرہ بالا وہ اس عالم میں بھی فیضان اخص کےُ نور سے کچھ حصہ پالیتے ہیں اور یہ فیضان ہریک فیض سے خاص تر اور خاتمہ تمام فیضانوں کا ہے۔ اور اس کو پانے والا سعادت عظمیٰ کو پہنچ جاتا ہے اور خوشحالی دائمی کو پالیتا ہے جو تمام خوشیوں کا سرچشمہ ہے۔ اور جو شخص اس سے محروم رہا وہ ہمیشہ کے دوزخ میں پڑا۔ اس فیضان کے رو سے خدائے تعالیٰ نے قرآن شریف میں اپنا نام مالک یوم الدین بیان فرمایا ہے۔ دین کے لفظ پر الف لام لانے سے یہ غرض ہے کہ تا یہ معنے ظاہر ہوں کہ جزا سے مراد وہ کامل جزا ہے جس کی تفصیل فرقان مجید میں مندرج ہے۔ اور وہ کامل جزا بجز تجلی مالکیت تامہ کے کہ جو ہدم بنیان اسباب کو مستلزم ہے

علاج لکھا ہے۔ مذاہب باطلہ کے ہر ایک وہم کو مٹایا ہے۔ ہر ایک اعتراض کا جواب دیا ہے۔ کوئی صداقت نہیں ؔ جس کو بیان نہیں کیا۔ کوئی فرقہ ضالہ نہیں جس کا رد نہیں لکھا۔ اور پھر کمال یہ کہ کوئی کلمہ نہیں کہ بلا ضرورت لکھا ہو۔ اور کوئی بات نہیں کہ بے موقع بیان کی ہو۔

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 455

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 455

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/455/mode/1up

پس کیونکر ممکن تھا کہ حکیم مطلق صرف ایک ہی بولی سے پیار کرکے قاعدہ وضع الشیء فی موضعہ کی رعایت نہ کرتا اور طبائع مختلفہ کے لئے جو مصلحت عامہ تھی، اس کو ترک کردیتا۔ کیا مناسب تھا کہ وہ جُدا جُدا طبیعتوں کے لوگوں کو ایک ہیؔ بولی کے تنگ پنجرہ میں قید کردیتا۔ علاوہ اس کے انواع و اقسام کی بولیوں کے بنانے میں

ظہور میں نہیں آسکتی۔ چنانچہ اسی کی طرف دوسری جگہ بھی اشارہ فرما کر کہا ہے

یعنی اس دن ربوبیت الٰہیہ بغیر توسط اسباب عادیہ کے اپنی تجلی آپ دکھائے گی۔ اور یہی مشہود اور محسوس ہوگا کہ بجز قوت عظمیٰ اور قدرت کاملہ حضرت باری تعالیٰ کے اور سب ہیچ ہیں۔ تب سارا آرام و سرور اور سب جزا اور پاداش بنظر صاف و صریح خدا ہی کی طرف سے دکھلائی دے گا اور کوئی پردہ اور حجاب درمیان نہیں رہے گا اور کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں رہے گی تب جنہوں نے اس کے لئے اپنے تئیں منقطع کرلیا تھا وہ اپنے تئیں ایک کامل سعادت میں دیکھیں گے کہ جو ان کے جسم اور جان اور ظاہر اور باطن پر محیط ہوجائے گی اور کوئی حصہ وجود ان کے کا ایسا نہیں ہوگا کہ جو اس سعادت عظمیٰ کے پانے سے بے نصیب رہا ہو۔ اور اس جگہ مالک یوم الدین کے لفظ میں یہ بھی اشارہ ہے کہ اس روز راحت یا عذاب اورؔ لذت یا درد جو کچھ بنی آدم کو پہنچے گا اس کا اصل موجب خدائے تعالیٰ کی ذات ہوگی اور مالک امر مجازات کا حقیقی طور پر وہی ہوگا یعنی اس کا وصل یا فصل سعادت ابدی یا شقاوت ابدی کا موجب ٹھہرے گا۔ اس طرح پر کہ جو لوگ اس کی ذات پر ایمان لائے تھے اور توحید اختیار کی تھی۔ اور اس کی خالص محبت سے اپنے دلوں کو رنگین کرلیا تھا ان پر انوار رحمت اس

اور کوئی لفظ نہیں کہ لغو طور پر تحریر پایا ہو۔ اور پھر باوصف التزام ان سب امور کے فصاحت کا وہ مرتبہ کامل دکھلایا جس سے زیادہ تر متصور نہیں۔ اور بلاغت کو اس کمال تکؔ پہنچایا کہ کمال حسن ترتیب اور موجز اور مدلل بیان سے علم اولین اور آخرین ایک

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 456

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 456

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/456/mode/1up

خداوند تعالیٰ کی زیادتِ قدرت ثابت ہوتی ہے۔ اور عاجز بندوں کا مختلف زبانوں میں اس کی تعریف کرنا عبودیت کے بازار کی ایک رونق ہے۔

تمہید چہارم:۔ خداوند تعالیٰ کے تمام مصنوعات پر نظر کرنے سے یہ

ذات کامل کے صاف اور آشکارا طور پر نازل ہوں گے۔ اور جن کو ایمان اور محبت الٰہیہ حاصل نہیں ہوئی وہ اس لذت اور راحت سے محروم رہیں گے اور عذاب الیم میں مبتلا ہوجائیں گے یہ فیوض اربعہ ہیں جن کو ہم نے تفصیل وار لکھ دیا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ صفت رحمان کو صفت رحیم پر مقدم رکھنا نہایت ضروری اور مقتضائے بلاغت کاملہ ہے کیونکہ صحیف ۂ قدرت پر جب نظر ڈالی جائے تو پہلے پہل خدائے تعالیٰ کی عام ربوبیت پر نظر پڑتی ہے۔ پھر اس کی رحمانیت پر۔ پھر اس کی رحیمیت پر۔ پھر اس کے مالک یوم الدین ہونے پر اور کمال بلاغت اسی کا نام ہے کہ جو صحیفہ فطرت میں ترتیب ہو وہی ترتیب صحیفۂ الہام میں بھی ملحوظ رہے۔ کیونکہ کلام میں ترتیب قدرتی کا منقلب کرنا گویا قانون قدرت کو منقلب کرنا ہے اور نظام طبعی کو الٹا دینا ہی کلام بلیغ کے لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ نظام کلام کا نظام طبعی کے ایسا مطابق ہو کہ گویا اسی کی عکسی تصویر ہو۔ اور جو امر طبعاً اور وقوعاً مقدم ہو اس کو وضعاً بھی مقدم رکھا جائے۔ سو آیت موصوفہ میں یہ اعلیٰ درجہ کی بلاغت ہے کہ باوجود کمال فصاحت اور خوش بیانی کے واقعی ترتیب کا نقشہ کھینچ کر دکھلا دیا ہے اور وہی طرز بیان اختیار کی ہے جو کہ ہریک صاحب نظر کو نظام عالم میں بدیہی طور پر نظر آرہی ہے۔ کیا یہ نہایت سیدھا راستہ نہیں ہے کہ جس ترتیب سے نعماء الٰہی صحیفہ فطرت میںؔ واقعہ ہیں اسی ترتیب سے صحیفۂ الہام میں بھی واقعہ ہوں۔ سو ایسی عمدہ اور ُ پرحکمت ترتیب پر اعتراض کرنا حقیقت

ایک چھوٹی سی کتاب میں بھردیا تاکہ انسان جس کی عمر تھوڑی اور کام بہت ہیں بے شمار درد سر سے چھوٹ جائے۔ اور تا اسلام کو اس بلاغت سے اشاعت مسائل میں مدد پہنچے۔ اور حفظ کرنا اور یاد رکھنا آسان ہو۔ اب بمقابلہ اس فصاحت و بلاغت کے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 457

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 457

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/457/mode/1up

اصول ثابت ہوتاؔ ہے کہ جو عجائب اور غرائب اس نے اپنے مصنوعات میں رکھے ہیں وہ دو قسم کے ہیں۔ ایک تو عام فہم ہیں۔ مثلاً سارے لوگ جانتے ہیں کہ انسان کی دو آنکھ اور دو کان ایک ناک اور دو پاؤں وغیرہ اعضاء ہیں۔ یہ تو وہ امور ہیں کہ جو نظر سرسری سے معلوم ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ امور ہیں جن میں دقتِ نظر

میں انہیں اندھوں کا کام ہے جن کی بصیرت اور بصارت دونوں یکبارگی جاتی رہی ہیں۔

چشم بد اندیش کہ برکندہ باد

عیب نماید ہنرش در نظر

اب ہم پھر تقریر کو دوہرا کر اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ جو کچھ خدائے تعالیٰ نے سورۃ ممدوحہ میں رب العالمین کی صفت سے لے کر مالک یوم الدین تک بیان فرمایا ہے یہ حسب تصریحاتِ قرآن شریف چار عالیشان صداقتیں ہیں جن کا اس جگہ کھول کر بیان کرنا قرین مصلحت ہے۔ پہلی صداقت یہ کہ خدائے تعالیٰ رب العالمین ہے یعنی عالم کے اشیا میں سے جو کچھ موجود ہے سب کا رب اور مالک خدا ہے۔ اور جو کچھ عالم میں نمودار ہوچکا ہے اور دیکھا جاتا ہے یا ٹٹولا جاتا ہے یا عقل اس پر محیط ہوسکتی ہے وہ سب چیزیں مخلوق ہی ہیں اور ہستی حقیقی بجز ایک ذات حضرت باری تعالیٰ کے اور کسی چیز کے لئے حاصل نہیں۔ غرض عال بجمیع اجزا ۂٖمخلوق اور خدا کی پیدائش ہے اور کوئی چیز اجزائے عالم میں سے ایسی نہیں کہ جو خدا کی پیدائش نہ ہو۔ اور خدائے تعالیٰ اپنی ربوبیت تامہ کے ساتھ عالم کے ذرہ ذرہ پر متصرف اور حکمران ہے اور اس کی ربوبیت ہر وقت کام میں لگی ہوئی ہے۔ یہ نہیں کہ خدائے تعالیٰ دنیا کو بناکر اس کے انتظام سے الگ ہو بیٹھا ہے اور اسے نیچر کے قاعدہ کے ایسا سپرد کیا ہے کہ خود کسی کام میں دخل بھی نہیں دیتا۔ اور جیسے کوئیَ کل بعد بنائے جانے کے پھر بنانے والے سے بے علاقہ ہوجاتی

نساؔ نوں کی کتابوں کو دیکھنا چاہیے کہ کیونکر وہ جھوٹ اور ہزل اور بیہودگی سے بھری ہوئی ہیں اور کیونکر غیر ضروری اور فضول طور پر ان کی عبارتیں لکھی گئی ہیں۔ اور ان کو ہرگز میسر نہیں آیا کہ الفاظ کو معانی مقصودہ کے تابع کریں بلکہ ان کے معانی الفاظ کے پیچھے بہکتے پھرتے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 458

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 458

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/458/mode/1up

درکار ہے۔ مثلاً آنکھ کی وہ ترکیب جس کے ذریعہؔ سے دونوں آنکھیں شے واحد کی طرح بالاتفاق کام کرتی ہیں اور ہریک چھوٹی بڑی چیز کو دیکھ سکتے ہیں۔ یا کانوں کی بناوٹ کی وہ طرز جس سے وہ مختلف آوازوں کو بہ حیثیت اختلاف سن سکتے ہیں۔ یہ وہ امور ہیں جو سرسری نظر سے دریافت نہیں ہوسکتے۔ بلکہ جو لوگ ماہر فن طبعی و طبابت

ہے۔ ایسا ہی مصنوعات صانع حقیقی سے بے علاقہ ہیں۔ بلکہ وہ رب العالمین اپنی ربوبیت تامہ کی آب پاشی ہر وقت برابر تمام عالم پر کررہا ہے۔ اور اس کی ربوبیت کا مینہ بالاتصالؔ تمام عالم پر نازل ہورہا ہے۔ اور کوئی ایسا وقت نہیں کہ اس کے رشح فیض سے خالی ہو بلکہ عالم کے بنانے کے بعد بھی اس مبدء فیوض کی فی الحقیقت بلا ایک ذرا تفاوت کے ایسی ہی حاجت ہے کہ گویا ابھی تک اس نے کچھ بھی نہیں بنایا اور جیسا دنیا اپنے وجود اور نمود کے لئے اس کی ربوبیت کی محتاج تھی ایسا ہی اپنے بقا اور قیام کے لئے اس کی ربوبیت کی حاجتمند ہے۔ وہی ہے جو ہر دم دنیا کو سنبھالے ہوئی ہے اور دنیا کا ہر ذرہ اسی سے تروتازہ ہے اور وہ اپنی مرضی اور ارادہ کے موافق ہرچیز کی ربوبیت کررہا ہے۔ یہ نہیں کہ بلا ارادہ کسی شے کے ربوبیت کا موجب ہو۔ غرض آیات قرآنی کی رو سے جن کا خلاصہ ہم بیان کررہے ہیں اس صداقت کا یہ منشا ہے کہ ہریک چیز کہ جو عالم میں پائی جاتی ہے وہ مخلوق ہے۔ اور اپنے تمام کمالات اور اپنے تمام حالات اور اپنے تمام اوقات میں خدائے تعالیٰ کی ربوبیت کی محتاج ہے۔ اور کوئی روحانی یا جسمانی ایسا کمال نہیں ہے جس کو کوئی مخلوق خودبخود اور بغیر ارادہ خاص اس متصرف مطلق کے حاصل کرسکتا ہو۔ اور نیز حسب توضیح اسی کلام پاک کے اس صداقت اور ایسا ہی دوسری

ہیں۔ اور رعایت حق اور حکمت اور ضرورت وؔ مصلحت سے بکلّی عاری اور خالی ہیں۔ اور جب انہوں نے صداقت اور ضرورت حقہ کے التزام کو چھوڑ دیا۔ اور ہر ہر لفظ میں جھوٹ بولنا یا بیہودہ گوئی اختیار کرنا یا لغو اور غیر ضروری طور پر الفاظ کو مونہہ سے نکالنا

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 459

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 459

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/459/mode/1up

ہیں۔ انہوں نے زمانہ دراز تک تدبّر اور تفکّر کرکے ان صداقتوںؔ کو دریافت کیا ہے۔ اور ابھی صدہا دقائق اور حقائق ترکیب انسان کے ایسے بھی مخفی ہیں جن پر کسی حکیم کا ذہن آج تک محیط نہیں ہوا۔ اورکچھ شک نہیں کہ ان دقائق اور حقائق سے اعلیٰ غرض یہ ہے کہ انسان اُس حکیم علی الاطلاق کی قدرت کاملہ کا اعتراف کرے

صداقتوں میں یہ معنے بھی ملحوظ ہیں کہ رب العالمین وغیرہ صفتیں جو خدائے تعالیٰ میں پائی جاتی ہیں یہ اسی کی ذات واحد لاشریک سے خاص ہیں اور کوئی دوسرا ان میں شریک نہیں۔ جیسا کہ اس سورۃ کے پہلے فقرہ میں یعنی الحمدللہ میں یہ بیان ہوچکا ہے کہ تمام محامد خدا ہی سے خاص ہیں۔ دوسری صداقت رحمن ہے کہ جو بعد رب العالمین بیان فرمایا گیا۔ اور رحمن کے معنے جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں یہ ہیں کہ جس قدر جاندار ہیں خواہ ذی شعور اور خواہ غیر ذی شعور اور خواہ نیک اور خواہ بد۔ ان ؔ سب کے قیام اور بقاء وجود اور بقائے نوع کے لئے اور ان کی تکمیل کے لئے خدائے تعالیٰ نے اپنی رحمت عامہ کے رو سے ہریک قسم کے اسباب مطلوبہ میسر کردیئے ہیں اور ہمیشہ میسر کرتا رہتا ہے اور یہ عطیہ محض ہے کہ جو کسی عامل کے عمل پر موقوف نہیں تیسری صداقت رحیم ہے کہ جو بعد رحمن کے مذکور ہے۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ خدائے تعالیٰ سعی کرنے والوں کی سعی پر بمقتضائے رحمت خاصہ ثمرات حسنہ مترتب کرتا ہے۔ توبہ کرنے والوں کے گناہ بخشتا ہے۔ مانگنے والوں کو دیتا ہے۔ کھٹکھٹانے والوں کے لئے کھولتا ہے۔ چوتھی صداقت جو سورۃ فاتحہ میں مندرج ہے۔ مالک یوم الدینہے یعنی باکمال و کامل جزا سزا کہ جو ہریک قسم کے امتحان و ابتلا اور توسط اسباب غفلت افترا سے منزہ ہے۔ اور ہریک کدورت اور کثافت اور شک اور شبہ اور نقصان سے پاک ہے۔ اور تجلیات عظمیٰ کا مظہر

اختیار کرلیا۔ تو پھر ان کو قرآن شریف کی بلاغت سے کیا نسبت۔ اور اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے۔ کہ چونکہ قرآنی فصاحت بلاغتؔ فضول طریقوں سے بکلّی پاک اور منزہ ہے۔ پس اس صورت میں حکیم مطلق کی شان مقدس سے بالکل دور تھا کہ وہ فضول گو شاعروں

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 460

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 460

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/460/mode/1up

جس نے اس کی پیدائش میں ایسے عجائب غرائب کام کئے ہیں۔ لیکن اس جگہ کوئی بےؔ سمجھ آدمی یہ اعتراض کرسکتا ہے کہ خدا نے اس کام کو جس کی غرض معرفت الٰہی تھی۔ ایسا اَدَق اور باریک کیوں بنایا۔ جس کی سمجھ کے لئے ایک زمانہ دراز تک

ہے۔ اس کا مالک بھی وہی اللہ قادر مطلق ہے اور وہ اس بات سے ہرگز عاجز نہیں کہ اپنی کامل جزاا کو جو دن کی طرح روشن ہے ظہور میں لاوے۔ اور اس صداقت عظمیٰ کے ظاہر کرنے سے حضرت احدیت کا یہ مطلب ہے کہ تاہریک نفس پر بطور حق الیقین امور مفصلہ ذیل کھل جائیں۔ اول یہ امر کہ جزاسزا ایک واقعی اور یقینی امر ہے کہ جو مالک حقیقی کی طرف سے اور اسی کے اراد ۂخاص سے بندوں پر وارد ہوتا ہے اور ایسا کھل جانا دنیا میں ممکن نہیں کیونکہ اس عالم میں یہ بات عام لوگوں پر ظاہر نہیں ہوتی کہ جو کچھ خیر و شر و راحت و رنج پہنچ رہا ہے وہ کیوں پہنچ رہا ہے اور کس کے حکم و اختیار سے پہنچ رہا ہے۔ اور کسی کو ان میں سے یہ آواز نہیں آتی کہ وہ اپنی جزا پارہا ہے۔ اور کسی پر بطور مشہود و محسوس منکشف نہیں ہوتا کہ جو کچھ وہ بھگت رہا ہے حقیقت میں وہؔ اس کے عملوں کا بدلہ ہے۔ دوسرے اس صداقت میں اس امر کا کھلنا مطلوب ہے کہ اسباب عادیہ کچھ چیز نہیں ہیں اور فاعل حقیقی خدا ہے اور وہی ایک ذات عظمیٰ ہے کہ جو جمیع فیوض کا مبدء اور ہریک جزا سزا کا مالک ہے۔ تیسرے اس صداقت میں اس بات کا ظاہر کرنا مطلوب ہے کہ سعادت عظمیٰ اور شقاوت عظمیٰ کیا چیز ہے یعنی سعادت عظمیٰ وہ فوز عظیم کی حالت ہے کہ جب نور اور سرور اور لذت اور راحت انسان کے تمام ظاہر و باطن اور تن اور جان پر محیط ہوجائے اور کوئی عضو اور قوت اس سے باہر نہ رہے۔ اور شقاوت عظمیٰ وہ عذاب الیم ہے کہ جو بباعث نافرمانی اور ناپاکی اور ُ بعد

کی طرح بے نقط یا بانقط عبارت میں اپنا کلام نازل کرتا۔ کیونکہ یہ سب لغو حرکتیں ہیں۔ جن میں کچھ بھی فائدہ نہیں۔ اور حکیم مطلق کی شان اس سے بلند وبرتر ہے کہ کوئی لغو حرکتؔ اختیار کرے۔ جس صورت میں اس نے آپ ہی فرمایا ہے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 461

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 461

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/461/mode/1up

فکر اور نظر کی ورزش بکار ہے۔ اور پھر بھی یہ توقع نہیں کہ تمام اسرار حکمیہ باستیفاءِ تام حاصل ہوجائیں گے اور اسی دقّت کے باعث سے اب تک انسان کو گویا دریا میں سے ایک قطرہ بھی حاصل نہیںؔ ہوا۔ چاہئے تھا کہ سب عجائب اور

اور دوری کے دلوں سے مشتعل ہوکر بدنوں پر مستولی ہوجائے اور تمام وجود فی النار والسقر معلوم ہو۔ اور یہ تجلیات عظمیٰ اس عالم میں ظاہر نہیں ہوسکتیں کیونکہ اس تنگ اور منقبض اور مکدر عالم کو جو روپوش اسباب ہوکر ایک ناقص حالت میں پڑا ہے۔ ان کے ظہور کی برداشت نہیں۔ بلکہ اس عالم پر ابتلاء اور آزمائش غالب ہے۔ اور اس کی راحت اور رنج دونوں ناپائیدار اور ناقص ہیں۔ اور نیز اس عالم میں جو کچھ انسان پر وارد ہوتا ہے وہ زیر پردہ اسباب ہے۔ جس سے مالک الجزاء کا چہرہ محجوب اور مکتوم ہورہا ہے۔ اس لئے یہ خالص اور کامل اور منکشف طور پر یوم الجزاء نہیں ہوسکتا بلکہ خالص اور کامل اور منکشف طور پر یوم الدین یعنی یوم الجزاء وہ عالم ہوگا کہ جو اس عالم کے ختم ہونے کے بعد آوے گا اور وہی عالم تجلیات کا عظمیٰ مظہر اور جلال اور جمال کے پوری ظہور کی جگہ ہے۔ اور چونکہ یہ عالم دنیوی اپنی اصل وضع کے رو سے دارالجزاء نہیں بلکہ دارالابتلاء ہے اس لئے جو کچھ عسر و یسرو راحت و تکلیف اور غم اور خوشی اس عالم میں لوگوں پر وارد ہوتی ہے اس کو خدائے تعالیٰ کے لطفؔ یا قہر پر دلالت قطعی نہیں مثلاً کسی کا دولتمند ہوجانا اس بات پر دلالت قطعی نہیں کرتا کہ خدائے تعالیٰ اس پر خوش ہے اور نہ کسی کا مفلس اور نادار ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ خداتعالیٰ اس پر ناراض ہے بلکہ یہ دونوں طور کے ابتلاء ہیں تا دولتمند کو اس کی دولت میں اور مفلس کو اس کی مفلسی میں جانچا جائے۔ یہ چار صداقتیں ہیں جن کا قرآن شریف میں مفصل بیان موجود ہے۔

یعنی ایماندار وہ لوگ ہیں جو لغو کاموں سے پرہیز کرتے ہیں اور اپنا وقت بیہودہ کاموں میں نہیں کھوتے۔ تو پھر آپ ہی کیونکر بیہودہ کام کرتا جس حالت میں اپنی کتاب کی اس نے یہ تعریف کی ہے کہ اس کی شان میں ؔ فرمایا ہے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 462

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 462

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/462/mode/1up

غرائب واضح ہوتے۔ تاکہ جس غرض کے لئے حکیم مطلق نے بدن انسان میں مودَّع کئے تھے وہ غرض حاصل ہوجاتی۔ سو اس وہم کا جواب اور اسی قسم کے اور وہموں کا جواب جو مصنوعات الٰہیہ کے عجائبات اور خواص دقیقہ اور مخفیہ کی نسبت کسی کے دل میں خلجان کریں۔ یہ ہے کہ بلاشبہ خدا کا اپنے تمام

اور قرآن شریف کے پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ ان صداقتوں کی تفصیل میں آیات قرآنی ایک دریا کی طرح بہتی ہوئی چلی جاتی ہیں۔ اور اگر ہم اس جگہ مفصل طور پر ان آیات کو لکھتے۔ تو بہت سے اجزاء کتاب کے اس میں خرچ ہوجاتے سو ہم نے اس نظر سے کہ انشاء اللہ عنقریب براہین قرآنی کے موقعہ پر وہ تمام آیات بہ تفصیل لکھے جائیں گے ان تمہیدی مباحث میں صرف سورۃ فاتحہ کے قل و دل کلمات پر کفایت کی۔

اب بعد اس کے ہم بیان کرنا چاہتے ہیں کہ یہ چاروں صداقتیں کہ جو بیّن الثبوت اور بدیہی الصدق ہیں۔ ایسے بے نظیر اور اعلیٰ درجہ کے ہیں کہ یہ بات دلائل قطعیہ سے ثابت ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور فرمانے کے وقت یہ چاروں صداقتیں دنیا سے گم ہوچکی تھیں اور کوئی قوم پرد ۂزمین پر ایسی موجود نہیں تھی کہ جو بغیر آمیزش افراط یا تفریط کے ان صداقتوں کی پابند ہو۔ پھر جب قرآن شریف نازل ہوا۔ تو اس کلام مقدس نے نئے سرے ان گمشدہ صداقتوں کو زاویہ گمنامی سے باہر نکالا اور گمراہوں کو ان کے حقانی وجود سے اطلاع دی اور دنیا میں ان کو پھیلایا اور ایک عالم کو ان کے نورؔ سے منور کیا۔ لیکن اس بات کے ثبوت کے لئے کہ کیونکر تمام قومیں ان صداقتوں سے بے خبر اور ناواقف محض تھیں یہی ایک کافی دلیل ہے کہ اب بھی دنیا میں کوئی قوم بجز دین حق اسلام کی ٹھیک ٹھیک اور کامل طور پر

یعنی قرآن حکمت سے پر ہے۔ باطل کو اس کے آگے پیچھے سے گزر نہیں۔ تو اس صورت میں وہ کیونکر آپ ہی باطل کو اس میں بھر دیتا۔ اس کام کے لئے تو فیضی جیسا ہی کوئی نادان فضول گو چاہئے۔

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 463

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 463

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/463/mode/1up

مصنوعاتؔ میں اور ہریک چیز میں جو اس کی طرف سے صادر ہو۔ قانون قدرت یہی ہے کہ اس نے عجائبات بدیہہ پر کفایت نہیں کی۔ بلکہ ہریک چیز میں(جو اس کے دست قدرت سے ظہور پذیر ہے) عجائبات دقیقہ بھی(جو نہایت گہرے اور عمیق ہیں) مخفی رکھے ہیں۔ مگر خدا کے اس کام کو عبث اور بے سود سمجھنا سراسر نادانی ہے۔

ان صداقتوں پر قائم نہیں اور جو شخص کسی ایسی قوم کے وجود کا دعویٰ کرے تو بار ثبوت اسی کے ذمہ ہے۔ ماسوا اس کے قرآنی شہادت کہ جو ہریک دوست و دشمن میں شائع ہونے کی وجہ سے ہریک مخاصم پر حجت ہے اس بات کے لئے ثبوت کافی ہے اور وہ شہادتیں جابجا فرقان مجید میں بکثرت موجود ہیں۔ اور خود کسی تاریخ دان اور واقف حقیقت کو اس سے بے خبری نہیں ہوگی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے وقت تک ہریک قوم کی ضلالت اور گمراہی کمال کے درجہ تک پہنچ چکی تھی اور کسی صداقت پر کامل طور پر ان کا قیام نہیں رہا تھا۔ چنانچہ اگر اول یہودیوں ہی کے حال پر نظر کریں تو ظاہر ہوگا کہ ان کو خدائے تعالیٰ کی ربوبیت تامہ میں بہت سے شک اور شبہات پیدا ہوگئے تھے اور انہوں نے ایک ذات رب العالمین پر کفایت نہ کرکے صدہا ارباب متفرقہ اپنے لئے بنارکھے تھے یعنی مخلوق پرستی اور دیوتا پرستی کا بغایت درجہ ان میں بازار گرم تھا۔ جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ حال قرآن شریف میں بیان کرکے فرمایا ہے۔33۔ ۱؂ یعنی یہودیوں نے اپنے مولویوں اور درویشوں کو کہ جو مخلوق اور غیر خدا ہیں، اپنے رب اور قاضی الحاجات ٹھہرا رکھے ہیں۔ اور نیز اکثروں کا یہودیوں میں سے بعض نیچریوں کی طرح یہ اعتقاد ہوگیا تھا کہ انتظام دنیا کا قوانین منضبطہ متعینہ پر چل رہا ہے۔

خدا کے کلام کو اس طرح پر بے نقط سمجھنا چاہئے کہ وہ لغو اور جھوٹ اور بیہودہ گوئی کے نقطوں سے منزہ اور معرا ہے اور اس کی فصاحت بلاغت وہ بے بہا جوہر ہے جس سے دنیا کو فائدہ پہنچتا ہے۔ روحانی بیماروں سے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 464

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 464

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/464/mode/1up

جاننا چاہئے کہ خدا نے انسانؔ کو دوسرے حیوانات کی طرح اس وضع فطرت پر پیدا نہیں کیا۔ کہ اس کا علم چند بدیہی اور محسوس باتوں میں محصور اور محدود رہے۔ بلکہ اس کو یہ استعداد بخشی ہے کہ وہ نظر اور فکر سے غیر متناہی علوم میں ترقیات کرتا رہے۔ اور اسی غرض سے اس کو عقل کا گوہر شب چراغ جو دوسرے حیوانات

اور اس قانون میں مختارانہ تصرف کرنے سے خدائے تعالیٰ قاصر اور عاجز ہے۔ گویا اس کے دونوں ہاتھ بندھے ہوئے ہیں نہ اس قاعدہ کے برخلاف کچھ ایجاد کرسکتا ہے اور نہ فنا کرسکتا ہے بلکہ جب سے کہ اس نے اس عالم کا ایک خاص طورپرشیرازہ باندھ کر اس کی پیدائش سے فراغت پالی ہے تب سے یہ کل اپنے ہی پرزوں کی صلاحیت کی وجہ سے خودبخود چل رہی ہے اور رب العالمین کسیؔ قسم کا تصرف اور دخل اس کل کے چلنے میں نہیں رکھتا۔ اور نہ اس کو اختیار ہے کہ اپنی مرضی کے موافق اور اپنی خوشنودی ناخوشنودی کے رو سے اپنی ربوبیت کو بہ تفاوت مراتب ظاہر کرے یا اپنے ارادۂ خاص سے کسی طور کا تغیر اور تبدل کرے بلکہ یہودی لوگ خدائے تعالیٰ کو جسمانی اور مجسم قرار دے کر عالم جسمانی کی طرح اور اس کا ایک جز سمجھتے ہیں۔ اور ان کی نظر ناقص میں یہ سمایا ہوا ہے کہ بہت سی باتیں کہ جو مخلوق پر جائز ہیں وہ خدا پر بھی جائز ہیں اور اس کو من کل الوجوہ منزہ خیال نہیں کرتے۔ اور ان کی توریت میں جو محرف اور مبدل ہے خدائے تعالیٰ کی نسبت کئی طور کی بے ادبیاں پائی جاتی ہیں۔ چنانچہ پیدائش کے ۳۲ باب میں لکھا ہے کہ خدائے تعالیٰ یعقوب سے تمام رات صبح تک کشتی لڑا گیا۔ اور اس پر غالب نہ ہوا اسی طرح برخلاف اس اصول کے کہ خدائے تعالیٰ ہریک مافی العالم کا رب ہے۔ بعض مردوں کو انہوں نے خدا کے بیٹے قرار دے رکھا ہے۔ اور کسی جگہ

شفا حاصل ہوتی ہے۔ حقائق اور دقائق ؔ کا جاننا حق کے طالبوں پر آسان ہوتا ہے۔ کیونکہ خدا کا فصیح کلام معارف حقہ کو کمال ایجاز سے، کمال ترتیب سے، کمال صفائی اور خوش بیانی سے لکھتا ہے اور وہ طریق اختیار کرتا ہے جس سے دلوں پر

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 465

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 465

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/465/mode/1up

کو نہیں ملا عطا ہوا۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ تمام عجائب غرائبؔ الٰہی بدیہی طور پر واضح اور لایح ہوتے جن میں نظر اور فکر کی کچھ بھی حاجت نہ ہوتی تو پھر انسان جس کا کمال اس کی قوت نظریہ تکمیل پر موقوف ہے۔ کن چیزوں میں نظر اور فکر کرتا۔ اور اگر نظر اور فکر نہ کرتا تو پھر کیونکر اپنے کمال کو پہنچتا۔ سو چونکہ تمام انسانیت

عورتوں کو خدا کی بیٹیاں لکھا گیا ہے اور کسی جگہ بیبل میں یہ بھی فرما دیا ہے کہ تم سب خدا ہی ہو۔ اور سچ تو یہ ہے کہ عیسائیوں نے بھی انہیں تعلیموں سے مخلوق پرستی کا سبق سیکھا ہے کیونکہ جب عیسائیوں نے معلوم کیا کہ بائیبل کی تعلیم بہت سے لوگوں کو خدا کے بیٹے اور خدا کی بیٹیاں بلکہ خدا ہی بناتی ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ آؤ ہم بھی اپنے ابن مریم کو انہیں میں داخل کریں تا وہ دوسرے بیٹوں سے کم نہ رہ جائے۔ اسی جہت سے خدائے تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے کہ عیسائیوں نے ابن مریم کو ابن اللہ بناکر کوئی نئی بات نہیں نکالیؔ بلکہ پہلے بے ایمانوں اور مشرکوں کے قدم پر قدم مارا ہے۔ غرض حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہودیوں کی یہ حالت تھی کہ مخلوق پرستی بدرجہ غایت ان پرغالب آگئی تھی اور عقائد حقہ سے بہت دور جاپڑی تھی یہاں تک کہ بعض ان کے ہندوؤں کی طرح تناسخ کے بھی قائل تھے اور بعض جزا سزا کے قطعاً منکر تھے۔ اور بعض مجازات کو صرف دنیا میں محصور سمجھتے تھے اور قیامت کے قائل نہ تھے۔ اور بعض یونانیوں کے نقش قدم پر چل کر مادہ اور روحوں کو قدیم اور غیر مخلوق خیال کرتے تھے۔ اور بعض دہریوں کی طرح روح کو فانی سمجھتے تھے اور بعض کا فلسفیوں کی طرح یہ مذہب تھا کہ خدائے تعالیٰ رب العالمین اور مدبر بالارادہ نہیں ہے۔ غرض مجذوم کے بدن کی طرح تمام

اعلیٰ درجہ کا اثر پڑے اور تھوڑی عبارت میں وہ علوم الٰہیہ سما جائیں جن پر دنیا کی ابتدا سے کسی کتاب ؔ یا دفتر نے احاطہ نہیں کیا۔ یہی حقیقی فصاحت بلاغت ہے جو تکمیل نفس انسانی کے لئے ممد و معاون ہے جس کے ذریعہ سے حق کے طالب

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 466

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 466

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/466/mode/1up

انسان کے استعمال قوت نظریہ سے وابستہ ہے۔ اس لئے اس حکیم مطلق نے اکثر دقائق اورؔ حقائق کو ایسے طور پر مخفی رکھا ہے کہ جب تک انسان اپنی خداداد قوت کو بکمال اجتہاد استعمال میں نہ لاوے۔ ان دقائق کا انکشاف نہیں ہوتا۔ اس سے حکیم مطلق کا یہ ارادہ ہے کہ ترقی کرنے کا راستہ کھلا رہے۔ اور جس سعادت کے لئے

خیالات ان کے فاسد ہوگئے تھے اور خدائے تعالیٰ کی صفات کاملہ ربوبیت و رحمانیت و رحیمیت اور مالک یوم الدین ہونے پر اعتقاد نہیں رکھتے تھے نہ ان صفتوں کو اس کی ذات سے مخصوص سمجھتے تھے اور نہ ان صفتوں کا کامل طور پر خدائے تعالیٰ میں پایا جانا یقین رکھتے تھے بلکہ بہت سی بدگمانیاں اور بے ایمانیاں اور آلودگیاں ان کے اعتقادوں میں بھرگئی تھیں اور توریت کی تعلیم کو انہوں نے نہایت بدشکل چیز کی طرح بناکر شرک اور بدی کی بدبو کو پھیلانا شروع کررکھا تھا۔ پس وہ لوگ خدائے تعالیٰ کو جسمانی اور جسم قرار دینے میں اور اس کی ربوبیت اور رحمانیت اور رحیمیت وغیرہ صفات کے معطل جاننے میں اور ان صفتوں میں دوسری چیزوں کو شریک گرداننے میں اکثر مشرکین کے پیشوا اور سابقین اولین میں سے ہیں۔

یہؔ تو یہودیوں کا حال ہوا۔ مگر افسوس کہ عیسائیوں نے تھوڑے ہی دنوں میں اس سے بدتر اپنا حال بنالیا۔ اور مذکورہ بالا صداقتوں میں سے کسی صداقت پر قائم

کمال مطلوب تک پہنچتے ہیں۔ اور یہی وہ صنعتِ ربانی ہے جس کا انجام پذیر ہونا بجز الٰہی طاقت اور اس کے علم وسیع کے ممکن نہیں۔ خدائے تعالیٰ اپنے کلام کے ایکؔ ایک فقرہ کی سچائی کا ذمہ وار ہے اور جو کچھ اس کی تقریر میں واقعہ ہے خواہ وہ اخبار اور آثار گذشتہ ہیں خواہ وہ آئندہ کی خبریں اور پیشگوئیاں ہیں اور خواہ وہ علمی اور دینی صداقتیں ہیں۔ وہ تمام کذب اور ہزل اور بیہودہ گوئی کے داغ سے منزہ ہیں۔ اور اگر ایک ذرہ بھی خلاف گوئی یا فضولی اور لاف و گذاف ان میں پایا جاوے۔

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 467

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 467

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/467/mode/1up

انسان پیدا کیا گیا ہے۔ اس سعادت تک وہ پہنچ جائے۔ غرض خدا کے جتنے کام ہیں۔ وہ صرف موٹی صنعت پر ختم نہیںؔ ہوسکتے۔ بلکہ ان میں جس قدر کھودتے جاؤ۔ زیادہ سے زیادہ باریکیاں نکلتی ہیں۔ پس جبکہ ان تمام چیزوں کی نسبت جو خدا کی طرف سے ہیں۔ یہ عام قانون ثابت ہوچکا کہ وہ سب نکاتِ دقیقہ اور اسرارِ عمیقہ سے پُر

نہ رہے۔ اور جو خدا کی صفات کاملہ تھی وہ سب ابن مریم پر تھاپ دی۔ اور ان کے مذہب کا خلاصہ یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ جمیع مافی العالم کا رب نہیں ہے بلکہ مسیح اس کی ربوبیت سے باہر ہے بلکہ مسیح آپ ہی رب ہے۔ اور جو کچھ عالم میں پیدا ہوا وہ بزعم باطل ان کے بطور قاعدہ کلیہ مخلوق اور حادث نہیں بلکہ ابن مریم عالم کے اندر حدوث پاکر اور صریح مخلوق ہوکر پھر غیر مخلوق اور خدا کے برابر بلکہ آپ ہی خدا ہے۔ اور اس کی عجیب ذات میں ایک ایسا اعجوبہ ہے کہ باوجود حادث ہونے کے قدیم ہے۔ اور باوجود اس کے کہ خود اپنے اقرار سے ایک واجب الوجود کے ماتحت اور اس کا محکوم ہے۔ مگر پھر بھی آپ ہی واجب الوجود اور آزاد مطلق اور کسی کا ماتحت نہیں۔ اور باوجود اس کے کہ خود اپنے

تو پھر وہ خدا کا کلام ہی نہیں رہتا۔ اس لئے وہ خود اپنے تمام بیانات کو بہ پایۂ ثبوت پہنچاتا ہے۔ لیکن کوئی شاعر اس بات کا ذمہ وار نہیں ہوسکتا اور نہ کبھی ہوا کہ اس کا کلام ہریک قسم کے کذب اور ہزل اور غیر ضروری باتوں سے پاک اور ضروری اور لابدی امور پر احاطہ رکھتا ہے۔ پھر جبکہ شاعروں کی فضول باتوں کو وہ مراتب حاصل نہیں ہیں کہ جو خدائے تعالیٰ کے پاک کلام کو حاصل ہیں اور نہ اس بارے میں شاعر کچھ دم مارتے ہیں اور نہ ذمہ وار بنتے ہیں۔ بلکہ اپنے عجز کے آپ ہی اقراری ہیں۔ تو کلام الٰہی کے مقابلہؔ پر ان کا ناچیز کلام پیش کرنا کیسی سفاہت اور نادانی ہے۔ شاعر تو اگر مر بھی جاویں تو صداقت اور راستی و ضرورت حقہ کا اپنے کلام میں التزام

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 468

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 468

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/468/mode/1up

ہیں۔ تو اسے قانون قدرت کی متابعت سے یہ بھی ہریک عاقل کو ماننا پڑا کہ خدا کا کلام بھی نکات دقیقہ سے خالی نہیں ہونا چاہئےؔ ۔ بلکہ اس میں سب سے زیادہ لطائف چاہئیں۔ کیونکہ وہ خدا کا کلام ہے۔ اور حکیم مطلق کے علوم قدیم کا مخزن ہے جس کو خدا نے اس بات کا آلہ بنایا ہے کہ تمام قوانین قدرتیہ جو

اقرار سے عاجز اور ناتواں ہے۔ مگر پھر بھی عیسائیوں کے بے بنیاد زعم میں قادر مطلق ہے اور عاجز نہیںؔ ۔ اور باوجود اس کے کہ خود اپنے اقرار سے امور غیبیہ کے بارہ میں نادان محض ہے یہاں تک کہ قیامت کی بھی خبر نہیں کہ کب آئے گی مگر پھر بھی نصرانیوں کے خوش عقیدہ کے رو سے عالم الغیب ہے۔ اور باوجود اس کے کہ خود اپنے اقرار سے اور نیز صحف انبیاء کی گواہی سے ایک مسکین بندہ ہے مگر پھر بھی حضرات مسیحیوں کی نظر میں خدا ہے۔ اور باوجود اس کے کہ خود اپنے اقرار سے نیک اور بے گناہ نہیں ہے مگر پھر بھی عیسائیوں کے خیال میں نیک اور بے گناہ ہے۔ غرض عیسائی قوم بھی ایک عجیب قوم ہے جنہوں نے ِ ضدَّین کو جمع کردکھایا اور تناقض کو جائز سمجھ لیا۔ اور گو ان کے اعتقاد کے قائم ہونے سے مسیح کا دروغگو ہونا لازم آیا۔ مگر انہوں نے اپنے اعتقاد کو نہ چھوڑا۔ ایک ذلیل اور عاجز اور ناچیز بندہ کو رب العالمین قرار دیا۔ اور رب العالمین پر ہر طرح کی ذلت اور موت اور درد اور دکھ اور تجسم اور حلول اور تغیر اور تبدل اور حدوث اور تولد کو روا رکھا ہے۔ نادانوں نے خدا کو بھی ایک کھیل بنالیا ہے۔ عیسائیوں پر کیا حصر ہے ان سے پہلے کئی عاجز بندے خدا قرار دیئے گئےؔ ہیں۔ کوئی کہتا ہے رام چندر خدا ہے۔ کوئی کہتا ہے

نہ کرسکیں۔ وہ تو بغیر فضول گوئی کے بول ہی نہیں سکتے۔ اور ان کی ساری کل فضول اور جھوٹ پر ہی چلتی ہے۔ اگر جھوٹ نہیں یا فضول گوئی نہیں تو پھر شعر بھی نہیں۔ اگر تم ان کا فقرہ فقرہ تلاش کرو کہ کس قدر حقائق دقائق ان میں جمع ہیں۔ کس قدر راستی اور صداقت کا التزام ہے۔ کس قدر حق اور حکمت پر قیام ہے۔ کس ضرورت حقہ سے وہ باتیں ان کے مونہہ سے نکلی ہیں اور کیا کیا اسرار بے مثل و مانند ان میں لپٹے ہوئے ہیں تو تمہیں معلوم ہو کہ ان تمام خوبیوں میں سے کوئی بھی خوبی ان کی مردہ عبارات میں پائی نہیں جاتی۔ ان کا تو یہ حال ہوتا ہے کہ جس طرف قافیہ ردیف ملتا نظر آیا اسی طرف جھک گئے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 469

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 469

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/469/mode/1up

فی السموات والارض پائے جاتے ہیں۔ ان کی اصلاح کے لئے اس میں سامان موجود ہو۔ پس اگر وہ ناقص ہو تو اتنے بڑے کام اس سے کیونکر انصرام ہوسکیں۔ اگر وہ تمام غلطیوں سےؔ انسان کو پاک نہ کرسکتا تو پھر صرف بعض غلطیوں سے پاک

نہیں کرشن کی خدائی اس سے قوی تر ہے۔ اسی طرح کوئی بدھ کو کوئی کسی کو کوئی کسی کو خدا ٹھہراتا ہے۔ ایسا ہی آخری زمانہ کے ان سادہ لوحوں نے بھی پہلے مشرکوں کی ریس کرکے ابن مریم کو بھی خدا اور خدا کا فرزند ٹھہرالیا۔ غرض عیسائی لوگ نہ خداوند حقیقی کو رب العالمین سمجھتے ہیں نہ اسے رحمان اور رحیم خیال کرتے ہیں اور نہ جزا سزا اس کے ہاتھ میں یقین رکھتے ہیں، بلکہ ان کے گمان میں حقیقی خدا کے وجود سے زمین اور آسمان خالی پڑا ہوا ہے اور جو کچھ ہے ابن مریم ہی ہے۔ اگر رب ہے تو وہی ہے۔ اگر رحمان ہے تو وہی ہے۔ اگر رحیم ہے تو وہی ہے۔ اگر مالک یوم الدین ہے تو وہی ہے۔ ایسا ہی عام ہندو اور آریہ بھی ان صداقتوں سے منحرف ہیں۔ کیونکہ ان میں سے جو آریہ ہیں۔ وہ تو خدائے تعالیٰ کو خالق ہی نہیں سمجھتے۔ اور اپنی روحوں کا رب اس کو قرار نہیں دیتے۔ اور جو ان میں سے بت پرست

گئے اور جو مضمون دل کو اچھا لگا وہی جھک ماری۔ نہ حق اور حکمت کی پابندی ہے اور نہ فضول گوئی سے پرہیز ہے اور نہ یہ خیال ہے کہ اس ؔ کلام کے بولنے کے لئے کون سی سخت ضرورت درپیش ہے اور اس کے ترک کرنے میں کون سا سخت نقصان عائد حال ہے ناحق بے فائدہ فقرہ سے فقرہ ملاتے ہیں۔ سر کی جگہ پاؤں، پاؤں کی جگہ سر لگاتے ہیں۔ سر اب کی طرح چمک تو بہت ہے پرحقیقت دیکھو تو خاک بھی نہیں۔ شعبدہ باز کی طرح صرف کھیل ہی کھیل اصلیت دیکھو تو کچھ بھی نہیں۔ نادار۔ ناطاقت اور ناتوان اور گئے گزرے ہیں آنکھیں اندھی اور اس پرَ عشوہ گری ان کی نسبت نہایت ہی نرمی کیجئے تو یہ کہیئے کہ وہ سب ضعیف اور ہیچ ہونے کی وجہ سے عنکبوت کی طرح ہیں اور ان کے اشعار بیت عنکبوت ہیں۔ ان کی نسبت خداوند کریم نے خوب فرمایا ہے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 470

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 470

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/470/mode/1up

کرنا حقیقت میں ایسا تھا کہ گویا منزل تک پہنچانے سے پہلے راستہ میں ہی چھوڑ دیتا۔ غرض جب خدا کا قانون قدرت(ہریک چیز میں جو اس کی طرف سے صادر ہے) یہی ثابت ہوا کہ ان سب میں خداوند تعالیٰ نے دقائق عمیقہ بھی

ہیں وہ صفت ربوبیت کو اس رب العالمین سے خاص نہیں سمجھتے اور تینتیس کروڑ دیوتا ربوبیت کے کاروبار میں خدائےؔ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہیں اور ان سے مرادیں مانگتے ہیں اور یہ ہر دو فریق خدائے تعالیٰ کی رحمانیت کے بھی انکاری ہیں اور اپنے وید کے رو سے یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ رحمانیت کی صفت ہرگز خدائے تعالیٰ میں نہیں پائی جاتی اور جو کچھ دنیا کے لئے خدا نے بنایا ہے یہ خود دنیا کے نیک عملوں کی وجہ سے خدا کو بنانا پڑا۔ ورنہ پرمیشر خود اپنے ارادہ سے کسی سے نیکی نہیں کرسکتا اور نہ کبھی کی۔ اسی طرح خدائے تعالیٰ کو کامل طور پر رحیم بھی نہیں سمجھتے کیونکہ ان لوگوں کا اعتقاد ہے کہ کوئی گنہگار خواہ کیسا ہی سچے دل سے توبہ کرے اور خواہ وہ سالہا سال تضرع اور زاری اور اعمال صالح میں مشغول رہے۔ خدا اس کے گناہوں کو جو اس سے صادر ہوچکے ہیں۔ ہرگز نہیں بخشے گا۔ جب تک وہ کئی لاکھ جونوں کو بھگت کر اپنی سزا نہ پالے۔ جب ہی کسی نے ایک گناہ کیا

یعنی شاعروں کے پیچھے وہی لوگ چلتے ہیں جنہوں نے حق اور حکمت کا راستہ ؔ چھوڑ دیا ہے۔ کیا تو نہیں دیکھتا شاعر تو وہ لوگ ہیں جو قافیہ اور ردیف اور مضمون کی تلاش میں ہریک جنگل میں بھٹکتے پھرتے ہیں حقانی باتوں پر ان کا قدم نہیں جمتا اور جو کچھ کہتے ہیں وہ کرتے نہیں۔ سو ظالم لوگ جو خدا کے حقانی کلام کو شاعروں کے کلام سے تشبیہہ دیتے ہیں انہیں عنقریب معلوم ہوگا کہ کس طرف پھریں گے۔ اب دانا کو سوچنا چاہئے کہ کیا اس سے زیادہ تر ناانصافی کوئی اور بھی ہوگی کہ حق محض کو لغو محض سے تشبیہہ دی جائے یا ظلمت کو نور سے برابر ٹھہرایا جائے۔ کیا ایسی کتابیں اس کتاب مقدس سے کچھ نسبت رکھتی ہیں جن کے چہرہ پر فضول گوئی کا داغ اور جھوٹ اور ہرزہ درائی کا دھبہ اس قدر پھیل گیا ہے جس کو دیکھ کر ہریک پاک دل آدمی کو نفرت اور کراہت آتی ہے۔ کیا ایسی کتابیں ان صحف مطہرہ سے مشابہ کہلائیں گی جن کتابوں کا مادہ مجذوم کے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 471

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 471

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/471/mode/1up

ضرور رکھے ہیں۔ صرف موٹی باتوں پر ختم نہیں کیا۔ تو اس تحقیق سےؔ جھوٹ ان لوگوں کا کھل گیا۔ جن کا یہ دعویٰ ہے کہ خدا کے کلام میں صرف چند احکام سریع الفہم چاہئیں۔ اور لطائف دقیقہ اس میں نہیں چاہئیں اور نہ ہیں، اس جگہ انہوں نے اپنے اس وہم کے مضبوط کرنے کی غرض سے ایک دلیل بنائی ہوئی ہے

پھر نہ وہاں توبہ کام آوے نہ بندگی نہ خوف الٰہی نہ عشق الٰہی نہ اور کوئی عمل صالح گویا وہ جیتے جی ہی مرگیا۔ اور خدائے تعالیٰ کی رحیمیت سے بکلّی ناامید ہوگیا۔ علیٰ ہذا القیاس یہ لوگ یوم الجزاء پر جس کے رو سے خدائے تعالیٰ مالکؔ یوم الدین کہلاتا ہے صحیح طور پر ایمان نہیں رکھتے اور جن طریقوں متذکرہ بالا کے رو سے انسان اپنی سعادت عظمیٰ تک پہنچتا ہے یا شقاوت عظمیٰ میں پڑتا ہے اس کامل سعادت اور شقاوت کے ظہور سے انکاری ہیں اور نجات اخروی کو صرف ایک خیالی اور وہمی طور پر سمجھ رہے ہیں۔ بلکہ وہ نجات ابدی کے قائل ہی نہیں ہیں۔ اور ان کا مقولہ ہے کہ انسان کو ہمیشہ کے لئے نہ اس جگہ آرام ہے اور نہ اس جگہ اور نیز ان کے زعم باطل میں دنیا بھی آخرت کی طرح ایک کامل دارالجزاء ہے۔ جس کو دنیا میں بہت سی دولت دی گئی۔ وہ اس کے نیک عملوں کے عوض میں کہ جو کسی پہلے جنم میں اس نے کئے ہوں گے دی گئی ہے اور اس بات کا مستحق ہے کہ

خون کی طرح بگڑا ہوا ہے۔ نہیں ہرگز نہیں۔ اگرچہ تعصب وہ سخت بلا ہے کہ جو نہ عقل کو چھوڑتا ہے اور نہ سمجھ کو۔ اورؔ نہ قوت سامعہ اس سے سلیم رہتی ہے اور نہ قوت باصرہ لیکن انسان کو یہ بھی تو سوچ لینا چاہئے کہ جن دو چیزوں میں کچھ بھی مشابہت اور مناسبت نہیں ان کو خواہ نخواہ ایک دوسرے کا شبیہہ قرار دینے کا آخری نتیجہ ہمیشہ یہی ہوا کرتا ہے کہ ایسے شخصوں کو دانشمند لوگ پاگل اور دیوانہ کہنے لگتے ہیں۔ اے حضرات عیسائیاں! آپ لوگ ہندوؤں کی چال نہ چلیں۔ آپ لوگوں میں سے قرآن شریف ہی کے اترنے کے زمانہ میں ایسے نیک سرشت پادری بہت گزرے ہیں۔ جن کے آنسو قرآن شریف کو سن کر نہیں تھمتے تھے ان بزرگ قسیسوں کو یاد کرو جن کی شہادتیں قرآن شریف میں درج ہیں اور جو فرقان مجید کو سن کر ٹھوڑیوں پر گر کر روتے تھے۔ قرآن ہی کی عظمتِ شان نے ان سے کلمہ بھروایا۔ تمام کتب الہامیہ پر اپنی فضیلت کا

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 472

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 472

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/472/mode/1up

اور وہ یہ ہے کہ کتب الہامیہ کم علموں اور کم فہموں یا ا میوں اور بدوؤں کے لئے نازل ہوئی ہیں۔ پسؔ ان کی تعلیم ویسی ہی چاہئے جو کہ بقدر عقول ان لوگوں کے ہو کیونکہ امی اور ناخواندہ آدمی نکاتِ دقیقہ سے منتفع نہیں ہوسکتے۔ اور نہ ان پر مطلع ہوسکتے ہیں۔ لیکن واضح ہو کہ یہ وہم محض کوتہ اندیشی سے ان کے دلوں کو

اسی دنیا میں اپنے نفس امارہ کی خواہشوں کے پورا کرنے میں اس دولت کو خرچ کرے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اسی جہان میں خدائے تعالیٰ کا کسی کو اس غرض سے دولت دینا کہ وہ اس دولت کو فی الحقیقت اپنے اعمال کی جزاء سمجھ کر کھانے پینے اور ہر طرح کی عیاشی کے لئے آلہ بناوے۔ یہ ایک ایسا ناجائز فعل ہے کہ جس کو خدائے تعالیٰ کی طرفؔ نسبت کرنا نہایت درجہ کی بے ادبی ہے۔ کیونکہ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ گویا ہندوؤں کا پرمیشر آپ ہی لوگوں کو بدفعلی اور پلیدی میں ڈالنا چاہتا ہے۔ اور قبل اس کے جو ان کا نفس پاک ہو نفسانی لذات کے وسیع دروازے ان پر کھولتا ہے۔ اور پہلے جنموں کے نیک عملوں کا اجر ان کو یہ دیتا ہے کہ پچھلے جنم میں وہ ہر طرح کے اسباب تنعم پاکر اور نفس امارہ کے پورے پورے تابع بن کر پھر تحت الثریٰ میں

اقرار کروایا۔ اب آپ لوگوں کی آنکھوں میں وہی قرآن حریری اور فیضی کے واہیات کلام سے برابر نہیں۔یہ ؔ بڑا کفر خدا کو نہیں بھاتا۔ اگر آپ لوگ کوئی نظیر قرآن شریف کی اس کے ظاہری و باطنی کمالات میں ثابت کر دکھاتے تو پھر جھگڑا ہی کیا تھا۔ پر آپ تو ایسی نظیر پیش کرنے سے بکلی عاجز اور ساکت ہیں پھر معلوم نہیں کہ تم آنکھیں رکھتے ہوئے کیوں نہیں دیکھتے۔ کان رکھتے ہوئے کیوں نہیں سنتے۔ دل رکھتے ہوئے کیوں نہیں سمجھتے۔ اگر حریری اور فیضی تم سے ہی عاقل ہوتے تو وہ آپ ہی دعویٰ کرتے کہ ہم نے قرآن شریف کی نظیر بنالی ہے۔ پر خدا نہ کرے کہ کسی لکھے پڑھے آدمی کی ایسی پست عقل ہو۔ بھلا تم آپ ہی بتلاؤ کہ وہ کون سا کلام تمہاری بغل میں ہے جس میں قرآن شریف کی طرح یہ دعویٰ موجود ہے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 473

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 473

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/473/mode/1up

پکڑتا ہے اور اس پست اور ناچیز خیال سے بغایت درجہ سفاہت اور جہالت کی بدبو آتی ہے۔ کاش کہ وہ کلام الٰہی کو غور سے دیکھتے۔ تاکہؔ انہیں معلوم ہوتا کہ خدا کی مقدس اور کامل کلام پر ایسا گمان کرنا گویا چاند پر خاک ڈالنا ہے۔ اور اب بھی ایسے لوگ اگر اس کتاب کو ذرا آنکھ کھول کر پڑھیں اور وہ صدہا دقائق عمیقہ

جاپڑیں اور ظاہر ہے کہ جس شخص کے خیال میں یہ بھرا ہوا ہے کہ میرے ہاتھ میں جس قدر دولت اور مال اور حشمت اور حکومت ہے۔ یہ میرے ہی اعمال سابقہ کا بدلہ ہے۔ وہ کیا کچھ نفس امارہ کی پیروی نہیں کرے گا۔ لیکن اگر وہ یہ سمجھتا کہ دنیا دارالجزاء نہیں ہے بلکہ دارالابتلا ہے اور جو کچھ مجھ کو دیا گیا ہے وہ بطور ابتلا اور آزمائش کے دیا گیا ہے تا یہ ظاہر کیا جاوے کہ میں کس طور پر اس میں تصرف کرتا ہوں۔ کوئی ایسی شے نہیں ہے جو میری ملکیت یا میرا حق ہو۔ تو ایسا سمجھنے سے وہ اپنی نجات اس بات میں دیکھتا کہ اپنا تمام مال نیک مصارف میں خرچ کرے اور نیز وہ غایتؔ درجہ کا شکر بھی کرتا کیونکہ وہی شخص دلی اخلاص اور محبت سے شکر کرسکتا ہے کہ جو سمجھتا ہے کہ میں نے مفت پایا اور بغیر کسی استحقاق کے مجھ کو ملا ہے۔ غرض آریا لوگوں کے نزدیک خدائے تعالیٰ نہ رب العالمین ہے نہ رحمان نہ رحیم اور نہ ابدی اور

یعنی ان کو کہہ دے کہ اگر تمام جن اور آدمی اس بات پر اتفاق کرلیں کہ قرآن کی مثل کوئی کلام لاویں، تو یہ بات ان کے لئے ممکن نہیں۔ اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جاویں۔ اور اگر تم کو قرآن کے منزل من اللہ ہونے میں شک ہے۔ تو تم بھی کوئی ایک سورۃ اس کی مانند بناکر دکھلاؤ۔ اور اگر نہ بناؤ اور یاد رکھو کہ ہرگز نہیں بناسکو گے۔ تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں جو

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 474

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 474

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/474/mode/1up

اور حقائق دقیقہ کلام الٰہی کے جو ہم نے اس کتاب میں اپنے موقعہ پر کمال وضاحت سے لکھے ہیں بنظر تامل و تیقظ مشاہدہ کریں تو ان کا خیال فاسد ایسا دور ہوجائے گا جیسا کہ آفتاب کےؔ نکلنے سے تاریکی دور ہوجاتی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ امر محسوس اور مشاہدہ کے مقابلہ پر کسی قیاس کی پیش نہیں جاتی۔ جب

دائمی اور کامل جزا دینے پر قادر ہے۔

اب ہم یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ برہمو سماج والوں کا معارف مذکورہ بالا کی نسبت کیا حال ہے یعنی وہ ہر چہار صداقتیں کہ جو ابھی مذکور ہوئی ہیں۔ برہمو لوگ ان پر ثابت قدم ہیں یا نہیں۔ سو واضح ہو کہ برہمو لوگ ان چاؔ روں صداقتوں پر جیسا کہ چاہئے ثبات اور قیام نہیں رکھتے بلکہ ان معارف عالیہ کے کامل مفہوم پر ان کو اطلاع ہی نہیں۔ اول

کافروں کے لئے طیار کی گئی ہے۔ پھر میں مکرر کہتا ہوں کہ قبل اس کے جو تم لوگ اس فکر میں پڑو کہ قرآن شریف کے مثل و مانند کوئی دوسرا کلام تلاش کیا جائے۔ اول تم کو اس بات کا دیکھ لینا نہایت ضروری ہے کہ اس دوسری کلام نے وہ دعویٰ بھی کیا ہے یا نہیں جس دعویٰ کو آیات مذکورہ بالا میں ابھی تم سن چکے ہو۔ کیونکہ اگر کسی متکلم نے ایسا دعویٰ ہی نہیں کیا کہ میرا کلام بے مثل و مانند ہے جس کے مقابلہ اور معارضہ سے فی الحقیقت تمام جن وانس عاجز و ساکت ہیں تو ایسے متکلم کے کلام کو خواہ نخواہ بے مثل و مانند سمجھ لینا حقیقت میں اسی مثل مشہور کا مصداق ہے کہ مدعی سست و گواہ چست۔ ماسوا اس کے کسی کلام کو قرآن شریف کی نظیر اور شبیہہ ٹھہرانے میں اس بات کا ثبوت بھی پیدا کرلینا چاہئے کہ جن کمالات ظاہری و باطنی پر قرآن شریف مشتمل ہے۔ انہیں کمالات پر وہ کلام بھی اشتمال رکھتا ہے جس کو بطور نظیر پیش کیا گیا ہے۔ کیونکہ اگر نظیر پیش کردہ کو کمالات قرآنیہ سے کچھ بھی حصہ حاصلؔ نہیں تو پھر ایسی نظیر پیش کرنا بجز اپنی جہالت اور حماقت دکھلانے کے کس غرض پر مبنی ہوگا۔ یہ بات خوب یاد رکھو کہ جیسے ان تمام چیزوں کی نظیر اور شبیہہ بنانا کہ جو صادر من اللہ ہیں غیر ممکن اور ممتنع ہے۔ ایسا ہی قرآن شریف کی نظیر بنانا بھی حد امکان سے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 475

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 475

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/475/mode/1up

متواتر تجربہ سے ایک چیز کی کوئی خاصیت معلوم ہوگئی تو پھر مجرد قیاس کو اپنی دستاویز بنا کر اس امر واقعی سے جو بہ پایہ ثبوت پہنچ چکا ہے۔ انکار کرنا اسی کا نام جنون اور سودا ہے۔ اگر یہ لوگ عقل خداداد کو ذرا کام میں لاویں۔ تو ان پر

خدا کا رب العالمین ہونا کہ جو ربوبیت تامہ سے مراد ہے برہمو لوگوں کی سمجھ اور عقل سے اب تک چھپا ہوا ہے اور وہ لوگ ربوبیت الٰہیہ کا دنیا پر اس سے زیادہ اثر نہیں سمجھتے کہ اس نے کسی وقت یہؔ تمام عالم معہ اس کی تمام قوتوں اور طاقتوں کے پیدا کیا ہے۔ لیکن اب وہ تمام قوتیں اور طاقتیں مستقل طور پر اپنے اپنے کام میں لگی

خارج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے عرب کے نامی شاعروں کو کہ جن کی عربی مادری زبان تھی اور جو طبعی طور پر اور نیز کسبی طور پر مذاق کلام سے خوب واقف تھے ماننا پڑا کہ قرآن شریف انسانی طاقتوں سے بلند تر ہے اور کچھ عرب پر موقوف نہیں بلکہ خود تم میں سے کئی اندھے تھے کہ جو اس کامل روشنی سے بینا ہوگئے اور کئی بہرے تھے کہ اس سے سننے لگ گئے اور اب بھی وہ روشنی چاروں طرف سے تاریکی کو اٹھاتی جاتی ہے اور قرآن شریف کے انوار حقہ دلوں کو منور کرتے جاتے ہیں۔ واقعی یہ حال ہورہا ہے کہ جس قدرلوگوں کی آنکھیں کھلتی جاتی ہیں۔ اسی قدر قرآن شریف کی عظمت کے قائل ہوتے جاتے ہیں۔ چنانچہ بڑے بڑے متعصب انگریزوں میں سے جو کہ حکیم اور فلاسفر کہلاتے تھے خود بول اٹھے کہ قرآن شریف اپنی فصاحت اور بلاغت میں بے نظیر ہے یہاں تک کہ گاد فری ہیکنس۱؂ صاحب جیسے سرگرم عیسائی کو اپنی کتاب کی دفعہ ۲۲۱ میں لکھنا پڑا کہ حقیقت میں جیسی عالی عبارتیں قرآن میں پائی جاتی ہیں۔ اس سے زیادہ غالباً دنیا بھر میں نہیں مل سکتیں۔ اور ایسا ہی یوٹ۲؂ صاحب کو بمجبوری اپنی کتاب میں یہی گواہی دینی پڑی۔

آریا سماج والے جو خدا کے الہام اور کلام کو وید پر ختم کئے بیٹھے ہیں وہ بھی عیسائیوں کی طرح قرآن شریف کیؔ بے نظیری سے انکار کرکے اپنے وید کی نسبت

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 476

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 476

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/476/mode/1up

ظاہر ہو کہ خودؔ وہ قیاس ہی فاسد ہے اور بعینہ وہ ایسا مقولہ ہے جیسے کوئی نباتات کے خواص دقیقہ سے انکار کرکے یہ کہے کہ اگر خدا نے بالارادہ خلق اللہ کی نفع رسانی کی غرض سے یہ کام کیا ہے کہ انسان کی شفا کے لئے نباتات و جمادات وغیرہ میں طرح طرح کے خواص رکھے ہیں تو پھر ان خواص کو اس قدر تہ در تہ کیوں چھپایا

ہوئی ہیں اور خدائے تعالیٰ کو قدرت نہیں ہے کہ ان میں کچھ تصرف کرے یا کچھ تغیر اور تبدل ظہور میں لاوے۔ اور ان کی زعم باطل میں قوانین نیچریہ کی مستحکم اور پائدار بنیاد نے قادر مطلق کو معطل اور بیکار کی طرح کردیا ہے۔ اور ان میں تصرف کرنے کے لئے کوئی راہ اس پر کھلا نہیں۔ اور ایسی کوئی بھی تدبیر اس کو یاد نہیں۔ جس سے وہ مثلاً

فصاحت بلاغت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ لیکن ہم اس امر کو بار بار غافل لوگوں پر ظاہر کرنا فرض سمجھتے ہیں کہ قرآن شریف کی بے نظیری سے صرف وہ شخص انکار کرسکتا ہے جس کو یہ طاقت ہو کہ جو کچھ قرآن شریف کی وجوہ بے نظیری اس کتاب میں بطور نمونہ درج کی گئی ہیں۔ کسی دوسری کتاب سے نکال کر دکھلاسکے۔ سو اگر آریا سماج والوں کو اپنے وید پر یہ امید ہے کہ وہ قرآن شریف کا مقابلہ کرسکے گا تو انہیں بھی اختیار ہے کہ وید کا زور دکھلاویں۔ مگر صرف دعویٰ ہی دعویٰ کرنا اور اوباشانہ باتیں مونہہ پر لانا نیک طینت آدمیوں کا کام نہیں۔ انسان کی ساری شرافت اور عقل اس میں ہے کہ اگر اپنے دعویٰ پر کوئی دلیل ہو تو پیش کرے۔ ورنہ ایسا دعویٰ کرنے سے ہی زبان بند رکھے۔ جس کا ماحصل بجز فضول گوئی و ژاژخائی اور کچھ بھی نہیں۔ سمجھنا چاہئے کہ قرآن شریف کی بلاغت ایک پاک اور مقدس بلاغت ہے۔ جس کا مقصد اعلیٰ یہ ہے کہ حکمت اور راستی کی روشنی کو فصیح کلام میں بیان کرکے تمام حقائق اور دقائق علم دین ایک موجز اور مدلل عبارت میں بھر دیئے جائیں۔ اور جہاں تفصیل کی اشد ضرورت ہو۔ وہاں تفصیل ہو۔ اور جہاں اجمال کافی ہو۔ وہاں اجمال ہو اور کوئی صداقت دینی ایسی نہ ہو جس کا مفصلاً یا مجملاً ذکر نہ کیا جائے اور

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 477

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 477

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/477/mode/1up

کہ ان کی ناواقفیت سے ایک زمانۂ درازؔ تک لوگ بے علاج ہی مرتے رہے اور اب تک جمیع خواص مخفیہ پر احاطہ نہ ہوا۔ لیکن ظاہر ہے کہ بعد تحقق خدا کے عام قانون کے(جو کہ زمین و آسمان میں ایک ہی طرز پر پایا جاتا ہے)

کسی مادہ حار کو اس کی تاثیر حرارت سے روک سکے یا ؔ کسی مادہ بارد کو اس کی برودت کے اثروں سے بند کرسکے یا آگ میں اس کی خاصیت احراق کی ظاہر نہ ہونے دے۔ اور اگر اس کو کوئی تدبیر یاد بھی ہے تو صرف انہیں حدود تک جن پر علم انسان کا محیط ہے اس سے زیادہ نہیں یعنی جو کچھ محدود اور محصور طور پر کوائف و خواص

باوصف اس کے ضرورت حقہ کے تقاضا سے ذکر ہونہ غیر ضروری طورؔ پر اور پھر کلام بھی ایسا فصیح اور سلیس اور متین ہو کہ جس سے بہتر بنانا ہرگز کسی کے لئے ممکن نہ ہو۔ اور پھر وہ کلام روحانی برکات بھی اپنے ہمراہ رکھتا ہو۔ یہی قرآن شریف کا دعویٰ ہے جس کو اس نے آپ ثابت کردیا ہے۔ اور اور جابجا فرما بھی دیا ہے کہ کسی مخلوق کے لئے ممکن نہیں کہ اس کی نظیر بناسکے۔ اب جو شخص منصفانہ طور پر بحث کرنا چاہتا ہے۔ اس پر یہ امر پوشیدہ نہیں کہ قرآن شریف کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے ایسی کتاب کا پیش کرنا ضروری ہے جس میں وہی خوبیاں پائی جائیں جو اس میں پائی جاتی ہیں۔ سچ ہے کہ وید میں شاعرانہ تلازمات پائے جاتے ہیں اور شاعروں کی طرح انواع اقسام کے استعارات بھی موجود ہیں۔ مثلاً رگ وید میں ایک جگہ آگ کو ایک دولتمند فرض کرلیا ہے جس کے پاس بہت سے جواہرات ہیں اور اس کی روشنی کو جوہرِ تاباں سے تشبیہ دی ہے۔ بعض جگہ اس کو ایک سپہ سالار مقرر کیا ہے جس کی کالی جھنڈی ہے۔ اور دھوئیں کو جو آگ پر اٹھتا ہے ایک علم سیہ ٹھہرا لیا ہے۔ ایک جگہ اس حرارت کو جو بخارات مائی کو اٹھاتی ہے چور مقرر کیا ہے اور اس کا نام بلحاظ قوت ماسکہ ورترا رکھا ہے اور بخارات کو گوین ٹھہرایا ہے اور اندر جس سے وید میں آسمان کا فضا اور خاص کرکے کرہ زمہریر مراد ہے۔ اس کو اس مثال میں قصاب سے تشبیہ دی ہے۔ اور لکھا ہے کہ جس طرح قصاب گائے کے گوشت کو ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے۔

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 478

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 478

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/478/mode/1up

ایسے ایسے شبہات میں مبتلا ہونا انہیں لوگوں کا کام ہے جو قوانین قدرتیہ میں ذرہ غورؔ نہیں کرتے۔ اور قبل اس کے کہ خدا کی صفات اور عادات کو(جس طرز سے وہ آئینہ فطرت میں ظاہر ہورہی ہیں) بخوبی دریافت کریں پہلے ہی اس کی ذات

عالم کے متعلق انسان نے دریافت کیا ہے اور جو کچھ تاؔ دم حال بشری تجارب کے احاطہ میں آچکا ہے یہیں تک خدا کی قدرتوں کی حد بست ہے اور اس سے بڑھ کر اس کی قدرت تامہ اور ربوبیت عامہ کوئی کام نہیں کرسکتی گویا خدا کی قدرتیں اور حکمتیں ہمگی تمامی یہی ہیں جن کو انسان دریافت کرچکا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ اعتقاد ربوبیت تامہ اور

اسی طرح اندرنے ورترا کے سر پر ایسا بجر مارا جو اسے ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور پانی قطرہ قطرہ ہوکر بہ نکلا لیکن ظاہر ہے کہ اس قسم کے تلازمات کو قرآن شریف سے کچھ بھی مناسبت نہیںؔ صرف شاعرانہ خیالات ہیں اور پھر بھی ایسے قابل تعریف و باوقعت نہیں بلکہ اکثر مقامات سخت نکتہ چینی کے لائق ہیں۔ مثلاً استعارۂ مذکورہ بالا جس میں اندرکو ایک بوچڑ سے تشبیہ دی ہے جس کا کام گائے کا گوشت فروخت کرنا ہے۔ یہ ایک ایسا مضمون ہے کہ جو لطیف طبع شاعروں کے کلام میں ہرگز نہیں آسکتا۔ کیونکہ شاعر کو یہ بھی خیال کرلینا لازم ہے کہ میرے اس مضمون سے عام لوگ کراہت تو نہیں کریں گے مگر اس شرتی میں یہ خیال نظر انداز ہوگیا ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ ہندو لوگ جو وید کے مخاطب ہیں وہ گائے کے گوشت کا نام سننے سے متنفر ہیں اور ان کی طبیعتوں پر ایسا ذکر سخت گراں گذرتا ہے۔ اور پھر اندر کو جو وید میں ایک بزرگ دیوتا مقرر ہوچکا ہے بوچڑ سے تشبیہ دینا اور بعد بزرگ قرار دینے کے پھر اس کی ہجو ملیح کرنا شائستگی کلام سے بعید اور ایک طرح کی بے ادبی ہے۔ ماسوا اس کے اس تشبیہ میں ایک اور بھی نقص ہے۔ وہ یہ ہے کہ تشبیہ اس امر میں چاہئے کہ مشہور اور معروف ہو۔ پس یہ کہنا کہ اندرنے ورترا کو ایسا ٹکڑے ٹکڑے کردیا جیسے بوچڑ گائے کے گوشت کے ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے۔ یہ تشبیہ فن بلاغت کے رو سے تب درست بیٹھتی ہے کہ جب یہ ثابت ہوکہ وید کے زمانہ میں عام طور پر گائے کا گوشت بازاروں میں بکتا تھا اور بوچڑ لوگ ٹکڑے ٹکڑے کرکے وہ گوشت آریا

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 479

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 479

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/479/mode/1up

اور اس کی صفات کا حلیہ لکھنے بیٹھ جاتے ہیں۔ ورنہ اگر انسان ذرا بھی آنکھ کھول کر ہریک طرف نظر ڈالے تو عادت اللہ کسی ایکؔ یا دو چیز میں محصور نہیں اور نہ ایسی پوشیدہ ہے جس کا سمجھنا مشکل ہو۔ بلکہ یہ بات اجلیٰ بدیہات ہے کہ جواہر لطیفہ اور مصنوعات عالیہ

قدرت کاملہ کے مفہوم سے بکلی منافیؔ ہے۔ کیونکہ ربوبیت تامہ اور قدرت کاملہ وہ ہے کہ جو اس ذات غیر محدود کی طرح غیر محدود ہے اور کوئی انسانی قاعدہ اور قانون اس پر احاطہ نہیں کرسکتا۔

لوگوں کو دیتے تھے مگر حال کے آریا لوگ ہرگز اس کے قائل نہیں۔ اب ظاہر ہے کہ کلام میں ایسی تشبیہ بیان کرنا جس کا خارج میں وجود ہی نہیں بلکہ جس سے لوگ متنفر ہیں دائر ۂفصاحت بلاغت سے بالکل خارج ہے۔ اگر ایک لڑکا بھی اپنے کلام میں ایسی تشبیہ بیان کرے تو وہ دانشمندوں کے نزدیک قابل ملامت اور سادہ لوح ٹھہرتا ہے۔ کیونکہ تشبیہ کا لطف تب ہی ظاہر ہوتا ہے کہ جب مشابہت ایسی ظاہر ہو کہ جس چیز سے تشبیہ دی گئی ہے سامعین اسؔ سے بخوبی واقفیت رکھتے ہوں اور ان کی نظر میں وہ چیز بدیہی الظہور اور مسلم الوجود ہو۔ اور نیز ان کی طبیعتیں بھی اس کے ذکر سے کراہت نہ کرتی ہوں لیکن کون ثابت کرسکتا ہے کہ وید کے زمانہ میں ہندوؤں میں گائے کا گوشت بیچنا اور خریدنا اور کھانا ایک عام رواج تھا جس سے آریا قوم کو نفرت نہ تھی۔ اور اگر یہ بھی خیال کیا جائے کہ خود وید کا ہی ذکر کرنا اس رواج پر ثبوت ہے تو ایسا خیال کرنے سے بھی بکلّی اعتراض مرتفع نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ گائے کے لہو اور گوشت سے پانی کو عمدہ مشابہت حاصل نہیں۔ ہاں گائے کے دودھ کو مصفا پانی سے مشابہت حاصل ہے۔ سو اگر مثلاً رگ وید سنتھااشتک اول سکت ۶۱ کی یہ شرتی جس میں یہ لکھا ہے اے اندرورترا پر اپنا بجر چلا اور اسے ایسا ٹکڑے ٹکڑے کر جیسے بوچڑ گائے کے ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے۔ اس طرح پر ہوتے کہ جب اندرنے اپنے بجر سے ورترا کو دبایا۔ تو اس میں

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 480

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 480

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/480/mode/1up

تویک طرف رہے۔ ایک ادنیٰ مکھی بھی(جو حقیر اور ذلیل اور مکروہ جانور ہے) اس قانون قدرت سے باہر نہیں۔ تو پھر نعوذ باللہ کیاؔ یہ گمان ہوسکتا ہے کہ خدا کا کلام کہ جو اس کی ذات کی طرح مقدّس اور کمال رنگ سے رنگین چاہئے۔ ایسا

نہیں محصور ہرگز راستہ قدرت نمائی کا خدا کی قدرتوں کا حصر دعویٰ ہے خدائی کا

جاننا چاہئے کہ جو امر غیر محدود اورؔ غیر محصور ہے وہ کسی قانون کے اندر آہی نہیں سکتا۔ کیونکہ جو چیز اول سے آخر تک قواعد معلومہ مفہومہ کے سلسلہ کے اندر داخل ہو اور کوئی جز

سے اس طرح پر پانی بہہ نکلا جیسے شیردار گائے کا پستان دبانے سے دودھ بہ نکلتا ہے۔ تو وہ تلازم جس کا بیان کرنا مقصود تھا وہ بھی قائم رہتا اور تشبیہ بھی نہایت مطابق آجاتی۔ ماسوا اس کے کسی طبیعت کو اس تشبیہ سے نفرت بھی نہیں کیونکہ ہندو لوگ بھی بلادغدغہ گائے کا دودھ پی لیتے ہیں۔

قطع نظر ان سب باتوں کے ایسے شاعرانہ تلازمات میں ہماری بحث ہی نہیں اور قرآن شریف کے سامنے ان لغویات کا ذکر کرنا ایک بیہودہ حرکت اور ناحق کی درد سر ہے۔ جس بلاغت حقیقی کو قرآن شریف پیش کرتا ہے وہ تو ایک دوسرا ہی عالم ہے جس سے لغو اور جھوٹ اور بیہودہ باتوں کو کچھ بھی تعلق نہیں بلکہ حکمت اور معرفت کے بے انتہا دریا کو اقل اور ادل عبارت میں بالتزام فصاحت و بلاغت بیان کیاہےؔ اور جمیع دقائق الٰہیات پر احاطہ کرکے ایسا کمال دکھلایا ہے جس سے انسانی قوتیں عاجز ہیں۔ لیکن وید کی نسبت کیا کہیں اور کیا لکھیں اور کیا تحریر میں لاویں جس میں بجائے حقائق و معارف کے طرح طرح کے گمراہ کرنے والے مضمون موجود ہیں۔ کروڑہا بندگان خدا کو مخلوق پرستی کی طرف کس نے جھکایا؟ وید نے۔ آریوں کو صدہا دیوتاؤں کا پرستار کس نے بنایا؟ وید نے۔ کیا اس میں کوئی ایسی شرتی بھی ہے جو کہ صاف صاف اور واشگاف طور پر مخلوق پرستی سے منع کرے، اور سورج چاند وغیرہ کی پرستش سے روکے اور ان تمام شرتیوں کو جو مخلوق پرستی کی تعلیم پر مشتمل ہیں محل اعتراض ٹھہراوے۔ کوئی بھی نہیں۔ پھر وہ بلاغت

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 481

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 481

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/481/mode/1up

اَدنیٰ اور اَرذل ہے کہ دقائق مخفیہ میں ایک مکھی کے مرتبہ تک بھی نہیں پہنچتا۔ اور اس جگہ یہ بھی واضح رہے کہ خدا نے ضروریات دین میں سے کسی امر کا اخفاؔ نہیں کیا۔ اور دقائق عمیقہ وہ دقائق ہیں جو ماسوا اصل اعتقاد کے بالائی امور

اُس کا اِس سلسلہ سے باہر نہ ہو اور نہ غیر معلوم اور نامفہوم ہو تو وہ چیز محدود ہوتی ہے۔ اب اگر خدائے تعالیٰ کی قدرت کاملہ و ربوبیت تامہ کو قوانین محدودہ محصورہ میں ہی منحصر سمجھاؔ جائے۔ تو جس چیز کو غیر محدود تسلیم کیا گیا ہے۔ اس کا محدود

جو حق اور حکمت کی روشنی دکھلانے پر منحصر ہے کیونکر اس کو نصیب ہوسکتی ہے۔ کیا ہم ایسے کلام کو بلیغ کہہ سکتے ہیں جس کی نسبت دعویٰ تو یہ کیا جاتا ہے کہ اس کا مقصود اصلی شرک کا مٹانا اور توحید کا قائم کرنا ہے۔ لیکن وہ گونگوں کی طرح اس دعویٰ کو بہ پایہ صداقت پہنچانے سے عاجز رہاہے۔ ہرایک عاقل جانتا ہے کہ وجوہ بلاغت میں سے نہایت ضروری ایک یہ وجہ ہے کہ جس بات کا ظاہر کرنا اور کھولنا مقصود ہو اس کو اس طرح کھول کر بتلایا جاوے کہ طالب حق کی تسلی کے لئے کافی ہو اور سب کو معلوم ہے کہ وہی شخص فصیح کہلاتا ہے جو کہ اپنے مطلب کو ایسے عمدہ طور پر ادا کرے کہ گویا اپنے مافی الضمیر کا نقشہ کھینچ کر دکھلاوے۔ اب اگر آریا صاحبوں کا دعویٰ یہ ہوتا کہ وید کا اصلی مطلب مخلوق پرستی کی تعلیم ہے۔ تو شاید اس کی نسبت گمان ہوسکتا کہ وہ بلاغت کے درجہ سے بکلّی ساقط نہیں۔ کیونکہ گو وید نے حقیقی بلاغت کے مذاق پر مخلوق پرستی پر کوئی دلیل بیان نہیں کی اور اس کو ثابت کرکے نہیں دکھلایا۔ مگر تاہم واضح کلام سے کہ بلاغت کیؔ ایک جز ہے اپنا منشاء دیوتاؤں کی پوجا کی نسبت کھول کر بیان کردیا اور اگنی اور وایو اور اندر وغیرہ کی تعریف میں صدہا منتر جنتر بنا ڈالے۔ اور ان چیزوں سے گوئیں اور گھوڑے اور بہت سا مال بھی مانگا۔ لیکن اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ وید نے اپنی قوت بیانی اور کمال بلاغت سے توحید کے بیان کرنے میں زور لگایا ہے اور مشرکین کے اوہام اور وساوس کو دلائل واضحہ سے مٹایا ہے اور جو جو براہین اقامت توحید اور ازالۂ شرک

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 482

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 482

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/482/mode/1up

ہیں اور ان نفوس کے لئے مقرر کئے گئے ہیں جن میں صلاحیت اور استعداد تحصیل کمالات فاضلہ کی پائی جاتی ہے۔ اور جو لوگ ہریک غبی اور بلید کی طرح ان مسائل پر کفایت کرنا نہیں چاہتےؔ وہ بذریعہ ان دقائق کے

ہونا لازم آجائے گا۔ پس برہمو سماج والوں کی یہی بھاری غلطی ہے کہ وہ خدائے تعالیٰ کی غیر متناہی قدرتوں اور ربوبیتوں کو اپنے تنگ اور منقبض تجارب کے دائرہ میں گھسیڑنا چاہتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ جو امور ایک قانون مشخص مقرر کے نیچے

کے لئے ضروری ہیں۔ وہ سب بیان کئے ہیں اور وحدانیت الٰہی کو ثابت کرکے دکھلایا ہے۔ اور آگ وغیرہ کی پرستش سے منع کیا ہے تو یہ دعویٰ کسی طرح سرسبز نہیں ہوسکتا۔ کون اس بات کو نہیں جانتا کہ وید کے مضمون اسی کی طرف جھکے ہوئے ہیں کہ تم آگ کی پرستش کرو۔ اندر کے بھجن گاؤ۔ سورج کے آگے ہاتھ جوڑو۔ اب ظاہر ہے کہ جس حالت میں بقول تمہارے وید کا یہ منشاء تھا کہ توحید کو بیان کرے اور سورج چاند وغیرہ کی پرستش سے روکے اور مشرکوں کو توحید کے درجہ تک پہنچاوے اور بگڑے ہوئے لوگوں کو اصلاح پر لاوے اور مخلوق پرستوں کو خدا پرست بناوے اور اہل شرک کے تمام وساوس مٹاوے۔ لیکن بجائے اس کے کہ وہ اپنے اس منشاء کو پورا کرتا۔ جابجا اس کے بیان سے مخلوق پرستی کی تعلیم جمتی گئی، جس تعلیم نے کروڑوں کی کشتی کو ڈبویا۔ لاکھوں کو ورطۂ شرک و کفر میں غرق کیا۔ ایک جگہ بھی مونہہ کھول کر وید نے بیان نہ کیا کہ مخلوق پرستی سے باز آجاؤ۔ آگ وغیرہ کی پوجا مت کرو۔ بجز خدا کے اور کسی چیز سے مرادیں مت مانگو۔ خدا کو بے مثل و مانند سمجھو۔ اس صورت میں ہریک عاقل آپ ہی انصاف کرے کہ کیا فصیح کلام کی یہی نشانیاں ہوا کرتی ہیں کہ مافی الضمیر کچھ ہے اور مونہہ سے کچھ اور ہی نکلتا جاتا ہے۔ اس قدر لغو بیانی تو مجانین اور مسلوب الحواسوں کے کلام میں بھی نہیں ہوتی۔ وہ بھیؔ اس قدر قوت بیانی رکھتے ہیں کہ اپنا دلی منشاء ظاہر کردیتے ہیں۔ جب پانی کی خواہش ہوآگ نہیں مانگتے اور اگر روٹی کی طلب ہو تو پتھر نہیں طلب کرتے۔ مگر میں حیران ہوں کہ وید کی

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 483

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 483

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/483/mode/1up

حکمت اور معرفت میں ترقی کرتے ہیں اور حق الیقین کے اس بلند مینار تک پہنچ جاتے ہیں جو انسانی استعدادوں کے لئے اقصیٰ مراتب سے ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اگر اسرارِ علمیہ سارے کے سارے بدیہات ہی ہوتے تو پھر دانا اور

آجائیں۔ ان کا مفہوم محدود ہونے کو لازمؔ پڑا ہوا ہے۔ اور جو حکمتیں اور قدرتیں ذات غیر محدود میں پائی جاتی ہیں۔ ان کا غیر محدود ہونا واجب ہے۔ کیا کوئی دانا کہہ سکتا ہے کہ اس ذات قادر مطلق کو اس اس طور پر بنانا یاد ہے اور اس سے زیادہ نہیں۔ کیا اس کی غیر متناہی قدرتیں انسانی قیاس کے پیمانہ سے وزن کی جاسکتی ہیں یا اس کی

بلاغت کس قسم کی بلاغت ہے جس کا منشاء تو توحید تھا مگر برخلاف اس کے صدہا دیوتاؤں کا جھگڑا شروع کردیا جو کلام اپنا منشاء ظاہر کرنے سے بھی عاجز ہے خدا نہ کرے کہ وہ فصیح و بلیغ ہو۔ کلام بلیغ میں ایسی خرابی کب پڑسکتی ہے کہ جو امر اصل مقصود بالذات ہو۔ وہی صفائی اور شائستگی سے بیان نہ ہوسکے۔ بلاغت کی اول شرط یہی ہے کہ متکلم اپنا مافی الضمیر ظاہر کرنے پر بخوبی قادر ہو اور جس امر کو ظاہر کرنا چاہے ایسا صفائی سے ظاہر کرے کہ کوئی اشتباہ باقی نہ رہ جائے۔ گونگوں کی طرح مبہم اور بے سروپا بات نہ کہے۔ ہاں جس بات کو مخفی رکھنا اور بطور اسرار بیان کرنا مصلحت ہو۔ اس کو مخفی طور پر بیان کرنا ہی بلاغت ہے۔ مگر توحید جس سے کل معاملہ نجات کا وابستہ ہے ایسا امر نہیں ہے جس کو مخفی رکھنا جائز ہو۔ پس یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ وید نے بالارادہ مضمون توحید کو چیستوں اور پہیلیوں کی طرح بیان کیا ہے اور دانستہ دھوکا دینے والی عبارتیں درج کی ہیں۔ کیونکہ اس سے یہ ماننا پڑے گا کہ وید نے عمداً چندیں کروڑ آدمیوں کو ورطہ ہلاکت میں ڈالنا چاہا اور جان بوجھ کر ایسی عبارتیں لکھی ہیں۔ جن کے پڑھنے سے مخلوق پرستی کی تعلیم پھیلتی ہے۔ بلکہ اس صورت میں عام ہندوؤں کی یہ رائے درست ہوگی کہ وید کا دلی منشاء یہی تھا کہ آریا قوم کو دیوتاؤں کا پجاری بناوے۔ اور اگر وید کا دلی ارادہ مخلوق پرستی کے برخلاف سمجھیں

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 484

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 484

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/484/mode/1up

نادان میںؔ فرق کیا ہوتا۔ اس طور سے تو سارے علم ہی برباد ہوجاتے۔ اور جو عمدہ معیار استعدادوں کی شناخت کے لئے ہے اور جس ذریعہ سے انسان کی قوت نظریہ بڑھتی ہے اور استکمالِ نفس ہوتا ہے وہ مفقود ہوجاتا۔ اور جب وہ

قادرانہ اور غیر متناہی حکمتیںؔ تصرف فی العالم سے کسی وقت عاجز ہوسکتی ہیں۔ بلاشبہ اس کا پرزور ہاتھ ذرہ ذرہ پر قابض ہے اور کسی مخلوق کا قیام اور بقا اپنی مستحکم پیدائش کے موجب سے نہیں۔ بلکہ اسی کے سہارے اور آسرے سے ہے اور اس کی ربانی طاقتوں

توپھر یہ کہنا پڑے گا کہ اس کو بات کرنے کا سلیقہ بالکل یاد نہیں اور اس میں یہ لیاقت ہی نہیں کہ اپنے منشاء کو مخاطبین پر اچھی طرح ظاہر کرسکے تو اس صورت میں وید کا بلاغت کے مرتبہ سے ساقط ہونا ایسا ظاہرؔ ہے کہ حاجتِ بیان نہیں۔ ایسے کلام کسی عاقل کے نزدیک بلیغ و فصیح نہیں کہلاسکتے جس کے الفاظ معانی پر دلالت نہیں کرتے بلکہ برخلاف مراد اور اور مفاسد کی طرف کھینچتے ہیں۔ جس شرتی پر نظر ڈال کر دیکھو بجائے رہبری کے رہزنی کررہی ہے۔ یہ خوب بلاغت ہے اور عجب فصاحت مافی الضمیر سمجھانے کا طریق بھی وید ہی پر ختم ہے۔ یوں تو کسی صاحب کو شاید یقین نہ آوے مگر ہم بطور نمونہ رگوید میں سے جو کہ سب ویدوں میں اعلیٰ اور افضل شمار کیا جاتا ہے۔ کسی قدر ایسی شرتیاں لکھتے ہیں جن کی نسبت آریاؤں کا خیال ہے کہ ان میں توحید کی تعلیم ہے۔ اور پھر بعد اس کے کسی قدر بطور نمونہ وہ آیات لکھیں گے جو کہ قرآن شریف نے توحید کے بارے میں لکھی ہیں تا ہریک کو معلوم ہو کہ وید اور فرقان میں سے کس نے مسئلہ توحید کو صفائی و شائستگی و پرزور بیان اور بلیغ تقریر میں بیان کیا ہے اور کس کا بیان مہمل اور بے سروپا اور طرح طرح کے شکوک و شبہات میں ڈالتا ہے۔ کیونکہ جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں۔ بلاغت کے آزمانے کے لئے یہی سہل طریق ہے کہ جن دو کلاموں کا موازنہ و مقابلہ منظور ہو۔ ان کی قوت بیانی کو دیکھا جائے کہ کس مرتبہ تک ہے اور اپنے فرض منصبی کے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 485

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 485

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/485/mode/1up

ذریعہ ہی مفقود ہوجاتا تو پھر انسان کن امور میں نظر اورؔ فکر کرتا۔ اور اگر وہ نظر اور فکر نہ کرتا تو ایک حدّ معلوم اور محدود پر اس کو بھی مثل اور جانداروں کے ٹھہرنا پڑتا اور ترقیات غیر متناہی کی قابلیت نہ رکھتا۔ پس اس صورت میں

کے آگے بے شمار میدان قدرتوں کے پڑے ہیں۔ نہ اندرونی طور پر کسی جگہ انتہاؔ ہے اور نہ بیرونی طور پر کوئی کنارہ ہے۔ جس طرح یہ ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ ایک مشتعل آگ کی تیزی فرو کرنے کے لئے خارج میں کوئی ایسے اسباب پیدا کرے جن سے اس آگ کی تیزی جاتی رہے۔اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ اُس آگ کی خاصیّت

ادا کرنے کے لئے کیسی کیسی موشگافی و دقیقہ رسی انہوں نے کی ہے اور کہاں تک اپنے مدلل و موجز بیان سے جہل کی تاریکی کو اٹھانے کے لئے علم کی روشنی دکھلائی ہے اور وحدانیت الٰہی کی خوبیاں اور شرک کی قباحتیں ظاہر کی ہیں۔ لیکن اگر کسی کو یہ شک ہو کہ شاید رگ وید میں ایسی شرتیاں بھی ہوں گی، جو کہ بیان توحید میں قرآن شریف کا مقابلہ کرسکیں تو اسے اختیار ہے کہ وہی شرتیاں بید مذکور سے بیان کرے تا آریہ لوگ جو رگوید رگوید کررہے ہیں سب ویدوں سے پہلے اسی کا فیصلہ ہوجائے۔ اس جگہ یہ بھی یاد رہے کہ قرآن شریف کی بے نظیر بلاغت اورؔ اس کے ہزارہا دقائق وحقائق جن کے مقابلہ پر انسانی قوتیں ساقط و عاجز ہیں اپنے موقعہ پر ذکر کئے جائیں گے اس جگہ صرف بعض آریوں کے اصرار سے جو کہ بمقابلہ قرآن شریف وید کی بلاغت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ کسی قدر آیات قرآنی اس غرض سے لکھی جاتی ہیں تاکہ ان کی زبان درازی کو ایسے آسان طور پر روکا جائے جس سے منصفین پر وید کا بالکل ہیچ اور ناچیز ہونا کھل جائے اور یہ بات ظاہر ہوجائے کہ وید میں اس قدر قوت بیانی بھی نہیں کہ وہ اپنے منشاء مراد کو صفائی سے بیان کرسکے چہ جائیکہ اس کو قرآن شریف کی اعلیٰ بلاغتوں کے ساتھ دم مارنے کی طاقت ہو کیونکہ اس موقعہ سے ہریک منصف سمجھ سکتا ہے کہ جو کتاب اپنے مطلب کو صفائی سے بھی بیان نہیں کرسکتی اس پر اور مراتب بلاغت و فصاحت

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 486

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 486

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/486/mode/1up

جس سعادت کے لئے وہ پیدا کیا گیا تھا اس سعادت سے محروم رہ جاتا۔ سو جس خدا نے انسان کو نظر اورؔ فکر کرنے کی قوتیں عنایت کیں ہیں اور اس کو ایک کمال حاصل کرنے کی استعداد بخشی ہے اس کی نسبت یہ کیونکر بدگمان کیا جائے

احراق دور کرنے کے لئے اُسی کے وجود میں کوئی ایسے اسباب پیدا کردے۔ جن سے خاؔ صیت احراق دور ہوجائے۔ کیونکہ اُس کی غیرمتناہی حکمتوں اور قدرتوں کے آگے کوئی بات اَن ہونی نہیں۔ اور جب ہم اُس کی حکمتوں اور قدرتوں کو غیر متناہی

کی توقع رکھنا کمال حماقت ہے۔ اگر وید اس سہل اور آسان طریق میں مقابلہ قرآن شریف کرسکے گا تو پھر شاید وہ ان دقائق قرآنیہ میں بھی مقابلہ کرسکے جن میں قرآن شریف کا یہ دعویٰ ہے کہ اس کے مقابلہ سے دوسری تمام کتابیں عاجز ہیں۔ لیکن اگر اسی جگہ آریا صاحبوں کا وید مردہ کی طرح بے حس و حرکت رہ گیا اور ایک ذرہ سی بات میں بھی قرآن شریف کے سامنے دم نہ مارسکا تو پھر ایسے وید پر ناز کرکے یہ خیال کرنا کہ وہ قرآن شریف کے اعلیٰ حقائق و دقائق کا مقابلہ کرلے گا کمال درجہ کی نادانی ہے۔ اور اس جگہ یہ بھی ناظرین پر ظاہر کیا جاتا ہے کہ چونکہ محققین ہنود نے اپنشدوں کو ویدوں میں داخل نہیں سمجھا اور نہ اپنے پرمیشر کا کلام ان کو قرار دیا ہے۔ بلکہ صاف صاف یہ رائے ظاہر کی ہے کہ وہ بعض لوگوں کے اپنے ہی خیالات ہیں جیسا کہ پنڈت دیانند کی بھی یہی رائے ہے اور تمام نامی اور لائق فائق پنڈت اسی رائے پر متفق ہیں۔ اس لئے غیر ضروری معلوم ہوا کہ اپنشدوں کے مضامین کی تفتیش کی جائے۔ کیونکہؔ جب وہ عبارتیں وید میں داخل ہی نہیں ہیں۔ بلکہ باقرار پنڈت دیانند اور دوسرے محققین کے وید کی تعلیم کے مطابق بھی نہیں۔ ایک فضول اور بے تعلق حواشی ہیں کہ جو بعض ناسمجھ برہمنوں نے پیچھے سے چڑھا دیئے ہیں۔ تو اس صورت میں گو اپنشدوں میں کیسی ہی غلطیاں کیوں نہ ہوں مگر اس جگہ ان کا بیان کرنا محض طول بلاطائل ہے۔ ہاں خالص ویدوں میں سے جن کو آریہ لوگ اپنے پرمیشر کا کلام اور ست ودیانوں کا پستک سمجھ رہے ہیں۔

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 487

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 487

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/487/mode/1up

کہ وہ اپنی کتاب نازل کرکے انسان کو کسی کمال تک پہنچانا نہیں چاہتا بلکہ کمال سے روکتا ہے۔ کیا یہ بات سچ نہیں ہے کہ خدا نے اپنے کلامؔ کو اس لئے بھیجا ہے کہ تا انسانوں کو ظلمات سے نور کی طرف نکالے۔ پس اگر خدا کی کتاب ظلمتوں

مان چکے تو ہم پر یہ بھی فرض ہے کہ ہم اِس بات کو بھی مان لیں کہ اس کی تمام حکمتوں اور قدرتوں پر ہم کو علم حاصل ہونا ممتنع اور محال ہے۔ سو ہم اس کی ناپیدا کنار حکمتوں اور قدرتوں کے ؔ لئے کوئی قانون نہیں بناسکتے۔ اور جس چیز کی حدود ہمیں معلوم ہی نہیں اُس کی پیمائش کرنے سے ہم عاجز ہیں۔ ہم بنی آدم کی دنیا کا نہایت ہی تنگ اور

کسی قدر شرتیاں بطور نمونہ بیان کرنا قرین مصلحت ہے۔ سو ہم رگوید میں سے کئی ایک شرتیاں جن کی نسبت آریوں کا خیال ہے کہ توحید کی تعلیم دیتے ہیں ذیل میں لکھتے ہیں اور وہ یہ ہیں۔

میں اگنی دیوتا کی جو ہوم کا بڑاکرد کارکن اور دیوتاؤں کو نذریں پہنچانے والا اور بڑا ثروت والا ہے مہما کرتا ہے۔ ایسا ہو کہ اگنی جس کا مہما زمانہ قدیم اور زمانہ حال کے رشی کرتے چلے آئے ہیں دیوتاؤں کو اس طرف متوجہ کرے۔ اے اگنی جو کہ دو لکڑیوں کے باہم رگڑنے سے پیدا ہوئی ہے اس پاک کٹے ہوئے کشاپر دیوتاؤں کو لا۔ تو ہماری جانب سے ان کا بلانے والا ہے اور تیری پرستش ہوتی ہے۔ اے اگنی آج ہماری خوش ذائقہ قربانی دیوتاؤں کو ان کے کھانے کے واسطے پیش کر۔ اے اگنی وایو سورج وغیرہ دیوتاؤں کو ہماری نذر پیش کر۔ اے بے عیب اگنی تو منجملہ اور دیوتاؤں کے ایک ہوشیار دیوتا ہے تو اپنے والدین کے پاس رہتا ہے اور ہمیں اولاد عطا کرتا ہے تمام دولتوں کا تو ہی بخشنے والا ہے۔ اگنی کا مبارک نام لے کر پکارو جو کہ سب سے پہلا دیوتا ہے۔ اے اگنی سرخ گھوڑوں کے سوامی ہمارے استت سے پرسن ہو تینتیس دیوتاؤں کو یہاں لا۔ اے اگنی جیسا کہ تو ہے لوگ اپنے گھروں میں تجھے محفوظ جگہ میں ہمیشہ روشن کرتےؔ ہیں۔ تو جو سب کی زندگانی کا باعث ہے ہمارے فائدہ کے لئے دولت والا ہو جا۔ اے عاقل اگنی تو نپاپت

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 488

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 488

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/488/mode/1up

سے نہیں نکال سکتی بلکہ ارسطو اور افلاطون کی کتابیں نکال سکتی ہیں۔ تو پھر کیا خدا کا یہ فرمانا کہ ساری تاریکیوں سے میری کتاب ہی نجات دیتی ہے نرا دعویٰ ہی ہوا۔ جب ایک باتؔ کی سچائی تجربہ اور قیاس سے بالکل کھل جائے تو اس کے سامنے

چھوٹا سا دائرہ ہیں اور پھر اس دائرہ کا بھی پورا پورا ہمیں علم حاصل نہیں۔ پس اس صورت میں ہماری نہایت ہی کم ظرفی اور سفاہت ہے کہ ہم اس اقل قلیل پیمانہ سے خدائے تعالیٰ کی غیر محدودؔ حکمتوں اور قدرتوں کو ناپنے لگیں غرض خدائے تعالیٰ کی ربوبیّت تامہ اور

ہے یعنی اپنے جسم کا آپ جلانے والا ہے آج ہماری خوش ذائقہ قربانی دیوتاؤں کو ان کے کھانے کے لئے پیش کر۔ اگنی دیوتا جو کہ ہمیشہ جوان رہتا ہے بڑا عاقل ہے۔ اور یگ کرنے والے کے گھر کا محافظ ہے اور نذروں کا لے جانے والا ہے جس کا مونہہ دیوتاؤں تک نذریں پہنچانے کا وسیلہ ہے اور گھر کی آگ سے روشن ہوا ہے۔ لازوال اگنی اپنی خوراک کو اپنی لاٹ سے ملا کر اور اس کو جلدی سے تناول کرکے خشک لکڑی پر چڑھ گئی ہے جلانے والے عنصر کا شعلہ چالاک گھوڑے کی مانند پھلتا ہے اور بادل کی مانند بلند ہوکر گرجتا ہے۔ اے اگنی یگ جس کو کوئی نہیں روک سکتا اور جس کی تو ہر طرف سے رکشا کرنے والا ہے دیوتاؤں کو پہنچتا ہے۔ اے اگنی جس قدر تیرے سے ہوسکے اپنی نذر دینے والے کو فائدہ پہنچا۔ وہ یقیناً تیرے ہی پاس اے اینگرا واپس آوے گا۔ اگنی کے وسیلہ سے پوجاری کو ایسی آسودگی حاصل ہوتی ہے جو روزبروز بڑھتی جاتی ہے اور جو شہرت کا چشمہ اور انسان کی نسل بڑھانے والی ہے۔ اے اندر اے وایو یہ ارگ تمہارے واسطے چھڑکا گیا ہے ہمارے واسطے کھانا لے کر ادھر آؤ۔ اے اندر جس کی استت سب کرتے ہیں ایسا ہو کہ پھیلنے والے سوم کارس تیرے میں سرایت کرے اور تجھے فہم برتر حاصل کرنے کے لئے موافق ہو۔ جو کچھ عمدہ تعریفیں اور دیوتاؤں کی ہوسکتی ہیں۔ ان سب کا اندر بھی مستحق ہے۔ جو لوگ اندر کا دھیان کرتے ہیں خواہ لڑائی میں یا حصول اولاد کے لئے اور عاقل جو فہم کے طالب

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 489

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 489

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/489/mode/1up

کس کی پیش جاسکتی ہے۔ ہم نے جس قدر صداقتیں کہ نہایت نازک اور اعلیٰ درجہ کی ہیں۔ قرآن شریف سے نکال کر اس کتاب میں لکھی ہیں۔ اس کا دیکھنا

قدرتِ کاملہ کہ جو ذرّہ ذرّہ کے وجود اور بقا کے لئے ہردم اور ہرلحظہ آبپاشی کررہی ہے اور جس کے عمیق در عمیق تصرّفات تعداد اور شمار سے باہر ہیں۔ اُس ربوبیّتِ تامہ سے برہمو سماج والے منکر ہیں۔ ماسوا اِس کے برہمو سماج والے ربوبیّتِ الٰہیہ کو روحانی

ہیں۔ سب کی آرزو پوری ہوتی ہے۔ اندر کا شکم سوم کارس کثرت سے پینے کے باعث سمندر کی مانند پھولتا ہے اور تالو کیؔ نمی کی مانند ہمیشہ تر رہتا ہے۔ اندر سب دیوتاؤں سے طاقت میں زیادہ ہے اور تمام دیوتاؤں پر اس کو فوقیت حاصل ہے۔ بڑے دیوتاؤں کو نمشکار، چھوٹے دیوتاؤں کو نمشکار، نوجوان دیوتاؤں کو نمشکار، بوڑھے دیوتاؤں کو نمشکار۔ ہم سب دیوتاؤں کی حتی المقدور پوجا کرتے ہیں۔ اے اندر کوسیکارشی کے پوتر جلد آ اور مجھ رشی کو بڑا مالدار کردے۔(تمام پرانوں کے شجرہ میں کوسیکا کا بیٹا وشوا مترا تھا اور سیانا وید کا بھا شیکا اسکی وجہ بیان کرنے کو کہ اندر کوسیکا کا کیونکر پوتر ہو گیا ۔ یہ قصّہ بیان کرتا ہے جو کہ وید کے تمتہ انوکرا میتکا میں درج ہے کہ کوسیکا اشرا تھا کے پوتر نے یہ دل میں خواہش کر کے کہ اندر کی توجہ سے میرا بیٹا ہو۔تپ جپ اختیار کیا تھا ۔ جس تپ کی جلدومین خود اندر ہی نے اُسکے گھر جنم لے لیا ۔ اور آپ ہی اُسکا بیٹا بن گیا ) اندر نے جس کی بہت انسان تعریف کرتے ہیں متحرک ہواؤں کی ہمراہ وسیوں اور سمیوں پر یعنے راکشوں پر حملہ آور ہو کر اپنے بجر سے اُنکو قتل کیا۔ من بعد اُس نے اپنے گورے ہمراہیوں پر کھیت تقسیم کردی اور سورج اور پانی کو رہا کردیا۔ ( اس جگہ گورے ہمراہیوں سے مراد جیسا کے طرز وید کے تلازمات کی ہیں پانی کے قطرے ہیں) اور مطلب اس شُرتی کا یہ ہے کرہ زمہریر کی تاثیر سے قطرات پانی جو شکل میں گورے گورے معلوم ہوتے ہیں بادل سے مترشح ہوکر کھیتوں پر گر پڑے۔ بعض کسی کھیت پر اور بعض کسی کھیت پر اور سب پانی بہہ گیا۔  اور سورج نکل آیا۔ فرنگستانی مفسروں نے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 490

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 490

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/490/mode/1up

ہمارے اس بیان کے لئے شاہد ناطق اور قولِ فیصلؔ ہے اور ان سب دقائق حقائق قرآنیہ پر مطلع ہونے سے ہریک شخص کو بشرطیکہ نرا اندھا نہ ہو۔ یہ ماننا پڑے گا کہ صدہا حقائق اور معارف جو افلاطون اور ارسطو وغیرہ کے خواب میں بھی نہیں

طورؔ پر بھی تام اور کامل نہیں سمجھتے اور خدائے تعالیٰ کو اس قدرت سے عاجز اور درماندہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اپنی ربوبیّتِ تامہ کے تقاضا سے اپنا روشن اور لاریب فیہ کلام انسانوں کی ہدایت کے لئے نازل کرتا۔

یہ معنے کئے ہیں کہ اندر نے بزعم آریا لوگوں کے آریا قوم پر جو بہ نسبت قدیم باشندوں کے گورے رنگ کے تھے کھیت ان قدیم لوگوں کی تقسیم کردی مگر یہ معنے درست نہیں ہیں۔ وید کا سیاق سباق صریح ان کے برخلافؔ ہے۔ اے اندر تیرے ہی سبب سے خوراک کی ہر جگہ کثرت ہے اور وہ بآسانی دستیاب ہوسکتی ہے۔ اے بجر کے گھمانے والے چراگاہوں کو سرسبز کردے اور بہت دولت عطا کر۔ ہم اندر کی طرف اس کی شفقت اور دولت اور کامل طاقت حاصل کرنے کے لئے رجوع ہوتے ہیں کیونکہ وہ طاقتور اندر دولت بخش کر ہماری رکشا کرنے کے قابل ہے۔ اے سورج اور چاند ہمارے یگ کو کامیاب کرو اور ہماری قوت زیادہ کرو تم بہت آدمیوں کے فائدہ کے واسطے پیدا ہوئے ہو۔ بہتوں کو تمہارا ہی آسرا ہے۔ سورج کے نکلنے پر ستارے معہ رات کے چوروں کی مانند بھاگ جاتے ہیں ہم سورج دیوتا کے پاس جاتے ہیں جو دیوتاؤں کے درمیان نہایت عمدہ دیوتا ہے۔ اے چاند ہمیں تہمت سے بچا گناہ سے محفوظ رکھ۔ ہماری توکل سے خوش ہوکر ہمارا دوست ہوجا۔ ایسا ہو کہ تیری قوت زیادہ ہو۔ اے چاند تو دولت کا بخشنے والا ہے اور مشکلوں سے نجات دینے والا ہمارے مکان پر دلیر بہادروں کے ہمراہ آ۔ اے چاند اور اگنی تم مرتبہ میں برابر ہو ہماری تعریفوں کو آپس میں بانٹ لو۔ کیونکہ تم ہمیشہ دیوتاؤں کے سردار ہی ہو۔ میں جل دیوتا کو جس میں ہمارے مویشی پانی پیتے ہیں بلاتا ہوں۔ دریا جو بہہ رہے ہیں ان کو نذریں چڑھانی چاہئیں۔

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 491

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 491

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/491/mode/1up

آئے تھے۔ ان سب پر قرآن شریف محیط ہے۔ پس کیا اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ خدا کا کلام جامعؔ ؔ دقائقِ دینیہ ہے اور میں اس بات کو مکرر لکھتا ہوں کہ خدا نے اس طرز کے اختیار کرنے میں انسان پر کوئی مصیبت نہیں ڈالی بلکہ اول اس کو

اسی طرح وہ خدائے تعالیٰ کی رحمانیت پر بھی کامل طور پر ایمان نہیں لاتے۔ کیونکہ کامل رحمانیت یہ ہے کہ جس طرحؔ خدائے تعالیٰ نے ابدان کی تکمیل اور تربیت کے لئے تمام اسباب اپنے خاص دستِ قدرت سے ظاہر فرمائے ہیں۔ اور اس چند روزہ

ایسا ہو کہ وہ جل جو سورج کے قریب ہیں اور وہ جو سورج کے شریک رہتے ہیں۔ ہماری اس ریت پر مہربان ہوں۔ اے دھرتی دیوتا ایسا نہ ہو کہ تو بہت وسیع ہوجائے۔ تجھ پر کانٹے نہ رہیں اور تو ہمارے رہنے کی جگہ ہوجائے اور ہمیں بڑی خوشی دے۔ ایسا ہو کہ درونا دیوتا ہمارا خاص مہربان ہوجائے۔ ایسا ہو کہ مترا دیوتا ہماری نگہبانی کرے۔ ایسا ہو کہ یہ دونوں مل کر ہمیں نہایت دولت مند کردیں۔ اے نشتری دیوتا تو اور تیری بی بی یگ کے دیوتاؤں سےؔ ہماری سفارش کرو۔ اے اگنی دیوتاؤں کو یہاں لا۔ ان کو تین جگہ بٹھا اور انہیں آراستہ کر۔ اور تو رتو دیوتا کا ہم پیالہ ہو۔ اے اگنی سرخ گھوڑوں کے سوامی لال لاٹوں والے ہم سے خوش کر تیت تیتیسدیوتاؤں کو یہاں لا۔ ہم اگنی کے جو مذہبی رسوم میں روشن کی جاتی ہے پرستش کرتے ہیں۔ عاقلوں نے اے اگنی تجھے دیوتاؤں کا بلانے والا کارکن پر وہت بڑی دولت بخشنے والا جلد سننے والا اور بہت مشہور پاکر اپنے یگوں میں رکھا ہے۔ اگنی ہوا سے بھڑک کر اور مشتعل ہوکر بڑی بڑی لکڑیوں میں بآسانی گھس جاتی ہے۔ اے اگنی جب تو سانڈھ کی طرح بن میں گھس جاتی ہے تب تو جس طرف جائے تیرا راستہ سیاہ ہوتا جاتا ہے یعنی لکڑیوں کو جلا کر بھسم کرتی جاتی ہے اور سب چیزوں کو جو آگے آتی ہیں خواہ ساکن ہوں یامتحرک جلا دیتی ہے۔ میں اگنی کی جو ہر قسم کی دولت کا دینے والا ہے پوجا کرتی ہوں۔ اگنی جس میں ایسی روشنی ہے جو کہ اور کو حاصل نہیں ہوسکتی وہ یگ کے مکان میں سب کی زیبائش ہے جیسے گھر کی زیبائش عورت

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 492

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 492

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/492/mode/1up

قوت نظریہ عنایت کی اور پھر نظر کرنے کا سامان بھی عطا فرمایا۔ یہی عطیات الٰہی ہیں جن سے انسان کا ستارہ اقبال چمکتا ہےؔ اور انسان اور حیوان میں امتیاز حاصل ہوتی ہے۔ حیوانات کو خدا نے سوچنے کی طاقت نہیں دی اور نہ انہوں نے کچھ سوچا۔ پھر

جسمانی آسائش کے لئے سورج اور چاند اور ہوا اور بادل وغیرہ صدہا چیزیں اپنے ہاتھ سے بنادی ہیں۔ اسی طرح اس نے روحانی تکمیل اور تربیت کے لئے اور اُس عالم کی آسائش کےؔ لئے جس کی شقاوت اور سعادت ابدی اور دائمی ہے۔ روحانی نور

ہوتی ہے۔ اگنی جوَ بن میں پیدا ہوا ہے اور انسان کا دوست ہے اپنے پوجاری کی اس طرح حفاظت کرتا ہے جیسے راجہ لئیق آدمی پر مہربانی کرتا ہے ایسا ہو کہ وہ ہم پر مہربان ہو۔ جب اے اگنی دیوتا تو خشک لکڑی کے رگڑنے سے پیدا ہوتی ہے تب تمام تیرے پوجاری پاک رسم ادا کرتے ہیں ایسا ہو کہ وہ اگنی جو رنگ برنگ روشنی کے مالک ہے اس اپنے پوجاری کی خواہشوں کو غور سے سنے۔ ہمیشہ انگلیاں پیاری اگنی سے ایسی محبت کرتی ہیں جیسی عورتیں اپنے خاوندوں سے کرتی ہیں۔ اے اگنی جب کہ پوجاری تجھے اپنے گھر میں روشن کرتا ہے اور تجھے بھوک لگاتا ہے جس کی وہ ہرروز خواہش رکھتا ہے۔ توؔ اے اگنی دو طرح سے زیادہ ہوکر اس کی اوقات بسری کے لوازم زیادہ کرتی ہے۔ ایسا ہو کہ قوت ہاضمہ کی اگنی جو خوراک سے تعلق رکھتی ہے بھگتوں اور نامور پروہتوں کی خدمت کرنے والے کو بطور چشمہ حرارت مردی کے دی جاوے اور ایسا ہو کہ اگنی سے اس کا مضبوط اور بے عیب اور جوان اور فہیم لڑکا پیدا ہو۔ ایسا ہو کہ اے اگنی تیرے دولتمند پوجاری بہت خوراک حاصل کریں۔ ایسا ہو کہ وہ بدیاوان جو تیری تعریف کرتے ہیں اور تجھے روشن کرتے ہیں ان کی عمر دراز ہو۔ ایسا ہو کہ ہم لڑائیوں میں اپنے دشمنوں سے لوٹ حاصل کریں۔ جل میں بوٹیاں ہیں اس واسطے اے برہم چاری جل کی تعریف کرنے میں مستعد ہو۔ اے جل تمام بیماریوں کے کھونے والی بوٹیوں کو میرے بدن کے فائدہ کے واسطے پکا۔ اندر کا ہتھیار اس کے مخالفوں پر پڑا۔ اپنے تیز اور عمدہ تیر سے اس نے ان کے شہر غارت کئے تب اندر اپنا بجرلے کر ورترا کی جانب

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 493

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 493

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/493/mode/1up

دیکھو کہ وہ ویسے کے ویسے رہے یا نہیں۔ اور یہ وسواس کہ خدا نے اپنی کتاب امیوں اور بدوؤں کے لئے بھیجی ہے(ان کی سمجھ کے موافق چاہئےؔ ) ٹھیک نہیں ہے۔ اول تو اس میں یہ جھوٹ ہے کہ وہ کلام نرا امیوں کی تعلیم کے لئے نازل ہوا

یعنے اپنا پاک اور روشن کلام دنیا کے انجام کے لئے بھیجا ہو۔ اور جس علم کی مستعد روحوں کو ضرورت ہے وہ سب علم آپ عطا فرمایا ہو۔ اور جن شکوک اور شبہات میں اُن کی ہلاکت ہے اِن سب شکوک سے آپ نجات بخشی ہو لیکن اِس کامل رحمانیت کو برہموسماج والے تسلیم نہیںؔ کرتے۔ اور ان کے زعم میں گو خدا نے انسان کے شکم

متوجہ ہوا۔ اور اس کو مار کر اپنی طبیعت خوش کی۔ اے جنگل کے مالکو پسندیدہ صورت والو تم دونوں ہمارا شیریں سوم کارس دل پسند ارگون سمیت اندر کے واسطے طیار کرو۔ سوم کے رس کا بقیہ کرچھیوں میں لاؤ اور اس کو کشا کے پتہیوں پر چرچو اور جو باقی بچے اس کو گائے کی کھال پر رکھ دو یعنی ہتھیلی پر جو کہ گائے کی کھال کا بنا ہوا ہوتا ہے۔ اے سوم کی رس کے پینے والے اندر گو ہم مستحق نہ ہوں پر تو ہمیں ہزارہا عمدہ گوئیں اور گھوڑے دے کر مالا مال کر۔ اے خوبصورت اور طاقتور اندر خوراک کے مالک تیری شفقت ہمیشہ قائم رہتی ہے۔ ہمیں ہزاروں عمدہ گھوڑے اور گوئیں دے۔ ہر ایک کو جو ہمیں گالی دیتا ہے غارت کر۔ ہر ایک جو ہمیں نقصان پہنچاتا ہے قتل کر اور ہمیں ہزاروں گھوڑے اور گوئیں دے۔ اے اندر جو ہماری بہتری میں راضی ہوتا ہے۔ ایسا کر کہ ہمیں خوراک بافراط ملے اور مضبوط اور بہتؔ دودھ پینے والی گوئیں ہمارے ہاتھ آویں جن کے باعث سے ہم عیش و عشرت میں مشغول رہیں۔ اے اندر اور اگنی میں جو دولت کا خواہشمند ہوں تم دونوں کو اپنے دل میں رشتہ دار اور قرابتی تصور کرتا ہوں۔ ادراک جو تم نے مجھے عطا کیا ہے کسی دوسرے نے کبھی نہیں دیا۔ اور اس طرح بہرہ مند ہوکر میں نے یہ منتر جس میں میں نے اپنی خوراک کی خواہش ظاہر کی ہے تمہاری تعریف میں بنایا ہے۔ اے اندر اور اگنی نعمتوں کے عطا کرنے والو خواہ پاتال لوگ مرت لوگ یا سرگ لوگ جہاں کہیں

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 494

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 494

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/494/mode/1up

ہے۔ خدا نے تو آپ ہی فرما دیا ہے کہ تمام دنیا اور مختلف طبائع کی اصلاح کے لئے یہ کتاب نازل ہوئی ہے جیسے اُمّی اس کتاب میں مخاطب ہیں ایسے ہی عیسائی اور یہودی اور مجوسی اور صابئینؔ اور لا مذہب اور دہریہ وغیرہ تمام

ُر کرنے کے لئے ہریک طرح کی مدد کی اور کوئی دقیقہ تائید کا اٹھا نہ رکھا مگر وہ مدد روحانی تربیت میں نہ کرسکا۔ گویا خدا نے روحانی تربیت کے بارے میں جو اصلی اور حقیقی تربیت تھی دانستہ دریغ کیا اور اُس کے لئے ایسے زبردست اور قوی اور خاص اسباب پیدا نہ کئے جیسے اُسؔ نے بدنی تربیت کے لئے پیدا کئے بلکہ انسان کو صرف

تم ہو۔ وہاں سے یہاں آؤ اور ارگ پیو۔ اے اندر اور اگنی نعمتوں کے عطا کرنے والو۔ خواہ سرگ لوگ پاتال لوگ یا مرت لوگ جہاں کہیں تم ہو۔ وہاں سے یہاں آؤ۔ اور کچلا ہوا ارگ پیو۔ اے اندر اور اگنی بجر گھمانے والو۔ شہروں کے غارت کرنے والو۔ ہمیں دولت عطا کرو لڑائیوں میں ہماری مدد کرو۔ ایسا ہو کہ مترا دیوتا۔ ورن دیوتا۔ ادتی دیوی۔ سمندر دیوتا۔ دھرتی دیوی۔ آسمان دیوتا۔ یہ سب مل کر ہماری اس دعا پر متوجہ ہوں۔ اے انسانوں پر مہربانی کرنے والے اندر تو بھی مخلوق ہی ہے۔ پر پیدائش کے وقت سے آج تک کوئی تیرا نظیر نہیں ہوا۔ تو تینوں لوگ اور تینوں کرہ آتش اور تمام اس عالم کا جو مخلوقات سے پر ہے۔ سہارا دینے والا ہے۔ اے اندر جو سب دیوتاؤں میں اول درجہ کا دیوتا ہے۔ ہم تجھے بلاتے ہیں تو نے لڑائیوں میں فتوحات حاصل کی ہیں۔ ایسا ہو کہ اندر جوکہ کارساز تند اور تمام مانع چیزوں کا جڑھ سے اکھاڑنے والا ہے ہمارے رتبہ کو لڑائیوں میں سب سے آگے رکھے۔ تو اندر فتح کرتا ہے لیکن لوٹ کو نہیں روکتا۔ چھوٹی چھوٹی لڑائیوں میں اور بڑی سخت لڑائیوں میں ہم تجھے اے خونخوار میگواہن اپنی حفاظت کے لئے تیز کرتے ہیں۔ ایسا ہو کہ اندرؔ ہمارا ساتھی ہو۔ اور ایسا ہو کہ ہم سیدھے راستہ سے خوراک کثیر حاصل کریں۔ اور ایسا ہو کہ مترا دیوتا۔ ورن دیوتا۔ ادتی دیوی۔ سمندر دیوتا۔ دھرتی دیوی۔ اکاس دیوتا ہمارے واسطے خوراک کی حفاظت کریں۔ ہم سوم کا ارگ اس کو جو

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 495

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 495

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/495/mode/1up

فرقے مخاطب ہیں اور سب کے خیالات فاسدہ کا اس میں ردّ موجود ہے سب کو سنایا گیا ہے پھر جبکہ ثابت ہے کہ قرآن شریف کو تمام دنیا کے طبائع

اُسی کی عقلِ ناقص کے ہاتھ میں چھوڑ دیا اور کوئی ایسا کامل نور اپنی طرف سے اُس کی عقل کی امداد کے لئے پیدا نہ کیا جس سے عقل کی پُرغبار آنکھ روشن ہوکر سیدھا راستہ اختیار کرتی اور سہو اور غلطی کے مہلک خطرات سے بچ جاتی۔ اسی طرح

بہت سی مہمات کا سر کرنے والا سب دیوتاؤں سے اچھا دیوتا۔ نعمتوں کو عطا کرنے والا۔ سچی طاقت والا بہادر اندر ہے۔ جو دولت کا لحاظ کرتا ہے اور اس شخص سے دولت چھین لیتا ہے جو یگ نہیں کرتا جیسے رہزن مسافر سے چھین لیتا ہے اور اسے یگ کرنے والے کو دیتا ہے چھڑاتے ہیں۔ اے اندر تیری سب تعریف کرتے ہیں ایسی کرپاکر کہ اور لوگوں سے ہمیں نقصان نہ پہنچے تو بڑا طاقت والا ہے زیادتی و تعدی سے ہمیں محفوظ رکھ۔ اے انسانوں تمہاری ہرروزہ زندگی کا باعث وہ اندر ہے جو صبح کی کرنوں کے ساتھ بے عقل کو عقل دیتا ہے اور بے شکل کو شکل عطا کرتا ہے۔ تو نے اے اندر بہمراہی مروت دیوتا یعنی ہوا جو ہر چیز کو اڑالے جاتی ہے اور دشوار گزار مقاموں میں پہنچ سکتی ہے گوؤں کا کھوج لگایا جو غار میں چوروں نے چھپا رکھی ہیں ایسا ہو کہ اے مروت دیوتا تم دلیر اندر کے ہمراہ دونوں خوشی مناتے ہوئے اور یکساں شان و شوکت کے ساتھ نمودار ہو۔ اے اجیت اندر ایسی لڑائیوں میں ہماری حفاظت کر جہاں سے بہت لوٹ ہمارے ہاتھ آوے۔ ۔ ہم اندر کو جو ہمارے دشمنوں کے مقابلہ میں بجر کو گھماتا ہے اور جو ہمارا مددگار ہے بہت فارغ البالی اور بے شمار دولت حاصل کرنے کے لئے بلاتے ہیں۔ اے مینہ کے برسانے والے تمام خواہشوں کے پورا کرنے والے اس بادل کو کھول دے تو ہمیشہ ہماری درخواستیں قبول کرتا رہا ہے مینہ کے برسانے والے طاقتور مالک اندر ہمیشہ درخواستیں قبول کرنے والا انسانوں کو

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 496

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 496

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/496/mode/1up

سے کام پڑا تو تمؔ خود ہی سوچو کہ اس صورت میں لازم تھا یا نہیں کہ وہ ہریک طور کی طبیعت پر اپنی عظمت اور حقانیت کو ظاہر کرتا اور ہریک طور کے شبہات کو مٹاتا۔ ماسوا اس کے اگرچہ اس کلام میں اُمّی بھی مخاطب ہیں مگر یہ تو نہیں کہ

برہمو سماج والے خدائے تعالیٰ کیؔ رحیمیّت پر بھی کامل طور پر ایمان نہیں رکھتے۔ کیونکہ کامل رحیمیّت یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ مستعد روحوں کو اُن کے فطرتی جوشوں کے مطابق اور اُن کے پُرجوش اخلاص کے اندازہ پر اور اُن کے صدق سے بھری ہوئی

اپنیؔ طاقت عطا کرتا ہے جیسی سانڈھ گوؤں کی ریوڑ کی حفاظت کرتا ہے۔ ہم اے اندر۔ جو کہ ہرجگہ انسانوں میں موجود ہے تجھے بلاتے ہیں۔ ایسا ہو کہ تو صرف ہمارا ہی ہوجائے۔ اے اندر تیری حمایت کا ہمارے پاس ایک ذاتی ہتھیار ہے جس کے وسیلہ سے ہم اپنے مخالفوں پر ظفریاب ہوسکتے ہیں۔ اندر دیوتا بڑا طاقت والا اور عالی رتبہ ہے ایسا ہو کہ قدر ومنزلت ہمیشہ بجلی بردار کے قبضہ میں رہے۔ اس کی جرار فوجیں آسمان کی مانند ہمیشہ عظیم ہوں۔ حقیقت میں اندر کے گانے کے لائق یا پڑھنے کے لائق تعریف بار بار کرنی چاہئے۔ تاکہ وہ سوما کارس پیوے۔ اے اندر دیوتا یہاں آؤ اور اقسام اقسام کے ارگوں سے اور کھانوں سے سیر ہو کر اور قوت حاصل کرکر اپنے دشمنوں پر ظفریاب ہو۔ اے اندر نعمتوں کے بخشنے والے اور اپنے پوجاریوں کی رکشا کرنے والے میں نے تیری تعریف کی ہے جو تجھ تک پہنچ گئی ہے اور جس کو تو نے منظور کیا ہے۔ اے متمول اندر اس رسم میں ہمیں دولت حاصل کرنے کے لئے دلیر کر کیونکہ ہم محنتی اور مشہور ہیں۔ اے اندر ہمیں بے اندازہ بے شمار اور لازوال دولت بخش جو مویشی اور خوراک اور زندگانی کا چشمہ ہے۔ اے اندر ہمیں نامور کر اور ایسی دولت دے جو ہزاروں طریقوں سے حاصل ہو۔ اور وہ کھانے کی چیزیں جو کھیتوں سے چھکڑوں میں آتی ہیں عطا کر۔ ہم اندر کو اپنے مال کی حفاظت کے واسطے مدح کرکر بلاتے ہیں۔ ایسا اندر جو دولت کا مالک ہے اور جس کی لوگ تعریف کرتے ہیں اور جو یگ کرنے کی جگہ آمدورفت رکھتا ہے۔ اے ستاکرتو اندر شام وید کے پڑھنے والے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 497

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 497

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/497/mode/1up

خدا اُمّیوں کو اُمّی ہی رکھنا چاہتا تھا۔ بلکہ وہ یہ چاہتا تھا کہؔ جو طاقتیں انسانیت اور عقل کی ان کی فطرت میں موجود ہیں۔ وہ مکمن قوت سے حیّز فعل میں آجائیں۔ اگر نادان کو ہمیشہ کے لئے نادان ہی رکھنا ہے تو پھر تعلیم کا کیا فائدہ ہوا۔

کوششوں کے مقدار پر معارف صافیہ غیر محجوبہ سے ان کو ملبب کرے اور جس قدر وہ اپنے دلوں کو کھولیں اُسی قدر اُن کے لئےؔ آسمانی دروازے کھولے جائیں۔ اور جس قدر اُن کی پیاس بڑھتی جائے۔ اُسی قدر اُن کو پانی بھی دیا جائے یہاں تک کہ وہ حق الیقین کے

تیری استت کرتے ہیں۔ رگوید کے پڑھنے والے تیری تعریف کرتے ہیں جو کہ تعریف کے لائق ہے اور برہمن تجھے بانس کی مانند بلند کرتے ہیں۔ اندر نعمتیں بخشنے والا اپنے پوجاری کے مطلب سے واقف ہے جس نے پہاڑؔ کی چوٹیوں پر سوم کا پودہ لاکر بہت پرستش کی ہے۔ اس واسطے اندر مروت کی فوج کے ہمراہ آتا ہے۔ اے سوم کی رس پینے والے اندر اپنے بڑے ایال والے مضبوط اور خوبصورت گھوڑوں کو جوت کر ہماری تعریفیں سننے کے لئے یہاں آ۔ اے باسو دیوتا ہماری اس پوجا میں آکر شامل ہو۔ ہماری منتر اور تعریف اور دعاؤں کو قبول کر۔ ہمارے یگ پر مہربان ہو۔ اور بہت خوراک دے۔ منتر جو کہ ترقی کا باعث ہے اندر کی مہما میں بار بار پڑھنا چاہئے۔ جو کہ بہت سے دشمنوں کو پراگندہ کرنے والا ہے تاکہ یہ طاقتور دیوتا ہم اور ہماری اولاد اور ہمارے دوستوں سے شفقت سے بولے۔ ہم اندر کی طرف اس کی شفقت اور دولت اور کامل طاقت حاصل کرنے کے لئے رجوع ہوتے ہیں کیونکہ وہ طاقتور اندر دولت بخش کر ہماری رکشا کرنے کے قابل ہے۔ اے اندر جبکہ تو اپنے دشمنوں کو غارت کرتا ہے اس وقت آسمان اور زمین تجھے سہارا نہیں دے سکتے مینہ برسانا تیرے اختیار میں ہے۔ ہمیں بڑی فیاضی سے گائیں عطا کر۔ اے تعریف کے مستحق اندر ایسا ہو کہ ہم ہمیشہ تیری تعریف کرتے رہیں۔ ایسا ہو کہ اس تعریف سے اے بڑی عمر والے تیری قوت زیادہ ہو۔ اور ایسا ہو کہ یہ ہماری تعریف

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 498

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 498

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/498/mode/1up

خدانے توعلم اورحکمت کی طرف آپ ہی رغبت دے دی ہے۔ دیکھواس آیت میں علم اور حکمت کی کیسی تاکیدؔ ہے یعنے خداجس کو چاہتاہے حکمت عنایت کرتاہے

شربت خوشگوار سے سیراب ہوجائیں اور شک اور شبہ کی موت سے بکلّی نجات حاصل ہو لیکن برہمو سماج والے اس صداقت سے انکاری ہیں اور بقول اُن کے انسان کچھ ایساؔ بدقسمت ہے کہ گو کیسا ہی دلبر حقیقی کے وصال کے لئے تڑپا کرے اور گو

تجھے پسند آوے تاکہ ہمیں خوشی حاصل ہو۔ ہم اگنی کو جو دیوتاؤں کا پیغمبر اور ان کے بلانے والا اور بہت ثروت والا اور اس یگ کا سمپورن کرنے والا ہے منتخب کرتے ہیں۔ اے روشن اگنی ہم نے تجھے کبھی کا ہوم کرکے بلایا ہے۔ ہمارے دشمنوں کو جلا دے جن کے محافظ ناپاک ارواح ہیں۔ اس اگنی کے یگ میں تعریف کرو کہ جو بڑا عاقل صادق اور روشن ہے اور بیماری کا کھونے والا ہے۔ اے روشن اگنی دیوتاؤں کے پیغمبر اس نذریں پیش کرنے والے کی حفاظت کرؔ جو کہ تیری پوجا کرتا ہے۔ اے صاف کرنے والے اس شخص پر مہربان ہو جو دیوتاؤں کے خوش کرنے کے واسطے اگنی کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے۔ اے روشن اور صاف کرنے والے اگنی ہمارے یگ اور ہمارے بھوگ میں دیوتاؤں کو لا۔ ہم نے تیری تعریف وہ منتر پڑھ کر کی ہے جو سب سے آخر تصنیف ہوا ہے ہمیں خوراک عطا کر اور دولت جو اولاد کا چشمہ ہے عنایت فرما۔ اے اگنی دیوتا ہمارا بھوگ دیوتاؤں کو چھڑا اور ایسا ہو کہ نذریں دینے والے کو یعنی اگنی کو اس کے عوض میں علم نصیب ہوا۔ اے اگنی معہ تمام دیوتاؤں کے سوم کارس پینے کو ہماری پوجا میں آ اور نذر پیش کر۔ اے دانا اگنی کا نوا یعنی رشی لوگ تجھے بلاتے ہیں اور تیرے گن گاتے ہیں۔ اے اگنی معہ دیوتاؤں کے آ۔ اے اگنی نیک کاموں کے ترقی دینے والوں کو یعنی دیوتاؤں کو جن کی ہم پوجا کرتے ہیں۔ اس نذر میں معہ ان کی بی بیوں کے شریک کر۔ اے روشن زبان والے انہیں سوم کا رس پینے کو دے۔ ان

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 499

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 499

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/499/mode/1up

اور جس کو حکمت دی گئی اس کو بہت سا مال دیا گیا۔ اور پھر فرمایاہے۔

یعنے رسولؐ تم کو کتاب اورؔ حکمت اور وہ تمام حقائق اور معارف سکھاتا ہے۔

اُس کی آنکھوں سے دریا بہہ نکلے اور گواس یار عزیز کے لئے خاک میں مل جائے مگر وہ ہرگز نہ ملے۔ اور ان کے نزدیک وہ کچھ ایسا سخت دل ہے کہ جس کو اپنے طالبوں پر رحم ہی نہیں اور اپنے خاص نشانوں سے ڈھونڈھنے والوں کو تسلی نہیں بخشتا اوراپنےؔ

دیوتاؤں کو جن کی ہم پرستش اور تعریف کرتے ہیں سوم کارس ارگ چرچنی کے وقت پلا۔ اے اگنی دیوتا اپنی چالاک اور طاقتور گھوڑیاں جن کو بنام روہت نامزد کرتے ہیں اپنی رتھ میں جوت اور ان کے وسیلہ سے یہاں دیوتاؤں کو لا۔ اے اگنی انعام کے دینے والے اور رتو دیوتا کے ساتھ یگ میں حصہ لینے والے گھر کی آگ ہوکر پوجاری کی خاطر دیوتاؤں کی پرستش کر۔ تجھے اے اگنی سوم کارس پینے کو شوق سے بلایا ہے۔ مروت کو ساتھ لے کر آ۔ نہ کسی دیوتا کو اور نہ انسان کو اس یگ میں کچھ اختیار حاصل ہے جو کہ تیرے واسطے اے طاقت والے حاصل ہوا ہے۔ اے اگنی مروت کو ساتھ لے کر آ۔ اے اگنی دیوتاؤں کی خوبصورت رانیوں کو اور نواشتری کو سوم کارس پینے کےؔ واسطے یہاں لا۔ اے اگنی ہمارے اس بھوگ کی اور ان نئے منتروں کے دیوتاؤں کو خبر کر۔ اے اگنی تو سب سے پہلے اینگرا رشی تھا۔ تو دیوتا اور دیوتاؤں کا مددگار دوست تھا۔ تیرے ہی یگ میں عاقل فہیم اور روشن ہتھیار والی مروت پیدا ہوئی تھی۔ اے اگنی تو جو سب سے پہلا اور سب اینگراون کا سردار ہے دیوتاؤں کی پوجا کو تیرے ہی باعث سے برکت حاصل ہوتی ہے۔ تو دانا ہے رنگ برنگ رنگوں والا ہے۔ تمام دنیا کے فائدے کے واسطے ہی فہیم ہے۔ ودیایوں کی اولاد ہے اور انسان کے فائدہ کے واسطے نیک روپ دھارن کر رکھے ہیں۔ اے ہوا پر فوقیت رکھنے والے اگنی اپنے پوجاری کو درشن دے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 500

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 500

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/500/mode/1up

جن کا خودبخود معلوم کرلینا تمہارے لئے ممکن نہ تھا۔ اور پھر فرمایا ہے۔

عنے خدا سے وہی لوگ ڈرتے ہیں جو اہل علم ہیں۔ اور پھر فرماتا ہے

دلبرانہ تجلیات سے دردمندوں کا کچھ علاج نہیں کرتا۔ بلکہ اُن کو اُنہیں کے خیالات میں آوارہ چھوڑتا ہے۔ اور اس سے زیادہ اُن کو کچھ بھی معرفت عطا نہیں کرتا کہ صرف اپنی اٹکلیں دوڑایا کریں اور اُنہیں اٹکلوں میں ہی ساری عمر کھو کر اپنی ظلمانی حالت میں ہی مرجائیں۔ مگر کیا یہ سچ ہے کہ خداوند کریم ایسا ہی سخت ؔ دل ہے یا ایسا ہی

تاکہ اس کو معلوم ہو کہ میری پوجا قبول ہوئی۔ تیرے بل سے اکاش اور دھرتی لرزاں ہے۔ تو نے اس بوجھ کو اٹھایا ہے جس کے لئے پروہت مقرر کیا گیا تھا۔ تو نے بزرگ دیوتاؤں کی پرستش کی ہے۔ تو اے اگنی خواہشوں کی پورا کرنے والی ہے۔ اپنے پوجاریوں کی دولت کی زیادہ کرنے والی ہے۔ اے اگنی دولت کی خاطر ہم تیری پوجا کرتے ہیں۔ اس ہوم کے کرنے والے کا نام کردے۔ ایسا ہو کہ تیری کرپا سے جو ہماری اولاد ہو تو پھر ہم یہ رسم ادا کریں۔ دھرتی اکاش اور تمام دیوتاؤں سمیت ہمیں بچا۔ اے اگنی اس ہماری غلطی کو اور اس طریق کو جس میں ہم گمراہ ہوگئے معاف کر تیری تعریف کرنی چاہئے۔ کیونکہ تو ان لوگوں کی جو تجھ کو تیرے لائق ارگ دیتے ہیں حفاظت کرنے والی ہے۔ اے پاک اگنی جو بھوگ لینے ہر طرف جاتی ہے یگ کے کمرہ میں جو تیرے روبرو ہے جا جیسے پہلے زمانہ میں منش انگرار اور تیاتی یعنی راجگان سلف جاتے تھے اور دیوتاؤں کو یہاں لا۔ اور انہیں پاک کشا پر بٹھا اور ان میں ایسا بلدان پیش کر جس سے وہ مشکور ہوں۔ اےؔ اگنی تو ہماری اس منتر سے جو ہم اپنی لیاقت اور آگاہی کے موافق پڑھتے ہیں ترقی پا اور ہمیں دولتمند کر اور ہمیں نیک سمجھ دے اور بہت خوراک دے۔ ہم منتر پڑھ کر طاقتور اگنی کو جس کی اور رشی بھی تعریف کرتے ہیں۔ بہت آدمیوں کے فائدہ کے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 501

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 501

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/501/mode/1up

دعاؔ کر کہ خدایا مجھے مراتب علمیہ میں ترقی بخش۔ اور پھر فرماتا ہے۔ 33۔ الجزو نمبر ۱۵۔ ۱؂

یعنی جو شخص اس جہان میں اندھا رہا اور علم الٰہی میں بصیرت پیدا نہ کی وہ

بے رحم اور بخیل ہے یا ایسا ہی کمزور اور ناتوان ہے کہ ڈھونڈنے والوں کو سراسیمہ اور حیران چھوڑتا ہے اور کھٹکانے والوں پر اپنا دروازہ بند رکھتا ہے اور جو صدق سے اس کی طرف دوڑتے ہیں ان کی کمزوری پر رحم نہیں کرتا اور ان کا ہاتھ

واسطے جو دیوتاؤں کے پرستار ہیں مناتے ہیں۔ آدمی اس اگنی کی طرف رجوع لاتے ہیں جو بل کے زیادہ کرنے والی ہے۔ ہم اے اگنی نذریں چڑھا کر تیری پوجا کرتے ہیں۔ اے بہت خوراک دینے والے ہم پر آج مہربان ہو۔ اے اگنی تو خوشی کی دینے والی دیوتاؤں کے بلانے والی اور ان کے پیغمبر اور انسان کی محافظ ہے وہ نیک اور دیرپا کام جو دیوتا کرتے ہیں سب تیرے میں جمع ہیں۔ اے نوجوان اور نیک فال اگنی جو کچھ کہ ہم تجھ کو پیش کریں تو ہم پر مہربان ہوکر یا تو اب یا کسی اور وقت طاقتور دیوتاؤں کے پاس لے جا۔ اے اگنی اس طور پر تیرا پوجاری تیری پوجا کرتا ہے اور تو اپنی روشنی سے آپ روشن ہے۔ آدمی بمدد سات کاروبار کرنے والے پروہتوں کی ہوم کرکر اس اگنی کو جو ان کے دشمنوں پر فتح یاب ہے روشن کرتے ہیں۔ اے اگنی جو کہ فنا کرنے والی ہے تو نے اور دوسرے دیوتاؤں نے مل کر ورترا کو قتل کیا ہے۔ دیوتاؤں نے دھرتی اور سرگ اور اکاس کو مخلوقات کے واسطے فراخ رہنے کی جگہ بنایا ہے ایسا ہو کہ دولت والا اگنی بروقت ضرورت کے کانوا پر اس طرح مہربان ہو جیسا کہ لڑائی میں گھوڑا مویشی کے واسطے ہنہناتا ہے۔ اس اگنی کی کرنیں جس کو کانوا نے سورج سے زیادہ روشن کردیا ہے سرفرازی سے چمکتے ہیں ہم اس کی تعریفیں کرتے ہیں۔ ہم اس کو بلند کرتے ہیں۔ اے اگنی خوراک کے بخشنے والی ہماری خزانے پُر کردے کیونکہ دیوتاؤں کی دوستی تیرے ذریعہ سے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 502

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 502

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/502/mode/1up

اُس دوسرے جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا بلکہ اندھوں سے بدترؔ ہوگا۔ اور پھر یہ دعا سکھاتا ہے

یعنے اے باری تعالیٰ ہم پر وہ صراط مستقیم ظاہر کر جو تو نے

نہیں پکڑتا اور ان سچے طالبوں کو گڑھے میں گرنے دیتا ہے اورؔ خود لطف فرما کر چند قدم آگے نہیں آتا اور اپنے جلو ۂخاص سے مشکلات کے لمبے قصہ کو کوتاہ نہیں کرتا۔ سبحانہ و تعالی عما یصفون۔ اسی طرح برہمو سماج والے خدائے تعالیٰ کے مالک یوم الدین ہونے سے بھی بے خبر ہیں۔ کیونکہ یوم الجزاء کے مالک ہونے کی حقیقت یہ ہے کہ

حاصلؔ ہوسکتی ہے تو طرح طرح کی خوراکوں کی مالک ہے ہمیں خوش کر کیونکہ تو بزرگ ہے۔ اے اگنی ہماری حفاظت کے لئے سورج دیوتا کی مانند ہو۔ سیدھی کھڑی ہوجا۔ تو خوراک کی دینے والی ہے جس کے کارن ہم تجھے مرہم چھڑا کر بلاتے ہیں اور پروہت تجھے نذریں چڑھاتے ہیں۔ اے جوان اور چمکدار اگنی ہمیں ناپاک روحوں سے اور کینہ ور آدمی سے جو بخشش نہیں کرتا اور موذی جانوروں سے اور ان لوگوں سے جو ہمارے مارنے کی فکر میں ہیں بچا۔ اے اگنی تجھے منونے انسان کی بہت سی نسلوں پر روشنی کرنے کے لئے روکا تھا ُ تو جو یُگ کے لئے پیدا ہوئی ہے اور چڑھاوے سے سیر ہوتی ہے تو جس کو سب آدمی نمشکار کرتے ہیں روشن ہوگئی ہے۔ اگنی کے شعلے روشن طاقتور اور خوفناک ہیں ان کا اعتماد نہ کرنا چاہیئے وہ طاقتور ناپاک روحوں کو اور دیگر ہمارے مخالفوں کو ہمیشہ ضرور بالکل جلا دیتے ہیں۔ اے اگنی جو امیر ہے اور جو کہ تمام مخلوقات کی فریاد رسی کرنے والی ہے صبح سے نذریں دینے والے کے پاس بہت قسم کی دولت معہ عمدہ گھر کے لا۔ آج یہاں دیوتاؤں کو اٹھتے ہی لا۔ آج ہم اگنی کو جو پیغمبر مکانوں کے دینے والی ہردلعزیز دھوئیں کے جھنڈے والی روشنی بخشنے والی اور علی الصباح جو پوجاری پوجا کرتا ہے اس کی حفاظت کرنے والی ہے منتخب کرتے ہیں۔ میں اگنی کے جو سب دیوتاؤں سے بہتر اور کم عمر کا دیوتا ہے انسان کا مہمان ہے جس کو سب بلاتے ہیں اور جو چڑھاوا چڑھانے والے کا رفیق ہے سب مخلوقات کو جانتا ہے۔ پرات کال مہما

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 503

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 503

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/503/mode/1up

اُن تمام اہل کمال لوگوں پر ظاہر کیا جن پر تیرا فضل اور کرم تھا چونکہ اہل کمال لوگوں کا صراط مستقیم یہیؔ ہے کہ وہ علیٰ وجہ البصیرت حقائق کو معلوم کرتے ہیں نہ اندھوں کی طرح۔ پس اس دعا کا ماحصل تو یہی ہوا کہ خداوندا وہ تمام

خدائے تعالیٰ کی ملکیت تامہ کہ جو تجلیات عظمیٰ پر موقوف ہے ظہورؔ میں آکر پھر اس ملکیتِ تامہ کی شان کے موافق پوری پوری جزا بندوں کو دی جائے۔ یعنی اول اُس مالکِ حقیقی کی ملکیّتِ تامہ کا ثبوت ایسے کامل الظہور مرتبہ پر ہوجائے کہ

کرتا ہوں تاکہ وہ اور دیوتاؤں کو لینے جائے۔ اے یُگ کرنے والی اورُ سرب گیانی اگنی سب آدمی تجھے روشن کرتے ہیں بہت لوگ بلاتے ہیں عاقل دیوتاؤں کو جلدی سے یہاں لا۔ تو اےؔ اگنی انسانوں کے یگوں کی حفاظت کرنے والی ہے اور دیوتاؤں کی پیغمبر ہے۔ آج یہاں دیوتاؤں کو جو صبح اٹھتے ہیں اور سورج کا دھیان کرتے ہیں لا۔ اے اسونوں دیوتاؤ تم صبح کے یُگ کے واسطے جاگو۔ ایسا ہو کہ وہ دونوں دیوتا سوم کارس پینے کے لئے یہاں آویں۔ ہم دونوں اسونوں کو جو دونوں دیوتا ہیں اور نہایت اچھے رتھ بان ہیں اور ایک عمدہ گاڑی میں سوار ہوتے ہیں اور سرگ تک پہنچتے ہیں بلاتے ہیں۔ اے اسونوں دیوتا ؤ اپنی چابک سے جو کہ تمہارے گھوڑوں کی جھاگوں سے ترَہے اور اس کی پٹخار سے بڑی آواز ہوتی ہے سوم کے ارگ کو ہلادو۔ اے اسونوں دیوتاؤ ارگ چرچنی والے کے رہنے کی جگہ جہاں تم اپنی رَتھ میں سوار ہوکر جاتے ہو تم سے دور نہیں ہے۔ میں سونے کے ہاتھ والے سورج کو اپنی حفاظت کے لئے بلاتا ہوں وہ پوجاریوں کا درجہ مقرر کرتا ہے سورج کی جو پانی کا مددگار نہیں ہے ہماری حفاظت کے لئے تعریف کرو۔ ہم اس کی پوجا کرنے کے لئے آرزو رکھتے ہیں۔ دوستو بیٹھ جاؤ۔ درحقیقت ہم سورج کی تعریف کریں گے کیونکہ وہ درحقیقت دولت کا بخشنے والا ہے۔ عاقل ہمیشہ سورج کے اس بڑے درجہ کا دھیان کرتے ہیں جب سے آنکھ آسمان کی سیر کرتی ہے۔ دانا آدمی جو کہ ہوشیار رہتے ہیں اور تعریف کرنے میں بڑے سرگرم

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 504

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 504

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/504/mode/1up

علومِ حقہ اور معارفِ صحیحہ اور اسرارِ عمیقہ اور حقائقِ دقیقہ جو دنیا کے تمام اہلِ کمال لوگوں کو متفرق طور پر وقتاً فوقتاً تو عنایت کرتا رہا ہے اب وہ سب ہمؔ میں جمع کر۔ سو دیکھئے کہ اس دعا میں بھی علم اور حکمت ہی خدا سے

تمام اسباب معتادہ بکُلّی درمیان سے اٹھ جائیں اور زید و عمر کا دخل درمیان نہ رہے اور مالک واحد قہار کا وجود عریاں طور پر نظر آوے اور جب یہ معرفت کاملہ اپنا جلوہ دکھا چکی تو پھر جزا بھی ؔ بطور کامل ظہور میں آوے یعنی من حیث الورود بھی کامل ہو اور من حیث الوجود بھی۔ من حیث الورود اس طرح پر کہ ہریک

ہیں۔ سورج کے اعلیٰ درجہ کی ہم تعریف کرتے ہیں۔ سرب گیانی سورج دیوتا کو اس کے گھوڑے بلندی پر لے جاتے ہیں تاکہ وہ تمام دنیا کو دکھائی دےُ تو اے سورج سب سے زیادہ چلتا ہے تو سب کو دکھائی دیتا ہےُ تو چشمہ روشنی کا ہے تو تمام آسمان پر چمکتا ہے۔ تو اے سورج مارت دیوتا کے سامنے نکلتا ہے تو انسان کے روبرو نکلتا ہے اور تو اس طرح نکلتا ہے کہ تمام دیو لوگ تجھے دیکھ سکے۔ تو اس روشنیؔ کے ساتھ نمودار ہوتا ہے جس کے ساتھ تو صاف کرنے والا برائی سے بچانے والا ہے۔ تو فراخ آسمان کو دن اور رات کا اندازہ کرتا ہوا اور سب مخلوقات کودیکھتا ہوا طے کرتا ہے۔ تو اے سورج آرام دہندہ روشنی سے چمکتا ہوا نمودار ہوکر اور سب سے بلند آسمان پر چڑھ کر میرے دل کی بیماری اور میرے بدن کی زردی کھو دے۔ روشنی کو تاریکی کے پرے دیکھ کر ہم سورج دیوتا کے پاس جاتے ہیں جو دیوتاؤں کے درمیان ایک چیدہ دیوتا ہے۔ اے چاند دیوتا تو ہر دم کے کام کرنے سے نیکی کا کرنے والا ہے۔ تو اپنی قوتوں کے باعث سے صاحب طاقت اور سرب بیاپی ہے۔ تو اپنی بخششوں کے باعث نعمتوں کا دینے والا اور اپنی بزرگی سے بزرگ ہے تو نے اے انسان کے رہنما یُگ کے چڑھاؤں سے خوب پرورش پائی ہے۔ تیرے کام ورن راجہ کے مانند ہیں۔ تیرا کلام اے چاند بڑا ہے۔ تو عزیز مترا دیوتا کی مانند سب کا صاف کرنے والا ہے۔ تو

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 505

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 505

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/505/mode/1up

چاہی ہے اور وہ علم مانگا ہے جو تمام دنیا میں متفرق تھا۔ خلاصہ یہ کہ گو خدائے تعالیٰ نے اصول نجات کو بہت واضح اور آسان طور پر اپنی کتاب میں بیان کردیا ہے جس کے معلوم کرنے اور جاننےؔ میں کسی نوع کی دقت اور ابہام نہیں اور

جزایاب کو جزا کے وارد ہونے کے ساتھ ہی یہ بات معلوم اور متحقّق ہو کہ یہ فی الحقیقت اس کے اعمال کی جزا ہے اور نیز یہ بھی متحقّق ہو کہ اس جزا کا وارد کنندہ فی الحقیقت کریم ہی ہے جوؔ رب العالمین ہے کوئی دوسرا نہیں اور ان دونوں باتوں میں

اریمان دیوتا کی مانند سب کا بڑھانے والا ہے۔ چونکہ تیرے میں وہ سب کلیں ہیں جوتیرے سبب سے آسمان زمین پہاڑیوں اور پانی سب میں پرگت ہے۔ اس لئے اے چاند راجہ ہم سے اچھی طرح پیش آ۔ اور بلاخفگی ہماری نذریں قبول کر۔ تو اے چاند جو تعریف کا شائق اور پودوں کا گورو ہے ہماری جان ہے۔ اگر تو چاہے گا تو ہم نہیں مریں گے۔ تو اے چاند اس شخص کو جو تیری پوجا کرتا ہے خواہ وہ جوان ہو یا بوڑھا دولت دیتا ہے تاکہ وہ اس سے حظ اٹھاوے اور زندہ رہے۔ اے چاند راجا ہمیں اس سے جو نقصان پہنچانے کی فکر میں ہے محفوظ رکھ تجھ جیسے دیوتا کا دوست کبھی نہیں مرسکتا۔ اے چاند دیوتا ہماری ایسی مدد کر کر رکشا کر جس سے بھوگ لگانے والے کو خوشیؔ حاصل ہوتی ہے۔ ہماری اس بلدان کو اور تعریف کو قبول فرما کر اے چاند دیوتا ہمارے پاس آ اور ہماری رسم کا ترقی دینے والا ہو۔ چونکہ ہم منتروں سے واقف ہیں اس سبب سے ہم تیری تعریف کرکر تیرا رتبہ بڑھاتے ہیں۔ اے کر پاندھان چاند ادھر آ۔ اے دولت بخشنے والے ہماری کھونے والی دولت سے آگاہ خوراک کے بڑھانے والے چاند دیوتا ہمارا ایک لائق مددگار ہو۔ اے چاند دیوتا ہمارے دلوں میں ایسا خوش رہ جیسے مویشی سبزہ زاروں میں یا انسان اپنے گھروں میں خوش رہتا ہے۔ اے چاند دیوتا ایسا ہو کہ قوت تیرے میں ہر طرف سے آوے ہمارے واسطے خوراک مہیا کرنے میں سرگرم ہو۔ اے خوش چاند

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 506

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 506

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/506/mode/1up

سب خواندہ اور ناخواندہ اُس میں برابر ہیں۔ لیکن اس حکیم مطلق نے علمِ الٰہی کے دقائق اور اسرار عالیہ میں یہ چاہا ہے کہ انسان محنت کرکے ان کو دریافت کرے تا یہی محنت اس کے لئے موجب تکمیل نفس ہوجائے کیونکہ

ایسا تحقّق ہو کہ کوئی اشتباہ درمیان نہ رہ جائے اور من حیث الوجود اس طرح پر کامل ہو کہ انسان کے دل اور روح اور ظاہر اور باطن اور جسم اور جان اور ہریک روحانی اور بدنی قوت پر ایک دائرہ کی طرح محیط ہوجائے۔ اور نیز دائمی اور لازوال اور غیر منقطع ہو تا وہ شخص جو نیکیوں میں سبقت لے گیا ہے اپنی اُس سعادتِ عظمیٰ کو کہ جو تمام سعادتوںؔ کا انتہائی مرتبہ ہے اور وہ شخص کہ جو بدیوں میں سبقت لے گیا ہے

دیوتا سب بیلوں کے ساتھ بڑھتا جا۔ ہمارا دوست ہو۔ خوراک کی طرف سے آسودہ حالی بخش تاہم پھلیں پھولیں۔ چاند دیوتا اس شخص کو جو کہ نذریں چڑھاتا ہے۔ دودھ والی گائے چالاک گھوڑا اور ایک بیٹا جو کہ کاروبار میں ہوشیار خانگی تعلقات میں ہنرمند پوجا میں سرگرم مجلس میں لائق اور جو اپنے باپ کی عزت کا باعث ہو دیتا ہے۔ ہم اے چاند دیوتا تجھے رن میں اٹل ہزاروں آدمیوں کے گروہوں میں لڑ کر فتح یاب ہونے والا۔ طاقت زائل نہ ہونے دینے والا۔ یگوں کے درمیان پیدا اور روشن مکان میں رہنے والا مشہور اور بہادر جان کر خوش ہوتے ہیں۔ تو نے اے چاند دیوتا یہ پودے پانی کے اور گوویں پیدا کی ہیں۔ تو نے کشادہ آسمان کو پھیلایا ہے۔ تو نے تاریکی کو روشنی سے پراگندہ کردیا ہے۔ اے طاقتور چاند دیوتا اپنی روشن دماغی کے ساتھ اپنی دولت کا ایک حصہ دے ایسا ہو کہ کوئی مخالف تجھے دَقّ نہ کرسکے۔ تو کسی دو برابر کے مخالفوں کی بہادری پر فوقیت رکھتا ہے ہمیں رن میں ہمارے دشمنوں سے بچاؔ ۔ سورج روشن صبح کے اس طرح ساتھ آتا ہے۔ جیسے مرد نوجوان خوبصورت عورت کے پیچھے چلتا ہے۔ اس وقت دھرم آتما لوگ مقرری وقت کی رسموں کو کرتے ہیں اور مبارک سورج کو اچھے انعام کی خاطر پوجتے ہیں۔

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 507

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 507

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/507/mode/1up

تمامؔ قویٰ انسانیہ کا قیام اور بقا محنت اور ورزش پر ہی موقوف ہے۔ اگر انسان ہمیشہ آنکھ بند رکھے اور کبھی اس سے دیکھنے کا کام نہ لے(تو جیسا کہ تجارب طِبّیہ سے ثابت ہوگیا ہے) تھوڑے ہی دنوں کے بعد اندھا ہوجائے گا اور

اپنی اُس شقاوت عظمیٰ کو کہ جو تمام شقاوتوں کی آخری حد ہے پہنچ جائے اور تا ہریک فریق اس اعلیٰ درجہ کے مکافات کو پالے جو اس کے لئے ممکن ہے یعنی اس کامل اور دائمی مکافات کو پالے کہ جو اس عالم بے بقا اور زوال پذیر میں جس کا تمام رنج و راحت موت کے ساتھ ختم ہوجاتا ہے بمنصۂ ظہور نہیں آسکتی بلکہ اس کے کامل ظہور کے لئے

ی اُس کی پرستش کرتے ہیں۔ سورج کی تیز رفتار ہمایون فال ہاتھ پاؤں کے مضبوط راستہ طے کرنے والے گھوڑے جن کی ہم نے پرستش کی ہے اور جو تعریف کئے جانے کے مستحق ہیں آسمان کی چوٹی پر پہنچ گئے ہیں اور جلد زمین اور آسمان کے گرد پھر آئے ہیں۔ ایسا دیوتا پن اور جلال سورج کا ہے کہ جب وہ غروب ہوجاتا ہے وہ پھیلی ہوئی روشنی کو جو ادھورے کام پر پھیلی ہوئی تھی اپنے میں چھپا لیتا ہے۔ جب وہ اپنے گھوڑوں کو کھول دیتا ہے۔ اس وقت رات کی تاریکی سب پر چھا جاتی ہے۔ آفتاب مترا دیوتا اور ورن دیوتا کے سامنے اپنی روشن صورت آسمان کے درمیان ظاہر کرتا ہے اور اس کی کرنیں ایک تو اس کی بے حد روشن طاقت کو پھیلاتی ہیں اور دوسری جب وہ چلی جاتی ہیں تب رات کی تاریکی لاتی ہیں۔ آج دیوتاؤ سورج کے نکلتے ہی ہمیں نالائق باتوں سے بچاؤ۔ اور ایسا ہو کہ مترا دیوتا ورن دیوتا ادوتی دیوی سمندر دیوتا دھرتی دیوی اکاس دیوتا اس ہماری دعا کو متوجہ ہوکر سنیں۔

اب ناظرین اس کتاب کے خود خیال فرماویں کہ اس قدر شرتیوں سے جن کا ایک ذخیرہ کلاں یہاں لکھ کر کئی صفحے ہم نے سیاہ کئے ہیں کیا کچھ خدا کا بھی پتہ مل سکتا ہے۔ اور حضرات آریا سماج والے انصافاًہم کو بتلاویں کہ رگوید نے ان

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 508

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 508

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/508/mode/1up

اگر کان بند رکھے تو بہرہ ہوجائے گا۔ اور اگرؔ ہاتھ پاؤں حرکت سے بند رکھے تو آخر یہ نتیجہ ہوگا کہ ان میں نہ حس باقی رہے گی اور نہ حرکت۔ اسی طرح اگر قوت حافظہ سے کبھی کام نہ لے تو حافظہ میں فتور پڑے گا۔ اور اگر قوتِ متفکرہ

مالک حقیقی نے اپنے لطف کامل اور قہر عظیم کے دکھلانے کی غرض سے یعنی جمالی و جلالی صفتوؔ ں کی پوری پوری تجلی ظاہر کرنے کے قصد سے ایک اَور عالم جو ابدی اور لازوال ہے مقرر کررکھا ہے تا خدائے تعالیٰ میں جو صفتِ مجازات ہے جس کا کامل طور پر اس منقبض اور فانی عالم میں ظہور نہیں ہوسکتا وہ اس ابدی اور

شرتیوں میں اپنا منشا ظاہر کرنے میں کون سی بلاغت دکھلائی ہے۔ اور آپ ہی بولیں کہ کیا اس کی تقریر فصیح تقریروں کی طرح پُرزور اور مدلّل ہے یا پوچ اور لچر ہے۔ منصفین پرؔ پوشیدہ نہیں کہ ان شرتیوں میں بجائے اس کے کہ حق الامر کو اپنی خوش بیانی کے ذریعہ سے ظاہر کیا جاتا اور راستی کے پھیلانے کے لئے کوشش کی جاتی۔ خود مضمون شرتیوں کا ایسا بے سروپا اور مہمل ہے جس سے سامع اس کا ایک دبدہا میں پڑ جاتا ہے۔ کبھی ایک چیز کو خالق ٹھہراتا ہے اور اس سے مرادیں مانگتا ہے۔ کبھی اسی کو مخلوق بناتا ہے اور دوسرے کی محتاج قرار دیتا ہے۔ کبھی کسی کے لئے خدا کی صفتیں قائم کرتا ہے۔ اور پھر اسی کی طرف فانی چیزوں کی صفتیں منسوب کرتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ جس نے اس قدر کلام کو طول دیا۔ اور پھر ماحصل اس کا خاک بھی نہیں۔ نہ توحید کا مدعی ہوکر توحید کو بیان کیا ہے۔ نہ مخلوق پرستی کا مدعی ہوکر مخلوق پرستی کو بہ پایۂ ثبوت پہنچایا ہے۔ بلکہ سراسیمہ اور مخبط الحواس آدمی کی طرح ایسی تقریر بے بنیاد اور متناقض کی ہے کہ جس سے ہندو مذہب میں عجب طرح کی گڑبڑ پڑگئی ہے۔ اور کوئی کسی دیوتا کا پوجاری اور کوئی کسی دیوتا کا بھجن گارہا ہے۔ کیا ایسی تقریر سراپا فضول و مہمل اس لائق ہوسکتی ہے کہ کوئی دانا اس کو بلیغ و فصیح کہے۔ شاید بعض ہندو صاحب جنہوں نے فقط وید کا نام سن رکھا ہے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 509

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 509

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/509/mode/1up

کو بیکار چھوڑ دے تو وہ بھی گھٹتے گھٹتے کالعدم ہوجائے گی۔ سو یہ اس کا فضل و کرم ہے کہ اس نے بندؔ وں کو اس طریقہ پر چلانا چاہا جس پر ان کی قوت نظریہ کا کمال موقوف ہے۔ اور اگر خدائے تعالیٰ محنت کرنے سے

وسیع عالم میں ظہور پذیر ہوجائے اور تا ان تجلیاتِ تامہ اور کاملہ سے انسان اُس اعلیٰ درجہ کے شہودِ تام تک بھی پہنچ جائے کہ جو اس کی بشری طاقتوں کے لئے حدِ امکان میں داخل ہے اور چونکہ اعلیٰ درجہ کی مکافات عند العقل اسی میں منحصر ہے کہ جو امر بطور جزا وارد ہے وہ انسان کے ظاہرؔ و باطن و جسم و جان پر بتمام و کمال دائمی و لازمی طور پر محیط

اور کبھی اس مقدس کتاب کا درشن نہیں کیا وہ دل میں یہ وسوسہ کریں کہ یہ شرتیاں جو رگوید میں سے لکھی گئی ہیں وہ صحیح طور پر نہیں لکھی گئیں یا شاید ان سے بہتر وید مذکور میں اور شرتیاں ہوں گی جن میں وید نے وحدانیت الٰہی کے بیان کرنے میں داد فصاحت دی ہوگی یا مخلوق پرستی کو فصیح اور مدلّل تقریر میں جو لازمہ فصاحت و بلاغت ہے عطا کیا ہوگا سو ایسے وسواسی آدمیوں کے جواب میں عرض کیا جاتا ہے کہ ہم نے یہ تمام شرتیاں رگوید سنتھا استک اول سکت سے ۱۱۵ؔ سکت تک بطور نمونہ منتخب کرکے لکھی ہیں۔ اگر کسی کو یہ دعویٰ ہو کہ وہ شرتیاں صحیح نہیں ہیں تو اس پر لازم ہے کہ جو اس کی دانست میں صحیح ترجمہ ہو وہ پیش کرے تا منصف لوگ آپ دیکھ لیں کہ یہ شرتیاں صحیح ہیں یا اُس کی پیش کردہ صحیح ہیں۔ اور اگر کسی کو یہ دعویٰ ہو کہ اگرچہ یہ شرتیاں مہمل اور بے سروپا ہیں۔ مگر اسی رگوید میں ایسی شرتیاں بھی پائی جاتی ہیں جن میں وحدانیت الٰہی کا بیان نہایت صفائی اور شائستگی سے موجود ہے تو ایسے شخصپر لازم ہے کہ ہمراہ ان شرتیوں کے ان شرتیوں کو بھی پیش کرے تاکہ اگر کسی طرح ہاتھ پاؤں مار کر وید کی بلاغت و خوش بیانی ثابت ہوسکے تو ثابت ہوجائے ہم کو کسی صاحب سے ناحق کی ضد نہیں ہے ۔ہم اپنے سچے دل سے کہتے ہیں کہ ہم نے بڑی غور اور تدبّر سے وید پر نظر کرکے اس کو طریقہ شائستہ بیانی سے بالکل دور اور مہجور پایا ہے۔ اور ہم بڑے افسوس سے لکھتے ہیں کہ ایسی پراگندہ باتیں کیونکر

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 510

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 510

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/510/mode/1up

بکلّی آزاد رکھنا چاہتا تو پھر یہ بھی مناسب نہ تھا کہ اپنی آخری کتاب کو تمام لوگوں کے لئے(جو مختلف زبانیں رکھتے ہیں) ایک ہی زبان میں جس سے وہ ؔ ناآشنا ہیں بھیجتا۔ کیونکہ غیر زبان کا دریافت کرنا بھی بغیر محنت کے گو تھوڑی ہی ہو

ہوجائے اور نیز اعلیٰ درجہ کا یقین مالک حقیقی کے وجود کی نسبت اسی بات پر موقوف ہے کہ وہ مالک حقیقی اسبابِ معتادہ کو بکلی نیست ونابود کرکے عریاں طور پر جلوہ گر ہو۔ اس لئے یہ صداقت قصویٰ جس سے مطلب انتہائی معرفت اور انتہائی مکافات ہے تب ہی متحقق ہوگی کہ جب وہ تمام باتیں مذکورہ بالا متحقق ہوجائیں کہ جو عندالعقل اس کی تعریف میں داخل ہیں کیونکہ انتہائی معرفت بجز اس کے عندالعقل ممکن نہیں کہ مالک حقیقی کا جمال بطورؔ حق الیقین مشہود ہو یعنی ظہور اور بروز تام ہو جس پر

آریا سماج والوں کے دلوں کو بھار ہی ہیں اور کیوں وہ ایسے کچے اور پست خیالات پر فریفتہ ہورہے ہیں۔ اگر وید کا کلام باوجود اس فضول طوالت اور مہمل بیانی اور خبط مضمون کے پھر بھی فصیح اور بلیغ ہی ہے تو پھر غیر فصیح کلام دنیا میں کس کو کہنا چاہئے۔ اور اگر آریا سماج والوں کو یہ معلوم نہیں کہ کلام فصیح کسے کہتے ہیں تو لازم ہے کہ وہ ذرا آنکھ کھول کر بمقابلہ طول طویل وید کے کلام کے جو اوپر تحریر ہوچکا ہے قرآن شریف کی چند آیات پر نظر ڈالیں کہ کس لطافت و ایجاز سے مسائل کثیرہ وحدانیت کو قل و دل عبارت میں بیان کرتا ہے اور کس جہدو کوشش سے مسئلہ توحید کو دل میں بٹھاتا ہے اور کیسی فصیح اور مدلّل تقریر سے توحید الٰہی کو قلوب صافیہ میں منقش ؔ کرتا ہے۔ اگر اس کی مانند وید مذکور میں شرتیاں موجود ہوں تو پیش کرنی چاہئیں ورنہ بیہودہ بک بک کرنا اور لاجواب رہ کر پھر خبث اور شر سے باز نہ آنا ان لوگوں کا کام ہے جن لوگوں کو خدا اور ایمانداری سی کچھ بھی غرض نہیں اور نہ حیا اور شرم سے کچھ سروکار ہے۔ اب یہاں ہم بطور نمونہ بمقابلہ وید کی شرتیوں کے کسی قدر آیات قرآن شریف جو وحدانیتِ الٰہی کو بیان کرتے ہیں لکھتے ہیں تاہریک کو معلوم ہوجائے کہ وید اور قرآن شریف میں سے کس کی عبارت میں لطافت اور ایجاز اور

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 511

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 511

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/511/mode/1up

ممکن نہیں۔

تمہیدؔ پنجم:۔ جس معجزہ کو عقل شناخت کرکے اس کے منجانب اللہ ہونے

زیادت متصور نہ ہو۔ علیٰ ہذا القیاس انتہائی مکافات بھی بجز اس کے عندالعقل غیر ممکن ہے کہ جیسے جسم اور جان دونوں دنیا کی زندگی میں مل کر فرمانبردار یا نافرمان اور سرکش تھی ایسا ہی مکافات کے وقت وہ دونوں مورد انعام ہوؔ ں یا دونوں سزا

زور بیان پایا جاتا ہے اور کس کی عبارت طرح طرح کے شکوک اور شبہات میں ڈالتی ہے اور فضول اور طول طویل ہے۔ اور آیات ممدوحہ یہ ہیں:۔

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 512

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 512

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/512/mode/1up

پر گواہی دے وہ ان معجزات سے ہزارہا درجہ افضل ہوتا ہے کہ جو صرف بطور کتھا یا قصہ کے مدمنقولاتؔ میں بیان کئے جاتے ہیں اِس ترجیح کے دو

میں پکڑے جائیں اور مکافات کاملہ کا بحرِ موّاج یکساں ظاہر و باطن پر اپنے احاطۂ تام سے محیط اور مشتمل ہوجائے لیکن برہمو سماج والے اس صداقت سے بھی انکاری ہیں۔ بلکہ اس صداؔ قت قصویٰ کا وجود ان کے نزدیک متحقق ہی نہیں اور

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 513

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 513

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/513/mode/1up

باعث ہیں۔ ایک تو یہ کہ منقولی ُ معجزات ہمارے لئے جو صدہا سال اس زمانہ سے پیچھے پیدا ہوئے ہیں جب معجزات دکھلاؔ ئے گئے تھے مشہود

بزعم ان کے انسان کی قسمت میں نہ انتہائی معرفت کا پانا مقدر ہے نہ انتہائی مکافات کا اور مکافات ان کے نزدیک فقط ایک خیالی پلاؤ ہے جوؔ صرف اپنے ہی بے بنیاد

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 514

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 514

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/514/mode/1up

اور محسوس کا حکم نہیں رکھتے اور اخبار منقولہ ہونے کے باعث سے وہ درجہ ان کو حاصل بھی نہیں ہوسکتا جو مشاہدات اور مرئیات کو حاصل ہوتا ہے

تصورات سے پکایا جائے گا نہ حقیقی طور پر کوئی جزاخدائے تعالیٰ کی طرف سے بندوں پر وارد ہوگی نہ کوئی سزا بلکہ خود تراشیدہ خیالات ہی خوش حالی یا بدحالی

اللہ جو جامع صفاتِ کاملہ اور مستحق عبادت ہے اس کا وجود بدیہی الثبوت ہے کیونکہ وہ حیّ بالذّات اور قائم بالذّات ہے بجز اس کے کوئی چیز حیّ بالذّات اور قائم بالذّات نہیں یعنی اس کے بغیر کسی چیز میں یہ صفت پائی نہیں جاتی کہ بغیر کسی علّتِ موجدہ کے آپ ہی موجود اور قائم رہ سکے یا کہ اس عالم کی جو کمال حکمت اور ترتیب محکم اور موزون سے بنایا گیاہے علّتِ موجبہ ہوسکے اور یہ امر اس صانع عالم جامع صفاتِ کاملہ کی ہستی کو

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 515

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 515

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/515/mode/1up

دوسرؔ ے یہ کہ جن لوگوں نے منقولی معجزات کو جو تصرفِ عقل سے بالاتر ہیں مشاہدہ کیا ہے ان کے لئے بھی وہ تسلی تام کا موجب نہیں ٹھہر سکتی کیونکہ

کے موجب ہوجائیں گے اورؔ کوئی ایسا ظاہری و باطنی امر نہیں ہوگا کہ جو خاص خدائے تعالیٰ کے ارادہ سے نیک بندوں پر بصورت نعمت اور بد بندوں پر

ثابت کرنے والا ہے۔ تفصیل اس استدلال لطیف کی یہ ہے کہ یہ بات بہ بداہت ثابت ہے کہ عالم کے اشیاء میں سے ہریک موجود جو نظر آتا ہے اس کا وجود اور قیام نظراً علیٰ ذاتہٖ ضروری نہیں مثلاً زمین کروی الشکل ہے اور قطر اس کا بعض کے گمان کے موافق تخمیناً چار ہزار کوس پختہ ہے مگر اس بات پر کوئی دلیل قائم نہیں ہوسکتی کہ کیوں یہی شکل اور یہی مقدار اس کے لئے ضروری ہے اور کیوں جائز نہیں کہ اس سے زیادہ یا اس سے کم ہو یا برخلاف شکل حاصل کے کسی اور شکل سے متشکل ہو اور جب اس پر کوئی دلیل قائم نہ ہوئی تو یہ شکل اور یہ مقدار جس کے مجموعہ کا نام وجود ہے زمین کے لئے ضروری نہ ہوا اور علیٰ ہذا القیاس عالم کی تمام اشیاء کا وجود اور قیام غیر ضروری ٹھہرا۔ اور صرف یہی بات نہیں کہ وجود ہریک ممکن کا نظراً علی ذاتہ غیر ضروری ہے بلکہ بعض صورتیں ایسی نظر آتی ہیں کہ اکثر چیزوں کے معدوم ہونے کے اسباب بھی قائم ہوجاتے ہیں پھر وہ چیزیں معدوم نہیں ہوتیں مثلاً باوجود اس کے کہ سخت سخت قحط اور وبا پڑتی ہیں مگر پھر بھی ابتداء زمانہ سے تخم ہریک چیز کا بچتا چلا آیا ہے حالانکہؔ عندالعقل جائز بلکہ واجب تھا کہ ہزارہا شدائد اور حوادث میں سے جو ابتدا سے دنیا پر نازل ہوتی رہی کبھی کسی دفعہ ایسا بھی ہوتا کہ شدت قحط کے وقت غلہ جو کہ خوراک انسان کی ہے بالکل مفقود ہوجاتا یا کوئی قسم غلّہ کی مفقود ہوجاتی یا کبھی شدت وبا کے وقت نوع انسان کا نام و نشان باقی نہ رہتا یا کوئی اور انواع حیوانات میں سے مفقود ہوجاتے یا کبھی اتفاقی طور پر سورج یا چاند کی کَل بگڑ جاتی یا دوسری بے شمار چیزوں سے جو عالم کی درستی نظام کے لئے ضروری ہیں کسی چیز کے وجود میں

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 516

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 516

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/516/mode/1up

بہت سے ایسے عجائبات بھیؔ ہیں کہ ارباب شعبدہ بازی ان کو دکھلاتے پھرتے

بصورت عذاب اترے گا۔ پس ان کا یہ مذہب نہیں ہے کہ امر مجازات کا خدا مالک ہے۔ اورؔ وہی اپنے نیک بندوں پر اپنے خاص ارادہ سے خوشحالی اور لذتِ دائمی کا

خلل راہ پاجاتا کیونکہ کروڑہا چیزوں کا اختلال اور فساد سے سالم رہنا اور کبھی ان پر آفت نازل نہ ہونا قیاس سے بعید ہے پس جو چیزیں نہ ضروری الوجود ہیں نہ ضروری القیام بلکہ ان کا کبھی نہ کبھی بگڑ جانا ان کے باقی رہنے سے زیادہ تر قرین قیاس ہے ان پر کبھی زوال نہ آنا اور احسن طور پر بہ ترتیب محکم اور ترکیب ابلغ ان کا وجود اور قیام پایا جانا اور کروڑہا ضروریات عالم میں سے کبھی کسی چیز کا مفقود نہ ہونا صریح اس بات پر نشان ہے کہ ان سب کے لئے ایک محیی اور محافظ اور قیوم ہے جو جامع صفات کاملہ یعنی مدبر اور حکیم اور رحمان اور رحیم اور اپنی ذات میں ازلی ابدی اور ہریک نقصان سے پاک ہے جس پر کبھی موت اور فنا طاری نہیں ہوتی بلکہ اونگھ اور نیند سے بھی جو فی الجملہ موت سے مشابہ ہے پاک ہے سو وہی ذات جامع صفات کاملہ ہے جس نے اس عالم امکانی کو برعایت کمال حکمت و موزونیت وجود عطا کی اور ہستی کو نیستی پر ترجیح بخشی اور وہی بوجہ اپنی کمالیت اور خالقیت اور ربوبیت اور قیومیت کے مستحق عبادت ہے۔ یہاں تک تو ترجمہ اس آیت کا 33۔ ۱؂ اب بنظر انصاف دیکھنا چاہئے کہ کس بلاغت اور لطافت اور متانت اور حکمت سے اس آیت میں وجود صانع عالم پر دلیل بیان فرمائی ہے اور کس قدر تھوڑے لفظوں میں معانی کثیرہ اور لطائف حکمیہ کو کوٹ کوٹ کر بھر دیا ہے اور مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِکے لئے ایسی محکم دلیل سےؔ وجود ایک خالق کامل الصفات کا ثابت کر دکھایا ہے جس کے کامل اور محیط بیان کے برابر کسی حکیم نے آج تک کوئی تقریر بیان نہیں کی بلکہ حکماء ناقص الفہم نے ارواح اور اجسام کو حادث بھی نہیں سمجھا اور اس

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 517

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 517

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/517/mode/1up

ہیں گو وہ مکر اور فریب ہی ہیں مگر اب مخالف بداندیش پر کیونکر ثابت کرکے

فیضان کرے گا۔ جس لذّتِ کاملہ کو سعید لوگ نہ صرف باطنی طور پر بلکہ صورِ مشہودہ اور محسوسہ میں بھی مشاہدہ کریں گے اور قویٰ انسانیہ میں سے کوئی

رازِ دقیق سے بے خبر رہے کہ حیات حقیقی اور ہستی حقیقی اور قیام حقیقی صرف خدا ہی کے لئے مسلم ہے یہ عمیق معرفت اسی آیت سے انسان کو حاصل ہوتی ہے جس میں خدا نے فرمایا کہ حقیقی طور پر زندگی اور بقاء زندگی صرف اللہ کے لئے حاصل ہے جو جامع صفات کاملہ ہے اس کے بغیر کسی دوسری چیز کو وجود حقیقی اور قیام حقیقی حاصل نہیں اور اسی بات کو صانع عالم کی ضرورت کے لئے دلیل ٹھہرایا اور فرمایا 3۔ ۱؂ یعنی جبکہ عالم کے لئے نہ حیات حقیقی حاصل ہے نہ قیام حقیقی تو بالضرور اس کو ایک علّتِ موجبہ کی حاجت ہے جس کے ذریعہ سے اس کو حیات اور قیام حاصل ہوا۔ اور ضرور ہے کہ ایسی علّتِ موجبہ جامع صفات کاملہ اور مدبرّبالارادہ اور حکیم اور عالم الغیب ہو۔ سو وہی اللہ ہے۔ کیونکہ اللہ بموجب اصطلاح قرآن شریف کے اس ذات کا نام ہے جو مستجمع کمالات تامہ ہے اسی وجہ سے قرآن شریف میں اللہ کے اسم کو جمیع صفاتِ کاملہ کا موصوف ٹھہرایا ہے اور جابجا فرمایا ہے کہ اللہ وہ ہے جو کہ رب العالمین ہے رحمان ہے رحیم ہے مدبّر بالارادہ ہے حکیم ہے۔ عالم الغیب ہے قادر مطلق ہے ازلی ابدی ہے وغیرہ وغیرہ۔ سو یہ قرآنِ شریف کی ایک اصطلاح ٹھہر گئی کہ اللہ ایک ذات جامع جمیع صفات کاملہ کا نام ہے اسی جہت سے اس آیت کے سر پر بھی اللہ کا اسم لائے اور فرمایا 3۔ یعنی اس عالم بے ثبات کا قیوم ذات جامع الکمالات ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ یہ عالم جس ترتیب محکم اور ترکیب ابلغ سے موجود اور مترتّب ہے اس کے لئے یہ گمان کرنا باطل ہے کہ انہیں چیزوں میں سے بعض چیزیں بعض کے لئے علّتِ موجبہ ہوسکتی ہیں بلکہ اس حکیمانہ کام کے لئے جو سراسر حکمت سے بھرا

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 518

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 518

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/518/mode/1up

دکھلاویں کہ انبیاء سے جو عجائبات اس قسم کے ظاہرؔ ہوئے ہیں کہ کسی نے سانپ

قوتؔ ظاہری ہو یا باطنی اپنے مناسب حال لذّت اٹھانے سے محروم نہیں رہے گی اور جسم اور جان دونوں راحت یا عذابِ اُخروی میں یعنی جیسی کہ صورت ہو شریک ہوجائیں گے۔

ہوا ہے ایک ایسے صانع کی ضرورت ہے جو اپنی ذات میں مدبر بالارادہ اور حکیم اور علیم اور رحیم اور غیر فانی اور تمام صفات کاملہ سے متصفؔ ہو۔ سو وہی اللہ ہے جس کو اپنی ذات میں کمال تام حاصل ہے۔ پھر بعد ثبوت وجود صانع عالم کے طالب حق کو اس بات کا سمجھانا ضروری تھا کہ وہ صانع ہریک طور کی شرکت سے پاک ہے سو اس کی طرف اشارہ فرمایا 3 الخ ۱ ؂ اس اقل عبارت کو جو بقدر ایک سطر بھی نہیں دیکھنا چاہئے کہ کس لطافت اور عمدگی سے ہریک قسم کی شراکت سے وجود حضرت باری کا منزّہ ہونا بیان فرمایا ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ شرکت ازروئے حصر عقلی چار قسم پر ہے کبھی شرکت عدد میں ہوتی ہے اور کبھی مرتبہ میں اور کبھی نسب میں اور کبھی فعل اور تاثیر میں۔ سو اس سورۃ میں ان چاروں قسموں کی شرکت سے خدا کا پاک ہونا بیان فرمایا اور کھول کر بتلا دیا کہ وہ اپنے عدد میں ایک ہے دو یا تین نہیں اور وہ صمدہے یعنی اپنے مرتبہ وجوب اور محتاج الیہ ہونے میں منفرد اور یگانہ ہے اور بجز اس کے تمام چیزیں ممکن الوجود اور ہالک الذّات ہیں جو اس کی طرف ہردم محتاج ہیں اور وہ 3 ۲؂ہے یعنی اس کا کوئی بیٹا نہیں تا بوجہ بیٹا ہونے کے اس کا شریک ٹھہر جائے اور وہ 3 ۳؂ ہے یعنی اس کا کوئی باپ نہیں تا بوجہ باپ ہونے کے اس کا شریک بن جائے اور وہ 3 ۴؂ ہے یعنی اس کے کاموں میں کوئی اس سے برابری کرنے والا نہیں تا باعتبار فعل کے اس کا شریک قرار پاوے۔ سو اس طور سے ظاہر فرمادیا کہ خدائے تعالیٰ چاروں قسم کی شرکت سے پاک اور منزہ ہے اور وحدہ لاشریک ہے۔ پھر بعد اس کے اس کے وحدہ لاشریک ہونے پر ایک عقلی دلیل بیان فرمائی اور کہا33۔ ۵؂ 3 الخ۔ ۶؂ یعنی اگر زمین و آسمان میں بجز اُس

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 519

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 519

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/519/mode/1up

بنا کر دکھلا دیا اور کسی نے مردہ کو زندہ کرکے دکھلا دیا یہ اس قسم کی دست بازیوں سے منزہ ہیں جو شعبدہ باز لوگ کیا کرتے ہیں یہ مشکلات کچھؔ ہمارے ہی زمانہ میں

غرض برہمو سماج والوں کا اعتقاد بالکل اس صداقت کےؔ برخلاف اور اس کے مفہومِ کامل کے منافی ہے یہاں تک کہ وہ اپنی کور باطنی سے نجاتِ اُخروی کے جسمانی سامان کو کہ جو ظاہری

ایک ذات جامع صفات کاملہ کے کوئی اور بھی خدا ہوتا تو وہ دونوں بگڑ جاتے۔ کیونکہ ضرور تھا کہ کبھی وہ جماعت خدائیوں کی ایک دوسرے کے برخلاف کام کرتے۔ پس اسی پھوٹ اور اختلاف سے عالم میں فساد راہ پاتا اور نیز اگر الگ الگ خالق ہوتے تو ہر واحد ان میں سے اپنی ہی مخلوق کی بھلائی چاہتا اور ان کے آرام کے لئے دوسروں کا برباد کرنا روا رکھتا پس یہ بھی موجب فساد عالم ٹھہرتا یہاں تک تو دلیل لِمِّی سے خدا کا واحد لاشریک ہونا ثابت کیا۔ پھر بعد اس کے خدا کے وحدہ لاشریک ہونے

پر دلیلؔ اِنِّی بیان فرمائی اور کہا۔33 ۱؂ الخ یعنی مشرکین اور منکرین وجود حضرت باری کو کہہ کہ اگر خدا کے کارخانہ میں کوئی اور لوگ بھی شریک ہیں یا اسباب موجودہ ہی کافی ہیں تو اس وقت کہ تم اسلام کے دلائل حقیت اور اس کی شوکت اور قوت کے مقابلہ پر مقہور ہورہے ہو ان اپنے شرکاء کو مدد کے لئے بلاؤ اور یاد رکھو کہ وہ ہرگز تمہاری مشکل کشائی نہ کریں گے اور نہ بلا کو تمہارے سر پر سے ٹال سکیں گے۔ اے رسول ان مشرکین کو کہہ کہ تم اپنے شرکاء کو جن کی پرستش کرتے ہو میرے مقابلہ پر بلاؤ۔ اور جو تدبیر میرے مغلوب کرنے کے لئے کرسکتے ہو وہ سب تدبیریں کرو اور مجھے ذرہ مہلت مت دو اور یہ بات سمجھ رکھو کہ میرا حامی اور ناصر اور کارساز وہ خدا ہے جس نے قرآن کو نازل کیا ہے اور وہ اپنے سچے اور صالح رسولوں کی آپ کارسازی کرتا ہے مگر جن چیزوں کو تم لوگ اپنی مدد کے لئے پکارتے ہو۔ وہ ممکن نہیں ہے جو تمہاری مدد کرسکیں اور نہ کچھ اپنی مدد کرسکتے ہیں پھر بعد اس کے خدا کا ہریک نقصان اور عیب سے پاک ہونا قانون قدرت کے رو سے ثابت کیا اور فرمایا

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 520

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 520

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/520/mode/1up

پیدا نہیں ہوئیں بلکہ ممکن ہے کہ انہیں زمانوں میں یہ مشکلات پیدا ہوگئی ہوں مثلاً جب ہم یوحنا کی انجیل کے پانچویں باب کی دوسری آیت سے پانچویں آیتؔ

قوتوں کے مناسب حال سعادتِ عظمیٰ کی تکمیل کے لئے قرآنِ شریف میں بیان کیاؔ ؔ گیا ہے اور اسی طرح عذابِ اُخروی کے جسمانی سامان کو کہ جو ظاہری قوتوں کے

ا لخ یعنی ساتوں آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے خدا کی تقدیس کرتے ہیں اور کوئی چیز نہیں جو اس کی تقدیس نہیں کرتی پر تم ان کی تقدیسوں کو سمجھتے نہیں یعنی زمین آسمان پر نظر غور کرنے سے خدا کا کامل اور مقدس ہونا اور بیٹوں اور شریکوں سے پاک ہونا ثابت ہورہا ہے مگر ان کے لئے جو سمجھ رکھتے ہیں۔ پھر بعد اس کے جُزئ طور پر مخلوق پرستوں کو ملزم کیا اور ان کا خطا پر ہونا ظاہر فرمایا اور کہا 3 3 ۲؂ الخ یعنی بعض لوگ کہتے ہیں کہ خدا بیٹا رکھتا ہے حالانکہ بیٹے کا محتاج ہونا ایک نقصان ہے اور خدا ہریک نقصان سے پاک ہے وہ تو غنی اور بے نیاز ہے جس کو کسی کی حاجت نہیں جو کچھ آسمان و زمین میں ہے سب اسی کا ہے۔ کیا تم خدا پر ایسا بہتان لگاتے ہو جس کی تائید میں تمہارے پاس کسی نوعؔ کا علم نہیں۔ خدا کیوں بیٹوں کا محتاج ہونے لگا۔ وہ کامل ہے اور فرائض الوہیّت کے ادا کرنے کے لئے وہ ہی اکیلا کافی ہے کسی اور منصوبہ کی حاجت نہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ خدا بیٹیاں رکھتا ہے حالانکہ وہ ان سب نقصانوں سے پاک ہے کیا تمہارے لئے بیٹے اور اس کے لئے بیٹیاں یہ تو ٹھیک ٹھیک تقسیم نہ ہوئی۔ اے لوگو! تم اس خدائے واحد لاشریک کی پرستش کرو جس نے تم کو اور تمہارے باپ دادوں کو پیدا کیا چاہئے کہ تم اس قادر توانا سے ڈرو جس نے زمین کو تمہارے لئے بچھونا اور آسمان کو تمہارے لئے چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتار کر طرح طرح کے رزق تمہارے لئے پھلوں میں سے پیدا کئے سو تم دیدہ دانستہ انہیں چیزوں کو خدا کا شریک مت ٹھہراؤ جو تمہارے فائدہ کے لئے بنائی گئی ہیں۔ خدا ایک ہے جس کا کوئی شریک نہیں وہی آسمان میں خدا ہے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 521

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 521

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/521/mode/1up

تک دیکھتے ہیں تو اس میں یہ لکھا ہوا پاتے ہیں اور اور شلیم میں باب الضان کے پاس ایک حوض ہے جو عبرانی میں بیت حدا کہلاتا ہے اس کے پانچ اُسارے ہیں۔ ان میں ناتوؔ انوں اور اندھوں اور لنگڑوں

مناسب حال شقاوتِ عظمیٰ کی تکمیل کے لئے فرقانِ مجید میں مندرج ہے مورد اعتراض سمجھتے ہیں مگر ایسی سمجھ پر پتھر پڑیں کہ جو ایک بدیہی اور کامل صداقت کو عیب کی صورت میں تصور کیا جائے۔ افسوس یہ لوگ کیوں نہیں سمجھتے کہ سعاؔ دتِ عظمیٰ یا شقاوتِ عظمیٰ کے

اور وہی زمین میں خدا۔ وہی اول ہے اور وہی آخر۔ وہی ظاہر ہے وہی باطن۔ آنکھیں اس کی کنہ دریافت کرنے سے عاجز ہیں اور اس کو آنکھوں کی کنہ معلوم ہے وہ سب کا خالق ہے اور کوئی چیز اس کی مانند نہیں اور اس کے خالق ہونے پر یہ دلیل واضح ہے کہ ہریک چیز کو ایک اندازہ مقرری میں محصور اور محدود پیدا کیا ہے جس سے وجود اس ایک حاصر اور محدّد کا ثابت ہوتا ہے اس کے لئے تمام محامد ثابت ہیں اور دنیا و آخرت میں وہی منعم حقیقی ہے اور اسی کے ہاتھ میں ہریک حکم ہے اور وہی تمام چیزوں کا مرجع و مآب ہے۔ خدا ہریک گناہ کو بخش دے گا جس کے لئے چاہے گا پر شرک کو ہرگز نہیں بخشے گا۔ سو جو شخص خدا کی ملاقات کا طالب ہے اسے لازم ہے کہ ایسا عمل اختیار کرے جس میں کسی نوع کا فساد نہ ہو اور کسی چیز کو خدا کی بندگی میں شریک نہ کرے۔ تو خدا کے ساتھ کسی دوسری چیز کو ہرگز شریک مت ٹھہراؤ خدا کا شریک ٹھہرانا سخت ظلم ہے۔ تو بجز خدا کے کسی اور سے مرادیں مت مانگؔ سب ہلاک ہوجائیں گے ایک اسی کی ذات باقی رہ جاوے گی۔ اسی کے ہاتھ میں حکم ہے اور وہی تمہارا مرجع ہے۔ تیرے خدا نے یہ چاہا ہے کہ تو فقط اسی کی بندگی کر اور اپنے ماں باپ سے احسان کرتا رہ اور اگر تجھے اس بات کی طرف بہکاویں کہ تو میرے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہراوے تو ان کا کہا مت مان۔ اگر تجھے کوئی تکلیف پہنچے تو بجز خدا اور کوئی تیرا یار نہیں کہ اس تکلیف کو دور کرے اور اگر تجھے کچھ بھلائی پہنچے تو ہریک بھلائی کے پہنچانے پر

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 522

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 522

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/522/mode/1up

اور پژمردوں کی ایک بڑی بھیڑ پڑی تھی جو پانی کے ہلنے کی منتظر تھی کیونکہ ایک فرشتہ بعض وقت اس حوض میں اتر کر پانی کو ہلاتا تھا اور

پانے کے لئے یہی ایک طریق ہے کہ خدائے تعالیٰ توجہ خاص فرما کر امر مکافات کو کامل طور پر نازل کرے اور کامل طور پر نازل ہونے کے یہی معنے ہیں کہ وہ مکافات تمام ظاہر و باطن پر مستولی ہوجائے اور کوئی ایسی ظاہری یا باطنی قوت باقی نہ رہے جس کو اس مکافات

خدا ہی قادر ہے کوئی دوسرا نہیں۔ اسی کا تمام بندوں پر تسلّط اور تصرّف ہے اور وہی صاحبِ حکمتِ کاملہ اور ہریک چیز کی حقیقت سے آگاہ ہے تمام حاجتوں کو اس سے مانگنا چاہئے۔ اور جو لوگ بجز اس کے اور اور چیزوں سے اپنی حاجت مانگتے ہیں وہ چیزیں ان کی دعاؤں کا کچھ جواب نہیں دیتیں۔ ایسے لوگوں کی یہ مثال ہے جیسے کوئی پانی کی طرف دونوں ہاتھ پھیلا کر کہے کہ اے پانی میرے مونہہ میں آجا۔ سو ظاہر ہے کہ پانی میں یہ طاقت نہیں کہ کسی کی آواز سنے اور خودبخود اس کے مونہہ میں پہنچ جائے۔ اسی طرح مشرک لوگ بھی اپنے معبودوں سے عبث طور پر مدد طلب کرتے ہیں جس پر کوئی فائدہ مترتب نہیں ہوسکتا۔ گو کوئی مقرب الٰہی ہو مگر کسی کی مجال نہیں کہ خواہ نخواہ سفارش کرکے کسی مجرم کو رہا کرادے۔ خدا کا علم ان کے پیش وپس پر محیط ہورہا ہے۔ اور ان کو خدا کے علوم سے صرف اسی قدر اطلاع ہوتی ہے جن باتوں پر وہ آپ مطلع کرے اس سے زیادہ نہیں اور وہ خدائے تعالیٰ سے ڈرتے رہتے ہیں اور خدا کے تمام کامل نام اسی سے مخصوص ہیں اور ان میں شرکت غیر کی جائز نہیں۔ سو خدا کو انہیں ناموں سے پکارو جو بلاشرکت غیرے ہیں یعنی نہ مخلوقات ارضی و سماوی کے نام خدا کے لئے وضع کرو۔ اور نہ خدا کے نام مخلوق چیزوں پر اطلاق کرو۔ اور ان لوگوں سے جدا رہو جو کہ خدا کے ناموں میں شرکت غیر جائز رکھتے ہیں عنقریب وہ

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 523

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 523

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/523/mode/1up

انیؔ ہلنے کے بعد جو کوئی کہ پہلے اس میں اترتا کیسی ہی بیماری میں کیوں نہ ہو اس سے چنگا ہوجاتا تھا اور وہاں ایک شخص تھا کہ جو اٹھتیس برس سے بیمار تھے یسوع نے

سے حصہ نہ پہنچا ہو یہؔ وہی مکافات عظیمہ کا انتہائی مرتبہ ہے جس کو فرقان مجید نے دوسرے لفظوں میں بہشت اور دوزخ کے نام سے تعبیر کیا ہے اور اپنی کامل اور روشن کتاب میں بتلا دیا ہے کہ وہ بہشت اور دوزخ روحانی اور جسمانی دونوں قسم کے مکافات پر

اپنےؔ کاموں کا بدلہ پائیں گے۔ تم اے مشرکو بجز خدا کے صرف بے جان ُ بتوں کی پرستش کرتے ہو اور سراسر جھوٹ پر جم رہے ہو۔ سو اس پلیدی سے جو بُت ہیں پرہیز کرو اور دروغ گوئی سے باز آؤ۔ کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے وہ چلتے ہیں کیا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ پکڑتے ہیں کیا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہیں کیا ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے ہیں اور تم سورج اور چاند کو بھی مت سجدہ کرو اور اس خدا کو سجدہ کرو جس نے ان سب چیزوں کو پیدا کیا ہے۔ اگر حقیقی طور پر خدا کے پرستار ہو تو اسی خالق کی پرستش کرو نہ مخلوق کی۔ سورج کو یہ طاقت نہیں کہ چاند کی جگہ پہنچ جائے اور نہ رات دن پر سبقت کرسکتی ہے کوئی ستارہ اپنے فلک مقرری سے آگے پیچھے نہیں ہوسکتا۔ زمین آسمان میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں جو مخلوق اور بندۂ خدا ہونے سے باہر ہو اور اگر کوئی کہے کہ میں بھی بمقابلہ خدائے تعالیٰ ایک خدا ہوں تو ایسے شخص کو ہم واصل جہنم کریں اور ظالموں کو ہم یہی سزا دیا کرتے ہیں۔ سو تم خدا اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لاؤ اور یہ مت کہو کہ تین ہیں باز آجاؤ یہی تمہارے لئے بہتر ہے۔ اے لوگو ایک مثال ہے تم غور کرکے سنو جن چیزوں سے تم مرادیں مانگتے ہو وہ چیزیں تو ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتیں اور اگر مکھی ان سے کچھ چھین لے تو اس سے چھوڑا نہیں سکتیں۔ طالب بھی ضعیف ہیں اور مطلوب بھی ضعیف یعنی مخلوق چیزوں سے مرادیں مانگنے والے ضعیف العقل ہیں اور مخلوق چیزیں جو معبود ٹھہرائی گئیں وہ ضعیف القدرت ہیں۔ مشرک لوگوں نے جیسا چاہئے تھا خدا کو شناخت نہیں کیا وہ ایسا سمجھتے ہیں کہ گویا خدا کا کارخانہ بغیر دوسرے شرکاء کے چل نہیں سکتا حالانکہ خدا اپنی ذات میں صاحب قوّتِ تامہ

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 524

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 524

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/524/mode/1up

جب اُسے پڑےؔ ہوئے دیکھا اور جانا کہ وہ بڑی مدت سے اس حالت میں ہے تو اُس سے کہا کہ کیا تو چاہتا ہے کہ چنگا ہوجائے بیمار نے اسے جواب دیا کہ اے

کامل طور پر مشتمل ہے اور ان دونوں قسموں کو کتابِ ممدوحؔ میں مفصل طور پر بیان فرما دیا ہے اور سعادتِ عظمیٰ اور شقاوتِ عظمیٰ کی حقیقت کو بخوبی کھول دیا ہے۔ مگر جیسا کہ ہم ابھی بیان کرچکے ہیں اِس صداقتِ قصویٰ اور نیز دوسری گزشتہ بالا صداقتوں سے برہمو سماج والے ناآشنا محض ہیں۔

اور غلبہ کاملہ ہے تمام قوتیں اسی کے لئے خاص ہیں اور مشرک لوگ ایسے نادان ہیں کہ جِنّات کو خدا کا شریک ٹھہرا رکھا ہے اور اس کے لئے بغیر کسی علم اورؔ اطلاع حقیقت حال کے بیٹے اور بیٹیاں تراش رکھی ہیں اور یہود کہتے ہیں کہ عُزیر خدا کا بیٹا ہے اور نصاریٰ مسیح کو خدا کا بیٹا بناتے ہیں یہ سب ان کے مونہہ کی باتیں ہیں جن کی صداقت پر کوئی ُ حجت قائم نہیں کرسکتے بلکہ صرف پہلے زمانہ کے مشرکوں کی رِیس کررہے ہیں ملعونوں نے سچائی کا راستہ کیسا چھوڑ دیا اپنے فقیہوں اور درویشوں اور مریم کے بیٹے کو خدا ٹھہرا لیا ہے حالانکہ حکم یہ تھا کہ فقط خدائے واحد کی پرستش کرو خدا اپنی ذات میں کامل ہے اس کو کچھ حاجت نہیں کہ بیٹا بناوے کون سی کسر اس کی ذات میں رہ گئی تھی جو بیٹے کے وجود سے پوری ہوگئی اور اگر کوئی کسر نہیں تھی تو پھر کیا بیٹا بنانے میں خدا ایک فضول حرکت کرتا جس کی اس کو کچھ ضرورت نہ تھی وہ تو ہریک عبث کام اور ہریک حالتِ ناتمام سے پاک ہے جب کسی بات کو کہتا ہے ہو تو ہوجاتی ہے۔ اہل اسلام جو ایمان لائے ہیں جنہوں نے توحید خالص اختیار کی اور یہود جنہوں نے اولیاء اور انبیاء کو اپنا قاضی الحاجات ٹھہرا دیا اور مخلوق چیزوں کو کارخانۂ خدائی میں شریک مقرر کیا اور صابئین جو ستاروں کی پرستش کرتے ہیں اور نصاریٰ جنہوں نے مسیح کو خدا کا بیٹا قرار دیا ہے اور مجوس جو آگ اور سورج کے پرستار ہیں اور باقی تمام مشرک جو طرح طرح کے شرک میں گرفتار ہیں خدا ان سب میں قیامت کے دن فیصلہ کردے گا خدا ہریک چیز پر شاہد ہے اور خود مخلوق پرستوں کا باطل پر ہونا کچھ

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 525

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 525

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/525/mode/1up

خداوند مجھ پاس آدمی نہیں کہؔ جب پانی ہلے تو مجھے اس میں ڈال دے اور جب تک میں آپ سے آؤں دوسرا مجھ سے پہلے اتر پڑتا ہے اب ظاہر ہے کہ وہ شخص جو

چھٹیؔ صداقت جو سورۃ فاتحہ میں مندرج ہے اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُُ ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ اے صاحب صفاتِ کاملہ اور مبدء فیوض اربعہ ہم تیری ہی پرستش کرتے ہیں اور پرستش وغیرہ ضرورتوں اور حاجتوں میں مدد بھی

پوشیدہ بات نہیں یہ بات نہایت بدیہی ہے اور ہریک شخص ذاتی توجہ سے دیکھ سکتا ہے کہ جو کچھ آسمان اور زمین میں اجرام فلکی اور اجسام ارضی و نباتات اور جمادات اور حیوانات اور عناصر اور چاند اور سورج اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور طرح طرح کے جاندار اور انسان ہیں جن کی مشرک لوگ پوجا کرتے ہیں یہ سب چیزیں خدا کو سجدہ کرتی ہیں یعنی اپنی ہستی اور بقا اور وجود میں اس کی محتاج پڑی ہوئی ہیں اور بہ تذلّل تمام اس کی طرف جھکی ہوئی ہیں اور ایک دم اس سے بے نیاز نہیں پس انہیں چیزوں سے جو آپ ہی حاجتمند ہیں حاجتیں مانگنا صریح گمراہی ہے اور بعض انسان جو سرکش ہوجاتے ہیں وہؔ بھی تذلّل سے خالی نہیں کیونکہ اسی دنیا میں طرح طرح کے آلام اور اسقام اور افکار اور ہموم کا عذاب ان پر نازل ہوتا رہتا ہے اور آخرت کا عذاب بھی ان کے لئے طیار ہے پھر بجز خدا کے کون سی چیز ہے جس کے وجود پر نظر کرنے سے صفت غنی اور بے نیاز ہونے کی اس میں پائی جاتی ہے تا کوئی اس کو اپنا معبود ٹھہراوے اور جبکہ کوئی چیز بجز خدا کے غنی اور بے نیاز نہیں تو تمام مخلوق پرستوں کا باطل پر ہونا ثابت ہے یہ چند آیاتِ قرآن شریف ہیں جن کو ر گوید کی طول طویل شرتیوں کے مقابلہ پر ہم نے اس جگہ بیان کیا ہے اب وید کی شرتیوں میں جس قدر بے فائدہ طوالت اور فضول تقریر اور بے سروپا اور دھوکا دینے والا مضمون اور غیر معقول باتیں ہیں بمقابلہ اس کے دیکھنا چاہئے کہ کیونکر قرآن شریف کی آیات میں بکمال ایجاز و لطافت توحید کے ایک عظیم الشان دریا کو معہ دلائل حکمیہ و براہین فلسفیہ اقل قلیل الفاظ میں بھر دیا ہے اور کیونکر مدلّل اور موجز عبارت میں تمام ضروریات توحید کا ثبوت دے کر طالبین حق پر معرفت الٰہی کا دروازہ کھول دیا ہے اور کیونکر ہریک

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 526

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 526

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/526/mode/1up

حضرت عیسیٰ کی نبوت کا منکر ہے اور اُنؔ کے معجزات کا انکاری ہے جب یوحنا کی یہ عبارت پڑھے گا اور ایسے حوض کے وجود پر اطلاع پائے گا کہ جو حضرت

تجھ سے ہی چاہتے ہیں یعنی خالصاً معبود ہمارا تو ہی ہے اور تیرے تک پہنچنے کے لئے کوئیؔ اَور دیوتا ہم اپنا ذریعہ قرار نہیں دیتے نہ کسی انسان کو نہ کسی بت کو نہ اپنی عقل اور علم کو کچھ حقیقت سمجھتے ہیں اور ہر بات میں تیری ذات قادر مطلق سے مدد چاہتے ہیں۔

آیت اپنے پُر زور بیان سے مستعد دلوں پر پورا پورا اثر ڈال رہی ہے اور اندرونی تاریکیوں کو دور کرنے کے لئے اعلیٰ درجہ کی روشنی دکھلا رہی ہے اسی جگہ سے دانا انسان سمجھ سکتا ہے کہ کس کتاب میں بلاغت اور خوش بیانی اور زور تقریر پایا جاتا ہے اور کون سی کتاب کلام بلیغ اور فصیح سے محروم ہے۔ نیک دل اور منصف انسان جب بہ نیتِ مقابلہ و موازنہ وید اور قرآن شریف کی عبارت پر نظر ڈالے گا۔ تو اسے فی الفور یہ دکھائی دے گا کہ وید اپنی عبارت میں ایسا کچا اور ناتمام ہے کہ پڑھنے والے کے دل میں طرح طرح کے شکوک پیدا کرتا ہے اور خدائے تعالیٰ کی نسبت انواع اقسام کی بدگمانیوں میں ڈالتا ہے اور کسی جگہ اپنے دعویٰ کو طاقت بیانی سے واضح کرکے نہیں دکھلاتا اور نہ پایۂ ثبوت تک پہنچاتا ہے بلکہ یہ خود معلوم ہیؔ نہیں ہوتا کہ اس کا دعویٰ کیا ہے اور اگر کچھ معلوم بھی ہوتا ہے تو بس یہی کہ وہ اگنی اور سورج اور اندر وغیرہ کی پرستش کرانا چاہتا ہے اور اس پر بھی کوئی حجت اور دلیل پیش نہیں کرتا کہ کب سے اور کیونکر ان چیزوں کو خدائی کا مرتبہ حاصل ہوگیا۔ اور پھر باوجود اس مہمل بیانی کے چاروں وید اس قدر لمبی اور طول طویل عبارت میں لکھے گئے ہیں جن کا مطالعہ شاید کوئی بڑا محنتی آدمی بشرطیکہ اس کی عمر بھی دراز ہو کرسکے۔ اور بمقابلہ اس کے جب منصف آدمی قرآن شریف کو دیکھے تو فی الفور اسے معلوم ہوگا کہ قرآن شریف میں ایجاز کلام اور قَلَّ وَ دَلَّ بیان میں جو لازمہ ضروریہ بلاغت ہے وہ کمال دکھلایا ہے کہ وہ باوجود احاطہ جمیع ضروریاتِ دین اور استیفا تمام دلائل و براہین کے اس قدر حجم میں قلیل المقدار ہے کہ انسان

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 527

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 527

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/527/mode/1up

عیسیٰ کے ملک میں قدیم سے چلا آتا تھا اور جس میں قدیم سے یہؔ خاصیت تھی کہ اس میں ایک ہی غوطہ لگانا ہریک قسم کی بیماری کو گو وہ کیسی ہی سخت کیوں نہ ہو

یہ صداقت بھی ہمارے مخالفین کی نظر سے چھپی ہوئی ہے چنانچہ ظاہر ہے کہ بت پرست لوگ بجز ذات واحد خدائے تعالیٰ کے اَور اَور چیزوں کی ؔ پرستش کرتے ہیں اور آریہ سماج والے اپنی روحانی طاقتوں کو غیر مخلوق سمجھ کر ان کے زور سے مکتی حاصل

صرف تین چار پہر کے عرصہ میں ابتدا سے انتہا تک بفراغ خاطر اس کو پڑھ سکتا ہے۔ اب دیکھنا چاہئے کہ یہ بلاغت قرآنی کس قدر بھارا معجزہ ہے کہ علم کے ایک بحرِ ذخّار کو تین چار جُز میں لپیٹ کر دکھلا دیا ہے اور حکمت کے ایک جہان کو صرف چند صفحات میں بھر دیا ہے کیا کبھی کسی نے دیکھا یا سنا کہ اس قدر قلیل الحجم کتاب تمام زمانہ کی صداقتوں پر مشتمل ہو کیا عقل کسی عاقل کی انسان کے لئے یہ مرتبہ عالیہ تجویز کرسکتی ہے کہ وہ تھوڑے سے لفظوں میں ایک دریا حکمت کا بھردے جس سے علم دین کی کوئی صداقت باہر نہ ہو یہ واقعی اور سچی باتیں ہیں جن کو ہم لکھتے ہیں جسے انکار ہو وہ بمقابلہ ہمارے امتحان کرلے۔ اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ وید کا کلام ایک اور ضروری نشانی سے جو کلام الٰہی کے لئے لابدی و لازمی ہے خالی ہے اور وہ یہ ہے کہ وید میں پیشگوئیوں کا نام و نشان نہیں اور وید ہرگز اخبارِ غیبیہ پر مشتمل نہیں ہے حالانکہ جو کتاب خدا کا کلام کہلاتی ہے اس کے لئے یہ ضروری بات ہے ؔ کہ خدا کے انوار اس میں ظاہر ہوں یعنی جیسے خدائے تعالیٰ عالم الغیب اور قادر مطلق بے مثل و بے ہمتا ہے ویسا ہی لازم ہے کہ اس کا کلام جو اس کی صفاتِ کاملہ کا آئینہ ہے صفات مذکورہ کو اپنی صورت حالی میں ثابت کرتا ہو ظاہر ہے کہ خدا کے کلام سے یہی علت غائی ہے کہ تا اس کے ذریعہ سے کامل طور پر خدا کی ذات اور صفات کا علم حاصل ہو اور تا انسان وجوہات قیاسی سے ترقی کرکے عین الیقین بلکہ حق الیقین کے درجہ تک پہنچ جائے اور ظاہر ہے کہ یہ مرتبہ علمی تب ہی حاصل ہوسکتا ہے کہ جب خدا کا کلام طالبِ حقیقت کو صرف عقل کے حوالہ نہ کرے بلکہ اپنی ذاتی تجلیات سے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 528

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 528

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/528/mode/1up

دور کردیتا تھا خواہ نخواہ اس کے دل میں ایک قوی خیال پیدا ہوگا کہ اگر حضرت مسیحؔ نے کچھ خوارق عجیبہ دکھلائے ہیں تو بلاشبہ ان کا یہی موجب

کرنا چاہتے ہیں۔ برہمو سماج والے الہام کی روشنی سے مونہہ پھیر کر اپنی عقل کو ایک دیوی قرار دے بیٹھے ہیں جو کہ ان کے زعم باطل میں خدا تک پہنچانے میں اختیار کلّی رکھتی ہے اور سب الٰہی اسرار پر ؔ محیط اور مُتصرّف ہے سو وہ لوگ بجائے خدا کی

ہریک عقیدہ کو کھول دے مثلاً بہت سی پیشگوئیاں اور اخبار غیبیہ بیان کرکے اور پھر ان کا پورا ہونا دکھلا کر صفت عالم الغیبی کی جو خدائے تعالیٰ میں پائی جاتی ہے طالبِ حق پر ثابت کرے علیٰ ہذا القیاس اپنے تابعین کو پوری پوری مدد کا وعدہ دے کر اور پھر ان وعدوں کو پورا کرکے اپنا قادر اور صادق اور ناصر ہونا بہ پایۂ ثبوت پہنچاوے لیکن ان باتوں میں سے وید میں کوئی بھی نہیں بشرطیکہ کوئی انصاف پر آوے اور غور اور فکر سے نگاہ کرے تو اس پر ظاہر ہوگا کہ وید میں ان نشانیوں میں سے کوئی نشانی پائی نہیں جاتی اور جس تکمیل علمی کے لئے کلام الٰہی نازل ہوتا ہے اس تکمیل کا سامان وید کے پاس موجود نہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جس قدر عقلی طور پر ایک عقلمند آدمی معرفت الٰہی کے لئے سامان طیار کرتا ہے اور حتی الوسع و الطاقت اپنے قدم کو غلطی اور خطا سے بچاتا ہے وہ مرتبہ بھی وید کو حاصل نہیں اور وید کے اصول ایسے فاسد اور بدیہی البطلان ہیں کہ دس برس کا بچہ بھی بشرطیکہ تعصّب اور ضد نہ کرے ان کی غلطی اور بے راہی پر شہادت دے سکتا ہے۔ پھر یہ بھی جاننا چاہئے کہ جن روحانی تاثیرات پر فرقان مجید مشتمل ہے ان سے بھی وید بکلی محروم اور تہید ستؔ ہے۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ فرقان مجید باوجود ان تمام کمالات بلاغت و فصاحت و احاطۂ حکمت و معرفت ایک روحانی تاثیر اپنی ذات بابرکات میں ایسی رکھتا ہے کہ اس کا سچا اتباع انسان کو مستقیم الحال اور منوّر الباطن اور منشرح الصدر اور مقبولِ الٰہی اور قابل خطاب حضرت عزت بنا دیتا ہے اور اس میں وہ انوار پیدا کرتا ہے اور وہ فیوض غیبی اور تائیدات لاریبی اس کے شامل حال کر

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 529

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 529

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/529/mode/1up

ہوگا کہ حضرتِ ممدوح اُسی حوض کے پانی میں کچھ تصرف کرکے ایسے ایسے خوارق دکھلاتے ہوں گے کیونکہ اس قسم ؔ کے اقتباس کی ہمیشہ دنیا میں بہت سی

پرستش اور استمداد کے اسی سے اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کا خطاب کررہے ہیں اور شرک خفی میں گرفتار اور مبتلا ہیں اور جب منع کیا جائے تو کہتے ہیں عقل عطیاتِ الٰہیہ سے ہے اور اسی غرض سے دی گئی ہے کہ تا انسان اپنی معاش اور مہمات میں اس کو استعمال میں لاوے۔ پس عطیہ الٰہیہ کا استعمال میں لانا شرک نہیں بن سکتا سو واضح ہو کہ یہ ان کی غلطی ہے اور بارہا یہ امر معرض بیان میں آلیا ہے کہ جس یقین کامل اور جن معارف حقہ پر ہماری نجات موقوف ہے ان ؔ مقاصد عالیہ کے حصول کے لئے عقل

دیتا ہے کہ جو اغیبار میں ہرگز پائی نہیں جاتیں اور حضرت احدیّت کی طرف سے وہ لذیذ اور دلآرام کلام اس پر نازل ہوتا ہے جس سے اس پر دمبدم کھلتا جاتا ہے کہ وہ فرقان مجید کی سچی متابعت سے اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی پیروی سے ان مقامات تک پہنچایا گیا ہے کہ جو محبوبانِ الٰہی کے لئے خاص ہیں اور ان ربانی خوشنودیوں اور مہربانیوں سے بہرہ یاب ہوگیا ہے جن سے وہ کامل ایماندار بہرہ یاب تھے جو اس سے پہلے گزر چکے ہیں اور نہ صرف مقال کے طور پر بلکہ حال کے طور پر بھی ان تمام محبتوں کا ایک صافی چشمہ اپنے ُ پر صدق دل میں بہتا ہوا دیکھتا ہے اور ایک ایسی کیفیت تعلق باللہ کی اپنے منشرح سینہ میں مشاہدہ کرتا ہے جس کو نہ الفاظ کے ذریعہ سے اور نہ کسی مثال کے پیرایہ میں بیان کرسکتا ہے اور انوارِ الٰہی کو اپنے نفس پر بارش کی طرح برستے ہوئے دیکھتا ہے اور وہ انوار کبھی اخبارِ غیبیہ کے رنگ میں اور کبھی علوم و معارف کی صورت میں اور کبھی اخلاقِ فاضلہ کے پیرایہ میں اس پر اپنا پرتوہ ڈالتے رہتے ہیں یہ تاثیرات فرقان مجید کی سلسلہ وار چلی آتی ہیں اور جب سے کہ آفتاب صداقت ذات بابرکات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں آیا اسی دم سے آج تک ہزارہا نفوس جو استعداد اور قابلیت رکھتے تھے متابعت کلام الٰہی اور اتباع رسولِ مقبول سے مدارجِ عالیہ مذکورہ بالا تک پہنچ چکے ہیں اور پہنچتے جاتے ہیں اور خدائے تعالیٰ اس قدر اُن پر پے در پے اور علی الاتصال تلطّفات و تفضّلات ؔ وارد کرتا ہے اور

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 530

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 530

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/530/mode/1up

 نظیریں پائی گئی ہیں اور اب بھی ہیں اور عندالعقل یہ بات نہایت صحیح اور قرین قیاس ہے کہ اگر حضرت عیسیٰ کے ہاتھ سے

ذریعہ نہیں بن سکتی ہاں ان معارف کے حاصل کرنے کے بعد ان کی صداقت اور سچائی کو سمجھ سکتی ہے لیکن وہ انکشاف صحیح اور کامل فقط اس پاک اور صاف روشنی سے ہوتا ہے کہ جو خدائے تعالیٰ کی ذات میں موجود ہے اور عقل کی دود آمیز اور ناقص روشنی جو انسان میں موجود ہے اس جگہ عاجز ہے سو شرک اس طرح لازم آتا ہے کہ برہمو سماج والے خدا کے اس روشن کلام سے کہ جو انکشاف صحیح اور کامل کا مدار ہے مونہہ پھیر کر اور اس سے بکلی بے نیازی ظاہر کرکے اپنی ہی عقل ناقص کو رہبر مطلق ٹھہراتے ہیں اور بنائے کار بناتے ہیں۔ سو ان کا دل بیمار اس دھوکہ میں پڑا ہوا ہے کہ جس منزل عالی تک الٰہی قوتیں

اپنی حمایتیں اور عنایتیں دکھلاتا ہے کہ صافی نگاہوں کی نظر میں ثابت ہوجاتا ہے کہ وہ لوگ منظوران نظر احدیّت سے ہیں جن پر لطفِ ربانی کا ایک عظیم الشان سایہ اور فضل یزدانی کا ایک جلیل القدر پیرایہ ہے اور دیکھنے والوں کو صریح دکھائی دیتا ہے کہ وہ انعامات خارق عادت سے سرفراز ہیں اور کرامات عجیب اور غریب سے ممتاز ہیں اور محبوبیت کے عطر سے معطر ہیں اور مقبولیت کے فخروں سے مفتخر ہیں اور قادر مطلق کا نور اُن کی صحبت میں اُن کی توجہ میں اُن کی ہمت میں اُن کی دعا میں اُن کی نظر میں اُن کے اخلاق میں اُن کی طرز معیشت میں اُن کی خوشنودی میں اُن کے غضب میں اُن کی رغبت میں اُن کی نفرت میں اُن کی حرکت میں اُن کے سکون میں اُن کے نطق میں اُن کی خاموشی میں اُن کے ظاہر میں اُن کے باطن میں ایسا بھرا ہوا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ایک لطیف اور مصفا شیشہ ایک نہایت عمدہ عطر سے بھرا ہوا ہوتا ہے اور اُن کے فیض صحبت اور ارتباط اور محبت سے وہ باتیں حاصل ہوجاتی ہیں کہ جو ریاضتِ شاقہ سے حاصل نہیں ہوسکتیں اور ان کی نسبت ارادت اور عقیدت پیدا کرنے سے ایمانی حالت ایک دوسرا رنگ پیدا کرلیتی ہے اور نیک اخلاق کے ظاہر کرنے میں ایک طاقت پیدا ہوجاتی ہے اور شوریدگی اور امّارگی نفس کی رو بکمی ہونے لگتی ہے۔ اور

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 531

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 531

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/531/mode/1up

اندؔ ھوں لنگڑوں وغیرہ کو شفا حاصل ہوئی ہے تو بالیقین یہ نسخہ حضرتِ مسیح نے اسی حوض سے اڑایا ہوگا اور پھر نادانوں اور سادہ لوحوں میں کہ جو بات کی تہ تک

اورؔ ربّانی تجلیات پہنچا سکتے ہیں اس منزل تک ان کی اپنی ہی عقل پہنچا دے گی۔ اب ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کیا شرک ہوگا کہ اپنی عقل کی طاقت کو ربانی طاقت کے مساوی بلکہ اس سے عمدہ تر خیال کررہے ہیں۔ سو دیکھئے وہی بات سچ نکلی یا نہیں کہ وہ بجائے خدا کے عقل سے اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ پکار رہے ہیں عیسائیوں کا حال بیان کرنا کچھ ضرورت ہی نہیں سب لوگ جانتے ہیں کہ حضرات عیسائی بجائے اس کے

اطمینان اور حلاوت پیدا ہوتی جاتی ہے اور بقدر استعداد اور مناسبت ذوق ایمانی جوش مارتا ہے اور اُنس اور شوق ظاہر ہوتا ہے اور التذاذ بذکراللہ بڑھتا ہے اور ان کی صحبتِ طویلہ سے بضرورت یہ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنی ایمانی قوتوں میں اور اخلاقی حالتوں میں اور انقطاع عن الدنیا میں توجہ الی اللہ میں اور محبت الٰہیہ میں اور شفقت علی العباد میں اور وفا اور رضا اور استقامت میں اس عالی مرتبہ پر ہیں جس کی نظیر دنیا میں نہیں دیکھی گئی اور عقل سلیم فی الفور معلوم کرؔ لیتی ہے کہ وہ بند اور زنجیر اُن کے پاؤں سے اتارے گئے ہیں جن میں دوسرے لوگ گرفتار ہیں اور وہ تنگی اور انقباض ان کے سینہ سے دور کیا گیا ہے جس کے باعث سے دوسرے لوگوں کے سینے منقبض اور کوفتہ خاطر ہیں۔ ایسا ہی وہ لوگ تحدیث اور مکالمات حضرت احدیت سے بکثرت مشرف ہوتے ہیں اور متواتر اور دائمی خطابات کے قابل ٹھہر جاتے ہیں اور حق جل و علا اور اس کے مستعد بندوں میں ارشاد اور ہدایت کے لئے واسطہ گردانے جاتے ہیں۔ ان کی نورانیت دوسرے دلوں کو منور کردیتی ہے اور جیسے موسم بہار کے آنے سے نباتی قوتیں جوش زن ہوجاتی ہیں ایسا ہی ان کے ظہور سے فطرتی نور طبائع سلیمہ میں جوش مارتے ہیں اور خودبخود ہریک سعید کا دل یہی چاہتا ہے کہ اپنی سعادت مندی کی استعدادوں کو بکوشش تمام منصہ ظہور میں لاوے اور خواب غفلت کے پردوں سے خلاصی پاوے اور معصیّت اور فسق و فجور

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 532

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 532

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/532/mode/1up

نہیں پہنچتے اورؔ اصل حقیقت کو نہیں شناخت کرسکتے یہ مشہور کردیا کہ ایک روح کی مدد سے ایسے ایسے کام کرتا ہوں بالخصوص جبکہ یہ بھی ثابت ہے

کہ خداوند تعالیٰ کی خالص طور پر پرستش کریں مسیح کی پرستش میں مشغول ہیں اور بجائے اس کے کہ اپنے کاروبار میں خدا سے مدد چاہیں مسیح سے مدد مانگتے رہتے ہیں اور ان کی زبانوں پر ہروقت ربّنا المسیح ربّنا المسیح جاری ہے۔ سوؔ وہ لوگ مضمون اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ پر عمل کرنے سے محروم اور راندہ درگاہِ الٰہی ہیں۔ ساتویں صداقت جو سور ۂفاتحہ میں درج ہے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ المُسْتَقِیْمَ ہے

کے داغوں سے اور جہالت اور بے خبری کی ظلمتوں سے نجات حاصل کرے۔ سو ان کے مبارک عہد میں کچھ ایسی خاصیت ہوتی ہے اور کچھ اس قسم کا انتشار نورانیت ہوجاتا ہے کہ ہریک مومن اور طالب حق بقدر طاقت ایمانی اپنے نفس میں بغیر کسی ظاہری موجب کے انشراح اور شوق دینداری کا پاتا ہے اور ہمت کو زیادت اور قوت میں دیکھتا ہے۔ غرض ان کے اس عطر لطیف سے جو ان کو کامل متابعت کی برکت سے حاصل ہوا ہے ہریک مخلص کو بقدر اپنے اخلاص کے حظّ پہنچتا ہے ہاں جو لوگ شقی ازلی ہیں وہ اس سے کچھ حصہ نہیں پاتے بلکہ اور بھی عناد اور حسد اور شقاوت میں بڑھ کر ہاویہ جہنم میں گرتے ہیں۔ اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے 3۔ ۱؂ پھر ہم اسی تقریر کو اچھی طرح ذہن نشین کرنے کی غرض سے دوسرے لفظوں میں دوہرا کر یہ تفصیل لکھتےؔ ہیں کہ متبعین قرآن شریف کو جو انعامات ملتے ہیں اور جو مواہب خاصہ ان کے نصیب ہوتے ہیں اگرچہ وہ بیان اور تقریر سے خارج ہیں مگر ان میں سے کئی ایک ایسے انعاماتِ عظیمہ ہیں جن کو اس جگہ مفصّل طور پر بغرض ہدایت طالبین بطور نمونہ لکھنا قرین مصلحت ہے۔ چنانچہ وہ ذیل میں لکھے جاتے ہیں:۔

ازانجملہ علوم و معارف ہیں جو کامل متبعین کو خوان نعمت فرقانیہ سے حاصل ہوتے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 533

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 533

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/533/mode/1up

کہ حضرت مسیح اسی حوض پر اکثر جایا بھی کرتے تھے ؔ تو اس خیال کو اَور بھی قوت حاصل ہوتی ہے۔ غرض مخالف کی نظر میں ایسے معجزوں سے کہ

جس کے معنے یہ ہیں کہ ہم کو وہ راستہ دکھلا اور اُس راہ پر ہم کو ثابت اور قائم کر کہ جو سیدھا ہے جس میں کسی نوع کی کجی نہیں۔ اس صداقت کی تفصیل یہ ہے کہ انسان کی حقیقی دعا یہی ہے کہ وہ خدا تک پہنچنے کا سیدھا راستہ طلب کرے کیونکہ ہر یک مطلوب کے حاصل کرنے کے لئے طبعی قاعدہ یہ ہے کہ ان وسائل کو حاصل کیا جائے جن کے ذریعہ سے وہ مطلب ملتا ہے اور خدا نے ہریک امر کی تحصیل کے لئے یہی قانون قدرت ٹھہرا رکھا ہے کہ جو اس کے حصول کے وسائل ہیں وہ حاصل کئے ؔ جائیں اور جن

ہیں۔ جب انسان فرقان مجید کی سچی متابعت اختیار کرتا ہے اور اپنے نفس کو اس کے امرونہی کے بکُلّی حوالہ کردیتا ہے اور کامل محبت اور اخلاص سے اس کی ہدایتوں میں غور کرتا ہے اور کوئی اعراض صوری یا معنوی باقی نہیں رہتا۔ تب اس کی نظر اور فکر کو حضرت فیاض ُ مطلق کی طرف سے ایک نور عطا کیا جاتا ہے اور ایک لطیف عقل اس کو بخشی جاتی ہے جس سے عجیب غریب لطائف اور نکات علم الٰہی کے جو کلام الٰہی میں پوشیدہ ہیں اس پر کھلتے ہیں اور ابرنیساں کے رنگ میں معارف دقیقہ اس کے دل پر برستے ہیں۔ وہی معارف دقیقہ ہیں جن کو فرقان مجید میں حکمت کے نام سے موسوم کیا گیا ہے جیسا کہ فرمایا ہے یعنی خدا جس کو چاہتا ہے حکمت دیتا ہے اور جس کو حکمت دی گئی اس کو خیر کثیر دی گئی ہے یعنی حکمت خیر کثیر پر مشتمل ہے اور جس نے حکمت پائی اس نے خیر کثیر کو پالیا۔ سو یہ علوم و معارف جو دوسرے لفظوں میں حکمت کے نام سے موسوم ہیں یہ خیر کثیر پر مشتمل ہونے کی و جہ سے بحر محیط کے رنگ میں ہیں جو کلام الٰہی کے تابعین کو دیئے جاتے ہیں اور ان کے فکر اور نظر میں ایک ایسی برکت رکھی جاتی ہے جو اعلیٰ درجہ کے حقائق حقّہ اُن کے نفس آئینہ صفت پر منعکس ہوتے رہتے ہیں اور کامل صداقتیں ان پر منکشف ہوتی رہتی ہیں۔ اور تائیداؔ تِ الٰہیہ

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 534

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 534

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/534/mode/1up

و قدیم سے حوض دکھلاتا رہا ہے حضرت عیسیٰ کی نسبت بہت سے شکوک

راہوں پر چلنے سے وہ مطلب مل سکتا ہے وہ راہیں اختیار کی جائیں اور جب انسان صراط مستقیم پر ٹھیک ٹھیک قدم مارے اور جو حصول مطلب کی راہیں ہیں ان پر چلنا اختیار کرے تو پھر مطلب خودبخود حاصل ہوجاتا ہے لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ اُن راہوں کے چھوڑ دینے سے جو کسی مطلب کے حصول کے لئے بطور وسائل کے ہیں یونہی مطلب حاصل ہوجائے بلکہ قدیم سے یہی قانون قدرت بندھا ہوا چلا آتا ہے کہ

ہریک تحقیق اور تدقیق کے وقت کچھ ایسا سامان ان کے لئے میسر کردیتی ہیں جس سے بیان ان کا ادھورا اور ناقص نہیں رہتا اور نہ کچھ غلطی واقعہ ہوتی ہے۔ سو جو جو علوم و معارف و دقائق حقائق و لطائف و نکات و ادلّہ و براہین ان کو سوجھتے ہیں وہ اپنی کمیت اور کیفیت میں ایسے مرتبہ کاملہ پر واقع ہوتے ہیں کہ جو خارق عادت ہے اور جس کا موازنہ اور مقابلہ دوسرے لوگوں سے ممکن نہیں کیونکہ وہ اپنے آپ ہی نہیں بلکہ تفہیم غیبی اور تائید صمدی ان کی پیش رو ہوتی ہے۔ اور اسی تفہیم کی طاقت سے وہ اسرار اور انوار قرآنی اُن پر کھلتے ہیں کہ جو صرف عقل کی دود آمیز روشنی سے کھل نہیں سکتے۔ اور یہ علوم و معارف جو اُن کو عطا ہوتے ہیں جن سے ذات اور صفات الٰہی کے متعلق اور عالم معاد کی نسبت لطیف اور باریک باتیں اور نہایت عمیق حقیقتیں اُن پر ظاہر ہوتی ہیں یہ ایک روحانی خوارق ہیں کہ جو بالغ نظروں کی نگاہوں میں جسمانی خوارق سے اعلیٰ اور الطف ہیں بلکہ غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ عارفین اور اہل اللہ کا قدر و منزلت دانشمندوں کی نظر میں اِنہیں خوارق سے معلوم ہوتا ہے اور وہی خوارق ان کی منزلت عالیہ کی زینت اور آرائش اور ان کے چہرہ صلاحیت کی زیبائی اور خوبصورتی ہیں کیونکہ انسان کی فطرت میں داخل ہے کہ علوم و معارف حقہ کی ہیبت سب سے زیادہ اس پر اثر

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 535

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 535

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/535/mode/1up

ی طریقہ ہے جب تک انسان اس طریقہ مقررہ پر قدم نہیں مارتا تب تک وہ امر اس کو حاصل نہیں ہوتا پس وہ شے جس کو محنت اور کوشش اور دعا اور تضرع سے حاصل کرنا چاہئے صراطِ مستقیم ہے۔ جو شخص صراطِ مستقیم

