اخبار نوائے وقت لاہور مورخہ 2ستمبر 1945میں ڈاکٹر سر محمد اقبال کے ایک مضمون کا ترجمہ اسلامی تہذیب کی روح کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ اس میں آنحضر ت صلی للہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہونے کی یہ دلیل دی گئی ہے :- اسلام کا معرض وجود میں آنا عقل استقرائی کی تخلیق ہے ۔ اسلام میں نبوت اپنے آپ کوختم کرنے کی ضرورت محسوس کر کے اپنے منتہائے کمال کو پہنچ جاتی ہے۔ اس خیال میں یہ گہری بصیرت مضمر ہے کہ حیات انسانی کو ہمیشہ انگلی پکڑ کر چلانا ممکن نہیں ۔ بالاخر انسان کو اپنے ہی پاؤں پر کھڑا ہونا چاہئے ۔ قرآن میں عقل اور تجربہ سے بار بار خطاب کرنا اور اس بات پر زور دینا کہ فطرت کا مشاہدہ اور تاریخ کا مطالعہ علم انسانی کے سر چشمے ہیں یہ سب اس ایک تصور یعنی ختم نبوت کے مختلف پہلوہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اس تصور کی عقلی اہمیت یہ ہے ۔ کہ اس سے باطنی تجربہ کی نسبت ایک تنقیدی روش پیدا ہو جاتی ہے جو یہ تعلیم دیتی ہے ۔ کہ ہر قسم کا شخصی اقتدار جو مافوق الفطرت بنیاد پر قائم ہونے کا مدعی ہے ۔ تاریخ انسانی میں ختم ہو گیا ۔
اس دلیل کا اصل مفہوم فلسفیانہ الفاظ کی گنجلک میں ایک چھپا ہوا ہے ۔ کہ ایک تمام انسان اسے سمجھنے سے قاصر ہے ۔ سادہ الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے ۔ کہ پہلے زمانوں میں ذہنی اور عقلی لحاظ سے انسان بچپن کی حالت میں تھا۔ اس لئے اسے ایک ایسے وجود (نبی) کی ضرورت تھی جو ا سے انگلی پکڑ کر چلا ہے ۔ مگر اب عقل انسانی جوانی کو پہنچ گئی ہے۔ اس لئے اب اسے کسی سہارے کی ضرورت نہیں ۔ وہ اپنے عقلی تجربہ اور مشاہدہ کی مددسے خود اپنے لئے راہ تجویز کر سکتا ہے
اس سے بھی سادہ زبان استعمال کریں تو اس دلیل کا ماحصل یہ نکلتا ہے ۔ کہ نبوت کی ضرورت نادانوں اور کم عقلوں کے لئے تھی مگر اب اس کی ضرورت نہیں ۔ کیونکہ انسان اب بہت زیادہ عقلمند ہو گیا ہے ۔ اب اس کی خودی کو آزادی سے نشو و نما پانے کے لئے کھلا چھوڑ دینا چاہتے۔ اور مافوق الفطرت انسانی اقتدار یعنی نبیوں کی پیروی کی بیٹریوں سے اسے آزاد کر دینا چاہتے ۔
چنانچہ اس دلیل کی مزید دھنا ڈاکٹر اقبال ہی کے الفاظ میں یہ پیش کی گئی ہے کہ کہ انسانیت کی عمر طفلی میں نفسیاتی قوت اس چیز کو جسے میں نبوی شعور کہتا ہوں پیدا کرتی ہے۔ لیکن عقل اور قوت تنقید کے پیدا ہونے پر زندگی اپنے مفاد کی خاطر غیر عقلی طریق شعور کو پیدا ہونے اور بڑھنے سے روکتی ہے۔
علامہ موصوف کی یہ دلیل خالص یورپی فلسفہ میں ڈھلی ہوتی ہے ۔ قرآن مجید میں اس کا کوئی . نشان نہیں اور یہ وہی دلیل ہے ۔ جو خدا کے منکر یور مین فلاسفروں کی طرف سےہستی باری تعالی کے خلاف پیش کی جاتی ہے ۔ وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ خدا کی ہستی کا تصور ان لوگوں کا پیدا کردہ ہے۔ جو ذ ہنی اور عقلی لحاظ سے بہت کم ترتھے اور یہ تصور انسان کے ذہنی ارتقا اور اس کی خودی کو دبانے والا ہے۔
چنانچہ مشہور المانوی فلاسفر نٹشے کہتا ہے :- مدت ہوئی خدا ختم ہو گئے ۔ خدا مر گئے ۔ کیونکہ وہ انسانی خودی کو دباتے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے ۔ کہ نٹشے کی اسی دلیل کو پیش نظر رکھ کر علامہ اقبال نے تھوڑے سے الفاظ کی ترمیم و تبدیلی کے ساتھ ختم نبوت کی دلیل بنائی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ نشے نے اس کے ساتھ خدا کے وجود کو ختم کیا تھا۔ مگر علامہ اقبال نے اس کے ساتھ نبوت کو ختم کیا۔ باقی اصول کے لحاظ سے دولوں کی بنیاد ایک ہی ہے
علامہ اقبال تو فرماتے ہیں ۔ کہ انسان ہزاروں سال بچین کی حالت میں رکا اور خدا نے اسے آسمانی ہدایت کا مہتاج رکھ کر اس کی عقل و شعور کو مختلف بندھنوں میں جکڑ ے رکھا۔ اور ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں کو بھیج کر مافوق الفطرت اقتدار کی پیروی اس پر تھو پے رکھی۔ اور ہر ہر قدم پر اسے سہارے کا محتاج رکھ کر اس کے احساس خودی کو دبائے رکھا ۔ اب اگر ان تمام بیٹریوں سے خدا نے اسے آزاد کیا ۔
مگر آریہ لوگ اس سے بھی آگے جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں۔ کہ جس طرح خدا نے کائنات کا سارا نظام اور اس کے قوانین آغاز دنیا ہی میں مکمل فرما دیتے تھے ۔ اسی طرح اس نے انسانوں کے لئے روحانی ہدایت کا مکمل مجموعہ بھی ویدوں کی شکل میں شروع ہی میں نازل کر دیا تھا۔ اور پھر نبوت کا سلسلہ بند کر دیا۔ جس طرح انسانی عقل کے ارتقاء اور علم و تجربہ کے ساتھ کائنات اور اس کے نظام و قوانین کے متعلق با شعور انسانوں کو واقفیت ہوتی گئی ۔ اسی طرح الہی ہدایت نامہ سے بھی انسان بقدر ظرف فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔ وغیرہ ۔
اگر علامہ اقبال کا فلسفہ جو انہوں نے ختم نبوت کے متعلق بیان فرمایا ہے وہ صحیح ہے ۔ تو آریوں کا بیان کردہ فلسفہ وحی و نبوت زیادہ مقبول ہے ۔ اول الذکر کی رو سے ہزار ہا سال تک انسانی خودی کو کچلا اور اسے مافوق الفطرت اقتدار کا غلام رہنے پر مجبور کیا جاتا رہا ۔ مگر مؤخر الذکر کی رو سے اسے ابتداء ہی میں آزاد کر دیا گیا اور اس کی خودی کو نشو و نما پانے کے لئے کھلا چھوڑ دیا گیا۔ اگر مسئلہ خودی جس کی ایجاد کا سہرا علامہ اقبال کے سر باندھا جاتا ہے ۔ ( حالانکہ نٹشے جیسے یورپ کے دہریہ فلاسفروں کی ایجاد ہے اور اس کا تصور کلیۃ غیر اسلامی ہے ) ۔ تو آریوں کا نظریہ زیادہ معقول اور صحیح معلوم ہوتا ہے ۔

Share this:
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on Reddit (Opens in new window) Reddit
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on Telegram (Opens in new window) Telegram
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to email a link to a friend (Opens in new window) Email
- Click to print (Opens in new window) Print
Discover more from احمدیت حقیقی اسلام
Subscribe to get the latest posts sent to your email.