بانی بہائیت اور دعویٰ نبوت۔ اہل بہا کا اعلان اور ثناء اللہ کی خجالت

Ahmady.org default featured image

بانی بہائیت اور دعویٰ نبوت۔ اہل بہا کا اعلان اور ثناء اللہ کی خجالت

قرآن مجید نے آیت ولو تقول علینا ۔ الحاقہ۔رکوع 2۔ میں فرمایا ہے کہ افترا علی اللہ کرنے والے کو زیادہ مہلت نہیں ملتی۔ بلکہ وہ جان سے مارا جاتا ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوی نبوت کے بعد کی عمر کے لحاظ سے ۲۳ سالہ مہلت معیار صادقین قرار دی گئی (نبراس۔ ص444) اسی معیار کے مطابق مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری لکھتے ہیں:۔
نظام عالم میں جہاں اور قوانین خداوندی ہیں۔ یہ بھی ہے ۔ کہ کا ذب مدعی نبوت کی ترقی نہیں ہوا کرتی۔ بلکہ وہ جان سے مارا جاتا ہے۔ واقعات گذشتہ سے بھی اس امر کا ثبوت پہنچتا ہے ۔ کہ خدا نے کبھی کسی جھوٹے نبی کو سرسبزی نہیں دکھائی” مقدمہ تفسیر ثنائی ص17)
اس واضح معیار سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت بین طور پر ثا بت ہے ۔ آپ با وجود مخالفانہ منصوبوں کے قتل سے محفوظ رہے ۔ بلکہ آپ کو ۲۳ سال سے زیادہ مہلت ملی۔ اس لاجواب دلیل کے مقابل پر بعض لوگ جناب بہاء اللہ ایرانی کو مدعی نبوت ظاہر کرتے اور انہیں ۳۳ سال مہلت پانے والے قرار دیتے ہیں۔ غیر احمدیان قادیان کے جلسہ سالانہ 1924 کے موقعہ پر مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری نے بھی یہ کہا تھا ۔ کہ
بہاء اللہ ایرانی نبوت کے مدعی ہیں۔
اور پھر آپ نے اپنے اخبار میں بھی لکھا۔ ایران میں ایک شخص شیخ بہاء اللہ پیدا ہوئے تھے۔ جن کا دعوی تھا ۔ کہ
میں نبی ہوں ۔ نبی بھی معمولی نہیں۔ بلکہ نبوت محمدیہ علی صاحبها الصلوة والتحیة کو منسوخ کرنے آیا ہوں (اہلحدیث28 مارچ 1924 )
جس پر مولوی صاحب کو بایں الفاظ چیلنج دیا گیا ۔
” کیا آپ مدعی بہاء اللہ کے اپنے الفاظ میں یہ دعوی دکھا سکتے ہیں۔ کہ میں نبی ہوں اگر نہیں تو کیا آپ اس ڈینگ پر نادم نہ ہوں گے۔ جو آپ نے جلسہ غیر احمدیان قادیان پر ماری تھی ۔ کہ میں بہائی لٹریچر سے بھی خوب واقف ہوں ۔ اور بہائی کتب بھی میری الماری میں دھری ہیں۔ (الفضل 18 را پریل 1928 )
ما اگر چہ مولوی صاحب کوئی ایسا حوالہ نہ پیش کر سکے مگر انہیں اپنی بات پر اصرار تھا۔ اس لئے وہ اکثر جناب بہاء اللہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بالمقابل پیش کرتے رہے ہم نے بارہا سمجھایا ۔ کہ بہائی لٹریچر میں اس بات کا قطعا کوئی ثبوت نہیں ۔ کہ وہ نبوت کے مدعی تھے۔ ان کا دعوئی صراحتا الوہیت کا دعوئی ہے ۔
اور حضرت مسیح موعود کے دعوے سے انہیں کوئی نسبت نہیں : خود جناب بہاء اللہ نے صاف الفاظ میں لکھا ہے :-  لا اله الا انا المسجون الفريد (كتاب مبین ) کہ
سوائے میرے جو تنہا قید خانہ میں پڑا ہے اور کوئی خدا نہیں ” پھر اپنے متعلق لکھتے ہیں ۔

انتي انا الله لا الہ الا انا المعيمن القيوم – کہ میں ہی خدا ہوں جو المھیمن اور القیوم ہوں( طرازات طرازنمبر6 ص 13 مطبوعہ آگره) اس قسم کی تحریریں تو ان کی بیسیوں موجود ہیں۔ مگر ایسی تحریر جس میں انہوں نے نبوت کا ادعا کیا ہو۔ ایک بھی موجود نہیں ۔ اگر کسی کو دعوی ہو۔ تو ہم اسے چیلنج کرتے ہیں کہ وہ ایک تحریر ہی ایسی پیش کرے ۔ بہائیوں کی ایک کتاب الفراید میں ایک شیخ کے جواب میں صاف لکھا ہے :۔

ا دعائے ایشاں ادعائے نبوت باشد محض وہم گمان خود جناب شیخ است منشا کہ جناب بہاء االلہ و غیرہ کو مدعی نبوت قرار دینا محض آپ کا وہم ہے :