ڈالتی ہے اور صداقت اور معرفت ہریک چیز سے زیادہ اس کو پیاری ہے اور اگر ایک زاہد عابد ایسا فرض کیا جائے کہ صاحب مکاشفات ہے اور اخبارِ غیبیہ بھی اسے معلوم ہوتے ہیں اور ریاضاتِ شاقہ بھی بجالاتا ہے اور کئی اور قسم کے خوارق بھی اس سے ظہور میں آتے ہیں مگر علم الٰہی کے بارہ میں سخت جاہل ہے۔ یہاں تک کہ حق اور باطل میں تمیز ہی نہیں کرسکتا بلکہ خیالاتِ فاسدہ میں گرفتار اور عقائد غیر صحیحہ میں مبتلا ہے ہریک بات میں خام اور ہریک رائے میںؔ فاش غلطی کرتا ہے تو ایسا شخص طبائع سلیمہ کی نظر میں نہایت حقیر اور ذلیل معلوم ہوگا۔ اس کی یہی وجہ ہے کہ جس شخص سے دانا انسان کو جہالت کی بدبو آتی ہے اور کوئی احمقانہ کلمہ اس کے منہ سے سن لیتا ہے تو فی الفور اس کی طرف سے دل متنفر ہوجاتا ہے اور پھر وہ شخص عاقل کی نظر میں کسی طور سے قابل تعظیم نہیں ٹھہرسکتا اور گو کیسا ہی زاہد عابد کیوں نہ ہو کچھ حقیر سا معلوم ہوتا ہے پس انسان کی اس فطرتی عادت سے ظاہر ہے کہ خوارق روحانی یعنی علوم و معارف اس کی نظر میں اہل اللہ کے لئے شرط لازمی اور اکابر دین کی شناخت کے لئے علامات خاصہ اور ضروریہ ہیں۔ پس یہ علامتیں فرقان شریف کی کامل تابعین کو اکمل اور اتم طور پر عطا ہوتی ہیں اور باوجودیکہ ان میں سے اکثروں کی سرشت پر اُمیت غالب ہوتی ہے اور علومِ رسمیہ کو باستیفا حاصل نہیں کیا ہوتا لیکن نکات اور لطائف علم الٰہی میں اس قدر اپنے ہم عصروں سے سبقت لے جاتے ہیں کہ بسا اوقات بڑے بڑے مخالف ان کی تقریروں کو سن کر یا ان کی تحریروں کو پڑھ کر اور دریائے حیرت

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 536

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 536

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/536/mode/1up

آدمی تھا جس نے اپنے ؔ عجائبات کے دکھلانے میں اس قدیمی حوض سے کچھ مدد نہیں لی اور سچ مچ معجزات ہی دکھائے ہیں اور اگرچہ قرآنِ شریف

کی طلب میں کوشش نہیں کرتا اور نہ اسؔ کی کچھ پرواہ رکھتا ہے وہ خدا کے نزدیک ایک کجرو آدمی ہے اور اگر وہ خدا سے بہشت اور عالمِ ثانی کی راحتوں کا طالب ہو تو حکمتِ الٰہی اسے یہی جواب دیتی ہے کہ اے نادان اول صراطِ مستقیم کو

میں پڑ کر بلا اختیار بول اٹھتے ہیں کہ ان کے علوم و معارف ایک دوسرے عالم سے ہیں جو تائیداتِ الٰہی کے رنگ خاص سے رنگین ہیں اور اس کا ایک یہ بھی ثبوت ہے کہ اگر کوئی منکر بطور مقابلہ کے الٰہیات کے مباحث میں سے کسی بحث میں ان کی محققانہ اور عارفانہ تقریروں کے ساتھ کسی تقریر کا مقابلہ کرنا چاہے تو اخیر پر بشرط انصاف و دیانت اس کو اقرار کرنا پڑے گا کہ صداقت حقّہ اسی تقریر میں تھی جو ان کے منہ سے نکلی تھی اور جیسے جیسے بحث عمیق ہوتی جائے گی بہت سے لطیف اور دقیق براہین ایسے نکلتے آئیں گے جن سے روز روشن کی طرح ان کا سچا ہونا کھلتا جائے گا چنانچہ ہریک طالب حق پر اس کا ثبوت ظاہر کرنے کے لئے ہم آپ ہی ذمہ وار ہیںؔ ۔ ازاں جملہ ایک عصمت بھی ہے جس کو حفظِ الٰہی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اور یہ عصمت بھی فرقان مجید کے کامل تابعین کو بطور خارق عادت عطا ہوتی ہے۔ اور اس جگہ عصمت سے مراد ہماری یہ ہے کہ وہ ایسی نالائق اور مذموم عادات اور خیالات اور اخلاق اور افعال سے محفوظ رکھے جاتے ہیں جن میں دوسرے لوگ دن رات آلودہ اور ملوث نظر آتے ہیں اور اگر کوئی لغزش بھی ہوجائے تو رحمت الٰہیہ جلد تر ان کا تدارک کرلیتی ہے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ عصمت کا مقام نہایت نازک اور نفس امارہ کے مقتضیات سے نہایت دور پڑا ہوا ہے جس کا حاصل ہونا بجز توجہ خاص الٰہی کے ممکن نہیں مثلاً اگر کسی کو یہ کہا جائے کہ وہ صرف ایک کذب اور دروغ گوئی کی عادت سے اپنے جمیع معاملات اور بیانات اور حرفوں اور پیشوں میں قطعی طور پر باز رہے تو یہ اس کے لئے مشکل اور ممتنع

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 537

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 537

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/537/mode/1up

پر ایمان لانے کے بعد ان وساوس سے نجات حاصل ہوجاتی ہے مگر جو شخص ابھی قرآنِؔ شریف پر ایمان نہیں لایا اور یہودی یا ہندو یا عیسائی

طلب کر پھر یہ سب کچھ تجھے آسانی سے مل جائے گا۔ سو سب دعاؤں سے مقدم دعا جس کی طالب حق کو اشدّؔ ضرورت ہے طلبِ صراط مستقیم ہے۔ اب ظاہر ہے کہ ہمارے مخالفین اس صداقت پر قدم مارنے سے بھی محروم ہیں۔ عیسائی لوگ تو اپنی ہر

ہوجاتا ہے۔ بلکہ اگر اس کام کے کرنے کے لئے کوشش اور سعی بھی کرے تو اس قدر موانع اور عوائق اس کو پیش آتے ہیں کہ بالآخر خود اس کا یہ اصول ہوجاتا ہے کہ دنیاداری میں جھوٹ اور خلاف گوئی سے پرہیز کرنا ناممکن ہے۔ مگر ان سعید لوگوں کے لئے کہ جو سچی محبت اور پُرجوش ارادت سے فرقان مجید کی ہدایتوں پر چلنا چاہتے ہیں۔ صرف یہی امر آسان نہیں کیا جاتا کہ وہ دروغ گوئی کی قبیح عادت سے باز رہیں بلکہ وہ ہر ناکردنی اور ناگفتنی کے چھوڑنے پر قادر مطلق سے توفیق پاتے ہیں اور خدائے تعالیٰ اپنی رحمت کاملہ سے ایسی تقریبات شنیعہ سے اُن کو محفوظ رکھتا ہے جن سے وہ ہلاکت کے ورطوں میں پڑیں۔ کیونکہ وہ دنیا کا نور ہوتے ہیں اور ان کی سلامتی میں دنیا کی سلامتی اور ان کی ہلاکت میں دنیا کی ہلاکت ہوتی ہے۔ اسی جہت سے وہ اپنے ہریک خیال اور علم اور فہم اور غضب اور شہوت اور خوف اور طمع اور تنگی اور فراخی اور خوشی اور غمی اور عسر اور یسر میں تمام نالائق باتوں اور فاسد خیالوں اور نادرست علموں اور ناجائزؔ عملوں اور بے جا فہموں اور ہریک افراط اور تفریط نفسانی سے بچائے جاتے ہیں اور کسی مذموم بات پر ٹھہرنا نہیں پاتے کیوں کہ خود خداوند کریم ان کی تربیت کا متکفل ہوتا ہے اور جس شاخ کو ان کے شجرۂ طیبہ میں خشک دیکھتا ہے۔ اس کو فی الفور اپنے مربیانہ ہاتھ سے کاٹ ڈالتا ہے اور حمایتِ الٰہی ہردم اور ہر لحظہ ان کی نگرانی کرتی رہتی ہے۔ اور یہ نعمت محفوظیت کی جو ان کو عطا ہوتی ہے۔ یہ بھی بغیر ثبوت نہیں بلکہ زیرک انسان کسی قدر صحبت سے اپنی پوری تسلی سے اس کو معلوم کرسکتا

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 538

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 538

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/538/mode/1up

ہے وہ کیونکر ایسے وساوس سے نجات پاسکتا ہے اور کیونکر اس کا دل اطمینان پکڑ سکتا ہے کہ باوجود ایسے عجیب حوض کےؔ جس میں ہزاروں لنگڑے اور لُولے

دعا میں روٹی ہی مانگا کرتے ہیں۔ اور اگر کھاپی کر اور پیٹ بھر کربھی گرجا میں آویں پھر بھی جھوٹ موٹ اپنے تئیں بھوکے ظاہر کرکے روٹی مانگتے رہتے ہیں گویا ان کا مطلوبِ اعظم روٹی ہیؔ ہے وبس۔ آریہ سماج والے اور دوسرے ان کے

ہے۔ ازانجملہ ایک مقام توکل ہے جس پر نہایت مضبوطی سے ان کو قائم کیا جاتا ہے اور ان کے غیر کو وہ چشمہ صافی ہرگز میسر نہیں آسکتا بلکہ انہیں کے لئے وہ خوشگوار اور موافق کیا جاتا ہے۔ اور نور معرفت ایسا ان کو تھامے رہتا ہے کہ وہ بسا اوقات طرح طرح کی بے سامانی میں ہوکر اور اسباب عادیہ سے بکلّی اپنے تئیں دور پاکر پھر بھی ایسی بشاشت اور انشراح خاطر سے زندگی بسر کرتے ہیں اور ایسی خوشحالی سے دنوں کو کاٹتے ہیں کہ گویا ان کے پاس ہزارہا خزائن ہیں۔ ان کے چہروں پر تونگری کی تازگی نظر آتی ہے اور صاحب دولت ہونے کی مستقل مزاجی دکھائی دیتی ہے اور تنگیوں کی حالت میں بکمال کشادہ دلی اور یقین کامل اپنے مولیٰ کریم پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ سیرت ایثار اُن کا مشرب ہوتا ہے اور خدمتِ خلق ان کی عادت ہوتی ہے اور کبھی انقباض ان کی حالت میں راہ نہیں پاتا اگرچہ سارا جہان ان کا عیال ہوجائے اور فی الحقیقت خدائے تعالیٰ کی ستاری مستوجب شکر ہے جو ہر جگہ ان کی پردہ پوشی کرتی ہے اور قبل اس کے جو کوئی آفت فوق الطاقت نازل ہو ان کو دامن عاطفت میں لے لیتی ہے کیونکہ اُن کے تمام کاموں کا خدا متولّی ہوتا ہے۔ جیسا کہ اس نے آپ ہی فرمایا ہے۔3۔ ۱؂ لیکن دوسروں کو دنیاداری کے دل آزار اسباب میں چھوڑا جاتا ہے اور وہ خارق عادت سیرت جو خاص ان لوگوں کے ساتھ ظاہر کی جاتی ہے کسی دوسرے کے ساتھ ظاہر نہیں کی جاتی۔ اور یہ خاصہ ان کا بھیؔ صحبت سے بہت

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 539

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 539

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/539/mode/1up

اور مادر زاد اندھے ایک ہی غوطہ مار کر اچھے ہوجاتے تھے اور جو صدہا سال سے اپنے خواص عجیبہ کے ساتھ یہودیوں اور اس ملکؔ کے تمام لوگوں میں مشہور اور

بُت پرست بھائی اپنی دعاؤں میں جنم مرن سے بچنے کے لئے یعنی اواگون سے جو ان کے زعم باطل میں ٹھیک اور درست ہے طرح طرح کے اشلوک پڑھا کرتے ہیں اور صراطِ مستقیم کو خدا سے نہیں مانگتے۔ علاوہ اس کے اللہ تعالیٰ نے تو اس جگہ جمع کا لفظ بیان

جلد ثابت ہوسکتا ہے۔ ازانجملہ ایک مقام محبتِ ذاتی کا ہے جس پر قرآن شریف کے کامل متبعین کو قائم کیا جاتا ہے اور ان کے رگ و ریشہ میں اس قدر محبت الٰہیہ تاثیر کرجاتی ہے کہ ان کے وجود کی حقیقت بلکہ ان کی جان کی جان ہوجاتی ہے اور محبوب حقیقی سے ایک عجیب طرح کا پیار ان کے دلوں میں جوش مارتا ہے اور ایک خارق عادت انس اور شوق ان کے قلوب صافیہ پر مستولی ہوجاتا ہے کہ جو غیر سے بکلی منقطع اور گسستہ کردیتا ہے اور آتشِ عشقِ الٰہی ایسی افروختہ ہوتی ہے کہ جو ہم صحبت لوگوں کو اوقات خاصہ میں بدیہی طور پر مشہود اور محسوس ہوتی ہے بلکہ اگر محبان صادق اس جوش محبت کو کسی حیلہ اور تدبیر سے پوشیدہ رکھنا بھی چاہیں تو یہ ان کے لئے غیر ممکن ہوجاتا ہے۔ جیسے عشاق مجازی کے لئے بھی یہ بات غیر ممکن ہے کہ وہ اپنے محبوب کی محبت کو جس کے دیکھنے کے لئے دن رات مرتے ہیں اپنے رفیقوں اور ہم صحبتوں سے چھپائے رکھیں بلکہ وہ عشق جو ان کے کلام اور ان کی صورت اور ان کی آنکھ اور ان کی وضع اور ان کی فطرت میں گھس گیا ہے اور ان کے بال بال سے مترشح ہورہا ہے وہ ان کے چھپانے سے ہرگز چھپ ہی نہیں سکتا۔ اور ہزار چھپائیں کوئی نہ کوئی نشان اس کا نمودار ہوجاتا ہے اور سب سے بزرگ تر ان کے صدق قدم کا نشان یہ ہے کہ وہ اپنے محبوب حقیقی کو ہریک چیز پر اختیار کرلیتے ہیں اور اگر آلام اس کی طرف سے پہنچیں تو محبت ذاتی کے غلبہ سے برنگ انعام ان کو مشاہدہ کرتے ہیں اور عذاب کو شربت عذب کی طرح سمجھتے ہیں۔ کسی تلوار کی تیز دھار ان میں اور ان کے محبوب میں جدائی نہیں ڈال سکتی اور کوئی بلیّہ عظمیٰ ان کو اپنے اس پیارے کی یادداشت سے روک نہیں سکتے اسی کو اپنی جان سمجھتے ہیں اور اسی کی محبت میں لذّات پاتے اور اسی کی ہستی کو ہستی

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 540

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 540

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/540/mode/1up

زبان زد ہورہا تھا اور بے شمار آدمی اُس میں غوطہ مارنے سے شفا پاچکے تھے اور ہر روز پاتے تھے اور ہر وقت ایک میلہ اُس پر لگا رہتا تھاؔ اور مسیح

کرؔ کے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ کوئی انسان ہدایت طلب کرنے اور انعام الٰہی پانے سے ممنوع نہیں ہے مگر بموجبِ اصول آریا سماج کے ہدایت طلب کرنا گنہگار کے لئے ناجائز ہے اور خدا اس کو ضرور سزا دے گا اور ہدایت پانا نہ پانا اس کے لئے برابر ہے۔ برہمو سماج والوں کا دعاؤں پر کچھ ایسا اعتقادؔ ہی نہیں وہ ہر وقت اپنی

خیال کرتے ہیں اور اسی کے ذکر کو اپنی زندگی کا ماحصل قرار دیتے ہیں۔ اگر چاہتے ہیں تو اسی کو اگر ؔ آرام پاتے ہیں تو اسی سے۔ تمام عالم میں اسی کو رکھتے ہیں اور اسی کے ہورہتے ہیں۔ اسی کے لئے جیتے ہیں۔ اسی کے لئے مرتے ہیں۔ عالم میں رہ کر پھر بے عالم ہیں اور باخود ہوکر پھر بے خود ہیں نہ عزت سے کام رکھتے ہیں نہ نام سے نہ اپنی جان سے نہ اپنے آرام سے بلکہ سب کچھ ایک کے لئے کھو بیٹھتے ہیں اور ایک کے پانے کے لئے سب کچھ دے ڈالتے ہیں۔ لا یدرک آتش سے جلتے جاتے ہیں اور کچھ بیان نہیں کرسکتے کہ کیوں جلتے ہیں اور تفہیم اور تفہّم سے صمٌّ و بکمٌ ہوتے ہیں اور ہریک مصیبت اور ہریک رسوائی کے سہنے کو طیار رہتے ہیں اور اُس سے لذّت پاتے ہیں۔

عشق است کہ برخاک مذلت غلطاند

عشق است کہ برآتش سوزاں بنشاند

کس بہر کسے سر ندہد جان نہ فشاند

عشق است کہ ایں کار بصد صدق کناند

ازانجملہ اخلاق فاضلہ ہیں جیسے سخاوت شجاعت ایثار علوہمت و فور شفقت حلم حیا مودّت یہ تمام اخلاق بھی بوجہ احسن اور انسب انہیں سے صادر ہوتے ہیں اور وہی لوگ بہ یمن متابعتِ قرآن شریف وفاداری سے اخیر عمر تک ہر یک حالت میں ان کو بخوبی و شائستگی انجام دیتے ہیں اور کوئی انقباض خاطر ان کو ایسا پیش نہیں آتا کہ جو اخلاق حسنہ کی کما ینبغی صادر ہونے سے ان کو روک سکے۔ اصل بات یہ ہے کہ جو کچھ خوبی علمی یا عملی یا اخلاقی انسان سے صادر ہوسکتی ہے وہ صرف انسانی طاقتوں سے صادر نہیں ہوسکتی بلکہ اصل موجب اس کے صدور کا فضل الٰہی ہے۔ پس چونکہ یہ لوگ سب سے زیادہ مورد فضل الٰہی ہوتے ہیں اس لئے خود خداوند کریم اپنے تفضّلات نامتناہی سے تمام خوبیوں سے ان کو متمتع کرتا ہے یا دوسرے لفظوں میں یوں سمجھو

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 541

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 541

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/541/mode/1up

بھی اکثر اُس حوض پر جایا کرتا تھا اور اُس کی ان عجیب و غریب خاصیتوں سے باخبر تھا مگر پھر بھی مسیح نے ان معجزات کے دکھلانے میں جن کو قدیم سے حوض

عقل کے گھمنڈ میں رہتے ہیں اور نیز ان کا یہ بھی مقولہ ہے کہ کسی خاص دعا کو بندگی اور عبادت کے لئے خاص کرنا ضروری نہیں۔ انسان کو اختیار ہے جو چاہے دعا مانگے مگر یہ ان کی سراسر نادانی ہے اور ظاہر ہے کہ اگرچہ جزوی حاجات صدہا انسان کو لگی ہوئی ہیں۔

کہ حقیقی طور پر بجُز خدائے تعالیٰ کے اور کوئی نیک نہیں تمام اخلاق فاضلہ اور تمام نیکیاں اسی کے لئے مسلم ہیں پھر جس قدر کوئی اپنے نفس اور ارادت سے فانی ہوکر اس ذات خیر محض کا قربؔ حاصل کرتا ہے اسی قدر اخلاقِ الٰہیہ اس کے نفس پر منعکس ہوتی ہیں پس بندہ کو جو جو خوبیاں اور سچی تہذیب حاصل ہوتی ہے وہ خدا ہی کے قرب سے حاصل ہوتی ہے اور ایسا ہی چاہئے تھا کیونکہ مخلوق فی ذاتہٖ کچھ چیز نہیں ہے سو اخلاق فاضلہ الٰہیہ کا انعکاس انہیں کے دلوں پر ہوتا ہے کہ جو لوگ قرآن شریف کا کامل اتباع اختیار کرتے ہیں اور تجربہ صحیحہ بتلا سکتا ہے کہ جس مشرب صافی اور روحانی ذوق اور محبت کے بھرے ہوئے جوش سے اخلاق فاضلہ ان سے صادر ہوتے ہیں اس کی نظیر دنیا میں نہیں پائی جاتی اگرچہ منہ سے ہریک شخص دعویٰ کرسکتا ہے اور لاف و گذاف کے طور پر ہریک کی زبان چل سکتی ہے مگر جو تجربہ صحیحہ کا تنگ دروازہ ہے اس دروازہ سے سلامت نکلنے والے یہی لوگ ہیں اور دوسرے لوگ اگر کچھ اخلاق فاضلہ ظاہر کرتے بھی ہیں تو تکلّف اور تصنّع سے ظاہر کرتے ہیں اور اپنی آلودگیوں کو پوشیدہ رکھ کر اور اپنی بیماریوں کو چھپا کر اپنی جھوٹی تہذیب دکھلاتے ہیں اور ادنیٰ ادنیٰ امتحانوں میں ان کی قلعی کھل جاتی ہے اور تکلف اور تصنع اخلاق فاضلہ کے ادا کرنے میں اکثر وہ اس لئے کرتے ہیں کہ اپنی دنیا اور معاشرت کا حسن انتظام وہ اسی میں دیکھتے ہیں اور اگر اپنی اندرونی آلائشوں کی ہر جگہ پیروی کریں تو پھر مہمات معاشرت میں خلل پڑتا ہے اور اگرچہ بقدر استعداد فطرتی کے کچھ تخم اخلاق کا ان میں بھی ہوتا ہے مگر وہ اکثر نفسانی خواہشوں کے کانٹوں کے نیچے دبا رہتا ہے اور بغیر آمیزش اغراض نفسانی کے خالصاً للہ

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 542

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 542

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/542/mode/1up

دکھلا رہا تھاؔ اُسی حوض کی مٹی یا پانی سے کچھ مدد نہیں لی اور اُسی میں کچھ تصرف کرکے اپنا نیا نسخہ نہیں نکالا۔ بلاشبہ ایسا خیال بے دلیل بات ہے کہ جو

مگر حاجتِ اعظم جس کا دن ؔ رات اور ہریک دم فکر کرنا چاہئے صرف ایک ہی ہے یعنی یہ کہ انسان ان طرح طرح کے حجبِ ظلمانیہ سے نجات پاکر معرفت کامل کے درجہ تک پہنچ جائے اور کسی طرح کی نابینائی اور کور باطنی اور بے مہری اور بے وفائی باقی نہ رہے بلکہ خدا کو کامل طور پر شناخت کرکے اور اس کی خالص محبت سے

ظاہر نہیں ہوتا چہ جائیکہ اپنے کمال کو پہنچے اور خالصاًللہ انہیں میں وہ تخم کمال کو پہنچتا ہے کہ جو خدا کے ہورہتے ہیں اور جن کے نفوس کو خدائے تعالیٰ غیریت کی لوث سے بکلّی خالی پاکر خود اپنے پاک اخلاق سے بھر دیتا ہے اور ان کے دلوں میں وہ اخلاق ایسے پیارے کردیتا ہے جیسے وہ اس کو آپ پیارے ہیں پس وہ لوگ فانی ہونے کی وجہ سے تخلق باخلاق اللہ کا ایسا مرتبہ حاصل کرلیتے ہیں کہ گویا وہ خدا کا ایک آلہ ہوجاتے ہیں جس کی توسّط سے وہ اپنے اخلاق ظاہر کرتا ہے اور ان کو بھوکے اور پیاسے پاکر وہؔ آب زلال ان کو اپنے اس خاص چشمہ سے پلاتا ہے جس میں کسی مخلوق کو علیٰ وجہ الاصالت اس کے ساتھ شرکت نہیں۔ اور منجملہ ان عطیات کے ایک کمال عظیم جو قرآن شریف کے کامل تابعین کو دیا جاتا ہے عبودیت ہے یعنی وہ باوجود بہت سے کمالات کے ہر وقت نقصان ذاتی اپنا پیش نظر رکھتے ہیں اور بشہود کبریائی حضرت باری تعالیٰ ہمیشہ تذلل اور نیستی اور انکسار میں رہتے ہیں اور اپنی اصل حقیقت ذلت اور مفلسی اور ناداری اور پُر تقصیری اور خطاواری سمجھتے ہیں اور ان تمام کمالات کو جو ان کو دیئے گئے ہیں اس عارضی روشنی کی مانند سمجھتے ہیں جو کسی وقت آفتاب کی طرف سے دیوار پر پڑتی ہے جس کو حقیقی طور پر دیوار سے کچھ بھی علاقہ نہیں ہوتا اور لباس مستعار کی طرح معرض زوال میں ہوتی ہے۔ پس وہ تمام خیر و خوبی خدا ہی میں محصور رکھتے ہیں اور تمام نیکیوں کا چشمہ اسی کی ذات کامل کو قرار دیتے ہیں اور صفات الٰہیہ کے کامل شہود سے ان کے دل میں حق الیقین کے طور پر بھر جاتا ہے کہ ہم کچھ چیز نہیں ہیں یہاں تک کہ وہ اپنے وجود اور ارادہ اور خواہش سے بکلی کھوئے جاتے ہیں اور عظمت الٰہی کا پُرجوش دریا اُن کے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 543

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 543

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/543/mode/1up

مخالف کے روبرو کارگر نہیںؔ اور بلاریب اس حوض عجیب الصفات کے وجود پر خیال کرنے سے مسیح کی حالت پر بہت سے اعتراضات عائد ہوتے ہیں جو کسی طرح

پُر ہوکر مرتبہ وصال الٰہی کا ؔ جس میں اس کی سعادت تامہ ہے پالیوے یہی ایک دعا ہے۔ جس کی انسان کو سخت حاجت ہے اور جس پر اس کی ساری سعادت موقوف ہے سو اس کے حصول کا سیدھا راستہ یہی ہے کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کہے کیونکہ انسان کے لئے ہریک مطلب کے پانے کا یہی ایک طریق ہے کہ جن راہوں پر چلنے سے وہ مطلب حاصل ہوتا ہے ان راہوں پر مضبوطی سے قدم مارے اور وہی راستہ اختیار کرے

دلوں پر ایسا محیط ہوجاتا ہے کہ ہزارہا طور کی نیستی ان پر وارد ہوجاتی ہے اور شرک خفی کے ہریک رگ و ریشہ سے بکلی پاک اور منزہ ہوجاتے ہیں اور منجملہ ان عطیات کے ایک یہ ہے کہ اُن کی معرفت اور خداشناسی بذریعہ کشوف صادقہ و علوم لدنیہ و الہامات صریحہ و مکالمات و مخاطبات حضرت احدیت و دیگر خوارق عادت بدرجہ اکمل و اتم پہنچائی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ان میں اور عالم ثانی میں ایک نہایت رقیق اور شفاف حجاب باقی رہ جاتا ہے۔ جس میں سے ان کی نظر عبور کرکے واقعات اخروی کو اسی عالم میں دیکھ لیتی ہے برخلاف دوسرے لوگوں کے کہ جو بباعث پُرظلمت ہونے اپنی کتابوں کے اس مرتبہ کاملہ تک ہرگز نہیں پہنچ سکتے بلکہ ان کی کج تعلیم کتابیں ان کے حجابوں ؔ پر اور بھی صدہا حجاب ڈالتے ہیں اور بیماری کو آگے سے آگے بڑھا کر موت تک پہنچاتے ہیں۔ اور فلسفی جن کے قدموں پر آج کل برہمو سماج والے چلتے ہیں اور جن کے مذہب کا سارا مدار عقلی خیالات پر ہے وہ خود اپنے طریق میں ناقص ہیں اور ان کے نقصان پر یہی دلیل کافی ہے کہ ان کی معرفت باوجود صدہا طرح کی غلطیوں کی نظری وجوہ سے تجاوز نہیں کرتی اور قیاسی اٹکلوں سے آگے نہیں بڑھتی اور ظاہر ہے کہ جس شخص کی معرفت صرف نظری طور تک محدود ہے اور وہ بھی کئی طرح کی خطا کی آلودگیوں سے ملوث وہ شخص بمقابلہ اس شخص کے جس کا عرفان بداہت کے مرتبہ تک پہنچ گیا ہے اپنی علمی حالت میں بغایت درجہ پست اور متنزّل ہے۔ ظاہر ہے کہ نظر اور

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 544

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 544

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/544/mode/1up

اٹھ نہیں سکتے اورجس قدر غور کروؔ اُسی قدر داروگیر بڑھتی ہے اورمسیحی جماعت کیلئے کوئی راستہَ مخلصی کانظر نہیں آتاکیونکہ دنیا کی موجودہ حالت کودیکھ کریہ وساوس اور

کہ جو سیدھا منزل مقصودؔ تک پہنچتا ہے اور بے راہیوں کو چھوڑ دے اور یہ بات نہایت بدیہی ہے کہ ہر شے کے حصول کے لئے خدا نے اپنے قانون قدرت میں صرف ایک ہی راستہ ایسا رکھا ہے جس کو سیدھا کہنا چاہئے اور جب تک ٹھیک ٹھیک وہی راستہ اختیار نہ

فکر کے مرتبہ کے آگے ایک مرتبہ بداہت اور شہود کا باقی ہے یعنی جو امور نظری اور فکری طور پر معلوم ہوتے ہیں وہ ممکن ہیں کہ کسی اور ذریعہ سے بدیہی اور مشہود طور پر معلوم ہوں سو یہ مرتبہ بداہت کا عند العقل ممکن الوجود ہے اور گو برہمو سماج والے اس مرتبہ کے وجود فی الخارج سے انکار ہی کریں پر اس بات سے انہیں انکار نہیں کہ وہ مرتبہ اگر خارج میں پایا جاوے تو بلاشبہ اعلیٰ و اکمل ہے اور جو نظر اور فکر میں خفا یا باقی رہ جاتے ہیں ان کا ظہور اور بروز اسی مرتبہ پر موقوف ہے اور خود اس بات کو کون نہیں سمجھ سکتا کہ ایک امر کا بدیہی طور پر کھل جانا نظری طور سے اعلیٰ اور اکمل ہے مثلاً اگرچہ مصنوعات کو دیکھ کر دانا اور سلیم الطبع انسان کا اس طرف خیال آسکتا ہے کہ ان چیزوں کا کوئی صانع ہوگا مگر نہایت بدیہی اور روشن طریق معرفت الٰہی کا جو اس کے وجود پر بڑی ہی مضبوط دلیل ہے یہ ہے کہ اس کے بندوں کو الہام ملتا ہے اور قبل اس کے جو حقائقِ اشیاء کا انجام کھلے اُن پر کھولا جاتا ہے اور وہ اپنے معروضات میں حضرت احدیت سے جوابات پاتے ہیں اور ان سے مکالمات اورؔ مخاطبات ہوتے ہیں اور بہ نظر کشفی ان کو عالمِ ثانی کے واقعات دکھلائے جاتے ہیں اور جزا سزا کی حقیقت پر مطلع کیا جاتا ہے اور دوسرے کئی طور کے اسرار اخروی ان پر کھولے جاتے ہیں اور کچھ شک نہیں کہ یہ تمام امور علم الیقین کو اتم اور اکمل مرتبہ تک پہنچاتے ہیں اور نظری ہونے کے عمیق نشیب سے بداہت کے بلند مینار تک لے جاتے ہیں بالخصوص مکالمات اور مخاطبات حضرت احدیت ان سب اقسام سے اعلیٰ ہیں کیونکہ ان کے ذریعہ سے صرف اخبار غیبیہ ہی معلوم نہیں ہوتے بلکہ عاجز بندہ پر جو جو مولیٰ کریم کی عنایتیں ہیں ان سے بھی اطلاع دی جاتی ہے اور ایک لذیذ اور

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 545

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 545

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/545/mode/1up

بھی زیادہ تقویت پکڑتے ہیں ؔ اور بہت سی نظیریں ایسے ہی مکروں اور فریبوں کے اپنی ہی قُوّت حافظہ پیش کرتی ہے بلکہ ہریک انسان ان مکروں کے بارے میں

کیا جائے ممکن نہیں کہ وہ چیز حاصل ہوسکے جس طرح خدا ؔ کے تمام قواعد قدیم سے مقرر اور منضبط ہیں ایسا ہی نجات اور سعادت اخروی کی تحصیل کے لئے ایک خاص طریق مقرر ہے جو مستقیم اور سیدھا ہے۔ سو دعا میں وضع استقامت یہی ہے کہ اسی طریق مستقیم کو خدا سے مانگا جائے۔ آٹھویں اور نویں اور دسویں صداقت جو سورۃ فاتحہ میں درج ہے۔

مبارک کلام سے ایسی تسلی اور تشفی اس کو عطا ہوتی ہے اور خوشنودی حضرت باری تعالیٰ سے مطلع کیا جاتا ہے جس سے بندہ مکروہات دنیا کا مقابلہ کرنے کے لئے بڑی قوّت پاتا ہے گویا صبر اور استقامت کے پہاڑ اس کو عطا کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح بذریعہ کلام اعلیٰ درجہ کے علوم اور معارف بھی بندہ کو سکھلائے جاتے ہیں اور وہ اسرار خفیہ و دقائق عمیقہ بتلائے جاتے ہیں کہ جو بغیر تعلیم خاص ربانی کے کسی طرح معلوم نہیں ہوسکتے اور اگر کوئی یہ شبہ پیش کرے کہ یہ تمام امور جن کی نسبت بیان کیا گیا ہے کہ قرآن شریف کے کامل اتباع سے حاصل ہوتے ہیں کیونکر اسلام میں ان کا متحقق فی الخارج ہونا بہ پایۂ ثبوت پہنچ سکتا ہے تو اس وہم کا جواب یہ ہے کہ صحبت سے۔ اور اگرچہ ہم کئی مرتبہ لکھ چکے ہیں لیکن بغیر اندیشہ طول کے پھر مکرر ہریک مخالف پر ظاہر کرتے ہیں کہ فی الحقیقت یہ دولت عظمٰی اسلام میں پائی جاتی ہے کسی دوسرے مذہب میں ہرگز پائی نہیں جاتی اور طالب حق کے لئے اس کے ثبوت کے بارے میں ہم آپ ہی ذمہ وار ہیں بشرط صحبت و حسن ارادت و تحقق مناسبت اور صبر اور ثبات کے یہ امور ہریک طالب پر بقدر استعداد اور لیاقت ذاتی اُس کے کے کھل سکتے ہیں اور ان امور میں سےؔ جو اخبار غیبیہ ہیں ان کی نسبت یہ شبہ ہرگز نہیں کرنا چاہئے جو اس کام میں رمّال و منجم بھی شریک ہیں کیونکہ یہ قوم کسی خاص فن یا قواعد کے ذریعہ سے اخبار غیبیہ کو نہیں بتلاتی اور نہ غیب دان ہونے کا دعویٰ کرتی ہے بلکہ خداوند کریم جو ان پر مہربان ہے اور ان کے حال پر ایک خاص عنایات و توجہات رکھتا ہے وہ بعض مصالح کے لحاظ سے بعض امور

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 546

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 546

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/546/mode/1up

چشم دید باتوں کا ایک ذخیرہ رکھتا ہے اور خودؔ اس قسم کے مکر جیسے سادہ لوحوں اور جاہلوں کے سامنے چل جاتے ہیں اور زیر پردہ رہتے ہیں یہ ایک ایسا امر ہے جو مکّاروں کو

صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَؔ عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ ہم کو ان سالکین کا راستہ بتلا جنہوں نے ایسی راہیں اختیار کیں کہ جن سے اُن پر تیرا انعام وارد ہوا اور ان لوگوں کی راہوں سے بچا جنہوں نے لاپرواہی سے سیدھی راہ پر قدم مارنے کے لئے کوشش نہ کی اور اس باعث سے

پیش از وقوع ان کو بتلا دیتا ہے تا جس کام کا اس نے ارادہ کیا ہے بوجہ احسن انجام کو پہنچ جائے مثلاً وہ خلق اللہ پر یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ فلاں بندہ مؤید من اللہ ہے اور جو کچھ انعامات اور اکرامات وہ پاتا ہے وہ معمولی اور اتفاقی طور پر نہیں بلکہ خاص ارادہ و توجہ الٰہی سے ظہور میں آتے ہیں۔ اسی طرح جو کچھ فتح و نصرت اور اقبال و عزت اس کو ملتی ہے وہ کسی تدبیر اور حیلہ کے ذریعہ سے نہیں بلکہ خدا ہی نے چاہا ہے کہ اس کو غلبہ بخشے اور اپنی تائیدات اس کے شامل حال کرے پس وہ کریم اور رحیم اس مقصود کے ثابت کرنے کی غرض سے ان انعامات اور فتوح سے پہلے بطور پیشگوئی اُن نعمتوں کے عطا کرنے کی بشارت دے دیتا ہے سو ان پیشگوئیوں سے مقصود بالذات اخبار غیبیہ نہیں ہوتیں بلکہ مقصود بالذات یہ ہوتا ہے کہ تا یقینی اور قطعی طور پر ثابت ہوجائے کہ وہ شخص مؤید من اللہ اور ان خاص لوگوں میں سے ہے جن کی تائید کے لئے عنایات حضرت عزّت خاص طور پر تجلی کرتی ہیں۔ اب اس تقریر سے ظاہر ہے کہ اس مؤیّد من اللہ کو منجم وغیرہ سے کچھ بھی نسبت نہیں اور اس کی پیشگوئیاں اصل مقصود نہیں ہے بلکہ اصل مقصود کی شناخت کے لئے علامات و آثار ہیں۔ ماسوا اس کے جن لوگوں کو خدائے تعالیٰ خاص اپنے لئے چن لیتا ہے اور اپنے ہاتھ سے صاف کرتا ہے اور اپنے گروہ میں داخل کرتا ہے ان میں صرف یہی علامت نہیں کہ وہ پوشیدہ چیزیں بتلاتے ہیں تا ان کا حال نجومیوں اور جوتشیوں اور رمّالوں اور کاہنوں کے حال سے مشتبہ ہوجائے اور کچھ مابہ الامتیاز باقی نہ رہے بلکہ ان کے شامل حال ایک عظیم الشان نور ہوتا ہے جس کے مشاہدہ

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 547

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 547

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/547/mode/1up

اُن کی کارسازیوں پر دلیر کرتا ہے۔ عوامؔ النّاس کو جو اکثر چارپایوں کی طرح ہوتے ہیں اس طرف خیال بھی نہیں ہوتا کہ لمبی چوڑی تفتیش کریں اور بات کی تہہ تک

تیری تائید سےؔ محروم رہ کر گمراہ رہے۔ یہ تین صداقتیں ہیں جن کی تفصیل یہ ہے کہ بنی آدم اپنے اقوال اور افعال اور اعمال اور نیات کے رو سے تین قسم کے ہوتے ہیں۔ بعض سچے دل سے خدا کے طالب ہوتے ہیں اور صدق اور عاجزی سے خدا کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

کے سبب سے طالبؔ صادق بدیہی طور پر ان کو شناخت کرسکتا ہے اور حقیقت میں وہی ایک نور ہے جو ان کے ہریک قول اور فعل اور حال اور قال اور عقل اور فہم اور ظاہر اور باطن پر محیط ہو جاتا ہے اور صدہا شاخیں اس کی نمودار ہوجاتی ہیں اور رنگا رنگ کی صورتوں میں جلوہ فرماتا ہے وہی نور شدائد اور مصائب کے وقتوں میں صبر کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور استقامت اور رضا کے پیرایہ میں اپنا چہرہ دکھاتا ہے تب یہ لوگ جو اس نور کے مورد ہیں آفات عظیمہ کے مقابلہ پر جبال راسیات کی طرح دکھائی دیتے ہیں اور جن صدمات کی ادنیٰ َ مس سے ناآشنا لوگ روتے اور چلاتے ہیں بلکہ قریب بمرگ ہوجاتے ہیں ان صدمات کے سخت زور آور حملوں کو یہ لوگ کچھ چیز نہیں سمجھتے اور فی الفور حمایت الٰہی کنار عاطفت میں ان کو کھینچ لیتی ہے اور کوئی خامی اور بے صبری ان سے ظاہر نہیں ہوتی بلکہ محبوب حقیقی کے ایلام کو برنگ انعام دیکھتے ہیں اور بکشادگی سینہ و انشراح خاطر اس کو قبول کرتے ہیں بلکہ اس سے متلذّذ ہوتے ہیں کیونکہ طاقتوں اور قوتوں اور صبروں کے پہاڑ ان کی طرف رواں کئے جاتے ہیں اور محبت الٰہیہ کی پرجوش موجیں غیر کی یادداشت سے ان کو روک لیتی ہیں پس ان سے ایک ایسی برداشت ظہور میں آتی ہے کہ جو خارق عادت ہے اور جو کسی بشر سے بلاتائید الٰہی ممکن نہیں۔ اور ایسا ہی وہ نور حاجات کے وقتوں میں قناعت کی صورت میں ان پر جلوہ گر ہوتا ہے سو دنیا کی خواہشوں سے ایک عجیب طور کی برودت ان کے دلوں میں پیدا ہوجاتی ہے کہ بدبودار چیز کی طرح دنیا کو سمجھتے ہیں اور یہی دنیوی لذات جن کے حظوظ پر دنیا دار لوگ فریفتہ ہیں و بشوق تمام ان کے جویاں اور ان کے زوال سے سخت ہراساں ہیں یہ اُن کی نظر میں بغایت درجہ ناچیز ہوجاتے ہیں اور تمام سرور اپنا

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 548

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 548

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/548/mode/1up

پہنچ جائیں اور ایسے تماشوں کے دکھلانے کا عرؔ صہ بھی نہایت ہی تھوڑا ہوتا ہے جس میں غور وفکر کرنے کے لئے کافی فرصت نہیں مل سکتی اس لئے مکّاروں کے لئے

پس خدا بھی ان کا طالب ہوجاتا ہے اور رحمت اور انعام کے ساتھؔ ان پر رجوع کرتا ہے۔ اس حالت کا نام انعام الٰہی ہے۔ اسی کی طرف آیت ممدوحہ میں اشارہ فرمایا اور کہا۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ۔ یعنی وہ لوگ ایسا صفا اور سیدھا راستہ اختیار کرتے ہیں جس سے فیضانِ رحمتِ الٰہی کے مستحق ٹھہر جاتے ہیں اور بباعث اس کے

اِسی میں پاتے ہیں کہ مولیٰ حقیقی کی وفا اور محبت اور رضا سے دل بھرا رہے اور اسی کے ذوق اور شوق اور انس سے اوقات معمورر ہیں۔ اسؔ دولت سے بیزار ہیں کہ جو اُس کی خلاف مرضی ہے اور اس عزت پر خاک ڈالتے ہیں جس میں مولیٰ کریم کی ارادت نہیں۔ اور ایسا ہی وہ نور کبھی فراست کے لباس میں ظاہر ہوتا ہے اور کبھی قوت نظریہ کی بلند پروازی میں اور کبھی قوت عملیہ کی حیرت انگیز کارگزاری میں کبھی حلم اور رفق کے لباس میں اور کبھی درشتی اور غیرت کے لباس میں۔ کبھی سخاوت اور ایثار کے لباس میں۔ کبھی شجاعت اور استقامت کے لباس میں۔ کبھی کسی خلق کے لباس میں اور کبھی کسی خلق کے لباس میں۔ اور کبھی مخاطبات حضرت احدیت کے پیرایہ میں اور کبھی کشوف صادقہ اور اعلامات واضحہ کے رنگ میں یعنی جیسا موقعہ پیش آتا ہے اس موقعہ کے مناسب حال وہ نور حضرت واہب الخیر کی طرف سے جوش مارتا ہے۔ نور ایک ہی ہے اور یہ تمام اس کی شاخیں ہیں۔ جو شخص فقط ایک شاخ کو دیکھتا ہے اور صرف ایک ٹہنی پر نظر رکھتا ہے اس کی نظر محدود رہتی ہے۔ اس لئے بسا اوقات وہ دھوکا کھالیتا ہے لیکن جو شخض یکجائی نگاہ سے اس شجرۂ طیبہ کی تمام شاخوں پر نظر ڈالتا ہے اور ان کے انواع اقسام کے پھلوں اور شگوفوں کی کیفیت معلوم کرتا ہے وہ روز روشن کی طرح اُن نوروں کو دیکھ لیتا ہے اور نورانی جلال کی کھینچی ہوئی تلواریں اس کے تمام گھمنڈوں کو توڑ ڈالتی ہیں۔ شاید اس جگہ بعض طبائع پر یہ اشکال پیش آوے کہ کیونکر ان کمالات کو وہ لوگ بھی پالیتے ہیں کہ جو نہ نبی ہیں اور نہ رسول لیکن جیسا کہ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں یہ اشکال ایک

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 549

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 549

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/549/mode/1up

دست بازی کی بہت گنجائش رہتی ہے اور ان کے پوؔ شیدہ بھیدوں پر اطلاع پانے کا کم موقع ملتا ہے۔ علاوہ اس کے عوام بیچارے علومِ طبعی وغیرہ فنونِ فلاسفہ

کہ ان میں اور خدا میں کوئی حجاب باقی نہیںؔ رہتا اور بالکل رحمت الٰہی کے محاذی آپڑتے ہیں۔ اس جہت سے انوار فیضان الٰہی کے ان پر وارد ہوتے ہیں۔ دوسری قسم وہ لوگ ہیں کہ جو دیدہ و دانستہ مخالفت کا طریق اختیار کرلیتے ہیں اور دشمنوں کی طرح خدا سے مونہہ

ناچیز وہم ہے کہ جو ان لوگوں کے دلوں کو پکڑتا ہے کہ جو اسلام کی اصل حقیقت سے ناواقف ہیں۔ اگر نبیوں کے تابعین کو ان کے کمالات اور علوم اور معارف میں علیٰ وجہ التبعیت شرکت نہ ہو تو باب وراثت کا بکلّی مسدود ہوجاتا ہے یا بہت ہی تنگ اور منقبض رہ جاتا ہے کیونکہ یہ معنے بکلّی منافی وراثت ہے کہ جو کچھ فیوض حضرت مبدء فیاض سے اس کے رسولوں اور نبیوں کو ملتےؔ ہیں اور جس نورانیت یقین اور معرفت تک ان مقدّسوں کو پہنچایا جاتا ہے اس شربت سے ان کے تابعین کے حلق محض ناآشنا رہیں اور صرف خشک اور ظاہری باتوں سے ہی ان کے آنسو پونچھے جائیں۔ ایسی تجویز سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ حضرتِ فیاض مطلق کی ذات میں بھی ایک قسم کا بخل ہو اور نیز اس سے کلام الٰہی اور رسول مقبول کی عظمت اور بزرگی کی کسر شان لازم آتی ہے کیونکہ کلام الٰہی کی اعلیٰ تاثیریں اور نبی معصوم کی قوت قدسیہ کے کمالات اسی میں ہیں کہ انوار دائمہ کلام الٰہی کے ہمیشہ قلوب صافیہ اور مستعدہ کو روشن کرتے رہیں نہ یہ کہ تاثیر ان کی بکلّی معطّل ہو یا صرف معدودے چند تک ہوکر پھر ہمیشہ کے لئے باطل ہوجائے اور زائل القوّت دوا کی طرح فقط نام ہی تاثیر کا باقی رہ جائے ماسوا اس کے جبکہ ایک حقیقت واقعی طور پر ہر عہد اور ہر زمانہ میں خارج میں متحقق الوجود چلی آئی ہے اور اب بھی متحقق الوجود ہے اور شہادات متکاثرہ سے اس کا ثبوت بدیہی طور پر مل سکتا ہے تو پھر ایسی روشن صداقت سے کیونکر کوئی منصف انکار کرسکتا ہے اور ایسی کھلا کھلی سچائی کیونکر اور کہاں چھپ سکتی ہے حالانکہ قیاس بھی یہی چاہتا ہے کہ جب تک درخت قائم ہو اس کو پھل بھی لگتے رہیں۔ ہاں جو درخت خشک ہوجائے یا جڑ سے کاٹا جائے اس کے پھلوں کی توقع

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 550

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 550

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/550/mode/1up

سے کچھ خبر نہیں رکھتے اور جو کائنات میں حکیمِ مُطلق نے طرح طرحؔ کے عجیب خواص رکھے ہیں اُن خواص کی انہیں کچھ بھی خبر نہیں ہوتی۔ پس وہ ہریک وقت

پھیر لیتے ہیں سو خدا بھی ان سے منہ پھیر لیتا ہے اور رحمت کے ساتھ ان پر رجوعؔ نہیں کرتا اس کا باعث یہی ہوتا ہے کہ وہ عداوت اور بیزاری اور غضب اور غیظ اور نارضامندی جو خدا کی نسبت ان کے دلوں میں چھپی ہوئی ہوتی ہے وہی ان میں اور خدا میں حجاب ہوجاتی ہے

رکھنا محض نادانی ہے پس جس حالت میں فرقان مجید وہ عظیم الشان و سرسبز و شاداب درخت ہے جس کی جڑھیں زمین کے نیچے تک اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں تو پھر ایسے شجرہ طیبہ کے پھلوں سے کیونکر انکار ہوسکتا ہے۔ اس کے پھل بدیہی الظہور ہیں جن کو ہمیشہ لوگ کھاتے رہے ہیں اور اب بھی کھاتے ہیں اور آئندہ بھی کھائیں گے اور یہ بات بعض نادانوں کی بالکل بے ہودہ اور غلط ہے کہ اس زمانہ میں کسی کو ان پھلوں تک گزر ہی نہیں بلکہ ان کا کھانا پہلے لوگوں کے ہی حصہ ؔ میں تھا اور وہی خوش نصیب لوگ تھے جنہوں نے وہ پھل کھائے اور ان سے متمتع ہوئے اور ان کے بعد بدنصیب لوگ پیدا ہوئے جن کو مالک نے باغ کے اندر آنے سے روک دیا۔ خدا کسی ذی استعداد کی استعداد کو ضائع نہیں کرتا اور کسی سچے طالب پر اس کے فیض کا دروازہ بند نہیں ہوتا۔ اور اگر کسی کے خیال باطل میں یہ سمایا ہوا ہے کہ کسی وقت کسی زمانہ میں فیوض الٰہی کا دروازہ بند ہوجاتا ہے اور ذی استعداد لوگوں کی کوششیں اور محنتیں ضائع جاتی ہیں تو اس نے اب تک خدا ئے تعالیٰ کا قدر شناخت نہیں کیا اور ایسا آدمی انہیں لوگوں میں داخل ہے جن کی نسبت خدائے تعالیٰ نے آپ فرمایا ہے۔ 3۔۱؂ لیکن اگر یہ عذر پیش کیا جائے کہ جن علوم و معارف و کشوف صادقہ و مخاطبات حضرت احدیت کے تحقق وجود کا ذکر کیا جاتا ہے وہ اب کہاں ہیں اور کیونکر بہ پایۂ ثبوت پہنچ سکتے ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سب امور اسی کتاب میں ثابت کئے گئے ہیں اور طالب حق کے لئے ان کے امتحان کا نہایت سیدھا اور آسان راستہ کھلا ہے کیونکہ وہ علوم و معارف کو خود اس کتاب میں دیکھ سکتا ہے۔ اور جو کشوف صادقہ اور اخبار غیبیہ اور دوسرے خوارق ہیں۔

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 551

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 551

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/551/mode/1up

اور ہر زمانہ میں دھوکا کھانے کو طیّار ہیں۔ اور کیونکر دھوکا نہ کھاویں خواص اشیاءؔ کے ایسے ہی حیرت افزا ہیں اور بے خبری کی حالت میں موجبِ زیادتِ حیرت

اس حالت کا نام غضبِ الٰہی ہے۔ اسی کی طرف خدائے تعالیٰ نے اشارہ فرما کر کہا۔ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ۔ تیسری قسم کے وہؔ لوگ ہیں کہ جو خدا سے لاپرواہ رہتے ہیں اور سعی اور کوشش سے اس کو طلب نہیں کرتے۔ خدا بھی اُن کے ساتھ لاپرواہی

وہ غیر مذہب والوں کی شہادت سے اس پر ثابت ہوسکتے ہیں یا وہ آپ ہی ایک عرصہ تک صحبت میں رہ کر یقین کامل کے مرتبہ تک پہنچ سکتا ہے اور جو دوسرے لوازم اور خصوصیات اسلام ہیں وہ بھی سب صحبت سے کھل سکتے ہیں لیکن اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جو کچھ عجائب و غرائب اہل حق پر منکشف ہوتے ہیں اور جو کچھ برکات ان میں پائے جاتے ہیں وہ کسی طالب پر تب کھولے جاتے ہیں کہ جب وہ طالب کمال صدق اور اخلاص سے بہ نیت ہدایت پانے کے رجوع کرتا ہے اور جب وہ ایسے طور سے رجوع کرتا ہے تو تب جس قدر اور جس طور سے انکشاف مقدر ہوتا ؔ ہے وہ بارادہ خالص الٰہی ظہور میں آتا ہے مگر جس جگہ سائل کے صدق اور نیت میں کچھ فتور ہوتا ہے اور سینہ خلوص سے خالی ہوتا ہے تو پھر ایسے سائل کو کوئی نشان دکھلایا نہیں جاتا یہی عادت خداوند تعالیٰ کی انبیاء کرام سے ہے جیسا کہ یہ بات انجیل کے مطالعہ سے نہایت ظاہر ہے کہ کئی مرتبہ یہودیوں نے مسیح سے کچھ معجزہ دیکھنا چاہا تو اس نے معجزہ دکھلانے سے صاف انکار کیا اور کسی گزشتہ معجزہ کا بھی حوالہ نہ دیا چنانچہ مرقس کی انجیل کے آٹھ باب اور باراں آیت میں بھی اسی کی تصریح ہے اور عبارت مذکور یہ ہے۔ تب فریسی نکلے اور اس سے(یعنی مسیح سے) حجت کرکے اس کے امتحان کے لئے آسمان سے کوئی نشان چاہا اس نے اپنے دل میں آہ کھینچ کر کہا اس زمانہ کے لوگ کیوں نشان چاہتے ہیں۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اس زمانہ کے لوگوں کو کوئی نشان دیا نہ جائے گا۔ سو اگرچہ بظاہر دلالت عبارت اسی پر ہے۔ کہ مسیح سے کوئی معجزہ صادر نہیں ہوا لیکن اصلی معنے اس کے یہی ہیں کہ اُس وقت تک مسیح سے کوئی معجزہ ظہور میں نہیں آیا تھا تب ہی اس نے کسی گذشتہ معجزہ کا حوالہ نہیں دیا کیونکہ

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 552

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 552

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/552/mode/1up

ہوتے ہیں۔ مثلاً مکھی اور دوسرے بعض جانوروں میں یہ خاصیّت ہے کہ اگر ایسے طور پر مرجائیں کہؔ اُن کے اعضا میں کچھ زیادہ تفرّق اتصال واقع نہ ہو اور اعضا

کرتا ہے اور ان کو اپنا راستہ نہیں دکھلاتا۔ کیونکہ وہ لوگ راستہ طلب کرنے میں آپ سستی کرتے ہیں۔ اور اپنے تئیں اس فیض کے لائق نہیں بناتے کہ جو خدا کے قانون قدیم میںؔ محنت اور کوشش کرنے والوں کے لئے مقرر ہے۔ اس حالت کا نام ا ضلالِ الٰہی ہے۔

یہود میں صاحب صدق اور اخلاص کم تھے تا کسی کے حسن ارادت کے لحاظ سے کوئی معجزہ ظہور میں آتا لیکن اس کے بعد جب لوگ صاحب صدق اور ارادت پیدا ہوگئے اور طالب حق بن کر مسیح کے پاس آئے تو وہ معجزات دیکھنے سے محروم نہیں رہے چنانچہ یہودا اسکریوطی کی خراب نیت پر مسیح کا مطلع ہوجانا یہ اس کا ایک معجزہ ہی تھا جو اس نے اپنے شاگردوں اور صادق الاعتقاد لوگوں کو دکھلایا۔ اگرچہ اُس کے دوسرے سب عجیب کام بباعث قصہ حوض اور بوجۂ آیتِ مذکورہ بالا کے مخالف کی نظر میں قابل انکار اور محل اعتراض ٹھہر گئے اور اب بطور حجت مستعمل نہیں ہوسکتے لیکن معجزہ مذکورہ بالا منصف مخالف کی نظر میں بھی ممکن ہے کہ ظہور میں آیا ہو غرض معجزات اور خوارق کے ظہور کے لئے طالب کا صدق اور اخلاص شرط ہے۔ اورؔ صدق اور اخلاص کے یہی آثار و علامات ہیں کہ کینہ اور مکابرہ درمیان نہ ہو اور صبر اور ثبات اور غربت اور تذلل سے بہ نیت ہدایت پانے کے کوئی نشان طلب کیا جائے اور پھر اس نشان کے ظہور تک صبر اور ادب سے انتظار کیا جائے تا خداوند کریم وہ بات ظاہر کرے جس سے طالب صادق یقین کامل کے مرتبہ تک پہنچ جائے۔ غرض ادب اور صدق اور صبر برکات الٰہیہ کے ظہور کے لئے شرط اعظم ہے جو شخص فیض الٰہی سے مستفیض ہونا چاہتا ہے اس کے حال کے یہی مناسب ہے کہ وہ سراپا ادب ہوکر بہ تمام تر غربت و صبر اس نعمت کو اس کے اہل کے دروازہ سے طلب کرے اور جہاں معرفت الٰہیہ کا چشمہ دیکھے آپ افتاں و خیزاں اس چشمہ کی طرف دوڑے اور پھر صبر اور ادب سے کچھ دنوں تک ٹھہرا رہے لیکن جو لوگ خدائے تعالیٰ کی طرف سے صاحب خوارق ہیں ان کا یہ منصب نہیں ہے کہ وہ

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 553

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 553

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/553/mode/1up

اپنی اصلی ہیئت اور وضع پر سلامت رہیں اور متعفن ہونے بھی نہ پاویں بلکہ ابھی تازہ ہی ہوں اور موت پر دو تین گھنٹہ سے زیادہ عرصہ نہ گذرا ہو جیسے پانی

جس کے یہ معنے ہیں کہ خدا نے ان کو گمراہ کیا یعنی جبکہ انہوں نے ہدایت پانے کے طریقوں کو بجدوجہد طلب نہ کیا تو خدا نے بہ پابندی اپنے قانون قدیم کے ان کو ہدایت بھی نہ دی اور اپنی تائید سے محروم رکھا۔ اسی کی طرف اشارہ فرمایا اور کہا وَلَا الضَّالِیْن۔ غرض

شعبدہ بازوں کی طرح بازاروں اور مجالس میں تماشا دکھلاتے پھریں اور نہ یہ امور ان کے اختیار میں ہیں بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ان کے پتھر میں آگ تو بلاشبہ ہے لیکن صادقوں اور صابروں اور مخلصوں کی پُر ارادت ضرب پر اس آگ کا ظہور اور بروز موقوف ہے اور ایک اَور بات بھی یاد رکھنی چاہئے اور وہ یہ ہے کہ اہل اللہ کے کشوف اور الہامات کو فقط اخبار غیبیہ کا ہی خطاب دینا غلطی ہے بلکہ وہ کشوف اور الہامات تائیدات الٰہیہ کے باغ کی خوشبوئیں ہیں جو دور سے ہی اس باغ کا وجود بتلاتے ہیں اور عظمت اور شان ان کشوف اور الہامات کے اس شخص پر کما حقّہ‘ کھلتی ہے جس کی نظر تائیداتِ الہٰیہ کی تلاش میں ہو یعنی وہ اصل نشان تائیداتِ الہٰیہ کو ٹھہرا کر پیشگوئیوں کو ان تائیدوں کے لوازم سمجھتا ہو جو بغرض ثابت کرنے تائیدوں کے استعمال میں لائے گئے ہیںؔ ۔ غرض مدار مقرّب اللہ ہونے کا تائیدات الٰہیہ ہیں اور پیشگوئیاں روشن ثبوت سے ان تائیدات کا واقعی طور پر پایا جانا ہریک عام اور خاص کو دکھلاتے ہیں۔ پس تائیدات اصل ہیں اور پیشگوئیاں اُن کی فرع اور تائیدات قرص آفتاب کی طرح ہیں اور پیشگوئیاں اس آفتاب کی شعاعیں اور کرنیں ہیں۔ تائیدات کو پیشگوئیوں کے وجود سے یہ فائدہ ہے کہ تاہریک کو معلوم ہو کہ وہ حقیقت میں خاص تائیدیں ہیں معمولی اتفاقات سے نہیں اور بخت اور اتفاق پر محمول نہیں ہوسکتیں اور پیشگوئیوں کو تائیدات کے وجود سے یہ فائدہ ہے کہ اس بزرگ پیوند سے ان کی شان بڑھتی ہے اور ایک بے مثل خصوصیت ان میں پیدا ہوجاتی ہے کہ جو مؤیدان الٰہی کے غیر میں نہیں پائی جاتی۔ سو یہی خصوصیت عام پیشگوئیوں اور ان جلیل الشان پیشگوئیوں میں مابہ الامتیاز ٹھہر جاتا ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 554

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 554

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/554/mode/1up

میں مری ہوئی مکھیاں ہوتی ہیں تو اس صورت میں اگر نمک باریک پیس کر اس مکھی وغیرہ کو اس کے نیچے دبایا جاوے اور پھر اسی قدر خاکستر بھی اس پر ڈالی جاوے تو وہ مکھی زندہ ہوکر اڑ جاتی ہے اور یہ خاصیت مشہور و معروفؔ ہے جس کو اکثر لڑکے بھی جانتے ہیں لیکن اگر کسی سادہ لوح کو اس نسخہ پر اطلاع نہ ہو اور کوئی مکار

ماحصل اور خلاصہ ان تینوں صداقتوں کا یہ ہے کہ جیسے انسان کی خدا کے ساتھ تین حالتیں ہیں ایسا ہی خدا بھی ہریک حالت کے موافق ان کے ساتھ جدا جدا معاملہ کرتا ہے۔ جوؔ لوگ اُس پر راضی ہوتے ہیں اور دلی محبت اور صدق سے اس کے خواہاں ہوجاتے ہیں خدا بھی ان پر راضی ہوجاتا ہے اور اپنی رضامندی کے انوار ان پر نازل کرتا ہے۔ اور جو لوگ

اِس قوم کی عظمت اور بزرگی کے سمجھنے کے لئے جو پیشگوئیوں اور تائیدات کاملہ میں ایک پیوند ہے اُس کو خیال میں رکھنا چاہئے۔ کیونکہ یہ پیوند دوسرے لوگوں کی پیش گوئیوں میں غیر ممکن اور ممتنع ہے اور نیز ان کی پیشگوئیوں میں ایسی فاش غلطیاں نکل آتی ہیں جنؔ سے ہریک ذلت ان کی ظاہر ہوتی ہے مگر خدا کے لوگ جو ہوتے ہیں ان کی روشن پیشگوئیاں ہمیشہ سے سچائی کے نور سے منور ہوتی ہیں ماسوا اس کے وہ مبارک پیشگوئیاں ایک عجیب طور کی عجیب تائید سے لازم ملزوم ہوتی ہیں۔ خدا اپنے بندوں کے کاموں کا آپ متولّی ہوکر ایک حیرت انگیز طور پر ان کی تائید کرتا ہے اور کیا ظاہری طور پر اور کیا باطنی طور پر ہر دم اور ہر لحظہ ان کی مدد میں رہتا ہے اور ان سے اس کی یہی عادت ہے کہ ان کو اپنی تائیدات کی خبریں پیش از وقوع بتلاتا ہے اور ان کے تردّد و تفکّر کے وقت میں اپنے پرنور کلام سے ان کو تسلی اور تشفّی بخشتا ہے اور پھر ایک ایسے عجیب طور پر ان کی مدد کرتا ہے کہ جو خیال اور گمان میں نہیں ہوتی اور جو شخص ان کی صحبت میں رہ کر ان باتوں کو عمیق نگاہ سے دیکھتا رہتا ہے اور صاف اور پاک نظر سے ان کی عظمت اور بزرگی پر غور کرتا ہے۔ اس کو بلااختیار ایک ضروری اور جازم یقین سے اقرار کرنا پڑتا ہے کہ یہ لوگ مؤیّد من اللہ ہیں اور حضرت احدیت کو ان کی طرف ایک خاص توجہ ہے کیونکہ یہ بات ظاہر ہے کہ جب ایک آدھ دفعہ نہیں بلکہ بیسوں دفعہ کسی انسان کو اتفاق پڑے کہ وہ کسی تائید کا وعدہ

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 555

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 555

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/555/mode/1up

اس نادان اور بے خبر کے سامنے مگس مسیح ہونے کا دعویٰ کرے اور اسی حکمت عملی سے مکھیوں کو زندہ کرے اور بظاہر کوئی منتر جنتر پڑھتا رہے جس سے یہ جتلانا منظور ہو کہ گویا وہ اسی منتر کے ذریعہ سے مکھیوں کو زندہ کرتا ہے تو پھر اس سادہ لوح کو اس قدر عقل اور فرصت کہاں ہے کہ تحقیقاتیں کرتا پھرے۔ کیا تم

اُس سے مونہہ پھیر لیتے ہیں اور عمداً مخالفت اختیار کرتے ہیں۔ خدا بھی مخالف کی طرح ان سے معاملہ کرتا ہے اور جو لوگ اس کی طلب میں سستی اور لاپروائی کرتے ہیں خدا بھی ان سے لاپروائی کرتا ہے اور ان کو گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے غرض جس طرح آئینہ میں انسان کو وہی شکل نظر آتی ہے کہ جو حقیقت میں شکل رکھتا ہے۔ اسی طرح حضرتِ احدیّت کہؔ جو ہریک

قبل از وقوع سن کر پھر اس تائید کو ظہور میں آتے ہوئے بچشم خود دیکھ لے تو کوئی انسان ایسا پاگلؔ اور دیوانہ نہیں کہ پھر بھی ان صحیح پیشگوئیوں اور قوی تائیدوں پر یقین کامل نہ کرسکے۔ ہاں اگر فرط تعصب اور بے ایمانی سے کسی چشم دید ماجرا کا دانستہ انکار کرے تو یہ اَور بات ہے۔ لیکن پھر بھی اس کا دل انکار نہیں کرسکتا اور ہر وقت اس کو ملزم کرتا ہے کہ تو شریر اور سرکش آدمی ہے۔ اب چند کشوف اور الہامات نوواردہ بغرض افادہ طالبین حق لکھے جاتے ہیں اور اسی طرح انشاء اللہ تعالیٰ وقتاً فوقتاً اگر خدا نے چاہا تو جو کچھ مواہب لدنّیہ سے اس احقر عباد پر ظاہر کیا جائے گا وہ اس کتاب میں درج ہوتا رہے گا۔ اِلاَّ مَاشَاء اللہ۔ اور اس سے غرض یہ ہے کہ تا یقین اور معرفت کے سچے طالب فائدہ حاصل کریں اور اپنی حالت میں کشائش پاویں اور ان کے دل پر سے وہ پردے اٹھیں جن سے ان کی ہمت نہایت پست اور ان کے خیالات نہایت ُ پرظلمت ہورہے ہیں اور اس جگہ ہم مکرراً یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ یہ باتیں ایسی نہیں ہیں جن کا ثبوت دینے سے یہ خاکسار عاجز ہو یا جن کے ثبوت میں اپنے ہی ہم مذہبوں کو پیش کیا جائے بلکہ یہ وہ بدیہی الصدق باتیں ہیں جن کی صداقت پر مخالف المذہب لوگ گواہ ہیں اور جن کی سچائی پر وہ لوگ شہادت دے سکتے ہیں جوؔ ہمارے دینی دشمن ہیں اور یہ سب اہتمام اس لئے کیا گیا کہ تا جو لوگ فی الحقیقۃراہ راست کے خواہاں اور جویاں

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 556

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 556

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/556/mode/1up

دیکھتے نہیں کہ مکارؔ لوگ اسی زمانے میں دنیا کو ہلاک کررہے ہیں۔ کوئی سونا بنا کر دکھلاتا ہے اور کیمیا گری کا دعویٰ کرتا ہے۔ اور کوئی آپ ہی زمین کے نیچے پتھر دبا کر پھر ہندوؤں کے سامنے دیوی نکالتا ہے۔ بعض نے ایسا بھی کیا ہے کہ جمال گوٹہ کا روغن اپنی دوات کی سیاہی میں ملایا اور پھر اس سیاہی سے کسی سادہ لوح کو تعویذ لکھ کر دیا تا دست آنے پر تعویذ کا اثر ظاہر ہو۔ ایسے ہی ہزاروں اور مکر اور فریب ہیں کہ جو اسی زمانہ میں ہورہے ہیں اور بعض مکر ایسے عمیق ہیں جن سے بڑے بڑے دانشمند

کدورت سے مصفّٰی اور پاک ہے محبت والوں کے ساتھ محبت رکھتا ہے۔ غضب والوں پر غضب ناک ہے لاپرواہوں کے ساتھ لاپرواہی‘ رُکنے والوں سے رک جاتا ہے اور جھکنے والوں کی طرف جھکتا ہے۔ چاہنے والوں کو چاہتا ہے اور نفرت کرنے والوں سے نفرت کرتا ہے اور جس طرح آئینہ کے سامنے جو انداز اپنا بناؤ گے وہی انداز آئینہ میں بھی نظر آئے گا۔ ایسا ہی خداوند تعالیٰ کے روبرو جس انداز سے کوئی چلتا ہے وہی انداز خدا کی طرف سے اس کے لئے موجود ہے۔ اور جن لباسوں کو بندہ اپنے لئے آپ

ہیں ان پر بکمال انکشاف ظاہر ہوجائے کہ تمام برکات اور انوار اسلام میں محدود اور محصور ہیں اور تا جو اس زمانہ کے ملحد ذرّیت ہے اس پر خدائے تعالیٰ کی حجت قاطعہ اتمام کو پہنچے اور تا ان لوگوں کی فطرتی شیطنت ہریک منصف پر ظاہر ہو کہ جو ظلمت سے دوستی اور نور سے دشمنی رکھ کر حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے مراتب عالیہ سے انکار کرکے اس عالی جناب کی شان کی نسبت پر خبث کلمات مونہہ پر لاتے ہیں اور اس افضل البشر پر ناحق کی تہمتیں لگاتے ہیں اور بباعث غایت درجہ کی کور باطنی کے اور بوجہ نہایت درجہ کی بے ایمانی کے اس بات سے بے خبر ہورہے ہیں کہ دنیا میں وہی ایک کامل انسان آیا ہے جس کا نور آفتاب کی طرح ہمیشہ دنیا پر اپنی شعاعیں ڈالتا رہا ہے اور ہمیشہ ڈالتا رہے گا۔ اور تا ان تحریراتِ حقہ سے اسلام کی شان و شوکت خود مخالفوں کے اقرار سے ظاہر ہوجائے اور تا جو شخص سچی طلب رکھتا ہو اس کے لئے ثبوت کا راستہ کھل جائے اور جو اپنے میں کچھ دماغ رکھتا ہو اس کی دماغ شکنی

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 557

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 557

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/557/mode/1up

دھوکاؔ کھا جاتے ہیں اور علوم طبعی کے دقائق عمیقہ اور جسمی تراکیب اور قوتوں کے خواص عجیبہ جو حال کے زمانہ میں نئے تجارب کے ذریعہ سے روزبروز پھیلتے جاتے ہیں یہ جدید باتیں ہیں جن سے جھوٹے معجزے دکھلانے والے نئے نئے مکر اور فریب دکھا سکتے ہیں سو اس تحقیق سے ظاہر ہے کہ جو معجزات بظاہر صورت ان مکروں سے متشابہ ہیں۔ گو وہ سچے بھی ہوں تب بھی محجوب الحقیقت ہیں اور ان کے ثبوت کے بارے میں بڑی بڑی دقتیں ہیں۔

اختیارؔ کرلیتا ہے وہی تخم بویا ہوا اس کا اس کو دیا جاتا ہے۔ جب انسان ہریک طرح کے حجابوں اور کدورتوں اور آلائشوں سے اپنے دل کو پاک کرلیتا ہے اور صحن سینہ اس کے کا مواد ردّیہ ماسوائے اللہ سے بالکل خالی ہوجاتا ہے۔ تو اس کی ایسی مثال ہوتی ہے جیسے کوئی اپنے مکان کا دروازہ جو آفتاب کی طرف ہے کھول دیتا ہے اور سورج کی کرنیں اس کے گھر کے اندر چلی آتی ہیں۔ لیکن جب بندہ ناراستی اور دروغ اور طرح طرح کی آلائشوں کو آپ اختیار کرلیتا ہے اور خدا کو حقیر چیز کی طرح خیال کرکے چھوڑ دیتا

ہوجائے اور نیز ان کشوف اور الہامات کےؔ لکھنے کا یہ بھی ایک باعث ہے کہ تا اس سے مومنوں کی قُوّت ایمانی بڑھے اور ان کے دلوں کو تثبت اور تسلی حاصل ہو اور وہ اس حقیقت حقہ کو بہ یقین کامل سمجھ لیں کہ صراط مستقیم فقط دین اسلام ہے اور اب آسمان کے نیچے فقط ایک ہی نبی اور ایک ہی کتاب ہے یعنی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جو اعلیٰ و افضل سب نبیوں سے اور اتم و اکمل سب رسولوں سے اور خاتم الانبیاء اور خیر الناس ہیں جن کی پیروی سے خدائے تعالیٰ ملتا ہے اور ظلماتی پردے اٹھتے ہیں اور اسی جہان میں سچی نجات کے آثار نمایاں ہوتے ہیں اور قرآن شریف جو سچی اور کامل ہدایتوں اور تاثیروں پر مشتمل ہے جس کے ذریعہ سے حقانی علوم اور معارف حاصل ہوتے ہیں اور بشری آلودگیوں سے دل پاک ہوتا ہے اور انسان جہل اور غفلت اور شبہات کے حجابوں سے نجات پاکر حق الیقین کے مقام تک

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 558

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 558

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/558/mode/1up

تمہیدؔ ششم۔ جس طرح محجوب الحقیقت معجزاتِ عقلی معجزات سے برابری نہیں کرسکتے۔ ایسا ہی پیشین گوئیاں اور اخبار ازمنہ گذشتہ جو نجومیوں اور رمّالوں اور کاہنوں اور مؤرّخوں کے طریق ۂبیان سے مشابہ ہیں ان پیشین گوئیوں اور اخبار غیبیہ سے مساوی نہیں ہوسکتیں کہ جو محض اخبار نہیں ہیں بلکہ ان کے ساتھ قُدرتِ الوہیّت بھی شامل ہے کیونکہ دنیا میں بجز انبیاء کے اور بھی ایسے لوگ بہت نظر آتے ہیں کہ ایسی ایسی خبریں پیش از وقوع بتلایا کرتے ہیں کہ زلزلے

ہے تو اس کی ایسی مثال ہوتی ہے جیسے کوئی روشنی ؔ کو ناپسند کرکے اور اس سے بغض رکھ کر اپنے گھر کے تمام دروازے بند کردے تا ایسا نہ ہو کہ کسی طرف سے آفتاب کی شعاعیں اس کے گھر کے اندر آجائیں۔ اور جب انسان بباعث جذبات نفسانی یا ننگ و ناموس یا تقلید قوم وغیرہ طرح طرح کی غلطیوں اور آلائشوں میں گرفتار ہو اور سستی اور تکاسل اور لاپروائی سے ان آلائشوں سے پاک ہونے کے لئے کچھ سعی اور کوشش نہ کرے تو اس کی ایسی مثال ہوتی ہے جیسے کوئی اپنے گھر کے دروازوں کو بند پاوے اور

پہنچ جاتا ہے اور ایک باعث ان کشوف اور الہامات کی تحریر پر اور پھر غیر مذہب والوں کی شہادتوں سے اس کے ثابت کرنے پر یہ بھی ہے کہ تا ہمیشہ کے لئے ایک قوی حجت مسلمانوں کے ہاتھ میں رہے اور جو سفلہ اور ناخداترس اور سیاہ دل آدمی ناحق کا مقابلہ اورؔ مکابرہ مسلمانوں سے کرتے ہیں۔ ان کا مغلوب اور لاجواب ہونا ہمیشہ لوگوں پر ثابت اور آشکار ہوتا رہے اور جو ضلالت اور گمراہی کی ایک زہرناک ہوا آج کل چل رہی ہے اس کی زہر سے زمانہ حال کے طالب حق اور نیز آئندہ کی نسلیں محفوظ رہیں کیونکہ ان الہامات میں ایسی بہت سی باتیں آئیں گی جن کا ظہور آئندہ زمانوں پر موقوف ہے پس جب یہ زمانہ گزر جائے گا اور ایک نئی دنیا نقاب پوشیدگی سے اپنا چہرہ دکھائے گی اور ان باتوں کی صداقت کو جو اس کتاب میں درج ہے بچشم خود دیکھے گی تو اُن کی تقویت ایمان کے لئے یہ پیشین گوئیاں بہت فائدہ دیں گی انشاء اللہ تعالیٰ۔ سو اس وقت جو پیشگوئیاں خداوند کریم کی طرف سے ظاہر ہوئی ہیں

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 559

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 559

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/559/mode/1up

آویں گے وباؔ پڑے گی لڑائیاں ہوں گی قحط پڑے گا ایک قوم دوسری قوم پر چڑھائی کرے گی یہ ہوگا وہ ہوگا اور بارہا کوئی نہ کوئی ان کی خبر بھی سچی نکل آتی ہے پس ان شبہات کے مٹانے کے لئے وہ پیشین گوئیاں اور اخبار غیبیہ زبردست اور کامل مُتصوّر ہوں گے جن کے ساتھ ایسے نشان قُدرتِ الٰہیہ کے ہوں جن میں رمّالوں اور خواب بینوں اور نجومیوں وغیرہ کا شریک ہونا ممتنع اور محال ہو یعنی ان میں خداوند تعالیٰ کے کامل جلال کا جوش اور اُس کی

تمام گھر میں اندھیرا بھرا ہوا دیکھے اور پھرؔ اٹھ کر دروازوں کو نہ کھولے اور ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھا رہے اور دل میں یہ کہے کہ اب اس وقت کون اٹھے اور کون اتنی تکلیف اٹھاوے۔ یہ تینوں مثالیں ان تینوں حالتوں کی ہیں جو انسان کے اپنے ہی فعل یا اپنی ہی سستی سے پیدا ہوجاتی ہیں جن میں سے پہلی حالت کا نام حسب تصریح گذشتہ کے انعام الٰہی اور دوسری حالت کا نام غضب الٰہی اور تیسری حالت کا نام اضلال الٰہی ہے ان تینوں صداقتوں سے بھی ہمارے مخالفین بے خبر ہیں۔ کیونکہ برہمو سماج والوں کو

بعض ان میں سے ذیل میں لکھی جاتی ہیں۔ ازانجملہ ایک یہ ہے کہ کچھ عرصہ گزرا ہے کہ ایک دفعہ سخت ضرورت روپیہ کی پیش آئی جس ضرورت کا ہمارے اس جگہ کے آریہ ہم نشینوں کو بخوبی علم تھا اور یہ بھی ان کو خوب معلوم تھا کہ بظاہر کوئی ایسی تقریب پیش نہیں ہے کہ جو جائے امید ہوسکے بلکہ اس معاملہ میں ان کو ذاتی طور پر واقفیت تھی جس کی وہ شہادت دے سکتے ہیں۔ پس جبکہ وہ ایسے مشکل اور فقدان اسباب حل ؔ مشکل سے کامل طور پر مطلع تھے اس لئے بلا اختیار دل میں اس خواہش نے جوش مارا کہ مشکل کشائی کے لئے حضرت احدیت میں دعا کی جائے تا اس دعا کی قبولیت سے ایک تو اپنی مشکل حل ہوجائے اور دوسری مخالفین کے لئے تائید الٰہی کا نشان پیدا ہو۔ ایسا نشان کہ اس کی سچائی پر وہ لوگ گواہ ہوجائیں۔ سو اسی دن دعا کی گئی اور خدائے تعالیٰ سے یہ مانگا گیا کہ وہ نشان کے طور پر مالی مدد سے اطلاع بخشے تب یہ الہام ہوا دس دن کے بعد مَیں موج دکھاتا ہوں۔ 33۔ فی شایل مقیاس۔ دن ول یو گو ٹو امرت سر۔ یعنی دس دن کے بعد روپیہ

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 560

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 560

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/560/mode/1up

تائیدات کا ایسا بزرگ چمکارا نظر آتا ہو۔ جوؔ بدیہی طور پر اس کی توجّہاتِ خاصہ پر دلالت کرتا ہو اور نیز وہ ایک ایسی نصرت کی خبر پر مشتمل ہوں جس میں اپنی فتح اور مخالف کی شکست اور اپنی عزت اور مخالف کی ذلت اور اپنا اقبال اور مخالف کا زوال بہ تفصیل تمام ظاہر کیا گیا ہو اور ہم اپنے موقعہ پر بیان کریں گے اور کچھ بیان بھی کرچکے ہیں کہ یہ اعلیٰ درجہ کی پیشین گوئیاں صرف قرآن شریف سے مخصوص ہیں کہ جن کے پڑھنے سے جلال الٰہی کا ایک عالم نظر آتا ہے۔

اُس صداقت سے بالکل اطلاع نہیں ہے جس کے رو سے خدائے ؔ تعالیٰ سرکش اور غضب ناک بندوں کے ساتھ غضبناک کا معاملہ کرتا ہے۔ چنانچہ برہمو صاحبوں میں سے ایک صاحب نے اس بارہ میں انہیں دنوں میں ایک رسالہ بھی لکھا ہے جس میں صاحب موصوف خدا کی کتابوں پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ان میں غضب کی صفت خدائے تعالیٰ کی طرف کیونکر منسوب کی گئی ہے کیا خدا ہماری کمزوریوں پر چڑتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اگر صاحب راقم کو اس صداقت کی کچھ بھی خبر ہوتی توکیوں وہ ناحق اپنے اوقات ضائع کرکے ایک ایسا رسالہ چھپواتے جس سے ان کی کم فہی ہر یک پر کھل گئی

آئے گا۔ خدا کی مدد نزدیک ہے اور جیسے جب جننے کے لئے اونٹنی دُم اٹھاتی ہے تب اس کا بچہ جننا نزدیک ہوتا ہے ایسا ہی مدد الٰہی بھی قریب ہے اور پھر انگریزی فقرہ میں یہ فرمایا کہ دس دن کے بعد جب روپیہ آئے گا تب تم امرتسر بھی جاؤ گے۔ تو جیسا اس پیشگوئی میں فرمایا تھا ایسا ہی ہندوؤں یعنی آریوں مذکورہ بالا کے روبرو وقوع میں آیا یعنی حسب منشاء پیشگوئی دس دن تک ایک خرمُہرہ نہ آیا اور دس دن کے بعد یعنی گیارھویں روز محمد افضل خان صاحب سپرنٹنڈنٹ بندوبست راولپنڈی نے ایک سو دس روپیہ بھیجے اور بیست روپیہ ایک اور جگہ سے آئے اور پھر برابر روپیہ آنے کا سلسلہ ایسا جاری ہوؔ گیا جس کی امید نہ تھی۔ اور اسی روز کہ جب دس دن کے گزرنے کے بعد محمد افضل خان صاحب وغیرہ کا روپیہ آیا امرتسر بھی جانا پڑا۔ کیونکہ عدالت خفیفہ امرتسر سے ایک شہادت کے ادا کرنے کے لئے اس عاجز کے نام اسی روز ایک سمن

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 561

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 561

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/561/mode/1up

تمہیدؔ ہفتم۔ قرآن شریف میں جس قدر باریک صداقتیں علم دین کی اور علوم دقیقہ الٰہیّات کے اور براہینِ قاطعہ اُصولِ حقّہ کے معہ دیگر اسرار اور معارف کے مُندرج ہیں اگرچہ وہ تمام فی حدّ ذاتہا ایسے ہیں کہ قویٰ بشریہ اُن کو بہ ہیئت مجموعی دریافت کرنے سے عاجز ہیں اور کسی عاقل کی عقل ان کے دریافت کرنے کے لئے بطور خود سبقت نہیں کرسکتی کیونکہ پہلے زمانوں پر نظر استقراری ڈالنے سے ثابت ہوگیا ہے کہ کوئی حکیم یا فیلسوف اُن علوم و معارف کا دریافت کرنے والا نہیں گزرا۔

ہے اور اُن کو باوجود دعویٰ عقل کے یہ باؔ ت سمجھ نہ آئی کہ خدا کا غضب بندہ کی حالت کا ایک عکس ہے جب انسان کسی مخالفانہ شر سے محجوب ہوجائے اور خدا سے دوسری طرف مونہہ پھیر لے تو کیا وہ اس لائق رہ سکتا ہے کہ جو سچے محبّوں اور صادقوں پر فیضان رحمت ہوتا ہے اس پر بھی وہی فیضان ہوجائے ہرگز نہیں بلکہ خدا کا قانونِ قدیم جو ابتدا سے چلا آیا ہے جس کو ہمیشہ راست باز اور صادق آدمی تجربہ کرتے رہے ہیں اور اب بھی صحیح تجارب سے اس کی سچائیوں کو مشاہدہ کرتے ہیں وہ یہی قانون ہے کہ جو شخص ظلماتی

آگیا۔ سو یہ وہ عظیم الشان پیشگوئی ہے جس کی مفصل حقیقت پر اس جگہ کے چند آریوں کو بخوبی اطلاع ہے اور وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اس پیشگوئی سے پہلے سخت ضرورت پیش آنے کی وجہ سے دعا کی گئی اور پھر اس دعا کا قبول ہونا اور دس دن کے بعد ہی روپیہ آنے کی بشارت دیا جانا اور ساتھ ہی روپیہ آنے کے بعد امرتسر جانے کی اطلاع دیا جانا یہ سب واقعات حقہ اور صحیحہ ہیں اور پھر انہیں کے روبرو اس پیشگوئی کا پورا ہونا بھی ان کو معلوم ہے اور اگرچہ وہ لوگ بباعث ظلمت کفر کے خبث اور عناد سے خالی نہیں ہیں اور اپنے دوسرے بھائیوں کی طرح بغض اور کینہ اسلام پر کمربستہ اور جیفۂ دنیا پر گرے ہوئے اور حق اور راستی سے بکلّی بے غرض ہیں لیکن اگر شہادت کے وقت ان کو قسم دی جائے تو بحالت قسم سے وہ سچ سچ بیان کرنے سے کسی طرف گریز نہیں کرسکتے اور اگر خدا سے نہیں تو رسوائی اور وبالِ قسم سے ڈر کر ضروری سچی گواہی دیویں گے۔

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 562

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 562

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/562/mode/1up

لیکن اِس جگہ عجیبؔ بر عجیب اَور بات ہے یعنے یہ کہ وہ علوم اور معارف ایک ایسے اُمّی کو عطا کی گئی کہ جو لکھنے پڑھنے سے ناآشنا محض تھا جس نے عمر بھر کسی مکتب کی شکل نہیں دیکھی تھی اور نہ کسی کتاب کا کوئی حرف پڑھا تھا اور نہ کسی اہل علم یا حکیم کی صحبت میسّر آئی تھی بلکہ تمام عمر جنگلیوں اور وحشیوں میں سکونت رہی اُنہیں میں پرورش پائی اور اُنہیں میں سے پیدا ہوئے اور انہیں کے ساتھ اختلاط رہا۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمّی اور اَن پڑھ ہونا ایک ایسا بدیہی امر ہے کہ

حجابوں سے نکل کر سیدھا خدائے تعالیٰ کی طرف اپنے روح کا مونہہ پھیر کر اسؔ کے آستانہ پر گر پڑتا ہے اسی پر فیضان رحمتِ خاصہ ایزدی کا ہوتا ہے اور جو شخص اس طریق کے برخلاف کوئی دوسرا طریق اختیار کرلیتا ہے تو بالضرور جو امر رحمت کے برخلاف ہے یعنی غضب الٰہی اُس پر وارد ہوجاتا ہے اور غضب کی اصل حقیقت یہی ہے کہ جب ایک شخص اس طریق مستقیم کو چھوڑ دیتا ہے کہ جو قانون الٰہی میں افاضۂِ رحمت الٰہی کا طریق ہے تو فیضان رحمت سے محروم رہ جاتا ہے۔ اسی محرومی کی حالت کا نام غضب الٰہی ہے اور چونکہ انسان کی زندگی اور آرام اور راحت خدا کے فیض سے ہی ہے۔ اِس

ازؔ انجملہ ایک یہ ہے کہ مولوی ابو عبداللہ غلام علی صاحب قصوری جن کا ذکرِ خیر حاشیہ در حاشیہ نمبر ۲ میں درج ہے الہام اولیاء اللہ کی عظمت شان میں کچھ شک رکھتے تھے اور یہ شک ان کی بالمواجہ تقریر سے نہیں بلکہ ان کے رسالہ کی بعض عبارتوں سے مترشح ہوتا تھا سو کچھ عرصہ ہوا ان کے شاگردوں میں سے ایک صاحب نور احمد نامی جو حافظ اور حاجی بھی ہیں بلکہ شاید کچھ عربی دان بھی ہیں اور واعظِ قرآن ہیں اور خاص امرتسر میں رہتے ہیں اتفاقاً اپنی درویشانہ حالت میں سیر کرتے کرتے یہاں بھی آگئے ان کا خیال الہام کے انکار میں مولوی صاحب کے انکار سے کچھ بڑھ کر معلوم ہوتا تھا۔ اور برہمو سماج والوں کی طرح صرف انسانی خیالات کا نام الہام رکھتے تھے چونکہ وہ ہمارے ہی یہاں ٹھہرے اور اس عاجز پر انہوں نے خود آپ ہی یہ غلط رائے جو الہام کے بارہ میں ان کے دل میں تھی مدعیانہ طور پر ظاہر بھی کردی اس لئے دل میں بہت رنج گزرا ہر چند معقولی

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 563

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 563

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/563/mode/1up

کوئی تاریخ دان اسلام کا اُس سے بےؔ خبر نہیں لیکن چونکہ یہ امر آئندہ فصلوں کے لئے بہت کارآمد ہے اس لئے ہم کسی قدر آیاتِ قرآنی لکھ کر اُمیّت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ثابت کرتے ہیں سو واضح ہو کہ وہ آیات بہ تفصیل ذیل ہیں:۔

قال اللّٰہ تعالی۔ سورۂ جمعہ الجزو نمبر ۲۸۔۱؂

وہ خدا ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا ان پر وہ اُس کی آیتیں پڑھتا ہے اور اُن کو پاک کرتا ہے اور اُنہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے صریح گمراہی میں پھنسے ہوئے تھے۔

جہت ؔ سے جو لوگ فیضان رحمت کے طریق کو چھوڑ دیتے ہیں وہ خدا کی طرف سے اسی جہان میں یا دوسرے جہان میں طرح طرح کے عذابوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں کیونکہ جس کے شامل حال رحمت الٰہی نہیں ہے ضرور ہے کہ انواع اقسام کے عذاب روحانی و بدنی اس کی طرف مونہہ کریں اور چونکہ خدا کے قانون میں یہی انتظام مقرر ہے کہ رحمت خاصہ انہیں کے شامل حال ہوتی ہے کہ جو رحمت کے طریق کو یعنی دعا اور توحید کو اختیار کرتے ہیں۔ اس باعث سے جو لوگ اس طریق کو چھوڑ دیتے ہیں وہ طرح طرح کی آفات میں گرفتار

طور پر سمجھایا گیا کچھ اثر مترتب نہ ہوا آخر توجہ الی اللہ تک نوبت پہنچی اور ان کو قبل از ظہور پیشگوئی بتلایا گیا کہ خداوند کریم کی حضرت میں دعا کی جائے گی کچھ تعجبؔ نہیں کہ وہ دعا بہ پایہ اجابت پہنچ کر کوئی ایسی پیشگوئی خداوند کریم ظاہر فرماوے جس کو تم بچشم خود دیکھ جاؤ سو اس رات اس مطلب کے لئے قادر مطلق کی جناب میں دعا کی گئی علی الصباح بہ نظر کشفی ایک خط دکھلایا گیا جو ایک شخص نے ڈاک میں بھیجا ہے اس خط پر انگریزی زبان میں لکھا ہوا ہے آئی ایم کورلر اور عربی میں یہ لکھا ہوا ہے ھذا شاھد نَزّاغ اور یہی الہام حکایتاً عن الکاتب القا کیا گیا اور پھر وہ حالت جاتی رہی چونکہ یہ خاکسار انگریزی زبان سے کچھ واقفیت نہیں رکھتا۔ اس جہت سے پہلے علی الصباح میاں نور احمد صاحب کو اس کشف اور الہام کی اطلاع دے کر اور اس آنے والے خط سے مطلع کرکے پھر اسی وقت ایک انگریزی خوان سے اس انگریزی فقرہ کے معنے دریافت کئے گئے تو معلوم ہوا کہ اُس کے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 564

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 564

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/564/mode/1up

مَیں جس کوچاہتا ہوں عذاب پہنچاتا ہوں اور میری رحمت نے ہر چیز پر احاطہ کر رکھا ہے سو میں اُن کے لیے جو ہر یک طرح کے شرک اور کفر اور فواحش سے پرہیز کرتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں اور نیز اُن کیلئے جو ہماری نشانیوں پر ایمان کامل لاتے ہیں اپنی رحمت لکھوں گا وہ وہی لوگ ہیں جو اُس رسول نبی پر ایمان لاتے ہیں کہ جس میں ہماری قدرت کاملہ کی دو نشانیاں

ہو ؔ جاتے ہیں اِسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے

ی اِن کو کہہ دے کہ میرا خدا تمہاری پروا کیا رکھتا ہے اگرتم دعا نہ کرو اور اس کے فیضان کے خواہاں نہ ہو خدا کو تو کسی کی زندگی اور وجود کی حاجت نہیں وہ تو بے نیاز مطلق ہے۔ اور آریہ سماج والے اور عیسائی بھی اِن تینوں صداقتوں میں سے پہلی اور تیسری صداقت سے بے خبر ہیں۔ کوئی اُن میں سے یہ اعتراض کرتا ہے کہ خدائے تعالیٰ سب

یہ معنے ہیں کہ مَیں جھگڑنے والا ہوں سو اس مختصر فقرہ سے یقینًا یہ معلوم ہو گیا کہ کسی جھگڑے کے متعلق کوئی خط آنے والا ہے۔ اور ھٰذا شاھد نَزَّاغٌ کہ جو کاتب کی طرف سے دوسرا فقرہ لکھا ہوا دیکھا تھا اس کے یہ معنےؔ کھلے کہ کاتب خط نے کسی مقدمہ کی شہادت کے بارہ میں وہ خط لکھا ہے۔ اُس دن حافظ نور احمد صاحب بباعثِ بارش باران امرتسر جانے سے روکے گئے اور درحقیقت ایک سماوی سبب سے ان کا روکا جانا بھی قبولیتِ دعا کے ایک خبر تھی تا وہ جیسا کہ اُن کے لئے خدائے تعالیٰ سے درخواست کی گئی تھی پیشگوئی کے ظہور کو بچشمِ خود دیکھ لیں۔ غرض اس تمام پیشگوئی کا مضمون اُن کو سنا دیا گیا ۔ شام کو اُن کے رو برو پادری رجب علی صاحب مہتمم و مالک مطبع سفیر ہند کا ایک خط رجسٹری شدہ امرت سر سے آیا۔ جس سے معلوم ہوا کہ پادری صاحب نے اپنے کاتب پر جو اِسی کتاب کا کاتب ہے عدالتِ خفیفہ میں نالش کی ہے اور اِس عاجز کو ایک واقعہ کا گواہ ٹھہرایا ہے اور ساتھ اُس کے ایک سرکاری سمن بھی آیا اور اس خط کے آنے کے بعد وہ فقرہ الہامی یعنی ھٰذا شاھد نَزّاغ جس کے یہ معنی ہیں کہ یہ گواہ تباہی ڈالنے والا ہے۔ اِن

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 565

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 565

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/565/mode/1up

ہیں۔ ایک توبیرونی نشانی کہ توریت اور انجیل میں اس کی نسبت پیشین گوئیاں موجود ہیں جن کو وہ آپ بھی اپنی کتابوں میں موجود پاتے ہیں۔ دوسری وہ نشانی کہ خود اُس نبی کی ذات میں موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ باوجود اُمّی اور ناخواندہ ہونے کے ایسی ہدایت کامل لایا ہے کہ ہر یک قسم کی حقیقی صداقتیں جن کی سچائی کو عقل و شرع شناخت کرتی ہے اور جو صفحۂ دُنیا پر باقی نہیں رہی تھیں لوگوں کی ہدایت کے لئے بیان فرماتا ہے اور اُنکو اسکے بجالانے کیلئے حکم کرتا ہے اور ہریک

لوگوں کو کیوں ہدایت نہیں دیتا۔ اور کوئی یہ اعتراض کرؔ رہا ہے کہ خدا میں صفت اضلال کیونکر پائی جاتی ہے جو لوگ خدائے تعالیٰ کی ہدایت کی نسبت معترض ہیں وہ یہ نہیں سوچتے کہ ہدایت الٰہی اُنہیں کے شامل حال ہوتی ہے کہ جو ہدایت پانے کے لئے کوشش کرتے ہیں اور اُن راہوں پر چلتے ہیں جن راہوں پر چلنا فیضانِ رحمت کے لئے ضروری ہے اور جو لوگ اضلالِ الٰہی کی نسبت معترض ہیں اُن کو یہ خیال نہیں آتا کہ خدائے تعالیٰ اپنے قواعد مقررہ کے ساتھ ہر یک انسان سے مناسبِ حال معاملہ کرتا ہے اور جوشخص سُستی اور تکاسل

معنوں پر محمول معلوم ہوا کہ مہتمم مطبع سفیر ہند کے دل میں بہ یقین کامل یہ مرکوز تھا کہ اِس عاجز کی شہادت جو ٹھیک ٹھیک اور مطابق واقعہ ہو گی بباعث وثاقت اور صداقت اور نیز بااعتبار اور قابل قدر ہونے کی وجہ سے فریق ثانی پر تباہی ڈالے گی اور اِسی نیت سے مہتمم مذکور نے اِس عاجز کو ادائے شہادت کے لئے تکلیف بھی دی اور سمن جاریؔ کرایا اور اتفاق ایسا ہوا کہ جس دن یہ پیشگوئی پوری ہوئی اور امرتسر جانے کا سفر پیش آیا وہی دن پہلی پیشگوئی کے پورے ہونے کا دن تھا سو وہ پہلی پیشگوئی بھی میاں نور احمد صاحب کے رُو برو پوری ہو گئی یعنی اُسی دن جو دس دن کے بعد کا دن تھا روپیہ آگیا اور امرتسر بھی جانا پڑا۔ فالحمد للّٰہ علٰی ذالک۔

از انجملہ ایک یہ ہے کہ ایک دفعہ فجر کے وقت الہام ہوا کہ آج حاجی ارباب محمد لشکر خان کے قرابتی کا روپیہ آتا ہے۔ یہ پیشگوئی بھی بدستور معمول اسی وقت چند آریوں کو بتلائی گئی اور یہ قرار پایا کہ اُنہیں میں سے ڈاک کے وقت کوئی ڈاکخانہ میں جاوے چنانچہ ایک آریہ ملاوامل نامی اُس وقت ڈاکخانہ میں گیااور یہ خبر لایا کہ ہوتی مردان سے 3دس روپیہ

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 566

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 566

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/566/mode/1up

نامعقول بات سے کہ جس کی سچائی سے عقل و شرع انکار کرتی ہے منع کرتا ہے اور پاک چیزوں کو پاک اور پلید چیزوں کو پلید ٹھہراتا ہے اور یہودیوں اور عیسائیوں کے سر پر سے وہ بھاری بوجھ اتارتا ہے جو ان پر پڑی ہوئی تھی اور جن طوقوں میں وہ گرفتار تھے ان سے خلاصی بخشتا ہے۔ سو جو لوگ اس پر ایمان لاویں اور اس کو قوت دیں اور اس کی مدد کریں اور اس نور کی بکلّی متابعت اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل ہوا ہے وہی لوگ نجات یافتہ ہیں۔ لوگوں کو کہہ دے کہ میں

سے اس کے لئے کوشش کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ ایسےؔ لوگوں کے بارہ میں قدیم سے اس کا یہی قاعدہ مقرر ہے کہ وہ اپنی تائید سے ان کو محروم رکھتا ہے اور انہیں کو اپنی راہیں دکھلاتا ہے جو ان راہوں کے لئے بدل و جان سعی کرتے ہیں۔ بھلا یہ کیونکر ہوسکے کہ جو شخص نہایت لاپروائی سے سستی کررہا ہے وہ ایسا ہی خدا کے فیض سے مستفیض ہوجائے جیسے وہ شخص کہ جو تمام عقل اور تمام زور اور تمام اخلاص سے اس کو ڈھونڈتا ہے۔ اسی کی طرف ایک دوسرے مقام میں بھی اللہ تعالیٰ نے اشارہ فر یا ہے اور وہ یہ ہے

آئے ہیں اور ایک خط لایا جس میں لکھا تھا کہ یہ 3دس روپیہ ارباب سرور خان نے بھیجے ہیں۔ چونکہ ارباب کے لفظ سے اتحادِ قومی مفہوم ہوتا تھا اس لئے اُن آریوں کو کہا گیا کہ ارباب کے لفظ میں دونوں صاحبوں کی شراکت ہونا پیشگوئی کی صداقت کے لئے کافیؔ ہے مگر بعض نے ان میں سے اِس بات کو قبول نہ کیا اور کہا کہ اتحادِ قومی شے دیگر ہے اور قرابت شے دیگر اور اِس انکار پر بہت ضد کی ناچار اُن کے اصرار پر خط لکھنا پڑا اور وہاں سے یعنی ہُوتی مردان سے کئی روز کے بعد ایک دوست منشی الٰہی بخش نامی نے جو اُن دنوں میں ہوتی مردان میں اکونٹنٹ تھے خط کے جواب میں لکھا کہ ارباب سرور خان ارباب محمد لشکر خان کا بیٹا ہے چنانچہ اُس خط کے آنے پر سب مخالفین لاجواب اور عاجز رہ گئے۔ فالحمد للّٰہ علٰی ذالک۔

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 567

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 567

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/567/mode/1up

خداؔ کی طرف سے تم سب کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ وہ خدا جو بلا شرکت الغیری آسمان اور زمین کا مالک ہے جس کے سوا اور کوئی خدا اور قابل پرستش نہیں زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے پس اس خدا پر اور اس کے رسول پر جو نبی اُمّی ہے ایمان لاؤ۔ وہ نبی جو اللہ اور اس کے کلموں پر ایمان لاتا ہے اور تم اس کی پیروی کرو تاتم ہدایت پاؤ۔

یعنی جو لوگ ہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں ہم ان کو بالضرور اپنی راہیں دکھلا دیا کرتےؔ ہیں۔ اب دیکھنا چاہیئے کہ یہ دس صداقتیں جو سورۂ فاتحہ میں درج ہیں کس قدر عالی اور بے نظیر صداقتیں ہیں جن کے دریافت کرنے سے ہمارے تمام مخالفین قاصر رہے اور پھر دیکھنا چاہئے کہ کس ایجاز اور لطافت سے اقل قلیل عبارت میں ان کو خدائے تعالیٰ نے بھر دیا ہے اور پھر اس طرف خیال کرنا چاہئے کہ علاوہ ان سچائیوں کے اور اس کمال ایجاز کے دوسرے کیا کیا لطائف ہیں جو اس سور ۂمبارکہ میں بھرے ہوئے ہیں اگر ہم اس جگہ ان سب لطائف کو بیان کریں تو یہ مضمون ایک

ازانجملہ ایک یہ ہے کہ ایک دفعہ اپریل ۱۸۸۳ ؁ء میں صبح کے وقت بیداری ہی میں جہلم سے روپیہ روانہ ہونے کی اطلاع دی گئی اور اس بات سے اس جگہ آریوں کو جن میں سے بعض خود جاکر ڈاک خانہ میں خبر لیتے تھے بخوبی اطلاع تھی کہ اس روپیہ کے روانہ ہونے کے بارہ میں جہلم سے کوئی خط نہیں آیا تھا کیونکہ یہ انتظام اس عاجز نے پہلے سے کررکھا تھا کہ جو کچھ ڈاک خانہ سے خط وغیرہ آتا تھا اس کو خود بعض آریا ڈاک خانہ سے لےؔ آتے تھے اور ہر روز ہریک بات سے بخوبی مطلع رہتے تھے۔ اور خود اب تک ڈاک خانہ کا ڈاک منشی بھی ایک ہندو ہی ہے۔ غرض جب یہ الہام ہوا تو ان دنوں میں ایک پنڈت کا بیٹا شام لال نامی جو ناگری اور فارسی دونوں میں لکھ سکتا تھا بطور روزنامہ نویس کے نوکر رکھا ہوا تھا اور بعض امورِ غیبیہ جو ظاہر ہوتے تھے اس کے ہاتھ سے وہ ناگری اور فارسی خط میں قبل از وقوع لکھائے جاتے تھے اور پھر شام لال مذکور کے اُس پر دستخط کرائے جاتے تھے۔ چنانچہ یہ پیشگوئی بھی بدستور اس سے لکھائی گئی اور اس وقت کئی آریوں

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 568

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 568

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/568/mode/1up

اورؔ اسی طرح ہم نے اپنے امر سے تیری طرف ایک روح نازل کی ہے تجھے معلوم نہ تھا کہ کتاب اور ایمان کسے کہتے ہیں پر ہم نے اس کو ایک نور بنایا ہے جس کو ہم چاہتے ہیں بذریعہ اس کے ہدایت دیتے ہیں اور بہ تحقیق سیدھے راستہ کی طرف تو ہدایت دیتا ہے۔

دفتر بن جائے گا صرف چند لطیفہ بطور نمونہ بیان کئے جاتے ہیں۔ اول یہ لطیفہ ہے کہ خدائے تعالیٰ نے اس سورۃ فاتحہ میں دعا کرنے کا ایسا طریقہ حسنہ بتلایا ہے جس سے خوب تر طریقہ پیدا ہونا ممکن نہیں اور جس میں وہ تمام امور جمعؔ ہیں جو دعا میں دلی جوش پیدا کرنے کے لئے نہایت ضروری ہیں۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ قبولیت دعا کے لئے ضرور ہے کہ اُس میں ایک جوش ہو کیونکہ جس دعا میں جوش نہ ہو وہ صرف لفظی بڑبڑ ہے حقیقی دعا نہیں مگر یہ بھی ظاہر ہے کہ دعا میں جوش پیدا ہونا ہریک وقت انسان کے اختیار میں نہیں بلکہ انسان کے لئے اشد ضرورت ہے کہ دعا کرنے کے وقت جو امور دلی جوش کے محرّک ہیں وہ اس کے خیال میں حاضر ہوں اور یہ بات ہریک عاقل پر روشن ہے کہ دلی جوش پیدا کرنے والی صرف دو ہی چیزیں ہیں ایک خدا کو

کو بھی خبر دی گئی۔ اور ابھی پانچ روز نہیں گزرے تھے جو پینتالیس روپیہ کا منی آرڈر جہلم سے آگیا اور جب حساب کیا گیا تو ٹھیک ٹھیک اسی دن منی آرڈر روانہ ہوا تھا جس دن خداوند عالم الغیب نے اس کے روانہ ہونے کی خبر دی تھی۔ اور یہ پیشگوئی بھی اسی طور پر ظہور میں آئی جس سے بہ تمام تر انکشاف مخالفینؔ پر اس کی صداقت کھل گئی اور اس کے قبول کرنے سے کچھ چارہ نہ رہا کیونکہ ان کو اپنی ذاتی واقفیت سے بخوبی معلوم تھا کہ اس روپیہ کا اس مہینہ میں جہلم سے روانہ ہونا بے نشان محض تھا جس سے پہلے کوئی اطلاعی خط نہیں آیا تھا۔ فالحمد للّٰہ علٰی ذالک۔

ازانجملہ ایک یہ ہے کہ کچھ عرصہ ہوا ہے کہ خواب میں دیکھا تھا کہ حیدرآباد سے نواب اقبال الدولہ صاحب کی طرف سے خط آیا ہے اور اُس میں کسی قدر روپیہ دینے کا وعدہ

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 569

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 569

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/569/mode/1up

اورؔ اس سے پہلے تو کسی کتاب کو نہیں پڑھتا تھا اور نہ اپنے ہاتھ سے لکھتا تھا تا باطل پرستوں کو شک کرنے کی کوئی وجہ بھی ہوتی بلکہ وہ آیات بینات ہیں جو اہل علم لوگوں کے سینوں میں ہیں اور ان سے انکار وہی لوگ کرتے ہیں جو ظالم ہیں۔

کامل اور قادر اور جامع صفات کاملہ خیال کرکے اس کی رحمتوں اور کرموں کو ابتدا سے انتہا تک اپنے وجود اور بقا کے لئے ضروری دیکھنا اور تمام فیوض کا مبدء اسی کو خیال کرنا۔ دوسرے اپنے تئیں اور اپنے تمام ہم جنسوں کو عاجزؔ اور مفلس اور خدا کی مدد کا محتاج یقین کرنا یہی دو امر ہیں جن سے دعاؤں میں جوش پیدا ہوتا ہے اور جو جوش دلانے کے لئے کامل ذریعہ ہیں وجہ یہ کہ انسان کی دعا میں تب ہی جوش پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ اپنے تئیں سراسر ضعیف اور ناتوان اور مدد الٰہی کا محتاج دیکھتا ہے اور خدا کی نسبت نہایت قوی اعتقاد سے یہ یقین رکھتا ہے کہ وہ بغایت درجہ کامل القدرت اور رب العالمین اور رحمان اور رحیم اور مالک امر مجازات ہے اور جو کچھ انسانی حاجتیں ہیں سب کا پورا کرنا اسی کے ہاتھ میں ہے سو سورۃ فاتحہ کے ابتدا میں

لکھا ہے یہ خواب بھی بدستور روزنامہ مذکورہ بالا میں اسی ہندو کے ہاتھ سے لکھائی گئی اور کئی آریوں کو اطلاع دی گئی۔ پھر تھوڑے دنوں کے بعد حیدرآباد سے خط آگیا اور نواب صاحب موصوف نے سو روپیہ بھیجا۔فالحمد للّٰہ علٰی ذالک۔

ازانجملہ ایک یہ ہے کہ ایک دوست نے بڑی مشکل کے وقت لکھا کہ اس کا ایک عزیز کسی سنگین مقدمہ میں ماخوذ ہے اور کوئی صورت نجاؔ ت کی نظر نہیں آتی اور کوئی سبیل رہائی کی دکھائی نہیں دیتی۔ سو اس دوست نے یہ پُردرد ماجرا لکھ کر دعا کے لئے درخواست کی۔ چونکہ اس کی بھلائی مقدر تھی اور تقدیر معلق تھی اس لئے اسی رات وقت صافی میسر آگیا جو ایک مدت تک میسر نہیں آیا تھا دعا کی گئی اور وقت صافی قبولیت کی امید دیتا تھا چنانچہ قبولیت کے آثار سے ایک آریہ کو اطلاع دی گئی۔

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 570

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 570

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/570/mode/1up

انؔ تمام آیات سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمّی ہونا بکمال وضاحت ثابت ہوتا ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ اگر آنحضرت فی الحقیقت اُمّی اور ناخواندہ نہ ہوتے۔ تو بہت سے لوگ اس دعویٰ اُمیّت کی تکذیب کرنے والے پیدا ہوجاتے کیونکہ آنحضرت نے کسی ایسے ملک میں یہ دعویٰ نہیں کیا تھا کہ جس ملک کے لوگوں کو آنحضرت کے حالات

جو اللہ تعالیٰ کی نسبت بیان فرمایا گیا ہے کہ وہی ایک ذات ہے کہ جو تمام محامدِ کاملہ سے متصف اور تمام خوبیوں کی جامع ہے اور وہی ایک ذات ہے جو تمام عالموں کی رب اور تمام رحمتوں کا چشمہ اور سب کو ان کے عملوں کا بدلہ دینے والی ہے پس ان صفات کے بیان کرنے سے اللہ تعالیٰ نے بخوبی ظاہر فرمادیا کہ سبؔ قدرت اسی کے ہاتھ میں ہے اور ہریک فیض اسی کی طرف سے ہے اور اپنی اس قدر عظمت بیان کی کہ دنیا اور آخرت کے کاموں کا قاضی الحاجات اور ہریک چیز کا علت العلل اور ہریک فیض کا مبدء اپنی ذات کو ٹھہرایا جس میں یہ بھی اشارہ فرما دیا ہے کہ اس کی ذات کے بغیر اور اس کی رحمت کے بدوں کسی زندہ کی زندگی اور آرام اور راحت ممکن نہیں اور پھر بندہ کو

پھر چند روز کے بعد خبر ملی کہ مدعی ایک ناگہانی موت سے مرگیا اور اس طرح پر شخص ماخوذ نے خلاصی پائی۔ فالحمد للّٰہ علٰی ذالک۔

ماسوا اس کے کبھی کبھی دوسری زبان میں الہام ہونا جس سے یہ خاکسار ناآشنا محض ہے اور پھر وہ الہام کسی پیشگوئی پر مشتمل ہونا عجائباتِ غریبہ میں سے ہے جو قادر مطلق کی وسیع قدرتوں پر دلالت کرتا ہے۔ اگرچہ ؔ بیگانہ زبان کے تمام الفاظ محفوظ نہیں رہتے اور اُن کے تلفظ میں بعض وقت بباعث سرعت ورود الہام اور ناآشنائی لہجہ و زبان کچھ فرق آجاتا ہے مگر اکثر صاف صاف اور غیر ثقیل فقرات میں کم فرق آتا ہے اور یہ بھی ہوتا ہے کہ جلدی جلدی القا ہونے کی وجہ سے بعض الفاظ یادداشت سے باہر رہ جاتے ہیں لیکن جب کسی فقرہ کا لقا مکررسہ کرر ہو تو پھر وہ الفاظ اچھی طرح سے یاد رہتے ہیں۔ الہام کے وقت میں قادر مطلق اپنے اُس تصرف بحث سے کام کرتا ہے جس میں اسبابِ اندرونی یا بیرونی کی کچھ آمیزش نہیں ہوتی اُس وقت

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 571

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 571

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/571/mode/1up

اور واقعات سے بے خبر اور ناواقف قرار دے سکیں بلکہ وہ تمام لوگ ایسے تھے جن میں آنحضرت نے ابتداء عمر سے نشوونما پایا تھا اور ایک حصۂ کلاں عمرؔ اپنی کا ان کی مخالطت اور مصاحبت میں بسر کیا تھا پس اگر فی الواقعہ جناب ممدوح اُمّی نہ ہوتے تو ممکن نہ تھا کہ اپنے اُمّی ہونے کا ان لوگوں کے سامنے نام بھی لے سکتے

تذلل کی تعلیم دی اور فرمایا اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ اس کے یہ معنے ہیں کہ اے مبدء تمام فیوض ہم تیری ہی پرستش کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں یعنی ہم عاجز ہیں آپ سے کچھ بھی نہیں کرسکتے جب تک تیری توفیق اور تائید شامل حال نہ ہو پس خدائے تعالیٰ نے دعا میں جوش دلانے کے لئے دو محرّک بیان فرمائے ایک اپنی عظمت اور رحمتِ شاملہ دوسرے بندوں کا عاجز اور ذلیل ہونا۔ اب جاننا چاہئے کہ یہی دو محرک ہیں جن کا دعا کے وقتؔ خیال میں لانا دعا کرنے والوں کے لئے نہایت ضروری ہے جو لوگ دعا کی کیفیت سے کسی قدر چاشنی حاصل رکھتے ہیں انہیں خوب معلوم ہے کہ بغیر پیش ہونے ان دونوں محرکوں کے دعا ہوہی نہیں سکتی اور بجز ان کے آتش شوق الٰہی دعا میں اپنے شعلوں کو بلند نہیں کرتے یہ بات نہایت ظاہر ہے

زبان خدا کے ہاتھ میں ایک آلہ ہوتا ہے جس طرح اور جس طرف چاہتا ہے اس آلہ کو یعنی زبان کو پھیرتا ہے اور اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ الفاظ زور کے ساتھ اور ایک جلدی سے نکلتے آتے ہیں اور کبھی ایسا بھیؔ ہوتا ہے کہ جیسے کوئی لطف اور ناز سے قدم رکھتا ہے اور ایک قدم پر ٹھہر کر پھر دوسرا قدم اٹھاتا ہے اور چلنے میں اپنی خوش وضع دکھلاتا ہے اور ان دونوں اندازوں کے اختیار کرنے میں حکمت یہ ہے کہ تا رباّنی الہام کو نفسانی اور شیطانی خیالات سے امتیاز کلی حاصل رہے اور خداوندِ مطلق کا الہام اپنی جلالی اور جمالی برکت سے فی الفور شناخت کیا جائے۔ ایک دفعہ کی حالت یاد آئی ہے کہ انگریزی میں اول یہ الہام ہوا۔ آئی لو یو یعنی میں تم سے محبت رکھتا ہوں۔ پھر یہ الہام ہوا۔ آئی ایم ود یو یعنی میں تمہارے ساتھ ہوں پھر الہام ہوا۔ آئی شیل ہیلپ یو یعنی میں تمہاری مدد کروں گا۔ پھر الہام ہوا

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 572

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 572

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/572/mode/1up

جن پر کوئی حال ان کا پوشیدہ نہ تھا اور جو ہر وقت اس گھات میں لگے ہوئے تھے کہ کوئی خلاف گوئی ثابت کریں اور اُس کو مُشتہر کردیں۔ جن کا عناد اس درجہ تک پہنچ چکا تھا کہ اگر بس چل سکتا تو کچھ جھوٹ موٹ سے ہی ثبوت بنا کر پیش کردیتے اور اسی جہت سے ان کو ان کی ہریک بدظنی پر ایسا مسکت جواب دیا جاتا تھا کہ وہ ساکتؔ اور لاجواب رہ جاتے تھے مثلاً جب مکہ کے بعض

کہ جو شخص خدا کی عظمت اور رحمت اور قدرت کاملہ کو یاد نہیں رکھتا وہ کسی طرح سے خدا کی طرف رجوع نہیں کرسکتا اور جو شخص اپنی عاجزی اور درماندگی اور مسکینی کا اقراری نہیں اس کی روح اس مولیٰ کریم کی طرف ہرگز جھک نہیں سکتی۔ غرض یہ ایسی صداقت ہے جس کے سمجھنے کے لئے کوئی عمیق فلسفہ درکار نہیں بلکہ جب خدا کی عظمت اور اپنی ذلت اور عاجزی متحقق طور پر دل میں متنقّش ہو تو وہ حالت خاصہ خود انسان کو سمجھا دیتی ہے کہ خالص دعا کرنے کا وہی ذریعہ ہے سچے پرستار خوب سمجھتے ہیں کہ حقیقت میں انہیں دو چیزوں کا تصورؔ دعا کے لئے ضروری ہے یعنی اول اس بات کا تصور کہ خدائے تعالیٰ ہریک قسم کی ربوبیت اور پرورش اور رحمت اور بدلہ دینے پر قادر ہے اور اس کی یہ صفات کاملہ ہمیشہ اپنے کام میں لگی ہوئی ہیں۔

آئی کین ویٹ آئی ول ڈو۔ یعنی میں کرسکتا ہوں جو چاہوں گا۔ پھر بعد اس کے بہت ہی زور سے جس سے بدن کانپ گیا یہ الہامؔ ہوا۔ وی کین ویٹ وی ول ڈو۔ یعنی ہم کرسکتے ہیں۔ جو چاہیں گے اور اس وقت ایک ایسا لہجہ اور تلفظ معلوم ہوا کہ گویا ایک انگریز ہے جو سر پر کھڑا ہوا بول رہا ہے اور باوجود پُر دہشت ہونے کے پھر اس میں ایک لذت تھی جس سے روح کو معنے معلوم کرنے سے پہلے ہی ایک تسلی اور تشفّی ملتی تھی اور یہ انگریزی زبان کا الہام اکثر ہوتا رہا ہے۔ ایک دفعہ ایک طالب العلم انگریزی خوان ملنے کو آیا اس کے روبرو ہی یہ الہام ہوا۔ دس از مائی اینیمی یعنی یہ میرا دشمن ہے اگرچہ معلوم ہوگیا تھا کہ یہ الہام اسی کی نسبت ہے مگر اسی سے یہ معنی بھی دریافت

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 573

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 573

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/573/mode/1up

نادانوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ قرآن کی توحید ہمیں پسند نہیں آتی کوئی ایسا قرآن لاؤ جس میں بتوں کی تعظیم اور پرستش کا ذکر ہو یا اسی میں کچھ تبدّل تغیّر کرکے بجائے توحید کے شرک بھر دو تب ہم قبول کرلیں گے اور ایمان لے آئیں گے۔ تو خدا نے ان کے سوال کا جواب اپنے نبی کو وہ تعلیم کیا جو آنحضرت کے واقعات عمری پر نظر کرنے سے پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ ہے:۔

دوسرے اس بات کا تصور کہ انسان بغیر توفیق اور تائید الٰہی کے کسی چیز کو حاصل نہیں کرسکتا۔ اور بلاشبہ یہ دونوں تصور ایسے ہیں کہ جب دعا کرنے کے وقت دل میں جم جاتے ہیں تو یکایک انسان کی حالت کو ایسا تبدیل کردیتے ہیں کہ ایک متکبر ان سے متاثر ہو کر روتا ہوا زمین پر گر پڑتا ہے اور ایک گردن کش سخت دل کے آنسو جاری ہوجاتے ہیں۔ یہیَ کل ہے جس سے ایک غافل مردہ میں جان پڑجاتی ہے۔ انہیں دو باتوں کے تصور سے ہریک دل دعا کرنے کی طرف کھینچا جاتا ہے۔ غرض یہی وہ روحانی وسیلہ ہے جس سے انسان کی روح روبخدا ہوتی ہے اور اپنی کمزوری اور امداد ربّانی پر نظر پڑتی ہے اسی کے ذریعہ سے انسان ایک ایسے عالم بے خودی میں پہنچ جاتا ہے جہاں اپنی مکدّر ہستی کا نشان باقی نہیں رہتا اور صرف ایک ذات عظمیٰ کا جلال چمکتا ہوا نظر آتا ہے اور وہی ذات رحمتِ کُل اور ہریک ہستی کا ستون اور ہریک درد کا چارہ اور ہریک فیض کا مبدء دکھائی دیتی ہے آخر اس سے ایک صورت فنافی اللہ کیؔ ظہور پذیر ہوجاتی ہے جس کے ظہور سے نہ انسان مخلوق کی طرف مائل رہتا ہے نہ اپنے نفس کی طرف نہ اپنے ارادہ کی طرف اور بالکل خدا کی محبت میں کھویا جاتا ہے اور اُس ہستی

کئے گئے اور آخر وہ ایسا ہی آدمی نکلا اور اس کے باطن میں طرح طرح کے خبث پائے گئے۔ ایک دفعہ صبح ؔ کے وقت بہ نظر کشفی چند ورق چھپے ہوئے دکھائے گئے کہ جو ڈاک خانہ سے آئے ہیں اور اخیر پر ان کے لکھا تھا۔ آئی ایم بائی عیسیٰ یعنی میں عیسیٰ کے ساتھ ہوں۔ چنانچہ وہ مضمون کسی انگریزی خوان سے دریافت کرکے دو ہندو

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 574

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 574

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/574/mode/1up

وہ ؔ لوگ جو ہماری ملاقات سے ناامید ہیں یعنی ہماری طرف سے بکلی علاقہ توڑ چکے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کے برخلاف کوئی اور قرآن لا جس کی تعلیم اس کی تعلیم سے مغایر اور منافی ہو یا اسی میں تبدیل کر ان کو جواب دے کہ مجھے یہ قدرت نہیں اور نہ روا ہے کہ میں خدا کے کلام میں اپنی طرف سے کچھ تبدیل کروں۔ میں تو صرف اُس وحی کا تابع ہوں جو میرے پر نازل ہوتی ہے

حقیقی کی شہود سے اپنی اور دوسری مخلوق چیزوں کی ہستی کالعدم معلوم ہوتی ہے اس حالت کا نام خدا نے صراط مستقیم رکھا ہے جس کی طلب کے لئے بندہ کو تعلیم فرمایا اور کہا اِھْدِنَا الصِّرَاطَالْمُسْتَقِیْمَ یعنی وہ راستہ فنا اور توحید اور محبت الٰہی کا جو آیاتِ مذکور ۂبالا سے مفہوم ہورہا ہے وہ ہمیں عطا فرما اور اپنے غیر سے بکُلّی منقطع کر۔ خلاصہ یہ کہ خدائے تعالیٰ نے دعا میں جوش پیدا کرنے کے لئے وہ اسباب حقہ انسان کو عطا فرمائے کہ جو اس قدر دلی جوش پیدا کرتے ہیں کہ دعا کرنے والے کو خودی کے عالم سے بے خودی اور نیستی کے عالم میں پہنچا دیتے ہیں۔ اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ بات ہرگز نہیں کہ سورۃ فاتحہ دعا کے کئی طریقوں میں سے ہدایت مانگنے کا ایک طریقہ ہے بلکہ جیسا کہ دلائل مذکورۂ بالا سے ثابت ہوچکا ہے درحقیقت صرف یہی ایک طریقہ ہے جس پر جوش دل سے دعا کا صادر ہونا موقوف ہے اور جس پر طبیعت انسانی بمقتضا اپنے فطرتی تقاضا ؔ کے چلنا چاہتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جیسے خدا نے دوسرے امور میں قواعد مقررّہ ٹھہرا رکھے ہیں ایسا ہی دعا کے لئے بھی ایک قاعدہ خاص ہے اور وہ قاعدہ وہی محرّک ہیں جو سورۃ فاتحہ میں لکھے گئے ہیں اور

آریہ کو بتلایا گیا جس سے یہ سمجھا گیا تھا کہ کوئی شخص عیسائی یا عیسائیوں کی طرز پر دینِ اسلام کی نسبت کچھ اعتراض چھپوا کر بھیجے گا چنانچہ اُسی روز ایک آریہ کو ڈاک آنے کے وقت ڈاک خانہ میں بھیجا گیا تو وہ چند چھپے ہوئے ورق لایا جس میں عیسائیوں کی طرز پر ایک صاحب خام خیال نے اعتراضات لکھے تھے۔ ایک دفعہ کسی امر میں جو دریافت طلب تھا خواب میں ایک درم نقرہ جو بشکل بادامی تھا اس عاجز کے ہاتھؔ میں دیا

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 575

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 575

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/575/mode/1up

اورؔ اپنے خداوند کی نافرمانی سے ڈرتا ہوں اگر خدا چاہتا تو میں تم کو یہ کلام نہ سناتا اور خدا تم کو اس پر مطلع بھی نہ کرتا پہلے اس سے اتنی عمر یعنی چالیس برس تک تم میں ہی رہتا رہا ہوں پھر کیا تم کو عقل نہیں یعنی کیا تم کو بخوبی معلوم نہیں کہ افترا کرنا میرا کام نہیں اور جھوٹ بولنا میری عادت میں نہیں اور پھر آگے فرمایا کہ اس شخص سے زیادہ تر اور کون ظالم ہوگا جو خدا پر افترا باندھے یا خدا کے کلام کو کہے کہ یہ انسان کا افترا ہے بلاشبہ مجرم نجات نہیں پائیں گے۔

ممکن نہیں کہ جب تک وہ دونوں محرک کسی کے خیال میں نہ ہوں تب تک اس کی دعا میں جوش پیدا ہوسکے۔ سو طبعی راستہ دعا مانگنے کا وہی ہے جو سورۃ فاتحہ میں ذکر ہوچکا ہے۔ پس سورہ ممدوحہ کے لطائف میں سے یہ ایک نہایت عمدہ لطیفہ ہے کہ دعا کو معہ محرکات اس کے کے بیان کیا ہے فتدبّر۔

پھر ایک دوسرا لطیفہ اس سورۃ میں یہ ہے کہ ہدایت کے قبول کرنے کے لئے پورے پورے اسباب ترغیب بیان فرمائے ہیں کیونکہ ترغیب کامل جو معقول طور پر دی جائے ایک زبردست کشش ہے اور حصر عقلی کے رو سے ترغیب کامل اس ترغیب کا نام ہے جس میں تین جُزیں موجود ہوں۔ ایک یہ کہ جس شے کی طرف ترغیب دینا منظور ہو اس کی ذاتی خوبی بیان کی جائے سو اس خبر کو اس آیت میں بیان فرمایا ہے۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ یعنی ہم کو وہ راستہ بتلا جو اپنی ذات میں صفتِ استقامت

گیا۔ اس میں دو سطریں تھیں۔ اول سطر میں یہ انگریزی فقرہ لکھا تھا۔ یس آئی ایم ہیپی اور دوسری سطر جو خط فارق ڈال کر نیچے لکھی ہوئی تھی وہ اسی پہلی سطر کا ترجمہ تھا یعنی یہ لکھا تھا کہ ہاں میں خوش ہوں۔ ایک دفعہ کچھ حزن اور غم کے دن آنے والے تھے کہ ایک کاغذ پر بہ نظر کشفی یہ فقرہ انگریزی میں لکھا ہوا دکھایا گیا۔ لائف آف پین یعنی زندگی دکھ کی۔ ایک دفعہ بعض مخالفوں کے بارہ میں جنہوں نے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 576

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 576

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/576/mode/1up

غرض ؔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمّی ہونا عربوں اور عیسائیوں اور یہودیوں کی نظر میں ایسا بدیہی اور یقینی امر تھا کہ اس کے انکار میں کچھ دم نہیں مار سکتے تھے بلکہ اسی جہت سے وہ توریت کے اکثر قصے جو کسی خواندہ آدمی پر مخفی نہیں رہ سکتے بطور امتحان نبوت آنحضرت پوچھتے تھے اور پھر جواب صحیح اور درست پاکر ان فاش غلطیوں سے مبرا دیکھ کر جو توریت کے قصوں میں پڑ گئے ہیں وہ لوگ جو ان میں راسخ فی العلم تھے بصدق دلی ایمان لے آتے تھے جن کا ذکر قرآن شریف میں اس طرح پر درج ہے:۔

اور راستی سے موصوف ہے جسؔ میں ذرا کجی نہیں سو اس آیت میں ذاتی خوبی اس راستہ کی بیان فرما کر اس کے حصول کے لئے ترغیب دی۔ دوسری جز ترغیب کی یہ ہے کہ جس شے کی طرف ترغیب دینا منظور ہو اس شے کے فوائد بیان کئے جائیں۔ سو اس جز کو اس آیت میں بیان فرمایا۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ یعنی اس راستہ پر ہم کو چلا جس پر چلنے سے پہلے سالکوں پر انعام اور کرم ہوچکا ہے۔ سو اس آیت میں راستہ چلنے والوں کا کامیاب ہونا ذکر فرما کر اس راستہ کا شوق دلایا۔ تیسری جُز ترغیب کی یہ ہے کہ جس شے کی طرف ترغیب دینا منظور ہو اس شے کے چھوڑنے والوں کی خرابی اور بدحالی بیان کی جائے۔ سو اس جز کو اس آیت میں بیان فرمایا غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَاالضَّآلِّیْنَ۔ یعنی ان لوگوں کی راہوں سے بچا جنہوں نے صراط مستقیم کو چھوڑا اور دوسری راہیں اختیار کیں اور غضب الٰہی میں پڑے اور گمراہ ہوئے سو اس آیت میں اس سیدھا راستہ چھوڑنے پر جو ضرر مترتب ہوتا ہے اس سے آگاہ کیا۔ غرض سورۃ فاتحہ میں ترغیب کی

عنادؔ دلی سے خواہ نخواہ قرآن شریف کی توہین کی تھی اور عداوت ذاتی سے جس کا کچھ چارہ نہیں دین متین اسلام پر بے جا اعتراضات اور بیہودہ تعرّضات کئے تھے یہ دو فقرے انگریزی میں الہام ہوئے۔ َ گوڈ از کمنگ بائی ہز آرمی۔ ہی از ود یو ٹو کل اینیمی یعنی خدائے تعالیٰ دلائل اور براہین کا لشکر لے کر چلا آتا ہے وہ دشمن کو

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 577

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 577

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/577/mode/1up

سبؔ فرقوں میں سے مسلمانوں کی طرف زیادہ تر رغبت کرنے والے عیسائی ہیں کیونکہ ان میں بعض بعض اہلِ علم اور راہب بھی ہیں جو تکبر نہیں کرتے اور جب خدا کے کلام کو جو اُس کے رسول پر نازل ہوا سنتے ہیں تبُ تو دیکھتا ہے کہ اُن کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں اس وجہ سے کہ وہ حقّانیّت کلام الٰہی کو پہچان جانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدایا ہم ایمان لائے ہم کو اُن لوگوں میں لکھ لے جو تیرے دین کی سچائی کے گواہ ہیں اور کیوں ہم خدا اور خدا کے سچے کلام پر ایمان نہ لاویں۔ حالانکہ ہماری آرزو ہے کہ خدا ہم کو ان بندوں میں داخل کرے جو نیکوکار ہیں۔

تینوں جزوں کو لطیف طور پر بیان کیا۔ ذاتی خوبی بھی بیان کی۔ فوائد بھی بیان کئے اور پھر اس راہ کے چھوڑنے والوں کی ناکامی اور بدحالی بھی بیانؔ فرمائی تا ذاتی خوبی کو سن کر طبائع سلیمہ اُس کی طرف میل کریں اور فوائد پر اطلاع پاکر جو لوگ فوائد کے خواہاں ہیں ان کے دلوں میں شوق پیدا ہو اور ترک کرنے کی خرابیاں معلوم کرکے اس وبال سے ڈریں جو کہ ترک کرنے پر عائد حال ہوگا۔ پس یہ بھی ایک کامل لطیفہ ہے جس کا التزام اس صورت میں کیا گیا۔ پھر تیسرا لطیفہ اس سورۃ میں یہ ہے کہ باوجود التزام فصاحت و بلاغت یہ کمال دکھلایا ہے کہ محامد الٰہیہ کے ذکر کرنے کے بعد جو فقرات دعا وغیرہ کے بارہ میں لکھے ہیں۔ ان کو ایسے عمدہ طور پر بطور لف و نشر مرتب کے بیان کیا ہے جس کا صفائی سے بیان کرنا باوجود رعایت تمام مدارج

مغلوب اور ہلاک کرنے کے لئے تمہارے ساتھ ہے اسی طرح اور بھی بہت ؔ سے فقرات تھے جن میں سے کچھ تو یاد ہیں اور کچھ بھول گئے۔ لیکن سب سے زیادہ عربی زبان میں الہام ہوتا ہے۔ خصوصاً آیاتِ فرقانیہ میں بکثرت اور بتواتر ہوتا ہے۔ چنانچہ کسی قدر عربی الہامات جو بعض عظیم الشان پیشگوئیوں اور احساناتِ الٰہیہ پر مشتمل ہیں ذیل میں معہ ترجمہ لکھے جاتے ہیں تاکہ اگر خدا چاہے تو طالب صادق کو ان سے فائدہ ہو

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 578

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 578

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/578/mode/1up

جوؔ لوگ عیسائیوں اور یہودیوں میں سے صاحب علم ہیں جب ان پر قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجدہ کرتے ہوئے ٹھوڑیوں پر گر پڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا خدا تخلّفِ وعدہ سے پاک ہے ایک دن ہمارے خداوند کا وعدہ پورا ہونا ہی تھا اور روتے ہوئے مونہہ پر گر پڑتے ہیں اور خدا کا کلام اُن میں فروتنی اور عاجزی کو بڑھاتا ہو۔

پس یہ تو ان لوگوں کا حال تھا جو عیسائیوں اور یہودیوں میں اہل علم اور صاحب انصاف تھے کہ جب وہ ایک طرف آنحضرت کی حالت پر نظر ڈال کر دیکھتے تھے کہ محض اُمّی ہیں کہ تربیت اور تعلیم کا ایک نقطہ بھی نہیں سیکھا اور نہ کسی مہذّب قوم

فصاحت و بلاغت کے بہت مشکل ہوتا ہے اور جو لوگ سخنؔ میں صاحب مذاق ہیں وہ خوب سمجھتے ہیں کہ اس قسم کے لف و نشر کیسا نازک اور دقیق کام ہے۔ اِس کی تفصیل یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ نے اوّل محامدِ الٰہیہ میں فیوض اربعہ کا ذکر فرمایا کہ وہ رب العالمین۱ ہے۔ رحمان۲ ہے۔ رحیم۳ ہے۔ مالک۴ یوم الدین ہے۔ اور پھر بعد اس کے فقرات تعبد اور استعانت اور دعا اور طلب جزا کو انہیں کے ذیل میں اس لطافت سے لکھا ہے کہ جس فقرہ کو کسی قسم فیض سے نہایت مناسبت تھی اُسی کے نیچے وہ فقرہ درج کیا۔ چنانچہ رَبُّ الْعَالَمِیْن کے مقابلہ پر اِیَّاکَ نَعْبُدُ لکھا۔ کیونکہ ربوبیت سے استحقاق عبادت شروع ہوجاتا ہے پس اسی کے نیچے اور اسی کے محاذات میں اِیَّاکَ نَعْبُدُ

اور تا مخالفوں کو بھی معلوم ہو کہ جس قوم پر خداوند کریم کی نظر عنایت ہوتی ہے اور جو لوگ راہ ؔ راست پر ہوتے ہیں ان سے کیونکر خداوند کریم اپنے مکالمات اور مخاطبات میں بہ مہربانی پیش آتا ہے اور کیونکر ان تفضّلات سے پیش از وقوع اطلاع دیتا ہے جن کو اس نے لطف محض سے اپنے وقتوں پر طیار رکھا ہے اور وہ الہامات یہ ہیں:۔

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 579

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 579

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/579/mode/1up

میں بودوباش رہی اور نہ مجالسِ علمیہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اورؔ دوسری طرف وہ قرآن شریف میں صرف پہلی کتابوں کے قصے نہیں بلکہ صدہا باریک صداقتیں دیکھتے تھے جو پہلی کتابوں کی مکمل اور متمم تھیں تو آنحضرت کی حالت اُمیّت کو سوچنے سے اور پھر اس تاریکی کے زمانہ میں ان کمالات علمیہ کو دیکھنے سے نیز انوار ظاہری و باطنی کے مشاہدہ سے نبوت آنحضرت ؐ کی ان کو اظہر من الشّمس معلوم ہوتی تھی اور ظاہر ہے کہ اگر ان مسیحی فاضلوں کو آنحضرت کے اُمّی اور مؤیّد من اللہ ہونے پر یقین کامل نہ ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ وہ ایک ایسے دین سے جس کی حمایت میں ایک بڑی سلطنت قیصر روم کی قائم تھی اور جو نہ صرف ایشیا میں بلکہ بعض حصوں یورپ میں بھی پھیل چکا تھا اور بوجہ اپنی مشرکانہ تعلیم کے دنیا پرستوں کو عزیز اور پیارا معلوم ہوتا تھا صرف شک اور شبہ کی حالت میں الگ ہوکر ایسے مذہب کو

کا لکھنا نہایت موزون اور مناسب ہے اور رحمان کے مقابلہ پر اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ لکھا۔ کیونکہ بندہ کے لئے اعانت الٰہی جو توفیق عبادت اور ہریک اس کے مطلوب میں ہوتیؔ ہے جس پر اس کی دنیا اور آخرت کی صلاحیت موقوف ہے یہ اس کے کسی عمل کا پاداش نہیں بلکہ محض صفت رحمانیت کا اثر ہے۔ پس استعانت کو صفت رحمانیت سے بشدّت مناسبت ہے۔ اور رحیم کے مقابلہ پر اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ لکھا کیونکہ دعا ایک مجاہدہ اور کوشش ہے اور کوششوں پر جو ثمرہ مُترتّب ہوتا ہے وہ صفت رحیمیت کا اثر ہے۔ اور مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کے مقابلہ پر صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ

بورکت یا احمد وکان ما بارک اللہ فیک حقًّا فیک۔ اے احمد تو مبارک کیا گیا اور خدا نے جو ؔ تجھ میں برکت رکھی ہے وہ حقانی طور پر رکھی ہے۔ شانک عجیب و اجرک قریب۔ تیری شان عجیب ہے اور تیرا بدلہ نزدیک ہے۔ انی راض منک۔ انی رافعک الی الارض والسماء معک کما ھو معی۔ میں تجھ سے راضی ہوں میں تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔ زمین اور آسمان تیرے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 580

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 580

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/580/mode/1up

قبول کرلیتے جو بباعث تعلیم توحید کے تمام مشرکین کو ُ برا معلوم ہوتا تھا اور اُس کے قبول کرنے والے ہر وقت چاروں طرف سے معرض ہلاکت اورؔ بلا میں تھے پس جس چیز نے ان کے دلوں کو اسلام کی طرف پھیرا وہ یہی بات تھی جو انہوں نے آنحضرتؐ کو محض اُمّی اور سراپا مؤیّد من اللہ پایا اور قرآن شریف کو بشری طاقتوں سے بالاتر دیکھا اور پہلی کتابوں میں اس آخری نبی کے آنے کے لئے خود بشارتیں پڑھتے تھے سو خدا نے ان کے سینوں کو ایمان لانے کے لئے کھول دیا۔ اور ایسے ایماندار نکلے جو خدا کی راہ میں اپنے خونوں کو بہایا اور جو لوگ عیسائیوں اور یہودیوں اور عربوں میں سے نہایت درجہ کے جاہل اور شریر اور

عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَاالضَّآلِّیْنَلکھا۔ کیونکہ امر مجازات مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کے متعلق ہے۔ سو ایسا فقرہ جس میں طلب انعام اور عذاب سے بچنے کی درخواست ہے اسی کے نیچے رکھنا موزوں ہے۔

چوتھا لطیفہ یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ مجمل طور پر تمام مقاصد قرآن شریف پر مشتمل ہے گویا یہ سورۃ مقاصدؔ قرآنیہ کا ایک ایجاز لطیف ہے۔ اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے 3 3۔ ۱؂ یعنی ہم نے تجھے اے رسول سات آیتیں سورۃ فاتحہ کی عطا کی ہیں جو مجمل طور پر تمام مقاصد قرآنیہ پر مشتمل ہیں اور ان کے مقابلہ پر قرآن عظیم بھی عطا فرمایا ہے جو مفصّل طور پر مقاصد دینیہ کو ظاہر کرتا ہے اور اسی جہت سے اس سورۃ کا نام

ساتھ ہیں جیسے وہ میرے ساتھ ہیں۔ ھو کا ضمیر واحد بتاویل مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ہے اور ان کلمات کا حاصل مطلب تلطّفات اورؔ برکاتِ الٰہیہ ہیں جو حضرت خیر الرسل کی متابعت کی برکت سے ہریک کامل مومن کے شامل حال ہوجاتی ہیں اور حقیقی طور پر مصداق ان سب عنایات کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور دوسرے سب طفیلی ہیں۔ اور اس بات کو ہر جگہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہریک مدح و ثنا جو کسی مومن کے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 581

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 581

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/581/mode/1up

بدباطن تھے ان کے حالات پر بھی نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی بہ یقینِ کامل آنحضرت کو اُمّی جانتے تھے اور اسی لئے جب وہ بائیبل کے بعض قصے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو بطور امتحان نبوّت پوچھ کر ان کا ٹھیک ٹھیک جواب پاتے تھے تو یہ بات ان کو زبان پر لانے کی مجال نہ تھی کہ آنحضرت کچھ پڑھے لکھے ہیںؔ ۔ آپ ہی کتابوں کو دیکھ کر جواب بتلا دیتے ہیں بلکہ جیسے کوئی لاجواب رہ کر اور گھسیانا بن کر کچے عذر پیش کرتا ہے ایسا ہی نہایت ندامت سے یہ کہتے تھے کہ شاید در پردہ کسی

اُمّ الکتاب اور سورۃ الجامع ہے۔ اُمّ الکتاب اس جہت سے کہ جمیع مقاصد قرآنیہ اُس سے مستخرج ہوتے ہیں۔ اور سورۃ الجامع اس جہت سے کہ علوم قرآنیہ کے جمیع انواع پر بصورت اجمالی مشتمل ہے اسی جہت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ جس نے سورۃ فاتحہ کو پڑھا گویا اس نے سارے قرآن کو پڑھ لیا۔ غرض قرآن شریف اور احادیث نبوی سے ثابت ہے کہ ؔ سورۃ فاتحہ ممدوحہ ایک آئینہ قرآن نما ہے۔ اس کی تصریح یہ ہے کہ قرآن شریف کے مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ وہ تمام محامد کاملہ باری تعالیٰ کو بیان کرتا ہے اور اُس کی ذات کے لئے جو کمال تام حاصل ہے اس کو بوضاحت بیان فرماتا ہے۔ سو یہ مقصد اَلْحَمْدُ لِلّٰہ میں بطور اجمال آگیا۔ کیونکہ اُس کے یہ معنے ہیں کہ تمام محامد کاملہ اللہ کے لئے ثابت ہیں جو مستجمع جمیع کمالات اور مستحق

الہامات میں کی جائے وہ حقیقی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح ہوتی ہے اور وہ مومن بقدر اپنی متابعت کے اس مدح سے حصہ حاصل کرتا ہے۔ اور ؔ وہ بھی محض خدائے تعالیٰ کے لطف اور احسان سے نہ کسی اپنی لیاقت اور خوبی سے۔ پھر بعد اس کے فرمایا انت وجیہ فی حضرتی اخترتک لنفسی۔ تو میری درگاہ میں وجیہ ہے میں نے تجھے اپنے لئے اختیار کیا۔ انت منی بمنزلۃ توحیدی و تفریدی فحان ان تعان و تعرف بین الناس۔ تو مجھ سے ایسا ہے جیسا میری توحید اور تفرید سو وہ وقت آگیا جو تیری مدد کی جائے اور تجھ کو لوگوں میں معروف و مشہور کیا

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 582

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 582

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/582/mode/1up

عیسائی یا یہودی عالم بائیبل نے یہ قصے بتلا دیئے ہوں گے۔ پس ظاہر ہے اگر آنحضرت کا اُمّی ہونا ان کے دلوں میں بہ یقین کامل متمکن نہ ہوتا تو اسی بات کے ثابت کرنے کے لئے نہایت کوشش کرتے کہ آنحضرت اُمّی نہیں ہیں فلاں مکتب یا مدرسہ میں انہوں نے تعلیم پائی ہے۔ واہیات باتیں کرنا جن سے اُن کی حماقت ثابت ہوتی تھی کیا ضرور تھا۔ کیونکہ یہ الزام لگانا کہ بعض عالم یہودی اور عیسائی درپردہ آنحضرت کے رفیق اور معاون ہیں بدیہی البطلان تھا۔ اس وجہ سے کہ قرآن تو جابجا اہلِ کتاب کی وحی کو ناقص اور اُن کی کتابوں کو محرّف اور مبدّل اور ان کے عقائد کو فاسد اور باطل اور خود ان کو بشرطیکہ بے ایمان مریں ملعون اور جہنمی بتلاتا ہے۔ اورؔ اُن کے اصولِ مصنوعہ کو دلائل قویّہ سے توڑتا ہے تو پھر کس طرح

جمیع عبادات ہے۔ دوسرا مقصد قرآن شریف کا یہ ہے کہ وہ خدا کا صانع کامل ہونا اور خالق العالمین ہونا ظاہر کرتا ہے اور عالم کے ابتدا کا حال بیان فرماتا ہے اور جو دائرہ عالم میں داخلؔ ہوچکا اس کو مخلوق ٹھہراتا ہے اور ان امور کے جو لوگ مخالف ہیں انکا کذب ثابت کرتا ہے۔ سو یہ مقصد رَبُّ الْعٰلَمِیْن میں بطور اجمال آگیا۔ تیسرا مقصد قرآن شریف کا خدا کا فیضان بلا استحقاق ثابت کرنا اور اُس کی رحمتِ عامہ کا بیان کرنا ہے۔ سو یہ مقصد لفظ رحمان میں بطور اجمال آگیا۔ چوتھا مقصد قرآن شریف کا

کیا انسان پر یعنی تجھ پر وہ وقت نہیں گزرا کہ تیرا دنیا میں کچھ بھی ذکر و تذکرہ نہ تھا۔ یعنی تجھ کو کوئی نہیں جانتا تھا کہ تو کون ہے اور کیا چیز ہے اور کسی شمار و حساب میں نہ تھا۔ یعنیؔ کچھ بھی نہ تھا۔ یہ گزشتہ تلطّفات و احسانات کا حوالہ ہے تا محسن حقیقی کے آئندہ فضلوں کے لئے ایک نمونہ ٹھہرے۔ سبحان اللّٰہ تبارک اللّٰہ تبارک و تعالٰی زاد مجدک۔ ینقطع ابائک و یبدء منک۔ سب پاکیاں خدا کے لئے ہیں جو نہایت برکت والا اور عالی ذات ہے اس نے تیرے مجد کو زیادہ کیا۔ تیرے آباء کا نام اور ذکر منقطع ہوجائے گا۔ یعنی بطور مستقل ان کا

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 583

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 583

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/583/mode/1up

ممکن تھا کہ وہ لوگ قرآن شریف سے اپنے مذہب کی آپ ہی مذمّت کرواتے۔ اور اپنی کتابوں کا آپ ہی ردّ لکھاتے اور اپنے مذہب کی بیخ کنی کے آپ ہی موجب بن جاتے پس یہ سست اور نادرست باتیں اس لئے دنیا پرستوں کو بکنی پڑیں کہ اُن کو عاقلانہ طور پر قدم مارنے کا کسی طرف راستہ نظر نہیں آتا تھا اور آفتاب صداقت کا ایسی پرزور روشنی سے اپنی کرنیں چاروں طرف چھوڑ رہا تھا کہ وہ اس سے چمگادڑ کی طرح چُھپتے پھرتے تھے اور کسی ایک بات پر ان کو ہرگز ثبات و قیام نہ تھا بلکہ تعصّب اور شدّت عناد نے ان کو سودائیوں اور پاگلوں کی طرح بنا رکھا تھا۔ پہلے تو قرآن کے قصوں کو سن کر جن میں بنی اسرائیل کے پیغمبروں کا ذکر تھا اس وہم میں پڑے کہ شاید ایک شخص اہل کتاب میں سے پوشیدہ طور پر یہ قصے سکھاتا ہوگا جیسا اُن کا یہ مقولہ قرآن شریف میںؔ درج ہے۔ 3۔ ۱؂سورۃ النحل الجزو نمبر ۱۴ ۔

خدا کا وہ فیضان ثابت کرنا ہے جو محنت اور کوشش پر مترتب ہوتا ہے۔ سو یہ مقصد لفظ رَحِیْم میں آگیا۔ پانچواں مقصد قرآن شریف کا عالم معاد کی حقیقت بیان کرنا ہے۔ سو یہ مقصد مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن میں آگیا۔ چھٹا مقصد قرآنؔ شریف کا اخلاص اور عبودیت اور تزکیہ نفس عن غیر اللہ اور علاج امراض روحانی اور اصلاح اخلاق ردیہ اور توحید فی العبادت کا بیان کرنا ہے۔ سو یہ مقصد اِیَّاکَ نَعْبُدُ میں بطور اجمال آگیا۔ ساتواں مقصد قرآن شریف کا ہریک کام میں فاعل حقیقی خدا کو ٹھہرانا اور تمام توفیق اور

نام نہیں رہے گا۔ اور خدا تجھ سے ابتدا شرف اور مجد کا کرے گا۔ نصرت بالرعب واحییت بالصدق ایھا الصدیق۔ نصرت وقالوا لات حین مناص۔ تو رعب کے ساتھ مدد کیا گیا اور صدق کے ساتھ زندہ کیا گیا۔ اے صدیق تو مدد کیا گیا۔ اور مخالفوں نے کہا ؔ کہ اب گریز کی جگہ نہیں یعنی امداد الٰہی اس حد تک پہنچ جائے گی کہ مخالفوں کے دل ٹوٹ جائیں گے اور ان کے دلوں پر یاس مستولی ہوجائے گی اور حق آشکارا ہوجائے گا۔ وما کان اللہ لیترکک حتی یمیز الخبیث

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 584

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 584

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/584/mode/1up

اور پھر جب دیکھا کہ قرآن شریف میں صرف قصے ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے حقائق ہیں تو پھر یہ دوسری رائے ظاہر کی 3۔ ۱؂ سورۃ الفرقان الجزو نمبر ۱۸۔ یعنی ایک بڑی جماعت نے متفق ہوکر قرآن شریف کو تالیف کیا ہے ایک آدمی کا کام نہیں۔ پھر جب قرآن شریف میں ان کو یہ جواب دیا گیا کہ اگر قرآن کو کسی جماعت علماء فضلاء اور شعرا نے اکٹھے ہوکر بنایا ہے تو تم بھی کسی ایسی جماعت سے مدد لے کر قرآن کی نظیر بنا کر دکھلاؤ تا تمہارا سچا ہونا ثابت ہو تو پھر لاجواب ہوکر اس رائے کو بھی جانے دیا اور ایک تیسری رائے ظاہر کی اور وہ یہ کہ قرآن کو جِنّات کی مدد سے بنایا ہے یہ آدمی کا کام نہیں پھر خدا نے اس کا جواب بھی ایسا دیا کہ جس کے سامنے وہ چون و چرا کرنے سے عاجز ہوگئے جیسا فرمایا ہے۔

لطف اور نصرت اور ثبات علی الطاعت اور عصمت عن العصیان اور حصول جمیع اسباب خیر اور صلاحیت دنیا و دین اسی کی طرف اسے قرار دینا اور ان تمام امور میں اسی سے مدد چاہنے کے لئے تاکید کرنا سو یہ مقصد اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن میں بطور اجمال آگیا۔ آٹھواں مقصد قرآن ؔ شریف کا صراط مستقیم کے دقائق کو بیان کرنا ہے اور پھر اس کی طلب کے لئے تاکید کرنا کہ دعا اور تضرّع سے اس کو طلب کریں سو یہ مقصد اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْممیں بطور اجمال کے آگیا۔ نواں مقصد قرآن شریف کا

من الطیب۔ اور خدا ایسا نہیں ہے جو تجھے چھوڑ دے جب تک وہ خبیث اور طیب میں صریح فرق نہ کرلے۔3۔ اور خدا اپنے امر پر غالب ہے مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔ اذا جاء نصر اللہ والفتح و تمت کلمۃ ربک ھذا الذی کنتم بہ تستعجلون۔ جب مدد اور فتح الٰہی آئے گی اور تیرے رب کی

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 585

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 585

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/585/mode/1up

یعنیؔ قرآن ہریک قسم کے امور غیبیہ پر مشتمل ہے اور اس قدر بتلانا جنات کا کام نہیں۔ ان کو کہہ دے کہ اگر تمام جن متفق ہوجائیں اور ساتھ ہی بنی آدم بھی اتفاق کرلیں اور سب مل کر یہ چاہیں کہ مثل اس قرآن کے کوئی اور قرآن بنادیں تو ان کے لئے ہرگز ممکن نہیں ہوگا اگرچہ ایک دوسرے کے مددگار بن جائیں۔

اُن لوگوں کا طریق و خلق بیان کرنا ہے جن پر خدا کا انعام و فضل ہوا تا طالبین حق کے دل جمعیت پکڑیں سو یہ مقصد صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ میں آگیا۔ دسواں ۱۰مقصد قرآن شریف کا ان لوگوں کا خلق و طریق بیان کرنا ہے جن پر خدا کا غضب ہوا۔ یا جو راستہ بھول کر انواع اقسام کی بدعتوں میں پڑگئے۔ تا حق کے طالب ان کی راہوں سے ڈریں۔ سو یہ مقصد غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّآلِّیْن میں بطور اجمال آگیا ہے یہ مقاصد عشرہ ہیں جو قرآن شریف میں مندرج ہیں جو تمام صداقتوں کا اصل الاصول ہیں۔ سو یہ تمام مقاصد سورۂ فاتحہ میں بطور اجمال آگئے۔

بات پوری ہوجائے گی تو کفّار اس خطاب کے لائق ٹھہریں گے کہ یہ وہی بات ہے جس کے لئے تم جلدی کرتے تھے۔ اردت ان ؔ استخلف فخلقت اٰدم انی جاعل فی الارض۔ یعنی میں نے اپنی طرف سے خلیفہ کرنے کا ارادہ کیا۔ سو میں نے آدم کو پیدا کیا۔ میں زمین پر کرنے والا ہوں یہ اختصاری کلمہ ہے یعنی اس کو قائم کرنے والا ہوں۔ اس جگہ خلیفہ کے لفظ سے ایسا شخص مراد ہے کہ جو ارشاد اور ہدایت کے لئے بین اللہ و بین الخلق واسطہ ہو۔ خلافت ظاہری کہ جو سلطنت اور حکمرانی پر اطلاق پاتی ہے مراد نہیں ہے اور نہ وہ بجز قریش کے کسی دوسرے کے لئے خدا کی طرف سے شریعت اسلام میں مسلم ہوسکتی ہے بلکہ یہ محض روحانی مراتب اور روحانی نیابت کا ذکر ہے اور آدم کے لفظ سے بھی وہ آدم جو ابوالبشر ہے مرادؔ نہیں بلکہ ایسا شخص مراد ہے جس سے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 586

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 586

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/586/mode/1up

پھر جب ان بدبختوں پر اپنے تمام خیالات کا جھوٹ ہونا کھل گیا اور کوئی بات بنتی نظر نہ آئی تو آخرکار کمال بے حیائی سے کمینہ لوگوں کی طرح اس بات پر آگئے کہ ہر طرح پر اس تعلیم کو شائع ہونے سے روکنا چاہئے جیسا اس کا ذکر قرآن شریف میں فرمایا ہے:۔

ی کافروں نے یہ کہا کہ اس قرآن کو مت سنو۔ اور جب تمہارے سامنے پڑھا جاوے توتم شور ڈال دیاکرو۔ تا شاید اسی طرح غالب آجاؤ۔ اور بعضوں نے عیسائیوں اور یہودیوں میں سے یہ کہا کہ یوں کرو کہ اول صبح کے وقت جاکر قرآن پر ایمان لے آؤ۔ پھر شام کو اپنا ہی دین اختیار کرلو۔ تاشاید اس طور سے لوگ شک میں پڑجائیں اوردینِ اسلام کوچھوڑ دیں۔

پانچواںؔ لطیفہ سورۃ فاتحہ میں یہ ہے کہ وہ اس اتم اور اکمل تعلیم پر مشتمل ہے کہ جو طالب حق کے لئے ضروری ہے۔ اور جو ترقیات قربت اور معرفت کے لئے کامل دستور العمل ہے۔ کیونکہ ترقیات قُربت کا شروع اس نقطہ سیر سے ہے کہ جب سالک اپنے نفس پر ایک موت قبول کرکے اور سختی اور آزار کشی کو روا رکھ کر

سلسلۂ ارشاد اور ہدایت کا قائم ہوکر روحانی پیدائش کی بنیاد ڈالی جائے گویا وہ روحانی زندگی کے رو سے حق کے طالبوں کا باپ ہے۔ اور یہ ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے جس میں روحانی سلسلہ کے قائم ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ایسے وقت میں جبکہ اس سلسلہ کا نام و نشان نہیں۔ پھر بعد اس کے اس روحانی آدم کا روحانی مرتبہ بیان فرمایا اور کہا۔ 33۔۳؂ جب یہ آیت شریفہ جو قرآن شریف کی آیت ہے الہام ہوئی تو اس کے معنے کی تشخیص اور تعیین میں تامّل تھا۔ اور اسی تامّل میں کچھ خفیف سی خواب آگئی اور اس خواب میں اس کے معنے حل کئے گئے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ دنوّ سے مراد قربِ الٰہی ہے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 587

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 587

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/587/mode/1up

کیا توؔ نے دیکھا نہیں کہ یہ عیسائی اور یہودی جنہوں نے انجیل اور تورات کوکچھ ادھورا سا پڑھ لیا ہے ایمان ان کا دیوتوں اور بُتوں پر ہے اور مشرکوں کو کہتے ہیں کہ ان کا مذہب جو بُت پرستی ہے وہ بہت اچھا ہے اور توحید کا مذہب جو مسلمان رکھتے ہیں یہ کچھ نہیں یہ وہی لوگ ہیں جن پر خدا نے لعنت کی ہے اور جس پر خدا لعنت کرے اس کے لئے کوئی مددگار نہیں۔

اُنؔ تمام نفسانی خواہشوں سے خالصاً للہ دست کش ہوجائے کہ جو اس میں اور اس کے مولیٰ کریم میں جدائی ڈالتے ہیں اور اس کے مونہہ کو خدا کی طرف سے پھیر کر اپنی نفسانی لذّات اور جذبات اور عادات اور خیالات اور ارادات اور نیز مخلوق کی طرف پھیرتے ہیں اور اُن کے خوفوں اور امیدوں میں گرفتار کرتے ہیں اور ترقیات کا اوسط درجہ

اور قرب کسی حرکت مکانی کا نام نہیں بلکہ اس وقت انسان کو مقرب الٰہی بولا جاتا ہے کہ جب وہ ارادہ اور نفس اور خلق اور تمام اضداد اور اغیار سے بکلّی الگ ہوکر طاعت اور محبت الٰہی میں سراپا محو ہوجاوے اور ہریک ماسوا اللہ سے پوری دوری حاصل کرلیوے اور محبت الٰہی کے دریا میں ایسا ڈوبے کہ کچھ اثر وجود اور انانیّت کا باقی نہ رہے۔ اور جب تک اپنی ہستی کے لوث سے مبرّا نہیں اور بقا باللہ کے پیرایہ سے متحلی نہیں تب تک اس قرب کی لیاقت نہیں رکھتا۔ اور بقا باللہ کا مرتبہ تب حاصل ہوتا ہے کہ جب خدا کی محبت ہی انسان کی غذا ہوجائے اور ایسی حالت ہوجائے کہ بغیر اس کی یاد کے جی ہی نہیں سکتا اور اس کے غیر کا دلؔ میں سمانا موت کی طرح دکھائی دے اور صریح مشہود ہو کہ وہ اسی کے ساتھ جیتا ہے اور ایسا خدا کی طرف کھینچا جاوے جو دل اس کا ہر وقت یاد الٰہی میں مستغرق اور اس کے درد سے دردمند رہے۔ اور ماسوا سے اس قدر نفرت پیدا ہوجائے کہ گویا غیر اللہ سے اس کی عداوت ذاتی ہے جن کی طرف میل کرنے سے بالطبع دکھ اٹھاتا ہے۔ جب یہ حالت متحقق ہوگی تو دل جو مورد انوار الٰہی ہے خوب صاف ہوگا اور اسماء اور صفات الٰہی کا اُس میں

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 588

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 588

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/588/mode/1up

ابؔ خلاصہ اس تقریر کا یہ ہے کہ اگر آنحضرت اُمّی نہ ہوتے تو مخالفین اسلام بالخصوص یہودی اور عیسائی جن کو علاوہ اعتقادی مخالفت کے یہ بھی حسد اور بغض دامنگیر تھا کہ بنی اسرائیل میں سے رسول نہیں آیا بلکہ ان کے بھائیوں میں سے جو بنی اسماعیل ہیں آیا وہ کیونکر ایک صریح امر خلاف واقعہ پاکر خاموش رہتے

وہؔ ہے کہ جو جو ابتدائی درجہ میں نفس کشی کے لئے تکالیف اٹھائی جاتی ہیں اور حالت معتادہ کو چھوڑ کر طرح طرح کے دکھ سہنے پڑتے ہیں وہ سب آلام صورت انعام میں ظاہر ہوجائیں اور بجائے مشقّت کے لذّت اور بجائے رنج کے راحت اور بجائے تنگی کے انشراح اور بشاشت نمودار ہو۔ اور ترقیات کا اعلیٰ درجہ وہ ہے

انعکاس ہوکر ایک دوسرا کمال جو تدلّی ہے عارف کے لئے پیش آئے گا۔ اور تدلّی سے مراد وہ ہبوط اور نزول ہے کہ جب انسان تخلق باخلاق اللہ حاصل کرکے اس ذات رحمان و رحیم کی طرح شفقتًا علی العباد عالم خلق کی طرف رجوع کرے۔ اور چونکہ کمالات دنو کے کمالات تدلی سے لازم ملزوم ہیں۔ پس تدلی اسی قدر ہوگی جس قدر دنو ہے۔ اور دنو کی کمالیت اس میں ہے کہ اسماء اور صفات الٰہی کے عکوس کا سالک کے قلب میں ظہور ہو۔ اور محبوب حقیقی بے شائبہ ظلیت اور بے تواہم حالیت و محلیّت اپنے تمام صفات کاملہ کے ساتھ اس میں ظہور فرمائے اور یہی استخلاف کی حقیقت اور روح اللہ کی نفخ کی ماہیت ہے اور یہی تخلق باخلاق اللہ کی اصل بنیاد ہے۔ اور جبکہ تدلی کی حقیقت کو تخلق باخلاق اللہ لازم ہو اور کمالیت فی التخلّق اس بات کو چاہتی ہے کہ شفقت علی العباد اور ان کے لئے بمقام نصیحت کھڑے ہونا اور ان کی بھلائی کے لئے بدل و جان مصروف ہوجانا اس حد ؔ تک پہنچ جائے جس پر زیادہ متصور نہیں اس لئے واصل تام کو مجمع الاضداد ہونا پڑا کہ وہ کامل طور پر رو بخدا بھی ہو اور پھر کامل طور پر رو بخلق بھی پس وہ ان دونوں قوسوں الوہیت و انسانیت میں ایک وتر کی طرح

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 589

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 589

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/589/mode/1up

بلاشبہ ان پر یہ بات بکمال درجہ ثابت ہوچکی تھی کہ جو کچھ آنحضرت کے مونہہ سے نکلتا ہے وہ کسی اُمی اور ناخواندہ کا کام نہیں اور نہ دس بیس آدمیوں کا کام ہے تب ہی تو وہ اپنی جہالت سے 3۔ ۱؂ کہتے تھے اور جو اُن میں سے دانا اور واقعی اہل علم تھے وہ بخوبی معلوم کرچکے تھے کہ قرآن انسانی طاقتوں سے باہر ہے

کہ ؔ سالک اس قدر خدا اور اس کے ارادوں اور خواہشوں سے اتحاد اور محبت اور یک جہتی پیدا کرلے کہ اس کا تمام اپنا عین و اثر جاتا رہے۔ اور ذات اور صفات الٰہیہ بلا شائبہ ظلمت اور بلا توہم حالیّت و محلیّت اس کے وجود آئینہ صفت میں منعکس ہوجائیں۔ اور

واقعہ ہے جو دونوں سے تعلق کامل رکھتا ہے۔ اب خلاصہ کلام یہ کہ وصول کامل کے لئے دنوّ اور تدلّی دونوں لازم ہیں دنوّ اس قرب تام کا نام ہے کہ جب کامل تزکیہ کے ذریعہ سے انسان کامل سیر الی اللہ سے سیر فی اللہ کے ساتھ متحقّق ہوجائے اور اپنی ہستی ناچیز سے بالکل ناپدید ہوکر اور غرق دریائے بیچون و بیچگون ہوکر ایک جدید ہستی پیدا کرے جس میں بیگانگی اور دوئی اور جہل اور نادانی نہیں ہے اور صبغتہ اللہ کے پاک رنگ سے کامل رنگینی میسر ہے اور تدلّی انسان کی اس حالت کا نام ہے کہ جب وہ تخلّق باخلاق اللہ کے بعد ربّانی شفقتوں اور رحمتوں سے رنگین ہوکر خدا کے بندوں کی طرف اصلاح اور فائدہ رسانی کے لئے رجوع کرے۔ پس جاننا چاہئے کہ اس جگہ ایک ہی دل میں ایک ہی حالت اور نیّت کے ساتھ دو قسم کا رجوع پایا گیا۔ ایک خدائے تعالیٰ کی طرف جو وجود قدیم ہے اور ایک اس کے بندوں کی طرف جو وجود محدث ہے۔ اور دونوں قسم کا وجود یعنی قدیم اور حادث ایک دائرہ کی طرح ہے جس کی طرف اعلیٰ وجوب اور طرف اسفل امکان ہے۔ اب اس دائرہ کے درمیان میں انسان کامل بوجہ دنوّ اور تدلی کی دونوں طرف سے اتصال محکم کرکے یوں مثالی طور پر صورت پیدا کرلیتا ہے۔ جیسے ایک وترؔ دائرہ کے دو قوسوں میں ہوتا ہے یعنی حق اور خلق میں واسطہ ٹھہر جاتا ہے پہلے اس کو دنوّ اور قربِ الٰہی

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 590

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 590

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/590/mode/1up

اور اُن پر یقین کا دروازہ ایسا کھل گیا تھا کہ ان کے حق میں خدا نے فرمایا 3 ۱؂ یعنی اس نبی کو ایسا شناخت کرتے ہیں کہ جیسا اپنے بیٹوں کو شناخت کرتے ہیں اور حقیقت میں یہ دروازہ یقین اور معرفت کا کچھ ان کے لئے ہی نہیں کھلا بلکہ اس زمانہ میں بھی سب کے لئے کھلا ہے کیونکہ

فنااتم کے آئینہ کے ذریعہ سے جس نے سالک میں اور اس کی نفسانی خواہشوں میں ؔ غایت درجہ کا بُعد ڈال دیا ہے انعکاس ربّانی ذات اور صفات کا نہایت صفائی سے دکھائی دے۔ اس تقریر میں کوئی ایسا لفظ نہیں ہے جس میں وجودیوں یا

کی خلعتِ خاص عطا کی جاتی ہے اور قرب کے اعلیٰ مقام تک صعود کرتا ہے اور پھر خلقت کی طرف اس کو لایا جاتا ہے۔ پس اس کا وہ صعود اور نزول دو قوس کی صورت میں ظاہر ہوجاتا ہے اور نفس جامع التعلقین انسان کامل کا ان دونوں قوسوں میں قاب قوسین کی طرح ہوتا ہے اور قاب عرب کے محاورہ میں کمان کے چلہ پر اطلاق پاتا ہے۔ پس آیت کے بطور تحت اللفظ یہ معنے ہوئے کہ نزدیک ہوا یعنی خدا سے ، پھر اترا یعنی خلقت پر پس اپنے اس صعود اور نزول کی وجہ سے دو قوسوں کے لئے ایک ہی وتر ہوگیا۔ اور چونکہ اس کا رُو بخلق ہونا چشمہ صافیہ تخلّق باخلاق اللہ ہے اس لئے اس کی توجہ بمخلوق توجہ بخالق کے عین ہے یا یوں سمجھو کہ چونکہ مالک حقیقی اپنی غایت شفقت علی العباد کی وجہ سے اس قدر بندوں کی طرف رجوع رکھتا ہے کہ گویا وہ بندوں کے پاس ہی خیمہ زن ہے۔ پس جبکہ سالک سیر الی اللہ کرتا کرتا اپنی کمال سیر کو پہنچ گیا تو جہاں خدا تھا وہیں اس کو لَوٹ کر آنا پڑا۔ پس اس وجہ سے کمال دنوّ یعنی قرب تام اس کی تدلی یعنی ہبوط کا موجب ہوگیا۔ یحی الدین و یقیم الشریعۃ۔ زندہ کرے گا دین کو اور قائم کرے گا شریعت کو۔ یا اٰدم اسکن انت و زوجک الجنۃ۔ یا مریم اسکن انت و زوجک الجنۃ۔ یا احمد اسکن انت و زوجک

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 591

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 591

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/591/mode/1up

قرآن شریف کی حقّانیّت معلوم کرنے کے لئےؔ اب بھی وہی معجزات قرآنیہ اور وہی تاثیرات فرقانیہ اور وہی تائیدات غیبی اور وہی آیات لاریبی موجود ہیں جو اُس زمانہ میں موجود تھی خدا نے اس دین قویم کو قائم رکھنا تھا اِس لئے اِس کی سب برکات اور سب آیات قائم رکھیں اور عیسائیوں اور یہودیوں اور ہندوؤں کے ادیان ُ محرفہ

وید انتیوں کے باطل خیال کی تائید ہو۔ کیونکہ انہوں نے خالق اور مخلوق میں جو ابدی امتیاز ہے شناخت نہیں کیا۔ اور اپنے کشوفِ مشتبہ کے دھوکہ سے کہ جو سلوک ناتمام کیؔ حالت میں اکثر پیش آجاتے ہیں یا جو سودا انگیز ریاضتوں کا ایک نتیجہ ہوتا ہے سخت

الجنۃ۔ نفخت فیک من لدنی روح الصدق۔ اے آدم اے مریم اے احمد تو اور جو شخص تیرا تابع اور رفیق ہے جنت میں یعنی نجات حقیقی ؔ کے وسائل میں داخل ہوجاؤ۔ میں نے اپنی طرف سے سچائی کی روح تجھ میں پھونک دی ہے۔ اس آیت میں بھی روحانی آدم کا وجہ تسمیہ بیان کیا گیا یعنی جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش بلا توسط اسباب ہے ایسا ہی روحانی آدم میں بلاتوسط اسباب ظاہر یہ نفخ روح ہوتا ہے اور یہ نفخ روح حقیقی طور پر انبیاء علیھم السلام سے خاص ہے اور پھر بطور تبیعت اور وراثت کے بعض افرادِ خاصہ امت محمدیہ کو یہ نعمت عطا کی جاتی ہے اور ان کلمات میں بھی جس قدر پیشگوئیاں ہیں وہ ظاہر ہیں۔ پھر بعد اس کے فرمایا۔ نصرت وقالوا لات حین مناص۔ تو مدد دیا گیا۔ اور انہوں نے کہا کہ اب کوئی گریز کی جگہ نہیں۔ ان الذین کفروا وَ صدوا عن سبیل اللّٰہ رد علیھم رجل من فارس شکر اللّٰہ سعیہ۔ جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور خدا تعالیٰ کی راہ کے مزاحم ہوئے ان کا ایک مرد فارسی الاصل نے رد لکھا ہے۔ اس کی سعی کا خدا شاکر ہے۔ کتاب الولی ذوالفقار علی۔ ولی کی کتاب علی کی تلوار کی طرح ہے یعنی مخالف کو نیست و نابود کرنے والی ہے۔ اور جیسے علی کی تلوار نے بڑے بڑے خطرناک معرکوں میں نمایاں کار دکھلائے تھے ایسا ہی یہ بھی دکھلائے گی۔ اور یہ بھی ایک پیشگوئی ہے کہ جو

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 592

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 592

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/592/mode/1up

اور باطلہ اور ناقصہ کا استیصال منظور تھا اس جہت سے انکے ہاتھ صرف قصے ہی قصے رہ گئے اور برکت حقّانیّت اور تائیداتِ سماویہ کا نام و نشان نہ رہا۔ ان کی کتابیں ایسے نشان بتلا رہی ہیں جن کے ثبوت کا ایک ذراؔ نشان اُن کے ہاتھ میں نہیں صرف گزشتہ قصوں کا حوالہ دیا جاتا ہے مگر قرآنِ شریف ایسے نشان پیش کرتا ہے جن کو ہریک شخص دیکھ سکتا ہے۔

مغالطات کے بیچ میں پڑگئے یا کسی نے سکر اور بے خودی کی حالت میں جو ایک قسم کا جنون ہے اس فرق کو نظر سے ساقط کردیا کہ جو خدا کی روح اور انسان کی روح میں باعتبار طاقتوں اور قوتوں اور کمالات اور تقدسات کے ہے ورنہ ظاہر ہے

کتاب کی تاثیرات عظیمہ اور برکات عمیمہ پر دلالت کرتی ہے۔ پھر بعد اس کے فرمایا ولو کان الایمان معلقا بالثریا لنالہ۔ اگر ایمان ثریا سے لٹکتا ہوتا یعنی زمین سے بالکل اٹھ جاتا تب بھی شخض مقدم الذکر اس کو پالیتا۔ یکاد زیتہ یضیء ولو ؔ لم تمسسہ نار۔ عنقریب ہے کہ اس کا تیل خودبخود روشن ہوجائے اگرچہ آگ اس کو چھو بھی نہ جائے۔ ام یقولون نحن جمیع منتصر سیھزم الجمع و یولون الدبر۔ وان یروا ایۃ یعرضوا ویقولوا سحر مستمر واستیقنتھا انفسم وقالوا لات حین مناص فبما رحمۃ من اللہ لنت علیھم ولو کنت فظا غلیظ القلب لا نفضوا من حولک۔ ولو ان قرانا سیرت بہ الجبال۔ کیا کہتے ہیں کہ ہم ایک قوی جماعت ہیں جو جواب دینے پر قادر ہیں۔ عنقریب یہ ساری جماعت بھاگ جائے گی اور پیٹھ پھیر لیں گے اور جب یہ لوگ کوئی نشان دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ ایک معمولی اور قدیمی سحر ہے حالانکہ ان کے دل ان نشانوں پر یقین کرگئے ہیں اور دلوں میں انہوں نے سمجھ لیا ہے کہ اب گریز کی جگہ نہیں اور یہ خدا کی رحمت ہے کہ تُو ان پر نرم ہوا اور اگر تُو سخت دل ہوتا تو یہ لوگ تیرے نزدیک نہ آتے اور تجھ سے الگ ہوجاتے۔ اگرچہ قرآنی معجزات ایسے دیکھتے جن سے پہاڑ جنبش میں آجاتے۔ یہ آیات ان بعض لوگوں کے حق میں بطور الہام القا ہوئیں جن کا ایسا ہی خیال اور حال تھا۔ اور شاید ایسے ہی اور لوگ بھی نکل آویں جو اس قسم کی باتیں کریں اور

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 593

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 593

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/593/mode/1up

تمھیدؔ ہشتم۔ جو امر خارق عادت کسی ولی سے صادر ہوتا ہے۔ وہ حقیقت میں اس متبوع کا معجزہ ہے جس کی وہ اُمّت ہے اور یہ بدیہی اور

کہ ؔ قادر مطلق کہ جس کے علم قدیم سے ایک ذرّہ مخفی نہیں اور جس کی طرف کوئی نقصان اور خسران عاید نہیں ہوسکتا اور جوہریک قسم کے جہل اور آلودگی اور ناتوانی اور غم اور حزن اور درد اور رنج اور گرفتاری سے پاک ہے وہ کیوں کر اس چیز کا عین ہوسکتا ہے کہ جو

بدرجۂ یقین کامل پہنچ کر پھر منکر رہیں۔ پھر بعد اس کے فرمایا۔ انا انزلناہ قریبا من القادیان۔ و بالحق انزلناہ و بالحق نزل۔ صدق اللہ و رسولہ وکان امر اللہ مفعولا۔ یعنی ہم نے ان نشانوں اور عجائبات کو اور نیز اس الہام پر ازمعارف و حقائق کو قادیان کے قریب اتارا ہے اور ضرورتِ حقّہ کے ساتھ اتارا ہے اور بضرورتِ حقہ اترا ہے۔ خدا اور اس کے رسول نے خبر دی تھی کہ جو اپنے وقت پر پوری ہوئی اور جو کچھ خدا نے چاہا تھا وہ ہونا ہی تھا۔ یہ آخری فقرات اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس شخص کے ظہور کے لئے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حدیث متذکرہ بالا میں اشارہ فرماچکے ہیں اور خدائے تعالیٰ اپنے کلام مقدس میں اشارہ فرما چکا ہے چنانچہ وہ اشارہ حصہ سوم کے الہامات میں درج ہوچکا ہے۔ اور فرقانی اشارہ اس آیت میں ہے۔ 3۔۱؂ یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیشگوئی ہے۔ اور جس غلبۂ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ سے ظہور میں آئے گا۔ اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اسؔ دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق اور اقطار میں پھیل جائے گا لیکن اس عاجز پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ خاکسار اپنی غربت اور انکسار اور توکل اور ایثار اور آیات اور انوار کے رو سے مسیح کی پہلی زندگی کا نمونہ ہے اور اس عاجز کی فطرت اور مسیح کی فطرت باہم نہایت ہی متشابہ واقع ہوئی ہے گویا ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے یا ایک ہی درخت کے دو پھل ہیں اور بحدی اتحاد ہے کہ نظر کشفی میں نہایت ہی باریک امتیاز ہے اور نیز ظاہری طور پر

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 594

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 594

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/594/mode/1up

ظاہر ہے کیونکہ جب کسی امر کا ظاہر ہونا کسیؔ شخص اور کسی خاص کتاب کی متابعت

اُن سب بلاؤں میں مبتلا ہے۔ کیا انسان جس ؔ کی روحانی ترقّیات کے لئے اس قدر حالات منتظرہ ہیں جن کا کوئی کنارہ نظر نہیں آتا۔ وہ اُس ذات صاحبِ کمالِ تامّ سے مشابہ یا اس کا عین ہوسکتا ہے جس کے لئے کوئی حالت منتظرہ باقی نہیں؟ کیا جس کی

بھی ایک مشابہت ہے اور وہ یوں کہ مسیح ایک کامل اور عظیم الشان نبی یعنی موسیٰ کا تابع اور خادم دین تھا اور اس کی انجیل توریت کی فرع ہے اور یہ عاجز بھی اس جلیل الشان نبی کے احقر خادمین میں سے ہے کہ جو سید الرسل اور سب رسولوں کا سرتاج ہے۔ اگر وہ حامد ہیں تو وہ احمد ہے۔ اور اگر وہ محمود ہیں تو وہ محمد ہے صلی اللہ علیہ وسلم۔ سو چونکہ اس عاجز کو حضرت مسیح سے مشابہت تامہ ہے اس لئے خداوند کریم نے مسیح کی پیشگوئی میں ابتدا سے اس عاجز کو بھی شریک کررکھا ہے یعنی حضرت مسیح پیشگوئی متذکرہ بالا کا ظاہری اور جسمانی طور پر مصداق ہے اور یہ عاجز روحانی اور معقولی طور پر اُس کا محل اور مورد ہے یعنی روحانی طور پر دین اسلام کا غلبہ جو حجج قاطعہ اور براہین ساطعہ پر موقوف ہے اس عاجز کے ذریعہ سے مقدر ہے۔ گو اس کی زندگی میں یا بعد وفات ہو اور اگرچہ دین اسلام اپنے دلائل حقہ کے رو سے قدیم سے غالب چلا آیا ہے اور ابتدا سے اس کے مخالف رسوا اور ذلیل ہوتے چلے آئے ہیں لیکن اس غلبہ کا مختلف فرقوں اور قوموں پر ظاہر ہونا ایک ایسے زمانہ کے آنے پر موقوف تھا کہ جو بباعث کھل جانے راہوں کے تمام دنیا کو ممالک متحدہ کی طرح بناتا ہو اور ایک ہی قوم کے حکم میں داخل کرتا ہواور تمام اسباب اشاعت تعلیم اور تمام وسائل اشاعتِ دین کے بتمام تر سہولت و آسانی پیش کرتا ہو اورؔ اندرونی اور بیرونی طور پر تعلیم حقانی کے لئے نہایت مناسب اور موزوں ہو سو اب وہی زمانہ ہے کیونکہ بباعث کھل جانے راستوں اور مطلع ہونے ایک قوم کے دوسری قوم سے اور ایک ملک کے دوسرے ملک سے سامان تبلیغ کا بوجہ احسن میسر آگیا ہے اور بوجہ انتظام ڈاک و ریل و تار و جہاز و وسائل متفرقہ اخبار وغیرہ کے دینی تالیفات کی اشاعت کے لئے بہت سی آسانیاں ہوگئی ہیں۔ غرض

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 595

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 595

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/595/mode/1up

سے وابستہ ہے اور بدون متابعت کے وہ ظہور میں آؔ ہی نہیں سکتا۔

ہستی فانی اور جس کی روح میں صریح مخلوقیت کے نقصان پائے جاتے ہیں۔ وہ باوجود اپنی تمام آلائشوں اورؔ کمزوریوں اور ناپاکیوں اور عیبوں اور نقصانوں کے اس ذاتِ جلیل الصفات سے برابر ہوسکتا ہے جو اپنی خوبیوں اور پاک صفتوں میں ازلی ابدی طور

بلاشبہ اب وہ وقت پہنچ گیا ہے کہ جس میں تمام دنیا ایک ہی ملک کا حکم پیدا کرتی جاتی ہے۔ اور بباعث شائع اور رائج ہونے کئی زبانوں کے تفہیم تفہم کے بہت سے ذریعے نکل آئے ہیں اور غیریّت اور اجنبیّت کی مشکلات سے بہت سی سبکدوشی ہوگئی ہے۔ اور بوجۂ میل ملاپ دائمی اور اختلاط شبا روزی کی وحشت اور نفرت بھی کہ جو بالطبع ایک قوم کو دوسری قوم سے تھی بہت سی گھٹ گئی ہے چنانچہ اب ہندو بھی جن کی دنیا ہمیشہ ہمالہ پہاڑ کے اندر ہی اندر تھی اور جن کو سمندر کا سفر کرنا مذہب سے خارج کردیتا تھا لنڈن اور امریکہ تک سیر کر آتے ہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ اس زمانہ میں ہریک ذریعہ اشاعت دین کا اپنی وسعت تامہ کو پہنچ گیا ہے اور گو دنیا پر بہت سی ظلمت اور تاریکی چھا رہی ہے مگر پھر بھی ضلالت کا دورہ اختتام پر پہنچا ہوا معلوم ہوتا ہے اور گمراہی کا کمال رو بزوال نظر آتا ہے کچھ خدا کی طرف سے ہی طبائع سلیمہ صراط مستقیم کی تلاش میں لگ گئے ہیں اور نیک اور پاکیزہ فطرتیں طریقہ حقہ کے مناسب حال ہوتی جاتی ہیں اور توحید کے قدرتی جوش نے مستعد دلوں کو وحدانیت کے چشمۂ صافی کی طرف مائل کردیا ہے اور مخلوق پرستی کی عمارت کا بودہ ہونا دانشمند لوگوں پر کھلتا جاتا ہے اور مصنوعی خدا پھر دوبارہ عقلمندوں کی نظر میں انسانیت کا جامہ پہنتے جاتے ہیں اور باایں ہمہ آسمانی مدد دین حق کی تائید کے لئے ایسے جوش میں ہے کہ وہ نشان اور خوارق جن کی سماعت سے عاجز اور ناقص بندے خدا بنائے گئے تھے اب وہ حضرت سید الرسل کے ادنیٰ خادموں اور چاکروں سے مشہود ؔ اور محسوس ہورہے ہیں اور جو پہلے زمانہ کے بعض نبی صرف اپنے حواریوں کو چھپ چھپ کر کچھ نشان دکھلاتے تھے۔ اب وہ نشان حضرت سید الرسل کے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 596

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 596

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/596/mode/1up

تو بہ بداہت ثابت ہے کہ اگرچہ وہ امر بظاہر صورت کسی تابع سے ظہور میں

پر اتم اور اکمل ہے۔ سُبْحَانَہ‘ وَ تَعَالٰی عَمَّا یَصِفُوْن۔ بلکہ اس تیسرے قسم کی ترقی سے ہمارا مطلب یہ ہے کہ سالک خدا کی محبت میں ایسا فانی اور مستہلک ہوجاتا ہے اور اس قدر ذات بے ؔ چون و بے چگون اپنی تمام صفاتِ

احقر توابع سے دشمنوں کے روبرو ظاہر ہوتے ہیں اور انہیں دشمنوں کی شہادتوں سے حقیت اسلام کا آفتاب تمام عالم کے لئے طلوع کرتا جاتا ہے۔ ماسوا اس کے یہ زمانہ اشاعت دین کے لئے ایسا مددگار ہے کہ جو امر پہلے زمانوں میں سو سال تک دنیا میں شائع نہیں ہوسکتا تھا۔ اب اس زمانہ میں وہ صرف ایک سال میں تمام ملکوں میں پھیل سکتا ہے۔ اس لئے اسلامی ہدایت اور ربانی نشانوں کا نقارہ بجانے کے لئے اس قدر اس زمانہ میں طاقت و قوت پائی جاتی ہے جو کسی زمانہ میں اس کی نظیر نہیں پائی جاتی۔ صدہا وسائل جیسے ریل و تار و اخبار وغیرہ اسی خدمت کے لئے ہروقت طیار ہیں کہ تا ایک ملک کے واقعات دوسرے ملک میں پہنچاویں۔ سو بلاشبہ معقولی اور روحانی طور پر دین اسلام کے دلائل حقیقت کا تمام دنیا میں پھیلنا ایسے ہی زمانہ پر موقوف تھا اور یہی باسامان زمانہ اس مہمان عزیز کی خدمت کرنے کے لئے من کل الوجوہ اسباب مہیا رکھتا ہے۔ پس خداوند تعالیٰ نے اس احقر عباد کو اس زمانہ میں پیدا کرکے اور صدہا نشان آسمانی اور خوارق غیبی اور معارف و حقائق مرحمت فرما کر اور صدہا دلائل عقلیہ قطعیہ پر علم بخش کر یہ ارادہ فرمایا ہے کہ تا تعلیماتِ حقّہ قرآنی کو ہر قوم اور ہر ملک میں شائع اور رائج فرماوے اور اپنی حجت ان پر پوری کرے۔ اور اسی ارادہ کی وجہ سے خداوند کریم نے اس عاجز کو یہ توفیق دی کہ اتماماً للحجۃ 3 دس ہزارروپیہ کا اشتہار کتاب کے ساتھ شامل کیا گیا اور دشمنوں اور مخالفوں کی شہادت سے آسمانی نشانی پیش کی گئی اور اُن کے معارضہ اور مقابلہ کے لئے تمام مخالفین کو مخاطب کیا گیا تا کوئی دقیقہ اتمام حجت کا باقی نہ رہے اور

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 597

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 597

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/597/mode/1up

آیا ہو۔ لیکنؔ درحقیقت مظہر اس امر کا نبی متبوع ہے جس کی متابعت سے ظہور

کاملہ کے ساتھ اُس سے قریب ہوجاتی ہے کہ الوہیت کے تجلیات اس کے نفسانی جذبات پر ایسے غالب آجاتے ہیں اور ایسے اس کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں جو اس کو اپنے نفسانی جذبات سے بلکہ ہریک سے جو نفسانی جذبات کا تابع ہو مغائرت کلی اور

ہریک مخالف اپنے مغلوب اور لاجواب ہونے کا آپ گواہ ہوجائے۔ غرض خداوند کریم نے جو اسباب اور وسائل اشاعت دین کے اور دلائل اَور براہین اتمام حجت کے محض اپنے فضل اور کرم سے اس عاجز کو عطا فرمائے ہیں وہ امم سابقہ میں سے آج تک کسی کو عطا نہیں فرمائے اور جو کچھ اس بارے میں توفیقات غیبیہ اس عاجز کو دیؔ گئی ہیں وہ ان میں سے کسی کو نہیں دی گئیں۔ وذالک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشآء۔ سو چونکہ خداوند کریم نے اسباب خاصہ سے اس عاجز کو مخصوص کیا ہے اور ایسے زمانہ میں اس خاکسار کو پیدا کیا ہے کہ جو اتمام خدمت تبلیغ کے لئے نہایت ہی معین و مددگار ہے۔ اس لئے اس نے اپنے تفضّلات و عنایات سے یہ خوشخبری بھی دی ہے کہ روز ازل سے یہی قرار یافتہ ہے کہ آیت کریمہ متذکرہ بالا اور نیز آیت وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ۱؂ کا روحانی طور پر مصداق یہ عاجز ہے اور خدائے تعالیٰ ان دلائل و براہین کو اور ان سب باتوں کو کہ جو اس عاجز نے مخالفوں کے لئے لکھی ہیں خود مخالفوں تک پہنچا دے گا اور ان کا عاجز اور لاجواب اور مغلوب ہونا دنیا میں ظاہر کرکے مفہوم آیت متذکرہ بالا کا پورا کردے گا۔ فالحمد للّٰہ علٰی ذلک۔

پھر بعد اس کے جو الہام ہے وہ یہ ہے۔ صل علٰی محمد و اٰل محمد سید ولد ادم و خاتم النبیین۔ اور درود بھیج محمد اور آل محمد پر جو سردار ہے آدم کے بیٹوں کا اور خاتم الانبیاء ہے صلی اللہ علیہ وسلم یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ سب مراتب اور تفضّلات اور عنایات اسی کے طفیل سے ہیں اور اسی سے محبت کرنے کا یہ صلہ ہے۔ سبحان اللہ اس سرور کائنات کے حضرت احدیّت میں کیا ہی اعلیٰ مراتب ہیں اور کس قسم کا قرب ہے کہ اس کا محب خدا کا محبوب بن جاتا ہے اور اُس کا

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 598

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 598

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/598/mode/1up

اُس کا مشروط ہے اورسِرّ اِس باتؔ کا کہ کیوں معجزہ نبی کا دوسرے کے توسّط

عداوتِ ذاتی پیدا ہوجاتی ہے اور اس میں اور قسم ؔ دویم کی ترقی میں فرق یہ ہے کہ گو قسم دویم میں بھی اپنے رب کی مرضی سے موافقت تامہ پیدا ہوجاتی ہے اور اُس کا ایلام بصورت انعام نظر آتا ہے۔ مگر ہنوز اس میں ایسا تعلق باللہ نہیں ہوتا کہ جو

خادم ایک دنیا کا مخدوم بنایا جاتا ہے۔

ہیچ محبوبے نماند ہمچو یار دلبرم

مہرومہ را نیست قدرے در دیارِ دلبرم

آں کجا روئے کہ دارد ہمچو رویش آب و تاب

واں کجا باغے کہ مے دارد بہار دلبرم

اس مقام میں مجھ کو یاد آیا کہ ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہوگیا۔ اسی رات خواب میں دیکھا کہ آب زلال کی شکل پر نور کی مشکیں اس عاجز کے مکان میں لئے آتے ہیں۔ اور ایک نے ان میں سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تو نے محمد کی طرف بھیجی تھیں صلی اللہ علیہ وسلم۔ اور ایسا ہی عجیب ایک اور قصہ یاد آیا ہے کہ ایک مرتبہ الہام ہوا جس کے معنے یہ تھے کہ ملاء اعلیٰ کے لوگ خصومت میں ہیں یعنی ارادۂ الٰہی احیاء دین کے لئے جوش میں ہے لیکن ہنوز ملاء اعلیٰ پر شخص محیی کی تعین ظاہر نہیں ہوئی ؔ اس لئے وہ اختلاف میں ہے۔ اسی اثناء میں خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک محی کو تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیا اور اشارہ سے اس نے کہا ھذا رجل یحب رسول اللہ یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہ سے محبت رکھتا ہے۔ اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرط اعظم اس عہدہ کی محبت رسول ہے۔ سو وہ اس شخص میں متحقق ہے۔ اور ایسا ہی الہام متذکرہ بالا میں جو آل رسول پر درود بھیجنے کا حکم ہے سو اس میں بھی یہی سِرّ ہے کہ افاضہ انوار الٰہی میں محبت اہل بیت کو بھی نہایت عظیم دخل ہے۔ اور جو شخص حضرت احدیّت کے مقربین میں داخل ہوتا ہے وہ انہیں طیّبین طاہرین کی وراثت پاتا ہے اور تمام علوم و معارف میں ان کا وارث ٹھہرتا ہے۔ اس جگہ ایک نہایت روشن کشف یاد آیا اور وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 599

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 599

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/599/mode/1up

سے ظہور پذیر ہوجاتا ہے یہ ہے کہ جب ایک شخص وہیؔ امر بجالاتا ہے کہ جو اُس کے

ماسوی اللہ کے ساتھ عداوت ذاتی پیدا ہوجانے کا موجب ہو اور جس سے محبت الٰہی صرف دل کا مقصد ہی نہ رہے بلکہ دل کی سرشت بھی ہوجائے۔ غرض قسم دویم کی ترقی میں خدا سے موافقت تامہ کرنا اور اس کے غیر سے عداوت رکھناؔ سالک کا مقصد ہوتا ہے اور

نماز مغرب کے بعد عین بیداری میں ایک تھوڑی سی َ غیبتِ حس سے جو خفیف سے نشاء سے مشابہ تھی ایک عجیب عالم ظاہر ہوا کہ پہلے یکدفعہ چند آدمیوں کے جلد جلد آنے کی آواز آئی، جیسی بسرعت چلنے کی حالت میں پاؤں کی جوتی اور موزہ کی آواز آتی ہے پھر اسی وقت پانچ آدمی نہایت وجیہہ اور مقبول اور خوبصورت سامنے آگئے یعنی جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم و حضرت علیؓ و حسنینؓ و فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہم اجمعین اور ایک نے ان میں سے اور ایسا یاد پڑتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نہایت محبت اور شفقت سے مادر مہربان کی طرح اس عاجز کا سر اپنی ران پر رکھ لیا پھر بعد اس کے ایک کتاب مجھ کو دی گئی۔ جس کی نسبت یہ بتلایا گیا کہ یہ تفیسر قرآن ہے جس کو علی نے تالیف کیا ہے۔ اور اب علی وہ تفسیر تجھ کو دیتا ہے فالحمدللہ علی ذالک۔ پھر بعد اس کے یہ الہام ہوا۔ انک علی صراط مستقیم۔ فاصدع بما تؤمر و اعرض عن الجاھلین۔ تو سیدھی راہ پر ہے۔ پس جو حکم کیا جاتا ہے اس کو کھول کر سنا اور جاہلوں سے کنارہ کر۔ وقالوا لولا نزل علی رجل من قریتین عظیم۔ وقالوا انی لک ھذا۔ ان ھذا لمکرمکرتموہ فی ؔ المدینۃ۔ ینظرون الیک و ھم لا یبصرون۔ اور کہیں گے کہ کیوں نہیں یہ اترا کسی بڑے عالم فاضل پر اور شہروں میں سے۔ اور کہیں گے کہ یہ مرتبہ تجھ کو کہاں سے ملا یہ تو ایک مکر ہے جو تم نے شہر میں باہم مل کر بنالیا ہے تیری طرف دیکھتے ہیں اور نہیں دیکھتے۔ یعنی تو انہیں نظر نہیں آتا۔

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 600

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 600

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/600/mode/1up

شارع نے فرمایا ہے اور اُس امر سے پرہیز کرتا ہے کہ جو اُس کے شارعؔ

اُس مقصد کے حصول سے وہ لذت پاتا ہے لیکن قسم سوم کی ترقی میں خدا سے موافقت تامہ اور اس کے غیر سے عداوت خود سالک کی سرشت ہوجاتی ہے جس سرشت کو وہ کسی حالت میں چھوڑ نہیں سکتا۔ کیونکہ انفکاک الشی عن نفسہٖ محال ہے۔

تاللہ لقد ارسلنا الی امم من قبلک فزین لھم الشیطان۔ ہمیں اپنی ذات کی قسم ہے کہ ہم نے تجھ سے پہلے امت محمدیہ میں کئی اولیاء کامل بھیجے پر شیطان نے ان کی توابع کی راہ کو بگاڑ دیا۔ یعنی طرح طرح کی بدعات مخلوط ہوگئیں اور سیدھا قرآنی راہ ان میں محفوظ نہ رہا۔ قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ۔ واعلموا ان اللہ یحی الارض بعد موتھا۔ ومن کان للّٰہ کان اللّٰہ لہ۔ قل ان افتریتہ فعلی اجرام شدید۔کہہ اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو سو میری پیروی کرو۔ یعنی اتباع رسول مقبول کرو تا خدا بھی تم سے محبت رکھے۔ اور یہ بات جان لو کہ اللہ تعالیٰ نئے سرے زمین کو زندہ کرتا ہے۔ اور جو شخص خدا کے لئے ہوجائے خدا اس کے لئے ہوجاتا ہے۔ کہہ اگر میں نے یہ افترا کیا ہے تو میرے پر جرم شدید ہے۔ انک الیوم لدینا مکین امین۔ وان علیک رحمتی فی الدنیا والدین۔ وانک من المنصورین۔ آج تو میرے نزدیک بامرتبہ اور امین ہے اور تیرے پر میری رحمت دنیا اور دین میں ہے اور تو مدد دیا گیا ہے۔ یحمدک اللّٰہ و یمشی الیک۔ خدا تیری تعریف کرتا ہے اور تیری طرف چلا آتا ہے۔ الا ان نصراللہ قریب۔ خبردار ہو خدا کی مدد نزدیک ہے۔ سبحان الذی اسری بعبدہ لیلا۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندہ کو رات کے وقت میں سیر کرایا یعنی ضلالت اور گمراہی کے زمانہ میں جو رات سے مشابہ ہے مقامات معرفت اور یقین تک لدُنیّ طور سے پہنچایا۔

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 601

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 601

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/601/mode/1up

نے منع کیا ہے اور اُسی کتاب کا پابند رہتا ہے جو اُس کے شارع نے دی ہے تو

برخلاف قسمِ دوم کے کہ اُس میں اِنفکاک جائز ہے اور جب تک ولایت کسی ولی کی قِسم سوم تک نہیں پہنچتی عارضی ہے اور خطرات سے امن میں نہیں۔ وجہؔ یہ کہ جب تک انسان کی سرشت میں خدا کی محبت اور اس کے غیر کی عداوت داخل نہیں۔ تب تک کچھ رگ و ریشہ ظلم کا اس میں باقی ہے کیونکہ اُس نے حق ربوبیت کو

خلق آدم فاکرمہ۔پیدا کیا آدم کو پس اکرام کیا اس کا۔ جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء جری اللہ نبیوں کے حلوں میں۔ اس فقرہ الہامی کے یہ معنے ہیں کہ منصب ارشاد و ہدایت اور مورد وحی الٰہی ہونے کا دراصل حلۂ انبیاء ہے اور ان کے غیر کوبطور مستعار ملتا ہے اور یہ حلۂ انبیاء امت محمدیہ کے بعض افراد کوبغرض تکمیلِ ناقصین عطا ہوتا ہے اور اسی کی طرف اشارہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عُلَمَآءُ اُمَّتِیْ کَأَنْبِیَآءِ بَنِیْ اِسْرَآءِیْلَ۔ پس یہ لوگ اگرچہ نبی نہیں پر نبیوں کا کام ان کو سپرد کیا جاتا ہے۔ وکنتم علی شفا حفرۃ فانقذکم منھا۔ اور تھے تم ایک گڑھے کے کنارہ پر سو اس سے تم کو خلاصی بخشی یعنی خلاصی کا سامان عطا فرمایا۔ عسٰی ربکم انؔ یرحم علیکم وان عدتم عدنا وجعلنا جھنم للکافرین حصیرا۔ خدائے تعالیٰ کا ارادہ اس بات کی طرف متوجہ ہے جو تم پر رحم کرے اور اگر تم نے گناہ اور سرکشی کی طرف رجوع کیا تو ہم بھی سزا اور عقوبت کی طرف رجوع کریں گے اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لئے قید خانہ بنا رکھا ہے۔ یہ آیت اس مقام میں حضرت مسیح کے جلالی طور پر ظاہر ہونے کا اشارہ ہے یعنی اگر طریق رفق اور نرمی اور لطف احسان کو قبول نہیں کریں گے اور حق محض جو دلائل واضحہ اور آیات بینہ سے کھل گیا ہے اس سے سرکش رہیں گے۔ تو وہ زمانہ بھی آنے والا ہے کہ جب خدائے تعالیٰ مجرمین کے لئے شدت اور عنف اور قہر اور سختی کو استعمال میں لائے گا اور حضرت مسیح علیہ السلام نہایت جلالیت کے ساتھ دنیا پر اتریں گے اور تمام راہوں اور

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 602

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 602

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/602/mode/1up

وہ اِس صورت میںؔ بالکل اپنے نفس سے محو ہوکر اپنے شارع کی ذمہ واری

جیسا کہ چاہئے تھا ادا نہیں کیا۔ اور لقاء تام حاصل کرنے سے ہنوز قاصر ہے۔ لیکن جب اس کی سرشت میں محبتِ الٰہی اور موافقت باللہ بخوبی داخل ہوگئی یہاں تک کہ خدا اس کے کان ہوگیا جن سے وہ سنتا ہے۔ اور اس کی آنکھیں ہوگیا

سڑکوں کو خس و خاشاک سے صاف کردیں گے اور کج اور ناراست کا نام و نشان نہ رہے گا۔ اور جلال الٰہی گمراہی کے تخم کو اپنی تجلی قہری سے نیست و نابود کردے گا۔ اور یہ زمانہ اس زمانہ کے لئے بطور ارہاص کے واقع ہوا ہے یعنی اس وقت جلالی طور پر خدائے تعالیٰ اتمام حجت کرے گا۔ اب بجائے اس کے جمالی طور پر یعنی رفق اور احسان سے اتمام حجت کررہا ہے۔ توبوا واصلحوا والی اللّٰہ توجھوا وعلی اللّٰہ توکلوا واستعینوا بالصبر والصلٰوۃ۔ توبہ کرو اور فسق اور فجور اور کفر اور معصیت سے باز آؤ اور اپنے حال کی اصلاح کرو اور خدا کی طرف متوجہ ہوجاؤ اور اس پر توکل کرو۔ اور صبر اور صلٰوۃ کے ساتھ اس سے مدد چاہو۔ کیونکہ نیکیوں سے بدیاں دور ہوجاتی ہیں۔ بشری لک یا احمدی۔ انت مرادی ومعی۔ غرست کرامتک بیدی۔ خوشخبری ہو تجھے اے میرے احمد۔ تو میری مراد ہے اور میرے ساتھ ہے۔ میں نے تیری کرامت کو اپنے ہاتھ سے لگایا ہے۔ قل للمؤمنین یغضوا من ابصارھم و یحفظوا فروجھم ذالک ازکٰی لھم۔ مومنین کو کہہ دے کہ اپنی آنکھیں نامحرموں سے بند رکھیں اور اپنی سترگاہوں کو اور کانوں کو نالائق امور سے بچاویں یہی ان کی پاکیزگی کے لئے ضروری اور لازم ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہریک مومن کے لئے منہیات سے پرہیز کرنا اور اپنے اعضا کو ناجائز افعال سے محفوظ رکھنا لازم ہے اور یہی طریق اس کی پاکیزگی کا مدار ہے۔

چشم گوش و دیدہ بند اے حق گزین

یاد کُن فرمان قل للمؤمنین

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 603

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 603

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/603/mode/1up

میں جاپڑتا ہے۔ پس اگر شارع طبیب حاذقؔ کی طرح ٹھیک ٹھیک صراطِ مستقیم

جن سے وہ دیکھتا ہے۔ اور اس کا ہاتھؔ ہوگیا جس سے وہ پکڑتا ہے۔ اور اس کا پاؤں ہوگیا جس سے وہ چلتا ہے تو پھر کوئی ظلم اس میں باقی نہ رہا اور ہریک خطرہ سے امن میں آگیا۔ اسی درجہ کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ 333333 ۱؂

اب سمجھنا چاہئے کہ یہ ترقیات ثلاثہ کہ جو تمام علوم و معارف کا اصل الاصول بلکہ تمام

خاطرِ خود زین و آن یکسر برآر

تاشود بر خاطرت حق آشکار

زیر پا کن دلبرانِ ایں جہان

تانماید چہرۂ آں محبوب جان

کاملانِ حیّ اند ہم زیر زمیں

تو بگوری باحیاتِ ایں چنیں

سالہا باید کہ خون دل خوری

تا بکوئے دلستانے رہبری

کے بآسانی رہے بکشایدت

صد جنوں باید کہ تا ہوش آیدت

واذا سألک عبادی عنی فانی قریب۔ اجیب دعوۃ الداع اذا دعان۔ وما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین۔ اور جب تجھ سے میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں تو میں نزدیک ہوں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں اور میں نے تجھے اس لئے بھیجا ہے کہ تا سب لوگوں کے لئے رحمت کا سامان پیش کروں۔ لم یکن الذین کفروا من اھل الکتاب والمشرکین منفکین حتی تأتیھم البینۃ۔ وکان کیدھم عظیما۔ اور جو لوگ اہل کتاب اور مشرکوں میں سے کافر ہوگئے ہیں یعنی کفر پر سخت اصرار اختیار کرلیا ہے وہ اپنے کفر سے بجز اس کے باز آنے والے نہیں تھے کہ ان کو کھلی نشانی دکھلائی جاتی اور ان کا مکر ایک بھارا مکر تھا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو کچھ خدائے تعالیٰ نے آیات سماوی اور دلائل عقلی سے اس عاجز کے ہاتھ میں ظاہر کیا ہے وہ اتمام حجت کے لئے نہایت ضروری تھا۔ اور اس زمانہ کے سیاہ باطن جن کو جہل اور خبث کے کیڑے نے اندر ہی اندر کھالیا

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 604

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 604

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/604/mode/1up

کا رہنما ہے اور وہ مبارک کتاب لایا ہے جس میں شخص پیرو کیؔ امراضِ روحانی

دین کا لبؔ لباب ہے سورۃ فاتحہ میں بتمام تر خوبی و رعایت ایجاز و خوش اسلوبی بیان کئے گئے ہیں چنانچہ پہلی ترقی کہ جو قربت کے میدانوں میں چلنے کے لئے اول قدم ہے اس آیت میں تعلیم کی گئی ہے جو فرمایا ہے اھدنا الصراط المستقیم۔ کیونکہ

ہے ایسے نہیں تھے جو بجز آیاتِ صریحہ و براہین قطعیہ اپنے کفر سے باز آجاتے بلکہ وہ اس مکر میں لگے ہوئے تھے کہ تا کسی طرح باغ اسلام کو صفحۂ زمین سے نیست و نابود کردیں۔ اگر خدا ایسا نہ کرتا تو دنیا میں اندھیرپڑجاتا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے جو دنیا کو ان آیات بیّنات کی نہایت ضرورت تھی اور دنیا کے لوگ جو اپنے کفر اور خبث کی بیماری سے مجذوم کی طرح گداز ہوگئے ہیں وہ بجز اس آسمانی دوا کے جو حقیقت میں حق کے طالبوں کے لئے آب حیات تھی تندرستی حاصل نہیں کرسکتے تھے۔ واذا قیل لھم لا تفسدوا فی ؔ الارض قالوا انما نحن مصلحون۔ الا انھم ھم المفسدون۔ قل اعوذ برب الفلق من شر ما خلق ومن شر غاسق اذا وقب۔ اور جب ان کو کہا جائے کہ تم زمین میں فساد مت کرو۔ اور کفر اور شرک اور بدعقیدگی کو مت پھیلاؤ تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارا ہی راستہ ٹھیک ہے اور ہم مفسد نہیں ہیں بلکہ مصلح اور ریفارمر ہیں۔ خبردار رہو۔ یہی لوگ مفسد ہیں جو زمین پرفساد کررہے ہیں۔ کہہ میں شریر مخلوقات کی شرارتوں سے خدا کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں اور اندھیری رات سے خدا کی پناہ میں آتا ہوں یعنی یہ زمانہ اپنے فساد عظیم کے رو سے اندھیری رات کی مانند ہے سو الٰہی قوتیں اور طاقتیں اس زمانہ کی تنویر کے لئے درکار ہیں۔ انسانی طاقتوں سے یہ کام انجام ہونا محال ہے۔ انی ناصرک۔ انی حافظک۔ انی جاعلک للناس اماما۔ اکان للناس عجبا۔ قل ھو اللّٰہ عجیب۔ یجتبی من یشآء من عبادہ۔ لا یُسئل عما یفعل وھم یُسئلون۔ وتلک الایام نداولھا بین الناس۔ میں تیری مدد کروں گا۔ میں تیری حفاظت کروں گا۔ میں تجھے لوگوں کے لئے پیشرو بناؤں گا۔ کیا لوگوں

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 605

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 605

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/605/mode/1up

کا علاج ہے اور اس کی علمی اور عملی تکمیل کے لئے پورا سامان موجود ہے۔

ہریک قسم کی کجی اور بے راہی سے باز آکر اور بالکل روبخدا ہوکر راہ راست کو اختیار کرنا یہ وہی سخت گھاٹی ہے جس کو دوسرے لفظوں میں فنا سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ امور مالوفہ اور معتادہ کو یکلخت ؔ چھوڑ دینا اور نفسانی خواہشوں کو جو ایک عمر سے عادت ہوچکی ہے یکدفعہ ترک کرنا اور ہریک ننگ اور ناموس اور عجب

کو تعجب ہوا کہ خدا ذوالعجائب ہے ہمیشہ عجیب کام ظہور میں لاتا ہے۔ جس کو چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے چن لیتا ہے وہ اپنے کاموں سے پوچھا نہیں جاتا کہ ایسا کیوں کیا اور لوگ پوچھے جاتے ہیں اور ہم یہ دن لوگوں میں پھیرتے رہتے ہیں یعنی کبھی کسی کی نوبت آتی ہے اور کبھی کسی کی اور عنایات الٰہیہ نوبت بہ نوبت امت محمدیہ کے مختلف افراد پر وارد ہوتے رہتے ہیں۔ وقالوا انّٰی لک ھذا۔ وقالوا ان ھذا الا اختلاق۔ اذا نصراللّٰہ المؤمن جعل لہ الحاسدین فی الارض فالنار موعدھم۔ قل اللّٰہ ثم ذرھم فی خوضھم یلعبون۔اور کہیں گے کہ یہ تجھ کو کہاں سے۔ اور یہ تو ایک بناوٹ ہے۔ خدائے تعالیٰ جب مومن کی مدد کرتا ہے تو زمین پر کئی اُس کے حاسد بنا دیتا ہے سو جو لوگ حسد پر اصرار کریں اور باز نہ آویں تو جہنم ان کا وعدہ گاہ ہے۔ کہہ یہ سب کاروبار خدا کی طرف سے ہیں پھر ان کو چھوڑ دے تا اپنے بے جا خوض میں کھیلتے رہیں۔ تلطف بالناس و ترحم علیھم انت فیھم بمنزؔ لۃ موسٰی واصبر علی ما یقولون۔ لوگوں کے ساتھ رفق اور نرمی سے پیش آ اور ان پر رحم کر۔ تو ان میں بمنزلہ موسیٰ کے ہے۔ اور ان کی باتوں پر صبر کر۔ حضرت موسیٰ ُ بردباری اور حلم میں بنی اسرائیل کے تمام نبیوں سے سبقت لے گئے تھے۔ اور بنی اسرائیل میں نہ مسیح اور نہ کوئی دوسرا نبی ایسا نہیں ہوا جو حضرت موسیٰ کے مرتبہ عالیہ تک پہنچ سکے۔ توریت سے ثابت ہے جو حضرت موسیٰ رفق اور حلم اور اخلاق فاضلہ میں سب اسرائیلی نبیوں سے بہتر اور فائق تر تھے جیسا کہ گنتی باب دو از دہم آیت سوم توریت میں لکھا ہے کہ موسیٰ سارے لوگوں سے جو روئے زمین پر تھے زیادہ بردبار تھا

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 606

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 606

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/606/mode/1up

اور پھر اُس کے پیروؔ نے بغیر کسی اعراض صوری یا معنوی کے اُن تعلیمات کو

اور ریا سے مونہہ پھیر کر اور تمام ماسواللہ کو کالعدم سمجھ کر سیدھا خدا کی طرف رخ کرلینا حقیقت میں ایک ایسا کام ہے جو موت کے برابر ہے اور یہ موت روحانی پیدائش کا مدار ہے۔ اور جیسے دانہ جب تک خاک میں نہیں ملتا اور اپنی صورت کو نہیں چھوڑتا تب تک نیا دانہ وجود میں آنا غیر ممکن ہے۔ اسی طرح روحانی پیدائش کا ؔ جسم

سو خدا نے توریت میں موسٰی کی بردباری کی ایسی تعریف کی جو بنی اسرائیل کے تمام نبیوں میں سے کسی کی تعریف میں یہ کلمات بیان نہیں فرمائے۔ ہاں جو اخلاقِ فاضلہ حضرت خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن شریف میں ذکر ہے وہ حضرت موسیٰ سے ہزارہا درجہ بڑھ کر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تمام اُن اخلاق فاضلہ کا جامع ہے جو نبیوں میں متفرق طور پر پائے جاتے تھے۔ اور نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمایا ہے۔ 3۔۱؂ تُو خُلقِ عظیم پر ہے۔ اور عظیم کے لفظ کے ساتھ جس چیز کی تعریف کی جائے وہ عرب کے محاورہ میں اس چیز کے انتہائے کمال کی طرف اشارہ ہوتا ہے مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ یہ درخت عظیم ہے تو اس سے یہ مطلب ہوگا کہ جہاں تک درختوں کے لئے طول و عرض اور تناوری ممکن ہے وہ سب اس درخت میں حاصل ہے۔ ایسا ہی اس آیت کا مفہوم ہے کہ جہاں تک اخلاق فاضلہ و شمائلہ حسنہ نفس انسانی کو حاصل ہوسکتے ہیں وہ تمام اخلاق کاملہ تامہ نفس محمدی میں موجود ہیں۔ سو یہ تعریف ایسی اعلیٰ درجہ کی ہے جس سے بڑھ کر ممکن نہیں۔ اور اسی کی طرف اشارہ ہے جو دوسری جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمایا۔ 3 3۔۲؂ یعنی تیرے پر خدا کا سب سے زیادہ فضل ہے اور کوئی نبی تیرے مرتبہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ یہی تعریف بطور پیشگوئی زبور باب ۵۴ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں موجود ہے جیسا کہ فرمایا کہ خدا نے جو تیرا خدا ہے خوشی کے روغن سے تیرے مصاحبوں سے زیادہ تجھے معطر کیا اور چونکہ اُمتِ محمدیہ کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہیں اس لئے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 607

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 607

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/607/mode/1up

بصدق دل قبول کرلیا ہے تو جو کچھ انوار وآثاؔ ر بعد متابعت کامل کے مترتب

اس فنا سے طیار ہوتا ہے۔ جوں جوں بندہ کا نفس شکست پکڑتا جاتا ہے اور اس کا فعل اور ارادت اور رو بخلق ہونا فنا ہوتا جاتا ہے توں توں پیدائش روحانی کے اعضاء بنتے جاتے ہیں یہاں تک کہ جب فناء اتم حاصل ہوجاتی ہے تو وجود ثانی کی خلعت عطا کی جاتی ہے

الہام متذکرہ بالا میں اس عاجز کی تشبیہ حضرت موسیٰ سے دی گئی۔ اور یہ تمام برکات حضرت سید الرسل کے ہیں جو خداؔ وند کریم اس کی عاجز امت کو اپنے کمال لطف اور احسان سے ایسے ایسے مخاطبات شریفہ سے یاد فرماتا ہے۔ اللّٰھم صلّ علٰی محمد واٰ ل محمد۔ پھر بعد اس کے یہ الہامی عبارت ہے۔ واذا قیل لھم اٰمنوا کما اٰمن الناس قالوا انؤمن کما اٰمن السفھآء الا انھم ھم السفھآء ولکن لا یعلمون۔ و یحبون ان تدھنون۔ قل یایھا الکفرون لا اعبد ما تعبدون۔ قیل ارجعوا الی اللہ فلا ترجعون۔ وقیل استحوذوا فلا تستحوذون۔ ام تسئلھم من خرج فھم من مغرم مثقلون۔ بل اتیناھم بالحق فھم للحق کارھون۔ سبحانہ وتعالٰی عما یصفون۔ احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا اٰمنا وھم لا یفتنون۔ یحبون ان یحمدوا بمالم یفعلوا۔ ولا یخفی علی اللّٰہ خافیۃ۔ ولا یصلح شیء قبل اصلاحہ۔ ومن رُدّ من مطبعہ فلا مردلہ۔ اور جب اُن کو کہا جائے کہ ایمان لاؤ جیسے لوگ ایمان لائے ہیں۔ تو وہ کہتے ہیں کہ کیا ہم ایسا ہی ایمان لاویں جیسے بے وقوف ایمان لائے ہیں خبردار ہو وہی بے وقوف ہیں مگر جانتے نہیں۔ اور یہ چاہتے ہیں کہ تم ان سے مداہنہ کرو۔ کہہ اے کافرو میں اس چیز کی پرستش نہیں کرتا جس کی تم کرتے ہو۔ تم کو کہا گیا کہ خدا کی طرف رجوع کرو سو تم رجوع نہیں کرتے۔ اور تم کو کہا گیا جو تم اپنے نفسوں پر غالب آجاؤ سو تم غالب نہیں آتے۔ کیا تو ان لوگوں سے کچھ مزدوری مانگتا ہے۔ پس وہ اس تاوان کی وجہ سے حق کو قبول کرنا ایک پہاڑ سمجھتے ہیں بلکہ ان کو مفت حق دیا جاتا ہے اور وہ حق سے کراہت کررہے ہیں۔ خدائے تعالیٰ اُن عیبوں سے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 608

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 608

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/608/mode/1up

ہوں گے۔ وہ حقیقت میں اُس نبی متبوع کے فیوض ہیں۔ سوؔ اِسی جہت سے اگر

اور ثم انشاناہ خلقا اخر کا وقت آجاتا ہے اور چونکہ یہ فناء اتم بغیر نصرت و توفیق و توجہ خاص قادر مطلق کے ممکن نہیں اس لئے یہ دعا تعلیم کی یعنی اھدنا الصراطؔ المستقیم جس کے یہ معنے ہیں کہ اے خدا ہم کو راہِ راست پر قائم کر

پاک و برتر ہے جو وہ لوگ اس کی ذات پر لگاتے ہیں۔ کیا یہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بے امتحان کئے صرف زبانی ایمان کے دعویٰ سے چھوٹ جاویں گے۔ چاہتے ہیں جو ایسے کاموں سے تعریف کئے جائیں جن کو انہوں نے کیا نہیں۔ اور خدائے تعالیٰ سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں۔ اور جب تک وہ کسی شے کی اصلاح نہ کرے اصلاح نہیں ہوسکتی۔ اور جو شخص اس کے مطبع سے ردّ کیا جائے۔اسؔ کو کوئی واپس نہیں لاسکتا۔ لعلک باخع نفسک الا یکونوا مؤمنین۔ لا تقف ما لیس لک بہ علم۔ ولا تخاطبنی فی الذین ظلموا انھم مغرقون۔ یا ابراھیم اعرض عن ھذا انہ عبد غیر صالح۔ انما انت مذکر وما انت علیھم بمسیطر۔ کیا تو اسی غم میں اپنے تئیں ہلاک کردے گا کہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے جس چیز کا تجھے علم نہیں اس کے پیچھے مت پڑ اور ان لوگوں کے بارے میں جو ظالم ہیں میرے ساتھ مخاطبت مت کر۔ وہ غرق کئے جائیں گے۔ اے ابراہیم! اس سے کنارہ کر یہ صالح آدمی نہیں۔ تو صرف نصیحت دہندہ ہے ان پر داروغہ نہیں۔ یہ چند آیات جو بطور الہام القا ہوئی ہیں بعض خاص لوگوں کے حق میں ہیں۔ پھر آگے اس کے یہ الہام ہے واستعینوا بالصبر والصلٰوۃ واتخذوا من مقام ابراھیم مصلّٰی۔ اور صبر اور صلوٰۃ کے ساتھ مدد چاہو۔ اور ابراہیم کے مقام سے نماز کی جگہ پکڑو۔ اس جگہ مقام ابراہیم سے اطلاقِ مرضیہ و معاملہ باللہ مراد ہے یعنی محبت الٰہیہ اور تفویض اور رضا اور وفا یہی حقیقی مقام ابراھیم کا ہے جو امت محمدیہ کو بطور تبعیت و وراثت عطا ہوتا ہے اور جو شخص قلب ابراہیم پر مخلوق ہے اس کی اتباع بھی اسی میں ہے۔ یظل ربک علیک و یغیثک و

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 609

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 609

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/609/mode/1up

ولی سے کوئی امر خارق عادت ظاہر ہو تو اُس نبی متبوع کا معجزہ ہوگا۔ اب

اور ہریک طور کی کجی اور بے راہی سے نجات بخش۔ اور یہ کامل استقامت اور راست روی جس کو طلب کرنے کا حکم ہے نہایت سخت کام ہے اور اول دفعہ میں اس کا حملہ سالک پر ایک شیر ببر کی طرح ہے جس کے سامنے موت نظر آتی ہے پس اگر سالک ٹھہر گیا اور اُس موت کو قبول کرلیا تو پھر بعد اس کے کوئی اسے سخت موت نہیں اور خدا اِس سے

یرحمک۔ وان لم یعصمک الناس فیعصمک اللّٰہ من عندہ۔ یعصمک اللّٰہ من عندہ وان لم یعصمک الناس۔ خدائے تعالیٰ اپنی رحمت کا تجھ پر سایہ کرے گا اور نیز تیرا فریاد رس ہوگا اور تجھ پر رحم کرے گا۔ اور اگر تمام لوگ تیرے بچانے سے دریغ کریں مگر خدا تجھے بچائے گا اور خدا تجھے ضرور اپنی مدد سے بچائے گا اگرچہ تمام لوگ دریغ کریں۔ یعنی خدا تجھے آپ مدد دے گا اور تیری سعی کے ضائع ہونے سے تجھے محفوظ رکھے گا۔ اور اس کی تائیدیں تیرے شامل حال رہیں گی۔ و اذ یمکر بک الذی کفر۔ اوقد لی یاھامان لعلی اطلع الی الٰہ موسی وانی لأظنہ من الکاذبین۔ یاد کر جب منکر نے بغرض کسی مکر کے اپنے رفیق کو کہا کہ کسی فتنہ یا آزمائش کی آگ بھڑکاتا میں موسیٰ کے خدا پر یعنی اس شخص کے خدا پر مطلع ہوجاؤں کہ کیونکر وہ اس کی مدد کرتا ہے اور اس کے ساتھ ہے یا نہیں۔ کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ جھوٹا ہے۔ یہ کسی واقعہ آئندہ کی طرف اشارہ ہے کہ جو بصورت گزشتہ بیان کیا گیا ہے۔ تبت یدا ابی لھب وتب۔ ما کان لہ ان یدخل فیھا الا خائفا وما اصابک فمن اللّٰہ۔ ابولہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوگئے اور وہ بھی ہلاک ہوا اور اس کو لائق نہ تھا کہ اس کام میں بجز خائفؔ اور ترسان ہونے کے یوں ہی دلیری سے داخل ہوجاتا اور جو تجھ کو پہنچے وہ تو خدا کی طرف سے ہے۔ یہ کسی شخص کے شر کی طرف اشارہ ہے جو بذریعہ تحریر یا بذریعہ کسی اور فعل کے اس سے ظہور میں آوے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔ الفتنۃ ھٰھنا فاصبر کما صبر اولو العزم۔ الا انھا فتنۃ من اللّٰہ لیحب حبا جما۔

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 610

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 610

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/610/mode/1up

اِنؔ تمہیدات کے بعد دلائل حقیت قرآن شریف کے لکھے جاتے ہیں۔ و نسئل اللّٰہ التوفیق والنصرۃ ھو نعم المولی ونعم النصیر۔

زیادہ تر کریم ہے کہ پھر اس کو یہ ؔ جلتا ہوا دوزخ دکھاوے۔ غرض یہ کامل استقامت وہ فنا ہے کہ جس سے کارخانہ وجود بندہ کو بکُلّی شکست پہنچتی ہے اور ہوا اور شہوت اور ارادت اور ہریک خود روی کے فعل سے بیکبارگی دستکش ہونا پڑتا ہے اور یہ مرتبہ سیر و سلوک کے مراتب میں سے وہ مرتبہ ہے جس میں انسانی کوششوں کا بہت کچھ دخل ہے اور بشری مجاہدات کی بخوبی پیش رفت ہے اور اسی حد تک اولیاء اللہ کی کوششیں اور سالکین ؔ کی محنتیں ختم ہوجاتی ہیں اور پھر بعد اس کے خاص مواہبِ سماوی

حبا من اللہ العزیز الاکرم عطاءً ا غیر مجذوذ۔ اس جگہ فتنہ ہے۔ پس صبر کر جیسے اولوالعزم لوگوں نے صبر کیا ہے۔ خبردار ہو۔ یہ فتنہ خدا کی طرف سے ہے تا وہ ایسی محبت کرے جو کامل محبت ہے۔ اس خدا کی محبت جو نہایت عزت والا اور نہایت بزرگ ہے وہ بخشش جس کا کبھی انقطاع نہیں۔ شاتان تذبحان۔ وکل من علیھا فان۔ دو بکریاں ذبح کی جائیں گی۔ اور زمین پر کوئی ایسا نہیں جو مرنے سے بچ جائے گا یعنی ہریک کے لئے قضا و قدر درپیش ہے اور موت سے کسی کو خلاصی نہیں۔ کوئی چار روز پہلے اس دنیا کو چھوڑ گیا اور کوئی پیچھے اسے جاملا۔

ہمیں مرگ است کزیاران بپوشد روئے یاراں را

بیکدم می کند وقت خزاں فصل بہاراں را

ولا تھنوا ولا تحزنوا۔ الیس اللّٰہ بکاف عبدہ۔ الم تعلم ان اللّٰہ علی کل شیء قدیر۔ وجئنا بک علی ھؤلاء شھیدا۔ اور سست مت ہو اور غم مت کرو۔ کیا خدا اپنے بندہ کو کافی نہیں ہے۔ کیا تو نہیں جانتا کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے۔ اور خدا ان لوگوں پر تجھ کو گواہ لائے گا۔ اوفی اللّٰہ اجرک و یرضی عنک ربک و یتم اسمک و عسی ان تحبوا شیئا و ھو شر لکم و عسی ان تکرھوا شیئا وھو خیر لکم واللّٰہ

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 611

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 611

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/611/mode/1up

بابِ اوّل

اُن براہین کے بیان میں جو قرآن شریف کی

حقیّت اور افضلیت پر بیرونی شہادتیں ہیں

برھان اوّل۔ قال اللّٰہ تعالی3

ہیں جن میں بشری کوششوں کو کچھ دخل نہیں بلکہ خود خدائے تعالیٰ کی طرف سے عجائبات سماوی کی سیر کرانے کے لئے غیبی سواری اور آسمانی بُرّاق عطا ہوتا ہے۔

اور دوسری ترقی کہ جو قربت کے میدانوں میں چلنے کے لئے دوسرا قدم ہے اِس آیت

یعلم و انتم لا تعلمون۔ خدا تیرا بدلہ پورا دے گا اور تجھ سے راضی ہوگا اور تیرے اسم کو پورا کرے گا۔ اور ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو دوست رکھو اور اصل میں وہ تمہارے لئے بری ہو اور ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو بری سمجھو اور اصل میں وہ تمہارے لئے اچھی ہو۔ اور خدائے تعالیٰ عواقب امور کو جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ کنت کنزا مخفیا فاحببت ان اعرف۔ ان السموات والارض کانتا رتقا ففتقناھما۔ وان یتخذونک الا ھزوا۔ اھذا الذی بعث اللّٰہ۔ قل انما انا بشر مثلکم یوحی الی انما الھکم الہ واحد والخیر کلہ فی القراٰ ن لا یمسہ ؔ الا المطھرون۔ فقد لبثت فیکم عمرا من قبلہ افلا تعقلون۔ میں ایک خزانہ پوشیدہ تھا سو میں نے چاہا کہ شناخت کیا جاؤں آسمان اور زمین دونوں بند تھے سو ہم نے ان دونوں کو کھول دیا اور تیرے ساتھ ہنسی سے ہی پیش آئیں گے اور ٹھٹھا مار کر کہیں گے کیا یہی ہے جس کو خدا نے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 612

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 612

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/612/mode/1up

میں تعلیم کیؔ گئی ہے جو فرمایا ہے صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ۔ یعنی ہم کو ان لوگوں کا راہ دکھلا جن پر تیرا انعام اکرام ہے۔ اس جگہ واضح رہے کہ جو لوگ منعم علیہم ہیں اور خدا سے ظاہری و باطنی نعمتیں پاتے ہیں شدائد سے خالی نہیں ہیں بلکہ اس دارالابتلاء میں ایسی ایسی شدّتیں اور صعوبتیں ان کو پہنچتی ہیں کہ اگر وہ کسی دوسرے کو پہنچتیں تو مدد ایمانی اس کی منقطع ہوجاتی۔ لیکن اس جہت سے اُن کا

اصلاح خلق کے لئے مقرر کیا یعنی جن کا مادہ ہی خبث ہے ان سے صلاحیت کی امید مت رکھ اور پھر فرمایا کہہ میں صرف تمہارے جیسا ایک آدمی ہوں مجھ کو یہ وحی ہوتی ہے کہ بجز اللہ تعالیٰ کے اور کوئی تمہارا معبود نہیں وہی اکیلا معبود ہے جس کے ساتھ کسی چیز کو شریک کرنا نہیں چاہئے۔ اور تمام خیر اور بھلائی قرآنؔ میں ہے بجز اس کے اور کسی جگہ سے بھلائی نہیں مل سکتی اور قرآنی حقائق صرف انہیں لوگوں پر کھلتے ہیں جن کو خدائے تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف اور پاک کرتا ہے اور میں ایک عمر تک تم میں ہی رہتا رہا ہوں کیا تم کو عقل نہیں۔

ہست فرقانِ مبارک از خدا طیب شجر

نونہال و نیک بوو سایۂ دار و پُرزبر

میوہ گر خواہی بیا زیر درخت میوہ دار

گر خردمندی مجنباں بید را بہر ثمر

ور نیاید باورت دروصف فرقان مجید

حسن آں شاہد بپرس از شاہدان یا خود نگر

وانکہ اونامد پأ تحقیق و درکین مبتلا ست

آدمی ہرگز نباشد ہست او بدتر زِ خر

قل ان ھدی اللّٰہ ھو الھدٰی وانّ معی ربّی سیھدین۔ ربّ اغفر وارحم من السمآء۔ ربّ انی مغلوب فانتصر۔ ایلی ایلی لما سبقتنی ایلی آوس۔

کہہ ہدایت وہی ہے جو خدا کی ہدایت ہے اور میرے ساتھ میرا رب ہے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 613

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 613

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/613/mode/1up

نام منعم علیہم رکھا گیا ہے کہ وہ بباعث غلبہ محبت آلام کو برنگ انعام دیکھتے ہیں اور ہریک رنج یا راحت جو دوست حقیقی کی طرف سے اُن کو پہنچتی ہے بوجہؔ مستئ عشق اس سے لذت اٹھاتے ہیں پس یہ ترقی فی القرب کی دوسری قسم ہے جس میں اپنے محبوب کے جمیع افعال سے لذت آتی ہے اور جو کچھ اس کی طرف سے پہنچے انعام ہی انعام نظر آتا ہے اور اصل موجب اس حالت کا ایک محبت کامل اور تعلق صادق ہوتا ہے جو اپنے محبوب سے ہوجاتا ہے اور یہ ایک موہبت خاص ہوتی ہے جس میں

عنقریب وہ میرا راہ کھول دے گا۔ اے میرے خدا آسمان سے رحم اور مغفرت کر۔ میں مغلوب ہوں میری طرف سے مقابلہ کر۔ اے میرے خدا اے میرے خدا تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا آخری فقرہ اس الہام کا یعنی ایلی آوس بباعث ُ سرعت ورود مشتبہ رہا ہے اور نہ اس کے کچھ معنے کھلے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔

اےؔ خالق ارض و سما برمن در رحمت کشا

دانی توآں دردِ مرا کز دیگراں پنہاں کنم

ازبس لطیفی دلبرا در ہررگ و تارم درا

تا چوں بخودیابم ترا دل خوشتر از بستاں کنم

ور سرکشی اے پاک خوجاں برکنم در ہجر تو

زانساں ہمی گریم کزویک عالمے گریاں کنم

خواہی بقہرم کن جدا خواہی بلطفم رونما

خواہی بکش یا کن رہا کے ترک آں داماں کنم

یہ سب اشارات مختص المقامات ہیں جن کی تشریح اس جگہ ضروری نہیں۔ یا عبدالقادر انی معک اسمع و ارٰی غرست لک بیدی رحمتی و قدرتی و نجیناک من الغم و فتناک فتونا۔ لیأتینکم منی ھدی۔ الا ان حزب اللّٰہ ھم الغالبون۔ وما کان اللّٰہ لیعذبھم وانت فیھم وما کان اللّٰہ

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 614

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 614

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/614/mode/1up

حیلہ اور تدبیر کو کچھ دخل نہیں بلکہ خدا ہی کی طرف سے آتی ہے اور جب آتی ہے تو پھر سالک ایک دوسرا رنگ پکڑلیتا ہے اور تمام بوجھ اس کے سر سے اتارے جاتے ہیں اور ہریک ایلام انعام ہی معلوم ہوتاؔ ہے اور شکوہ اور شکایت کا نشان نہیں ہوتا۔ پس یہ حالت ایسی ہوتی ہے کہ گویا انسان بعد موت کے زندہ کیا گیا ہے کیونکہ ان تلخیوں سے بکلی نکل آتا ہے جو پہلے درجہ میں تھیں جن سے ہریک وقت موت کا

لیعذبھم وھم یستغفرون۔ اے عبدالقادر میں تیرے ساتھ ہوں سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں۔ تیرے لئے میں نے رحمت اور قدرت کو اپنے ہاتھ سے لگایا اور تجھ کو غم سے نجات دی۔ اور تجھ کو خالص کیا۔ اور تم کو میری طرف سے مدد آئے گی۔ خبردار ہو لشکر خدا کا ہی غالب ہوتا ہے۔ اور خدا ایسا نہیں جو ان کو عذاب پہنچاوے جب تک تو اُن کے درمیان ہے یا جب وہ استغفار کریں۔ انا بدک اللازم انا محییک نفخت فیک من لدنی روح الصدق والقیت علیک محبۃ منی ولتصنع علی عینی کزرع اخرج شطأہ فاستغلظ فاستویؔ علٰی سوقہ۔ میں تیرا چارہ لازمی ہوں۔ میں تیرا زندہ کرنے والا ہوں۔ میں نے تجھ میں سچائی کی روح پھونکی ہے اور اپنی طرف سے تجھ میں محبت ڈال دی ہے تاکہ میرے روبرو تجھ سے نیکی کی جائے سو تو اس بیج کی طرح ہے جس نے اپنا سبزہ نکالا پھر موٹا ہوتا گیا یہاں تک کہ اپنے ساقوں پر قائم ہوگیا۔ ان آیات میں خدائے تعالیٰ کی اُن تائیدات اور احسانات کی طرف اشارہ ہے اور نیز اس عروج اور اقبال اور عزت اور عظمت کی خبر دی گئی ہے کہ جو آہستہ آہستہ اپنے کمال کو پہنچے گی۔ انا فتحنالک فتحا مبینا لیغفرلک اللّٰہ ما

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 615

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 615

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/615/mode/1up

سامنا معلوم ہوتا تھا مگر اب چاروں طرف سے انعام ہی انعام پاتا ہے اور اسی جہت سے اس کی حالت کے مناسب حال یہی تھا کہ اس کا نام منعم علیہ رکھا جاتا اور دوسرے لفظوں میں اس حالت کا ؔ نام بقا ہے کیونکہ سالک اس حالت میں اپنے تئیں ایسا پاتا ہے کہ گویا وہ مرا ہوا تھا اور اب زندہ ہوگیا۔ اور اپنے نفس میں بڑی

تقدم من ذنبک وما تأخر۔ ہم نے تجھ کو کھلی کھلی فتح عطا فرمائی ہے یعنی عطا فرمائیں گے۔ اور درمیان میں جو بعض مکروہات و شدائد ہیں وہ اس لئے ہیں تا خدائے تعالیٰ تیرے پہلے اور پچھلے گناہ معاف فرماوے یعنی اگر خدائے تعالیٰ چاہتا تو قادر تھا کہ جو کام مدنظر ہے وہ بغیر پیش آنے کسی نوع کی تکلیف کے اپنے انجام کو پہنچ جاتا اور بآسانی فتح عظیم حاصل ہوجاتی۔ لیکن تکالیف اس جہت سے ہیں کہ تا وہ تکالیف موجب ترقی مراتب و مغفرت خطایا ہوں۔ آج اس موقع کے اثناء میں جبکہ یہ عاجز بغرض تصحیح کاپی کو دیکھ رہا تھا بعالم کشف چند ورق ہاتھ میں دیئے گئے اور اُن پر لکھا ہوا تھا کہ فتح کا نقارہ بجے۔ پھر ایک نے مسکرا کر ان ورقوں کی دوسری طرف ایک تصویر دکھلائی اور کہا کہ دیکھو کیا کہتی ہے تصویر تمہاری۔ جب اس عاجز نے دیکھا تو وہ اسی عاجز کی تصویر تھی اور سبز پوشاک تھی مگر نہایت رعبناک جیسے سپہ سالار مسلح فتح یاب ہوتے ہیں اور تصویر کے یمین و یسار میں ؔ حجت اللہ القادر و سلطان احمد مختار لکھا تھا۔ اور یہ سوموار کا روز انیسویں ذوالحجہ ۰۰۳۱ ؁ھ مطابق ۲۲؍ اکتوبر ۳۸ء ؁ اور ششم کاتک ۰۴۹۱ ؁بکرم ہے۔ الیس اللہ بکاف عبدہ فبرأہ اللّٰہ مما قالوا وکان عند اللّٰہ وجیھا۔ الیس اللّٰہ بکاف عبدہ فلما تجلّٰی ربہ للجبل جعلہ دکا۔ واللّٰہ

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 616

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 616

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/616/mode/1up

خوشحالی اور انشراح صدر دیکھتا ہے اور بشریت کے انقباض سب دور ہوجاتے ہیں اور الوہیت کے مربیانہ انوار نعمت کی طرح برستے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی مرتبہ میں سالک پر ہریک نعمت کا دروازہ کھولا جاتا ہے اور عنایات الٰہیہ کامل طور پر متوجہ ہوتی

موھن کید الکافرین بعد العسر یسر و للّٰہ الامر من قبل ومن بعد۔ الیس اللّٰہ بکاف عبدہ۔ ولنجعلہ ایۃ للناس ورحمۃ منا وکان امرا مقضیا قول الحق الذی فیہ تمترون۔ کیا خدا اپنے بندہ کو کافی نہیں۔ پس خدا نے اس کو ان الزامات سے بری کیا جو اس پر لگائے گئے تھے اور خدا کے نزدیک وہ وجیہہ ہے۔ کیا خدا اپنے بندہ کو کافی نہیں۔ پس جبکہ خدا نے پہاڑ پر تجلی کی تو اس کو پاش پاش کردیا یعنی مشکلات کے پہاڑ آسان ہوئے اور خدائے تعالیٰ کافروں کے مکر کو سست کردے گا اور اُن کو مغلوب اور ذلیل کرکے دکھلائے گا تنگی کے بعد فراخی ہے۔ اور پہلے بھی خدا کا حکم ہے اور پیچھے بھی خدا کا ہی حکم ہے۔ کیا خدا اپنے بندہ کو کافی نہیں۔ اور ہم اس کو لوگوں کے لئے رحمت کا نشان بنائیں گے اور یہ امر پہلے ہی سے قرار پایا ہوا تھا۔ یہ وہ سچی بات ہے جس میں تم شک کرتے ہو۔ محمد رسول اللّٰہ والذین معہ اشدآء علی الکفار رحماء بینھم۔ رجال لا تلھیھم تجارۃ ولا بیع عن ذکر اللّٰہ۔ متع اللّٰہ المسلمین ببرکا تھم۔ فانظروا الی اٰ ثار رحمۃ اللّٰہ۔ وانبؤنی من مثل ھؤلآء ان کنتم صادقین۔ ومن یبتغ غیر الاسلام دینا لن یقبل منہ وھو فی الاخرۃ من الخاسرین۔ محمد ؔ خدا کا رسول ہے۔ اور جو

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 617

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 617

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/617/mode/1up

ہیں اور اس مرتبہ کا نام سیر فی اللہ ہے۔ کیونکہؔ اس مرتبہ میں ربوبیت کے عجائبات سالک پر کھولے جاتے ہیں اور جو ربانی نعمتیں دوسروں سے مخفی ہیں ان کا اس کو سیر کرایا جاتا ہے کشوف صادقہ سے متمتع ہوتا ہے اور مخاطبات حضرت احدیت سے سرفرازی پاتا ہے۔ اور عالم ثانی کے باریک بھیدوں سے مطلع کیا جاتا ہے اور علوم اور معارف سے وافر حصہ دیا جاتا ہے۔ غرض ظاہری اور باطنی نعمتوں سے بہت کچھ اس کو عطا

لوگ اس کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت ہیں یعنی کفار ان کے سامنے لاجواب اور عاجز ہیں اور اُن کی حقانیت کی ہیبت کافروں کے دلوں پر مستولی ہے اور وہ لوگ آپس میں رحم کرتے ہیں وہ ایسے مرد ہیں کہ ان کو یادِ الٰہی سے نہ تجارت روک سکتی ہے اور نہ بیع مانع ہوتی ہے یعنی محبت الٰہیہ میں ایسا کمال تام رکھتے ہیں کہ دنیوی مشغولیاں گو کیسی ہی کثرت سے پیش آویں ان کے حال میں خلل انداز نہیں ہوسکتیں۔ خدائے تعالیٰ اُن کے برکات سے مسلمانوں کو متمتع کرے گا۔ سو اُن کا ظہور رحمت الٰہیہ کے آثار ہیں۔ سو ان آثار کو دیکھو۔ اور اگر ان لوگوں کی کوئی نظیر تمہارے پاس ہے یعنی اگر تمہارے ہم مشربوں اور ہم مذہبوں میں سے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں کہ جو اسی طرح تائیدات الٰہیہ سے مؤید ہوں۔ سو تم اگر سچے ہو تو ایسے لوگوں کو پیش کرو۔ اور جو شخص بجز دین اسلام کے کسی اَور دین کا خواہاں اور جویاں ہوگا وہ دین ہرگز اس سے قبول نہیں کیا جائے گا۔ اور آخرت میں وہ زیان کاروں میں ہوگا۔ یا احمد فاضت الرحمۃ علی شفتیک انا اعطینک الکوثر فصل لربک وانحر۔ واقم الصلوۃ لذکری۔ انت معی وانا معک۔ سرک سری

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 618

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 618

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/618/mode/1up

کیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ ؔ اس درجہ یقین کامل تک پہنچتا ہے کہ گویا مدبر حقیقی کو بچشم خود دیکھتا ہے۔ سو اس طور کی اطلاع کامل جو اسرار سماوی میں اس کو بخشے جاتے ہیں۔ اس کا نام سیر فی اللہ ہے لیکن یہ وہ مرتبہ ہے جس میں محبت الٰہی انسان کو دی تو جاتی ہے لیکن بطریق طبعیت اس میں قائم نہیں کی جاتی یعنی اس کی سرشت

وضعنا عنک وزرک الذی انقض ظھرک ورفعنا لک ذکرک۔ انک علی صراط مستقیم۔ وجیھا فی الدنیا والاٰخرۃ و من المقربین۔ اے احمد تیرے لبوں پر رحمت جاری ہوئی ہے ہم نے تجھ کو معارف کثیرہ عطا فرمائے ہیں۔ سو اُس کے شکر میں نماز پڑھ اور قربانی دے اور میری یاد کے لئے نماز کو قائم کر۔ تو میرے ساتھ اور میں تیرے ساتھ ہوں۔ تیرا بھید میرا بھید ہے۔ ہم نے تیرا وہ بوجھ جس نے تیری کمر توڑ دی اتار دیا ہے اور تیرے ذکر کو اونچا کردیا ہے۔ تو سیدھی راہ پر ہے۔ دنیا اور آخرت میں وجیہہ اور مقرّبین میں سے ہے۔ حماؔ ک اللّٰہ۔ نصرک اللّٰہ۔ رفع اللّٰہ حجّت الاسلام جمال۔ ھو الذی امشاکم فی کل حال۔ لا تحاط اسرار الاولیاء۔ خدا تیری حمایت کرے گا۔ خدا تجھ کو مدد دے گا۔ خدا حجتِ اسلام کو بلند کرے گا۔ جمالِ الٰہی ہے جس نے ہر حال میں تمہارا تنقیہ کیا ہے۔ خدائے تعالیٰ کو جو اپنے ولیوں میں اسرار ہیں وہ احاطہ سے باہر ہیں۔ کوئی کسی راہ سے اس کی طرف کھینچا جاتا ہے اور کوئی کسی راہ سے یعقوب* نے وہ مرتبہ گرفتاری سے پایا جو دوسرے ترک ماسوا سے پاتے ہیں۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدائے تعالیٰ میں دو صفتیں ہیں جو تربیتِعباد

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 619

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 619

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/619/mode/1up

میںؔ داخل نہیں ہوتی۔ بلکہ اس میں محفوظ ہوتی ہے۔

اور تیسری ترقی جو قربت کے میدانوں میں چلنے کے لئے انتہائی قدم ہے۔ اِس

میں مصروف ہیں ایک صفت رفق اور لطف اور احسان ہے اس کا نام جمال ہے۔ اور دوسری صفت قہر اور سختی ہے اس کا نام جلال ہے سو عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ جو لوگ اُس کی درگاہ عالی میں بلائے جاتے ہیں ان کی تربیت کبھی جمالی صفت سے اور کبھی جلالی صفت سے ہوتی ہے اور جہاں حضرت احدیت کے تلطّفات عظیمہ مبذول ہوتے ہیں وہاں ہمیشہ صفت جمالی کے تجلیات کا غلبہ رہتا ہے مگر کبھی کبھی بندگانِ خاص کی صفاتِ جلالیہ سے بھی تادیب اور تربیت منظور ہوتی ہے۔ جیسے انبیاء کرام کے ساتھ بھی خدائے تعالیٰ کا یہی معاملہ رہا ہے کہ ہمیشہ صفات جمالیہ حضرت احدیّت کے ان کی تربیت میں مصروف رہے ہیں لیکن کبھی کبھی ان کی استقامت اور اخلاق فاضلہ کے ظاہر کرنے کے لئے جلالی صفتیں بھی ظاہر ہوتی رہی ہیں اور ان کو شریر لوگوں کے ہاتھ سے انواع اقسام کے دکھ ملتے رہے ہیں تا ان کے وہ اخلاق فاضلہ جو بغیر تکالیف شاقہ کے پیش آنے کے ظاہر نہیں ہوسکتے وہ سب ظاہر ہوجائیں اور دنیا کے لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ وہ کچے نہیں ہیں بلکہ سچے وفادار ہیں۔ وقالوا انّٰی لک ھذا ان ھذا الا سحر یؤثر۔ لن نؤمن لک حتی نری اللّٰہ جھرۃ۔ لا یصدق السفیہ الا سیفۃ الھلاؔ ک۔ عدو لی و عدو لک قل اتی امر اللّٰہ فلا تستعجلوہ۔ اذا جاء نصراللّٰہ الست بربکم قالوا بلٰی۔ اور کہیں گے یہ تجھے کہاں سے حاصل ہوا۔ یہ تو ایک سحر ہے جو اختیار کیا جاتا ہے۔ ہم

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 620

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 620

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/620/mode/1up

آیت میں تعلیم کی گئی ہے۔ جو ؔ فرمایا ہے۔ 33۔ یہ وہ مرتبہ ہے جس میں انسان کو خدا کی محبت اور اس کے غیر کی عداوت سرشت میں داخل ہوجاتی ہے۔ اور بطریق طبعیت اس میں قیام پکڑتی ہے

ہرگز نہیں مانیں گے جب تک خدا کو بچشم خود دیکھ نہ لیں۔ سفیہ بجز ضربۂ ہلاکت کے کسی چیز کو باور نہیں کرتا میرا اور تیرا دشمن ہے۔ کہہ خدا کا امر آیا ہے سو تم جلدی مت کرو جب خدا کی مدد آئے گی تو کہا جائے گا کہ کیا میں تمہارا خدا نہیں کہیں گے کہ کیوں نہیں۔ انی متوفیک ورافعک الی وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الی یوم القیامۃ ولا تھنوا ولا تحزنوا و کان اللّٰہ بکم رء وفًا رحیما۔ الا ان اولیاء اللّٰہ لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون۔ تموت وانا راض منک فادخلوا الجنۃ ان شاء اللّٰہ اٰمنین۔ سلام علیکم طبتم فادخلوھا اٰمنین۔ سلام علیک جعلت مبارکا۔ سمع اللّٰہ انہ سمیع الدعاء انت مبارک فی الدنیا والاخرۃ۔ امراض الناس وبرکاتہ ان ربک فعال لما یرید۔ اذکر نعمتی التی انعمت علیک وانی فضلتک علی العلمین۔ یاایتھا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃً فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی۔ منَّ ربکم علیکم و احسن الی احبابکم وعلمکم مالم تکونوا تعلمون۔ وان تعدوا نعمۃ اللّٰہ لا تحصوھا۔ میں تجھ کو پوری نعمت دوں گا اور اپنی طرف اٹھاؤں گا۔ اور جو لوگ تیری متابعت اختیار کریں یعنی حقیقی طور پر اللہ و رسول کے متبعین میں داخل ہو جائیں ان کو ان کے مخالفوں پر کہ جو انکاری ہیں۔ قیامت تک غلبہ بخشوں گا یعنی

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 621

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 621

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/621/mode/1up

اور ؔ صاحب اس مرتبہ کا اخلاق الٰہیہ سے ایسا ہی بالطبع پیار کرتا ہے کہ جیسے وہ اخلاق حضرت احدیت میں محبوب ہیں اور محبت ذاتی حضرت خداوند کریم کی اِس قدر

وہ لوگ حجت اور دلیل کے رو سے اپنے مخالفوں پر غالب رہیں گے۔ اور صدق اور راستی کے انوار ساطعہ اُنہیں کے شامل حال رہیں گے۔ اور سست مت ہو اور غم مت کرو۔ خدا تم پر بہت ہی مہربان ہے۔ خبردار ہو بہ تحقیق جو لوگ مقربانِ الٰہی ہوتےؔ ہیں ان پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ کچھ غم کرتے ہیں۔ تو اس حالت میں مرے گا کہ جب خدا تجھ پر راضی ہوگا۔ پس بہشت میں داخل ہو انشاء اللہ امن کے ساتھ تم پر سلام تم شرک سے پاک ہوگئے سو تم امن کے ساتھ بہشت میں داخل ہو تجھ پر سلام تو مبارک کیا گیا۔ خدا نے دعا سن لی وہ دعاؤں کو سنتا ہے تو دنیا اور آخرت میں مبارک ہے۔ یہ اس طرف اشارہ فرمایا کہ پہلے اس سے چند مرتبہ الہامی طور پر خدائے تعالیٰ نے اس عاجز کی زبان پر یہ دعا جاری کی تھی کہ رب اجعلنی مبارکا حیث ما کنت۔ یعنی اے میرے رب مجھے ایسا مبارک کرکہ ہرجگہ میں بودوباش کروں برکت میرے ساتھ رہے۔ پھر خدا نے اپنے لطف و احسان سے وہی دعا کہ جو آپ ہی فرمائی تھی قبول فرمائی۔ اور یہ عجیب بندہ نوازی ہے کہ اول آپ ہی الہامی طور پر زبان پر سوال جاری کرنا اور پھر یہ کہنا کہ یہ تیرا سوال منظور کیا گیا ہے اور اِس برکت کے بارہ میں ۸۶۸۱ء یا ۹۶۸۱ء میں بھی ایک عجیب الہام اردو میں ہوا تھا جس کو اِسی جگہ لکھنا مناسب ہے۔ اور تقریب اس الہام کی یہ پیش آئی تھی کہ مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی کہ جو کسی زمانہ میں اس عاجز کے ہم مکتب بھی تھے۔ جب نئے نئے مولوی ہوکر بٹالہ میں آئے اور بٹالیوں کو ان کے خیالات گراں گزرے تو تب ایک شخص نے مولوی صاحب ممدوح سے کسی اختلافی مسئلہ میں بحث کرنے کے لئے اس ناچیز کو بہت مجبور کیا چنانچہ اُس کے کہنے کہانے سے یہ عاجز شام کے وقت اُس شخص

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 622

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 622

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/622/mode/1up

اُس کے دل میں آمیزش کرجاتی ہے ؔ کہ اُس کے دل سے محبت الٰہی کا منفک ہونا مستحیل اور ممتنع ہوتا ہے۔ اور اگر اس کے دل کو اور اس کی جان کو بڑے بڑے امتحانوں اور ابتلاؤں

کے ہمراہ مولوی صاحب ممدوح کے مکان پر گیا اور مولوی صاحب کو معہ اُن کے والد صاحب کے مسجد میں پایا۔ پھر خلاصہ یہ کہ اس احقر نے مولوی صاحب موصوف کی اُس وقت کی تقریر کو سن کر معلوم کرلیا کہ ان کی تقریر میں کوئی ایسی زیادتی نہیں کہ قابل اعتراض ہو اس لئے خاص اللہ کے لئے بحث کو ترک کیا گیا۔ رات کو خداوند کریم نے اپنے الہام اور مخاطبت میں اسی ترک بحث کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ تیرا خدا تیرے اس فعل ؔ سے راضی ہوا اور وہ تجھے بہت برکت دے گا۔ یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ پھر بعد اُس کے عالمِ کشف میں وہ بادشاہ دکھلائے گئے جو گھوڑوں پر سوار تھے۔ چونکہ خالصاً خدا اور اس کے رسول کے لئے انکسار و تذلّل اختیار کیا گیا اس لئے اُس محسن مطلق نے نہ چاہا کہ اُس کو بغیر اجر کے چھوڑے۔ فتدبروا و تفکرّوا۔

پھر بعد اِس کے فرمایا کہ لوگوں کی بیماریاں اور خدا کی برکتیں یعنی مبارک کرنے کا یہ فائدہ ہے کہ اس سے لوگوں کی روحانی بیماریاں دور ہوں گی اور جنکے نفس سعید ہیں وہ تیری باتوں کے ذریعہ سے رشد وہدایت پاجائیں گے اور ایسا ہی جسمانی بیماریاں اور تکالیف جن میں تقدیر مبرم نہیں۔ اور پھر فرمایا کہ تیرا رب بڑا ہی قادر ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اور پھر فرمایا کہ خدا کی نعمت کو یاد رکھ اور میں نے تجھ کو تیرے وقت کے تمام عالموں پر فضیلت دی ہے۔ اس جگہ جاننا چاہئے کہ یہ تفضیل طفیلی اور جزوی ہے یعنی جو شخص حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل طور پرمتابعت کرتا ہے۔ اُس کا مرتبہ خدا کے نزدیک اسکے تمام ہمعصروں سے برتر و اعلیٰ ہے۔ پس حقیقی اور کلی طور پر تمام فضیلتیں حضرت خاتم الانبیاء کو جنابِ احدیت کی طرف سے ثابت ہیں اور

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 623

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 623

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/623/mode/1up

کے سخت صدمات کے پیچ میں دے کر کوفتہ کیا جائے اور نچوڑا جائے تو بجز محبت الٰہیہ کے اور کچھ اس کے دل اور جان سے نہیں نکلتا۔ اسی کے درد سے لذت پاتا

دوسرے تمام لوگ اُس کی متابعت اور اس کی محبت کی طفیل سے علیٰ قدر متعابعت ومحبت مراتب پاتے ہیں۔ فما اعظم شان کمالہ اللّٰھم صل علیہ وآلہ۔ اب بعد اس کے بقیہ ترجمہ الہام یہ ہے۔ اے نفس بحق آرام یافتہ اپنے رب کی طرف واپس چلا آ۔ وہ تجھ پر راضی اور تو اس پر راضی۔ پھر میرے بندوں میں داخل ہو اور میری بہشت میں اندر آجا۔ خدا نے تجھ پر احسان کیا اور تیرے دوستوں سے نیکی کی اور تجھ کو وہ علم بخشا جس کو تو خودبخود نہیں جان سکتا تھا۔ اور اگر تو خدا کی نعمتوں کو گننا چاہے تو یہ تیرے لئے غیر ممکن ہے۔ پھر ان الہامات کے بعد چند الہام فارسی اور اردو میں اور ایک انگریزی میں ہوا۔ وہ بھی بغرض افادۂ طالبین لکھے جاتے ہیں اور وہؔ یہ ہے۔ بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمدیاں برمنار بلند تر محکم افتاد۔ پاک محمد مصطفی نبیوں کا سردار ۔ خدا تیرے سب کام درست کردے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا۔ رب الافواج اس طرف توجہ کرے گا۔ اس نشان کا مدعا یہ ہے کہ قرآن شریف خدا کی کتاب اور میرے مونہہ کی باتیں ہیں۔ جناب الٰہی کے احسانات کا دروازہ کھلا ہے اور اس کی پاک رحمتیں اس طرف متوجہ ہیں۔ دِی ڈیز شَلَ کم وَہن گاڈ شیل ہیلپ ُ یو گلوری بی ٹو دِس لارڈ َ گوڈْ میکر اوف ارتھ اینڈ ہیون۔ وہ دن آتے ہیں کہ خدا تمہاری مدد کرے گا۔ خدائے ذوی الجلال آفریندۂ زمین و آسمان اِن الہامات کے بعد ایک ایسی پیشگوئی چند آریوں کے روبرو جو پنڈت دیانند کے توابع ہیں پوری ہوئی کہ جس کی کیفیت پر مطلع ہونا ناظرین کے لئے خالی فائدہ سے نہیں۔ سو اگرچہُ اس کے لکھنے سے کسی قدر طول ہی ہو۔ لیکن بہ نظرِ خیر خواہی

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 624

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 624

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/624/mode/1up

ہے۔ اور اُسی ؔ کو واقعی اور حقیقی طور پر اپنا دلآرام سمجھتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جس میں تمام ترقیات قرب ختم ہوجاتی ہیں اور انسان اپنے اس انتہائی کمال کو پہنچ جاتا ہے کہ جو فطرت بشری کے لئے مقدر ہے۔

ان لوگوں کے جو عظمت اسلام سے بے خبر ہیں لکھی جاتی ہے اور اس پیشگوئی کے پورے ہونے سے پہلے ایک عجیب طور کی مشکلات اور مکروہات پیش آئے۔ آخر خداوند کریم نے ان سب مشکلات کو دور کرکے بتاریخ دہم ستمبر ۳۸۸۱ ؁ء روز دو شنبہ اس پیشگوئی کو پورا کیا۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ بتاریخ ۶ ستمبر ۳۸۸۱ ؁ء روز پنجشنبہ خداوند کریم نے عین ضرورت کے وقت میں اس عاجز کی تسلی کے لئےؔ اپنے کلام مبارک کے ذریعہ سے یہ بشارت دی کہ بست ویک روپیہ آنے والے ہیں۔ چونکہ اس بشارت میں ایک عجیب بات یہ تھی کہ آنے والے روپیہ کی تعداد سے اطلاع دی گئی اور کسی خاص تعداد سے مطلع کرنا ذات غیب دان کا خاصّہ ہے کسی اور کا کام نہیں ہے۔ دوسری عجیب بر عجیب یہ بات تھی کہ یہ تعداد غیر معہود طرز پر تھی کیونکہ قیمت مقررہ کتاب سے اس تعداد کو کچھ تعلق نہیں۔ پس انہیں عجائبات کی وجہ سے یہ الہام قبل از وقوع بعض آریوں کو بتلایا گیا۔ پھر ۰۱ ستمبر ۳۸۸۱ ؁ء کو تاکیدی طور پر سہ بارہ الہام ہوا کہ بست ویک روپیہ آئے ہیں۔ جس الہام سے سمجھا گیا کہ آج اس پیشگوئی کا ظہور ہوجائے گا۔ چنانچہ ابھی الہام پر شاید تین منٹ سے کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہوگا کہ ایک شخص وزیر سنگھ نامی بیماردار آیا اور اُس نے آتے ہی ایک روپیہ نذر کیا۔ ہر چند علاج معالجہ اس عاجز کا پیشہ نہیں اور اگر اتفاقاً کوئی بیمار آجاوے تو اگر اس کی دوا یاد ہو تو محض ثواب کی غرض سے ِ للہ فِی اللہ دی جاتی ہے۔ لیکن وہ روپیہ اس سے لیا گیا۔ کیونکہ فی الفور خیال آیا کہ یہ اُس پیشگوئی

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 625

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 625

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/625/mode/1up

یہ لطائف خمسہ ہیں کہ جو بطور نمونہ مشتے از خروارے ہم نے لکھے ہیں مگر عجائبات معنوی اس صورت میں اورؔ نیز دوسرے حقائق و معارف اس قدر ہیں کہ اگر اُن کا عشرِ عشیر بھی لکھا جائے تو اس کے لکھنے کے لئے ایک بڑی کتاب چاہئے۔ اور جو اس سورہ مبارکہ میں خواص روحانی ہیں وہ بھی ایسے اعلیٰ و حیرت انگیز ہیں جن کو طالبِ حق

کی ایک جُز ہے۔ پھر بعد اس کے ڈاک خانہ میں ایک اپنا معتبر بھیجا گیا اس خیال سے کہ شاید دوسری جُز بذریعہ ڈاک خانہ پوری ہو۔ ڈاک خانہ سے ڈاک منشی نے جو ایک ہندو ہے جواب میں یہ کہا کہ میرے پاس صرف ایک منی آرڈر پانچ روپیہ کا جس کے ساتھ ایک کارڈ بھی نتھی ہے ڈیرہ غازی خان سے آیا ہے سو ابھی تک میرے پاس روپیہ موجود نہیں جب آئے گا تو دوں گا۔ اس خبر کے سننے سے سخت حیرانی ہوئی اور وہ اضطراب پیشؔ آیا جو بیان نہیں ہوسکتا چنانچہ یہ عاجز اسی تردد میں سربزانو تھا اور اس تصوّر میں تھا کہ پانچ اور ایک مل کر چھ ہوئے اب اکیس کیونکر ہوں گے یا الٰہی یہ کیا ہوا۔ سو اسی استغراق میں تھا کہ یکدفعہ یہ الہام ہوا۔ بست ویک آئے ہیں اس میں شک نہیں۔ اس الہام پر دوپہر نہیں گزرے ہوں گے کہ اسی روز ایک آریہ کہ جو ڈاک منشی کے پہلے بیان کی خبر سن چکا تھا ڈاک خانہ میں گیا اور اس کو ڈاک منشی نے کسی بات کی تقریب سے خبر دی کہ دراصل 3بست روپیہ آئے ہیں اور پہلے یوں ہی مونہہ سے نکل گیا تھا جو میں نے پانچ روپیہ کہہ دیا۔ چنانچہ وہی آریہ 3بیس روپیہ معہ ایک کارڈ کے جو منشی الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ کی طرف سے تھا لے آیا اور معلوم ہوا کہ وہ کارڈ بھی منی آرڈر کے کاغذ سے نتھی نہ تھا اور نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ روپیہ آیا ہوا تھا۔ اور نیز منشی الٰہی بخش صاحب کی تحریر سے جو بحوالہ ڈاک خانہ کے رسید کی تھی یہ بھی

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 626

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 626

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/626/mode/1up

کئی فرقوں اور قوموں میں پیغمبر بھیجے۔ پس وہ لوگ شیطاؔ ن کے دھوکا دینے سے بگڑ گئے اور برے کام ان کو اچھے دکھائی دینے لگے سو وہی شیطان آج اُن سب کا رفیق ہے جو ان کو جادۂ استقامت سے مُنحرف کررہا ہے اور یہ کتاب اس لئے نازل کی گئی ہے کہ تا ان لوگوں کا رفع اختلافات کیا جائے اور تا مومنوں کے لئے وہ ہدایتیں

دیکھ کر اس بات کے اقرار کے لئے مجبور ہوتا ہے کہ بلاشبہ وہ قادر مطلق کا کلام ہے۔ چنانچہ منجملہ ان خواص عالیہ کے ایکؔ خاصہ روحانی سورہ فاتحہ میں یہ ہے کہ دلی حضور

معلوم ہوا کہ منی آرڈر ۶ ستمبر ۳۸۸۱ ؁ء کو یعنی اسی روز جب الہام ہوا قادیان میں پہنچ گیا تھا۔ پس ڈاک منشی کا سارا املاء انشاء غلط نکلا اور حضرت عالم الغیب کا سارا بیان صحیح ثابت ہوا پس اس مبارک دن کی یادداشت کے لئے ایک روپیہ کی شیرینی لے کر بعض آریوں کو بھی دی گئی فالحمد للّٰہ علی اٰلآۂ و نعمآۂ ظاھرھا و باطنھا۔

اے خدا اے چارۂ آزار ما

اے علاج گریہ ہائے زار ما

اے تو مرہم بخش جانِ ریش ما

اے تو دلدارِ دلِ غم کیش ما

از کرم برداشتی ہر بار ما

واز تو ہر بار و برِ اشجار ما

حافظ و ستاری از جود و کرم

بیکساں را یاری از لُطفِ اتم

بندۂؔ درماندہ باشد دل طپاں

ناگہاں درماں براری ازمیاں

عاجزی را ظلمتے گیرد براہ

ناگہاں آری برو صد مہر و ماہ

حسن و خلق و دلبری بر تو تمام

صحبتی بعد از لقائے تو حرام

آں خرد مندی کہ او دیوانہ ات

شمع بزم است آنکہ او پروانہ ات

ہر کہ عشقت در دل و جانش فتد

ناگہاں جانے در ایمانش فتد

عشق تو گردد عیاں بر روئے او

بوئے تو آید زبام و کوئے او

صد ہزاراں نعمتش بخشی ز جود

مہر ومہ را پیشش آری در سجود

خود نشینی از پئے تائید او

روئے تُو یاد اوفتد از دید او

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 627

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 627

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/627/mode/1up

جو پہلے کتابوں میں ناقص رہ گئی تھیں کامل طور پر بیان کی جائیں تا وہ کامل رحمت کا موجب ہو اور حقیقت حال یہ ہے کہ زمین ساری کی ساری مر گئی تھی خدا نے آسمان سے پانی اتارا اور نئے سرے اُس مردہؔ زمین کو زندہ کیا یہ ایک نشانِ صداقت

سے اپنی نماز میں اسکو ورد کرلینا اور اسکی تعلیم کو فی الحقیقت سچ سمجھ کر اپنے دل میں قائم کرلیناتنویر باطن میں نہایت دخل رکھتا ہے۔ یعنی اس سے انشراح خاطر ہوتا ہے اوربشریت کی ظلمت دور ہوتی ہے اور حضرت مبدء فیوض کے فیوض انسان پر

بس نمایاں کارہا کاندر جہاں

می نمائی بہر اکرامش عیاں

خود کنی و خود کنانی کار را

خود دہی رونق تو آں بازار را

خاک را در یکدمے چیزے کنی

کز ظہورش خلق گیرد روشنی

بر کسی چوں مہربانی میکنی

از زمینی آسمانی میکنی

صد شعاعش می دہی چوں آفتاب

تا نماند طالبِ دیں در حجاب

تاز تاریکی برآید عالمے

تا نشاں یابند از کویت ہمے

زیں نشانہا بدرگان کور و کراند

صد نشاں بینند و غافل بگذرند

عشق ظلمت دشمنی باآفتاب

شب پرانِ سرمدی جان در حجاب

آں شہِ عالم کہ نامش مصطفی

سیدِ عشاق حق شمس الضحیٰ

آنکہ ہر نورے طفیل نور اوست

آنکہ منظور خدا منظور اوست

آنکہ بہرِ زندگی آبِ رواں

در معارف ہمچو بحر بیکراں

آنکہ بر صدق و کمالش در جہاں

صد دلیل و حجت روشن عیاں

آنکہ انوارِ خدا بر روئے او

مظہر کارِ خدائے کوئے او

آنکہ جملہ انبیا و راستاں

خادمانش ہمچو خاکِ آستاں

آنکہ مہرش میرساند تا سما

میکند چوں ماہِ تاباں درصفا

میدہد فرعونیاں را ہر زماں

چوں ید بیضائے موسیٰ صد نشاں

آںؔ نبی در چشم ایں کوران زار

ہست یک شہوت پرست و کیں شعار

شرمت آید اے سگ ناچیز وپست

می نہی نامِ یلاں شہوت پرست

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 628

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 628

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/628/mode/1up

اُس کتاب کا ہے پر ان لوگوں کے لئے جو سنتے ہیں یعنی طالب حق ہیں۔ اور پھر فرمایا کہ خدائے تعالیٰ وہ ذات کریم و رحیم ہے جس کا قدیم سے یہ قانون قدرت ہے کہ وہ ہواؤں کو اپنی رحمت سے پہلے یعنی بارش سے پہلے چلاتا ہے یہاں تک کہ جب ہوائیں بھاری بدلیوں کو اٹھالاتی ہیں تو ہم کسی مُردہ شہر کی طرف

وارد ہونے شروع ہوجاتے ہیں اور قبولیتِ الٰہی کے ؔ انوار اس پر احاطہ کرلیتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ ترقی کرتا کرتا مخاطباتِ الٰہیہ سے سرفراز ہوجاتا ہے اور کشوفِ صادقہ اور الہاماتِ واضحہ سے تمتع تام حاصل کرتا ہے اور حضرت الوہیت کے مقربین میں دخل پالیتا ہے اور وہ وہ عجائبات القائے غیبی اور کلام لاریبی اور استجابت ادعیہ اور کشفِ مغیبات

ایں نشانِ شہوتی ہست اے لئیم

کز رخش رخشاں بود نور قدیم

در شبی پیدا شود روزش کند

درخزاں آید دل افروزش کند

مظہرِ انوارِ آں بیچوں بود

در خرد از ہر بشر افزوں بود

اتباعش آں دہد دل را کشاد

کش نہ بیند کس بصد سالہ جہاد

اتباعش دل فروزد جاں دہد

جلوۂ از طاقتِ یزداں دہد

اتباعش سینہ نورانی کند

باخبر از یار پنہانی کند

منطق او از معارف پُر بود

ہر بیانِ او سراسر دُر بود

از کمالِ حکمت و تکمیل دیں

پا نہد بر اوّلین و آخریں

و از کمال صورت و احسن اتم*

جملہ خوباں را کند زیر قدم

تابعش چوں انبیا گردد ز نور

نورش افتد برہمہ نزدیک و دور

شیر حق پُر ہیبت از ربّ جلیل

دشمنان پیشش چو روباہ ذلیل

ایں چنیں شیری بود شہوت پرست

ہوش کن اے رو بہی ناچیز وپست

چیستی اے کورکِ فطرت تباہ

طعنہ بر خوباں بدیں روئے سیاہ

شہوتِ شاں از سر آزادی است

نے اسیرِ آں چو تو آں قوم مست

خود نگہ کن آں یکے زندانی است

وآں دگر داروغۂِ سلطانی است

گرچہ در یکجاست ہر دو را قرار

لیک فرقی ہست دوری آشکار

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 629

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 629

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/629/mode/1up

یعنی جس ضلع میں بباعث اِمساکِ باران زمین مُردہ کی طرح خشک ہوگئی ہو اُن ہواؤں کو ہانک دیتے ہیں پھر اس سے پانی اتارتے ہیں اور اس کے ذریعہؔ سے قسم قسم کے میوے پیدا کردیتے ہیں۔ اسی طرح روحانی مردوں کو موت کے گڑھے سے نکالا کرتے ہیں اور یہ مثال اس لئے بیان کی گئی تو کہ تم دھیان کرو اور اس بات کو سمجھ جاؤ کہ جیسا کہ ہم امساک باران کی شدت کے وقت مردہ زمین کو

اور تائید حضرت قاضی الحاجات اُس ؔ سے ظہور میں آتی ہیں کہ جس کی نظیر اس کے غیر میں نہیں پائی جاتی اگر مخالفین اس سے انکار کریں اور غالباً انکار ہی کریں گے تو اس کا ثبوت اس کتاب میں دیا گیا ہے اور یہ احقر ہریک طالب حق کی تسلی کرنے کو طیار ہے اور نہ صرف مخالفین کو بلکہ اسمی اور رسمی موافقین کو بھی کہ جو بظاہر مسلمان ہیں مگر محجوب

کار پاکاں بر بداں کردن قیاس

کارِ ناپاکاں بود اے بدحواس

کاملاں کز شوق دلبر می روند

باد و صد بارے سبکتر می روند

ایں کمال آمد کہ با فرزند و زن

ازہمہ فرزند و زن یکسو شدن

در جہان و باز بیرون از جہان

بس ہمیں آمد نشانِ کا ملاں

چوں ستوری زیر بار افتد بسر

در تہی رفتن سریع و تیز تر

ایں چنیں اسپی کجا آید بکار

نابکارست ایں در اسپانش مدار

اسپؔ آں اسپ استُ کو بارِ گران

می کشد ہم میردو بس خوش عنان

کاملے گر زن بدارد صد ہزار

صد کنیزک صد ہزاراں کاروبار

پس گر افتد در حضورِ او فتور

نیست آں کامل ز قربت ہست دور

نیست آں کامل نہ مردے زندہ جان

گر خرد مندی ز مردانش مخواں

کامل آں باشد کہ بافرزند و زن

باعیال و جملہ مشغولی تن

باتجارت باہمہ بیع و شرا

یک زماں غافل نگردد از خدا

ایں نشانِ قوّتِ مردانہ است

کاملاں را بس ہمیں پیمانہ است

سوختہ جانے ز عشقِ دلبرے

کے فراموشش کند با دیگرے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 630

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 630

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/630/mode/1up

زندہ کردیا کرتے ہیں ایسا ہی ہمارا قاعدہ ہے کہ جب سخت درجہ پر گمراہی پھیل جاتی ہے اور دل جو زمین سے مشابہ ہیں مرجاتے ہیں تو ہم ان میں زندگی کی روح ڈال دیتے ہیں اور جو زمین پاکیزہ ہے اُس کی تو کھیتی اللہ کے اذن سے جیسی کہ چاہئے نکلتی ہے اور جو خراب زمینؔ ہے اس کی صرف تھوڑی سی کھیتی نکلتی ہے اور عمدہ

مسلمان اور قالب بے جان ہیں جن کو اس ُ پر ظلمتؔ زمانہ میں آیات سماویہ پر یقین نہیں رہا اور الہامات حضرت احدیت کو محال خیال کرتے ہیں اور از قبیل اوہام اور وساوس قرار دیتے ہیں جنہوں نے انسان کی ترقیات کا نہایت تنگ اور منقبض دائر

او نظر دارد بغیر و دل بہ یار

دست درکار و خیال اندر نگار

دل طپاں در فرقتِ محبوب خویش

سینہ از ہجران یاری ریش ریش

اوفتادہ دور از روئے کسے

دل دواں ہر لحظہ در کوئے کسے

خم شدہ از غم چو ابروئے کسے

ہر زماں پیچاں چو گیسوئے کسے

دلبرش در شد بجان و مغز وپوست

راحت جانش بیاد رُوئے اوست

جاں شد اوکے جان فراموشش شود

ہر زماں آید ہم آغوشش شود

دیدہ چوں بر دلبرِ مست اوفتد

ہرچہ غیرِ اوست از دست اوفتد

غیر گو در بر بود دور است دور

یارِ دور افتادہ ہر دم در حضور

کاروبار عاشقاں کارِ جداست

برتر از فکر و قیاسات شماست

قوم عیارست دل در دلبری

چشمِ ظاہر بین بدیوار و دری

جاں خروشاں از پئے مہ پیکرے

بر زباں صد قصہا از دیگرے

فانیاں را مانعے از یار نیست

بچہ او زن برسر شان بارِ نیست

باد و صد زنجیر ہر دم پیش یار

خار با او گل گلِ اندر ہجر خار

تو بیک خارے براری صد فغان

عاشقاں خنداں بپائے جاں فشاں

عاشقاں در عظمتِ مولیٰ فنا

غرقہ دریائے توحید از وفا

کین و مہر شان ہمہ بہر خداست

قہر شان گرہست آں قہر خداست

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 631

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 631

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/631/mode/1up

کھیتی نہیں نکلتی اسی طرح سے ہم پھیر پھیر کر بتاتے ہیں تا جو شکر کرنے والے ہیں شکر کریں۔ اور پھر فرمایا کہ خدائے تعالیٰ وہ ذاتِ کریم و رحیم ہے کہ جو بروقت ضرورت ایسی ہوائیں چلاتا ہے جو بدلی کو ابھارتی ہیں پھر خدائے تعالیٰ اس بدلی کو جس طرح چاہتا ہے آسمان میں پھیلا دیتا ہے اور اس کو تہہ بہ تہہ رکھتا ہے۔

بنارکھا ہے کہ جو صرف عقلی اٹکلوں اور قیاسی ڈھکوسلوں پر ختم ہوتا ہے اور دوسری طرف خدائے تعالیٰ کو بھی نہایت درجہ کاؔ ؔ کمزور اور ضعیف سا خیال کررہے ہیں۔ سو یہ عاجزان سب صاحبوں کی خدمت میں بادب تمام عرض کرتا ہے کہ اگراب تک تاثیرات قرآنی سے انکار ہے اور اپنے جہل قدیم پر اصرار ہے تواب نہایت نیک موقعہ ہے کہ یہ احقر خادمین

آن کہؔ در عشقِ احد محو وفناست

ہرچہ زو آید ز ذات کبریاست

فانی است و تیر اُو تیر حق است

صید او دراصل نخچیرِ حق است

آنچہ می باشد خدا را از صفات

خود دمد در فانیاں آں پاک ذات

خوئے حق گردد در ایشان آشکار

از جمال و از جلال کردگار

لطفِ شان لطفِ خدا ہم قہر شاں

قہر حق گردد نہ ہمچو دیگراں

فانیاں ہستند از خود دور تر

چوں ملائک کارکن از دادگر

گر فرشتہ قبض جانے میکند

یا کرم بر ناتوانے میکند

ایں ہمہ سختی و نرمی از خداست

او زِ خواہشہائے نفسِ خود جداست

ہم چنیں میدان مقامِ انبیاء

واصلان و فاصلاں از ماسواء

فانی اند و آلۂ ربانی اند

نور حق در جامۂ انسانی اند

سخت پنہاں در قبابِ حضرت اند

گم زِ خود در رنگ و آبِ حضرت اند

اخترانِ آسمانِ زیب و فر

رفتہ از چشمِ خلائق دور تر

کس ز قدر نور شاں آگاہ نیست

زانکہ ادنیٰ را باعلیٰ راہ نیست

کور کورانہ زند رائے دنی

چشمِ کورش بے خبر زاں روشنی

ہم چنیں تو اے عدوِّ مصطفیٰ

مے نمائی کورئ خود را بما

بر قمر عوعو کُنی از سگ رگے

نور مہ کمتر نہ گردد زیں سگے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 632

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 632

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/632/mode/1up

پھر تو دیکھتا ہے کہ اس کے بیچ میں سے مینہ نکلتا ہے پھر جن بندوں کو اپنے بندوں میں سے اس مینہ کاپانی پہنچاتا ہے تو وہ خوش وقت ہوجاتے ہیں اور ناگہانی طورؔ پرخدا ان کے غم کوخوشی کے ساتھ مُبدّل کردیتا ہے اور مینہ کے اترنے سے پہلے ان کو بباعث نہایت سختی کے کچھ امید باقی نہیں رہتی پھر یکدفعہ خدائے تعالیٰ ان کی دستگیری فرماتا ہے یعنی ایسے وقت میں بارانِ رحمت نازل ہوتاہے جب

اپنے ذاتی تجارب سے ہریک منکر کی پوری پوری اطمینان کرسکتا ہے اس لئے مناسب ہے کہ طالب حق بن کر اس احقر کی طرف رجوع کریں اور جو جو خواص کلام الٰہی کا اوپر ذکر کیا گیا ہے اس کو بچشم خود دیکھ لیں اور تاریکی اور ظلمت میں سے نکل کر نور حقیقی میں داخل ہوجائیں۔ اب تک تو یہ عاجز زندہ ہے مگر وجود خاکی کی کیا بنیاد اور جسم فانی کا کیا اعتماد۔ پس مناسب ہے کہ اس عام اعلان کو سنتے ہی احقاقِ حق اور ابطال باطل کی طرف توجہ کریں۔ تا اگر دعویٰ اس احقر کا بہ پایۂ ثبوت نہ پہنچ سکے تو منکر اور روگردان رہنے کے لئے ایک وجہ موجہ پیدا ہوجائے۔ لیکن اگر اس عاجز کے قول کی صداقت جیسا کہ چاہئے بہ پایۂ ثبوت پہنچ جائے تو خدا سے ڈر کر اپنے باطل خیالات سے باز آئیں اور طریقۂ حقّہ اسلام پر قدم

مصطفیٰ آئینۂ روئے خداست

منعکس دروے ہماں خوئے خداست

گر ندیدستی خدا او را بہ بیں

من رأنی قد رأی الحق ایں یقین

آنکہ آویزد بمستانِ خدا

خصم او گردد جنابِ کبریا

دست حق تائید ایں مستان کند

چوں کسی بادست حق دستاں کند

منزلِ شاں برتر از صد آسماں

بس نہاں اندر نہاں اندر نہاں

پا فشردہ در وفائے دلبرے

وازسرش برخاک افتادہ سرے

جانِ خود را سوختہ بہر نگار

زندہ گشتہ بعد مرگ صد ہزار

صاحب چشم اندر آنجا بے تمیز

چشمِ کوراں خود نباشد ہیچ چیز

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 633

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 633

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/633/mode/1up

لوگوں کے دل ٹوٹ جاتے ہیں اور مینہ برسنے کی کوئی امید باقی نہیں رہتی اور پھر فرمایا کہ تو خدا کی رحمت کی طرف نظر اٹھا کر دیکھ اور اس کی رحمت کی نشانیوں پر غور کر کہ وہ کیونکر زمین کو اس کے مرنے کے پیچھے زندہ کرتا ہے بے شک وہی خدا ہے جس کی یہ بھی عادت ہےؔ کہ جب لوگ روحانی طور پر مرجاتے ہیں اور سختی اپنی نہایت کو پہنچ جاتی ہے تو اسی طرح وہ ان کو بھی زندہ کرتا ہے اور وہ ہرچیز پر قادر اور توانا ہے اسی نے آسمان سے پانی اتارا پھر ہریک وادی اپنے اپنے اندازہ اور قدر کے موافق بہ نکلا یعنی ہریک شخص نے اپنی استعداد کے موافق فائدہ اٹھایا اور پھر فرمایا کہ وہ رسول اس وقت آیا کہ جب جنگل اور دریا میں فساد ظاہر ہوگیایعنی تمام روئے زمین پر ظلمت اور ضلالت پھیل گئی اور کیا اُمّی لوگ اور کیا اہل کتاب اور اہل علم سب کے سب بگڑ گئے اور کوئی حق پر قائم نہ رہا اور یہ سب فساد اس لئے ہوا کہ لوگوں کے دلوں سے خلوص اور صدق اٹھ گیا اور اُن کے اعمال خدا کے لئے نہ رہے بلکہ اُن میں

جماویں تا اس جہان میں ذلت اور رسوائی سے اور دوسرے جہان میں عذاب اور عقوبتؔ سے نجات پاویں۔ سو دیکھو اے بھائیو اے عزیزو اے فلاسفرو اے پنڈتو اے پادریو اے آریو اے نیچریو اے براہم دھرم والو کہ میں اس وقت صاف صاف اور علانیہ کہہ رہا ہوں کہ اگر کسی کو شک ہو اور خاصۂ مذکورۂ بالا کے ماننے میں کچھ تامل ہو تو وہ بلاتوقف اس عاجز کی طرف رجوع کریں اور صبوری اور صدق دلی سے کچھ عرصہ تک صحبت میں رہ کر بیانات مذکورۂ بالا کی حقیت کو بچشم خود دیکھ لے ایسا نہ ہو کہ اس ناچیز کے گذرنے

روئےؔ شان آں آفتابے کاندراں

چشم مرداں خیرہ ہم چوں شپراں

تو خودی زن رائے تو ہمچوں زناں

ناقص ابنِ ناقص ابنِ ناقصاں

خوب گر نزدُِ تو زِشت است و تباہ

پس چہ خوانم نام تو اے روسیاہ

کوریت صد پردہ ہا بر تو فگند

وایں تعصبہائے تو بیخت بکند

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 634

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 634

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/634/mode/1up

بہت سا خلل واقعہ ہوگیا اور وہ سب رو بدنیا ہوگئے اور رو بحق نہ رہے اس لئے امداد الٰہی اُن سے منقطع ہوگئی۔ سو خدا نے اپنی حجت پوری کرنے کے لئے ان کے لئے اپنا رسول بھیجا تا ان کو ان کے بعض عملوں کا ؔ مزہ چکھاوے اور تا ایسا ہو کہ وہ رجوع کریں۔ کہہ زمین پر سیر کرو پھر دیکھو کہ جو تم سے پہلے کافر اور سرکش گزر چکے ہیں ان کا کیا انجام ہوا اور اکثر ان میں سے مشرک ہی تھے کیا انہوں نے کبھی نہیں دیکھا کہ ہمارا یہی دستور اور طریق ہے کہ ہم خشک زمین کی طرف پانی روانہ کردیا کرتے ہیں پھر اس سے کھیتی نکالتے ہیں تا ان کے چارپائے اور خود وہ کھیتی کو کھاویں اور مرنے سے بچ جائیں سو تم کیوں نظر غور سے ملاحظہ نہیں کرتے تاتم اس بات کو سمجھ جاؤ کہ وہ کریم و رحیم خدا کہ جو تم کو جسمانی موت سے بچانے کے لئے شدّتِ قحط اور اِمساک باران کے وقت بارانِ رحمت نازل کرتا ہے وہ کیونکر شدت ضلالت کے وقت جو روحانی قحط ہے زندگی کا پانی نازل کرنے سے جو اس کا کلام ہے تم سے دریغ کرے۔

کے بعد کوئی نامنصف کہے کہ کب مجھ کو کھول کر کہا گیا کہ تا میں اس جستجو میں پڑتا۔ کب کسی نے اپنی ذمہ داری سے دعویٰ کیا تا میں ایسے دعویٰ کا ثبوت اس سے مانگتا۔ سو اے بھائیو۔ اے حق کے طالبو ادھر دیکھو کہ یہ عاجز کھول کر کہتا ہے اور اپنے خدا پر توکل کرکے جس کے انوار دن رات دیکھ رہا ہے اس بات کا ذمہ وار بنتا ہے کہ اگر تم دلی صدق اور صفائی سے حق کے جویاں اور خواہاں ہوکر صبر اور ارادت سے کچھ مدت تک اس احقر کی صحبت میں زندگی بسر کرو گے تو یہ بات تم پر بدیہی طور پر

اےؔ بسا محبوبِ آں ربِّ جلیل

پشت از کوری حقیر است و ذلیل

اے بسا کس خوردہ صد جامِ فنا

پیش ایں چشمت ُ پر از حرص و ہوا

گر نماندے از وجودِ تو نشاں

نیک بودے زیں حیاتِ چوں سگاں

زاغ گر زادی بجایت مادرت

نیک بود از فطرت بد گوہرت

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 635

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 635

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/635/mode/1up

اور پھر فرمایا کہ ہم نے رات اور دن دو نشانیاں بنائی ہیں یعنی انتشار ضلالت جو رات سے مشابہ ہے اور انتشار ہدایت جو دن سے مشابہؔ ہے۔ رات جو اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے تو دن کے چڑھنے پر دلالت کرتی ہے اور دن جب اپنے کمال کو پہنچ جاتا ہے تو رات کے آنے کی خبر دیتا ہے سو ہم نے رات کا نشان محو کرکے دن کا نشان رہنما بنایا یعنی جب دن چڑھتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے اندھیرا تھا۔ سو دن کا نشان ایسا روشن ہے کہ رات کی حقیقت بھی اسی سے کھلتی ہے اور رات کا نشان یعنی ضلالت کا زمانہ اس لئے مقرر کیا گیا کہ دن کے نشان یعنی انتشارِ ہدایت

کھل جائے گی کہ فی الحقیقت وہ خواص روحانی جن کا اس جگہ ذکر کیا گیا ہے سورۃفاتحہ اور قرآن شریف میں پائے جاتے ؔ ہیں سو کیا مبارک وہ شخص ہے کہ جو اپنے دل کو تعصب اور عناد سے خالی کرکے اور اسلام کے قبول کرنے پر مستعد ہوکر اس مطلب کے حصول کے لئے بصدق و ارادت توجہ کرے اور کیا بدقسمت وہ آدمی ہے کہ اس قدر واشگاف باتیں سن کر پھر بھی نظر اٹھا کر نہ دیکھے اور دیدہ و دانستہ خدائے تعالیٰ کی لعنت اور غضب کا مورد بن جاوے۔ مرگ نہایت نزدیک ہے اور بازی اجل سر پر ہے۔ اگر جلد تر خدا سے ڈر کر اس عاجز کی باتوں کی طرف نظر نہیں کرو گے اور اپنی تسلی اور تشفی حاصل کرنے کے لئے صدق اور ارادت سے قدم نہیں اٹھاؤ گے تو میں ڈرتا ہوں کہ آپ لوگوں کا ایسا ہی انجام نہ ہو جیسا پنڈت دیانند آریوں کے سرگروہ کا انجام ہوا کیونکہ اس احقر نے ان کو ان کی وفات سے ایک مدت پہلے راہِ راست کی

زانکہؔ کذب و فسق و کفرت در سراست

وایں نجاست خواریت زاں بدتراست

تو ہلاکی اے شقی سرمدی

زانکہ از جانِ جہاں سرکش شدی

اے در انکار و شکے از شاہِ دیں

خادمان و چاکرانش ر ابہ بیں

کس ندیدہ از بزرگانت نشاں

نیست در دستُِ تو بیش از داستاں

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 636

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 636

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/636/mode/1up

کی خوبی اور زیبائی اسی سے ظاہر ہوتی ہے کیونکہ خوبصورت کا قدر و منزلت بدصورت سے ہی معلوم ہوتا ہے اس لئے حکمت الٰہیہ نے یہی چاہا کہ ظلمت اور نور علیٰ سبیل التبادل دنیا میں دَور کرتے رہیں۔ جب نور اپنے کمال کو پہنچ جائے تو ظلمت قدم بڑھاوے۔ اور جب ظلمت اپنے انتہائی درجہ تک پہنچ جائے تو پھر نور اپنا پیارا چہرہ دکھاوے سو استیلا ظلمت کا نور کے ظہور پر ایک دلیل ہے اور استیلانور کا ظلمت کے آنے کا ایک سبیل ہے۔ ہر کمالِ رَا زَوَالے مثل مشہور ہے سو اسؔ آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جب ظلمت اپنے کمال کو پہنچ گئی اور برّ وبحر ظلمت

طرف دعوت کی اور آخرت کی رسوائی یاد دلائی اور ان کے مذہب اور اعتقاد کا سراسر باطل ہونا براہینِ قطعیہ سے اُن پر ظاہر کیا اور نہایت عمدہ اور کامل دلائل سے بادب تمام اُن پر ثابت کردیا کہ دہریوں کے ؔ بعد تمام دنیا میں آریوں سے بدتر اور کوئی مذہب نہیں کیونکہ یہ لوگ خدائے تعالیٰ کی سخت درجہ پر تحقیر کرتے ہیں کہ اس کو خالق اور رب العالمین نہیں سمجھتے اور تمام عالم کو یہاں تک کہ دنیا کے ذرّہ ذرّہ کو اس کا شریک ٹھہراتے ہیں اور صفت قدامت اور ہستی حقیقی میں اس کے برابر سمجھتے ہیں اگر ان کو کہو کہ کیا تمہارا پرمیشر کوئی روح پیدا کرسکتا ہے یا کوئی ذرّہ جسم کا وجود میں لاسکتا ہے یا ایسا ہی کوئی اور زمین و آسمان بھی بنا سکتا ہے یا کسی اپنے عاشق صادق کو نجاتِ ابدی دے سکتا ہے اور بار بار کتا بِلّا بننے سے بچا سکتا ہے یا اپنے کسی محب خالص کی توبہ قبول کرسکتا ہے تو ان سب باتوں کا یہی جواب ہے کہ ہرگز نہیں اس کو یہ قدرت ہی

لیکؔ گر خواہی بیابنگر زِما

صد نشانِ صدق شانِ مصطفی

ہاں بیا اے دیدہ بستہ از حسد

تا شعاعش پردۂ تو بر درد

صادقاں را نور حق تابد مدام

کاذباں مردند و شدُ تر کی تمام

مصطفی مہرِ درخشانِ خداست

بر عدوش لعنتِ ارض و سماست

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 637

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 637

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/637/mode/1up

سے بھرگئے توہم نے مطابق اپنے قانون قدیم کے نورکے نشان کوظاہر کیا تادانشمند لوگ قادر مطلق کی قدرت نمایاں کو ملاحظہ کرکے اپنے یقین اور معرفت کو زیادہ کریں۔ اورپھر بعد اس کے فرمایا3الخ ۱؂ اِس سورۃ کا حقیقی مطلب جوایک بھاری صداقت پر مشتمل ہے جیسا کہ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں اس قاعدۂ کُلّی کا بیان فرمانا ہے کہ دنیا میں کب اورکس وقت میں کوئی کتاب اور پیغمبر بھیجا جاتا ہے۔ سو وہ قاعدہ یہ ہے کہ جب دلوں پر ایک ایسی غلیظ ظلمت طاری ہوجاتی ہے کہ

نہیں کہ ایک ذرہ اپنی طرف سے پیدا کرسکے اور نہ اس میں یہ رحیمیت ہے کہ کسی اوتار یا کسی رکھی یا منی کو یا کسی ایسے کو بھی کہ جس پر وید اترا ہو ہمیشہ کے لئے نجات دے اور پھر اس کا مرتبہ ملحوظ رکھ کر مکتی خانہ سے باہر دفعہ نہ کرے اور اپنے اُس پیارے کو ؔ جس کے دل میں پرمیشر کی پریت اور محبت رچ گئی ہے بار بارُ کتابِلا بننے سے بچاوے۔

مگر افسوس کہ پنڈت صاحب نے اس نہایت ذلیل اعتقاد سے دست کشی اختیار نہ کی اور اپنے تمام بزرگوں اور اوتاروں وغیرہ کی اہانت اور ذلت جائز رکھی مگر اس ناپاک اعتقاد کو نہ چھوڑا۔ اور مرتے دم تک یہی ان کا ظن رہا کہ گو کیسا ہی اوتار ہو رام چندر ہو یا کرشن ہو یا خود وہی ہو جس پر وید اترا ہے پرمیشور کو ہرگز منظور ہی نہیں کہ اس پر دائمی فضل کرے بلکہ وہ اوتار بناکر پھر بھی انہیں کو کیڑے مکوڑے ہی بناتا رہے گا وہ کچھ ایسا سخت دل ہے کہ عشق اور محبت کا اس کو ذرا پاس نہیں اور ایسا ضعیف ہے کہ اس میں خودبخود بنانے کی ذرہ طاقت نہیں۔

ایںؔ نشان لعنت آمد کایں خساں

ماندہ اندر ظلمتی چوں شپراں

نے دلِ صافی نہ عقلے راہ بیں

راندۂ درگاہِ رب العالمیں

جان کنی صد کن بکینِ مصطفی

رہ نہ بینی جُز بدینِ مصطفی

تانہ نورِ احمد آید چارہ گر

کس نمی گیرد ز تاریکی بدر

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 638

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 638

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/638/mode/1up

یکبارگی تمام دل رو بدنیا ہوجاتے ہیں اور پھر رو بدُنیا ہونے کی شامت سے ان کے تمام عقائد و اعمال و افعال و اخلاق و آداب اور نیّتوں اور ہمتوں میں اختلال کلّی راہ پاجاتا ہے اور محبتِ الٰہیہ دلوں سے بکُلّی اٹھ جاتی ہے اور یہ عام وبا ایسا پھیلتا ہے کہ تمام زمانہ پر رات کی طرح اندھیرا چھا جاتا ہے تو ایسےؔ وقت میں یعنی جب وہ اندھیرا اپنے کمال کو پہنچ جاتا ہے رحمتِ الٰہیہ اس طرف متوجہ ہوتی ہے کہ لوگوں کو اس اندھیری سے خلاصی بخشے اور جن طریقوں سے ان کی اصلاح قرین مصلحت ہے ان طریقوں کو اپنے کلام میں بیان فرماوے سو اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے

یہ پنڈت صاحب کا خوش عقیدہ تھا جس کو پرزور دلائل سے رد کرکے پنڈت صاحب پر یہ ثابت کیا گیا تھا کہ خدائے تعالیٰ ہرگز ادھورا اور ناقص نہیں بلکہ مبدء ہے تمام فیضوں کا اور جامع ہے تمام خوبیوں کا اور مستجمع ہے جمیع صفاتِ کاملہ کا اور واحد لاشریک ہے اپنی ذات میں اورؔ صفات ؔ میں اور معبودیت میں اور پھر اس کے بعد دو دفعہ بذریعہ خط رجسٹری شدہ حقیّت دین اسلام سے بدلائل واضحہ ان کو متنبہ کیا گیا اور دوسرے خط میں یہ بھی لکھا گیا کہ اسلام وہ دین ہے جو اپنی حقیّت پر دوہرا ثبوت ہر وقت موجود رکھتا ہے ایک معقولی دلائل جن سے اُصولِ حقہ اسلام کی دیوار روئیں کی طرح مضبوط اور مستحکم ثابت ہوتی ہیں۔ دوسری آسمانی آیات و ربانی تائیدات اور غیبی مکاشفات اور رحمانی الہامات و مخاطبات اور دیگر خوارق عادات جو اسلام کے کامل متبعین سے ظہور میں آتے ہیں جن سے حقیقی نجات ایسے جہان میں سچے ایماندار کو

ازؔ طفیلِ اوست نور ہر نبی

نام ہر مرسل بنام او جلی

آں کتابے ہمچو خور دادش خدا

کز رخش روشن شد ایں ظلمت سرا

ہست فرقاں طیب و طاہر شجر

از نشانہا میدہد ہردم ثمر

صد نشانِ راستی دروَے پدید

نے چو دینِ تو بنایش برشنید

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 639

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 639

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/639/mode/1up

آیت ممدوحہ میں اشارہ فرمایا کہ ہم نے قرآن کو ایک ایسی رات میں نازل کیا ہے جس میں بندوں کی اصلاح اور بھلائی کے لئے صراط مستقیم کی کیفیت بیان کرنا اور شریعت اور دین کی حدود کو بتلانا از بس ضروری تھا یعنی جب گمراہی کی تاریکی اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ جیسی سخت اندھیری رات ہوتی ہے تو اس وقت رحمت الٰہی اس طرف متوجہ ہوئی کہ اس سخت اندھیری کے اٹھانے کے لئے ایسا قوی ُ نور نازل کیا جائے کہ جو اس اندھیری کو دور کرسکے۔ سو خدا نے قرآن شریف کو نازل کرکے اپنے بندوں کو وہ عظیم الشان نور عطا کیا کہ جو شکوک اور شبہات کی اندھیری کو دور کرتا ہے اور روشنی کو پھیلاتا ہے۔ اس جگہ جاننا چاہئے کہ اس باطنی لیلۃؔ القدر کو ظاہری لیلۃ القدر سے کہ جو عندالعوام مشہور ہے کچھ منافات نہیں بلکہ عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ وہ ہریک کام مناسبت سے کرتا ہے اور حقیقت باطنی کے لئے

ملتی ہے۔ یہ دونوں قسم کے ثبوت اسلام کے غیر میں ہرگز نہیں پائے جاتے اور نہ ان کو طاقت ہے کہ اس کے مقابلہ پر کچھ دم مارسکیں لیکن اسلام میں وجود اس کا متحقق ہے سو اگر ان دونوں قسم کے ثبوت میں سے کسی قسم کے ثبوت میں شک ہو تو اسی جگہ ؔ قادیان میں آکر اپنی تسلی کرلینی چاہئے اور یہ بھی پنڈت صاحب کو لکھا گیا کہ معمولی خرچ آپ کی آمدورفت کا اور نیز واجبی خرچ خوراک کا ہمارے ذمہ رہے گا اور وہ خط اُن کے بعض آریوں کو بھی دکھلایا گیا اور دونوں رجسٹریوں کی ان کی دستخطی رسید بھی آگئی پر انہوں نے حُبِّ دنیا اور ناموس دُنیوی کے باعث سے

پُرؔ ز اعجاز است آں عالی کلام

نور یزدانی درُو رخشد تمام

از خدائی ہا نمودہ کار را

بر دریدہ پردۂ کفار را

آفتاب است و کند چوں آفتاب

گرنہ کوری بیابنگر شتاب

اے مزوّر گر بیائی سوئے ما

واز وفا رخت افگنی در کوئے ما

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 640

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 640

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/640/mode/1up

جو ظاہری صورت مناسب ہو وہ اس کو عطا فرماتا ہے۔ سو چونکہ لیلۃ القدر کی حقیقت باطنی وہ کمال ضلالت کا وقت ہے جس میں عنایت الٰہیہ اصلاح عالم کی طرف متوجہ ہوتی ہے سو خدائے تعالیٰ نے بغرض تحقق مناسبت اس زمانہ ضلالت کی آخری جز کو جس میں ضلالت اپنے نکتہ کمال تک پہنچ گئی تھی خارجی طور پر ایک رات میں مقرر کیا اور یہ رات وہ رات تھی جس میں خداوند تعالیٰ نے دنیا کو کمال ضلالت میں پاکر اپنے پاک کلام کو اپنے نبی پر اتارنا ارادہ فرمایا۔ سو اس جہت سے نہایت درجہ کی برکات اس رات میں پیدا ہوگئیں یا یوں کہو کہ قدیم سے اسی ارادۂ قدیم کے رو سے پیدا تھی اور پھر اُس خاص رات میں وہ قبولیت اور برکت ہمیشہ کے لئے باقی رہی اور پھر بعد اس کے فرمایا کہ وہ ظلمت کا وقت کہ جو اندھیری رات سے مشابہ تھا جس کی تنویر کے لئے کلام الٰہی کا نور اترا اُس ؔ میں بباعث نزولِ قرآن

اس طرف ذرا بھی توجہ نہ کی یہاں تک کہ جس دنیا سے انہوں نے پیار کیا اور ربط بڑھایا تھا آخر بصد حسرت اس کو چھوڑ کر اور تمام درہم و دینار سے بمجبوری جدا ہوکر اس دارالفنا سے کوچ کرگئے اور بہت سی غفلت اور ظلمت اور ضلالت اور کفر کے پہاڑ اپنے سر پر لے گئے اور اُن کے سفر آخرت کی خبر بھی کہ جو اُن کو تیس اکتوبر ۳۸۸۱ ؁ء میں پیش آیا تخمیناً تین ماہ پہلے خداوند کریم نے اس عاجز کو دے دی تھی چنانچہ یہ خبر بعض آریہ کو بتلائی بھی گئی تھی۔ خیر یہ سفر تو ہریک کو درپیش ہی ہے اور کوئی آگے اور کوئی پیچھے اس مسافر خانہ کو چھوڑنے والا ہے مگر یہ افسوس ایک بڑا افسوس ہے

و ؔ از سر صدق و ثبات و غم خوری

روزگارے در حضور ما بری

عالمے بینی زِ ربانی نشاں

سوئے رحماں خلق و عالم راکشاں

گر خلافِ واقعہ گفتم سخن

راضیم گر تو سرم بُری زِ تن

راضیم گر خلق بردارم کشند

از سرِ کیں با صد آزارم کشند

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 641

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 641

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/641/mode/1up

کی ایک رات ہزار مہینہ سے بہتر بنائی گئی۔ اور اگر معقولی طور پر نظر کریں تب بھی ظاہر ہے کہ ضلالت کا زمانہ عبادت اور طاعت الٰہی کے لئے دوسرے زمانہ سے زیادہ تر موجب قربت و ثواب ہے پس وہ دوسرے زمانوں سے زیادہ تر افضل ہے اور اس کی عبادتیں بباعث شدت و صعوبت اپنی قبولیت سے قریب ہیں اور اس زمانہ کے عابد رحمت الٰہی کے زیادہ تر مستحق ہیں کیونکہ سچے عابدوں اور ایمانداروں کا مرتبہ ایسے ہی وقت میں عنداللہ متحقّق ہوتا ہے کہ جب تمام زمانہ پر دنیا پرستی کی ظلمت طاری ہو اور سچ کی طرف نظر ڈالنے سے جان جانے کا اندیشہ ہو اور یہ بات خود ظاہر ہے کہ جب دل افسردہ اور مردہ ہوجائیں اور سب کسی کو جیفۂ دنیا ہی پیارا دکھائی دیتا ہو اور ہر طرف اس روحانی موت کی زہرناک ہوا چل رہی

کہ پنڈت صاحب کو خدا نے ایسا موقع ہداؔ یت پانے کا دیا کہ اس عاجز کو ان کے زمانہ میں پیدا کیا مگر وہ باوصف ہرطور کے اعلام کی ہدایت پانے سے بے نصیب گئے۔ روشنی کی طرف ان کو بلایا گیا مگر انہوں نے کم بخت دنیا کی محبت سے اُس روشنی کو قبول نہ کیا اور سر سے پاؤں تک تاریکی میں پھنسے رہے۔ ایک بندہ خدا نے بارہا اُن کو اُن کی بھلائی کے لئے اپنی طرف بلایا مگر انہوں نے اُس طرف قدم بھی نہ اٹھایا اور یونہی عمر کو بے جا تعصبوں اور نخوتوں میں ضائع کرکے حباب کی طرح ناپدید ہوگئے حالانکہ اس عاجز کے دس ہزار روپیہ کے اشتہار کا اول نشانہ وہی تھے اور اس وجہ سے ایک مرتبہ رسالہ برادر ھند میں بھی ان کے لئے اعلان چھپوایا گیا تھا مگر ان کی طرف سے کبھی صدا نہ اٹھی یہاں تک کہ خاک میں یا راکھ میں جاملے۔

راضیمؔ گر باشدم ایں کیفرے

خوں رواں برخاک افتادہ سرے

راضیم گر مال و جان و تن رود

و آنچہ از قسمِ بلا برمن رود

گردرُو غم رفتہ باشد بر زباں

راضیم بر ہر سزائے کاذباں

لیک گر توزیں سخن پیچی سرے

بر تو ہم نفرین ربِّ اکبرے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 642

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 642

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/642/mode/1up

ہو اور محبت الٰہیہ یک لخت دلوں سے اٹھ گئی ہو اور رو بحق ہونے میں اور وفادار بندہ بننے میں کئی نوع کے ضرر متصوّر ہوں نہ کوئی اس راہ کا رفیق نظر آوؔ ے اور نہ کوئی اس طریق کا ہمدم ملے بلکہ اس راہ کی خواہش کرنے والے پر موت تک پہنچانے والی مصیبتیں دکھائی دیں اور لوگوں کی نظر میں ذلیل اور حقیر ٹھہرتا ہو تو ایسے وقت میں ثابت قدم ہوکر اپنے محبوب حقیقی کی طرف رخ کرلینا اور ناہموار عزیزوں اور دوستوں اور خویشوں اور اقارب کی رفاقت چھوڑ دینا اور غربت اور بے کسی اور تنہائی کی تکلیفوں کو اپنے سر پر قبول کرلینا اور دکھ پانے اور ذلیل ہونے اور مرنے کی کچھ پرواہ نہ کرنا حقیقت میں ایسا کام ہے کہ بجز اولوالعزم مرسلوں اور نبیوں اور صدیقوں کے جن پر فضلِ احدیت کی بارشیں ہوتی ہیں اور جو اپنے محبوب

سو اؔ ے بھائیو اُنہیں پنڈت صاحب کے حال سے نصیحت پکڑو اور اپنے نفسوں پر ظلم نہ کرو سچی نجات کو ڈھونڈو تا اسی جہان میں اس کی برکتیں پاؤ۔ سچی اور حقیقی نجات وہی ہے جس کی اس جہان میں برکتیں ظاہر ہوتی ہیں اور قادر قوی کا وہی پاک کلام ہے کہ جو اسی جگہ طالبوں پر آسمانی راہ کھولتا ہے سو اپنے آپ کو دھوکا مت دو اور جس دین کی حقیت اسی دنیا میں نظر آرہی ہے اس پاک دین سے روگردان ہوکر اپنے دل پر تاریکی کا دھبہ مت لگاؤ ہاں اگر مقابلہ اور معارضہ کرنے کی طاقت ہے تو اسی سورۂ فاتحہ کے کمالات کے مساوی کوئی دوسرا کلام پیش کرو اور جو کچھ سورۂ فاتحہ کے خواص روحانی کی بابت اس عاجز نے لکھا ہے وہ کوئی سماعی بات نہیں ہے بلکہ یہؔ عاجز اپنے ذاتی تجربہ

زیںؔ سخنہا ہر کہ روگرداں بود

آں نہ مردے رہزن مرداں بود

اے خدا بیخِ خبیثانے برار

کز جفا باحق نمیدارند کار

دل نمیدارند و چشم و گوش ہم

باز سر پیچاں ازاں بدرِ اتم

دین شان بر قصہ ہا دارد مدار

گفتگوہا بر زباں دل بے قرار

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 643

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 643

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/643/mode/1up

کی طرف بلااختیار کھینچے جاتے ہیں اور کسی سے انجام پذیر نہیں ہوسکتا اور حقیقت میں ایسے وقت کی ثابت قدمی اور صبر اور عبادت الٰہی کا ثواب بھی وہ ملتا ہے کہ جو کسی دوسرے وقت میں ہرگز نہیں مل سکتا۔ سو اسی جہت سے لیلۃ القدرکی ایسے ہی زمانہ میں بنا ڈالی گئی کہ جس میں بباعث سخت ضلالت کے نیکی پر قائم ہونا کسی بڑے جوانمرد کا کام تھا یہی زمانہ ہے جس میں جوانمردوں کی قدرومنزلت ظاہر ہوتی ہے اور نامردؔ وں کی ذلت بہ پایۂ ثبوت پہنچتی ہے یہی پرظلمت زمانہ ہے جو اندھیری رات کی طرح ایک خوفناک صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ سو اس طغیانی کی حالت میں کہ جو بڑے ابتلا کا وقت ہے وہی لوگ ہلاکت سے بچتے ہیں جن پر عنایات الٰہیہ کا ایک خاص سایہ ہوتا ہے پس انہیں موجبات سے خدائے تعالیٰ نے اسی زمانہ کی ایک جز کو جس میں ضلالت کی تاریکی غایت درجہ تک پہنچ چکی تھی لیلۃ القدر مقرر کیا اور پھر بعد اس کے جن سماوی برکات سے اس ضلالت کا تدارک کیا جاتا ہے

سے بیان کرتا ہے کہ فی الحقیقت سورۂ فاتحہ مظہرِ انوارِ الٰہی ہے اس قدر عجائبات اس سورۃ کے پڑھنے کے وقت دیکھے گئے ہیں کہ جن سے خدا کے پاک کلام کا قدر ومنزلت معلوم ہوتا ہے اس سورہ مبارکہ کی برکت سے اور اس کے تلاوت کے التزام سے کشفِ مغیبات اس درجہ تک پہنچ گیا کہ صدہا اخبار غیبیہ قبل از وقوع منکشف ہوئیں اور ہریک مشکل کے وقت اس کے پڑھنے کی حالت میں عجیب طور پر رفع حجاب کیا گیا اور قریب تین ہزار کے کشف صحیح اور رؤیا صادقہ یاد ہے کہ جو اب تک اس عاجز

فرقؔ بسیار است در دید و شنید

خاک بر فرقِ کسے کیں را ندید

دید را کُن جستجو اے ناتمام

ورنہ درکار خودی بس سردو خام

بر سماعت چوں ہمہ باشد بنا

آں نیفزاید جوئے صدق و صفا

صد ہزاراں قصہ از روئے شنید

نیست یکساں باجوئے کاں ہست دید

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 644

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 644

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/644/mode/1up

اس کی کیفیت ظاہر فرمائی اور بیان فرمایا کہ اس ارحم الراحمین کی یوں عادت ہے کہ جب ظلمت اپنے کمال تک پہنچ جاتی ہے اور خط تاریکی کا اپنے انتہائی نقطہ پر جا ٹھہرتا ہے یعنی اس غایت درجہ پر جس کا نام باطنی طور پر لیلۃ القدر ہے۔ تب خداوند تعالیٰ رات کے وقت میں کہ جس کی ظلمت باطنی ظلمت سے مشابہ ہے عالم ظلمانی کی طرف توجہ فرماتا ہے اور اس کے اذن خاص سے ملائکہ اور روح القدس زمین پر اترتے ہیں اور خلق اللہ کی اصلاح کے لئے خدا تعالیٰ کا نبی ظہور فرماتا ہے تب وہ نبی آسمانی نور پاکر خلق اللہ کو ظلمت سے باہر نکالتا ہے اور جب تکؔ وہ ُ نور اپنے کمال تک نہ پہنچ جائے تب تک ترقی پر ترقی کرتا جاتا ہے اور اسی قانون کے مطابق وہ اولیاء بھی پیدا ہوتے ہیں کہ جو ارشاد اور ہدایت خلق کے لئے بھیجے جاتے ہیں کیونکہ وہ انبیا کے وارث ہیں سو ان کے نقش قدم پر چلائے جاتے ہیں۔

سے ظہور میں آچکے اور صبح صادق کے کھلنے کی طرح پوری بھی ہوچکی ہیں۔ اور دو سو جگہ سے زیادہ قبولیت دعا کے آثار نمایاں ایسےؔ نازک موقعوں پر دیکھے گئے جن میں بظاہر کوئی صورت مشکل کشائی کی نظر نہیں آتی تھی اور اسی طرح کشف قبور اور دوسرے انواع اقسام کے عجائبات اسی سورہ کے التزامِ ورد سے ایسے ظہور پکڑتے گئے کہ اگر ایک ادنیٰ پرتوہ اُن کا کسی پادری یا پنڈت کے دل پر پڑجائے تو یک دفعہ حُبِّ دنیا سے قطع تعلق کرکے اسلام کے قبول کرنے کے لئے مرنے پر آمادہ ہوجائے۔ اسی طرح بذریعہ الہاماتِ صادقہ کے جو پیشگوئیاں اس عاجز پر ظاہر ہوتی

دیںؔ ہمان باشد کہ نورش باقی است

و از شراب دید ہر دم ساقی است

دل مدہ الّا بخوبی کز جمال

و انماید بر تو آیاتِ کمال

کورئ خود ترک کن ماہے بہ بیں

اے گدا برخیز واں شاہے بہ بیں

رو بہ بین و قد بہ بین و خدبہ بیں

واز محاسنہائے خوباں صد بہ بیں

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 645

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 645

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/645/mode/1up

اب جاننا چاہئے کہ خدائے تعالیٰ نے اِس بات کو بڑے پُرزور الفاظ سے قرآن شریف میں بیان کیا ہے کہ دنیا کی حالت میں قدیم سے ایک مدّوجزر واقعہ ہے اور اسی کی طرف اشارہ ہے جو فرمایا ہے33۔۱؂ یعنی اے خدا کبھی تو رات کو دن میں اور کبھی دن کو رات میں داخل کرتا ہے یعنی ضلالت کے غلبہ پر ہدایت اور ہدایت کے غلبہ پر ضلالت کو پیدا کرتا ہے۔ اور حقیقت اس مدوجزر کی یہ ہے کہ کبھی بامراللہ تعالیٰ انسانوں کے دلوں میں ایک صورت انقباض اور محجوبیت کی پیدا ہوجاتی ہے اور دنیا کی آرائشیں ان کو عزیز معلوم ہونے لگتی ہیں اور تمام ہمتیں ان کی اپنی دنیا کے درست کرنے میں اور اس کے عیش حاصل کرنے کی طرف مشغول ہوجاتی ہیں۔ یہ ؔ ظلمت کا زمانہ ہے جس کے انتہائی نقطہ کی رات لیلۃ القدر کہلاتی ہے اور وہ لیلۃ القدر ہمیشہ آتی

رہی ہیں جن میں سے بعض پیشگوئیاں مخالفوں کے سامنے پوری ہوگئی ہیں اور پوری ہوتی جاتی ہیں اس قدر ہیں کہ اس عاجز کے خیال میں دو انجیلوں کی ضخامت سے کم نہیں اور یہ عاجز بطفیل متابعت حضرت رسولِ کریم مخاطباؔ ت حضرت احدیّت میں اس قدر عنایات پاتا ہے کہ جس کا کچھ تھوڑا سا نمونہ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۳ کے عربی الہامات وغیرہ میں لکھا گیا ہے۔ خداوند کریم نے اسی رسول مقبول کی متابعت اور محبت کی برکت سے اور اپنے پاک کلام کی پیروی کی تاثیر سے اس خاکسار کو اپنے مخاطبات سے خاص کیا ہے اور علومِ لدُنیہ سے سرفراز فرمایا ہے۔

یکدمؔ از خود دور شو بہرخدا

تا مگر نوشی تو کاساتِ لقا

دین حق شہر خدائے امجد است

داخلِ او در امانِ ایزد است

در دمے نیک و خوش اسلوبی کند

ہم چو خود زیبا و محبوبی کند

جانبِ اہلِ سعادت پے بزن

تا شوی روزے سعید اے جانِ من

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 646

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 646

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/646/mode/1up

ہے مگر کامل طور پر اس وقت آئی تھی کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کا دن آپہنچا تھا کیونکہ اس وقت تمام دنیا پر ایسی کامل گمراہی کی تاریکی پھیل چکی تھی جس کی مانند کبھی نہیں پھیلی تھی اور نہ آئندہ کبھی پھیلے گی جب تک قیامت نہ آوے۔ غرض جب یہ ظلمت اپنے اس انتہائی نقطہ تک پہنچ جاتی ہے کہ جو اس کے لئے مقدر ہے تو عنایت الٰہیہ تنویر عالم کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور کوئی صاحب نور دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا جاتا ہے اور جب وہ آتا ہے تو اس کی طرف مستعد روحیں کھینچی چلی آتی ہے اور پاک فطرتیں خودبخود رو بحق ہوتی چلی جاتی ہیں اور جیسا کہ ہرگز ممکن نہیں کہ شمع کے روشن ہونے سے پروانہ اس طرف رخ نہ کرے ایسا ہی یہ بھی غیر ممکن ہے کہ بروقت ظہور کسی صاحبِ ُ نور کے صاحب فطرت سلیمہ کا اس کی طرف بارادت متوجہ نہ ہو۔ ان آیات میں جو خدائے تعالیٰ نے بیان

اور بہت سے اسرار مخفیہ سے اطلاع بخشی ہے اور بہت سے حقائق اور معارف سے اس ناچیز کے سینہ کو پُر کردیا ہے اور بارہا بتلا دیا ہے کہ یہ سب عطیّات اور عنایات اور یہ سب تفضّلات اور احسانات اور یہ سب تلطّفات اور توجہات اور یہ سب انعامات اور تائیدات اور یہ سب مکالمات اور مخاطبات بیمن متابعت و محبت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ہیںؔ ۔

جمالِ ہم نشین درمن اثر کرد

وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم

اب وہ واعظانِ انجیل اور پادریانِ گُم کردہ سبیل کہاں اور کدھر ہیں کہ جو پرلے درجہ کی

اےؔ بصد انکاروکیں از کودنی

رو درِ حق زن چرا سر می زنی

نالہا کُن کے خداوندِ یگاں

بگسلاں از پائے من بند گراں

تا مگر زاں نالہائے درد ناک

دست غیبی گیردت ناگہہ زِ خاک

بے عنایاتِ خدا کار است خام

پُختہ داند ایں سخن را والسلام

منہ

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 647

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 647

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/647/mode/1up

فرمایا ہے جو بنیاد دعویٰ ہے اُس کا خلاصہ یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے وقت ایک ایسی ظلمانی حالتؔ پر زمانہ آچکا تھا کہ جو آفتاب صداقت کے ظاہر ہونے کے متقاضی تھے اسی جہت سے خدائے تعالیٰ نے قرآنِ شریف میں اپنے رسول کا بار بار یہی کام بیان کیا ہے کہ اس نے زمانہ کو سخت ظلمت میں پایا اور پھر ظلمت سے ان کو باہر نکالا جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔ 3 3 ۔۱؂ الجزو نمبر ۳۱ سورۃ ابراہیم3 333۔۲؂ الجزو نمبر ۳۔ 3 33۔۳؂ الجزو نمبر ۲۲۔33 3۔۴؂ الجزو نمبر۶ سورۂ مائدہ۔

ہٹ دھرمی کو اختیار کرکے محض کینہ اور عناد اور شیطانی سیرت کی راہ سے عوام کالانعام کو یہ کہہ کر بہکاتے تھے کہ آنحضرت صلی۱للہ علیہ وسلم سے کوئی پیشگوئی ظہور میں نہیں آئی سو اب منصفان حق پسند خود سوچ سکتے ہیں کہ جس حالت میں حضرت خاتم الانبیاء کے ادنیٰ خادموں اور کمترین چاکروں سے ہزارہا پیشگوئیاں ظہور میں آتی ہیں اور خوارق عجیبہ ظاہر ہوتے ہیں تو پھر کس قدر بے حیائی اور بے شرمی ہے کہ کوئی کور باطن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں سے انکار کرے اور پادریوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیؔ پیشگوئیوں کے بارہ میں اس وجہ سے فکر پڑی کہ توریت کتاب استثناء باب ہژدہم آیت بست و دوم میں سچے نبی کی یہ نشانی لکھی ہے کہ اس کی پیشگوئی پوری ہوجائے۔ سو جب پادریوں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہزارہا خبریں قبل از وقوع بطور پیشگوئی فرمائی ہیں اور اکثر پیشگوئیوں سے قرآن شریف بھی بھرا ہوا ہے اور وہ سب پیشگوئیاں اپنے وقتوں پر پوری بھی ہوگئیں تو ان کے دل کو یہ دھڑکا شروع ہوا کہ ان پیشگوئیوں پر نظر ڈالنے سے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 648

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 648

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/648/mode/1up

333 33۔۱؂ الجزو نمبر ۸۲۔ یعنی یہ ہماری کتاب ہے جس کو ہم نے تیرے پر اس غرض سے نازل کیا ہے کہ تا تو لوگوں کو کہ جو ظلمت میں پڑے ہوئے ہیں نور کی طرف نکالے سوؔ خدا نے اُس زمانہ کا نام ظلمانی زمانہ رکھا اور پھر فرمایا کہ خدا مومنوں کا کارساز ہے ان کو ظلمات سے نور کی طرف نکال رہا ہے اور پھر فرمایا کہ خدا اور اس کے فرشتے مومنوں پر درود بھیجتے ہیں تا خدا ان کو ظلمت سے نور کی طرف نکالے اور پھر فرمایا کہ ظلمانی زمانہ کے تدارک کے لئے خدائے تعالیٰ کی طرف سے نور آتا ہے وہ نور اس کا رسول اور اس کی کتاب ہے خدا اس نور سے ان لوگوں کو راہ دکھلاتا ہے کہ جو اس کی خوشنودی کے خواہاں ہیں سو ان کو خدا ظلمات سے نور کی طرف نکالتا ہے اور سیدھی راہ کی

نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بدیہی طور پر ثابت ہوتی ہے اور یا یہ کہنا پڑتا ہے کہ جو کچھ توریت یعنی کتاب استثنا۸۱ باب ۱۲ و ۲۲ آیت میں سچے نبی کی نشانی لکھی ہے وہ نشانی صحیح نہیں ہے سو اس پیچ میں آکر نہایت ہٹ دھرمی سے ان کو یہ کہنا پڑا کہ وہ پیشگوئیاں اصل میں فراستیں ہیں کہ اتفاقاً پوری ہوگئی ہیں لیکن چونکہ جس درخت کی بیخ مضبوط اور طاقتیں قائم ہیں وہ ہمیشہ پھل لاتا ہے۔ اس جہت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیاں اور دیگر خوارق صرف اسی زمانہ تک محدود نہیں تھے بلکہ اب بھی ان کا برابر سلسلہ جاری ہے اگر ؔ کسی پادری وغیرہ کو شک و شبہ ہو تو اس پر لازم و فرض ہے کہ وہ صدق اور ارادت سے اس طرف توجہ کرے پھر دیکھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیاں کس قدر اب تک بارش کی طرح برس رہی ہیں لیکن اس زمانہ کے متعصب پادری اگر خودکشی کا ارادہ کریں تو کریں مگر یہ امید اُن پر بہت ہی کم ہے کہ وہ طالب صادق بن کر کمال ارادت اور صدق سے اس نشان کے جویاں ہوں۔ بہرحال دوسرے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 649

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 649

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/649/mode/1up

ہدایت دیتا ہے۔ اور پھر فرمایا کہ خدا نے اپنی کتاب اور اپنا رسول بھیجا وہ تم پر کلام الٰہی پڑھتا ہے تا وہ ایمانداروں اور نیک کرداروں کو ظلمات سے نور کی طرف نکالے پس خدائے تعالیٰ نے ان تمام آیات میں کھلا کھلی بیان فرما دیا کہ جس زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھیجے گئے اور قرآن شریف نازل کیا گیا اُس زمانہ پر ضلالت اور گمراہی کی ظلمت طاری ہورہی تھی اور کوئی ایسی قوم نہیں تھی کہ جو اس ظلمت سے بچی ہوئی ہو پھر بقیہ ترجمہ آیات ممدوحہ بالا کا یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تمہاری طرف ایک رسولؔ بھیجا ہے کہ تمہاری حالت معصیت اور ضلالت پر شاہد ہے اور یہ رسول اُسی رسول کی مانند ہے کہ جو فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا اور ہم نے اس کلام کو ضرورت حقہ کے ساتھ اتارا ہے اور ضرورت حقہ کے ساتھ یہ اترا ہے یعنی یہ کلام ِ فی حدِّ ذَاتہٖ حق اور راست ہے اور اس کا آنا بھی حقاًّ و ضرورتاً ہے

لوگوں پر یہ بات واضح رہے کہ جس حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برکات اب بھی آفتاب کی طرح روشن ہیں اور دوسرے کسی نبی کی برکات کا نشان نہیں ملتا۔ تو اس صورت میں لازم ہے کہ اگر ایسے متعصب اور دنیا پرست پادری کسی بازار یا کسی شہر یا گاؤں میں کسی کو برخلاف اس حق الامر کے بہکاتے نظر آویں تو یہی موقعہ اس کتاب کا ان کے سامنے کھول کر رکھ دیا جاوے۔ کیونکہ یہ کتاب دس ہزار روپیہ کے اشتہار پر تالیف کی گئی ہے اور اس سے معارضہ کرنے والا دس ہزار روپیہ پاسکتا ہے پس شرم اور حیا سے نہایت بعید ہے کہ جو لوگ نبوتِ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منکر ہیں وہ پنڈت ہوں یا پادری آریہ ہوں یا برہموں وہ صرف زبان سے طریق فضول گوئی کا اختیار رکھیں اور جو دلائل قطعیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور رسالت پر ناطق ہورہی ہیں ان کے جو ۱ب کا کچھ فکر نہ کریں یہ عاجز خواہ نخواہ ان کو دینِ اسلام کے قبول کرنے کے لئے مجبور نہیں کرتا لیکن اگر مقابلہ و معارضہ سے عاجز رہیں اور جو کچھ آسمانی نشان اور عقلی دلائل حقیتِ اسلام

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 650

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 650

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/650/mode/1up

یہ نہیں کہ فضول اور بے فائدہ اور بے وقت نازل ہوا ہے اے اہل کتاب تمہارے پاس ایسے وقت میں ہمارا رسول آیا ہے کہ جبکہ ایک مدت سے رسولوں کا آنا منقطع ہو رہا تھا۔ سو وہ رسول َ فترت کے زمانہ میں آکر تم کو وہ راہِ راست بتلاتا ہے جس کو تم بھول گئے تھے تا تم یہ نہ کہو کہ ہم یونہی گمراہ رہے اور خدا کی طرف سے کوئی بشیر و نذیر نہ آیا جو ہم کو متنبہ کرتا ۔ سو اب سمجھو کہ وہ بشیر نذیر جس کی ضرورت تھی آگیا اور خدا جو ہر چیز پر قادر ہے اُس نے تم کو گمراہ پاکر اپنا کلام اور اپنا رسول بھیج دیا۔ اور تم آگ کے گڑؔ ھے کے کنارہ تک پہنچ چکے تھے سو خدا نے تم کو اے ایماندارو نجات دی اسی طرح وہ اپنے نشان کو بیان فرماتا ہے تا تم ہدایت پا جاؤ اور تا عذاب کے نازل ہونے پر گمراہ لوگ یہ نہ کہیں کہ اے خداتو نے قبل از عذاب اپنا رسول کیوں نہ بھیجا تا ہم تیری آیتوں کی پیروی کرتے اور مومن بن جاتے اور

پر دلالت کررہے ہیں اُن کی نظیر اپنے مذہب میں ؔ پیش نہ کرسکیں تو پھر یہی لازم ہے کہ جھوٹ کو چھوڑ کر سچے مذہب کو قبول کرلیں۔

اب پھر ہم اپنی اصل تقریر کی طرف رجوع کرکے لکھتے ہیں کہ جس قدر میں نے اب تک لطائف و معارف و خواص سورۃ فاتحہ لکھے ہیں وہ بدیہی طور پر بے مثل و مانند ہیں مثلًا جو شخص ذرا منصف بن کر اول اُن صداقتوں کے اعلیٰ مرتبہ پر غور کرے جو کہ سورۃ فاتحہ میں جمع ہیں اور پھر اس لطائف اور نکات پر نظر ڈالے جن پر سورہ ممدوحہ مشتمل ہے اور پھر حسنِ بیان اور ایجازِ کلام کو مشاہدہ کرے کہ کیسے معانی کثیرہ کو الفاظ قلیلہ میں بھرا ہؤا ہے اور پھر عبارت کو دیکھیئے کہ کیسی آب وتاب رکھتی ہے اور کسی قدر روانگی اور صفائی اور ملائمت اس میں پائی جاتی ہے کہ گویا ایک نہایت مصفّٰی اور شفّاف پانی ہے کہ بہتا ہؤا چلا جاتا ہے اور پھر اُس کی روحانی تاثیروں کو دل میں سوچے کہ جو بطور خارقِ عادت دلوں کو ظلمات بشریت سے صاف کرکے موردِ انوارِ حضرت الوہیت بناتی ہیں جن کو ہم اس کتاب کے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 651

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 651

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/651/mode/1up

اگر خدا صالح لوگوں کے ذریعہ سے گمراہوں کا تدارک نہ فرماتا اور بعض کو بعض سے دفعہ* نہ کرتا تو زمین بگڑ جاتی پر یہ خدا کا فضل ہے کہ وہ گمراہی کے پھیلنے کے وقت اپنی طرف سے ہادی بھیجتا ہے کیونکہ تفضل اور احسان اُس کی عادت ہے اورتجھ کو ہم نے اس لیے بھیجا ہے کہ تمام عالم پر نظرِ رحمت کریں اور نجات کا راستہ اُن پر کھول دیں اور تا تُو لوگوں کو کہ غفلت کی حالت میں پڑے ہوئے ہیں حق کی طرف توجہ دلاوے اوراُن کو خبردار کرے۔ کیا تُو یہ خیال کرتا ہے کہ اکثر لوگ اُن میں سے سُنتے اور سمجھتے ہیں نہیں یہؔ تو چارپایوں کی طرح ہیں بلکہ اُن سے بھی بدتر اور اگر خدا ان لوگوں سے

ہر موقعہ پر ثابت کرتے چلے جاتے ہیں228تو اُس پر قرآنِ شریف کی شانِ بلند جس سے انسانی طاقتیں مقابلہ نہیں کرسکتیں ایسی وضاحتؔ سے کھل سکتی ہے جس پر زیادت متصور نہیں اور اگر باوجود مشاہدہ اِن کمالات کے پھر بھی کسی کور باطن پر عدیم المثالی اُس کلامِ مقدس کی مشتبہ رہے تو اُس کا علاج قرآنِ شریف نے آپ ہی ایسا کیا

228یہ ؔ عاجز اِس مقام تک لکھ چُکا تھا کہ شہاب الدین نامی ایک شخص موحّد ساکن تھہ غلام نبی نے آکر بیان کیا کہ مولوی غلام علی صاحب اور مولوی احمد اللہ صاحب امرتسری اور مولوی عبدالعزیز صاحب اور بعض دوسرے مولوی صاحبان اس قسم کے الہام سے کہ جو رسولوں کے وحی سے مشابہ ہے باصرارِ تمام انکار کررہے ہیں بلکہ اِن میں سے بعض مولوی صاحباؔ ن مجانین کے خیالات سے اُس کو منسوب کرتے ہیں۔ اور اُن کی اِس بارہ میں حجت یہ ہے کہ اگر یہ الہام حق اور صحیح ہے تو صحابہ جناب پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم اِس کے پانے کے لئے احق اور اَولیٰ تھے حالانکہ اُن کا پانا متحقق نہیں۔ اب یہ احقر عباد عرض کرتا ہے کہ اگر یہ اعتراض جو شہاب الدین موحّد نے مولوی صاحبوں کی طرف سے بیان کیا ہے حقیقت میں اُنہیں کے مونہہ سے نکلا ہے تو بجواب اِس کے ہر یک طالبِ صادق کو اور نیز حضراتِ ممدوحہ کو یاد رکھنا چاہیئے کہ عدم علم سے عدمِ شَے لازم نہیں آتا۔ کیا ممکن نہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اِس قِسم کے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 652

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 652

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/652/mode/1up

ان کے گناہوں کا مواخذہ کرتا تو زمین پر ایک بھی زندہ نہ چھوڑتا اور خدا وہ ذات کریم و رحیم ہے کہ جو بارش سے پہلے ہواؤں کو چھوڑتا ہے پھر ہم ایک پاک پانی آسمان سے اتارتے ہیں تا اس سے مری ہوئی بستی کو زندہ کریں اور پھر بہت سے آدمیوں اور ان کے چارپایوں کو پانی پلاویں اور ہم پھیر پھیر کر مثالیں بتلاتے ہیں تا لوگ یاد کرلیں کہ نبیوں کے بھیجنے کا یہی اصول ہے اور اگر ہم چاہتے تو ہریک بستی کے لئے جُدا جُدا رسول بھیجتے مگر یہ اس لئے کیا گیا کہ تا تجھ سے بھاری کوششیں ظہور میں آویں یعنی جب ایک مرد ہزاروں کا کام کرے گا تو بلاشبہ وہ بڑا اجر پائے گا اور

الہامات پائے ہوں مگر مصلحتِ وقت سے عام طور پر ان کو شائع نہیں کیا اور خدائے تعالیٰ کو ہریک نئے زمانہ میں نئے نئے مصالحہ ہیں پس نبوت کے عہد میں مصلحت ربانی کا یہی تقاضا تھا کہ جو غیر نبی ہے اُس کے الہامات نبی کی وحی کی طرح قلمبند نہ ہوں تا غیر نبی کے کلام سے تداخل واقعہ نہ ہوجائے لیکن اُس زمانہ کے بعد جس قدر اولیاء اور صاحب کمالات باطنیہ گزرے ہیں اُن سب کے الہامات مشہور و متعارف ہیں کہ جوہریک عصر میں قلمبند ہوتے چلے آئے ہیں اس کی تصدیق کے لئے شیخ عبدالقادر جیلانی اور مجدد الف ثانی کےؔ مکتوبات اور دوسرے اولیاء اللہ کی کتابیں دیکھنی چاہئیں کہ کس کثرت سے ان کے الہامات پائے جاتے ہیں بلکہ امام ربانی صاحب اپنے مکتوبات کی جلد ثانی میں جو مکتوب پنجاہ و یکم ہے اس میں صاف لکھتے ہیں کہ غیر نبی بھی مکالمات و مخاطبات حضرتِ احدیّت سے مشرّف ہوجاتا ہے اور ایسا شخص محدّث کے نام سے موسوم ہے اور انبیاء کے مرتبہ سے اُس کا مرتبہ قریب واقعہ ہوتا ہے ایسا ہی شیخ عبدالقادر جیلانی

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 653

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 653

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/653/mode/1up

یہ امر اس کی افضلیت کا موجب ہوگا سو چونکہ آنحضرتؔ صلی اللہ علیہ وسلم افضل الانبیاء اور سب رسولوں سے بہتر اور بزرگتر تھے اور خدائے تعالیٰ کو منظور تھا کہ جیسے آنحضرت اپنے ذاتی جوہر کے رو سے فی الواقعہ سب انبیاء کے سردار ہیں ایسا ہی ظاہری خدمات کے رو سے بھی ان کا سب سے فائق اور برتر ہونا دنیا پر ظاہر اور روشن ہوجائے اس لئے خدائے تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو کافہ بنی آدم کے لئے عام رکھا تا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محنتیں اور کوششیں عام طور پر ظہور میں آویں۔ موسیٰ اور ابن مریم کی طرح ایک خاص

صاحب نے فتوح الغیب کے کئی مقامات میں اس کی تصریح کی ہے۔ اور اگر اولیاء اللہ کے ملفوظات اور مکتوبات کا تجسس کیا جائے تو اس قسم کے بیانات ان کے کلمات میں بہت سے پائے جائیں گے اور اُمتِ محمدیہ میں محدّثیّت کا منصب اِس قدر بکثرت ثابت ہوتا ہے جس سے انکار کرنا بڑے غافل اور بے خبر کا کام ہے۔ اس امت میں آج تک ہزارہا اولیاء اللہ صاحب کمال گذرے ہیں جن کی خوارق اور کرامات بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ثابت اور متحقق ہوچکی ہیں اور جو شخص تفتیش کرے اس کو معلوم ہوگا کہ حضرتِ احدیّت نے جیسا کہ اس امت کاخیر الامم نام رکھا ہے ایسا ہی اس امت کے اکابر کو سب سے زیادہ کمالات بھی بخشے ہیں جو کسی طرح چھپ نہیں سکتے اور اُن سے انکار کرنا ایک سخت درجہ کی حق پوشی ہے۔ اورؔ نیز ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ الزام کہ صحابہ کرام سے ایسے الہامات ثابت نہیں ہوئے بالکل بے جا اور غلط ہے کیونکہ احادیث صحیحہ کے رو سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے الہامات اور خوارق بکثرت ثابت ہیں۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ کا ساریہ کے لشکر کی خطرناک حالت سے باعلام الٰہی مطلع ہوجانا جس کو بیہقی نے ابن عمر سے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 654

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 654

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/654/mode/1up

قوم سے مخصوص نہ ہوں اور تاہریک طرف سے اور ہریک گروہ اور قوم سے تکالیفِ شاقہ اٹھا کر اس اجر عظیم کے مستحق ٹھہرجائیں کہ جو دوسرے نبیوں کو نہیں ملے گا۔ اور پھر فرمایا کہ خدا وہ ہے کہ جو راتؔ کے بعد دن اور دن کے بعد رات لاتا ہے تا جس نے یاد کرنا ہو وہ یاد کرے یا شکر کرنا ہو تو شکر کرے یعنی دن کے بعد رات کا آنا اور رات کے بعد دن کا آنا اس بات پر ایک نشان ہے کہ جیسے ہدایت کے بعد ضلالت اور غفلت کا زمانہ آجاتا ہے ایسا ہی خدا کی طرف سے یہ بھی مقرر ہے کہ ضلالت اور غفلت کے بعد ہدایت کا زمانہ آتا ہے اور پھر فرمایا کہ خدا وہ ذات قادر مطلق ہے جس نے بشر کو اپنی قدرتِ کاملہ سے پیدا کیا پھر اُس کے لئے نسل اور رشتہ مقرر کردیا

یاد رکھو کہ ہرگز بنا نہ سکو گے سو اُس آگ سے ڈرو جو کافروں کے ؔ لئے طیار ہے۔ جس کا ایندھن کافر آدمی اور ان کے بت ہیں جونارِ جہنم کو اپنے گناہوں اور شرارتوں سے افروختہ کررہے ہیں یہ قول فیصل ہے کہ جو خدائے تعالیٰ نے منکرینِ

روایت کیا ہے اگر الہام نہیں تھا تو اور کیا تھا اور پھر اُن کی یہ آواز کہ یا ساریہ الجبل الجبل مدینہ میں بیٹھے ہوئے مونہہ سے نکلنا اور وہی آواز قدرتِ غیبی سے ساریہ اور اس کے لشکر کو دور دراز مسافت سے سنائی دینا اگر خارقِ عادت نہیں تھی تو اور کیا چیز تھی۔ اسی طرح جناب علی مرتضٰی کرم اللہ وجہہ کے بعض الہامات و کشوف مشہور و معروف ہیں ماسوا اس کے میں پوچھتا ہوں کہ کیا خدائے تعالیٰ کا قرآن شریف میں اس بارہ میں شہادت دینا تسلی بخش امر نہیں ہے کیا اس نے صحابہ کرام کے حق میں نہیں فرمایا 3۔۱؂ پھر جس حالت میں خدائے تعالیٰ اپنے نبی کریم کے اصحاب کو امم سابقہ سے جمیع کمالات میں بہتر و بزرگتر ٹھہراتا ہے اور دوسری طرف بطور مشتے نمونہ از خروارے پہلی اُمتوں کے کاملین کا حال بیان کرکے کہتا ہے کہ مریم صدیقہ والدہ عیسیٰ اور ایسا ہی والدہ حضرت موسیٰ اور نیز حضرت مسیح کے حواری اورؔ نیز خضر جن میں سے کوئی بھی نبی نہ تھا یہ جب ملہم من اللہ تھے اور بذریعہ وحی اعلام اسرار غیبیہ سے مطلع کئے جاتے تھے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 655

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 655

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/655/mode/1up

اِسی طرح وہ انسان کی روحانی پیدائش پر بھی قادر تھا یعنی اس کا قانون قدرت روحانی پیدائش میں بعینہٖ جسمانی پیدائش کی طرح ہے کہ اول وہ ضلالت کے وقت میں کہ جو عدم کا حکم رکھتا ہے کسی انسان کو روحانی طور پر اپنے ہاتھ سے پیداؔ کرتا ہے اور پھر اس کے متبعین کو کہ جو اس کی ذُرّیت کا حکم رکھتے ہیں بہ برکت متابعت اس کی کے روحانی زندگی عطا فرماتا ہے سو تمام مرسل روحانی آدم ہیں اور اُن کی اُمت کے نیک لوگ اُن کی روحانی نسلیں ہیں اور روحانی اور جسمانی سلسلہ بالکل آپس میں تطابق رکھتا ہے اور خدا کے ظاہری اور باطنی قوانین میں کسی نوع کا

اعجازِ قرآنی کے ملزم کرنے کے لئے آپ فرما دیا ہے۔ اب اگر کوئی ملزم اور لاجواب رہ کر پھر بھی قرآن شریف کی بلاغت بے مثل سے منکر رہے اور بیہودہ گوئی اور ژاژ خائی

سو اب سوچنا چاہئیے کہ اس سے کیا نتیجہ نکلتا ہے کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اُمت محمدیہ کے کامل متبعین اُن لوگوں کی نسبت بوجہ اولیٰ ملہم و محدّث ہونے چاہیئیں کیونکہ وہ حسب تصریح قرآن شریف خیر الامم ہیں۔ آپ لوگ کیوں قرآن شریف میں غور نہیں کرتے اور کیوں سوچنے کے وقت غلطی کھا جاتے ہیں کیا آپ صاحبوں کو خبر نہیں کہ صحیحین سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی۱للہ علیہ وسلم اِس اُمت کے لئے بشارت دے چکے ہیں کہ اِس اُمت میں بھی پہلی اُمتوں کی طرح محدّث پیدا ہوں گے اور محدث بفتح دال وہ لوگ ہیں جن سے مکالمات و مخاطبات الٰہیہ ہوتے ہیں اور آپ کو معلوم ہے کہ ابن عباس کی قراء ت میں آیا ہے وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی ولا محدث الا اذا تمنّٰی القی الشیطان فی امنیتہ فینسخ اللّٰہ ما یلقی الشیطان ثم یحکم اللّٰہ اٰیاتہ۔ پس اس آیت کے رو سے بھی جس کو بخاری نے بھی لکھا ہے محدّث کا الہام یقینی اور قطعی ثابت ہوتا ہے جس میں دخل شیطان کا قائم نہیں رہ سکتا اور خود ظاہر ہے کہ اگر خضر اور موسیٰ کی

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 656

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 656

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/656/mode/1up

اختلاف نہیں۔ اور پھر فرمایا کہ کیا تُو خدا کی طرف دیکھتا نہیں کہ وہ کیونکر سایہ کو لمبا کھینچتا ہے یہاں تک کہ تمام زمین پر تاریکی ہی دکھائی دیتی ہے اور اگر وہ چاہتا تو ہمیشہ تاریکی رکھتا اور کبھی روشنی نہ ہوتی لیکن ہم آفتاب کو اس لئے نکالتے ہیں کہ تا اس بات پر دلیل قائم ہوکہ اُس سے پہلے تاریکی تھی یعنی تا بذریعہ روشنی کے تاریکی کا وجود شناخت کیا جائے کیونکہ ضد کے ذریعہ سے ضد کا پہچاننا ؔ بہت آسان ہوجاتا ہے اور روشنی کا قدرومنزلت اُسی پرکھلتا ہے کہ جو تاریکی کے وجود پر علم رکھتا ہو اور پھر فرمایا کہ ہم تاریکی کو روشنی کے ذریعہ سے تھوڑا تھوڑا دور کرتے جاتے ہیں تا

سے باز نہ آوے تو ؔ ایسے بے حیا منقلب الفطرت کا اس دنیا میں علاج نہیں ہوسکتا اس کے لئے وہی علاج ہے جس کا خدا نے اپنے قول فیصل میں وعدہ فرمایا ہے

والدہ کا الہام صرف شکوؔ ک اور شبہات کا ذخیرہ تھا اور قطعی اور یقینی نہ تھا تو ان کو کب جائز تھا کہ وہ کسی بے گناہ کی جان کو خطرہ میں ڈالتے یا ہلاکت تک پہنچاتے یا کوئی دوسرا ایسا کام کرتے جو شرعاً و عقلاً جائز نہیں ہے۔ آخر یقینی علم ہی تھا جس کے باعث سے وہ کام کرنا ان پر فرض ہوگیا تھا اور وہ امور اُن کے لئے روا ہوگئے کہ جو دوسروں کے لئے ہرگز روا نہیں۔ پھر ماسوا اِس کے ذرا انصافاًسوچنا چاہئیے کہ کوئی امر مشہود و موجود کہ جو بپایہ صداقت پہنچ چکا ہو اور تجاربِ صحیحہ کے رو سے راست راست ثابت ہوتا ہو صرف ظنی خیالات سے متزلزل نہیں ہوسکتا وَالظَّنُّ لَا یُغْنِیْ عَنِ الْحَقِّ شَیْءًا۔ سو اس عاجز کے الہامات میں کوئی ایسا امر نہیں ہے جو زیر پردہ اور مخفی ہو بلکہ یہ وہ چیز ہے کہ جو صدہا امتحانوں کی بوتہ میں داخل ہوکر سلامت نکلی ہے اور خداوند کریم نے بڑے بڑے تنازعات میں فتح نمایاں بخشی ہے اس مقام میں یاد آیا کہ جو رویا صادقہ حصہ سوم میں ایک ہندوؔ کے مقدمہ کے بارہ میں لکھی گئی ہے اس میں بھی ایک عجیب نزاع و انکار کے موقع پر الہام ہوا تھا جس سے ایک بڑا قلق اور

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 657

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 657

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/657/mode/1up

اندھیرے میں بیٹھنے والے اُس روشنی سے آہستہ آہستہ منتفع ہوجائیں اور جو یکدفعی انتقال میں حیرت ووحشت مُتصوّر ہے وہ بھی نہ ہو سو اسی طرح جب دنیا پر روحانی تاریکی طاری ہوتی ہے تو خلقت کو روشنی سے منتفع کرنے کے لئے اور نیز روشنی اور تاریکی میں جو فرق ہے وہ فرق ظاہر کرنے کے لئے خدائے تعالیٰ کی طرف سے آفتابِ صداقت نکلتا ہے اور پھر وہ آہستہ آہستہ دنیا پر طلوع کرتا جاتا ہے۔ اور پھر فرمایا کہ خدائے تعالیٰ کا یہ قانون قدرت ہے کہ جب زمین مر جاتی ہے تو وہ نئے سرے زمین کو زندہ کرتا ہے۔ ہم ؔ نے کھول کر یہ نشان بتلائے ہیں تاہو کہ لوگ

بعض شریر اور کینہ پرور آدمی جنہوں نے ضد اور نفسانیت پر مضبوطی سے قدم مار رکھا ہے۔ اور جن کو تعصب کی ُ تند اندؔ ھیری نے بالکل اندھا کردیا ہے وہ لوگوں کو یہ کہہ کر بہکاتے ہیں کہ جس قدر لطائف و نکات قرآن کے مسلمان لوگ ذکر کرتے ہیں اور جس قدر

کرب دور ہوا۔ تفصیل اِس کی یہ ہے کہ اِس رؤیا صادقہ میں کہ ایک کشفِؔ صریح کی قسم تھی۔ یہ معلوم کرایا گیا تھا کہ ایک کھتری ہندو بشمبرداس نامی جو اب تک قادیان میں بقید حیات موجود ہے مقدمہ فوجداری سے بری نہیں ہوگا مگر آدھی قید تخفیف ہوجائے گی لیکن اُس کا دوسرا ہم قید خوشحال نامی کہ وہ بھی اب تک قادیان میں زندہ موجود ہے ساری قید بھگتے گا سو اِس جُزو کشف کی نسبت یہ ابتلا پیش آیا کہ جب چیف کورٹ سے حسب پیشگوئی ایں عاجز مثل مقدمہ مذکورہ واپس آئی تو متعلقین مقدمہ نے اس واپسی کو بریت پر حمل کرکے گاؤں میں یہ مشہور کردیا کہ دونوں ملزم جرم سے بری ہوگئے ہیں مجھ کو یاد ہے کہ رات کے وقت میں یہ خبر مشہور ہوئی اور یہ عاجز مسجد میں عشاء کی نماز پڑھنے کو طیار تھا کہ ایک نے نمازیوں میں سے بیان کیا کہ یہ خبر بازار میں پھیل رہی ہے اور ملزمان گاؤں میں آگئے ہیں۔ سو چونکہ یہ عاجز علانیہ لوگوں میں کہہ چکا تھا کہ دونوں مجرم ہرگز جرم سے بری نہیں ہوں گے اس لئے جو کچھ غم اور قلق اور کرب اس وقت گزرا سو گزرا۔ تب خدا نے کہ جو اِس عاجز بندہ

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 658

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 658

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/658/mode/1up

سوچیں اور سمجھیں۔

ان آیات میں خدائے تعالیٰ نے قرآن شریف کی ضرورت نزول کی اور اس کے منجانب اللہ ہونے کی یہ دلیل پیش کی ہے کہ قرآن شریف ایسے وقت میں آیا ہے کہ جب تمام اُمتوں نے اُصولِ حقہ کو چھوڑ دیا تھا اور کوئی دین روئے زمین پر ایسا نہ تھا کہ جو خدا شناسی اور پاک اعتقادی اور نیک عملی پر قائم اور بحال ہوتا بلکہ سارے دین بگڑگئے تھے اور ہریک مذہب میں طرح طرح کا فساد دخل کرگیا تھا اور خود لوگوں کے طبائع میں دنیا پرستی کی محبت اس قدر بھر گئی تھی کہ بجز دنیا اور دنیا کے ناموں اور دنیاکے آراموں

خواص عجیبہ اس کے مسلمانوں کی کتابوں میں اندراج پائے ہیں یہ سب انہیں کے فہم کی تیزی ہے اور انہیں کی طبیعتوں کے ایجادات ہیں ورنہ دراصل قرآن لطائف و نکات و خواصِ عجیبہ سے خالی ہے مگرؔ ایسے لوگ بجز اس کے کہ اپنا ہی حمق اور خبث

کاہریک حال میں حامی ہے نماز کے اول یا عین نماز میں بذریعہ الہام یہ بشارتؔ دی لا تخف انک انت الاعلٰی اور پھر فجر کو ظاہر ہوگیا کہ وہ خبر َ بری ہونے کی سراسر جھوٹی تھی اور انجام کار وہی ظہور میں آیا کہ جو اس عاجز کو خبر دی گئی تھی جس کو شرمپت نامی ایک آریہ اور چند دوسرے لوگوں کے پاس قبل از وقوع بیان کیا گیا تھا کہ جو اب تک قادیان میں موجود ہیں۔ پھر ایک اور ایسا ہی پروحشت ماجرا گزرا جس کا قصہ اس سے بھی عجیب تر ہے اور تفصیل اس کی یہ ہے کہ ایک مقدمہ میں کہ اس عاجز کے والد مرحوم کی طرف سے اپنی زمینداری حقوق کے متعلق کسی رعیت پر دائر تھا اس خاکسار پر خواب میں یہ ظاہر کیا گیا کہ اس مقدمہ میں ڈگری ہوجائے گی چنانچہ اس عاجز نے وہ خواب ایک آریہ کو کہ جو قادیان میں موجود ہے بتلا دی پھر بعد اس کے ایسا اتفاق ہوا کہ اخیر تاریخ پر صرف مدعا علیہ معہ اپنے چند گواہوں کے عداؔ لت میں حاضر ہوا اور اس طرف سے کوئی مختار وغیرہ حاضر نہ ہوا۔ شام کو مدعا علیہ اور سب گواہوں نے واپس آکر بیان کیا کہ مقدمہ خارج ہوگیا۔ اِس خبر کو سنتے ہی

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 659

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 659

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/659/mode/1up

اور دنیا کی عزتوں اور دنیا کی راحتوں اور دنیا کے مال و متاع کے اور کچھ ان کا مقصد نہیں رہاؔ تھا اور خدائے تعالیٰ کی محبت اور اس کے ذوق اور شوق سے بکُلّی بے بہرہ اور بے نصیب ہوگئے تھے اور رسوم اور عادت کو مذہب سمجھا گیا تھا پس خدا نے جس کا یہ قانون قدرت ہے کہ وہ شدتوں اور صعوبتوں کے وقت اپنے عاجز بندوں کی خبرلیتا ہے اور جب کسی سختی سے جیسے اِمساکِ باراں وغیرہ سے اس کے بندے قریب ہلاکت کے ہوجاتے ہیں بارانِ رحمت سے اُن کی مشکل کشائی کرتا ہے نہ چاہا کہ خلق اللہ ایسی بلا میں مبتلا رہے جس کا نتیجہ ہلاکت دائمی اور ابدی ہے سو اُس نے بہ تعمیل اپنے

ظاہر کریں انوارِ قرآنی پر پردہ ڈال نہیں سکتے۔ اُن کے جواب میں یہی کہنا کافی ہے کہ اگر مسلمانوں نے خود اپنی ہی زیرکی سے قرآن شریف میں انواع و اقسام کے لطائف و نکات و خواص ایجاد کر لئے ہیں اور اصل میں موجود نہیں تو تم بھی اُن کے مقابلہ پر کسی اپنی

وہ آریہ تکذیب اور استہزاء سے پیش آیا۔ اس وقت جس قدر قلق اور کرب گزرا بیان میں نہیں آسکتا۔ کیونکہ قریب قیاس معلوم نہیں ہوتا تھا کہ ایک گروہ کثیر کا بیان جن میں بے تعلق آدمی بھی تھے خلاف واقعہ ہو اس سخت حزن اور غم کی حالت میں نہایت شدت سے الہام ہوا کہ جو آہنی میخ کی طرح دل کے اندر داخل ہوگیا اور وہ یہ تھا۔ ڈگری ہوگئی ہے مسلمان ہے۔ یعنی کیا تو باور نہیں کرتا اور باوجود مسلمان ہونے کے شک کو دخل دیتا ہے۔ آخر تحقیق کرنے سے معلوم ہوا کہ فی الحقیقت ڈگری ہی ہوئی تھی اور فریق ثانی نے حکم کے سُننے میں دھوکا کھایا تھا۔ اسی طرح فی الواقعہ بلا مبالغہ صدہا الہام ہیں کہ جو فلق صبح کی طرح پورے ہوگئے اور بہت سے الہاماتؔ بطور اسرار ہیں جن کو یہ عاجز بیان نہیں کرسکتا۔ بارہا عین مخالفوں کی حاضری کے وقت میں ایسا کھلا کھلا الہام ہوا ہے جس کے پورا ہونے سے مخالفوں کو بجز اقرار کے اور کوئی راہ نظر نہیں آیا۔ ابھی چند روز کا ذکر ہے کہ یکدفعہ بعض امور میں تین طرح

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 660

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 660

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/660/mode/1up

قانون قدیم کے کہ جو جسمانی اور روحانی طور پر ابتدا سے چلا آتا ہے قرآن شریف کو خلق اللہ کی اصلاح کے لئے نازل کیا اور ضرور تھا کہ ایسے وقت میں قرآن شریف نازل ہوتا کیونکہ اس پرظلمت زمانہ کی حالت موجودہ کوؔ ایسی عظیم الشان کتاب اور ایسے عظیم الشان رسول کی حاجت تھی اور ضرورتِ حقّہ اس بات کی متقاضی ہورہی تھی کہ اس تاریکی کے وقت میں جو تمام دنیا پر چھا گئی تھی اور اپنے انتہائی درجہ تک پہنچ چکی تھی آفتاب صداقت کا طلوع کرے کیونکہ بجز طلوع اُس آفتاب کے ہرگز ممکن نہ تھا کہ ایسی اندھیری رات خودبخود روز روشن کی صورت پکڑ جائے اور اسی کی طرف ایک دوسرے مقام میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے اور وہ یہ ہے۔

الہامی کتاب یا کسی ؔ دوسری کتاب سے اسی قدر لطائف و نکات و خواص ایجاد کرکے دکھلاؤ اور اگر تمام قرآن شریف کے مقابلہ پر نہیں تو صرف بطور نمونہ سورۃ فاتحہ کے مقابلہ پر جس کے کمالات کسی قدر اسی حاشیہ میں بیان کئے گئے ہیں کسی اور کتاب سے نکال کر پیش کرو

کا غم پیش آگیا تھا جس کے تدارک کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ اور بجز حرج و نقصان اٹھانے کے اور کوئی سبیل نمودار نہ تھی اسی روز شام کے قریب یہ عاجز اپنے معمول کے مطابق جنگل میں سیر کو گیا اور اس وقت ہمراہ ایک آریہ ملا وامل نامی تھا جب واپس آیا تو گاؤں کے دروازہ کے نزدیک یہ الہام ہوا ننجیک من الغمّ۔ پھر دوبارہ ہوا ننجیک من الغمّ الم تعلم ان اللّٰہ علی کل شیء قدیر۔ یعنی ہم تجھے اس غم سے نجات دیں گے ضرور نجات دیں گے کیا تو نہیں جانتا کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے۔ چنانچہ اُسی قدم پر جہاںؔ الہام ہوا تھا۔ اُس آریہ کو اس الہام سے اطلاع دی گئی تھی اور پھر خدا نے وہ تینوں طور کا غم دور کردیا۔ فالحمد للّٰہ علٰی ذالک۔ اور ایک اتفاقات عجیبہ سے یہ بات ہے کہ جس وقت شہاب الدین موحد نے مولوی صاحبان ممدوحین کی رائے بیان کی اسی رات انگریزی میں ایک الہام ہوا کہ جو شہاب الدین کو سنایا گیا۔ اور وہ یہ ہے۔ دوہ آل مین شڈبی اینگری بٹَ گوڈ اِز وِدیو۔ ہی شیل

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 661

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 661

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/661/mode/1up

3 333 ۔۱؂ یعنی جو لوگ اہل کتاب اور مشرکین میں سے کافر ہوگئے اُن کا راہ راست پر آنا بجز اس کے ہرگز ممکن نہ تھا کہ ان کی طرف ایسا عظیم الشان نبی بھیجا جاوے جو ایسی عظیم الشان کتاب لایا ہے کہ جو سب الٰہی کتابوں کے معارف اور صداقتوں پر محیط اور ہریک غلطی اور نقصان سے پاک اور منزّہ ہے۔ ابؔ اس دلیل کا ثبوت دو مقدموں کے ثبوت پر موقوف ہے اوّل یہ کہ خدائے تعالیٰ کا یہی قانون قدیم ہے کہ

افسوس کہاں سے یہ مادر زاد اندھے پیدا ہوگئے کہ جو اس قدر روشنی کو دیکھ کر پھر ؔ بھی اُن کی تاریکی دور نہیں ہوتی۔ ان کی باطنی بیماریوں کے مواد کس قدر ردّی اور متعفن ہورہے ہیں جنہوں نے ان کے تمام حواس ظاہری و باطنی کو بیکار کردیا ہے ذرا نہیں سوچتے کہ

ہیلپ ُ یو۔ وارڈس اوفَ گوڈ کین ناٹ ایکس چینج۔ یعنی اگر تمام آدمی ناراض ہوں گے مگر خدا تمہارے ساتھ ہے وہ تمہاری مدد کرے گا۔ خدا کی باتیں بدل نہیں سکتیں۔ پھر ماسوا اس کے اور بھی چند الہامات ہوئے جو نیچے لکھے جاتے ہی۔ الخیر کلہ فی القراٰن کتاب اللہ الرحمان۔ الیہ یصعد الکلم الطیب۔ یعنی تمام بھلائی قرآنؔ میں ہے جو اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے۔ وہی اللہ جو رحمان ہے اسی رحمان کی طرف کلمات طیبہ صعود کرتے ہیں۔ ھو الذی ینزل الغیث من بعد ما قنطوا و ینشر رحمتہ۔ اللہ وہ ذات کریم ہے کہ جو ناامیدی کے پیچھے مینہ برساتا ہے اور اپنی رحمت کو دنیا میں پھیلاتا ہے یعنی عین ضرورت کے وقت تجدید دین کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ یجتبی الیہ من یشآء من عبادہ۔ جس کو چاہتا ہے بندوں میں سے چن لیتا ہے۔ وکذالک مننا علی یوسف لنصرف عنہ السوٓء والفحشاء ولتنذر قوما ما انذر

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 662

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 662

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/662/mode/1up

وہ جسمانی یا روحانی حاجتوں کے وقت مدد فرماتا ہے یعنی جسمانی صعوبتوں کے وقت بارش وغیرہ سے اور روحانی صعوبتوں کے وقت اپنا شفا بخش کلام نازل کرنے سے عاجز بندوں کی دستگیری کرتا ہے۔

سو یہ مقدمہ بدیہی الصداقت ہے کیونکہ کسی عاقل کو اس سے انکار نہیں کہ یہ دونوں سلسلے روحانی اور جسمانی اسی وجہ سے اب تک صحیح و سالم چلے آتے ہیں کہ خداوند کریم نیست و نابود ہونے سے ان کو محفوظ رکھتا ہے مثلاً اگر خدائے تعالیٰ جسمانی سلسلہ کی حفاظت نہ کرتا اور سخت سخت قحطوں کے وقت میں باران رحمت سے دستگیری نہ فرماتا تو بالآخر نتیجہ اس کا یہی ہوتا کہ لوگ پہلی فصلوں کی جس قدر پیداوار تھی سب کی سب کھالیتے اور پھر آگے اناج کےؔ نہ ہونے سے تڑپ تڑپ کر مرجاتے اور نوع انسان کا

قرآن شریف وہ کتاب ہے جس نے اپنی عظمتوں اپنی حکمتوں اپنی صداقتوں اپنی بلاغتوں اپنے لطائف و نکات اپنے انوارِ روحانی کا آپ دعویٰ کیا ہے اور اپنا بے نظیر ہوناؔ آپ ظاہر فرما دیا ہے۔ یہ بات ہرگز نہیں کہ صرف مسلمانوں نے فقط اپنے خیال میں اس کی خوبیوں کو قرار دے دیا ہے بلکہ وہ تو خود اپنی خوبیوں اور اپنے کمالات کو بیان فرماتا ہے اور

اٰباء ھم فھم غافلون۔ اور اسی طرح ہم نے یوسف پر احسان کیا تاہم اس سے بدی اور فحش کو روک دیں اور تا تو ان لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادوں کو کسی نے نہیں ڈرایا سو وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ اس جگہ یوسف کے لفظ سے یہی عاجز مراد ہے کہ جو باعتبار کسی روحانی مناسبت کے اطلاق پایا۔ واللہ اعلم بالصواب۔ بعد اس کے فرمایا۔ قل عندی شھادۃ من اللہ فھل انتم مؤمنون ان معی ربی سیھدین۔ رب اغفر وارحم من السمآء ربنا عاج۔ رب السجن احب الی مما یدعوننی الیہ۔ رب نجنی من غمی۔ ایلی ایلی لما سبقتنی۔ کرمہائے تو مارا کرد گستاخ۔

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 663

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 663

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/663/mode/1up

خاتمہ ہوجاتا یا اگر خدائے تعالیٰ عین وقتوں پر رات اور دن اور سورج اور چاند اور ہوا اور بادل کو خدماتِ مقررہ میں نہ لگاتا تو تمام سلسلہ عالم کا درہم برہم ہوجاتا اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے آپ اشارہ فرما کر کہا ہے۔ 33333 ۔۱؂ 333333۔ ۲؂ الجزو نمبر ۵۲۔ یعنی کیا یہ منکر لوگ کہتے ہیں کہ یہ خدا کا کلام نہیں اور خدا پر جھوٹ باندھا ہے۔ اگر خدا چاہے تو اس کا اترنا بند کردے پر وہ بند نہیں کرتا کیونکہ اس کی عادت اسی پر جاری ہے کہ وہ احقاقِ حق اور ابطال باطل اپنے کلمات سے کرتا ہے۔ اور یہ

اپنا بے مثل و مانند ہونا تمام مخلوقات کے مقابلہ پر پیش کررہا ہے اور بلند آواز سے ھل من معارض کا نقارہ بجارہا ہے اور دقائق حقائقؔ اس کے صرف دو تین نہیں جس میں کوئی نادان شک بھی کرے بلکہ اس کے دقائق تو بحرِ ذخّار کی طرح جوش ماررہے ہیں اور آسمان کے ستاروں کی طرح جہاں نظر ڈالو چمکتے نظر آتے ہیں۔ کوئی صداقت

کہہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے۔ پس کیا تم ایمان نہیں لاتے۔ یعنی خدائے تعالیٰ کا تائیداؔ ت کرنا اور اسرارِ غیبیہ پر مطلع فرمانا اور پیش از وقوع پوشیدہ خبریں بتلانا اور دعاؤں کو قبول کرنا اور مختلف زبانوں میں الہام دینا اور معارف اور حقائقِ الٰہیہ سے اطلاع بخشنا یہ سب خدا کی شہادت ہے جس کو قبول کرنا ایماندار کا فرض ہے۔ پھر بقیہ الہامات بالا کا ترجمہ یہ ہے کہ بہ تحقیق میرا رب میرے ساتھ ہے وہ مجھے راہ بتلائے گا۔ اے میرے ربّ میرے گناہ بخش اور آسمان سے رحم کر ہمارا رب عاجی ہے(اس کے معنے ابھی تک معلوم نہیں ہوئے) جن نالائق باتوں کی طرف مجھ کو بلاتے ہیں ان سے اے میرے رب مجھے زندان بہتر ہے۔ اے میرے خدا مجھ کو میرے غم سے نجات بخش اے میرے خدا اے میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 664

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 664

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/664/mode/1up

منصب اُسیؔ کو پہنچتا ہے کیونکہ امراض روحانی پر اُسی کو اطلاع ہے اور ازالۂ مرض اور استرداد صحت پر وہی قادر ہے پھر بعد اس کے بطور استدلال کے فرمایا کہ اللہ وہ ذات کامل الرحمت ہے کہ اُس کا قدیم سے یہی قانون قدرت ہے کہ اس تنگ حالت میں وہ ضرور مینہ برساتا ہے کہ جب لوگ ناامید ہوچکتے ہیں پھر زمین پر اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے اور وہی کارسازِ حقیقی اور ظاھراً و باطنًا قابل تعریف ہے یعنی جب سختی اپنی نہایت کو پہنچ جاتی ہے اور کوئی صورت مخلصی کی نظر نہیں آتی تو اس صورت میں اس کا یہی قانون قدیم ہے کہ وہ ضرور عاجز بندوں

نہیں جو اُس سے باہر ہو کوئی حکمت نہیں جو اس کے محیط بیان سے رہ گئی ہو۔ کوئی نور نہیں جو اس کی متابعت سے نہ ملتا ہو اورؔ یہ باتیں بلاثبوت نہیں۔ کوئی ایسا امر نہیں جو صرف زبان سے کہا جاتا ہے بلکہ یہ وہ متحقق اور بدیہی الثبوت صداقت ہے کہ جو تیرہ سو برس سے برابر اپنی روشنی دکھلاتی چلی آئی ہے اور ہم نے بھی اس صداقت کو اپنی اس کتاب میں نہایت تفصیل سے لکھا ہے اور دقائق اور معارف قرآنی کو اس قدر بیان کیا ہے کہ جو ایک طالب صادق کیؔ تسلی اور تشفی کے لئے بحرِ عظیم کی طرح

تیری بخششوں نے ہم کو گستاخ کردیا۔ یہ سب اسرار ہیں کہ جو اپنے اپنے اوقات پر چسپان ہیں جن کا علم حضرت عالم الغیب کو ہے پھر بعد اس کے فرمایا ھو شعنا نعسا۔ یہ دونوں فقرے شاید عبرانی ہیں اور اِن کے معنے ابھی تک اس عاجز پر نہیں کھلے۔ پھر بعد اس کے دو فقرے انگریزی ہیں جن کے الفاظ کی صحت بباعث سرعت الہام ابھی تک معلوم نہیں اور وہ یہ ہیں آئی لَو یو۔ آئی شیل گِو یوء لارج پارٹی اوف اسلام۔ چونکہ اس وقت یعنی آج کے دن اس جگہ کوئی انگریزی خوان نہیں اور نہ اس کے پورے پورے معنے کھلے ہیں اس لئے بغیر معنوں کے لکھا گیا ۔ پھر بعد اس کے یہ الہام ہے۔ یا عیسٰی انی متوفیک و رافعک الی (و مطھرک من الذین کفروا ۱؂)۔وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الٰی یوم القیامہ۔ ثلۃ من الاولین وؔ ثلۃ من الآخرین۔ اے عیسیٰ میں تجھے

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 665

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 665

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/665/mode/1up

کی خبر لیتا ہے اور اُن کو ہلاکت سے بچاتا ہے اور جیسے وہ جسمانی سختی کے وقت رحم فرماتا ہے اسی طرح جب روحانی سختی یعنی ضلالت اور گمراہی اپنی حد کو پہنچ جاتی ہے اور لوگ راہِ راست پر قائم نہیں رہتے تو اِس حالت میں بھی وہ ضرور اپنی طرف سے کسی کو مشرّف بوحی کرکے اور اپنے نور خاص کی روشنی عطا فرما کر ضلالت کیؔ مہلک تاریکی کو اس کے ذریعہ سے اٹھاتا ہے اور چونکہ جسمانی رحمتیں عام لوگوں کی نگاہ میں ایک واضح امر ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے آیت ممدوحہ میں اول ضرورت فرقان مجید

جوش ماررہے ہیں۔ اب یہ کیونکر ہوسکے کہ کوئی شخص صرف مونہہ کی واہیات باتوں سے اس نور بزرگ کی کسر شان کرے۔ ہاں اگر کسی کے دل کو یہ وہم پکڑتا ہے کہ یہ تمام دقائق و معارف و لطائف و خوؔ اص کہ جو قرآن شریف میں ثابت کرکے دکھلائے گئے ہیں کسی دوسری

کامل اجر بخشوں گا یا وفات دوں گا اور اپنی طرف اٹھاؤں گا یعنی رفع درجات کروں گا یا دنیا سے اپنی طرف اٹھاؤں گا اور تیرے تابعین کو ان پر جو منکر ہیں قیامت تک غلبہ بخشوں گا یعنی تیرے ہم عقیدہ اور ہم مشربوں کو حجت اور برہان اور برکات کے رو سے دوسرے لوگوں پر قیامت تک فائق رکھوں گا۔ پہلوں میں سے بھی ایک گروہ ہے اور پچھلوں میں سے بھی ایک گروہ ہے۔ اس جگہ عیسیٰ کے نام سے بھی یہی عاجز مراد ہے اور پھر بعد اس کے اردو میں الہام فرمایا۔ میں اپنی چمکار دکھلاؤں گا۔ اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اٹھاؤں گا۔ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کردے گا۔ الفتنۃ ھٰھنا فاصبر کما صبر اولو العزم۔ اس جگہ ایک فتنہ ہے سو اولوالعزم نبیوں کی طرح صبر کر۔ فلما تجلّٰی ربہ للجبل جعلہ دکا۔ جب خدا مشکلات کے پہاڑ پر تجلی کرے گا تو انہیں پاش پاش کردے گا۔ قوۃ الرحمان لعبید اللّٰہ الصمد۔ یہ خدا کی قوت ہے کہ جو اپنے بندہ کے لئے وہ غنی مطلق ظاہر کرے گا۔ مقام لا تترقی العبد فیہ بسعی الاعمال۔ یعنی عبداللہ الصمد ہونا ایک مقام ہے کہ جو بطریق موہبت خاص عطا ہوتا ہے کوششوں سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ یا داء ودؔ عامل بالناس رفقا واحسانا واذاحییتم بتحیۃ فحیوا باحسن منھا۔ واما بنعمت ربک فحدث

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 666

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 666

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/666/mode/1up

کی نازل ہونے کی بیان کرکے پھر بطور توضیح جسمانی قانون کا حوالہ دیا تادانشمند آدمی جسمانی قانون کو دیکھ کر کہ ایک واضحہ اور بدیہی امر ہے خدائے تعالیٰ کے روحانی قانون کو بآسانی سمجھ سکے اور اس جگہ یہ بھی واضح رہے کہ جو لوگ بعض کتابوں کا منزل من اللہ ہونا مانتے ہیں اُن کو تو خود اقرار کرنا پڑتا ہے کہ وہ ؔ کتابیں ایسے وقتوں میں نازل ہوئی ہیں کہ جب ان کے نزول کی ضرورت تھی۔ پس اسی اقرار کے ضمن میں ان کو یہ دوسرا اقرار کرنا بھی لازم آیا کہ ضرورت کے وقتوں میں کتابوں کا نازل کرنا خدائے تعالیٰ کی عادت ہے لیکن ایسے لوگ کہ جو ضرورت کتبِ الٰہیہ سے منکر ہیں

کتاب سے بھی مستخرج ہوسکتے ہیں۔ تو ؔ مناظرہ کا سیدھا راستہ یہ ہے کہ ہ شرائط مذکورہ بالا کی رعایت سے اس کتاب کے لطائف و معارف و خواص پیش کرے اور جس طرح قرآن تمام عقائد باطلہ کی ردّ پر مشتمل ہے اور جس طرح وہ پاک کلام ہریک عقیدہ صحیحہ کو دلائلِ عقلیہ سے

یو مسٹ ڈو وہات آئی ٹولڈ یو۔ تم کو وہ کرنا چاہئے جو میں نے فرمایا ہے اشکر نعمتی رأیت خدیجتی انک الیوم لذوحظ عظیم۔ انت محدث اللّٰہ فیک مادۃ فاروقیۃ۔ اے داؤد خلق اللہ کے ساتھ رفق اور احسان کے ساتھ معاملہ کر اور سلام کا جواب احسن طور پردے۔ اور اپنے رب کی نعمت کا لوگوں کے پاس ذکر کر میری نعمت کا شکر کر کہ تُو نے اُس کو قبل از وقت پایا آج تجھے حظ عظیم ہے تو محدث اللہ ہے تجھ میں مادۂ فاروقی ہے۔ سلام علیک یا ابراھیم۔ انک الیوم لدینا مکین امین۔ ذو عقل متین۔ حب اللّٰہ خلیل اللّٰہ اسد اللّٰہ و صل علی محمد۔ ما ودعک ربک و ما قلی۔ الم نشرح لک صدرک۔ الم نجعل لک سھولۃ فی کل امر بیت الفکر و بیت الذکر۔ و من دخلہ کان اٰمنا۔ تیرے پر سلام ہے اے ابراہیم۔ تو آج ہمارے نزدیک صاحب مرتبہ اور امانتدار اور قوی العقل ہے اور دوست خدا ہے خلیل اللہ ہے اسداللہ ہے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) پر درود بھیج۔ یعنی یہ اس نبی کریم کی متابعت کا نتیجہ ہے اور بقیہ ترجمہ یہ ہے کہ خدا نے تجھ کو ترک نہیں کیا اور نہ وہ تجھ پر ناراض ہے کیا ہم نے تیرا سینہ نہیں کھولا۔ کیا ہم نے ہریک بات میں تیرے لئے آسانی نہیں کی کہ تجھ کو بیت الفکر اور بیت الذکر

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 667

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 667

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/667/mode/1up

جیسے برہمو سماج والے سو ان کے ملزم کرنے کیلئے اگرچہ بہت کچھ ہم لکھ چکے ہیں لیکن اگران میں ایک ذرا انصاف ہوتو ان کو وہی ایک دلیل کافی ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے آیات گذشتۂبالا میں آپ بیان فرمائی ہے کیونکہ جس حالت میں وہؔ لوگ مانتے ہیں کہ حیاتِ ظاہری کا تمام انتظام خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہے اور وہی اپنی آسمانی روشنی اور بارانی پانی کے ذریعہ سے دنیا کو تاریکی اور ہلاکت سے بچاتا ہے تو پھر وہ اس اقرار سے کہاں بھاگ سکتے ہیں کہ حیات باطنی کے وسائل بھی آسمان ہی سے

ثابت کرتا ہے اور جس طرح ان صحف مقدسہ میں معارف و حقائق الٰہیہ مندرج ہیں اور جس طرح ان میں تنویرِ قلبؔ کے متعلق خواصِ عجیبہ اور تاثیراتِ غریبہ پائے جاتے ہیں جن کو ہم نے اس کتاب میں ثابت کردیا ہے وہ سب اپنی کتاب میں پیش کرکے دکھلاوے اور جب تک

عطا کیا۔ اور جو شخص بیت الذکر میں باخلاص و قصد تعبد وصحت نیت و حسن ایمان داخل ہوگا وہ سوئے خاتمہ سے امن میں آجائے گا۔ بیت الفکر سے مراد اس جگہ وہ چوبارہ ہے جس میں یہ عاجز کتاب کی تالیف کے لئے مشغول رہا ہے اور رہتا ہے اور بیت الذکر سے مراد وہ مسجد ہے کہؔ جو اس چوبارہ کے پہلو میں بنائی گئی ہے اور آخری فقرہ مذکورہ بالا اسی مسجد کی صفت میں بیان فرمایا ہے جس کے حروف سے بنائے مسجد کی تاریخ بھی نکلتی ہے اور وہ یہ ہے۔ مبارک و مبارک وکل امر مبارک یجعل فیہ یعنی یہ مسجد برکت دہندہ اور برکت یافتہ ہے اور ہریک امر مبارک اس میں کیا جائے گا۔ پھر بعد اس کے اس عاجز کی نسبت فرمایا۔ رفعت و جعلت مبارکا۔ تو اونچا کیا گیا اور مبارک بنایا گیا۔ والذین اٰمنوا ولم یلبسوا ایمانھم بظلم اولئک لھم الامن وھم مھتدون۔ یعنی جو لوگ ان برکات و انوار پر ایمان لائیں گے کہ جو تجھ کو خدائے تعالیٰ نے عطا کئے ہیں اور ایمان ان کا خالص اور وفاداری سے ہوگا تو ضلالت کی راہوں سے امن میں آجائیں گے اور وہی ہیں جو خدا کے نزدیک ہدایت یافتہ ہیں۔ یریدون ان یطفؤا نور اللّٰہ۔ قل اللّٰہ حافظہ۔ عنایۃ اللّٰہ حافظک۔ نحنؔ نزّلناہ وانا لہ لحافظون۔ اللّٰہ خیر حافظا وھو ارحم الراحمین۔ ویخوفونک من دونہ۔ ائمۃ الکفر۔ لا تخف انک انت الاعلٰی ینصرک اللّٰہ فی مواطن۔ ان یومی لفصل عظیم۔ کتب اللّٰہ لاغلبن انا ورسلی لا مبدل لکلماتہ

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 668

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 668

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/668/mode/1up

نازل ہوتے ہیں اور خود یہ نہایت کوتہ اندیشی اور قلّتِ معرفت ہے کہ ناپائیدار حیات کا اہتمام تصرّف خاص الٰہی سے تسلیم کرلیا جاوے لیکن جو حقیقی حیات اور لازوال زندگی ہے یعنی معرفت الٰہی اور نور باطنی یہ صرف اپنی ہی عقلوں کا نتیجہ قرار دیا جائے۔ کیا وہ خدا جس نے جسمانی سلسلہ کے برپا رکھنے کے لئے اپنی الوہیت کی قوی طاقتوں کو ظاہر کیا ؔ ہے اور بغیر وسیلہ انسانی ہاتھوں کے زبردست قدرتیں دکھائی ہیں وہ روحانی طور پر اپنی طاقت ظاہر کرنے کے وقت ضعیف اور کمزور خیال

ایسا نہ کرے تب تک کسی کے عو عو کرنے سےؔ چاند کے نور میں کچھ فرق نہیں آسکتا بلکہ ایسے شخص کی حالت نہایت افسوس کے لائق ہے کہ جو اب تک بدیہی صداقت سے بدنصیب اور محروم رہنے کے لئے دانستہ ضلالت کی راہوں میں قدم رکھتا ہے۔ ہمارے مخالفوں میں سے کئی صاحب مشہور و نامور ہیں اور جہاں تک ہم خیال کرتے ہیں ان کے علم اور فہم کی نسبت ہمارا یہی یقین ہے کہ اگر انصاف پر آویں تو ان صداقتوں کو بدیہی طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ ہماری نیت میں ہرگز نفسانیت کا جھگڑا نہیں اور بجز اس کے کہ دنیا میں سچائی اور نیکی پھیلائی جائے اور کوئی غرض نہیں اس لئے منصف مزاج ذی علم لوگوں سے یہی درخواست ہے کہ

بصآئر للناس۔ نصرتک من لدنی۔ انی منجیک من الغم۔ وکان ربک قدیرا۔ انت معی وانا معک۔ خلقت لک لیلا ونھارا۔ اعمل ما شئت فانی قد غفرت لک۔ انت منی بمنزلۃ لا یعلمھا الخلق۔ مخالف لوگ ارادہ کریں گے کہ تا خدا کے نور کو بجھاویں کہہ خدا اس نور کا آپ حافظ ہے۔ عنایت الٰہیہ تیری نگہبان ہے۔ ہم نے اُتارا ہے اور ہم ہی محافظ ہیں۔ خدا خیر الحافظین ہے اور وہ ارحم الراحمین ہے اور تجھ کو اور اور چیزوں سے ڈرائیں گے۔ یہی پیشوایان کفر ہیں۔ مت خوف کر تجھی کو غلبہ ہے یعنی حجت اور برہان اور قبولیت اور برکت کے رو سے تو ہی غالب ہے۔ خدا کئی میدانوں میں تیری مدد کرے گا یعنی مناظرات و مجادلات بحث میں تجھ کو غلبہ رہے گا۔ پھر فرمایا کہ میرا دن حق اور باطل میں

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 669

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 669

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/669/mode/1up

کیا جاسکتا ہے کیا ایسا خیال کرنے سے وہ کامل رہ سکتا ہے یا اس کی روحانی طاقتوں کا ثبوت میسر آسکتا ہے۔ حقیقی تسلی جس کی بنیاد ایک محکم یقین پر ہونی چاہئے صرف قیاسی خیالات سے ممکن نہیں بلکہ خیالات قیاسی کی بڑی سے بڑی ترقی ظنِّ غالب تک ہے اور وہ بھی اس حالت میں کہ جب قیاس انکار کی طرف جھک نہ جائے غرض عقلی وجوہ بالکل غیر تسلی بخش اور آخری حدِّ عرفان سے پیچھے رہے ہوئے ہیں اور اُن کی اعلیٰ سے اعلیٰ پہنچ صرف ظاہری

وہ بھی ایک ساعت کے لئے صادقانہ نیت کو استعمال میں لاویں۔ جس حالت میں ان کی فراخ دلی اور نیک طینتی ان کی قوم میں مسلّم الثبوت ہے تو ہم کیونکر ناامید ہوسکتے ہیں یا کیونکر گمان کرسکتے ہیں کہ اس نیک منشی کا اس سے زیادہ وسیع ہونا ممکن نہیں اس لئے گو میں نے اب تک کسی صاحب مخالف کو منصفانہ قدم اٹھاتے نہیں پایا لیکن تاہم ابھی

فرق بیّن کرے گا۔ خدا لکھ چکا ہے کہ غلبہ مجھ کو اور میرے رسولوں کو ہے۔ کوئی نہیں کہ ؔ جو خدا کی باتوں کو ٹال دے۔ یہ خدا کے کام دین کی سچائی کے لئے حجت ہیں۔ میں اپنی طرف سے تجھے مدد دوں گا میں خود تیرا غم دور کروں گا۔ اور تیرا خدا قادر ہے۔ تو میرے ساتھ اور میں تیرے ساتھ ہوں تیرے لئے میں نے رات اور دن پیدا کیا جو کچھ تو چاہے کر کہ میں نے تجھے بخشا۔ تو مجھ سے وہ منزلت رکھتا ہے جس کی لوگوں کو خبر نہیں۔ اس آخری فقرہ کا یہ مطلب نہیں کہ منہیات شرعیہ تجھے حلال ہیں بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ تیری نظر میں منہیات مکروہ کئے گئے ہیں اور اعمال صالحہ کی محبت تیری فطرت میں ڈالی گئی ہے۔ گویا جو خدا کی مرضی ہے وہ بندہ کی مرضی بنائی گئی اور سب ایمانیات اس کی نظر میں بطور فطرتی تقاضا کے محبوب کی گئی۔ وذالک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشآء۔ وقالوا ان ھو افک افتری۔ وما سمعنا بھذا فی اٰبائنا الاولین ولقد کرمنا بنی ادم وفضلنا بعضھم علی بعض۔ اجتبیناھم و اصطفیناھم کذالک لیکون اٰیۃ للمؤمنین۔ ام حسبتم ان اصحاب الکھف و الرقیم کانوا من اٰیاتنا عجبا۔ قل ھو اللہ عجیب۔

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 670

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 670

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/670/mode/1up

اٹکلوں تکؔ ہے جن سے روح کو حقیقی انشراح اور عرفان حاصل نہیں ہوتا اور اندرونی آلائشوں سے پاکیزگی میسر نہیں آتی بلکہ ایسا انسان فقط سفلی خیالات کا بندہ بن کر مقاماتِ حریری کے ابوزید کی طرح اپنے علوم و فنون کو مکرو فریب کا آلہ بناتا ہے اور سب لسانی اور خوش بیانی اُس کی دام تزویر ہی ہوتی ہے۔ کیا انسان کی کمزور عقل اپنی تنہائی کی حالت میں اس کو اس محبس سے نکال سکتی ہے کہ جو جذباتِ نفس اور جہل اور غفلت کی وجہ سے اس کے نصیب ہورہا ہے۔ کیا انسانی خیالات میں کوئی ایسی طاقت بھی موجود ہے کہ جو خدائے تعالیٰ کے علم اور قوت سے

تک رائے میری ایک محکم یقین پر قائم ہے اور بہت مضبوط امید سے میں خیال رکھتا ہوں کہ جب ہمارے منصف مزاج مخالفین نہایت غائر اور عمیق نظر سے اس طرف متوجہ ہوں گے تو خود ان کی اپنی نگاہیں ان کے وساوس دور کرنے کے لئے کافی ہوں گی۔ مجھے امید تھی

کل یوم ھو فی شان۔ ففھمنا ھا سلیمان و جحدوا بھا و استیقنتھا انفسھم ظلما وعلوا۔ سنلقی فی قلوبھم الرعب۔ قل جاء کم نور من اللہ فلا تکفروا ان کنتم مؤمنین۔ سلام علی ابراھیم صافیناہ و نجیناہ من الغم تفردنا بذالک۔ فاتخذوا من مقام ابراھیمؔ مصلّٰی۔ اور کہیں گے کہ یہ جھوٹ بنالیا ہے ہم نے اپنے بزرگوں میں یعنی اولیاء سلف میں یہ نہیں سنا حالانکہ بنی آدم یکساں پیدا نہیں کئے گئے بعض کو بعض پر خدا نے بزرگی دی ہے اور ان کو دوسروں میں سے چن لیا ہے یہی سچ ہے تا مومنوں کے لئے نشان ہو کیا تم خیال کرتے ہو کہ ہمارے عجیب کام فقط اصحاب کہف تک ہی ختم ہیں نہیں بلکہ خدا تو ہمیشہ صاحب عجائب ہے اور اس کے عجائبات کبھی منقطع نہیں ہوتے۔ ہر یک دن میں وہ ایک شان میں ہے پس ہم نے وہ نشان سلیمان کو سمجھائے یعنی اس عاجز کو اور لوگوں نے محض ظلم کی راہ سے انکار کیا حالانکہ ان کے دل یقین کرگئے۔ سو عنقریب ہم ان کے دلوں میں رعب ڈال دیں گے کہہ خدا کی طرف سے نور اترا ہے سو تم اگر مومن ہو تو انکار مت کرو۔ ابراہیم پر سلام ہم نے اُس کو خالص کیا اور غم سے نجات دی۔ ہم نے ہی یہ کام کیا۔ سو تم ابراہیم کے نقش قدم پر چلو یعنی رسول کریم ؐ کا طریقۂ حقہ کہ جو حال کے زمانہ میں اکثر لوگوں پر مشتبہ ہوگیا ہے اور بعض یہودیوں کی طرح

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 671

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 671

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/671/mode/1up

برابر ہوسکے کیا خدا کے پاک انوار جو جو روح پر اثر ڈال سکتے ہیں اور عمیق شکوک سے نجات بخش سکتے ہیں یہ بات خدا کے غیر کو بھی حاصل ہے ہرگز نہیں ہرگز نہیں بلکہ ایسے دھوکے ان لوگوں کو لگے ہوئے ہیں جنہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ ہماری حقیقی نجات کس درجہ عرفان پر موقوف ہے اور طاقتِ الٰہی ہمارے روح پر کہاں تک کام کرسکتی ہے اور خدا کے بے غایت فضل سے کسؔ درجہ قربت اور شناخت پر ہم پہنچ سکتے ہیں اور وہ کس درجہ تک ہمارے آگے سے حجاب اٹھا سکتا ہے۔ ان کی معرفت

کہ اس کتاب کے حصۂ سوم کے شائع ہونے سے برہمو سماج ؔ اور آریہ سماج کے دانشمند اپنی غلطی پر متنبہ ہوکر صداقتِ حقہ کی طرف ایک پیاسہ کی طرح دوڑیں گے مگر افسوس کہ اب میں دیکھتا ہوں کہ میری فراست نے خطا کی اور مجھے اس بات کے سننے سے نہایت ہی دل شکنی ہوئی کہ برہمو صاحبوں اور آریوں نے میری کتاب کو غور سے نہیں پڑھا بالخصوص مجھ کو پنڈت شیونرائن صاحب کے ریویو کے دیکھنے سے ایک عالم تعصب کا برہمو صاحبوں کی طبیعت میں نظر آیا( خدا رحم کرے) افسوس کہ پنڈت صاحب نے ان حقانی صداقتوں سے کہ جو آفتاب کی طرح چمک رہی ہیں کچھ بھی فائدہ نہ اٹھایا اور اس قدر قوی اور مضبوط دلائل کی روشنی سے پنڈت صاحب کی تعصب کی تاریکی کچھ بھی رو بکمی نہ ہوئی۔ یہ امر یقیناً سخت حیرت کے لائق ہے کہ ایسے فہیم اور ذی علم لوگ ایسے کامل ثبوت کو دیکھ کر اس کے قبول کرنے میں دیر کریں۔ پنڈت صاحب نے اس انکار سے

صرف ظواہر پرست اور بعض مشرکوں کی طرح مخلوق پرستی تک پہنچ گئے ہیں یہ طریقہ خداوند کریم کے اِس عاجز بندہ سے دریافت کرلیں اور اُس پر چلیں۔

ترسم آں قوم کہ بر دُرد کشاں مے خندند

در سرِ کار خرابات کنند ایماں را

ربّ اغفر و ارحم۔

دوستاں عیب کنندم کہ چرا دل بتودادم

باید اول بتوگفتن کہ چنیں خوب چرائی

والفضل من اللّٰہ ولا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم۔ منہ

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 672

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 672

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/672/mode/1up

صرف ناکارہ وہموں تک ختم ہے اور جو معرفت یقینی اور قطعی اور انسان کی نجات کے لئے ازبس ضروری ہے وہ ان کی عقل عجیب کے نزدیک محال اور ممتنع ہے لیکن جاننا چاہئے کہ یہ ان کی سخت غلطی ہے کہ جو عقلی خیالات پر قناعت کررہے ہیں۔ حقّانی معرفت کی راہ میں بے شمار راز ہیں جن کو انسان کی کمزور اور دود آمیز عقل دریافت نہیں کرسکتی اور قیاسی طاقت بباعث اپنی نہایت ضُعف کی الوہیّت کے بلند اسرار تک ہرگز پہنچ نہیں سکتی۔ سو اُس بلندی تک پہنچنے کے لئے بجز خدا کے عالی کلام کے اور کوئی زینہ نہیں۔ جو شخص دلی سچائی سے خدا کا طالب ہے اُس کو اُسی زینہ کی حاجت پڑتی ہے اور تاوقتیکہ وہ محکم اور بلند زینہ اپنی ترقیات کا ذریعہ نہ ٹھہرایا جاوؔ ے تب تک انسان حقّانی معرفت کے بلند مینار تک ہرگز پہنچ نہیں سکتا بلکہ ایسے تاریک اور پرظلمت خیالات میں گرفتار رہتا ہے کہ جو غیر تسلی بخش اور بعید از حقیقت ہیں اور بباعث فقدان اس حقانی معرفت کے اس کے سب معلومات بھی ناقص اور ادھورے رہتے ہیں اور جیسی سوئی بغیر دھاگہ کے نکمی اور ناکارہ ہے اور کوئیؔ کام سینے کا اُس سے انجام پذیر نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح عقلی فلسفہ بغیر تائید خدا کی کلام کے نہایت متزلزل اور غیر مستحکم اور بے ثبات اور بے بنیاد ہے۔

پائے استدلالیاں چوبین بود

پائے چوبین سخت بے تمکین بود

نہ صرف حدِّ انصاف سے ہی تجاوز کیا ہے بلکہ حق پوشی کرکے اپنی قوم کی ہمدردی سے بلکہ خدا سے بھی فارغ ہو بیٹھے ہیں اور مجھے اس بات کے ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں کہ پنڈت صاحب کا انکار کس قدر ناانصافی سے بھرا ہوا ہے۔ یہ بات خود اُس شخص پر کھل سکتی ہے کہ جو اوّل میری کتاب کو دیکھے کہ میں نے کیونکر ضرورت وحی اللہ اور نیز اس کے وجود کا ثبوت دیا ہے اور پھر پنڈت صاحب کی تحریر پر نظر ڈالے کہ انہوں نے میرے مقابلہ پر کیا لکھا ہے اور میرے دلائل کا کیا جواب دیا ہے۔ جو لوگ پنڈت صاحب کی قوم میں سے اس کتاب کو غور سے پڑھیں گے ان کی روحوں پر ہرگز پنڈت صاحب پردہ ڈال نہیں سکتے بشرطیکہ کوئی فطرتی پردہ نہ ہو۔

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 673

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 673

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/673/mode/1up

ہم اور ہماری کتاب

ابتداء میں جب یہ کتاب تالیف کی گئی تھی اُس وقت اس کی کوئی اور صورت تھی پھر بعد اُس کے قدرت الٰہیہ کی ناگہانی تجلی نے اس احقر عباد کو موسیٰ کی طرح ایک ایسے عالم سے خبر دی جس سے پہلے خبر نہ تھی یعنی یہ عاجز بھی حضرت ابن عمران کی طرح اپنے خیالات کی شب تاریک میں سفر کررہا تھا کہ ایک دفعہ پردہ غیب سے اِنِّیْ اَنَا رَبُّکَ کی آواز آئی اور ایسے اسرار ظاہر ہوئے کہ جن تک عقل اور خیال کی رسائی نہ تھی سو اب اس کتاب کا متولی اور مہتمم ظاہرًا و باطنًا حضرت ربّ العالمین ہے اور کچھ معلوم نہیں کہ کس اندازہ اور مقدار تک اس کو پہنچانے کا ارادہ ہے اور سچ تو یہ ہے کہ جس قدر اس نے جلد چہارم تک انوار حقیت اسلام کے ظاہر کئے ہیں یہ بھی اتمام حجت کے لئے کافی ہیں اور اس کے فضل و کرم سے امید کی جاتی ہے کہ وہ جب تک شکوک اور شبہات کی ظلمت کو بکلّی دور نہ کرے اپنی تائیدات غیبیہ سے مددگار رہے گا اگرچہ اس عاجز کو اپنی زندگی کا کچھ اعتبار نہیں لیکن اس سے نہایت خوشی ہے کہ وہ حیُّ و قیُّوم کہ جو فنا اور موت سے پاک ہے ہمیشہ تا قیامت دین اسلام کی نصرت میں ہے اور جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پر کچھ ایسا اس کا فضل ہے کہ جو اس سے پہلے کسی نبی پر نہیں ہوا۔ اس جگہ ان نیک دل ایمانداروں کا شکر کرنا لازم ہے جنہوں نے اس کتاب کے طبع ہونے کے لئے آج تک مدد دی ہے خدا تعالیٰ ان سب پر رحم کرے اور جیسا انہوں نے اس کے دین کی حمایت میں اپنی دلی محبت سے ہریک دقیقہ کوشش کے بجالانے میں زور لگایا ہے خداوند کریم ایسا ہی ان پر فضل کرے۔ بعض صاحبوں نے اس کتاب کو محض خرید وفروخت کا ایک معاملہ سمجھا ہے اور بعض کے سینوں کو خدا نے کھول دیا اور صدق اور ارادت کو ان کے دلوں میں قائم کردیا ہے لیکن موخر الذکر ہنوز وہی لوگ ہیں کہ جو استطاعت مالی بہت کم رکھتے ہیں اور سنت اللہ اپنے پاک نبیوں سے بھی یہی رہی ہے کہ اوّل اوّل ضعفاء اور مساکین ہی رجوع کرتے رہے ہیں اگر حضرت احدیت کا ارادہ ہے تو کسی ذی مقدرت کے دل کو بھی اس کام کے انجام دینے کے لئے کھول دے گا۔ وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۔

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 674

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 674

http://www.alislam.org/library/browse/volume/Ruhani_Khazain_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/674/mode/1up

Ruhani Khazain Volume 1. Page: 675