” مقام او مقام نیابت و خلافت و امامت نیست بل ظہور کلی الہی است ص 282۔

ان کا مقام خلافت امامت یا نبوت کا مقام نہیں، بلکہ وہ تو اللہ تعالے کے ظہور کلی کے مقام پر ہیں یعنی پورے طور پر خدا ہیں ہے ۔ ان حوالجات سے ظاہر ہے کہ جناب بہااللہ ایرانی ہرگز ہرگز نبوت کے مدعی نہ تھے ۔ اور نہ ہی بہائی لوگ ایسا تسلیم کرتے ہیں۔ پس ان حالات میں بعض کم فہم لوگوں کا ان کو حضرت اقدس کے دعوی کے مقابلہ پر پیش کرنا سراسر غلطی ہے ۔ بہائیوں کے اخبار کو کب ہند دہلی نے واضح الفاظ میں اعلان کر دیا ہے:۔

(1) ” نہ آئیہ مبارکہ میں نبی کا لفظ ہے ۔ نہ فرقان کے موعود کو نبی کہا گیا ہے ۔ نہ اہل بہا ، حضرت بہا اللہ جل ذکرہ الاعظم کو نبی مانتے ہیں۔ اور کو کب ہند میں بارہا اس امر کا اعلان کیا جا چکا ہے ۔ ( کوکب چند24 جون 1928 ص 30)

(2) ہم حضرت بہاء اللہ کو سب دینوں کا موعود اور پرماتمہا کا اوتار جانتے ہیں (کوکب ہند 2 اگست 1928) گویا جناب بہاء اللہ نہ نبی تھے۔ اور نہ انہیں خدا تعالے سے کلام پانے کا دعوے تھا ۔ لہذا کسی کا حق نہیں۔ کہ لو تقول کے واضح معیار کو رد کرنے کے لئے بہاء اللہ ایرانی کو پیش کرے۔ اب مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری کو بھی جو ہمیشہ بہاء اللہ کو مدعی نبوت بیان کیا کرتے تھے ۔ لکھنا پڑا :-

ہم تو ہی سمجھتے تھے۔ کہ کسی انسان کے لئے سب سے بڑا دعوی نبوت اور رسالت ہے ۔ اس لیے ہم آج تک کہتے رہے۔ کہ شیخ بہاء اللہ نبوت کے مدعی تھے ۔ مگر آج ان کی جماعت کے آرگن کو کب ہند نے ہمارے اس خیال

کی بڑی سختی سے تردید کی ۔ پھر کو کب ہند 24 جون 1928 کا مندرجہ بالاحوالہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :-

بہت خوب ! ہمیں کیا ضرورت کہ ہم ان (بہاء اللہ )کی نبوت پر اصرار کریں۔ اور ہمارے فاضل نامہ نگار مولوی محمدحسین صابری بریلوی کو کیا مطلب کہ وہ قادیانیوں کے حملہ سے ان کی مدافعت کریں کہ شیخ بہاء اللہ نے خدائی کا دعوی نہیں کیا تھا۔ ہم کا ہے کو کسی کا مسلمہ عقیدہ تبدیل کریں۔ یا تبدیل کرنے پر زور دیں۔ بلکہ ہم وہی کہیں گے ۔ جو بہائی خود اپنا عقیدہ ظاہر کرینگے ۔

اہلحدیث 6 جولائی 1928 ص 2 مولانا سچ ہے۔

ہر چہ دا ناکندکند ناداں

لیک بعد از ہزار رسوائی

اے کاش کہ آپ پہلے ہی بہاتی عقیدہ معلوم کر کے خامہ فرسائی فرماتے ۔ تو آج اہلحدیث 28 مارچ 1924 اور 6 جولائی 1928 کے مقابلہ سے آپ کو ذلت ورسوائی نصیب نہ ہوتی۔ افسوس کہ آپ نے احمدی محققین کی تحقیق سے بھی فائدہ نہ اٹھایا۔ بہر حال مولوی ثناء اللہ صاحب کا مندرجہ بالا بیان احمدیت کی زبر دست فتح ہے۔ اور کو کب ہند کا اعلان ان لوگوں کے لئے مسکت جواب ہے۔ جو بہاء اللہ کو نبی یا ملہم من اللہ ہونے کا دعویدار پیش کیا کرتے ہیں۔

نیز اس سے احمدی عقائد اور بہائی عقائد میں بھی نمایاں فرق ظاہر ہو جاتا ہے۔ اس جگہ اگر یہ سوال ہوا کہ باوجود دعوی الوہیت کے بہاءاللہ کیوں قتل نہ کیا گیا ۔ اور کیوں اسے لمبی مہلت ملی ۔ تو اس کا جواب قرآن کی آیت و من يقل منهم الخ (الانبیاء رکوع 2) میں موجود ہے۔ کہ خدا تعالے کا قانون ہے ۔ کہ مدعی الوہیت کی سزا جہنم ہے۔ مگر مدعی نبوت کے لئے اسی دنیا میں قتل وغیرہ سزا مقر ر ہے۔ کیونکہ دعوے نبوت میں اشتباہ ممکن ہے۔ مگر الوہیت کے دعوے پر کسی شک کی گنجائش نہیں۔

ہاں یہ ایک عجیب واقعیت ہے۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوے کے ساتھ ہی بہائیت کا چراغ گل ہو گیا۔ اور بہا اللہ ملک عدم کو چل لیا ۔ سچ ہے ۔لذاب كما يذوب الملح في الماء”

خاکسار – اللہ د تا جالندھری (مولوی فاضل) قادیان

 

Discover more from احمدیت حقیقی اسلام

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply